بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرمۖ کا سلوک
 

فتح مکہ
٨ھ کو مکہ،پیغمبر اسلام ۖکے ہاتھوں جنگ و خونریزی کے بغیر فتح ہوا۔پیغمبر اسلام ۖبارہ ہزار افراد کے ہمراہ مکہ میں داخل ہوئے اور خانہ کعبہ میں موجود تمام بتوں کو توڑ ڈالا۔اس کے بعد علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپۖکے دوش مبارک پرقدم رکھ کرکعبہ کی دیوار پرچڑھیں اور بتوں کو توڑ یں۔علی علیہ السلام نے اطاعت کی ،بتوں کو توڑ نے کے بعددیوار سے نیچے آئے۔ پیغمبر اکرم ۖنے پوچھا:آپۖنے اتر تے وقت
کیوں میرے شانوں پر قدم نہ رکھے؟ علی علیہ السلام نے عرض کی:اوپر چڑھتے وقت آپۖ نے حکم فر مایا اور میں اوپر چڑھا،لیکن اتر تے وقت نہیں
فرمایاکہ کیا کروں،اسی لئے چھلانگ لگاکراترا اور اس سے بے ادبی مقصود نہیں تھی، خدا کا شکر ہے کچھ نہیں ہو(١٤١)۔
جی ہاں ، اسلام کا یہ عظیم پہلوان ،ہر اس کارزار میں حاضر ہوتا تھا جہاں پر دشمن اورکفار اسلام اور مسلمانوں کو نابود کرنے کے لئے آتے تھے، اور وہ ان کے مقابلہ میں دل و جان سے اسلام و مسلمین کا دفاع کرتا تھا۔ اس طرح اس دلاور پہلوان کو ایسے فخر و مباہات نصیب ہوئے کہ دوسرے ان سے محروم رہے۔

جعفرا بن ابیطالب
جعفرا بن ابیطالب ، پیغمبر اسلام ۖ کے صحابی اور حضرت علی علیہ السلام کے بھائی ہیں، جو آپ سے دس سال بڑے تھے۔ وہ ایک دلاور پہلوان اور اولین مسلمانوں میں سے تھے۔ وہ جعفر طیار کے نام سے مشہور ہیں، کیونکہ انہوں نے ایک جنگ میں اپنے دونوں بازو قربان کئے اور رسول خدا ۖ نے ان کے بارے میں فرمایاکہ خدواند متعال نے ان کے دوبازؤں کے عوض انھیں بہشت میں دو پر عطا کئے ہیں۔ اسی لئے جعفر طیار کے نام سے مشہور (١٤٢) ہوئے۔
پیغمبر اسلام ۖ جعفر طیار سے کافی محبت کرتے تھے۔ انہوں نے ٥ ہجری میں
دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور وہاں پر مہاجرین کے گروہ کے ترجمان کی حیثیت سے منتخب ہوئے، جبکہ اس وقت صرف ٢٤ سالہ جوان تھے۔ ہجرت کر کے جانے والے مسلمان ٧ ہجری تک حبشہ ہیں رہے اور اس کے بعد واپس مدینہ لوٹے۔ حبشہ سے مسلمانوں کی واپسی عین اس وقت ہوئی جب پیغمبر اسلام ۖ خیبر فتح کر کے مدینہ واپس لو ٹے ۔
پیغمبر اکر مۖ نے جوں ہی انھیں دیکھا، اپنے چچا زاد بھائی کے احترام میں اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے، اپنی باہوں کو ان کی گردن میں ڈالا اور ان کے ما تھے کو چوما اور رونے لگے۔ اس کے بعد فرمایا :میں نہیں جانتا کہ میں کس چیز کی خوشی مناؤ ں،جعفر کے
آنے کی یا فتح خیبر کی (١٤٣)۔
٨ ہجری میں، یعنی حبشہ سے لوٹنے کے ایک سال بعد، جعفر طیار، رسول خدا ۖ کے حکم سے ، رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے تین ہزار جنگجوؤں پر مشتمل ایک لشکر کے سپہ سالار کی حیثیت سے اردن کی طرف روانہ ہوئے۔ اسلام کے سپاہی مدینہ سے روانہ ہو کر اردن کی سرزمین میں''موتہ'' کی جگہ پر رومیوں سے نبرد آزماہوئے۔
اس جنگ میں بہادری کے ساتھ لڑنے کے بعد جعفر کے دونوں بازو کٹ گئے، اس کے بعد انہوں نے پرچم اسلام کو اپنے سینے سے لگا لیا ، یہاں تک کہ شہید ہوگئے، ان کو اس حالت میں دفن کیا گیا کہ ، بدن پر ستر (٧٠) زخم لگے ہوئے تھے(١٤٤) ۔
جب رسول خدا ۖ کو جعفر کی شہادت کی خبر ملی توآپۖ نے روتے ہوئے فرمایا: جعفر جیسے
شخص کے لئے ضرور رونا چاہئے۔
..............
