تيسرا سبق:
(پيغمبر اكرم (ص) كا طرز معاشرت)
رسول اكرم (ص) ملت اسلاميہ كے رہبر اور خدا كا پيغام پہنچانے پر مامور تھے اس لئے آپ (ص) كو مختلف طبقات كے افراداور اقوام سے ملنا پڑتا تھا ان كو توحيد كى طرف ماءل كرنے كا سب سے بڑا سبب ان كے ساتھ آپ (ص) كا نيك برتاو تھا_
لوگوں كے ساتھ معاشرت اور ملنے جلنے كى كيفيت كے بارے ميں آپ (ص) سے بہت سى حديثيں وارد ہوئي ہيں ليكن سب سے زيادہ جو چيز آپ (ص) كى معنوى عظمت كى طرف انسان كى راہنمائي كرتى ہے وہ لوگوں كے ساتھ ملنے جلنے ميں نيك اخلاق اور آپ(ص) كى پاكيزہ سيرت ہے _
وہ سيرت جس كا سرچشمہ وحى اور رحمت الہى ہے جو كہ حقيقت تلاش كرنے والے افراد كى روح كى گہرائيوں ميں اتر جاتى ہے وہ سيرت جو ''اخلاق كے مسلم اخلاقى اصولوں'' (1)كے ايك سلسلہ سے ابھرتى ہے جو آپ (ص) كى روح ميں راسخ تھى اور آپ (ص) كى ساري
--------------------------------------------------------------------------------
1)سيرت نبوي، استاد مطہرى 34 ، 22_
زندگى ميں منظر عام پر آتى رہي_
اس مختصرسى بحث ميں جو بيان كيا جائے گا وہ عام لوگوں كے ساتھ پيغمبر (ص) كے سلوك كى طرف اشارہ ہوگا اميد ہے كہ ... ''لكم فى رسول اللہ اسوة حسنة(1)تمھارے لئے پيغمبر خدا(ص) كے اندر اسوہ حسنہ موجود ہے'' كے مطابق آپ(ص) كے كريمانہ اخلاق ہمارے لئے نمونہ بنيں گے _
صاحبان فضيلت كا اكرام
بعثت پيغمبر اسلام (ص) كا ايك مقصد انسانى فضاءل اور اخلاق كى قدروں كو زندہ كرناہے ، آپ (ص) نے اس سلسلہ ميں فرمايا:
''انما بعثت لاتمم مكارم اخلاق ''(2)
يعنى ہمارى بعثت كا مقصد انسانى معاشرہ كو معنوى كمالات اور مكارم اخلاق كى بلندى كى طرف لے جاناہے _
اسى وجہ سے آنحضرت (ص) صاحبان فضيلت سے اگر چہ وہ مسلمان نہ بھى ہوں ، اچھے اخلاق سے ملتے اور ان كى عزت و احترام كرتے تھے'' (يكرم اہل الفضل فى اخلاقہم و يتالف اہل الشرف بالبرلہم) (3) نيك اخلاق كى بناپر آپ (ص) اہل فضل
--------------------------------------------------------------------------------
1) احزاب ،21_
2) ميزان الحكمہ ج3 ص149_
3) محجة البيضاء ج4 ص 126_
كى عزت كرتے اور اہل شرف كى نيكى كى وجہ سے ان پر مہربانى فرماتے تھے، رسول اكرم(ص) كے سلوك كے ايسے بہت سارے نمونے تاريخ ميں موجود ہيں ہم ان ميں سے بعض كى طرف اشارہ كرتے ہيں :
حاتم كى بيٹي
حضرت على (ع) فرماتے ہيں '' جب قبيلہ طئي كے اسيروں كو لايا گيا تو ان اسيروں ميں سے ايك عورت نے پيغمبر (ص) سے عرض كيا كہ آپ لوگوں سے كہديں كہ وہ ہم كو پريشان نہ كريں اور ہمارے ساتھ نيك سلوك كريں اسلئے كہ ميں اپنے قبيلے كے سردار كى بيٹى ہوں اور ميرا باپ وہ ہے جو عہد و پيمان ميں وفادارى سے كام ليتاہے اسيروںكو آزاد اور بھوكوں كو سير كرتاہے سلام ميں پہل كرتاہے اور كسى ضرورتمند كو اپنے دروازے سے كبھى واپس نہيں كرتا ہيں '' حاتم طائي'' كى بيٹى ہوں پيغمبر (ص) نے فرمايا: يہ صفات جو تم نے بيان كئے ہيں يہ حقيقى مؤمن كى نشانى ہيں اگر تمہارا باپ مسلمان ہو تا تو ميں اس كے لئے دعائے رحمت كرتا، پھر آپ(ص) نے فرمايا: اسكو چھوڑ ديا جائے اور كوئي اسكو پريشان نہ كرے اسلئے كہ اسكا باپ وہ شخص تھا جو مكارم الاخلاق كا دلدادہ تھا اور خدا مكارم الاخلاق كو پسند كرتاہے_(1)
