آٹھواں سبق:
آٹھواں سبق:
 

آٹھواں سبق:
(جسمانى اذيت)
زبان كا زخم لگانے كے علاوہ كفار و مشركين آنحضرت (ص) اور آپ (ص) كے اصحاب كو بہت سى جسمانى اذيتيں پہنچا آپ (ص) كو راہ حق سے ہٹا دينا چاہتے تھے ، منقول ہے كہ مشركين قريش نے آپ (ص) كو بہت ستايا ان ميں سب سے بڑا ظالم آپكا چچا ابولہب تھا ايك دن جب پيغمبر حجرے ميں تشريف فرماتھے اسوقت مشركين نے ايك گوسفند كے رحم كو ، جس سے بچہ نكالا جاچكا تھا، چند اوباشوں كے ذريعہ آپ (ص) كے سرپر ڈلو ديا_(1)
ابولہب نے پيغمبر خدا (ص) كو اتنى اذيت پہنچا كہ خدا كى لعنت اور نفرين كا مستحق قرار ديا سورہ تبت اسكے اور اسكى بيوى (حمالة الحطب _ ام جميلہ) كے بارے ميں نازل ہوا :
'' تبت يدا ابى لہب و تب ما اغنى عنہ مالہ و ما كسب سيصلى نارا ذات لہب و امراءتہ حمالة الحطب فى جيدہا حبل من

--------------------------------------------------------------------------------
1) (زندگانى چہاردہ معصوم ترجمہ اعلام الورى ص 64)_

مسد '' (1)
ابولہب ( جو ہميشہ پيغمبر (ص) كو اذيت پہونچا تا تھا ) اسكا ستياناس ہوا اس كے دونوں ہاتھ قطع ہوگئے اس نے جو مال و اسباب ( اسلام كو مٹانے كيلئے) جمع كيا تھا اس نے ابولہب كو ہلاكت سے نہيں بچايا، وہ جلد ہى جہنم كے بھڑكتے ہوئے شعلوں ميں پہنچ جائيگا اور اسكى بيوى (ام جميلہ) دوزخ كا ايندھن بنے گى اس حالت ميں كہ (نہايت ذلت كے ساتھ) ليف خرما كى بٹى ہوئے رسياں اس كى گردن ميں ہوں گے _
ابولہب كى بيوى رسول خدا (ص) كو بہت اذيت پہنچا تى تھى قرآن نے اس كو '' حمالة الحطب'' كے نام سے ياد كيا ہے _
ابن عباس نے قرآن مجيد كے بيان كئے ہوئے اس نام كى دليل ميں فرمايا '' وہ لوگوں كے درميان چغلى كيا كرتى تھى اور دشمنى پيدا كرديتى تھى اس طرح آتش جنگ بھڑك اٹھتى تھى جيسے كہ ايندھن كى آگ بھڑكائي اور جلائي جاتى ہے لہذا اس نمامى ( چغلي) كى صفت كو ايندھن كا نام دے ديا گيا(2)_
منقول ہے كہ وہ ملعونہ خس و خاشاك اور خاردار جھاڑياں آپ (ص) كے راستہ ميں ڈال ديتى تھى تا كہ جب آپ (ص) نماز كيلئے نكليں تو آپ (ص) كے پيروں سے وہ الجھ جائيں اور آپ(ص) كے پير زخمى ہوجائيں(3)

--------------------------------------------------------------------------------
1) (سورہ تبت)_
2) ( مجمع البيان ج 27)_
3) (مجمع البيان 27)_

