دسواں سبق:
دسواں سبق:
 

دسواں سبق:
(بدزبانى كرنے والوں سے درگزر)
عفو،درگذر، معافى اور چشم پوشى كے حوالے سے رسول اكرم، اور اءمہ اطہار عليہم السلام كا سبق آموز برتاؤ وہاں بھى نظر آتاہے جہاں ان ہستيوں نے ان لوگوں كو معاف فرماديا كہ جو ان عظيم و كريم ہستيوں كے حضور توہين، جسارت اور بدزبانى كے مرتكب ہوئے تھے، يہ وہ افراد تھے جو ان گستاخوں كو معاف كركے ان كو شرمندہ كرديتے تھے اور اس طرح ہدايت كا راستہ فراہم ہوجايا كرتا تھا_

اعرابى كا واقعہ
ايك دن ايك اعرابى رسول خدا (ص) كى خدمت ميں پہونچا اس نے آنحضرت(ص) سے كوئي چيز مانگى آپ (ص) نے اس كو وہ چيز دينے كے بعد فرمايا كہ : كيا ميں نے تم پر كوئي احسان كيا ہے ؟ اس شخص نے كہا نہيں آپ (ص) نے ہرگز مجھ پر كوئي احسان نہيں كيا ہے _ اصحاب كو غصہ
آگيا وہ آگے بڑھے تو آپ (ص) نے ان كو منع كيا ، پھر آپ(ص) گھر كے اندر تشريف لے گئے اور واپس آكر كچھ اور بھى عطا فرمايا اور اس سے پوچھا كہ كيا اب ميں نے تم پر كوئي احسان كيا ہے ؟ اس شخص نے كہا ہاں آپ (ص) نے احسان كيا ہے خدا آپ كو جزائے خير دے_ رسول خدا (ص) نے فرمايا : تم نے جو بات ميرے اصحاب كہ سامنے كہى تھى ہوسكتاہے كہ اس سے ان كے دل ميں تمہارى طرف سے بدگمانى پيدا ہوگئي ہو لہذا اگر تم پسند كرو تو ان كے سامنے چل كر اپنى رضامندى كا اظہار كردو تا كہ ان كے دل ميں كوئي بات باقى نہ رہ جائے، وہ اصحاب كے پاس آيا پيغمبر (ص) نے فرمايا: يہ شخص مجھ سے راضى ہوگيا ہے،كيا ايسا ہى ہے ؟ اس شخص نے كہا جى ہاں خدا آپ (ص) كو اور آپ(ص) كے خاندان كو جزائے خيردے، پھر آنحضرت(ص) نے فرمايا ميرى اور اس شخص كى مثال اس آدمى جيسى ہے جسكى اونٹنى كھل كر بھاگ گئي ہو لوگ اس كا پيچھا كررہے ہوں اور وہ بھاگى جارہى ہو،اونٹنى كا مالك كہے كہ تم لوگ ہٹ جاو مجھے معلوم ہے كہ اس كو كيسے رام كيا جاتا ہے پھر مالك آگے بڑھے اور اس كے سر اور چہرہ پر ہاتھ پھيرے اس كے جسم اور چہرہ سے گرد و غبار صاف كرے اور اسكى رسى پكڑلے، اگر كل ميں تم كو چھوڑ ديتا تو تم بد زبانى كى بناپر اس كو قتل كرديتے اور يہ جہنم ميں چلاجاتا_

--------------------------------------------------------------------------------
1)(سفينةا لبحار ج1 ص416)_

