بيسواں سبق:
(كنگھى كرنا اور ديگر امور)
شروع ہى سے رسول خدا (ص) سر كے بال تو صاف ركھنے پر بہت توجہ ديتے تھے اور اسے بيرى كے پتوں سے صاف كيا كرتے تھے_
''كان اذا غسل رأسہ و لحيتہ غسلہا بالسدر''
رسول خدا (ص) اپنے سر اور ڈاڑھى كو سدر (بيرى كے پتوں) سے دھوتے تھے_
بالوں كو صاف كرنے كے بعد ان كو سنوارنے اور ترتيب سے ركھنے كى تاكيد فرماتے تھے_
''قال رسول اللہ (ص) : من كانت لہ شعرة فليكرمہا''(1)
جس كے بال موجود ہوں اسے چاہے كہ انكا احترام كرے_
--------------------------------------------------------------------------------
1) (محجة البيضاء ج1 ص 209)_
''من اتخذ شعراً فليحسن و لايتہ او ليجذہ''(1)
جو بال ركھے اس پر لازم ہے كہ وہ ان كى خوب نگہداشت بھى كرے ورنہ ان كو كٹوا دے_
اچھے اور خوبصورت بالوں كى تعريف كرتے ہوئے آپ (ص) نے فرمايا:
''الشعر الحسن من كسوة اللہ فاكرموہ''(2)
خوبصورت بال خدا كى عنايت ہيں ان كا احترام كرو _
( يعنى ان كو سنوار كرركھو) آپ اپنے بالوں كو صاف كرتے اور اس ميں تيل لگاتے تھے نيز دوسروں كو اس تعليم ديتے تھے_
''كان رسول اللہ (ص) يدھن الشعر و يرجلہ غباء و تامرہ بہ و يقول : اومنو غباء'' (3)
رسول خدا ايك دن ناغہ كركے سر ميں تيل لگاتے اور كنگھى كرتے تھے اور دوسروں كو بھى اس كى تاكيد كرتے تھے اور فرماتے تھے كہ : ايك دن چھوڑ كر بالوں ميں تيل لگاو_
جب آپ اصحاب سے ملاقات كرنے كے لئے نكلتے تو اس وقت بالوں ميں كنگھى كركے اور ظاہرى آرائشے كے ساتھ نكلتے تھے_(4)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (محجة البيضاء ج1 ص 210)_
2) (ترجمہ مكارم الاخلاق ج2 ص 134)_
3) (محجة البيضاء ج1ص 309)_
4) (محجة البيضاء ج1 ص 309)_
رسول خدا (ص) آئينہ ديكھ كر بالوں كو صاف كرتے اور كنگھى كرتے ، كبھى پانى ميں ديكھ كر بالوں كو صاف كرليا كرتے تھے، آپ فرماتے تھے كہ : جب كوئي شخص اپنے دوستوں كے پاس جائے تو اپنے كو آراستہ كرے يہ بات خدا كو پسند ہے_(1)
الجھے ہوئے بالوں اور نامناسب وضع و قطع سے آپ نفرت فرماتے تھے_ ايك شخص آپ نے فرمايا كيا اس كو تيل نہيں ملا تھا جو اپنے بالوں كو سنوار ليتا _ اس كے بعد آپ نے فرمايا : تم ميں سے بعض افراد ميرے پاس شيطان كى ہيءت بناكر آتے ہيں _
سركے بالوں كى لمبائي
آپ كے سركے بالوں كے بارے ميں روايت ہے كہ :
آپ كے سر كے بال بڑى ہوكر كان كى نچلى سطح تك پہنچ جاتے تھے_(2)
اس روايت سے معلوم ہوتاہے كہ آپ كے سر كے بال چھوٹے تھے_ امام جعفر صادق (ع) كے زمانہ ميں يہ بات مشہور ہوگئي تھى كہ آپ كے سر كے بال بھى بڑے ہوا كرتے تھے اور آپ درميان سے مانگ نكالتے تھے، امام نے اپنے ايك صحابى سے فرمايا: '' لوگ مانگ نكالنا رسول كى سنت سمجھ رہے ہيں حالانكہ يہ سنت نہيں ہے _