--------------------------------------------------------------------------------
1)محجة البيضاء ج4 ص132_
حاتم كى بيٹى كے ساتھ اس سلوك كا يہ اثر ہوا كہ اپنے قبيلے ميں واپس پہنچنے كے بعد اس نے اپنے بھائي '' عدى بن حاتم'' كو تيار كيا كہ وہ پيغمبر (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوكر ايمان لے آئے، عدى اپنى بہن كے سمجھانے پرپيغمبر(ص) كے پاس پہونچا اور اسلام قبول كرليا اور پھر صدر اسلام كے نماياں مسلمانوں، حضرت على (ع) كے جان نثاروں اور ان كے پيروكاروںميں شامل ہوگيا(1)
بافضيلت اسير
امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا كہ :پيغمبر(ص) كے پاس كچھ اسير لائے گئے آپ(ص) نے ايك كے علاوہ سارے اسيروں كو قتل كرنے كا حكم ديديا اس شخص نے كہا : كہ ان لوگوں ميں سے صرف مجھ كو آپ نے كيوں آزاد كرديا ؟پيغمبر(ص) نے فرمايا كہ : '' مجھ كو جبرئيل نے خدا كى طرف سے خبردى كہ تيرے اندر پانچ خصلتيں ايسى پائي جاتى ہيں كہ جن كو خدا اور رسول (ص) دوست ركھتاہے 1_ اپنى بيوى اور محرم عورتوں كے بارے ميں تيرے اندر بہت زيادہ غيرت ہے 2_ سخاوت 3_ حسن اخلاق 4_ راست گوئي 5_ شجاعت '' يہ سنتے ہى وہ شخص مسلمان ہوگيا كيسا بہتر اسلام'' _(2)
--------------------------------------------------------------------------------
1) سيرہ ابن ہشام ج4 ص 227_
2) بحارالانوار ج18 ص 108_
نيك اقدار كو زندہ كرنا اور وجود ميں لانا
اسلام سے پہلے عرب كا معاشرہ قومى تعصب اور جاہلى افكار كا شكار تھا، مادى اقدار جيسے دولت،نسل ، زبان، ، رنگ ، قوميت يہ سارى چيزيں برترى كا معيار شمار كى جاتى رہيں رسول اكرم (ص) كى بعثت كى وجہ سے يہ قدريں بدل گئيں اور معنوى فضاءل كے احياء كا زمانہ آگيا ، قرآن نے متعدد آيتوں ميں تقوي، جہاد، شہاد، ہجرت اور علم كو معيار فضيلت قرار ديا ہے _
''الذين آمنوا و ہاجروا و جاہدوا فى سبيل اللہ باموالہم و انفسہم اعظم درجة عنداللہ و اولءك ہم الفاءزون'' (1)
جو لوگ ايمان لائے، وطن سے ہجرت كى اور راہ خدا ميں جان و مال سے جہاد كيا وہ خدا كے نزديك بلند درجہ ركھتے ہيں اور وہى كامياب ہيں_
''ان اكرمكم عند اللہ اتقيكم ''(2)
تم ميں جو سب سے زيادہ تقوى والا ہے وہى خدا كے نزديك سب سے زيادہ معزز ہے_
پيغمبر اسلام(ص) جو كہ انسان ساز مكتب كے مبلغ ہيں آپ (ص) امت اسلامى كے اسوہ كے عنوان سے ايسے اخلاقى فضاءل اور معنوى قدر و قيمت ركھنے والوں كى بہت عزت كرتے تھے اور جو لوگ ايمان ، ہجرت اور جہاد ميں زيادہ سابقہ ركھتے تھے آنحضرت(ص) كے نزديك وہ مخصوص احترام كے مالك تھے_