مشركين كے ستانے اور اذيت پہچانے كے واقعات ميں سے ايك واقعہ طاءف ميں قبيلہ '' بنى ثقيف'' كا بھى ہے آنحضرت (ص) ہى سے منقول ہے كہ ميں نے عبديالنيل ، حبيب اور مسعود بن عمران تينوں بھائيوں سے مقالات كى كہ جو قبيلہ بنى ثقيف كے بزرگان ميں سے تھے اور ان كو اسلام كى دعوت دى ان ميں سے ايك نے كہا كہ اگر آپ (ص) پيغمبر ہيں تو ميں نے گويا كعبہ كو چرايا ، دوسرے نے كہا كہ كيا خدا عاجز تھا كہ اس نے آپ(ص) كو بھيج ديا ، اس كو ايسے كو بھيجنا چاہئے تھا جس كے پاس طاقت اور قدرت ہو تيسرے نے كہاخدا كى قسم ميں اس كے بعد اب آپ(ص) سے بات نہيں كروں گا اور پھر اس نے پيغمبر (ص) كا مذاق اڑايا اور آپ(ص) نے جو اسلام كى دعوت دى تھى اسے لوگوں ميں پھيلا ديا_
جب پيغمبر (ص) طاءف سے نكلنے لگے تو وہاں كے ذليل اور اوباش افراد ان تينوں كے بھڑكانے سے پيغمبر (ص) كے راستے كے دونوں طرف كھڑے ہوگئے اور انہوںنے آپ (ص) پر پتھر برسائے جسكى وجہ سے آپ (ص) كے پائے مبارك مجروح ہوگئے آپ (ص) اس حال ميں وہاں سے نكلے كر آپ كے پاؤں سے خون جارى تھا_(1)
مندرجہ ذيل واقعہ بھى رسول (ص) كے كمال صبر كا بہترين نمونہ ہے '' منيب ابن مدرك'' نے اپنے جد سے نقل كيا ہے كہ انہوں نے كہا '' جاہليت كے زمانے ميں '' ميں نے رسول خدا كو ديكھا كہ آپ '' يا ايہا الناس قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا'' (اے لوگو تم
يہ كہو كہ اللہ كے سوا كوئي معبود نہيں ہے تا كہ تم نجات پاجاؤ) كى تبليغ كررہے تھے كہ ايك ملعون كافر نے آپ (ص) كے چہرہ اقدس پر ايك طمانچہ مارا، كسى نے آپ (ص) كے سر اور چہرہ پر خاك ڈالي، كسى نے آپ كو دشنام ديا ميں نے ديكھا كہ ايك چھوٹى بچى ايك پانى كا ظرف ليكر آپ(ص) كى طرف بڑھى آپ نے اپنا ہاتھ اور چہرہ دھويا پھر آپ(ص) نے فرمايا : صبر كرو اور اگر كوئي تمہارے باپ رسول خدا كو رسوا كرے ياستائے تو تم غمگين نہ ہونا _(2)

ميدان جنگ ميں صبر كا مظاہرہ
جن جگہوں پر صبر كا بڑا گہرا اثر پڑتاہے ان ميں سے ايك ميدان جنگ و كارزار بھى ہے _ صدر اسلام كى بہت سى جنگوں ميں رسول خدا (ص) كے پاس لشكر اور اسلحہ كفار سے كم تھا ليكن خدا كى مدد اور رسول خدا كى فكر سليم كى بناپر صبر و شكيبائي كے سايہ ميں اكثر جنگيں فتح و كامرانى كے ساتھ اختتام پذير ہوئيں _ مسلسل پيش آنے والى جنگو ں ميں آنحضرت(ص) نے شركت كى اور آپ (ص) كے حوصلوں ميں كبھى بھى شكست كے آثار نظر نہيں آئے_
جنگ احد ابتدائے اسلام كى صبر آزما اور سخت جنگ تھى جب يہ جنگ اپنے عروج پر تھى اسوقت اصحاب نے فرار كيا كچھ درجہ شہادت پر فاءز ہوگئے_چنانچہ چند افراد كے علاوہ اور

--------------------------------------------------------------------------------
1) ( حلية الابرار ج1 ص 177)_
2) ( ميزان الحكمہ ج9 ص 671)_

