بارہواں سبق:
(مدد اور تعاون )
مدد اور باہمى تعاون پر انسانى معاشرہ كى بنياد استوار ہے ضرورتوں اور مشكلات ميں ايك دوسرے كى مدد اور تعاون سے ايك طرف تو معاشرہ مضبوط ہوتا ہے دوسرى طرف آپس ميں محبت اور دوستى بڑھتى ہے اس كے برعكس سماجى كاموں ميں ہاتھ نہ بٹانا اور ذمہ داريوں سے فرار اختيار كرنا ظلم اور انسان كے خدا كى رحمت سے دورى كا باعث ہے_
پيغمبر اكرم (ص) كا ارشاد ہے :
''ملعون من القى كلہ على الناس ''(1)
''جو اپنا بوجھ دوسرے كے كاندھے پر ركھدے وہ خدا كى رحمت سے دور ہوجاتا ہے ''_
اسلام نے انسانوں كو اچھے اور نيك كاموں ميں مدد كرنے كى تعليم دى ہے قرآن كريم ميں ارشاد ہے:
''تعاونوا على البر و التقوي و لا تعاونوا على الاثم و العدوان'' (2)
--------------------------------------------------------------------------------
1) (نہج الفصاحہ 568) _
2) (سورہ ماءدہ 2) _
نيكى ميں ايك دوسرے كى مدد كرو ظلم و گناہ ميں مدد گار نہ بنو_
پيغمبر اكرم (ص) نے بھى اپنے اصحاب اور پيروكاروں كو مدد و نصرت اور تعاون كى تعليم دى ہے :
''من اصبح لا يہتم بامور المسلمين فليس بمسلم'' (1)
جو شخص مسلمانوں كے امور سے بے توجھى برتتے ہوئے صبح كرے وہ مسلمان نہيں ہے_
نيز فرمايا :
''من بات شبعان و جارہ جاءع فليس بمسلم ''(2)
جو شخص شكم سير ہو كر سوئے اور اس كا پڑوسى بھوكا رہ جائے تو وہ مسلمان نہيں ہے _
آنحضرت (ص) نے با ايمان معاشرہ كى تشبيہ انسانى جسم سے دى ہے مثل ''المومنين فى توادہم و تراحمہم كمثل الجسد اذا شتكى بعضہم تداعى سايرہم بالسہر و الحمى ''(3)
دوستى اور مہربانى ميں مومنين كى مثال اعضاء بدن كى سى ہے جب كسى ايك عضو كو تكليف پہنچتى ہے تو دوسرے اعضاء بھى اسكى رعايت اور نگرانى كرنے لگتے ہيں _
--------------------------------------------------------------------------------
1) (محجة البيضاء ج 2 ص 407) _
2) ( نہج الفصاحہ 559) _
3) ( نہج الفصاحہ 561) _
سعدى نے كہا تھا :
بنى آدم اعضاء يك پيكر اند
كہ در آفرينش ز يك گوہر اند
چو عضوى بدرد آورد روزگار
دگر عضوہا را نماند قرار
تو كز محنت ديگران بى غمى
نشايد كہ نامت نہند آدمي
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں :
''من قضا لاخيہ المومن حاجة قضي اللہ عزوجل لہ يوم القيمہ ماة الف حاجة من ذالك اولہا الجنة'' (1)
اگر كوئي اپنے مومن بھائي كى حاجت پورى كرے تو قيامت كے دن خدا اس كى ايك لاكھ حاجتيں پورى كريگا جن ميں سب سے پہلى حاجت جنت ہے _
پيغمبر (ص) صرف مسلمانوں ہى كو مدد اور تعاون كى تعليم نہيں ديتے تھے بلكہ آپ (ص) خود بھى مختلف كاموں ميں شريك ہوجاتے تھے يہاں تك كہ اصحاب آگے بڑھ كر آپ، كے بدلے اس كام كے كرنے كا اصرار كرنے لگتے تھے ليكن آنحضرت (ص) اس بات كو قبول نہيں كرتے اور فرماتے تھے كہ خدا اپنے بندہ كو دوسروں كے درميان امتيازى شكل ميں ديكھنا پسند نہيں كرتا_(1)
مدد اور تعاون كى اہميت كو اور زيادہ واضح كرنے كيلئے رسول خدا كے معاشرتى كاموں ميں تعاون اور مدد كى مزيد مثاليں ہم پيش كر رہے ہيں _
--------------------------------------------------------------------------------
1) (داستان راستان ج 1 ص 12)_
جناب ابوطالب كے ساتھ تعاون