--------------------------------------------------------------------------------
1) سورہ توبہ 20_
2) حجرات 13_
رخصت اور استقبال
مشركين كى ايذاء رسانى كى بناپر پيغمبر (ص) نے كچھ مسلمانوں كو حكم ديا كہ وہ مكہ سے ہجرت كر جائيں جب '' جعفر بن ابى طالب'' حبشہ كى طرف روانہ ہوئے تو پيغمبر (ص) تھوڑى دور تك ان كے ساتھ ساتھ گئے اور آپ (ص) نے دعا فرمائي_ اور جب چند سال بعد وہ اس سرزمين سے واپس پلٹے تو پيغمبر (ص) بارہ قدم تك ان كے استقبال كيلئے آگے بڑھے آپ كى پيشانى كا بوسہ ليا اور چونكہ ان كى حبشہ سے واپسى فتح خيبر كے بعد ہوئي تھى اسلئے آنحضرت (ص) نے فرمايا: ' ' نہيں معلوم كہ ميں فتح خيبر كيلئے خوشى مناوں يا جعفر كے واپس آجانے كى خوشى مناوں '' (1)
انصار كى دلجوئي
فتح مكہ كے بعد كفار سے مسلمانوں كى ايك جنگ ہوئي جس كا نام'' حنين'' تھا اس جنگ ميں مسلمانوں كو فتح ملى تھى پيغمبر اكرم (ص) نے جنگ حنين كے بعد مال غنيمت تقسيم كرتے وقت مہاجر و انصار ميں سے كچھ لوگوں كو كچھ كم حصہ ديا اور مؤلفة القلوبكوكہ جوا بھى نئے مسلمان تھے زيادہ حصہ ديا ، انصار ميں سے بعض نوجوان ناراض ہوگئے اور انہوں نے كہا كہ پيغمبر (ص) اپنے چچازاد بھائيوں اور اپنے عزيزوں كو زيادہ چاہتے ہيں اسلئے ان كو زيادہ مال دے رہے ہيں حالانكہ ابھى ہمارى تلواروں سے مشركين كا خون ٹپك رہاہے اور ہمارے ہاتھوں
--------------------------------------------------------------------------------
1) مكارم الاخلاق ص 239_
سے سخت كام آسان ہورہے ہيں _ ايك روايت كے مطابق '' سعد بن عبادہ'' پيغمبر (ص) كے پاس آئے اور بولے جو بخشش و عنايت آپ (ص) نے قباءل عرب اور قريش پركئے ہيں ، انصار كے اوپر وہ عنايت نہيں ہوئي ہيں اسلئے انصاراس بات پر ناراض ہيں ، رسول خدا (ص) نے خيمہ لگانے كا حكم ديا ، خيمہ لگايا گيا پھر آپ (ص) نے فرمايا: '' فقط انصار خيمہ ميںآئيں، آپ (ص) خود على (ع) كے ساتھ تشريف فرماہوئے، جب انصار جمع ہوگئے تو آپ (ص) نے فرمايا: '' ميں تم لوگوں سے كيا سن رہاہوں كيا يہ باتيں تمہارے لئے مناسب ہيں ؟ ان لوگوں نے كہا كہ يہ باتيں ناتجربہ كار نوجوانوں نے كہى ہيں انصار كے بزرگوں نے يہ باتيں نہيں كہى ہيں ، پھر پيغمبر(ص) نے ان نعمتوں كو شمار كرايا جو خداوند عالم نے حضرت (ص) كے وجود كے سايہ ميں ان كو عطا كى تھيں اس پر انصار نے گريہ كيا اور پيغمبر (ص) كے ہا تھوں اور پيروں كو بوسہ دے كر كہا : ہم آپ (ص) كى اطاعت كو دوست ركھتے ہيں مال كو دوست نہيں ركھتے ہم آپ (ص) كے دنيا سے چلے جانے اور آپ (ص) كى جدائي سے ڈرتے ہيں، نہ كہ كم سرمايہ سے،رسول خدا (ص) نے فرمايا: ''زمانہ جاہليت سے ابھى قريش كا فاصلہ كم ہے ، مقتولين كى مصيبت برداشت كئے ہوئے ابھى