كوئي دفاع كرنيوالا نہيں تھا ليكن پيغمبر (ص) كے صبر و استقامت اور على (ع) كى شجاعت نے دشمن كو جنگ سے روك ديا اس جنگ ميں رسول خدا (ص) كے چہرہ اور دہن مبارك سے خون جارى تھا، ابن قميءہ نے آپ (ص) كو ايك تير مارا جو آپكے ہاتھ پر آكر لگا اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئي ، عتبہ ابن ابى وقاص نے ايك ايسى ضربت لگائي جس سے آپ (ص) كے دہن اقدس سے خون بہنے لگا عبداللہ ابن ابى شہاب نے زمين سے ايك پتھراٹھاكر آپ كے فرق اطہر پر مارا(1) حضرت امير المؤمنين (ع) پيغمبر كى شجاعت اور صبر كو بيان كرتے ہوئے فرماتے ہيں :
جب جنگ اپنے شباب پر ہوتى تھى اوردونوں طرف سے گھمسان كارن پڑتا تھا تو ہم رسول خدا (ص) كے پاس پناہ ڈھونڈھتے ہوئے پہنچتے تھے دشمنوں سے رسول خدا (ص) جتنا قريب ہوتے تھے اتنا قريب كوئي بھى نہيں ہوتا تھا _(1)
ميدان جنگ ميں رسول خدا (ص) كے صبر كى بناپر نصرت الہى سايہ فگن رہتى تھي_قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتاہے:
'' ... ان يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا ماتين'' (1)
اگر تم ميں سے بيس افراد ايسے ہوں جو صبر كے زيور سے آراستہ ہوں تو دو سو افراد پر غالب آسكتے ہيں _

--------------------------------------------------------------------------------
1) ( زندگانى چہاردہ معصوم ص 119)_
2) ( ميزان الحكم ج 9 ص 662)_
3) (انفال65) _

رسول خدا (ص) كى استقامت
استقامت اور پائيدارى پسنديدہ صفات ہيں پيغمبر ختمى مرتبت، ميں يہ صفتيں بدرجہ اتم موجود تھيں اپنى سخت ذمہ داريوں كو پورا كرنے (شرك او ر كفر كا خاتمہ) اور معاشرہ ميں آئين توحيد كو راءج كرنے كے سلسلہ ميں آپ (ص) كو خدا كى طرف سے ثابت قدم رہنے كا حكم ديا گيا تھا_
آنحضرت (ص) كا ثابت قدم اور اس حكم كى پابندى كا يہ حال تھا كہ آپ(ص) كے اندر بڑھاپے كے آثار بہت جلد نظر آنے لگے جب كسى نے آپ سے سوال كيا كہ آپ(ص) اتنى جلدى كيسے بوڑھے ہوگئے تو آپ (ص) نے فرمايا:
''شيبتنى ہود والواقعہ ...''
مجھے سورہ ہود اور واقعہ نے بوڑھا كرديا _
ابن عباس بيان فرماتے ہيں '' فاستقم كما امرت'' (1)سے زيادہ سخت پيغمبر (ص) پر كسى آيت كا نزول نہيں تھا _
جو سختياں تبليغ كى راہ ميں انبياء كرام برداشت كرتے رہے ہيں سورہ ہود كے كچھ مضامين ميں ان سختيوں كو بيان كيا گيا ہے اور سورہ واقعہ ميں مرنے كے بعد كى دشواريوں كا ذكر ہے اسى ليے رسول خدا (ص) ان دونوں سوروں كے مضامين پر بہت زيادہ غور فرمايا كرتے تھے_

--------------------------------------------------------------------------------
1) (الميزان ج 11 ص 66)_

كفار و مشركين كى سازش، دھمكى اور لالچ كے سامنے جس ثبات قدم كا آپ نے مظاہرہ فرمايا، مندرہ ذيل سطروں ميں اس كو بيان كيا جارہاہے_