١٤١۔احقاق الحق، ج ٨، ص ٦٨٢۔ سیرہ ابن ہشام ج ٢، ص ٤٢٩۔ اسد الغابہ ، ج ٣، ص ١٠٢۔ الاصابہ ، ج ١، ص ٣١٨
١٤٢۔ الاعلام زرکلی ، ج ٢، ص ١٢٥، الاصابہ، ج ١، ص٢٣٧، صفة الصفوہ،ج ١، ص ٢٠٥، مقاتل الطالبین،ص ٣
١٤٣۔ الاستیعاب فی ھامش الاصابہ، ج ١، ص ٢١٢۔ حلینہ الاولیاء ، ج ١، ص ١١٤، طبقات ابن سعد ، ج ٤، ص ١٢٥
١٤٤۔ الاصابہ ، ج ١، ص ٢٣٩، سیرہ حلبیہ، ج ٢، ص ٧٨٦، معجم البلدان ، ج ٥، ص ٢١٩، الاعلام زرکلی، ج ٣، ص ١٢٥
مصعب ابن عمیر
مصعب ا بن عمیر تاریخ اسلام کے ایک دلاور جوان اور نمایاں فرد شمار ہوتے ہیں۔ وہ ایک انتہائی خوبصورت ، با حیا، باہمت اور دلاور جوان تھے۔ ان کے ماں باپ ان سے انتہائی محبت کرتے تھے۔ وہ مکہ میں ایک محترم شخصیت شمار ہوتے تھے اور عمدہ لباس پہنتے تھے اور اچھی زندگی گزارتے تھے(١٤٥)۔
مصعب ا بن عمیر، رسول خداۖ کے بیانات کے دلدادہ ہوچکے تھے انہوں نے رسول خدا ۖ کے پاس نشت برخاست اور قرآن مجید کی تلاوت سننے کے نتیجہ میں مخلصانہ طور پر اسلام کو قبول کرلیا۔ اس وقت مکہ میں اسلام قبول کرنا سب سے بڑا جرم شمار
ہوتا تھا۔ اس لئے اس کا اظہار بہت مشکل تھااور بہت سے لوگ اپنے اسلام کو مخفی رکھتے تھے،ان میں سے ایک مصعب ابن عمیر تھے، یہاں تک کہ ان کے ماں باپ کو معلوم ہوا اور انہوں نے انھیںگھر میں قید کر لیا۔لیکن وہ بھاگ نکلے اور دوسرے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ چلے گئے اور ایک مدت کے بعد اپنے ساتھیوں کے ہمراہ واپس مکہ لوٹے۔
عقبہء اولیٰ میں ایک چاندنی رات میںمدینہ کی اہم شخصیتوں میں سے بارہ افراد نے مکہ آکر رسول خدا ۖسے ملاقات کی اور مسلمان ہوگئے ۔جب یہ گروہ واپس مدینہ لوٹنا چاہتا تھا توان میں سے دو افراد ،اسعد ابن زرارہ وزکوان ابن عبد قیس نے رسول خدا ۖسے درخواست کی ،کہ کسی کو اپنے نمائندے کے طور پر ہمارے ساتھ مدینہ بھیجدیں
..............
