بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرمۖ کا سلوک
 

چوتھی فصل
جوانوں کے خصوصیات
''اگر جوانی میںکوئی شخص زاہدو عابد بن جائے تو مستقبل میں اس کے معنوی درجات دسیوں گنا بڑ ھ جائیں گے۔''
( حضرت علی علیہ السلام)
حقیقت میں انسان اپنی پوری زندگی کے دوران دوسروں کی ہدایت وراہنمائی اورنصیحت کا محتاج ہو تاہے۔ حتی کہ عمر رسید ہ افراد کہ جن کی عقل کامل ہوچکی ہوتی ہے اور اپنی زندگی کے دوران تجربات بھی حاصل کرچکے ہوتے ہیں، وہ بھی ہمیشہ گمراہی اور انحراف کے دہانے پر ہوتے ہیں اور دوسروں کی وعظ و نصیحت کے محتاج ہوتے ہیں، جوانوں کی بات ہی نہیں، جو ہر وقت عقل و فکر کی ناپختگی کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔ اسی لئے جوان دوسروں کی راہنمائی اور ہدایت کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں۔ اس دعوی کو ثابت کرنے کے لئے مندرجہ ذیل روایت پر غور کیجئے:
محمد ابن مسلم زہری اپنے زمانہ کا ایک عظیم شخص اور دانشوروعقلمند تھا۔ دولت اورمقام کی لالچ نے اسے فضیلت و پاکی کے راستہ سے منحرف کردیا تھااور بوڑھا پے میں وہ بدبخت اورذلیل و رسوا ہوا۔
اس زمانہ کے نفسیاتی طبیب یعنی حضرت امام سجاد نے ہدایت اور وعظ و نصیحت کی غرض سے اس کے نام ایک خط لکھا اور اس کے ذیل میں ایک چھوٹے سے جملہ میں عقل کی ناپختگی کی وجہ سے جوانوں کو درپیش خطرا ت سے آگاہ کیا :
ٍٍ''جب دنیا پرستی تم جیسے سن رسیدہ ،تعلیم یافتہ اور موت سے قریب لوگوں کو ایسی ذلت وپستی میں ڈال سکتی ہے توایک نوجوان نفسانی خوا ہشات سے کیسے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے ؟کہ جو ایک طرف سے تو ابھی جوانی کے دور سے گزر رہا ہے اور دوسری طرف علم ودانش سے بھی خالی ہے اور اس کے علاوہ اس کی فکر کمزور اور عقل ناپختہ ومنحرف ہے۔(١٦٦)''
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
'' جوان کی نادانی کا عذر قابل قبول ہے ،کیونکہ اس کا علم ودانش محدود اور نا پختہ ہو تا ہے۔(١٦٧)''
اس لئے نا پختگی اور نادانی جوا نوں کے خصو صیات میں سے ایک ہے کہ تربیت کے وقت اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے ۔یہی وجہ ہے کہ خدا وند متعال نے اپنے تمام بندوں کے لئے توبہ کا راستہ کھلا رکھا ہے اور سب سے زیادہ جوانوں کو توبہ کرنے کی تاکید فرمائی ہے کیونکہ ممکن ہے جوانی کی جہالت اور جنون ان کی بہت سی غلطیوں اور خطائوں کا سبب ہوں اور نجات کا تنہا راستہ توبہ ،خدا کی طرف راغب ہو نا اور دینی احکام کی پیروی کرنا ہے۔
جوان گوناگوں مسائل کے انتخاب میں مستقل مزاج نہیں ہوتے اور ان کی رائے ہمیشہ بدلتی رہتی ہے ۔ان کا رجحان ہمیشہ بدلتا رہتا ہے اور ہر لمحہ مختلف خطرات سے دوچار ہوتے رہتے ہیں ۔اس لئے دشمن بھی جوانوں کی اس کمزوری سے ہمیشہ فائدے اٹھاتے ہیں۔
جوانوں کے دوسرے خصوصیات ،ان کی طاقت،توانائی،نشاط،تحرک اور سر گرمی ہے کہ اگر ان سے صحیح استفادہ نہ کیا جائے تو وہ ایسی بہت سی غلطیوں کے شکار ہو سکتے ہیں کہ جن کی تلافی ناممکن ہے ۔اس لئے جوانوں کی اس طاقت اور توانائی کو علم،تجربہ اور فکر سے ہم آہنگ کیا جانا چاہئے تاکہ مطلوب اور قابل قدر نتیجہ حاصل ہو سکے۔
علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
''میں عمر رسیدہ لوگوں کی واضح اور روشن فکر کو جوانوں کی طاقت اور توانائی سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔(١٦٨)''
..............
١٦٦۔تحف العقول ص٢٧٧
١٦٧۔غرر الحکم ص٣٧٢
١٦٨۔ نہج البلاغہ ، فیض ص ١١١٤