كفار و مشركين سے عدم موافقت
مكہ كے كفار و مشركين نے رسول خدا (ص) سے موافقت كى بہت كوشش كى ليكن ان كى انتھك كوشش كے باوجود رسول خدا (ص) نے كوئي ايسا عمل نہيں انجام ديا جس سے آپ كى كمزورى ثابت ہو، آپ (ص) نے اپنے عقاءد كا برملا اظہار كيا اور بتوں يا بت پرستوں كے خلاف جنگ سے كبھى بھى منہ نہيں موڑا_قرآن كريم نے كفار و مشركين كے نظريہ كو پيش كرتے ہوئے اپنے نبى (ص) سے كہا :
'' فلا تطع المكذبين و ذوالوتدھن فيدہنون''(1)
آپ جھٹلانے والوں كا كہنا نہ مانيں وہ لوگ چاہتے ہيں كہ اگر آپ نرم پڑجائيں تو يہ بھى نرم ہوجائيں_
مشركين كى ساز باز اور موافقت كى كوشش كا اندازہ مندرجہ ذيل واقعہ سے لگايا جاسكتاہے_

--------------------------------------------------------------------------------
1) (القلم 8 _ 9)_

قبيلہ '' ثقيف'' كا ايك گروہ معاہدہ كرنے كيلئے مدينہ سے مكہ آيا ان لوگوں نے اسلام قبول كرنے كى جو شراءط ركھيں تو اس ميں ايك بات يہ بھى تھى كہ ان سے نماز معاف كردى جائے آنحضرت(ص) نے ان كى اس خواہش كو رد كرديا اور فرمايا'' جس دين ميں نماز نہ ہو وہ بيكار ہے'' نيز انہوں نے يہ كہا كہ ان كا بتخانہ تين سال تك برقرار ركھا جائے اور انكے اس بڑے بت كى پرستش كى چھوٹ دى جائے جسكا نام (لات) ہے _ رسول خدا (ص) نے يہ درخواست رد كردى ،آخر ميںانہوں نے يہ خواہش ظاہر كى كہ ہم كو خود ہمارے ہى ہاتھوں سے بتوں كے توڑنے كا حكم نہ ديا جائےپيغمبر(ص) نے يہ شرط منظور كرلى اور كچھ لوگوں كو حكم ديا كہ تم ان بتوں كو توڑ دو _(1)

دھمكى اور لالچ
دھمكى اور لالچ يہ ايسے خوفناك اور ہوس انگيزہتھيار تھے جسے كفار نے انبياء كرام خصوصاً پيغمبر اسلام (ص) كو روكنے كيلئے استعمال كئے_مشركين مكہ نے جب يہ ديكھ ليا كہ رسول اكرم(ص) اپنے عقاءد پر ثابت قدم رہيں گے اور اس كے برملا اظہار سے باز نہيں آئيں گے تو ان لوگوں نے آپ كو ڈرانے اور لالچ دينے كى پلاننگ تيار كى اس غرض سے وہ ايك وفد كى صورت ميں جناب ابوطالب (ع) كى خدمت ميں پہنچے اور كہا '' آپ كا بھتيجا،ہمارے

--------------------------------------------------------------------------------
1) ( فروغ ابديت ج2 ص 797 ،799)_

خداؤں كو برا كہتاہے ہمارے قانون كى برائي كرتاہے ہمارے افكار و عقاءد كا مذاق اڑاتا اور ہمارے آباء اور اجداد كو گمراہ سمجھتاہے لہذا تو آپ ان كو اس كام سے روك ديجئے يا انھيں ہمارے سپرد كرديجئے اور ان كى حمايت سے ہاتھ اٹھا ليجئے_(1)
بعض تاريخوں ميں يہ بھى لكھاہے كہ اگر ان كو مال چاہيئے تو ہم مال دينگے اگر كوئي خوبصورت عورت چاہئے تو ہم اس كے لئے حاضر ہيں_ جب ابوطالب نے يہ پيغام رسول اكرم (ص) تك پہنچا تو آپ (ص) نے فرمايا:
'' واللہ لو وضعوا الشمس فى يمينى والقمر فى يسارى على ان اترك ہذاالامر حتى يظہرہ اللہ او اہلك فيہ ، ما تركتہ'' (2)
اگر وہ ميرے داہنے ہاتھ ميں سورج اور بائيں ہاتھ ميں چاند لاكر ركھديں اور كہيں كہ اس كام سے باز آجاوں تو خدا كى قسم ميں اس سے باز نہيں آؤنگا، يہاں تك كہ خدا اس دين كو غالب كردے يا ميں اس راہ ميں قتل كرديا جاؤں_