١٤٥۔ الاعلام زرکلی ، ج ٧، ص ٢٤٨
تاکہ وہ لوگوں کو قرآن سکھائے اور انھیں اسلام کی طرف دعوت دے۔(١٤٦)
چونکہ پیغمبر اسلام ۖکو ایک سنہرا موقع ملا تھا،اس لئے آپۖ کو چاہئے تھا کہ ایک ایسے نما یندہ کو روانہ کریں جو عالمانہ طرز سے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دے،تاکہ وہ اسلام کو قبول کرلیں لہذااس نمایندکوہر لحاظ سے شائستہ اور تجربہ کار ہو نا چاہئے تھا۔
اس زمانہ میں،مدینہ،جزیرةالعرب کے اہم شہروں میںشمار ہوتا تھا اس میں اوس وخزرج نامی دو مشہور اوربڑے قبیلے رہتے تھے اور ایک دوسرے سے دشمنی اورکینہ رکھتے تھے اور سالہا سال سے آپس میں لڑ رہے تھے۔
پیغمبر اسلام ۖنے تمام مسلمانوں اور اصحاب میں سے مصعب ابن عمیر کو اس کام کے لئے مدینہ روانہ کیا اور فر مایا :''اسعد ابن زرارہ کے ہمراہ مدینہ چلے جاؤ۔''
مصعب، جواچھی طرح قرآن مجیدسیکھ چکے تھے،جوانی کے جوش وجذبہ کے ساتھ مدینہ پہنچے اور خلوص نیت کے ساتھ تبلیغ کے لئے سعی وکوشش کرنے لگے۔وہ مدینہ میں قبیلہء خزرج کے ایک سردار اسعد کے گھر میں ساکن ہوئے اور اپنے میز بان کے ہمراہ قبیلہء اوس کے سر براہ سعد ابن معاذ کے گھر گئے اور انھیں اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ اسی طرح اسید بن حُضیربھی مصعب کے ذریعہ مسلمان ہوئے۔دلا ور جوان مصعب نے مدینہ کے اپنے سفر میں اپنی ذمہ داری اچھی طرح انجام دی ۔وہ پہلے شخص تھے جنہوںنے مدینہ میں نماز جمعہ وجماعت قائم کی اور نمایاںافتخار حاصل کیا۔(١٤٧)
مصعب کی مئوثر فعالیت اورکا میاب تبلیغ کے نتیجہ میں پیغمبر اسلام ۖ کے لئے
..............
١٤٦۔حلیة الاولیاء ج١ ،ص١٠٦
١٤٧۔طبقات ابن سعدج٣،ص٨٢۔الاصابة ج٣،ص٤٠ حلیة الاولیاء ج١،ص١٠٦
شہر مدینہ میںآنے کے مواقع فراہم ہوئے اور وہاں کے لوگ دل کھول کر پیغمبر اسلام ۖاور آپۖکے پیرئوں کا استقبال کرنے کے لئے تیار ہوگئے ۔یہ کام مصعب کی دور اندیشی ،تقویٰ،فضلیت اور علم و بصیرت سے انجام پایا،کیونکہ اسی کی وجہ سے مدینہ کے زن ومرد ،پیر وجوان ،قبائل کے سردار اورعام لوگوں نے ان کی باتوں کو مان کر ان سے قرآن مجید سیکھا اوردین اسلام کو قبول کیا اوراپنے دلوں سے ایک دوسرے کے خلاف موجود دیرینہ دشمنیوں کو دور کرکے آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور پورے خلوص دل سے نماز جمعہ و جماعت میں شرکت کرتے تھے۔