امام حسن مجتبى اورشامى شخص
ايك دن حسن مجتبى (ع) مدينہ ميں چلے جارہے تھے ايك مرد شامى سے ملاقات ہوئي اس نے آپ (ع) كو برا بھلا كہنا شروع كرديا كيونكہ حاكم شام كے زہريلے پروپيگنڈہ كى بناپر شام كے رہنے والے على (ع) اور فرزندان على (ع) كے دشمن تھے، اس شخص نے يہ چاہا كہ اپنے دل كے بھڑ اس نكال لے، امام (ع) خاموش رہے ، وہ اپنى بات كہہ كر خاموش ہوگيا تو آپ (ع) نے مسكراتے ہوئے كہا '' اے شخص ميرا خيال ہے كہ تو مسافر ہے اور تم ميرے بارے ميں غلط فہمى كا شكار ہوئے ہو ( يعنى تو دشمنوں كے پروپيگنڈوں سے متاثر ہے ) لہذا اگر تو مجھ سے ميرى رضامندے حاصل كرنا چاہے تو ميں تجھ سے راضى ہوجاونگا ، اگر كچھ سوال كروگے تو ہم عطا كريں گے ، اگر رہنمائي اور ہدايت كا طالب ہے تو ہم تيرى رہنمايى كريں گے _ اگر كسى خدمتگار كى تجھ كو ضرورت ہے تو ہم تيرے لئے اس كا بھى انتظام كريں گے _ اگر تو بھوكا ہوگا تو ہم تجھے سير كريں گے محتاج لباس ہوگا تو ہم تجھے لباس ديں گے_ محتاج ہوگا تو ہم تجھے بے نياز كريں گے _ پناہ چاہتے ہو تو ہم پناہ ديں گے _ اگر تيرى كوئي بھى حاجت ہو تو ہم تيرى حاجت روائي كريں گے _ اگر تو ميرے گھر مہمان بننا چاہتاہے تو ميں راضى ہوں يہ تيرے لئے بہت ہى اچھا ہوگا اس لئے كہ ميرا گھر بہت وسيع ہے اور ميرے پاس عزت و دولت سبھى كچھ موجود ہے _
جب اس شامى نے يہ باتيں سنيں تو رونے لگا اور اس نے كہا كہ ميں گواہى ديتا ہوں كہ
آپ (ع) زميں پر خليفة اللہ ہيں ، خدا ہى بہتر جانتا ہے اپنى رسالت اور خلافت كو كہاں قرار دے گا _ اس ملاقات سے پہلے آپ (ع) اور آپ(ع) كے پدر بزرگوار ميرے نزديك بہت بڑے دشمن تھے اب سب سے زيادہ محبوب آپ ہى حضرات ہيں _
پھروہ امام كے گھر گيا اور جب تك مدينہ ميں رہا آپ ہى كا مہمان رہا پھر آپ كے دوستوں اور اہلبيت (عليہم السلام )كے ماننے والوں ميں شامل ہو گيا _(1)

امام سجاد (ع) اور آپ كا ايك دشمن
منقول ہے كہ ايك شخص نے امام زين العابدين (ع) كو برا بھلا كہا آپ كو اس نے دشنام دى آپ (ع) نے اس كا كوئي جواب نہيں ديا ، پھر آپ(ع) نے اپنے اصحاب سے پلٹ كر كہا: آپ لوگوں نے اس شخص كى باتيں سنں ؟ اب آپ ہمارے ساتھ آئيں تا كہ ہمارا بھى جواب سن ليں وہ لوگ آپ كے ساتھ چل ديئے اور جواب كے منتظر رہے _ ليكن انہوں نے ديكھا كہ امام (ع) راستے ميں مندرجہ ذيل آيت كى تلاوت كر رہے ہيں _
''و الكاظمين الغيظ و العافين عن الناس و اللہ يحب المحسنين ''(2)
وہ لوگ جو اپنے غصہ كوپى جاتے ہيں; لوگوں كو معاف كرديتے ہيں ، خدا نيكى كرنيوالوں كو دوست ركھتا ہے _

--------------------------------------------------------------------------------
1) ( منتہى الامال ج 1 ص 162)_
2) (آل عمران134)_

ان لوگوں نے سمجھا كہ امام (ع) اس شخص كو معاف كردينا چاہتے ہيں جب اس شخص كے دروازہ پر پہونچے او حضرت (ع) نے فرمايا : تم اس كو جاكر بتادو على بن الحسين (ع) آئے ہيں ، وہ شخص ڈراگيا اور اس نے سمجھا كہ آپ(ع) ان باتوں كا بدلہ لينے آئے ہيں جو باتيں وہ پہلے كہہ كے آيا تھا ، ليكن امام (ع) نے فرمايا: ميرے بھائي تيرے منہ ميں جو كچھ 1آيا تو كہہ كے چلا آيا تو نے جو كچھ كہا تھا اگر وہ باتيں ميرے اندر موجود ہيں تو ميں خدا سے مغفرت كا طالب ہوں اور اگر نہيں ہيں تو خدا تجھے معاف كرے ، اس شخص نے حضرت كى پيشانى كا بوسہ ديا اور كہا ميں نے جو كچھ كہا تھا وہ باتيں آپ ميں نہيں ہيں وہ باتيں خود ميرے اندر پائي جاتى ہيں _(1)
اءمہ معصومين (عليہم السلام ) صرف پسنديدہ صفات اور اخلاق كريمہ كى بلنديوں كے مالك نہ تھے بلكہ ان كے مكتب كے پروردہ افراد بھى شرح صدر اور وسعت قلب اور مہربانيوں كا مجسمہ تھے نيز نا واقف اور خود غرض افراد كو معاف كرديا كرتے تھے _

