پانچواں سبق:
(عہد كا پورا كرنا)
انسان كى زندگى سماجى زندگى ہے اور سماجى زندگى اپنى نوع كے افراد سے روابطہ ركھنے پر مجبور كرتى ہے _ سماجى زندگى عہد و پيمان كا سرچشمہ ہے اور عہد وپيمان كى رعايت بہت زيادہ اہميت كى حامل ہے اس كى اتنى زيادہ اہميت ہے كہ بغير اس كے سماجى امن و امان ختم ہوجاتاہے اور صلح وصفائي كى جگہ جنگ و جدال لے ليتے ہيں _
اسلام، جس ميں بہت بنيادى اور مضبوط سماجى قوانين موجود ہيں اس نے اس اہم اور زندگى ساز اصول كو فراموش نہيں كيا ہے بلكہ اس نے مختلف اوقات ميں الگ الگ عنوانات كے ساتھ مسلمانوں كو اس كى رعايت اور تحفظ كى تلقين كى ہے _
قرآن كريم جو كہ اسلام كى زندہ سند ہے وہ عہد و پيمان كے ساتھ وفادارى كو لازم سمجھتاہے اور مؤمنين كو اس رعايت كرنے كى تلقين كرتاہے_
ارشاد ہوتاہے:
''يا ايہا الذين آمنوا اوفوا بالعقود''
(اے مؤمنين تم نے جو پيمان باندھا ہو اس كے وفادار رہو ) (1)
دوسرى جگہ انسانوں كو قرار داد كا ذمہ دار قرار ديتے ہوئے ارشاد ہوتاہے:
''واوفوا بالعہد ان العہد كان مسؤلا''(2)
اپنے عہد و پيمان كو پورا كرو بيشك عہد و پيمان كے بارے ميں سوال كيا جائيگا_
خداكى طرف سے پيغمبر اكرم (ص) كا تعارف بہترين نمونہ كے طور پر كرايا گياہے انہوں نے زندگى كى اس حقيقت كو نظر انداز نہيں كيا ہے عہد كو پورا كرنا آپ (ص) ايمان كا جزء سمجھتے تھے آپ (ص) نے اپنے اصحاب اور پيروكاروں سے عہد و پيمان كى رعايت كرنے كے سلسلہ ميں فرمايا:
اقربكم منى غدا فى الموقف ... اوفاكم بالعہد(3)
كل قيامت ميں تم ميں سے وہ مجھ سے زيادہ قريب ہوگا جو اپنى عہد كو پورا كرنے ميں سب سے زيادہ باوفا ہو_
عہد و پيمان كو پورا كرنے كى اہميت پيغمبر اكرم (ص) اور ان كے اہل بيت عليہم السلام كے نزديك اتنى تھى كہ حضور(ص) نے فرمايا:
''لا دين لمن لا عہد لہ''(4)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (سورہ ماءدہ آيت 1)_
2) ( سورہ الاسراء آيت 34)_
3) (بحارالانوار ج77 ص 152)_
4) (بحارالانوارج75 ص 92 حديث 20)_
جو عہد و پيمان كى وفادارى نہ كرے وہ ديندار نہيں ہے_
دوسرى جگہ فرمايا:
''من كان يوم باللہ واليوم الاخرفليف اذا وعد''(2)
جو خدا اور روز آخرت پر ايمان ركھتاہے اسے وعدہ وفا كرنا چاہيئے_
حضرت امير المؤمنين على (ع) نے بھى مالك اشتر كو وصيت كرتے ہوئے فرمايا: '' ايسا نہ ہو كہ كبھى كسى سے وعدہ كرو اور اس كے خلاف عمل كرو بيشك وعدہ كى خلاف ورزى انسان كو خدا اور بندوں كے نزديك رسوا كرتى ہے _(3)
پيغمبر اكرم (ص) كے عہد و پيمان