پيغمبر اكرم (ص) كے بعثت سے پہلے مكہ كے لوگ فقر و فاقہ اور اقتصادى پريشانيوں ميں مبتلا تھے ، جناب ابوطالب بنى ہاشم كے سردار تھے ، ليكن اولاد كى كثرت كى بنا پر پريشانيوں اور الجھنوں ميں مبتلا رہتے تھے ، پيغمبر (ص) اس صورت حال كو ديكھ كر رنجيدہ ہوتے تھے لہذا ايك روز آپ(ص) نے اپنے دوسرے چچا جناب عباس كے پاس گئے كہ جن كى حالت جناب ابوطالب (ع) كى نسبت زيادہ بہتر تھى اور فرمايا : چچا آپ كے بھائي ابوطالب كا خاندان بڑا ہے اور آپ ديكھ رہے ہيں كہ وہ اقتصادى تنگى ميں گذر بسر كر رہے ہيں آيئےم آپ كے ساتھ چليں اور ان كا بوجھ بانٹ ليں ان كے ايك بچہ كو ميں لے لوں اور ايك كو آپ لے آئيں، عباس نے آپ(ص) كى بات قبول كى ، دونوں حضرات جناب ابوطالب كے پاس پہنچے عباس نے جعفر كو اور پيغمبر (ص) نے على (ع) كو اپنے ساتھ ليا اس طرح ابوطالب كے خاندان كے دو افراد كا بوجھ ان سے كم ہوگيا (1)
مسجد مدينہ كى تعمير ميں شركت :
پيغمبر (ص) جب مدينہ پہنچے تو اس وقت عبادت اور دوسرے سياسى و معاشرتى كاموں كيلئے ايك مسجد بنانا لازمى ہوگيا تھا _
--------------------------------------------------------------------------------
1) ( سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 263) _
رسول خدا (ص) نے مسجد بنانے كى پيشكش كى تو لوگوں نے اس تجويز كا استقبال كيا اور مسجد كے ليے زمين خريدى گئي اور مسجد بننے لگى _
سارے مسلمانوں كى طرح حضور اكرم (ص) بھى پتھر اٹھا كرلا رہے تھے ، اسيد بن حضير نے جب پيغمبر (ص) كو كام كرتے ہوئے ديكھا تو كہا اے اللہ كے رسول آپ (ص) پتھر مجھے ديديں ميں لے چلوں گا آپ(ص) نے فرمايا : نہيں ، جاؤتم دوسرا پتھر اٹھالو(1)
خندق كھودنے ميں پيغمبر (ص) كى شركت
رسول خدا (ص) كى نئي حكومت كو ختم كردينے كے ارادہ سے عرب كے مختلف قباءل مدينہ كى جانب بڑھے _
پيغمبر اكرم (ص) نے دشمنوں كے ارادے كى خبر پاتے ہى اپنے اصحاب كو جمع كيا اور دشمن كے عظيم لشكر سے جنگ اور دفاع كے بارے ميں ان سے مشورہ فرمايا _ جناب سلمان فارسى كى پيشكش اور پيغمبر (ص) كى تائيد سے يہ طے پايا كہ مدينہ كى اطراف ميں خندق كھود دى جائے تا كہ دشمن شہر كے اندر داخل نہ ہوسكے _
ہر بيس تيس قدم كے فاصلہ پر آپ (ص) نے مہاجرين و انصار كو خندق كھودنے كے لئے معين فرمايا جس حصہ ميں مہاجرين خندق كھود رہے تھے وہاں كدال ليكر آپ (ص) خود بھى پہنچ گئے اور
--------------------------------------------------------------------------------
1) ( بحار الانوار ج 9 ص 111)_
خندق كھورنے لگے امير المؤمنين كھدى ہوئي مٹى كو خندق سے نكال كر باہر لے جار رہے تھے پيغمبر اكرم (ص) نے اتنا كام كيا كہ پسينہ سے تر ہوگئے اور تھكاوٹ كے آثار آپ (ص) كے چہرہ سے نماياں تھے آپ(ص) نے فرمايا :
''لا عيش لا عيش الاخرة اللہم اغفر للانصار و المہاجرين ''(1)
آخرت كے آرام كے سوا اور كوئي آرام نہيں ہے اے اللہ مہاجرين و انصار كى مغفرت فرما_
جب آپ (ص) كے اصحاب نے ديكھا كہ آپ (ص) خود بہ نفس نفيس خندق كھودنے اور مٹى اٹھانے ميں منہمك ميں تو ان كو اور زيادہ جوش سے كام كرنے لگے_