مالك اشتر كى مہربانى اور عفو
جناب مالك اشتر مكتب اسلام كے شاگرد اور حضرت اميرالمومنين على (ع) كے تربيت كردہ تھے اور حضرت على (ع) كے لشكر كے سپہ سالار بھى تھے آپ كى شجاعت كا يہ عالم تھا كہ ابن ابى الحديد نے تحرير كيا ہے كہ اگر كوئي يہ قسم كھائے كہ عرب اور عجم ميں على (ع) كے علاوہ مالك اشتر

--------------------------------------------------------------------------------
1) (بحارالانوار ج 46 ص 55) _

سے بڑھ كر كوئي شجاع نہيں ہے تو اس كى قسم صحيح ہوگى حضرت على (ع) نے آپ كے بارے ميں فرمايا : مالك اشتر ميرے لئے اس طرح تھا جيسے ميں رسول خدا كے لئے تھا _ نيز آپ (ع) نے اپنے اصحاب سے فرمايا : كاش تمہارے در ميان مالك اشتر جيسے دو افراد ہوتے بلكہ ان كے جيسا كوئي ايك ہوتا _ايسى بلند شخصيت اور شجاعت كے مالك ہونے كے با وجود آپ كا دل رحم و مروت سے لبريز تھا ايك دن آپ بازار كوفہ سے گذر رہے تھے ، ايك معمولى لباس آپ نے زيب تن كر ركھا تھا اور اسى لباس كى جنس كا ايك ٹكڑا سر پر بندھا ہوا تہا ، بازار كى كسى دو كان پر ايك شخص بيٹھا ہوا تھا، جب اس نے مالك كو ديكھا كہ وہ اس حالت ميں چلے جارہے ہيں تو اس نے مالك كو بہت ذليل سمجھا اور بے عزتى كرنے كى غرض سے آپ كى طرف سبزى كا ايك ٹكڑا اچھال ديا، ليكن آپ نے كوئي توجہ نہيں كى اور وہاں سے گزر گئے ايك اور شخص يہ منظر ديكھ رہاتھا وہ مالك كو پہچانتا تھا، اس نے آدمى سے پوچھا كہ كيا تم كو معلوم ہے كہ تم نے كس كى توہين كى ہے؟ اس نے كہا نہيں ، اس شخص نے كہا كہ وہ على (ع) كے صحابى مالك اشتر ہيں وہ شخص كانپ اٹھا اور تيزى سے مالك كى طرف دوڑا تا كہ آپ تك پہنچ كر معذرت كرے، مالك مسجد ميں داخل ہو چكے تھے اور نماز ميں مشغول ہوگئے تھے، اس شخص نے مالك كے نماز سے فارغ ہونے كا انتظار كيا جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو اس نے پہلے سلام كيا پھر قدموں كے بوسے لينے لگا، مالك نے اس كا شانہ پكڑ كر اٹھايا اور كہا يہ كيا كررہے ہوا؟ اس شخص نے كہا كہ جو گناہ مجھ سے سرزد ہوچكاہے ميں اس كے
لئے معذرت كررہاہوں، اس لئے كہ ميں اب آپ كو پہچان گيا ہوں، مالك نے كہا كوئي بات نہيں تو گناہ گار نہيں ہے اس لئے كہ ميں مسجد ميں تيرى بخشش كى دعا كرنے آيا تھا_(1)

ظالم سے درگذر
خدا نے ابتدائے خلقت سے انسان ميں غيظ و غضب كا مادہ قرار ديا ہے ، جب كوئي دشمن اس پر حملہ كرتاہے يا اس كا كوئي حق ضاءع ہوتاہے يا اس پر ظلم ہوتاہے يا اس كى توہين كى جاتى ہے تو يہ اندرونى طاقت اس كو شخصيت مفاد اور حقوق سے دفاع پر آمادہ كرتى ہے اور يہى قوت خطروں كو برطرف كرتى ہے _
قرآن كا ارشاد ہے :
''فمن اعتدى عليكم فاعتدوا بمثل ما عتدى عليكم''(2)
جو تم پر ظلم كرے تو تم بھى اس پر اتنى زيادتى كرسكتے ہو جتنى اس نے كى ہے _
قرآن مجيد ميں قانون قصاص كو بھى انسان اور معاشرہ كى حيات كا ذريعہ قرار ديا گياہے اور يہ واقعيت پر مبنى ہے _
''و لكم فى القصاص حيوة يا اولى الالباب ''(3)
اے عقل والو قصاص تمہارى زندگى كى حفاظت كيلئے ہے_