پیغمبر خدا ۖکے مدینہ میں داخل ہونے کے بعد ،مصعب نے بدر اور احد کی جنگوں میں شرکت کی۔جنگ احد میں انہوں نے پیغمبر ۖکے علمدار کی حیثیت سے ذمہ داری نبھائی اور آخر کاراس جنگ میں شہید ہوئے اور پیغمبر اسلام ۖ کے چچا حضرت حمزہ کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے۔(١٤٨)

مکہ کے گور نر،عتاب ابن اسید
مکہ ٨ ہجری میں کسی خونریزی کے بغیراسلام کے سپاہیوں کے ہاتھوں فتح ہوا۔ فتح مکہ کے فوراً بعد جنگ حنین کا واقعہ پیش آیا ۔رسول خدا ۖاور آپۖ کے ساتھی مکہ کو ترک
کر کے محاذ جنگ کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔
دوسری طرف رسول اللہ ۖکے لئے ضروری تھا کہ کفار کے قبضہ سے آزاد ہونے والے
شہر مکہ کا انتظام و انصرام سنھبالنے کے لئے کسی لائق اور باصلا حیت شخص کو گورنر کے عہدہ پرمنتخب کریںتاکہ وہ لوگوں کے مسائل کو حل کریں اور دشمنوں کی طرف سے ہو نے والی کسی نا مناسب حرکت کا جواب دے ۔
پیغمبر اسلام ۖنے تمام مسلمانوں میں سے ایک اکیس سالہ نوجوان ،عتاب ابن اسیدکو اس اہم عہدہ کے لئے منتخب فر مایا اور انھیں لوگوں کو نماز جماعت پڑھانے کاحکم دیا۔وہ پہلے امیر تھے،جنہوں نے مکہ کے فتح ہونے کے بعدوہاں پر نماز جماعت قائم کی۔(١٤٩)
رسول خدا ۖنے اپنے منتخب گور نر سے مخاطب ہوکر فرمایا:
''کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کس عہدہ پر منتخب کیا ہے اور کس قوم کی فرمانروائی تمہیں سونپی ہے ؟میں نے تمہیں حرم خدا اور مکہ معظمہ کے باشندوں کا امیر مقرر کیا ہے ۔میں اگر مسلمانوں میں کسی کو تم سے ز یادہ لائق اور شائستہ پاتا، تو'' یقینا یہ عہدہ اسی کے سپرد کر تا ۔'' جس دن رسول خدا ۖکی طرف سے عتاب مکہ کے گورنر مقرر ہوئے ،ان کی عمر اکیس(٢١)سال تھی۔(١٥٠)
پیغمبراسلام ۖ کااس نوجوان کو اس عظیم اور اہم عہدہ پر مقرر کرنا،عرب کے بزرگوں اور مکہ کے سر داروں کے لئے ناراضگی کا سبب بنا۔نتیجہ میں انہوں نے شکوہ اور اعتراض کرنے کے لئے زبان کھولی اور کہا :رسول خدا ۖہمیں ہمیشہ حقیر اور پست رکھنا چاہتے ہیں ،لہذا ہم سن رسیدہ عربوں اور مکہ کے سرداروں پر ایک نوجوان کوامیر اورفرمانروا مقرر کیاہے۔
یہ باتیں رسول خدا ۖتک پہنچ گئیں۔اس لئے آپۖنے مکہ کے باشندوں کے نام ایک مفصل خط مرقوم فرمایا اور اس خط میں عتاب کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا ذکر کیا اور تاکید فرمائی کہ لوگوں پر فرض ہے کہ اس کے حکم کی پیروی کریں اور اس کے دستورات پر عمل کریں۔
اس خط کے آخر پر آنحضرت ۖنے لوگوں کے بے محل اعتراضات کا مختصرلفظون میں اس طرح جواب دیا:
''تم میں سے کسی کو حق نہیں ہے کہ عتاب کے نوجوان ہونے کی بنیاد پر اعتراض کرے،کیونکہ انسان کی برتری اور قدر ومنزلت کا معیار اس کی عمر نہیں ہے،بلکہ اس کے بر عکس انسان کی قدر ومنزلت کا معیار،اس کی فضیلت اور معنوی کمال ہے(١٥١)
پیغمبر اسلام ۖکی رحلت کے بعد ،عتاب،خلیفہ اول ابو بکر کی طرف سے بھی مکہ کے گور نر بر قرار رہے، یہاں تک کہ ٢٣ ہجری میںاس دنیا سے چل بسے۔(١٥٢)
چنانچہ رسول خدا ۖکا عتاب ابن اسید کے عہدہ کو استحکام بخشنے کے لئے اصراراور بزرگوں اور عمر رسیدہ لوگوں کے اس سلسلہ میں ناراض ہونے پر آپ کا توجہ دینا اور ان کے اعتراضات کا جواب دینا ،اسلام کے گرانقدر مکتب کے منصوبوں یعنی لائق و شائستہ نوجوانوں کی حمایت کرنے کی دلیل ہے ۔رسول خدا ۖنے عتاب کی کھلم کھلا اور زبر دست حمایت کرکے نہ صرف اپنے پیرؤںکو اس
حقیقت کی طرف متوجہ کیا کہ بیوقوفیوںاور جاہلانہ تعصبات کو چھوڑنا چاہئے،بلکہ انھیں اس قسم کے غیر اسلامی طرز تفکر سے مقا بلہ کرنا چاہئے ۔اور اگر شائستہ اور لائق نوجوان موجود
ہوں تو مملکت کے بعض اہم کاموں کے سلسلہ میں ان سے استفادہ کرنا چاہئے اور نسل جوان کی فائدہ بخش صلاحیتوں سے ملک وملت کے حق میں فائدہ اٹھانا چاہئے۔
..............
١٤٨۔سیرةابن ہشام ج ٢،ص٢٩٤ ۔اسد الغابہ ج ٤، ص٣٦٩۔صفة الصفوہ ج١،ص١٢٥ ۔بحار الانوار ج ٦،ص٤٠٥
١٤٩۔تاریخ اسلام ذھبی ج ١،ص٣٨٠۔شذرات الذہب ج١ ،ص٢٦۔سیرہ حلبیہ ج٣،ص١٢٠
١٥٠۔اسد الغابہ ج ٣ ص٣٥٨۔الاعلام زرکلی ج ٤،ص٢٠٠
١٥١۔ناسخ التواریخ،حالات پیامبر ۖص٣٧٨
١٥٢۔الاعلام زرکلی،ج٤ ص٢٠٠۔الاصابہ ج٢ ،ص٤٥١


معاذ ابن جبل
معاذ ابن جبل ابن عمر وانصاری ،قبیلہء خزرج سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی کنیت ابو عبد الرحمان تھی ۔وہ رسول خدا ۖکے ایک مشہور صحابی تھے۔وہ عقل سلیم،خوبصورتی، جو دو اور حسن اخلاق کے مالک تھے ۔وہ اٹھارہ سال کی عمر میں مسلمان ہوئے تھے اور پیغمبر اکرم ۖکے زمانے میں تمام جنگوں میں شریک تھے۔(١٥٣)
معاذ نے پیغمبر اسلام ۖکی تر بیت میں مکتب الہٰی سے علم ودانش اور علوم اسلامی سیکھنا شروع کیا اور اپنی فطری استعداد اور سعی وکوشش کے نتیجہ میں چند برسوں کے اندر اسلامی معارف میں کافی مہارت حاصل کی۔ اور پیغمبر اکرم ۖکے نمایاں اور نامور صحابیوں میں شمار ہوئے ۔
معاذا بن جبل ،فتح مکہ کے دن ٢٦ سال کے تھے ۔اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ اس شہر میں ایک لائق اور شائستہ شخص کو ذمہ داری سونپی جائے تاکہ وہ عبادات اور معاملات سے متعلق اسلام کے احکام اور دستو رات لوگوں کو سکھائے۔(١٥٤)