ابوجہل كى دھمكي
رسول خدا (ص) كے شديدترين دشمنوں ميں سے ايك ابوجہل بھى تھا اس نے ايك خط كے ذريعہ دھمكى ديتے ہوئے كہا '' تمہارے خيالات نے تمہارے ليے سرزمين مكہ كو تنگ

--------------------------------------------------------------------------------
1) (فروغ ابديت ص 797، 799)_
2) (سيرہ ابن ہشام ج1 از ص 283 تا 285)_

كرديا اور تم دربدر ہو كر مدينہ پہنچے جب تك تمہارے ذہن و دماغ ميں ايسے خيالات پرورش پاتے رہيں گے اس وقت تك تم اسى طرح دربدر رہوگے اور يہ خيالات تمہيں غلط كاموں پر آمادہ كرتے رہيں گے يہاں تك كہ تم مدينہ والوں كو بھى فاسد كرڈالوگے اور اس آگ ميں مدينہ والے بھى جل جائيں گے جس كے شعلے تم نے بھڑكاركھے ہيں ، ميرى آنكھوں كے سامنے تمہارا بس يہ نتيجہ ہے كہ قريش تمہارے برپا كئے ہوئے فتنوں كو دبانے كے لئے اٹھ كھڑے ہوں گے اس كے علاوہ يہ بھى ہوگا كہ كفار مدينہ اور وہ لوگ ان كى مدد كريں گے جن كے دل تمہارى دشمنى سے لبريز ہونگے اگر چہ آج وہ تم سے ڈركر تمہارى مدد اور پشت پناہى كررہے ہيں ليكن جب وہ اس بات كو اچھى طرح سمجھ ليںگے كہ تمہارے ہلاك ہونے سے وہ بھى ہلا ك ہوجائيں گے اورا نكے بال بچے تمہارے فقر اور مجبورى سے لاچار اور فقير ہوجائيں گے تو وہ تمہارى مدد سے ہاتھ اٹھاليں گے_ وہ لوگ يہ جانتے ہيں كہ دشمن تم پر فتحياب ہونے كے بعد زبردستى ان كى سرزمين ميں گھس آئيں گے اور پھر وہ دشمن ، تمہارے دوست اور دشمن ميں كوئي امتياز نہيں كريں گے اور ان سب كو تباہ و برباد كرڈاليں گے ان كى عورتوں اور بچوں كو اسير بناليںگے _ اس ميں كوئي شك نہيں ہے كہ جس نے تم كو يہ دھمكى دى ہے وہ حملہ بھى كرسكتاہے اور جس نے بات بڑے واضح انداز ميں كہى ہے اس نے پيغام پہچا نے ميں كوتاہى نہيں كى (معاذاللہ)
يہ خط آنحضرت(ص) اور آپ (ص) كے اصحاب پاس اس وقت پہونچا جب بنى اسرائيل كے يہودى مدينہ كے باہر جمع تھے، اس لئے كہ ابوجہل نے اپنے قاصد كو يہ حكم ديا تھا كہ يہ خط
ايسے ہى موقع پر پڑھ كر سنايا جائے كہ رسول خدا (ص) كے ماننے والوں پر خوف طاہرى ہوجائے اور كافروں كى جراءت ميں اضافہ ہو_
ابوجہل كے قاصد سے آنحضرت(ص) نے فرمايا: '' كيا تيرى بات ختم ہوگئي ؟ كيا تو نے پيغام پہنچا ديا اس نے كہا ہاں ، آنحضرت(ص) نے فرمايا: '' تو جواب بھى سنتا جا جس طرح ابوجہل مجھے دھمكياں ديتاہے اسى طرح خدا ميرى مدد اور كاميابى كاوعدہ كرتاہے، خدا كى دى ہوئي خبر ميرے لئے زيادہ مناسب اور اچھى ہے جب خدا، محمد(ص) كى نصرت كيلئے تيار ہے تو پھر كسى كے غصہ اور بے وفائي سے مجھے كوئي نقصان نہيں پہنچ سكتا_
تم ابوجہل سے جاكر كہہ دينا كہ شيطان نے جو تعليم تمہيں دى تھى ، وہى باتيں تم نے مجھے كہى اور ميں جواب ميں وہ كہہ رہاہوں جو خدا نے مجھ سے كہاہے انيس دن بعد ہمارے اور تمہارے درميان جنگ ہوگى اور تم ميرے ايك كمزور مددگار كے ہاتھوں ہلاك ہوگئے ، تم كو عتبہ و شيبہ اور وليد كو قتل كيا جائيگا، نيز قريش كے فلاں فلاں افراد بھى بہت برى طرح قتل كركے بدر كے كنويں ميں پھينك دئے جائيں گے تمہارے لشكر كے ستر (70) آدميوں كو ہم قتل كريں گے اور 170 افراد كو اسير بنائيں گے_(1)
رسول خدا (ص) نے استقامت اور پائيدارى كے ساتھ اس طرح زندگى گذارى جس طرح خدا چاہتا تھا اور كسى بھى طاقتور سے دين كے معاملہ ميں سازش نہيں كى _