--------------------------------------------------------------------------------
1) (ترجمہ مكارم الاخلاق ج1 ص67)_
2) (محجة البيضاء ج1 ص 309)_
اس شخص نے كہا كہ لوگ تو يہ سمجھتے ہيںكہ پيغمبر(ص) مانگ نكالتے تھے امام نے فرمايا :پيغمبر(ص) مانگ نہيں نكالتے تھے(اصولى طور پر ) انبياء كرام بڑے بال نہيں ركھتے تھے_(1)
بالوں ميں خضاب لگانا
روايات كے مضمون سے پتہ چلتاہے كہ سر كے بال اگر سفيد ہوجائيں تو اسلام كى نظر ميں انھيں نورانيت ہوتى ہے اس كے باوجود پيغمبر (ص) كے اقوال سے پتہ چلتاہے كہ سياہ اور حنائي بال جوانى كى ياد كو زندہ ركھتے ہيں اور مرد كونشاط و ہيبت عطا كرتے رہتے ہيں ، اسى وجہ سے خضاب كى تاكيد كى گئي ہے_
امام جعفر (ع) سے منقول ہے كہ : ايك شخص رسول خدا (ص) كى خدمت ميں آيا، آپ نے اس كى داڑھى كے سفيد بال ملاحظہ فرمائے اور فرمايا نورانى ہے وہ جن كے بال اسلام ميں سفيد ہوجائيں، اس كے ليے يہ سفيدى قيامت ميں نورانيت كا سبب ہے ، دوسرى بار وہ حنا كا خضاب لگاكر پيغمبر (ص) كے پاس آيا تو آپ (ص) نے فرمايا : يہ نورانى بھى ہے اور مسلمان ہونے كى علامت بھى ، وہ شخص پھر ايك دن آپ كى خدمت ميں پہنچا اور اس دن اس نے بالوں ميں سياہ خضاب لگا ركھا تھا، آپ نے فرمايا نورانى بھى ہے اور عورتوں كى محبت اور دشمنوں
--------------------------------------------------------------------------------
1) (ترجمہ مكارم الاخلاق ج 1 ص 135)_
كے خوف كا سبب ہے_(1)
خضاب كے سب سے اچھے رنگ كے بارے ميں آپ نے فرمايا :
''احب خضابكم الى اللہ الحالك''(2)
خداكے نزديك تمہارا سب سے زيادہ محبوب خضاب سياہ رنگ كا خضاب ہے_
انگوٹھي
آرائشے كى چيزوں ميں حضور رسول اكرم صرف انگوٹھى پہنتے تھے، اسى انگوٹھى سے مہر بھى لگاتے تھے تاريخ ميں انگوٹھى كے علاوہ آرائشے كى اور كوئي چيز درج نہيں ہے _ آپ كى انگوٹھى خصوصاً اس كے نگينہ كے بارے ميں البتہ مختلف روايتيں ہيں_
مجموعى طور پر آنحضرت اور اءمہ كے اقوال ميں : عقيق اور ياقوت كى چاندى كى انگوٹھى تاكيد ملتى ہے _
''قال رسول اللہ (ص) : تختموا بخواتيم العقيق فانہ لا يصيب احدكم غم مادام عليہ''(3)
عقيق كى انگوٹھى ، پہنو جب تك تمہارے ہاتھوں ميں يہ انگوٹھى رہے گى تم كو كوئي غم نہيں پہنچے گا_
--------------------------------------------------------------------------------
1) (ترجمہ مكارم الاخلاق ج1 ص 150)_
2) (ترجمہ مكارم الاخلاق'' ج1 ص 149)_
3) ( مكارم الاخلاق مترجم ص 164)_
''قال رسول اللہ (ص) ; التحتم بالياقوت ينفى الفقر و من تختم بالعقيق يوشك ان يقضى لہ بالحسنى ''(1)