تھوڑى دن گذرے ہيں ميں نے چاہا كہ ان كى مصيبت ختم كردوں اور ان كے دلوں ميں ايمان بھردوں اے انصار كيا تم اس بات پر راضى نہيں ہو كہ لوگ اونٹ اور گوسفند لے كر اپنے گھروں كو جائيں اور تم رسول خدا (ص) كے ساتھ اپنے گھر واپس جاو بيشك انصار ہمارے راز كے امين ہيں ، اگر تمام لوگ ايك راستے سے جائيں اور انصار دوسرے راستے سے گذريں تو ميں اس راستے سے جاؤں گا جس سے انصار جارہے ہيں_ اسلئے كہ انصار
ہمارے اندرونى اور ہمارے جسم سے لپٹے ہوئے لباس ہيں اور دوسرے افراد ظاہرى لباس كى حيثيت ركھتے ہيں_ (1)
پيغمبر (ص) نے انصار كى عزت و تكريم كى اور چونكہ انہوں نے اسلام كيلئے گذشتہ زمانہ ميں جد و جہد كى تھى اور اسلام كى نشر و اشاعت كے راستہ ميں فداكارى كا ثبوت ديا تھا اس بناپر پيغمبر(ص) نے ان كو اپنے سے قريب سمجھا اور اس طرح ان كى دلجوئي كي_
جانبازوں كا بدرقہ اور استقبال
سنہ 8 ھ ميں واقع ہونے والى جنگ '' موتہ'' ميں لشكر بھيجتے وقت رسول خد ا (ص) لشكر تيار كرلينے كے بعد لشكر كے ساتھ كچھ لوگوں كو لے كر بدرقہ كيلئے مدينہ سے ايك فرسخ تك تشريف لے گئے_
پيغمبر (ص) نے نماز ظہران كے ساتھ ادا كى اور لشكر كا سپہ سالار معين فرمايا، سپاہيوں كيلئے دعا كى اس كے بعد '' ثنية الوداع'' نامى جگہ تك جو مكہ كے قريب ہے ان كے ساتھ ساتھ تشريف لے گئے اور ان كے لئے جنگى احكام صادر فرمائے _(2)
سنہ 8 ھ ميں واقع ہونے والے غزہ '' ذات السلاسل'' كے بعد جب على (ع) جانبازان اسلام كے ساتھ فتح پاكر واپس پلٹے تو اس موقع پر پيغمبر اكرم (ص) نے مسلمانوں كو فتح
--------------------------------------------------------------------------------
1) ناسخ التواريخ ج3 ص 132 ، 134_
2) السيرة الحلى ج3 ص 68_
كى خبر دى اور مدينہ والوں كے ساتھ مدينہ سے تين ميل دور جاكر ان كا استقبال كيا ، جب على (ع) نے پيغمبر (ص) كو ديكھا تو گھوڑے سے اتر پڑے آنحضرت(ص) بھى گھوڑے سے اتر پڑے على (ع) كى پيشانى كو بوسہ ديا ان كے چہرہ سے گردو غبار صاف كيا اور فرمايا: الحمدللہ يا على الذين شد بك ازرى و قوى بك ظہرى ، اے على خدا كى حمد ہے كہ اس نے تمہارے ذريعہ سے ہمارى كمر مضبوط كى اور تمہارے وسيلہ سے اس نے دشمنوںپر ہميں قوت بخشى اور مدد كي_(1)
جب رسول خدا (ص) كو فتح خيبر كى خبر دى گئي تو آپ (ص) بہت خوش ہوئے اور حضرت على كے استقبال كو آگے بڑھے ان كو گلے سے لگايا پيشانى كا بوسہ ديا اور فرمايا'' خدا تم سے راضى ہے تمہارى كوشش اور جد و جہد كى خبريں ہم تك پہونچيں ، ميں بھى تم سے راضى ہوں '' على (ع) كى آنكھيں بھر آئيںپيغمبر(ص) نے فرمايا: '' اے على يہ خوشى كے آنسوں ہيں يا غم كے '' ؟ آپ(ص) نے كہا خوشى كے اور ميں كيوں نہ خوش ہوں كہ آپ مجھ سے راضى ہيں ؟ پيغمبر (ص) نے فرمايا: '' صرف ميں ہى تم سے راضى نہيں ہوں بلكہ خدا، ملاءكہ ،جبرئيل اور ميكائيل سب تم سے راضى ہيں_(2)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (ناسخ التواريخ ج2 ص 357)_