مومن جوانوں کی نشانیاں
تاریخ اورائمہ دین کی احادیث کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مومن جوانوں کی کچھ خصوصیات اور نشانیاں ہیں۔ہم یہاں پر ان میں سے بعض کی طرف اختصار کے ساتھ اشارہ کرتے ہیں :

١۔دینی احکام سے آگاہی
بنیادی اور اہم ترین علم،جو ایک جوان کو حاصل کرنا چاہئے،دین کی آگاہی ہے ،
کیونکہ دین سے نا آگاہ جوان اپنی جوانی کو برباد کرتے ہیں۔ دین کے احکام کا فہم و ادراک جوانوں کی سعادت و خوشبختی کی ضمانت ہے۔
امام محمد باقر فرماتے ہیں:
''اگر میں شیعوں کے کسی جوان کو پاؤں کہ جو دینی احکام نہیں سیکھتا ہے اور دین کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا ہے ، تو میں اسے سزا دوں گا''(١٦٩)
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں:
''اگر میں کسی ایسے شیعہ جوان کو پاؤں کہ جو دین سیکھنے کی کوشش نہیں کرتاہے تو میں اسے بیس کو ڑے ماروں گا''(١٧٠)

٢۔ قرآن مجید سے آشنائی
چونکہ قرآن مجید خداوند متعال کا کلام ، رسول خداۖ کا لافانی معجزہ اور ایک گرانقدر کتاب ہے کہ جس میں انسان کی ہدایت کا پیغام اور الہی معارف موجود ہیں ، اس لئے ہر مسلمان کا فرض ہے کہ قرآن مجید اور اس کے علوم سے آشنائی حاصل کرے اور اس مقدس کتاب کے ساتھ انس و محبت رکھے ۔ چنانچہ اس مضمون کی ایک روایت بیان ہوئی ہے:
جب بچہ جوانی کے دور میں قرآن مجید سے آشنا ہوتا ہے اور اسے بار بارپڑھتا ہے ، تواسے قرآن مجید سے زیادہ معنویت حاصل ہوتی ہے، گویا اس کے گوشت و خون کے ساتھ قرآن مجید مل جاتاہے اور اس کے وجود کے تمام اعضاء پر اثر اندازہوتا ہے۔(١٧١)
..............
١٦٩۔ بحار الانوار ، ج ١، ص ٢١٤
١٧٠۔ سفینہ البحار، ج ١، ص ٦٨٠
١٧١۔ کافی ، ج ٦، ص ٤٧


٣۔ ائمہ اطہار علیہم السلام کے ارشادات سے آشنایی
جوانوں کو شیعوں کے ائمہ اطہار اور دینی پیشوا ؤں کے ارشادات سے آشنا ہونا چایئے، تا کہ اپنے پاک دلوں کو ان گرانقدر اور قیمتی گوہر سے منور کریں ۔ ایک حدیث میں یوں بیان ہوا ہے:
''جوانوں کو اپنے دل دینی پیشواؤں کی احادیث سے نورانی کرنا چاہئے اپنی زبان اور بیان کو ان سے لطافت بخشنا اور اپنے کانوں کو ان کے احادیث سننے سے شائستہ بنانا چاہئے''(١٧٢)