ياقوت كى انگوٹھى پہننے سے فقر دور ہوجاتاہے، جو شخص عقيق كى انگوٹھى پہنتاہے اميد كى جاتى ہے خوبياں اس كے لئے مقدر ہوگئي ہيں _
رسول خدا (ص) كى مختلف قسم كى انگوٹھيوں كے بارے ميں لكھا ہے _
آپ (ص) چاندى كى انگوٹھى پہنا كرتے تھے جس كا نگينہ حبشہ سے آيا تھا_ معاذ بن جبل نے آپ (ص) كو لوہے كى چاندى جيسى ايك انگوٹھى دى تھى اس پر '' محمد رسول اللہ'' نقش تھا ... وفات كے وقت جو سب سے آخرى انگوٹھى آپ(ص) كے ہاتھوں ميں تھى وہ چاندى كى انگوٹھى تھى جس كا نگينہ بھى چاندى ہى كا تھا يہ ويسى ہى انگوٹھى تھى جيسى لوگ پہنا كرتے ہيں، اس پر بھى '' محمدرسول اللہ'' لكھا ہوا تھا_ روايت ميں ہے كہ انتقال كے وقت آپ (ص) كے داہنے ہاتھ ميں وہ انگوٹھى وجود تھى ، انگوٹھى ہى سے مہر كا كام بھى ليتے اور فرماتے تھے مہر لگاہوا خط تہمت سے برى ہوتاہے _(2)
جسم كى صفائي
رسول خدا ہر ہفتہ ناخن كاٹتے جسم كے زاءد بال صاف كرتے اور مونچھوں كے بال
--------------------------------------------------------------------------------
1) (مكارم الاخلاق مترجم ص 165)_
2) (مكارم الاخلاق مترجم ج1 ص72)_
چھوٹے كرتے ، آنحضرت(ص) (ص) اور اءمہ (ع) كے اقوال سے ناخن كاٹنے مونچھوں كے بال چھوٹے كرنے كے طبى اور نفسياتى فواءد ظاہر ہوتے ہيں ، نيز اس كے ايسے مفيد نتاءج كا پتہ چلتاہے جو دنيا اور آخرت كى بھلائي كا سبب ہيں ، ان ميں سے كچھ اقوال يہاں نقل كئے جارہے ہيں :
''عن النبى (ص) قال: من قلم اظفارہ يوم الجمعة أخرج اللہ من أناملہ داء و ادخل فيہ شفا''(1)
جو شخص جمعہ كے دن اپنے ناخن تراشے خدا اس كو انگليوں كے درد سے نجات ديتاہے اور اس ميں شفا ڈالتاہے_
''قال رسول اللہ (ص) : من قلم اضفارہ يوم السبت و يوم الخميس و اخذ من شار بہ عوفى من وجع الاضراس و وجع العينين''(2)
جو شخص ہفتہ اور جمعرات كے دن اپنے ناخن تراشے اور مونچھوں كے بالوں كو چھوٹا كرے وہ دانتوں اور آنكھوں كے درد سے محفوظ رہے گا _
امام جعفر صادق (ع) (ع) سے منقول ہے كہ : رسول خدا (ص) سے وحى منقطع ہوگئي تو لوگوں نے پوچھا كہ وحى كيوں منقطع ہوگئي ؟ آپ نے فرمايا: كيوں نہ منقطع ہو حالت يہ كہ تم اپنے ناخن نہيں تراشتے اپنے جسم سے بدبو دور نہيں كرتے_
--------------------------------------------------------------------------------
1) ( ترجمہ مكارم الاخلاق ج 1 ص 123 ، 124)_
2) (ترجمہ مكارم الاخلاق ج1 )_
''عن الصادق (ع) : قال رسول اللہ (ص) لا يطولن احدكم شار بہ فان الشيطان يتخذہ مخباء يستتر بہ ''(1)
تم ميں سے كوئي اپنى مونچھيں لمبى نہ كرے، اس لئے كہ شيطان اس كو اپنى پناہ گا ہ بناكر اس ميں چھپ جاتاہے_