وعدہ پورا كرنے ميں پيغمبر اكرم (ص) كا بڑا بلند مقام و مرتبہ تھا چاہے وہ بعثت سے پہلے كا زمانہ ہو يا بعثت كے بعد كا ، چاہے وہ زمانہ ہو جس ميں آپ (ص) نے اپنے اصحاب اور اپنے پيروكاروں كے ساتھ عہد كيا ہو يا وہ وقت جب آپ نے كفار اور دشمنان اسلام كے ساتھ كسى قرار داد كو قبول فرمايا ہو ، تمام جگہوں پر آپ اس وقت تك اس عہد و پيمان پر ڈٹے رہتے تھے جب تك مد مقابل نے پيمان شكنى نہ كى ہاں اگر در مقابل عہد شكنى كرتا تو اس صورت عہد پھر دونوں طرف سے ٹوٹ جاتا_ مجموعى طور پر ديكھا جائے تو پيغمبر اكرم (ص) كے عہد و پيمان دو قسم كے تھے:
--------------------------------------------------------------------------------
1) (اصول كافى ج4 ص 69)_
2) (بحارالانوار ج75 ص 96)_
1) آپكے ذاتى اور شخصى عہد و پيمان كہ جنكا صرف آپكى ذات سے تعلق تھا مسلمانوں كے معاشرہ سے اسكا كوئي تعلق نہ تھا _
2) آپكے اجتماعى معاہدے اور سياسى قرار داديں كہ ايك طرف آپ اسلام كے رہبر كے عنوان سے تھے اور دوسرى طرف مسلمان يا مكہ كے مشركين يا مدينہ كفار اور يہودى تھے_
پيغمبر(ص) كے ذاتى عہد ويمان
آپكى (ص) زندگى ميں معمولى اسى دقت بھى آپكے پسنديدہ اخلاق اور شاءستہ رفتار سے آشنا كروانے كيلئے كافى ہے_
عبداللہ ابن ابى الحمساء كہتے تھے كہ رسالت پر مبعوث ہونے سے پہلے ميں نے آپ (ص) سے معاملہ كيا تھا، ميں ذرا قرضدار ہوگيا تھا_ ميں نے آپ سے وعدہ كيا كہ آپ اسى جگہ ٹھہريں ميں آجاؤںگا ليكن اس دن اور اسكے دوسرے دن ميں بھول گيا تيسرے دن جب ميں وہاں پہنچا تو محمد (ص) كو اسى جگہ منتظر پايا ميں نے كہا آپ (ص) ابھى تك اسى جگہ ہيں آپ نے فرمايا جس وقت سے ميں نے تم سے وعدہ كيا ہے ميں اسى جگہ تمہارا انتظار كررہاہوں_(1)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (بحارالانوار ج17 ص 251)_
معاہدہ كى پابندى كا دوسرا نمونہ '' حلف الفضول'' كا معاہدہ ہے ، يہ وہ معاہدہ ہے جو جاہليت كے زمانے ميں قريش كے كچھ جوانوں نے مظلومين كے حقوق سے دفاع كے لئے كيا تھا پيغمبر اكرم (ص) بھى اس ميں شامل تھے آپ نے صرف بعثت سے پہلے اس معاہدہ پر قاءم رہے بلكہ بعثت كے بعد بھى جب كبھى اسكو ياد كرليتے تو فرماتے كہ ميں اس عہد كو توڑنے پر تيار نہيں ہوں چاہے اس كے بدلے ميرے سامنے بہت قيمتى چيز ہى كيوں نہ پيش كى جائے_(1)
عمار ياسر فرماتے ہيں كہ ميں اپنے گوسفند چرا رہا تھا محمد(ص) بھى گوسفند چرا رہے تھے ايك دن ميں نے آپ سے كہا كہ ميں نے مقام ''فج'' ميں ايك عمدہ چراگاہ ديكھى ہے كيا آپ كل وہاں چليں گے ؟ آپ نے فرمايا ہاں ، جب ميں صبح وہاں پہنچا تو ديكھا كہ آپ پہلے سے موجود ہيں ليكن گوسفند كو چرنے كے لئے چراگاہ ميں داخل نہيں ہونے ديا ہے ميں نے پوچھا آپ ايسے ہى كيوں كھڑے ہيں ؟ آپ(ص) نے فرمايا ميں نے تم سے عہد كيا تھا كہ ہم دونوں ملكر گوسفند چرائيں گے _ مجھے يہ پسند نہيں ہے كہ خلاف وعدہ عمل كروں اور اپنے گوسفند كو تم سے پہلے ہى چرالوں _(2)