2) (ناسخ التواريخ ج2 ص 289)_
جہاد ميں پيشقدمى كرنيوالوں كا اكرام
مسلمانوں اور كفار كے درميان جو پہلى جنگ ہوئي وہ ' جنگ بدر '' تھى جن لوگوں نے رسول اكرم (ص) كے ساتھ اس جنگ ميں شركت كى تھى وہ '' اہل بدر''كے عنوان سے پيغمبر اكرم (ص) اور صدر اسلام كے مسلمانوں كے نزديك خصوصيت كے حامل تھے_
حضرت پيغمبر اعظم (ص) جمعہ كے دن '' صفہ'' پر بيٹھے ہوئے تھے اور لوگوں كى كثرت كى وجہ سے جگہ كم تھى ( رسول خدا (ص) مہاجرين و انصار ميں سے '' اہل بدر'' كى تكريم كررہے تھے) اسى حال ميں اہل بدر ميں سے كچھ لوگ منجملہ ان كے ثابت ابن قيس بزم ميں وارد ہوئے اور پيغمبر (ص) كے روبرو كھڑے ہوكر فرمايا: السلام عليك ايہا النبى و رحمة اللہ و بركاتہ آ پ (ص) نے ان كے سلام كا جواب ديا اس كے بعد ثابت نے مسلمانوں كو سلام كيا مسلمانوں نے بھى جواب سلام ديا وہ اسى طرح كھڑے رہے اور رسول خد ا (ص) كے پاس جمع ہونے والى بھيڑ كى طرف ديكھتے رہے ليكن ان كو كسى نے جگہ نہيں دى پيغمبر (ص) پر يہ بات بہت گراں گذرى آنحضرت (ص) نے اپنے اردگرد بيٹھے ہوئے مہاجرين و انصار ميں سے چند افراد سے كہ جو اہل بدر ميں سے نہيں تھے كہا : فلاں فلاں تم اٹھو پھر اہل بدر ميں سے جتنے لوگ وہاں موجود تھے اتنے ہى دوسرے افراد كو اٹھاكر اہل بدر'' كو بٹھايا يہ بات ان لوگوں كو برى لگى جن كوپيغمبر (ص) نے اٹھايا تھا ان كے چہرے پر ناراضگى كے آثار دكھائي دينے لگے ، منافقين ميں سے كچھ لوگوں نے مسلمانوں سے كہا كہ كيا تم يہ
تصور كرتے ہو كہ تمہارا پيغمبر (ص) عدالت سے كام ليتاہے ، اگر ايسا ہے تو پھر اس جگہ انہوں نے عدالت سے كيوں نہيں كام ليا ؟ پيغمبر (ص) نے ان كو اپنى جگہ سے كيوں اٹھا ديا جو پہلے سے بيٹھے ہوئے تھے اور يہ بھى چاہتے تھے كہ ہم پيغمبر (ص) سے قريب رہيں ؟ اور ان افراد كو ان كى جگہ پر كيوں بٹھا ديا جو بعد ميں آئے تھے؟ اس وقت آيہ كريمہ نازل ہوئي :
''يا ايہا الذين آمنوا اذا قيل لكم تفسحوا فى المجالس فافسحوايفسح اللہ لكم و اذا قيل انشزوا فانشزوا'' (1)
اے اہل ايمان جب تم سے كہا جائے كہ اپنى اپنى مجلس ميں ايك دوسرے كيلئے جگہ كشادہ كردو تو خدا كا حكم سنو اور جگہ چھوڑ دو تا كہ خدا تہارے (مكان و منزلت) ميں وسعت دے اور جب يہ كہا جائے كہ اپنى جگہ سے اٹھ جا و تب بھى حكم خدا كى اطاعت كرو (2)
رسول خدا (ص) كا اہل بدر كا احترام كرنا اسلامى معاشرہ ميں بلند معنوى قدروں كى احياء اور راہ خدا ميں جہاد كے سلسلہ ميں پيش قدمى كرنيوالوں كے بلند مقام كا پتہ ديتاہے اسى وجہ سے رسول اكرم (ص) كى سنت كے مطابق صدر اسلام كے مسلمانوں كے درميان '' اہل بدر'' خاص احترام اور امتياز كے حامل تھے_
--------------------------------------------------------------------------------
1) (مجادلہ 11)_