منقول ہے كہ : آنحضرت(ص) كى نظر ايك ايسے شخص پر پڑى كہ جن كى داڑھى بڑھى ہوئي اور بے ترتيب تھى آپ (ص) نے فرمايا: اگر يہ شخص اپنى داڑھى درست كرليتا تو كيا حرج تھا آنحضرت(ص) كا فرمان سننے كے بعد اس نے داڑھى كى اصلاح كرلى اور پھر آنحضرت كے پا س آيا تو آپ (ص) نے فرمايا: ہاں اسى طرح اصلاح كيا كرو_(2)
بدن كے زاءد بالوں كو صاف كرنے كى بھى تاكيد فرماتے تھے چنانچہ ارشاد ہے:
اگر كوئي شخص اپنى بغل كے بالوں كو بڑھا ہوا چھوڑ دے تو شيطان اس ميں اپنى جگہ بناليتاہے_(3)
تم ميں سے مردو عورت ہر ايك اپنے زير ناف كے بالوں كو صاف كرے _(4)
آنحضرت (ص) اس پر خود بھى عمل كرتے تھے اور ہر جمعہ كو اپنے جسم كے زاءد بالوں كو صاف
--------------------------------------------------------------------------------
1) (ترجمہ مكارم الاخلاق ج1 ص 145)_
2) ( ترجمہ مكارم الاخلاق ج 1 ص 128)_
3) (ترجمہ مكارم الاخلاق ج1 ص 128)_
4) (ترجمہ مكارم الاخلاق ج1 ص 115)_
5) (محجة البيضاء ج1 ص 327)_
كرتے تھے_(1)
تيل كى مالش
صفائي اورآرائشے كى خاطرآنحضرت (ص) اپنے جسم پر تيل كى مالش كيا كرتے تھے ، حفظان صحت اور جلد كى صفائي كے بارے ميں ڈاكٹروں كے درميان تيل كى مالش كے فواءد كا ذكر كررہتاہے_
رسول مقبول (ص) نے جس چيز پر عمل كيا اور جن كو مسلمانوں كے ليے سنت بنا كر يادگار كے طور پر چھوڑا ہے اسكى تاييد اس سلسلہ ميں بيان كئے جانے والے دانشوروں كے اقوال سے ہوجاتى ہے_(2)
آنحضرت(ص) سر اور داڑھى كے بال كى آرائشے كے ليے مناسب روغن استعمال فرماتے تھے اور حمام لينے كے بعد بھى جسم پر تيل ملنے كى تعليم فرماتے تھے اور اس پر خود بھى عمل پيرا تھے_
'' جسم پر تيل ملنے كو اچھا سمجھتے تھے الجھے ہوئے بال آپ كو بہت ناپسند تھے، آپ فرماتے تھے ، تيل سے درد ختم ہوجاتاہے ، آپ جسم پر مختلف قسم كے تيل كى مالش كرتے
--------------------------------------------------------------------------------
1) ( محجة البيضاء ج1 ص 327)_
2) (ملاحظہ ہو كتاب اولين دانشگاہ و آخرين پيامبر)_
تھے، مالش كرنے ميں سر اور داڑھى سے شروع كرتے اور فرماتے تھے كہ سر كو داڑھى پر مقدم كرنا چاہيئے، روغن بنفشہ بھى لگاتے تھے اور كہتے تھے كہ ; روغن بنفشہ بہت اچھا تيل ہے ، روغن ملنے ميں ابرو پہلے مالش كرتے تھے، مونچھوں پر تيل لگاتے تھے، پھر ناك سے سونگھتے تھے، پھر سر كو روغن سے آراستہ كرتے تھے، دردسر رفع كرنے كے لئے ابروپرتيل لگاتے تھے_(1)
سرمہ لگانا
سرمہ لگانے سے آنكھوں كى حفاظت ہوتى ہے رسول اكرم (ص) خود بھى سرمہ لگاتے تھے نيز آپ نے سرمہ لگانے كے آداب بھى بيان كئے ہيں منقول ہے كہ :