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں كہ پيغمبر اكرم (ص) نے ايك شخص سے وعدہ كيا كہ جب تك تم آؤگے اسى پتھر كے كنارے تمہارا منتظر رہوں گا_ گرمى بہت زيادہ تھى اصحاب نے
--------------------------------------------------------------------------------
1) (سيرہ حلبى ج2ص 131)_
2) (بحارالانوار ج16 ص224)_
فرمايا: اے اللہ كے رسول آپ سايہ ميں چلے جائيں اور وہاں اسكا انتظار كريں پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا: ميں نے اس سے وعدہ كيا ہے ميں يہيں رہو نگا اگر وہ نہيں آئيگا تو وعدہ كے خلاف عمل كرے گا _(1)
پيغمبر (ص) كے اس قسم كے سلوك سے اسلام ميں وعدہ كى اہميت كا اندازہ بخوبى لگايا جاسكتاہے_
اجتماعى معاہدوں كى پابندي
پيغمبر اكرم(ص) كے مدينہ پہونچنے كے بعد اسلامى تعليمات كى بنياد پر ايك نئے معاشرہ كى تشكيل كى وجہ سے سماجى معاہدوں كى ضرورت محسوس ہوئي اس لئے كہ قريش جو آپ كے بڑے دشمن تھے آپ (ص) كو چين سے رہنے نہيں ديتے تھے دوسرى طرف مدينہ كے يہودى كہ جو صاحب كتاب تھے ليكن حق كو ماننے كے لئے تيار نہ تھے وہ اپنى مخصوص ہٹ دھرمى كى وجہ سے كسى ايسے دين كو ماننے پر تيار نہ تھے جس كو غير بنى اسرائيل كا كوئي شخص لايا ہو سب سے اہم بات يہ ہے كہحضور (ص) اپنے لائے ہوئے دين كو عالمى دين سمجھتے تھے اسى لئے صرف مدينہ ميں رہنے والے محدود افراد پر اكتفاء نہيں كرسكتے تھے اور يہ بھى نہيں ہوسكتا تھا كہ دوسروں سے كوئي سروكار نہ ركھيں ان پہلوؤں كے پيش نظر پيغمبر اكرم (ص) نے عرب كے بعض
--------------------------------------------------------------------------------
1) (بحارالانوار ج95/75)_
قباءل سے دفاعى معاہدہ كيا اس معاہدہ كى بنياد پر اگر كوئي كسى پر زيادتى كرتا تو دوسرے كو يہ حق حاصل تھا كہ وہ اس سے اپنا دفاع كرے اور بعض لوگوں كے ساتھ يہ معاہدہ ہوا تھا كہ تم سے كوئي تعرض نہ كيا جائے گا يعنى طرفين ميں كوئي بھى كسى پر نہ زيادتى كرے اور نہ اس كے خلاف كوئي اقدام كرے ان ميں سے سب سے اہم معاہدے وہ تھے جو پيغمبر اكرم (ص) نے كفار قريش اور مدينہ كے يہوديوں سے كئے تھے_
مشركين سے معاہدوں كى پابندي
سنہ 6 ھ ميں پيغمبر خدا (ص) نے خواب ميں ديكھا كہ مسلمانوں كے ساتھ آپ (ص) مسجد الحرام ميں مناسك حج ادا كررہے ہيں پيغمبر اكرم (ص) نے اپنے اس خواب كو اپنے اصحاب كے سامنے بيان كيا اصحاب نے اسكو نيك فال سمجھا ليكن بعض افراد كو اسكى صحت پر ابھى مكمل اطمينان حاصل نہيں ہوا تھا كہ خدا نے اپنے پيغمبر اكرم (ص) كے خواب كى تعبير ميں آيت نازل كي:
''لقد صدق اللہ رسولہ الروايا بالحق لتدخلن مسجد الحرام ان شاء اللہ آمنين محلقين رؤسكم مقصرين لا تخافون فعلم مالم تعلموا فجعل من دون ذلك فتحاً قريباً'' (1)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (فتح آيت 27)_
(بيشك خدا نے اپنے پيغمبر (ص) كے خواب كو آشكار كرديا تم لوگ انشاء اللہ بلاخوف و خطر اپنے سروں كے بال منڈواكر اور تقصير كيے ہوئے مسجد الحرام ميں داخل ہوگئے خداوہ جانتاہے جو تم نہيں جانتے اور خدا نے اس ( مكہ ميں داخل ہونے ) سے پہلے بہت نزديك كاميابى (صلح حديبيہ) قرار دي)
اس آيت كے نازل ہونے كے بعد مسلمان مطمءن ہوگئے كہ وہ بہت جلد نہايت محافظ طريقہ سے خانہ خدا كى زيارت كے لئے جائيں گے _
ماہ ذيقعدہ ميں پيغمبر (ص) نے عمرہ كے قصد سے مكہ جانے كا ارادہ كيا آپ (ص) نے تمام مسلمانوں كو بھى اپنے ہمراہ مكہ چلنے كى دعوت دى چنانچہ ايك جماعت كے ساتھ رسول خدا (ص) مكہ كى جانب روانہ ہوئے راستہ ميں حضرت (ص) كو خبردى گئے كہ قريش آپ كى آمد سے واقف ہوگئے ہيں اورانہوں نے اپنے آپ كوجنگ كے لئے تيار كرلياہے وہ لوگ مقام '' ذى طوي'' ميں پڑاؤ ڈالے ہوئے ہيں اور انہوں نے قسميں كھائي ہيں كہ آپ (ص) لوگوں كو مكہ نہيںجانے ديں گے _
چونكہ پيغمبر (ص) جنگ كے لئے نہيں نكلے تھے بلكہ آپ عمرہ كے ارادہ سے تشريف لائے تھے اسلئے آپ نے ان سے مذاكرہ كيا آپ كے اور ان كے درميان معاہدہ ہوا جو صلح حديبيہ كے نام سے مشہور ہے اس معاہدہ ميں پيغمبر (ص) نے چند امور كو انجام دينے كى پابندى اپنے اوپر عاءد كى ان ميں سے مجھ درج ذيل ہے_
1_ قريش ميں سے اگر كوئي بھى شخص اپنے بزرگ كى اجازت كے بغير مكہ سے فرار كركے اسلام قبول كرلے اور مسلمانوں سے آكر مل جائے تو محمد(ص) اسے قريش كو واپس كرديں گے ليكن اگر مسلمانوں ميں سے كوئي بھاگ كر قريش سے جاملے تو قريش اس بات كے پابند نہيں ہيں كہ اسكو واپس كرديں '' جب پيغمبر (ص) قريش كے نماءندہ كے ساتھ يہ معاہدہ كررہے تھے اسى وقت سہيل كا بيٹا '' ابوجندل'' جو مسلمان ہوگيا تھا ليكن اپنے مشرك باپ كى زنجير ميں جكڑا ہوا تھا مكہ سے فرار كركے آيا اور مسلمانوں كے ساتھ مل گيا سہيل نے جب اسكو ديكھا تو كہا اے محمد(ص) يہ معاہدہ كى پابندى كا پہلا موقع ہے اگر آپ چاہتے ہيں كہ صلح قاءم رہے تو اسكو واپس كرديں پيغمبر اكرم (ص) نے قبول كيا سہيل نے اپنے بيٹے كا گريبان پكڑا اور كھينچتے ہوئے مكہ لے گيا_
