٨۔ اپنے آپ کو سنوارنا
اسلام میں زینت اورآراستگی کو خاص اہمیت دی گئی ہے او ردینی پیشواؤں نے اس سلسلہ میں بھی کچھ باتیں بیان کی ہیںجو انسان کی زندگی میں اس چیز کی اہمیت کی دلیل ہے۔ یہ خصوصیت ، دوسروں کی نسبت ، جوانوں میں زیادہ پایی جاتی ہے اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے بھی اس قسم کے رجحانات کو ممنوع قرارنہیں دیا ہے، بلکہ عملی طور پر ان کی تائید کی ہے ۔
حضرت اما م جعفر صادق اپنے بالوں پر تیل لگاتے ہوئے فرماتے تھے:
''خداوندا ! میں تجھ سے زیبایی و زینت کی درخواست کرتا ہوں''(١٧٧)
اما م جعفر صادق سے یہ بھی نقل ہو ا ہے:
''ایک شخص رسول خدا ۖ کے گھر آیا اور آپ ۖ سے ملاقات کی درخواست کی۔ جب آپۖ اپنے گھر سے باہر نکل کر اس شخص سے ملنا چاہتے تھے،تو ایک آئینہ یا پانی کے برتن کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے سر اور چہرہ کو آراستہ فرمایا۔
عائشہ نے یہ کام دیکھ کر تعجب کیا اور آنحضرت ۖ کے واپس تشریف لانے پر آپ ۖ
..............
١٧٧۔ مکارم الاخلاق، ص ٥١
سے پوچھا: یا رسول اللہ ۖ! آپ ۖ باہر نکلتے وقت کیوں پانی کے برتن کے سامنے کھڑے ہوگئے اور اپنے بال اور چہرے کو آراستہ کیا؟ آپۖ نے جواب میں فرمایا: اے عائشہ ! خداوندمتعال دوست رکھتا ہے ، جب ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے ملنے کے لئے جائے تو و ہ اپنے آپ کو سنوار کے اس کے پاس جائے ''(١٧٨)
اگر چہ اسلام نے ظاہری زیبایی اور لباس کو اہمیت دی ہے ، لیکن معنوی قدروں اور روحانی زیبائیوں کو اسے نقصان نہیں پہنچنا چاہئے، کیونکہ معنوی زیبایی درحقیقت وہی حقیقی زیبایی ہے او رظاہری زیبایی اسی صورت میں اچھی ہوتی ہے جب باطنی خوبصورتی اور نیک اخلاق کے ساتھ ہو۔
جوانی کے آفات
اگر چہ جوانی خداوند متعال کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے، لیکن اسے بعض آفات کا خطرہ لاحق ہو تا ہے، ان میں سے چند آفتوں کی طرف ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
١۔ جوانی کی طاقت سے غفلت
جوانی کی طاقت کو در پیش آفات میں سے ایک اس طاقت سے صحیح طور پر استفادہ نہ کرنا اوراس کا بیجا استعمال بھی ہے۔ چنانچہ اسلامی روایات میں اس امر کی طرف اشارہ ہوا ہے:
''جس جوان نے اپنی فرصت کے او قات سے مناسب استفادہ نہ کیا ہو، وہ
بوڑھاپے میں خداوند متعال کے احکام اوردستورات کی اطاعت کرنے کی توانائی سے محروم رہے گا''(١٧٩)
٢۔ جوانی کی ناپائیداری
جوانی کی آفتوں میں سے ایک آج کا کام کل پر چھوڑنا اور فرصت اور موقع کو کھودینا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
''عقلمند اور با شعور جوان اپنی اسی ناپائیدار جوانی سے جلد اور بہتر استفادہ کرتا ہے اور اپنے نیک اعمال و برتاؤ کو بڑھا وادیتا ہے١ور علم حاصل کرنے کی سعی و کوشش کرتا ہے ''(١٨٠)
..............