اس لئے معاذ کو مکہ کے علمی امور اور دینی احکام سکھانے کے لئے منتخب کیا گیا ،حقیقت میں انھیں اس شہر کے ثقا فتی امور کا رئیس مقرر کیا گیا ۔
جنگ تبوک کے بعد رسول خدا ۖنے معاذ کو یمن بھیجدیا تا کہ وہاں پر قضاوت اورحکومت کی ذمہ داریوں کو نبھائیں ۔پیغمبر اسلام ۖنے یمن کے لوگوں کے نام ایک خط میں یہ مرقوم فر مایا:
ٍٍ''میں نے بہترین افراد میں سے ایک کو تم لوگوں کی طرف بھیجا ہے''
پیغمبر اکرم ۖنے معاذ کو حکم دیا کہ فوجیوں کو ٹرنینگ دیں،لوگوں کو قرآن مجید اور شرعی احکام سکھائیں اور زکوٰة جمع کر کے مدینہ بھیجیں تاکہ مسلمانوں پر خرچ کی جائے۔(١٥٥)
جب رسول خدا ۖاس جوان کو یمن بھیجنا چاہتے تھے اس وقت آپِۖۖنے اس سے سوال کیا :معاذ!اگر(دو گروہوں یا فریقوں میں )لڑائی چھڑ جائے تو تم کیسے فیصلہ کروگے ؟معاذ نے عرض کی :خدا کی کتاب میں جو کچھ ہے ،اسی کے مطابق فیصلہ کروں گا ۔
آنحضرت ۖنے فرمایا:اگر اس کا حکم قرآن مجید میں نہ ہو تو کیا کرو گے؟معاذ نے کہا :اس صورت میں پیغمبر ۖکی سیرت کے مطابق عمل کروں گا !پیغمبر اکرم ۖنے پوچھا :اگر میری روش اور سیرت میں بھی اس کا حکم نہ ملا تو اس صورت میں کیا کرو گے ؟معاذ نے کہا :اس صورت میں اپنی صلاح دیدکے مطا بق حکم کروں گا۔یہاں پر رسول خدا ۖنے ان کے سینہ پر ہاتھ رکھ کر فر مایا :خدا کا شکر ہے کہ تم نے پیغمبر ۖکو اس بات سے خوش کر دیا ہے کہ جس سے انبیاء خوش ہوتے ہیں (١٥٦)!
جب ١١ ہجری میں پیغمبر اسلام ۖنے رحلت فرمائی ،تو اس وقت معاذ یمن میں تھے پہلے خلیفہ ابو بکر نے بھی معاذ کو اپنے عہدے پر برقرار رکھا ۔اس کے بعد وہ
..............
١٥٣۔اسد الغابہ ج٤ ،ص٣٧٦۔طبقات ابن سعد ج٣ ،ص١٢٠ ،القسم الثانی
١٥٤۔سیرہ حلبیہ ج٣ ،ص١٢٠
ًًًً ١٥٥۔حلیة الاولیاء ج١ ص٢٢٨
١٥٦۔الاصا بة ج٢ُص٣٥٧
عمر کی خلافت کے زمانہ میں شام چلے گئے اور سر زمین اُردن میں عمواس(١٥٧) کے مقام پر ١٨ہجری میں انہوں نے ٢٨،٣٢،یا٣٤ سال کی عمر میں طاعون کی بیماری میں وفات پائی۔(١٥٨)
معاذ کی لیاقت وشائستگی کے نکات میں سے ایک نکتہ یہ تھا کہ وہ اس جوانی کی عمر میں اور پیغمبر اسلام ۖکی حیات کے دوران مستقبل میںہونے والے مجتہدوں کے طرز عمل پر فتویٰ دیتے تھے اور دینی احکام کو قرآن مجید ،سنت اور عقل سے استنباط کرتے تھے ۔صدر اسلام میں اس دلا ور نوجوان کی فطانت اور لیاقت کو ثابت کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے ۔(١٥٩)