--------------------------------------------------------------------------------
1) (منتہى الامال ص 155)_
2) (بقرہ 194)_
3) (بقرہ 179) _

ليكن بلند نگاہيوں اور ہمتوں كے مالكوںكى نظر ميں مقابلہ بالمثل اور قصاص سے بڑھ كر جو چيز اہميت كى حامل ہے وہ آتش غضب كو آپ رحمت سے بجھا ديناہے _
''و ان تعفوااقرب للتقوي'' (1)
اگر تم معاف كردو تو يہ تقوي سے قريب ہے_
عفو اور درگذر ہر حال ميں تقوي سے نزديك ہے اسلئے كہ جو شخص اپنے مسلم حق سے ہاتھ اٹھالے تو اس كا مرتبہ محرمات سے پرہيز كرنے والوں سے زيادہ بلند ہے(2)
رسول خدا (ص) اور اءمہ معصومين (عليہم السلام) پر جن لوگوں نے ظلم ڈھائے ان كے ساتھ رسول خدا (ص) اور اءمہ اطہار كا ہم كو كچھ اور ہى سلوك نظر آتاہے جن لوگوں نے اپنى طاقت كے زمانہ ميں حقوق كو پامال كيا اور ظلم و ستم كا بازار گرم ركھا جب وہى افراد ذليل و رسوا ہوكر نظر لطف و عنايت كے محتاج بن گئے تو رسول خدا (ص) اور اءمہ اطہار نے ان كو معاف كرديا_

امام زين العابدين (ع) اور ہشام
بيس سال تك ظلم و استبداد كے ساتھ حكومت كرنے كے بعد سنہ 86 ھ ميں عبدالملك بن مروان دنيا سے رخصت ہوگيا اس كے بعد اس كا بيٹا وليد تخت خلافت پر بيٹھا اس نے

--------------------------------------------------------------------------------
1) (بقرہ 237)_
2) (الميزان ج2 ص 258)_

لوگوں كى توجہ حاصل كرنے اور عمومى مخالفت كا زور كم كرنے كے لئے حكومت كے اندر كچھ تبديلى كى ان تبديليوں ميں سے ايك تبديلى يہ تھى كہ اس نے مدينہ كے گورنر ہشام بن اسماعيل كو معزول كرديا كہ جس نے اہلبيت (عليہم السلام) پر بڑا ظلم كيا تھا جب عمر بن عبدالعزيز مدينہ كا حاكم بنا تو اس نے حكم ديا كہ ہشام كو مروان حكم كے گھر كے سامنے لاكر كھڑا كياجائے تا كہ جو اس كے مظالم كا شكا رہوئے ہيں وہ آئيں اور ان كے مظالم كى تلافى ہوجائے_لوگ گروہ در گروہ آتے اورہشام پر نفرين كرتے تھے اور اسے گالياں ديتے تھے، ہشام على بن الحسين (ع) سے بہت خوفزدہ تھا اور يہ سوچ رہا تھا كہ ميں نے چونكہ ان كے باپ پر لعن كيا ہے لہذا اسكى سزا قتل سے كم نہيں ہوگى ، ليكن امام (ع) نے اپنے چاہنے والوں سے كہا كہ : يہ شخص اب ضعيف اور كمزور ہوچكاہے اخلاق كا تقاضا يہ ہے كہ ضعيفوں كى مدد كرنى چاہئے، امام (ع) ہشام كے قريب آئے اور آپ(ع) نے اس كو سلام كيا ، مصافحہ فرمايا اور كہا كہ اگر ہمارى مدد كى ضرورت ہو تو ہم تيار ہيں ، آپ (ع) نے اپنے اصحاب سے فرمايا كہ : تم اس كے پاس زيادہ نہ جاو اس لئے كہ تمہيں ديكھ كر اس كو شرم آئے گى ايك روايت كے مطابق امام (ع) نے خليفہ كو خط لكھا كہ اس كو آزاد كردو اور ہشام كو چند دنوں كے بعد آزاد كرديا گيا_(1)

--------------------------------------------------------------------------------
1)(بحارالانوار ج46 ص 94)_