2) ( بحار ج17 ص 24)_
شہدا ء اور ان كے خاندان كا اكرام
سنہ 8 ھ ميں جنگ '' موتہ'' ميں لشكر اسلام كى سپہ سالارى كرتے ہوئے '' جعفر ابن ابى طالب'' نے گھمسان كى جنگ ميں اپنے دونوں ہاتھ راہ خدا ميں دے ديئے اور زخموں سے چور ہوكر درجہ شہادت پر فاءز ہوئے پيغمبر (ص) نے ان كے بلند مرتبہ كى تعريف كرتے ہوئے فرمايا:
''ان اللہ ابدل جعفر ابيديہ جناحين يطير بہما فى الجنة حيث شاء ''
خداوند عالم نے جعفر كو ان كے دونوںبازوں كے بدلے دو پر عنايت كئے ہيں وہ جنت ميں جہاں چاہتے ہيں ان كے سہارے پرواز كرتے چلے جاتے ہيں _
اسى جنگ كے بعد جب لشكراسلام مدينہ واپس آيا تو رسول اكرم (ص) مسلمانوں كے ساتھ ان كے استقبال كو تشريف لے گئے ، ترانہ پڑھنے والے بچوں كا ايك گروہ بھى آپ (ص) كے ہمراہ تھا، رسول خدا (ص) مركب پر سوار چلے جارہے تھے آپ (ص) نے فرمايا : بچوں كو بھى سوار كرلو اور جعفر كے بچوں كو مجھے ديدو پھر آپ (ص) نے ' ' عبداللہ بن جعفر '' كو جن كے باپ شہيد ہوچكے تھے اپنى سوارى پر اپنے آگے بٹھايا_
عبداللہ كہتے ہيں كہ حضرت نے مجھ سے فرمايا: اے عبداللہ ميں تم كو تعزيت و مباركباد پيش كرتاہوں كہ تمہارے والد ملاءكہ كے ساتھ آسمان ميں پرواز كررہے ہيں _
--------------------------------------------------------------------------------
1) (السيرة الحلبية ج2 ص 68)_
امام جعفر صادق (ع) نقل كرتے ہيں كہ جعفر ابن ابى طالب كى شہادت كے بعد رسول خدا (ص) ان كے بيٹے اور بيوى '' اسماء بنت عميس'' كے پاس پہونچے، اسماء بيان فرماتى ہيں كہ جب پيغمبر (ص) ہمارے گھر ميں وارد ہوئے تو اسوقت ميں آٹا گوندھ رہى تھى حضرت (ص) نے مجھ سے پوچھا تمہارے بچے كہاں ہيں؟ ميں اپنے تينوں بيٹوں'' عبداللہ'' ، ''محمد'' اور ''عون'' كو لے آئي ، آپ (ص) نے ان كو اپنى گود ميں بٹھايا اور سينہ سے لگايا آپ ان كے سروں پر ہاتھ پھيرتے جاتے تھے اور آنكھوں سے آنسوں جارى تھے ميں نے عرض كى : اے اللہ كے رسول آپ (ص) پر ہمارے ماں باپ فدا ہوجائيں آپ (ص) ہمارے بچوں كے ساتھ يتيموں كا سا سلوك كيوں كررہے ہيں كيا جعفر شہيد ہوگئے ہيں ؟ آنحضرت(ص) كے گريہ ميں اضافہ ہوگيا ارشاد فرمايا: خدا جعفر پر اپنى رحمت نازل كرے يہ سنتے ہى صدائے نالہ وشيون بلند ہوئي بنت پيغمبر (ص) '' فاطمہ (ع) '' نے ہمارے رونے كى آواز سنى تو انہوں نے بھى گريہ فرمايا ، پيغمبر (ص) گھر سے باہر نكلے حالت يہ تھى كہ آپ (ص) اپنے آنسووں پر قابو نہيں پارہے تھے اور يہ فرمايا كہ :'' گريہ كرنے والے جعفر پر گريہ كريں''_
اس كے بعد جناب فاطمہ زہرا سے آپ (ص) نے ارشاد فرمايا: '' جعفر كے اہل و عيال كيلئے كھانا تيار كرو اور ان كے پاس لے جاؤ اسلئے كہ وہ لوگ آہ و فغان ميں مشغول سنہ 8 ھ ميں واقع ہونے والے غزہ '' ذات السلاسل'' كے بعد جب على (ع) جانبازان اسلام كے ساتھ فتح