اسامہ ابن زید
اسامہ ا بن زید عرب نسل کے شامی عیسائی تھے ۔ان کی کنیت ابو محمد تھی وہ رسول خدا ۖکے ایک جلیل القدر صحابی تھے۔وہ مکہ میں ہجرت سے سات سال پہلے پیدا ہوئے تھے ۔پیغمبر اسلام ان سے انتہائی محبت کرتے تھے ۔وہ ایک ہوشیار ،شائستہ اور با استعداد نوجوان تھے۔(١٦٠)
اسامہ کے والد ،زید،رومیوں کے ساتھ جنگ میں سر زمین ''موتہ''میں جعفر ابن بیطالب کی شہادت کے بعد دوسرے کمانڈر کی حیثیت سے شہید ہوئے تھے ۔اس لئے
١٥٧۔عمو اس فلسطین میں بیت المقدس کے نزدیک ایک علاقہ ہے کہ اس علاقہ میں ١٨ہجری کو پہلی بار وبا پھیلی جس کے نتیجہ میںبہت سے مسلمان اور پیغمبر اکرم ۖکے صحابی لقمہ اجل ہوگئے ۔یہ بیماری خون میں ایک جراثیم داخل ہونے کی وجہ سے پھیلتی ہے اور چند گھنٹوں کے اندر انسان کو ہلاک کر دیتی ہے معجم البلدان ج٤ ،ص١٥٧
ا پیغمبر اسلام ۖنے فیصلہ کیا کہ اسامہ ،جن کی عمر اٹھارہ سال سے زیادہ نہیں تھی ،کو رومیوں سے جنگ کے سلسلہ میں لشکر اسلام کا سپہ سالار مقرر فرماکر اس سر زمین کی طرف روانہ کریں۔جبکہ اسلامی لشکر کے تمام بڑے بڑے افسر اور اسلامی فوج کے سپہ سالاراور مھاجر وانصار کے تمام سردار اور عربوں کی نامور شخصیتں اس عظیم فوج میں شریک تھیں۔رسول اکرم ۖاس لشکرکا معائنہ کرنے کے لئے مدینہ سے باہر تشریف لائے۔آپۖ نے دیکھا کہ مسلمانوں کی تمام بڑی بڑی شخصیتں جنگ کے لئے تیار ہیں۔(١٦١)
پیغمبر اسلام کی طرف سے ایک اٹھا رہ سالہ نوجوان کو کمانڈر کی حیثیت سے منتخب کرنا
بہت سے افراد کے لئے تعجب اور حیرت کا سبب بنا اور پیغمبر اسلام ۖکے اس طرز عمل کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے ۔نتیجہ میں پیغمبر اسلام ۖ کے بعض صحابیوں نے فوری طور پر رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اندرونی کیفیت کو آشکار کیا اور جو کچھ دل میں تھا اسے زبان پر جاری کیا اور اعتراض کرتے ہوئے کہا:یہ نوجوان،تجربہ کار اور پہلے اسلام قبول کرنے والے مہاجرین پر کیسے سپہ سالارمقرر کیا گیا ؟
رسول خدا ۖ،بعض افسروں کی طرف سے طعنے سن کربہت رنجیدہ ہوئے ۔لہذا منبر پر تشریف لے گئے اور خدا وند متعال کی حمد و ثناء کے بعد فر مایا :لوگو!اسامہ کی سپہ سالاری کے بارے میں بعض لوگوں سے یہ کیسی باتیں سن رہاہوں؟
تم لوگ جو آج طعنے دے رہے ہو،یہ طعنے نئے نہیں ہیں ۔جب میں نے چند سال پہلے اسامہ کے باپ زید کو جنگ موتہ میں سپہ سالار مقرر کیا تو تم لوگوں نے اس وقت بھی طعنہ
زنی کی تھی۔
..............