امام رضا (ع) اور جلودي
جلودى وہ شخص تھا جس كو محمد بن جعفر بن محمد كے قيام كے زمانہ ميں مدينہ ميں ہارون الرشد كى طرف سے اس بات پر مامور كيا گيا تھا كہ وہ علويوں كى سركوبى كرے ان كو جہاں ديكھے قتل كردے ، اولاد على (ع) كے تمام گھروں كو تاراج كردے اور بنى ہاشم كى عورتوں كے زيورات چھين لے ، اس نے يہ كام انجام بھى ديا جب وہ امام رضا(ع) كے گھر پہونچا تو اس نے آپ(ع) كے گھر پر حملہ كردياامام (ع) نے عورتوں اور بچوں كو گھر ميں چھپاديا اور خود دروازہ پر كھڑے ہوگئے، اس نے كہاكہ مجھ كو خليفہ كى طرف سے يہ حكم ديا گيا ہے كہ عورتوںكے تمام زيورات لے لوں، امام نے فرمايا: ميں قسم كھاكر كہتاہوں كہ ميں خود ہى تم كو سب لاكردے دونگا كوئي بھى چيز باقى نہيں رہے گى ليكن جلودى نے امام (ع) كى بات ماننے سے انكار كرديا، يہاں تك كہ امام (ع) نے كئي مرتبہ قسم كھاكر اس سے كہا تو وہ راضى ہوگيا اور وہيںٹھہرگيا، امام (ع) گھر كے اندر تشريف لے گئے، آپ (ع) نے سب كچھ يہانتك كہ عورتوں اور بچوں كے لباس نيز جو اثاثہ بھى گھر ميں تھا اٹھالائے اور اس كے حوالہ كرديا _
جب مامون نے اپنى خلافت كے زمانہ ميں امام رضا(ع) كو اپنا ولى عہد بنايا تو جلودى مخالفت كرنے والوں ميں تھا اور مامون كے حكم سے قيد ميں ڈال ديا گيا ، ايك دن قيدخانہ سے نكال كر اسكو ايسى بزم ميں لايا گيا جہاں امام رضا(ع) بھى موجود تھے، مامون جلودى كو قتل كرنا چاہتا تھا ليكن امام (ع) نے كہا : اس كو معاف كرديا جائے، مامون نے كہا : اس نے آپ (ع) پر
بڑا ظلم كيا ہے _ آپ (ع) نے فرمايا اس كى باوجود اس كو معاف كرديا جائے_
جلودى نے ديكھا كہ امام مامون سے كچھ باتيں كررہے ہيں اس نے سمجھا كہ ميرے خلاف كچھ باتيں ہورہى ہيں اور شايد مجھے سزا دينے كى بات ہورہى ہے اس نے مامون كو قسم ديكر كہا كہ امام (ع) كى بات نہ قبول كى جائے ، مامون نے حكم ديا كہ جلودى كى قسم اور اس كى درخواست كے مطابق اسكو قتل كرديا جائے_(1)

سازش كرنے والے كى معافي
پيغمبر (ص) اور اءمہ(عليہم السلام) نے ان افراد كو بھى معاف كرديا جنہوں نے آپ(ع) حضرات كے خلاف سازشيں كيں اور آپ (ع) كے قتل كى سازش كى شقى اور سنگدل انسان اپنى غلط فكر كى بدولت اتنا مرجاتاہے كہ وہ حجت خدا كو قتل كرنے كى سازش كرتاہے ليكن جو افراد حقيقى ايمان كے مالك اور لطف و عنايت كے مظہر اعلى ہيں وہ ايسے لوگوں كى منحوس سازشوں كے خبر ركھنے كے باوجود ان كے ساتھ عفو و بخشش سے پيش آتے ہيں اور قتل سے پہلے قصاص نہيں ليتے البتہ ذہنوں ميں اس نكتہ كا رہنا بہت ضرورى ہے كہ پيغمبر (ص) اور اءمہنے ايك طرف تو اپنے ذاتى حقوق كے پيش نظر ان كو معاف كرديا دوسرى طرف انہوں نے اپنے علم غيب پر عمل نہيں كيا، ا س لئے كہ علم غيب پر عمل كرنا ان كا فريضہ نہ تھا وہ ظاہر كے

--------------------------------------------------------------------------------
1) ( بحارالانوار ج9 ص 167 ، 166)_

مطابق عمل كرنے پر مامور تھے_ لہذا جو لوگ نظام اسلام كے خلاف سازشيں كرتے ہيں انكا جرم ثابت ہوجانے كے بعد ممكن ہے كہ ان كو معاف نہ كيا جائے يہ چيز اسلامى معاشرہ كى عمومى مصلحت و مفسدہ كى تشخيص پر مبنى ہے اس سلسلہ ميں رہبر كا فيصلہ آخرى فيصلہ ہوتاہے_