--------------------------------------------------------------------------------
1) (تاريخ يعقوبى ج2 ص 289) _
بات سنت قرار پائي خود عبداللہ بن جعفر كے قول كے مطابق '' وہ لوگ تين دن تك پيغمبر(ص) كے گھر مہمان رہے _
ہمارے معاشرہ ميں آج جو رواج ہے وہ سنت پيغمبر (ص) كے برعكس ہے ہم آج ديكھتے ہيں كہ مصيبت زدہ كنبہ كے اقرباء اور رشتہ دار چند دنوں تك عزادار كے گھر مہمان رہتے ہيں ، جبكہ سنت پيغمبر (ص) كو زندہ كرنا كرنا ہمارا فريضہ ہے_
ايمان يا دولت
تاريخ ميں ہميشہ يہ ديكھا گيا ہے كہ پيغمبروں كى آواز پر سب سے پہلے لبيك كہنے والے اور كان دھرنے والے زيادہ تر محروم اور مصيبت زدہ افراد ہى ہوتے تھے دولت مندوں اور مستكبرين نے خدا كے پيغمبروں سے ہميشہ مقابلہ كيا اور حق كے سامنے سر تسليم خم كرنے سے انكار كرتے رہے اگر انھوں نے اپنے مفادات كے تحفظ كيلئے ظاہراً ايمان قبول كرليا تو اسى برترى كے جذبہ كى بناپر دوسروں سے زيادہ امتياز كے طلبگار رہے اشراف و قباءل عرب كے رئيسوں كا پيغمبر (ص) پر ايك اعتراض يہ بھى تھا كہ آپ (ص) ان سے اورفقير اور محروم مومنين سے مساوى سلوك كيا كرتے تھے بلكہ غلاموں اور ستائے ہوئے محروم افراد پر آپ (ص) زيادہ توجہ فرماتے تھے اسلئے كہ ان كے پاس خالص ايمان تھا اور راہ اسلام ميں دوسروں سے زيادہ يہ افراد فداكارى كا مظاہرہ كرتے تھے_
ايك دن، سلمان، بلال، عمار اور غلاموں اور نادار مسلمانوں كى ايك جماعت رسول خدا (ص) كى خدمت ميں حاضر تھى بزرگان قريش اور نئے مسلمان ہونے والوں ميں سے چند افراد آپ (ص) كے پاس آئے اور انہوں نے كہا كہ : يا رسول اللہ (ص) كاش ناداورں اور غلاموں كى اس جماعت كو آپ الگ ہى ركھتے يا ان كو اور ہم لوگوں كو ايك ہى نشست ميں جگہ نہ ديتے آخر اس ميں حرج ہى كيا ہے جب ہم يہاں سے چلے جاتے تب يہ لوگ آتے ، اس لئے كہ دور و نزديك كے اشراف عرب آپ (ص) كے پاس آتے ہيں ہم يہ نہيں چاہتے كہ وہ ہم كو اور ان لوگوں كو ايك ہى نشست ميں ديكھيں_
فرشتہ وحى ان كے جواب ميں آيت لے كر نازل ہوا :
'' و لا تطرد الذين يدعون ربہم بالغداوة و العشى يريدون وجہہ ما عليك من حسابہم منشيء و مامن حسابك عليہم من شيء فتطردہم فتكون من الظالمين ''(1)
جو لوگ صبح و شام خدا كو پكارتے ہيں اور جنكا مقصود خدا ہے ان كو اپنے پاس سے نہ ہٹاؤ اسلئے كہ نہ تو آپ كے ذمہ ان كا حساب اور نہ ان كے ذمہ آپ كا حساب ہے لہذا تم اگر ان خداپرستوں كو اپنے پاس سے بھگادو گے تو ظالمين ميں سے ہوجاؤ گے (2)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (انعام 25) _
2) ( ناسخ التواريخ ج4 ص 83)_
اسى آيت كے نازل ہونے كے بعد فقراء مؤمنين پر رسول خدا (ص) كى عنايت اور زيادہ ہوگئي _
ثروت مند شرفاء يا غريب مؤمن