جابر ابن عبداللہ انصارى فرماتے ہيں : خندق كھودتے كھودتے ہم ايك بہت ہى سخت جگہ پر پہونچے ہم نے پيغمبر (ص) كى خدمت ميں عرض كى كہ اب كيا كيا جائے آپ(ص) نے فرمايا : وہاں تھوڑا پانى ڈال دو اس كے بعد آپ(ص) وہاں خود تشريف لائے حالانكہ آپ(ص) بھو كے بھى تھے اور پشت پر پتھر باندھے ہوئے تھے ليكن آپ (ص) نے تين مرتبہ خدا كا نام زبان پر جارى كرنے كے بعد اس جگہ پر ضرب لگائي تو وہ جگہ بڑى آسانى سے كھد گئي_(2)
عمرو بن عوف كہتے ہيں كہ ميں اور سلمان اور انصار ميں سے چند افراد مل كر چاليس ہاتھ كے قريب زمين كھود رہے تھے ايك جگہ سخت پتھر آگيا جس كى وجہ سے ہمارے آلات ٹوٹ
--------------------------------------------------------------------------------
1) ( بحار الانوار ج 2 ص 218) _
2 (بحار الانوار ج 20 ص 198)_
گئے ہم نے سلمان سے كہا تم جاكر پيغمبر (ص) سے ماجرا بيان كردو سلمان نے آنحضرت (ص) سے سارا واقعہ بيان كردياآنحضرت (ص) خود تشريف لائے اور آپ(ص) نے چند ضربوں ميں پتھر كو ٹكڑے ٹكڑے كرديا _ (1)
كھانا تيار كرنے ميں پيغمبر (ص) كى شركت
جب پيغمبر (ص) اور آپ كے اصحاب اپنى سواريوں سے اترے اور اپنا سامان اتار ليا تو يہ طے پايا كہ بھيڑ كو ذبح كركے كھانا تيار كيا جائے _
اصحاب ميں سے ايك نے كہا گوسفند ذبح كرنے كى ذمہ دارى ميرے اوپر ہے ، دوسرے نے كہا اس كى كھال ميں اتاروں گا ، تيسرے نے كہا گوشت ميں پكاؤں گا _ رسول خدا (ص) نے فرمايا : جنگل سے لكڑى لانے كى ذمہ دارى ميں قبول كرتا ہوں لوگوں نے كہا اے اللہ كے رسول آپ (ص) زحمت نہ فرمائيں آپ (ص) آرام سے بيٹھيں ان سارے كاموں كو ہم لوگ فخر كے ساتھ انجام دينے كے لئے تيار ہيں ، تو رسول خدا (ص) نے فرمايا : مجھے معلوم ہے كہ تم لوگ سارا كام كرلو گے ليكن خدا كسى بندہ كو اس كے دوستوں كے درميان امتيازى شكل ميں ديكھنا پسند نہيں كرتا _پھر اس كے بعد آپ (ص) صحرا كى جانب گئے اور وہاں سے لكڑى و غيرہ جمع كركے لے آئے _ (2)
--------------------------------------------------------------------------------
1) ( بحار الانوار ج 20 ص 198)_
2) ( داستان راستان منقول از كحل البصر ص 68)_
شجاعت كے معنى :
شجاعت كے معنى دليرى اور بہادرى كے ہيں علمائے اخلاق كے نزديك تہور اور جبن كى درميانى قوت كا نام شجاعت ہے يہ ايك ايسى غصہ والى طاقت ہے جس كے ذريعہ نفس اس شخص پر برترى حاصل كرنا چاہتا ہے جس سے دشمنى ہوجاتى ہے _(1)
جب ميدان كا رزار گرم ہو اور خطرہ سامنے آجائے تو كسى انسان كى شجاعت اور بزدلى كا اندازہ ايسے ہى موقع پر لگايا جاتا ہے _
شجاعت رسول خدا (ص) :
صدر اسلام ميں كفار اور مسلمانوں كے درميان جو جنگيں ہوئيں تاريخ كى گواہى كے مطابق اس ميں كاميابى كى بہت بڑى وجہ حضور نبى اكرم (ص) كى شجاعت تھى آپ(ص) بہ نفس نفيس بہت سى جنگوں ميں موجود تھے اور جنگ كى كمان اپنے ہاتھوں ميں سنبھالے ہوئے تھے _
رسول (ص) كى شجاعت على (ع) كى زبانى :
تقريبا چاليس سال كا زمانہ على (ع) نے ميدان جنگ ميں گذارا عرب كے بڑے بڑے
--------------------------------------------------------------------------------
1) (لغت نامہ دہخدا مادہ شجاعت)
پہلوانوں كو زير كيا آپ (ص) كا يہ بيان رسول خدا (ص) كى شجاعت كى بہترين دليل ہے كہ آپ (ع) فرماتا ہيں :