١٥٨۔مجمع الزوائد ج٩ ،ص٣١٠۔غایة النھایة ج٢ ،ص٣٠١ صفة الصفوة ج١،ص١٩٥
١٥٩۔طبقات ج ٣،ص١٢٠ ۔الاستیعاب در حاشیہ الاصابة،مادئہ ''معاذ''
١٦٠۔الاعلام زرکلی ج ١،ص٢٩١۔الاصابہ ج١،ص ٢٩
١٦١۔طبقات ج٤ ،ص٤٢۔بحار الانوار ج٢١،ص٥٠۔اسعد الغابہ ج١،ص٦٤
خدا کی قسم کل زید ابن حارثہ سپہ سالاری کے لئے لائق تھے،اور آج ان کے بیٹے اسامہ اس کام کے لئے شائستہ ہیں ،تم سب کو ان کی اطا عت کرنی چاہئے ۔(١٦٢) لائق اور شائستہ نوجوانوں کی حمایت میں پیغمبر اسلام ۖکی اس تاکید اور اصرار نے مسلمانوں کے افکار پر گہرا اثر ڈالا ،اور جو لوگ جوان نسل کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا تھے انہوں نے رفتہ رفتہ اپنی غلط فہمیوں کا اعتراف کیا ۔ایک اٹھارہ سالہ نوجوان کو سپہ سالار کے عہدے پر منتخب کرنا دنیا کی فوجی تاریخ میں کم نظیر ہے۔

اسامہ کی بر طرفی
بیشک،اسامہ کی سپہ سالاری کا موضوع اور پیغمبر اسلام ۖکی یہ تاکید اور اصرار کہ سب لوگ اسامہ کے پرچم تلے جمع ہو جائیں ،تاریخ اسلام کے دلچسپ اور مشہور واقعات میں سے ہے۔اُس وقت پیغمبر اسلام ۖبیمار تھے اور اپنی زندگی کے آخری لمحات سے گزر رہے تھے۔اسی حالت میں جب ابو بکر اور عمر پیغمبر اکرم ۖکے سراہنے پہنچے اور پیغمبر ۖ نے انھیں دیکھتے ہی ناراضگی میںفر مایا:اسامہ کے لشکر میں چلے جاؤ!چلے جاؤ!چلے جاؤ!خدا !لعنت کرے ان لوگوں پرجو جنگی آماد گی رکھنے کے باوجود اسا مہ کے لشکر میں شامل نہ ہو ۔(١٦٣)
پیغمبر اسلام ۖکی رحلت کے بعد،اسا مہ مدینہ سے باہر اپنے لشکر کی چھاونی میں منتظر رہے تاکہ ان کا فریضہ معین ہوجائے؟جب ابو بکر بر سر اقتدار آگئے ،تو انہوں نے
..............
١٦٢۔بحار الانوار ،ج٢١ ،ص٥٠۔اسد الغابہ ج٢،ص٨١
١٦٣۔طبقات ابن اسد ج٢ ،ص٤٢ ۔تہذیب تاریخ ابن عساکر ج ٢ ص٣٩١
اسامہ کو اسی طرف روانہ ہونے کا حکم دیا جس طرف انھیں پیغمبر ۖنے روانہ ہونے کا حکم دیاتھا۔اسامہ شام کی طرف بڑھے،لیکن جب شام پہنچے ،تو ابوبکر نے انھیںبر طرف کر کے یزید ابن ابی سفیان کو ان کی جگہ پر مقرر کیا۔
جب یہ جوان سپہ سالاربر طرف ہوئے ،تو مدینہ آکر مسجد النبی ۖ کے دروازے پر کھڑے ہوکر فریاد کی:اے مسلمانو!تعجب کی بات ہے ،جس شخص کا فرمانروا کل رسول خدا ۖنے مجھے بنایا تھا وہ آج مجھ پر حکم چلا رہا ہے اور مجھے سپہ سالاری کے عہدے سے بر طرف کر رہا ہے ۔(١٦٤)
اس کے بعد اسامہ ٥٤ھ تک مدینہ میں زندہ رہے اورمعاویہ کی حکومت کے دوران ''جُرف''نامی ایک جگہ پر وفات پائی(١٦٥)
ان تاریخی نمونوں سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے الہٰی مکتب میں جوانوں کی کتنی قدر ومنزلت تھی۔
..............
١٦٤۔اعلام الوری ص١٤٥
١٦٥۔الاعلام زرکلی ج١،ص٢٩١۔الاصابہ ج١،ص٢٩