ابوجندل نے (نہايت ہى دردناك لہجہ ميں ) فرياد كى كہ اے مسلمانو كيا تم اس بات كى اجازت ديتے ہو كہ مجھ كو مشركين كے حوالہ كيا كرديا جائے اور ميں دوبارہ ان كے چنگل ميں پھنس جاؤں؟ حضرت (ص) نے فرمايا: اے ابوجندل صبر كرو خدا تمہارے اور تم جيسوں كے لئے كشادگى پيدا كريگا ہم نے ان كے ساتھ معاہدہ كيا ہے اور اب ہم اپنا عہد و پيمان نہيں توڑسكتے(1)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (سيرہ ابن ہشام ج3ص332 _ 333)_
يہ ايك ہى موقع نہيں تھا كہ جب پيغمبر اكرم (ص) نے صلح نامہ كى اس شرط كى مطابق عمل كيا تھا كہ جو مسلمانوں كے لئے ناقابل برداشت تھى ، بلكہ جب كوئي مسلمان مشركين كے چنگل سے چھوٹ كر مسلمانوں سے آملتا تھا اسى وقت پيغمبر (ص) اسے ان كے حوالہ كرديتے تھے جيسا كہ ابوبصير كا واقعہ گواہ ہے_
ابوابصير ان مسلمانوں ميں شامل ہے جو مكہ ميں گھرے ہوئے تھے اور صلح حديبيہ كے بعد وہاں سے فرار كركے مدينہ آگئے تھے قريش كے نمايان افراد نے ايك خط پيغمبر (ص) كے نام لكھا اور اس كو ايك شخص كے حوالہ كيا كہ وہ اپنے غلام كے ساتھ مدينہ جاكر رسول خدا (ص) كو وہ خط پہنچا دے تا كہ قرار داد كے مطابق ابوبصير كے پيغمبر (ص) سے واپس ليكر مكہ لوٹ آئے جب پيغمبر (ص) كے پاس وہ خط پہونچا تو آپ نے ابوبصير كو بلايا اور كہا اے ابوبصير تم كو معلوم ہے كہ ہم نے قريش سے عہد و پيمان كيا ہے اور اس معاہدہ كى مخالفت ہمارے لئے صحيح نہيں ہے خدا تمہارے لئے اور تم جيسوں كيلئے كشادگى پيدا كريگا ابوبصير نے كہا : اے اللہ كے رسول كيا آپ ہم كو دشمن كے سپرد كردينگے تا كہ وہ ہم كو دين سے برگشتہ كرديں ؟آنحضرت (ص) نے فرمايا: اے ابوبصير پلٹ جاؤ خدا تمہارے لئے وسعت پيدا كريگا_
ابوبصير ان دونوں كے ساتھ مكہ كى طرف چل ديئے جب مقام ''ذوالحليفہ'' پر پہونچے تو ايك ديوار كے سايہ ميں آرام كرنے لگے ابوبصير نے اس آدمى كى طرف رخ كركے كہا يہ
تمہارى تلوار بہت تيز ہے ؟ اس شخص نے كہا ہاں ابوبصير نے كہا كيا ميں اسكو ديكھ
سكتاہوں اس آدمى نے جواب ديا اگر ديكھنا چاہتے ہو تو ديكھو ابوبصير نے تلوار اپنے ہاتھ ميں ليكر اچانك اس آدمى پر حملہ كركے اسكو مار ڈالا مقتول كے غلام نے جب يہ ماجرا ديكھا تو ڈر كے مارے مدينہ كى طرف بھاگا_
رسول خدا (ص) مسجد كے دروازہ پر بيٹھے ہوئے تھے كہ غلام داخل ہوا جب آپ كى نظر اس غلام پر پڑى تو آپ (ص) نے فرمايا كہ اس نے بڑا ہولناك منظر ديكھا ہے اس كے بعد اس سے پوچھا كہ كيا خبر ہے غلام نے كہا كہ ابوبصير نے اس آدمى كو قتل كرديا
ذرا دير بعد ابوبصير بھى خدمت پيغمبر (ص) ميں پہونچے اور كہنے لگے يا رسول اللہ آپ(ص) نے اپنا عہد و پيمان پورا كيا اور مجھ كو ان كے حوالہ كرديا ليكن ميں اپنے دين كے بارے ميں ڈرگيا آنحضرت(ص) نے فرمايا : اگر اس شخص كے ساتھى موجود ہوتے تو آپ جنگ برپا كرديتے_