١٧٨۔ ''با تربیت مکتبی آشناشویم'' ، ص ١١٣
١٧٩۔ کافی ، ج ٢، ص ١٣٥، تاریخ یعقوبی ، ج ٢، ص٥٩
١٨٠۔ نہج البلاغہ ، فیض، خطبہ نمبر ٨٢
خطاکار جوانوں سے برتاؤ کا طریقہ
جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ، پیغمبر اسلام ۖ جوانوں کے تئیں خاص احترام کے قائل تھے
١ورہمیشہ ان سے محبت کرتے تھے اور ان کی عزّت کرتے تھے۔لیکن گہری تحقیق کے بعد پیغمبر اسلام ۖکی سیرت میں ایک اور موضوع ملتا ہے،جو قابل غور واہمیت کا حامل ہے اور وہ موضوع گناہگار اور خطا کار جوانوں سے آپۖ کے برتائو کا طریقہ ہے ۔ہم اس کے چند نمونے ذیل میں بیان کرتے ہیں:
امامحمد باقر علیہ السلام نے فر مایا:
ٍٍ''فضل ابن عباس ایک خوبصورت جوان تھے۔عید قربان کے دن پیغمبر اکرم ۖکے ساتھ( آپ ۖکے مرکب پر)سوار تھے۔اسی اثناء میںقبیلہء خثعم کی ایک خوبصورت عورت اپنے بھائی کے ہمراہ پیغمبر اسلام ۖسے احکام شرعی سے متعلق چند مسائل پوچھنے کے لئے آپۖکے پاس آئی۔اس عورت کا بھائی شرعی مسائل پوچھ رہاتھا اورفضل ابن عباس اس عورت کو دیکھ رہا تھا!
رسول خدا ۖنے فضل کی ٹھوڑی پکڑ کر اس کے رخ کواس عورت سے موڑ دیاتاکہ اس پر نگاہ نہ کر سکے۔لیکن اس جوان نے دوسری طرف سے دیکھنا شروع کیا،یہاں تک کہ پیغمبر ۖنے اس طرف سے بھی اسے موڑ دیا۔
جب رسول خدا ۖاس عرب کے سوالات کا جواب دے چکے ،توفضل ا بن عباس کے شانوں کو پکڑ کر فر مایا:''کیا تم نہیں جانتے ہوکہ وقت گزرنے والا ہے ،اگر کوئی اپنی آنکھ اور زبان پر کنٹرول کرے،تو خداوند متعال اس کے اعمال نامہ میںایک قبول شدہ حج کا ثواب لکھتا ہے(١٨١)!!
ایک دوسری روایت میں نقل ہوا ہے:
''پیغمبر اسلام ۖکے چچا،عباس نے(آنحضرتۖ سے مخاطب ہو کر)کہا:کیا آپۖ نے اپنے چچا زادبھائی کا رخ موڑ دیا؟رسول خدا ۖنے فرمایا:میں نے ایک جوان عورت اور ایک جوان مرد کو دیکھا کہ گناہ سے محفوظ نہیں تھے(اسی لئے یہ کام انجام دیا)۔(١٨٢)''
منقول ہے:
..............
١٨١۔بحار الانوارج ٩،ص٣٥١،ح٣۔فقہ الرضا،ص٧٣
١٨٢۔اسلام وتر بیت کودک ،ص٣٨٣
''ایک دن ایک جوان رسول خدا ۖکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی :اے رسول خدا ۖ!مجھے زنا کرنے کی اجازت دیجئے۔لوگ یہ سن کرمشتعل ہوئے اور بلند آواز میںاعتراض کیا ،لیکن رسول خدا ۖنے نرمی سے فر مایا:
نزدیک آئو۔وہ جوان رسول خدا ۖکے نزدیک گیا اور آپۖکے روبرو بیٹھا۔پیغمبراسلام ۖنے محبت سے اس سے پوچھا:کیا تم یہ پسند کروگے کہ کوئی تیری ماںسے ایساہی فعل انجام دے؟جوان نے کہا:آپۖپر قربان ہو جائوںنہیں!آنحضرت ۖنے فرمایا:لوگ بھی اسی طرح تیرے اس فعل پر راضی نہیں ہوں گے!