ايك اعرابى كا واقعہ
جنگ خندق سے واپسى كے بعد سنہ 5 ھ ميں ابوسفيان نے ايك دن قريش كے مجمع ميں كہا كہ مدينہ جاكر محمد(ص) كو كون قتل كرسكتاہے؟ كيونكہ وہ مدينہ كے بازاروں ميں اكيلے ہى گھومتے رہتے ہيں ، ايك اعرابى نے كہا كہ اگر تم مجھے تيار كردو تو ميں اس كام كيلئے حاضر ہوں، ابوسفيان نے اس كو سوارى اور اسلحہ ديكر آدھى رات خاموشى كے ساتھ مدينہ روانہ كرديا،اعرابى مدينہ ميں پيغمبر (ص) كو ڈھنڈھتاہوا مسجد ميں پہنچاآنحضرت (ص) نے جب اسكو ديكھا تو كہا كہ يہ مكار شخص اپنے دل ميں برا ارادہ ركھتاہے، وہ شخص جب پيغمبر (ص) كے قريب آيا تو اس نے پوچھاكہ تم ميں سے فرزند عبدالمطلب كون ہے ؟ آپ (ص) نے فرمايا: ميں ہوں، اعرابى آگے بڑھ گيا اسيد بن خضير كھڑے ہوئے اسے پكڑليا اور اس سے كہا : تم جيسا گستاخ آگے نہيں جاسكتا، جب اسكى تلاشى لى تو اس كے پاس خنجر نكلاوہ اعرابى فرياد كرنے لگا پھر اس نے اسيد كے پيروں كا بوسہ ديا _
پيغمبر (ص) نے فرمايا : سچ سچ بتادو كہ تم كہاں سے اور كيوں آئے تھے؟ اعرابى نے پہلے امان چاہى پھر سارا ماجرا بيان كرديا،پيغمبر(ص) كے حكم كے مطابق اسيد نے اسكو قيد كرديا ، كچھ دنوں بعد پيغمبر (ص) نے اسكو بلاكر كہا تم جہاں بھى جانا چاہتے ہو چلے جاو ليكن اسلام قبول كرلو تو (تمہارے لئے) بہتر ہے اعرابى ايمان لايا اور اس نے كہا ميں تلوار سے نہيں ڈرا ليكن جب ميں نے آپ (ص) كو ديكھا تو مجھ پر ضعف اور خوف طارى ہوگيا، آپ تو ميرے ضمير و ارادہ سے آگاہ ہوگئے حالانكہ ابوسفيان اور ميرے علاوہ كسى كو اس بات كى خبر نہيں تھي، كچھ دنوں وہاں رہنے كے بعد اس نے پيغمبر(ص) سے اجازت حاصل كى اور مكہ واپس چلا گيا _(1)
اس طرح پيغمبر (ص) كے عفو اور درگذر كى بناپر ايك جانى دشمن كيلئے ہدايت كا راستہ پيدا ہوگيا اور وہ آنحضرت(ص) كے اصحاب ميں شامل ہوگيا_

يہوديہ عورت كى مسموم غذا
امام محمد باقر (ع) سے منقول ہے كہ ايك يہودى عورت نے ايك گوسفند كى ران كو زہرآلود كركے پيغمبر (ص) كے سامنے پيش كيا ، ليكن پيغمبر نے جب كھانا چاہا تو گوسفند نے كلام كى اور كہا اے اللہ كے رسول (ص) ميں مسموم ہوں آپ (ص) نہ كھائيں _پيغمبر (ص) نے اس عورت كو بلايا اور اس سے پوچھا كہ تو نے ايسا كيوں كيا ؟ اس عورت نے كہا كہ ميں نے اپنے دل ميں يہ سوچا تھا كہ

--------------------------------------------------------------------------------
1) (ناسخ التواريخ ج2 ص151)_
اگر آپ (ص) پيغمبر ہيں ، تو آپ(ص) كو زہر نقصان نہيں كريگا اور اگر آپ (ص) پيغمبر نہيں ہيں تو لوگوں كو آپ(ص) سے چھٹكارا مل جائيگا، رسول خد ا (ص) نے اس عورت كو معاف كرديا _(1)