ابوبصير نے ديكھا كہ اگر مدينہ ميں رہ گئے تو لوگ پھر پہنچ جائيں گے اور واپسى كا مطالبہ كريں گے اسلئے وہ مدينہ سے نكل كر سواحل دريائے احمر پر پہنچ گئے وہ جگہ ايسى تھى جہاں سے شام جانے والے قريش كے كاروان تجارت گذرتے تھے_
دوسرى طرف جب ابوبصير كى داستان اور ان كى بارے ميںرسول (ص) كے قول كا علم ان سارے مسلمانوں كو ہوا جو مكہ ميں پھنسے ہوئے تھے تو وہ كسى طرح سے اپنے كو مشركين كے چنگل سے چھڑا كر مكہ سے بھاگ كر ابوبصير تك پہنچے يہاں تك كہ كچھ ہى دنوں ميں ابوبصير سے جاملنے والے مسلمانوں كى تعداد ستر (70) ہوگئي اب وہ لوگ قريش كے قافلہ كيلئے
واقعى خطرہ بن گئے اگر قريش ميں سے كوئي مل جاتا تھاتو يہ لوگ اس كو قتل كرديتے تھے اور اگر كوئي قافلہ ادھر سے گذرتا تھا تو اس كے راستہ ميں ركاوٹ بنتے يہاں تك كہ قريش نے تھك كررسول (ص) كو خط لكھا اور يہ گذارش كى كہ ان كو مدينہ بلاليں اور قريش كو ان كے ہاتھوں اطمينان حاصل ہوجائے تو پيغمبر (ص) نے ان كو بلايا اور سب لوگ مدينہ چلے آئے _
ابوجندل اور ابوبصير كو واپس كردينے كے عمل سے پتہ چلتاہے كہ رسول خدا انسانى بلند قدروں كى اہميت سمجھتے تھے_
--------------------------------------------------------------------------------
1) (سيرہ ابن ہشام ج1 ص 337 ، 338)_
خلاصہ درس
1) قرآن كريم اسلام كى زندہ سند ہے وہ معاہدہ كى پابندى كو ضرورى سمجھتاہے اور مؤمنين كو اسكى پابندى كى تلقين كرتاہے_
2)پيغمبر اسلام(ص) كا خدا كى طرف سے بہترين نمونہ كے عنوان سے تعارف كروايا گياآپ(ص) نے بھى زندگى كى اس بنيادى بات سے صرف نظر نہيں كيا بلكہ ہميشہ اسكى پابندى كى تلقين كى ہے_
3) عہد و پيمان سے وفادارى اور معاہدہ كى پابندى كى پيغمبر اكرم (ص) اور آپ كے اہل بيت كے نزديك اتنى اہميت ہے كہ حضور(ص) نے فرمايا: لا دين لمن لاعہد لہ'' وہ شخص دين دار نہيں ہے جو معاہدہ كا پابند نہيں ہے _
4) كلى طور پرا گرپيغمبر(ص) كے معاہدوں كا جاءزہ ليا جائے تو دو طرح كے معاہدے نظر آتے ہيں_
الف: ذاتى معاہدہ
ب: سماجى معاہدے اور سياسى قرار داديں
5 ) تاريخ پيغمبر اسلام(ص) كى تحقيق سے يہ پتہ چلتاہے كہ آپ كے نزديك دونوں ہى طرح كے معاہدے محترم تھے اور آپ نے اپنى طرف سے كبھى كوئي معاہدہ نہيں توڑا_
سوالات :
1_ عہدو پيمان كى پابندى كے سلسلہ ميں قرآن كى ايك آيت كے ذريعہ اسلام كا نظريہ بيان كيجئے؟
2_ عہد و پيمان كى پابندى كى اہميت كو ايك مثال كے ذريعہ بيان كيجئے؟
3_پيغمبر اكرم كے كسى ذاتى معاہدہ كا ذكر كيجئے_
4_ سياسى معاہدوں ميں سے ايك معاہدہ بيان كرتے ہوئے ان معاہدوں كے بارے ميں پيغمبر (ص) كے طريقہ كو ايك مثال كے ذريعہ بيان كيجئے؟
5 _ پيغمبر اكرم (ص) نے كفار قريش كے ساتھ جو معاہدے كئے تھے وہ كس نوعيت كے حامل تھے؟
|