اس کے بعد آنحضرتۖ نے یہی سوال اس جوان کی بہن اور بیٹی کے بارے میں کیا اور جوان نے اسی طرح جواب دیا۔
اس کے بعدرسول خدا ۖنے اس جوان سے فر مایا :کیا تم پسند کروگے کہ لوگ تیری بہن سے یہی فعل انجام دیں؟اس نے جواب دیا :نہیں۔رسول خدا ۖنے فر مایا:لوگ بھی ایسا ہی سو چتے ہیں۔اس کے بعد پیغمبر ۖنے
پو چھا:کیا تم پسند کروگے کہ کوئی تیری بیٹی کے ساتھ یہی فعل انجام دے؟
اس نے کہا:نہیں۔پیغمبر ۖنے فرمایا:اگر کوئی ان کی بیٹی سے ایسا فعل انجام دے تو لوگ بھی تیری طرح ناراض ہو ںگے۔''
اس جوان اور رسول خدا ۖکے در میان گفتگو کے بعد آنحضرت ۖ نے اس جوان کے سینہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر فر مایا :
''پر ور دگارا!اس کے دل کوگناہ سے پاک کر دے اور اس کے گناہوں کو بخش دے اور اسے زنا سے محفوظ رکھ۔پیغمبراکرم ۖکے اس بر تائو کے نتیجہ میں اس کے بعد اس جوان کی نظر میں سب سے برا کام زنا تھا۔(١٨٣)''
پیغمبر اسلام ۖکا گناہگار جوان سے بر تائو ،مسلما نوں کے لئے بذات خود ایک بہترین مثال ہے ۔لیکن پیغمبر اکرم ۖکی اس سیرت میں ایک نکتہ قابل غور ہے کہ صحیح طریقے پر گناہ کو روکنا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سے ہے۔
جوانوں کو امام خمینی کی حکیما نہ نصیحتیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی نے مختلف مو قعوں پر جوانوں کے بارے میں کچھ وعظ و نصیحتیں کی ہیں،ہم ذیل میں ان میں سے چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
''ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے جوان انسانی تر بیت،یعنی اسلامی تر بیت حاصل کریں ۔ان جوا نوں کو مستقبل میں اس مملکت کی حفاظت کرنا چاہئے اور اس مملکت کے امور کو انجام دیناچا ہئے۔ان کی صحیح تر بیت اور اصلاح کی جانی چاہئے۔
اسلام نے جس قدرہمارے ان بچوںاور جوانوں کی تربیت کے سلسلے میںکوشش کی ہے ،کسی اور چیز کی نہیں کی ہے۔''
''میں جوان لڑکیوں اور لڑ کوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ استقلال،آزادی
اورانسانی اقدار کو عیش وعشرت،بے راہ روی ،مغربی ممالک اور وطن دشمن عناصر کی
طرف سے قائم کئے گئے فحاشی کے اڈوں میں جانے پر کسی قیمت پر تیار نہ ہوں۔جو ہمیںلوٹنا چاہتے تھے،انہوں نے پوری تاریخ میں اور گزشتہ پچاس سال سے زائد عرصہ میں کوشش کی ہے کہ ہمارے جوانوں کے اختیارات سلب کر لیں ۔''
''تم مسلما ن جوانوں کی ذمہ داری ہے کہ سیاسی ،اقتصادی،اجتماعی جیسے شعبوں میں حقا ئق اسلام کی تحقیق کو مد نظر رکھتے ہوئے ،اس امتیاز کو فراموش نہ کرو ،جس کی وجہ سے اسلام دوسرے تمام مکاتب فکرپر بالا دستی رکھتا ہے ۔ہمارے جوانوں کو جاننا چاہئے کہ،جس شخص میں معنویت اور توحید پر عقیدہ نہ ہو ،اس کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ امت کی فکر کرے۔''
''اے میرے عزیز جوانو!یاس وناامیدی کو چھوڑدو،حق کامیاب ہے۔اس مملکت کی،تم جوانوں کی صلاحیتوں کے ذریعہ اصلاح ہونی چاہئے ۔یہ کس قدر فخر ومباہات کا مقام ہے کہ ہمارے ملک میں دلاور جوان اسلام کی خدمت کرتے ہیں!تم جوان،جو میری امید ہو ،اتحاد ویکجہتی قائم رکھو ۔''
''جوان نسل کی ذمہ داری ہے کہ مغرب پرستوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کریںاور انسان دشمن حکومتوں کے المیوں اور ظلم وجبر کوطشت ازبام کرکے رکھدیں''
''ہمارے بعض جوانوں نے اپنی پوری قومی حیثیت کومغرب پر قر بان کر دیا ہے اور یہ ایک معنوی شکست تھی جو ہمارے لئے تمام ناکامیوں سے بدتر تھی۔ہمارے جوان یہ تصور نہ کریں کہ جو کچھ ہے وہ صرف مغرب میں ہے اور خود ان کے پاس کچھ نہیں ہے !''
''اس وقت جب تم جوان ہو اور جوانی کی طاقتیں محفوظ ہیںنفسانی خواہشات کو سنجیدگی کے ساتھ کچلنے کی سعی وکوشش کرو۔توبہ کی بہار جوانی کے ایام ہے،اس دوران گناہوں کابوجھ ہلکا ،دل کی کدورت اور باطنی ظلمت کم اور توبہ کے شرائط سہل وآسان ہوتے ہیں۔(١٨٤)''
انشاء اللہ وہ دن دور نہیں ہے جب مملکت اسلامی کے جوان،عظیم رہبر فقید اسلام حضرت امام خمینی کی ان پدرانہ نصیحتوں پر عمل کرکے اسلامی انقلاب کے عظیم بانی کی راہ پر گامزن ہو ں گے اور اسلام اور ایران کے دشمنوں کونا امید کردیں گے۔
..............
١٨٣۔روش تبلیغ،ص٦٣
٨٤ا۔کلمات قصار،پندہا وحکمتہای امام خمینی ،ص٢١٦
|