على (ع) اور ابن ملجم
حضرت على (ع) اگرچہ ابن ملجم كے برے ارادہ سے واقف تھے ليكن آپ (ع) نے اس كے خلاف كوئي اقدام نہيں كيا اصحاب امير المؤمنين (ع) كو اس كى سازش سے كھٹكا تھا انہوں نے عرض كى كہ آپ (ع) ابن ملجم كو پہچانتے ہيں اور آپ (ع) نے ہم كو يہ بتايا بھى ہے كہ وہ آپ كا قاتل ہے پھر اس كو قتل كيوں نہيں كرتے؟ آپ (ع) نے فرمايا: ابھى اس نے كچھ نہيں كيا ہے ميں اسكو كيسے قتل كردوں ؟ ماہ رمضان ميں ايك دن على (ع) نے منبر سے اسى مہينہ ميں اپنے شہيد ہوجانے كى خبر دى ابن ملجم بھى اس ميں موجود تھا، آپ (ع) كى تقرير ختم ہونے كے بعد آپ (ع) كے پاس آيا اور اس نے كہا كہ ميرے دائيں بائيں ہاتھ ميرے پاس ہيں آپ (ع) حكم دےديجئے كہ ميرے ہاتھ كاٹ ڈالے جائيں يا ميرى گردن اڑادى جائے _
حضرت على (ع) نے فرمايا: تجھ كو كيسے قتل كردوں حالانكہ ابھى تك تجھ سے كوئي جرم نہيں سرزد ہوا ہے_(1)

--------------------------------------------------------------------------------
1) (حيات القلوب ج2 ص 121)_
2) (ناسخ التواريخ ج1 ص 271 ، 268)_
جب ابن ملجم نے آپ (ع) كے سرپر ضربت لگائي تو اسكو گرفتار كركے آپ (ع) كے پاس لايا گيا آپ (ع) نے فرمايا: ميں نے يہ جانتے ہوئے تيرے ساتھ نيكى كہ تو ميرا قاتل ہے ، ميں چاہتا تھا كہ خدا كى حجت تيرے اوپر تمام ہوجائے پھر اس كے بعد بھى آپ (ع) نے اس كے ساتھ اچھا سلوك كرنے كا حكم ديا_(1)

سختي
اب تك رسول خدا (ص) اور اءمہ (عليہم السلام)كے دشمن پر عفو و مہربانى كے نمونے پيش كئے گئے ہيں اور يہ مہربانياں ايسے موقع پر ہوتى ہيں جب ذاتى حق كو پامال كيا جائے يا ان كى توہين كى جائے اور ان كى شان ميں گستاخى كى جائے، مثلا ً فتح مكہ ميں كفار قريش كو معاف كرديا گيا حالانكہ انہوں نے مسلمانوں پر بڑا ظلم ڈھايا تھا ليكن رسول خدا (ص) چونكہ مومنين كے ولى ہيں اور آپ (ص) كو حق حاصل ہے ، اس لئے آپ (ص) نے اسلامى معاشرہ كى مصلحت كے پيش نظر بہت سے مشركين كو معاف فرماديا تو بعض مشركين كو قتل بھى كيا ، يہاں غور كرنے كى بات يہ ہے كہ معاف كردينے اور درگذر كرنے كى بات ہر مقام پر نہيں ہے اس لئے كہ جہاں احكام الہى كى بات ہو اور حدود الہى سامنے آجائيں اور كوئي شخص اسلامى قوانين كو پامال كركے مفاسد اور منكرات كا مرتكب ہوجائے يا سماجى حقوق اور مسلمانوں

--------------------------------------------------------------------------------
1) (اقتباس از ترجمہ ارشاد مفيد رسول محلاتى ص 11)

كے بيت المال پر حملہ كرنا چاہے كہ جس ميں سب كا حق ہے تو وہ معاف كردينے كى جگہ نہيں ہے وہاں تو حق يہ ہے كہ تمام افراد پر قانون كا اجرا ہوجائے چاہے وہ اونچى سطح كے لوگ ہوں يا نيچى سطح كے ، شريف ہوں يا رذيل_
پيغمبر (ص) اور اءمہ ''والحافظون لحدود اللہ''(1)(حدود و قوانين الہى كے جارى كرنے والے اور انكى محافظت كرنے والے) كے مكمل مصداق ہيں_
پيغمبر اكرم (ص) كى زندگى اور حضرت على (ع) كے دور حكومت ميں ايسے بہت سے نمونے مل جاتے ہيں جن ميں آپ حضرات نے احكام الہى كو جارى كرنے ميں سختى سے كام ليا ہے معمولى سى ہى چشم پوشى نہيں كى _