--------------------------------------------------------------------------------
1)بحارالانوار ج 17 ص 343_

خلاصہ درس
1)زبان سے زخم لگانے كے علاوہ كفار و مشركين ، رسولخدا (ص) اور آپ (ص) كے ساتھيوں كو بہت زيادہ جسمانى اذيتيں بھى پہنچا تے تھے ليكن آنحضرت(ص) ان تمام مصيبتوں اور تكليفوں پرصبر فرماتے تھے_
2) جن مقامات پر صبر كى بڑى اہميت ہے ان ميں سے ايك ميدان جنگ بھى ہے صدر اسلام كى بہت سى جنگوں ميں مسلمانوں كا لشكر اور جنگى ساز و سامان كفار قريش كے لشكر اور اسلحوں سے بہت ہى كم تھا ليكن پھر بھى خدا كى تائيد اور رسول اكرم (ص) كى بہترين فكر كے ساتھ صبر و شكيبائي كے سايہ ميں اكثر جنگيں مسلمانوں كى كاميابى پر اختتام پذير ہوئي_
3 ) استقامت اور پاييدارى اچھى صفتيں ہيں اور رسول خدا (ص) ميں يہ صفتيں بدرجہ اتم موجود تھيں_
4 ) كفار و مشركين نے رسول خدا (ص) سے دين كے معاملہ ميں موافقت كرنے كى بڑى كوششيں كى ليكن آنحضرت(ص) نے كسى طرح كى نرمى يا اپنے موقف ميں لچك كا اظہار نہيں فرمايا _ نيز بتوں اور بت پرستوں سے ہميشہ جنگ كرتے رہے_
5) دھمكى اور لالچ دو ايسے حربہ تھے جو كفار نے رسول خدا (ص) كے حوصلہ كو پست كرنے كيلئے استعمال كئے ليكن رسول اكرم (ص) كى ثابت قدمى ميں كوئي چيز جنبش نہ لاسكي_

سوالات :
1_ رسول خدا (ص) كو پہنچائي جانے والى جسمانى اذيت كا ايك نمونہ آنحضرت (ص) كے رد عمل كے ساتھ بيان فرمايئے
2_ ميدان جنگ ميں صبر كا كيا اثر ہوتاہے؟
3_ رسول خدا (ص) نے يہ كيوں فرمايا كہ سورہ ہود اور سورہ واقعہ نے مجھے بوڑھا كرديا؟
4_ دھمكى اور لالچ كے مقابل حضور (ص) نے كس رد عمل كا اظہار فرمايا؟
5_ رسول خدا (ص) نے اپنى طرف سے كسى نرمى يا دين كے معاملہ ميں كسى موافقت كو كيوں قبول نہيں كيا ؟ اس سلسلہ كى آيت بيان كركے توضيح فرمائيں؟