آنحضرت داہنى آنكھ ميں تين سلائي اور بائيں آنكھ ميں دو سلائي سرمہ لگاتے تھے اورفرماتے تھے كہ : جو تين سلائي سرمہ لگانا چاہے وہ لگاسكتاہے، اگر اس سے كم يا زيادہ لگانا چاہے تو كوئي حرج نہيں ہے ، كبھى حالت روزہ ميں بھى سرمہ لگا ليتے تھے_ آپ كے پاس ايك سرمہ دانى تھى جس سے رات كے وقت سرمہ لگاتے تھے آپ جو سرمہ لگاتے تھے وہ سنگ سرمہ تھا_(2)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (ترجمہ مكارم الاخلاق ج1 ص 64)_
2) (ترجمہ مكارم الاخلاق ج1 ص67)_
امام جعفر صادق (ع) سے روايت ہے كہ ايك صحرائي عرب جن كا نام '' قليب رطب العينين'' تھا (قليب كے معنى تر آنكھيں ہيں درد كى وجہ سے اس كى آنكھيں مرطوب رہتى تھيں ) پيغمبر كى خدمت ميں پہنچا آپ نے فرمايا كہ : اے قليب تہارى آنكھيں تر نظر آرہى ہيں تم سرمہ كيوں نہيں لگاتے ، سرمہ آنكھوں كا نور ہے _
اءمہ سے بھى اس بے بيش قيمت ہوتى (آنكھ) كے تحفظ كے لئے ارشادات موجود ہيں_
امام محمد باقر (ع) نے فرمايا كہ : اگر سنگ سرمہ كا سرمہ لگايا جائے تو اس سے پلكيں آگ آتى ہيں ، بينائي تيز ہوجاتى ہے اور شب زندہ دارى ميں معاون ہوتى ہے _(1)
امام رضا (ع) سے مروى ہے كہ جن كى آنكھيں كمزور ہوں وہ سوتے وقت سات سلائي سرمہ لگائے، چار سلائي داہنى آنكھ ميں اور تين سلائي بائيں آنكھ ميں ، اس سے پلكيں آگ آتى ہيں ، آنكھوں كو جلا ہوتى ہے خداوند عالم سرمہ ميں تيس سال كا فاءدہ عطا كرتاہے_(2)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (ترجمہ مكارم الاخلاق ج1 ص 88)_
2) (ترجمہ مكارم الاخلاق ج1 ص88)_
خلاصہ درس
1) نظافت آرائشے اور سركے بالوں كو سنوارنے كے بارے ميں رسول اكرم (ص) تاكيد فرماتے تھے_
2) اصحاب سے ملاقات كے وقت آنحضرت(ص) بالوں ميں كنگھى كرتے او ر ظاہرى طور پر آراستہ ہوكر تشريف لے جاتے تھے_
3 ) روايت سے نقل ہوا ہے كہ آنحضرت(ص) كے كسر كے بال چھوٹے تھے_
4 ) آرائشے كى چيزوں ميں رسول اكرم (ص) صرف اپنے ہاتھ ميں انگوٹھى پہنتے تھے اور اسى سے خطوط پر مہر لگانے كا بھى كام ليتے تھے_
5 ) ہر ہفتہ آپ (ص) اپنے ناخن كا ٹتے ، جسم كے زاءد بالوں كو صاف كرتے اور مونچھوں كو كوتا ہ فرماتے تھے_
6 ) صفائي اور آرائشے كے لئے آپ (ص) جسم پر تيل بھى لگاتے تھے_
7) آنكھوں ميں سرمہ لگانے سے آنكھوں كى حفاظت ہوتى ہے _ رسول خدا (ص) خود بھى سرمہ لگاتے تھے نيز سرمہ لگانے كے آداب بھى آپ نے بيان فرمائے ہيں _
سوالات :
1_ بالوں كو سنوارنے اور صاف ركھنے كے لئے رسول خدا نے كيا فرمايا ہے ؟
2 _ سركے كتنے بڑے بال رسول خدا كى سنت شمار كئے جائيں گے _
3 _ سر كے بالوں كے لئے رسول خدا كے نزديك كس رنگ كا خضاب سب سے بہتر ہے؟
4 _ رسول خدا اپنے ہاتھوں كى آرائشے كے لئے كون سى چيز استعمال كرتے تھے، اس سلسلہ كى ايك روايت بھى بيان فرمائيں ؟
5 _ حفظان صحت كے لئے آنحضرت(ص) ہر ہفتہ كون سے اعمال انجام ديتے تھے؟
|