مخزوميہ عورت
جناب عائشےہ سے منقول ہے كہ ايك مخزومى عورت كسى جرم كى مرتكب ہوئي ، پيغمبر (ص) كى طرف سے اسكا ہاتھ كاٹنے كا حكم صادر ہوا ، اس كے قبيلہ والوں نے اس حد كے جارى ہونے ميں اپنى بے عزتى محسوس كى تو انہوں نے اسامہ كو واسطہ بنايا تا كہ پيغمبر (ص) كے پاس كردہ ان كى سفارش كريں رسول خدا (ص) نے فرمايا: اسامہ، حدود خدا كے بارے ميں تم كو ئي بات نہ كرنا پھر آپ (ص) نے خطبہ ميں فرمايا: خدا كى قسم تم سے پہلے كى امتيں اس لئے ہلاك

--------------------------------------------------------------------------------
1) (سورہ توبہ 112) _
ہوگئيں كہ ان ميں اہل شرف اور بڑے افراد چورى كيا كرتے تھے ان كو چھوڑديا جاتا تھا اگر كوئي چھوٹا آدمى چورى كرتا تھا تو اس پر حكم خدا كے مطابق حد جارى كرتے تھے ، خدا كى قسم اگر ميرى بيٹى فاطمہبھى اس جرم كى مركتب ہو تو بھى ميرا يہى فيصلہ ہوگا پھر آپ (ص) نے اس عورت كے ہاتھ كاٹنے كا حكم صادر فرمائي(1)
آخرميں خداوند عالم كى بارگاہ ميں يہ دعا ہے كہ وہ ہم كو رحمة للعالمين كے سچے پيروكاروں ميں شامل كرے اور يہ توفيق دے كہ ہم ''والذين معہ اشداء على الكفار و رحماء بينہم'' كے مصداق بن جائيں، دشمن كے ساتھ سختى كرنيوالے اور آپس ميں مہر و محبت سے پيش آنيوالے قرار پائيں _

--------------------------------------------------------------------------------
1) (ميزان الحكمہ ج2 ص 308)_

خلاصہ درس
1) رسول اكرم (ص) اور اءمہ معصومين كاايك تربيتى درس يہ بھى ہے كہ بدزبانى كے بدلے عفو اور چشم پوشى سے كام ليا جائے_
2 ) نہ صرف يہ كہ اءمہ معصومين ہى پسنديدہ صفات كى بلنديوں پر فاءز تھے بلكہ آپ (ع) كے مكتب اخلاق و معرفت كے تربيت يافتہ افراد بھى شرح صدر اور مہربان دل كے مالك تھے، كہ ناواقف اور خودغرض افراد كے ساتھ مہربانى اور رحم و مروت كا سلوك كيا كرتے تھے_
3) جن لوگوں نے رسول اكرم (ص) اور اءمہ معصومين كے اوپر ظلم كيا ان كو بھى ان بزرگ شخصيتوں نے معاف كرديا ، يہ معافى اور درگزر كى بڑى مثال ہے _
4 ) پيغمبر (ص) اور اءمہ (ع) كے عفو كا ايك نمونہ يہ بھى ہے كہ آپ حضرات نے ان لوگوں كو بھى معاف كرديا جن لوگوں نے آپ كے قتل كى سازش كى تھي_
5 ) قابل توجہ بات يہ ہے كہ معافى ہر جگہ نہيں ہے اس لئے كہ جب احكام الہى كى بات ہو تو اور حقوق الہى پامال ہونے كى بات ہو اور جو لوگ قوانين الہى كو پامال كرنا چاہتے ہيں ان كے لئے معافى كو كوئي گنجائشے نہيں ہے بلكہ عدالت يہ ہے كہ تمام افراد كے ساتھ قانون الہى جارى كرنے ميں برابر كا سلوك كيا جائے_

سوالات
1 _ وہ اعرابى جو پيغمبر (ص) سے زيادہ طلب كررہا تھا اس كے ساتھ آپ (ص) نے كيا سلوك كيا تفصيل سے تحرير كيجئے؟
2_ امام زين العابدين (ع) كى جس شخص نے امانت كى آپ (ع) نے اس كے ساتھ كيا سلوك كيا ؟
3_ رسول خدا (ص) اور اءمہ معصومين (عليہم السلام) نے اپنے اوپر ظلم كرنے والوں كو كب معاف فرمايا؟
4 _ پيغمبر اكرم (ص) اور اءمہ معصومين ( عليہم السلا م) جب سازشوں سے واقف تھے تو انہوں نے سازش كرنيوالوں كو تنبيہ كاكوئي اقدام كيوں نہيں كيا ، مثال كے ذريعہ واضح كيجئے؟
5 _ جن جگہوں پر قوانين الہى پامال ہورہے ہوں كياوہاں معاف كيا جاسكتاہے يا نہيں ؟ مثال كے ذريعہ سمجھايئے