''كنا اذا احمر الباس و القى القوم اتقينا برسول اللہ فما كان احد اقرب الى العدو منہ'' (1)
جب جنگ كى آگ بھڑكتى تھى اور لشكر آپس ميں ٹكراتے تھے تو ہم رسول خدا (ص) كے دامن ميں پناہ ليتے تھے ايسے موقع پر آپ (ص) دشمن سے سب سے زيادہ نزديك ہوئے تھے_
دوسرى جگہ فرماتے ہيں :
''لقد رايتنى يوم بدر و نحن نلوذ بالنبى و ہو اقربنا الي العدو و كان من اشد الناس يومءذ'' (2)
بے شك تم نے مجھ كو جنگ بدر كے دن ديكھا ہوگا اس دن ہم رسول خدا كى پناہ ميں تھے اور آپ (ص) دشمن سے سب سے زيادہ نزديك اور لشكر ميں سب سے زيادہ قوى تھے_
جنگ '' حنين '' ميں براء بن مالك سے رسول خدا (ص) كى شجاعت كے بارے ميں دوسرى روايت نقل ہوئے ہے جب قبيلہ قيس كے ايك شخص نے براء سے پوچھا كہ كيا تم جنگ حنين كے دن رسول خدا (ص) كو چھوڑ كر بھاگ گئے تھے اور تم نے ان كى مدد نہيں كي
--------------------------------------------------------------------------------
1) ( الوفاء باحوال المصطفى ج 2 ص 443) _
2) ( الوفا باحوال المصطفي ج 2 ص 443)_
تھى ؟ تو انہوں نے كہا :
رسول خدا (ص) نے محاذ جنگ سے فرار نہيں اختيار كيا قبيلہ '' ہوازان '' كے افراد بڑے ماہر تيرانداز تھے _ ابتداء ميں جب ہم نے ان پر حملہ كيا تو انہوں نے فرار اختيار كيا _ جب ہم نے يہ ماحول ديكھا تو ہم مال غنيمت لوٹنے كے لئے دوڑ پڑے ، اچانك انہوں نے ہم پر تيروں سے حملہ كرديا ہيں نے رسول خدا (ص) كو ديكھا كہ وہ سفيد گھوڑے پر سوارہيں_ ابو سفيان بن حارث نے اس كى لگام اپنے ہاتھ ميں پكڑ ركھى ہے اورآنحضرت (ص) فرما رہے ہيں :
''اناالنبى لا كذب و انا بن عبدالمطلب'' (1)
ميں راست گو پيغمبر (ص) ہوں ميں فرزند عبدالمطلب ہوں _
--------------------------------------------------------------------------------
1) ( الوفاء باحوال المصطفي ج 2 ص 443)_
خلاصہ درس :
1 _ باہمى امداد اور تعاون معاشرتى زندگى كى اساس ہے اس سے افراد قوم كے دلوں ميں محبت اور دوستى پيدا ہوتى ہے _
2 _ پيغمبر اكرم (ص) صرف باہمى تعاون كى تعليم ہى نہيں ديتے تھے بلكہ آپ (ص) لوگوں كے كام ميں خود بھى شريك ہوجاتے تھے آپ(ص) كے اس عمل سے باہمى تعاون كى اہميت كا اندازہ ہوتا ہے _
3_شجاعت كے معنى ميدان كار زار ميں دليرى اور بہادرى كے مظاہرہ كے ہيں اور علمائے اخلاق كے نزديك تہور اور جبن كى درميانى قوت كا نام شجاعت ہے _
4_ تاريخ گواہ ہے كہ صدر اسلام ميں مسلمانوں اور كفار كے درميان جو جنگيں ہوئيں ہيں ان ميں رسول اكرم (ص) كى شجاعت اور استقامت فتح كا سب سے اہم سبب تھا_
5_ امير المؤمنين فرماتے ہيں : جنگ بدر كے دن ہم نے رسول خدا (ص) كے دامن ميں پناہ لے لى اور وہ دشمنوں كے سب سے زيادہ قريب تھے اور اس دن تمام لوگوں ميں سے سب زيادہ قوى اور طاقت ور تھے_
سوالات :
1_ باہمى تعاون اور ايك دوسرے كى مدد كى اہميت كو ايك روايت كے ذريعے بيان كيجئے؟
2_ پيغمبر اكرم (ص) كا ابوطالب كے ساتھ كس زمانہ اور كس چيز ميں تعاون تھا ؟
3 _ وہ امور جن كا تعلق معاشرتى امور سے تھا ان ميں رسول اكرم (ص) كى كيا روش تھى مختصر طور پر بيان كيجئے؟
4_ شجاعت كا كيا مطلب ہے ؟
5_ علمائے اخلاق نے شجاعت كى كيا تعريف كى ہے ؟
6_ جنگوں ميں رسول خدا (ص) كى شجاعت كيا تھى ؟ بيان كيجئے؟
|