سہل بن سعد سے منقول ہے كہ ايك شخص پيغمبر (ص) كے پاس سے گذرا حضرت (ص) نے اپنے اصحاب سے سوال كيا '' اس شخص كے بارے ميں تمہارا كيا خيال ہے '' لوگوں نے كہا كہ وہ شرفاء ميں سے ہے كسى شاءستہ انسان كے يہاں يہ پيغام عقد دے تو لوگ اسكو لڑكى دے ديں گے ، اگر كسى كى سفارش كردے تو لوگ اسے قبول كريں گے ، اگر يہ كوئي بات كہے تو لوگ اسكو سنيں گے ، حضرت (ص) خاموش ہوگئے تھوڑى دير بعد ايك غريب مسلمان كا ادھر سے گذرہوا رسول اكرم (ص) نے پوچھا '' اس شخص كے بارے ميں تمہارا كيا خيال ہے '' لوگوں نے كہا بہتر يہى ہے كہ اگر يہ لڑكى مانگے تو لوگ اسكو لڑكى نہ ديں ، اگر يہ كسى كى سفارش كرے تو اسكى سفارش نہيں سنى جائے، اگر يہ كوئي بات كہے تو اس پر كان نہيں دھرے جائيں گے _پيغمبر (ص) نے فرمايا: '' يہ اس مالدار شخص اور اسى جيسى بھرى ہوئي دنيا سے تنہا بہتر ہے_(1)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (پيامبر رحمت صدر بلاغى ص 61)_
خلاصہ درس
1)امت اسلام كى رہبرى اور الہى پيغام پہونچانے كا منصب آنحضرت (ص) كے سپرد تھا اس وجہ سے آپ (ص) كو مختلف طبقات كے افراد و اقوام سے ملنا پڑتا تھا ان لوگوں كے ساتھ آپكا كردار ساز سلوك توحيد كى طرف دعوت كا سبب تھا_
2)صاحبان فضيلت و كرامت كے ساتھ چاہے وہ غير مسلم ہى كيوں نہ ہوں رسول اكرم اچھے اخلاق اور احترام سے پيش آتے تھے_
3)جن لوگوں كو اسلام ميں سبقت حاصل ہے اوراسلام كى نشرو اشاعت ميں جاں نثارى اور كوشش كى ہے رسول اكرم (ص) نے ان لوگوں كا احترام كيا اور ان كو اپنے سے بہت نزديك جانا_
4) اسلامى معاشرہ ميں معنويت كى اعلى قدروں كے احياء كيلئے پيش قدمى كرنيوالوں اور راہ خدا ميں جہاد كرنے والوں '' اہل بدر'' كے ساتھ رسول خدا (ص) عزت سے پيش آتے اور ان لوگوں كيلئے خاص امتياز و احترام كے قاءل رہے_
5) رسول اكرم (ص) نے دولت مندوں سے زيادہ غريب مؤمنين پر لطف و عنايت كى اس لئے كہ يہ خالص ايمان كے حامل تھے اور اسلام كى راہ ميں دوسروں كى بہ نسبت زيادہ جاں نثارى كا ثبوت ديتے تھے_
)مؤلفة القلوب ايك وسيع المعنى لفظ ہے جو كہ ضعيف الايمان مسلمانوں كيلئے بھى بولا جاتاہے اور ان كفار كيلئے بھى جن كو اسلام كى طرف بلانا مقصود ہو تا كہ انہيں مسلمانوں كے ساتھ مل كر جہاد كرنے كى ترغيب دى جائے _(1)
--------------------------------------------------------------------------------
1)جواہر الكلام ج1 ص 341 طبع_
سوالات :
1_ مقصد بعثت كے سلسلہ ميں رسول اكرم (ص) كا قول پيش كيجئے؟
2_ پيغمبر اسلام (ص) كے سلوك اور برتاو كا معاشرہ پر كيا اثر پڑا؟ ايك مثال كے ذريعہ اختصار سے لكھئے؟
3_مجاہدين '' فى سبيل اللہ '' كے ساتھ پيغمبر اكرم (ص) نے كيا سلوك كيا ؟ اس كے دو نمونے پيش كيجئے؟
4_ شہداء كے گھر والوں كے ساتھ پيغمبر(ص) كيا سلوك كرتے تھے تحرير فرمايئےاور يہ بھى بيان كيجئے كہ پيغمبر(ص) نے كس عمل كو اپنى سنت قرا رديا ہے ؟
5_ اميروں كے مقابل غريبوں كے ساتھ پيغمبر (ص) كے سلوك كو بيان كرتے ہوئے ايك مثال پيش كيجئے_
|