٤۔ علم سیکھنا
حضرت علی علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں:
''تجرباتی علوم جو انسان کی مادی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیںاو رمعاشرے کے لیئے بھی مفید ہو تے ہیں اور دوسرے ادبی وانسانی علوم، جن میں سے ہر ایک کسی نہ کسی صورت میں معاشرے کے لوگوں کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں ، جوانوں کو ان سب کو سیکھنا چاہئے''(١٧٣)

٥۔ عبادات کا بجا لانا
شائستہ جوانوں کے خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ خداوند متعال کی عبادت اور پرستش کا خیال رکھیںاور اس کے ذریعہ اپنی روح کے زنگ کو دور کریں اور خدا کی عبادت و پرستش کے سایہ میں پروان چڑھیں ۔ چنانچہ نقل کیا گیا ہے:
..............
١٧٢۔ کافی ، ج ٦، ص ٤٧
١٧٣۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ص ٢٠، حکمت نمبر ٨١٧
''اگر جوانی کے دور میں کوئی شخص زاہد و عابد بن جائے تو مستقبل میں اس کے معنوی درجات دسیوں گناہ بڑھ جائیں گے ''(١٧٤)

٦۔ توبہ کرنا
مو من جوانوں کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اسے اپنی غلطیوں اور خطائوں سے توبہ کرنا چاہئے ، کیونکہ جوانوں میں تغیر و تبدل ہو تا رہتا ہے ، کبھی معنوی ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں او رکبھی جاہلانہ کام انجام دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر ہم جوانی کو زندگی کا ناپایدار دور کہیں تو کوئی مبالغہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ،با عقیدہ جوان ہمیشہ توبہ کر تا رہتا ہے ۔ یہ طریقہ اسے تباہی اور بدبختی سے نجادت دیتا ہے۔
پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں:
''خداوندمتعال کے نزدیک محبوب ترین شخص وہ جوان ہے جو اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے اور بارگاہ الہی میں مغفرت کی دعا کرتا ہے''(١٧٥)

٧۔ کوشش و جانفشانی
جوانی کا دور، جو اٹھارہ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے، یہی انسان کے کام کرنے اور سعی وکو شش کا دور ہوتا ہے او ر کاموں کی انجام دہی میں اپنے نشاط و تحرک سے استفادہ کرتا ہے اور اگر سستی و کاہلی سے کام لیتا ہے تو اس کے وجود میں بیہودگی جڑپکڑ لیتی ہے ۔ ایک روایت میں اس طرح نقل ہوا ہے:
''اگر اس (جوان ) نے اپنی جوانی کے دوران ( جب کہ وہ بے انتہا جسمانی اور
معنوی توانائیوں کا مالک ہوتا ہے)اپنی نفسانی خواہشات سے مقابلہ نہیں کیا ہے تووہ بڑھا پے میں اپنی ذہنیت کو کیسے سنوار سکتا ہے؟ اسے اپنی توانائیوں کو بیہودہ صرف کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ کیونکہ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو بڑھا پے میں اس کے لئے مشکل ہے کہ اپنی اصلاح کے لئے کوئی کام انجام دے سکے ''(١٧٦)
..............
١٧٤۔ مجمع البیان، ج ٢، ص ٣٨٥
١٧٥۔ مجموعہ ورام ، ج ٢، ص ١١٨، مشکاة الانوار ، ص ١٥٥
١٧٦۔ مستدرک الوسایل، ج ٢ ، ص ٣٥٣، تفسیر برہان، ص ٨٨٢۔ غرر الحکم ، ص ٦٤٥