بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اکرمۖ کا سلوک
 

تیسری فصل:
مملکت کے امور میں جوانوں سے استفادہ
'' عقلمندجوان اپنی ناپائدار جوانی سے استفادہ کرتا ہے اور اپنے اعمال کو نیکی میں تبدیل کرتا ہے اور علم ودانش حاصل کرنے میں سعی و کوشش کرتا ہے۔''
( حضرت علی علیہ السلام)
ترقی یافتہ ممالک میں، نسل جوان کے احترام و شائستگی اور ان کی عظیم توانائیوں سے استفادہ کرنے کے موضوع پر مکمل طور پر توجہ کی جاتی ہے اور مختلف امور سے متعلق اہم اور حساس ملکی عہدے انھیں سونپے جاتے ہیں اور لائق جوانوں سے قوم و ملت کے فائدہ کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے۔
پیغمبر اسلام ۖ نے بھی آج سے چودہ سو سال پہلے اس اجتماعی مسئلہ کی طرف خاص توجہ کی تھی اور اپنے چھوٹے اورنئے ملک میں حساس اور اہم ملکی امور میں جوانوں سے استفادہ کرتے تھے۔ مختلف مواقع پر ملک کے اہم عہدے شائستہ اور قابل جوانوں کو سو پنتے تھے اور اپنے قول و فعل کے ذریعہ کھلم کھلا ان کی حمایت فرماتے تھے۔
جہل و نادانی اور تعصب سے بھرے ایک ماحول میں یہ کام آسانی کے ساتھ قابل قبول نہیں تھا۔ کیونکہ سن رسیدہ لوگ، جوانوں کی بات ماننے اور ان کی پیروی کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے۔ جب پیغمبر اسلام ۖکسی جوان کو منتخب کرکے اسے ایک اہم اور بڑے
عہدہ پر فائز کرتے تھے، تو بوڑھے اور سن رسیدہ افراد ناراض ہوتے تھے اور آنحضرت ۖ سے کھل کر شکوہ کرتے تھے۔ اس حقیقت کو پہلی دعوت ذو العشیرہ میں بخوبی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔(١٢٩)
رسول خدا ۖ اپنی اس تحریک کو استحکام بخشنے کے لئے مسلسل تاکید کرتے تھے اورنامناسب، تعصب بھرے اور جاہلانہ افکار کاڈٹ کر مقابلہ کرتے تھے اور آخر کار اپنے حکیمانہ بیانات اور بے شمارنصیحتوں سے لوگوں کو مطمئن کرتے تھے یا انھیں خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کرتے تھے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے سامنے منبر سے اپنے بیانات کے ذریعہ جوانوں کی تعریف کرتے تھے اور ان کی حمایت کا اعلان کرتے تھے اور اس طرح انھیں ملک کے اونچے اور اہم عہدوں پر فائز کرتے تھے۔
یہ بیان کر دیناضروری ہے کہ جوانوں کو کسی عہدہ کے لئے منتخب کرنے کی بنیادی شرط ان کی صلاحیت اور شائستگی ہے۔ آنحضرت ۖ کے بیانات کی تحقیق سے یہ حقیقت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔کہ جن جوانوں کو پیغمبر اسلام ۖ نے منتحب کرکے مملکت کے اہم عہدوں پرفائز کیا تھا، وہ عقل ، فکر ، ہوشیاری، ایمان ، اخلاق اور حکمت عملی کے لحاظ سے شائستہ اور لائق تھے۔
اب ہم ایسے جوانوں کے چند نمونے پیش کرتے ہیں، جنھیں پیغمبر اسلام ۖنے ملک کے اجرائی عہدوں پر فائز کیا تھا، تا کہ جوانوں کے حق کی تعیین میں کوئی غلطی سرزد نہ
١١٢٩۔ تاریخ طبری ج ٢، ص ٦٢۔ الکامل ، ج ٢، ص ٤٠۔ مسند احمد ، ج ١، ص ١١١۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، ج ٣، ص ٢١٠
ہواور ہم اپنے بے جافیصلوں سے افراط و تفریط کے شکار نہ ہوں اور خود جوان او رعوام بھی اس سلسلہ میں غلطی کا شکار نہ ہو ں، کیونکہ جوانوں کو انتخاب کرنے کا قابل قدر معیار ، ایمان اور معنوی اقدار ہے۔

علی ابن ابیطالب علیہ اسلام
نوجوانوں میں سے ایک شخصیت جو ابتداء سے آخر تک رسول خد ا ۖ کی خدمت میں فرائض انجام دیتی رہی وہ حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ آپ تمام میدانوں میں فعّال طریقہ سے حاضر تھے اوررسول خدا ۖ کے محبوب تھے اور اسلام کے آغاز سے ایک جان نثار سپاہی شمار ہوتے تھے۔
علی علیہ السلام، حضرت ابوطالب کے بیٹے اور سب سے بڑے اور مشہور قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسدابن عبد مناف تھیں۔ وہ خاندان بنی ہاشم کی ایک محترم اور عظیم خاتون تھیں۔ اس لحاظ سے علی علیہ السلام پہلے بچہ تھے جو ماںباپ دونوں کی جانب سے ہاشمی تھے ۔(١٣٠)
علی علیہ السلام معجزانہ طور پرخانہ کعبہ میں پیدا ہو ئے۔اور یہ فضیلت کسی اور کو حاصل نہیں ہوئی ۔ آپ ولادت کے بعد تین دن تک کعبہ کے اندر رہے ۔ اس کے بعد آپ کی والدہ آپ کو گود میںلئے ہو ئے کعبہ سے باہر آئیں۔(١٣١)
حضرت علی علیہ السلام کے والد حضرت ابوطالب نے اسلام کے بحرانی حالات میں پیغمبر اسلام ۖ کا دفاع کیا ، جب کہ تمام لوگ آنحضرت ۖ کے خلاف متحد ہو چکے تھے۔
..............
١١٣٠۔ تاریخ انبیاء ج ١، ص ٧٦بحار الانوار ج ٣٥، ص ٦٨، شرح نہج البلاغہ حدیدی، ج ١، ص ٦
١٣١۔ مستدرک حا کم، ج ٣، ص ٤٨٣۔ کفایہ المطالب، ص٢٦٠، الغدیر ، ج ٦، ص ٢٢
یہاں تک کہ بعثت کے دسویں سال حضرت ابوطالب اور آنحضرت کی شریک حیات حضرت خدیجہ اس دنیا سے رحلت کر گئیں۔ اس سال کانام ''عام الحزن'' رکھا گیا ۔ حضرت ابوطالب نے پیغمبر اسلام کی ٨ سال کی عمر سے آپ ۖ کی سرپرستی اپنے ذمہ لے لی تھی۔ حضرت ابوطالب کی وفات کے وقت حضرت علی علیہ السلام کی عمر ٦ سال تھی اور آپۖاسی وقت علی علیہ السلام کو اپنے گھر لے آئے۔ چنانچہ حضرت علی نے آنحضرت ۖ کے گھر میں آپۖ کی سرپرستی میں پرورش پائی ۔(١٣٢)
جبرئیل امین کے غار حرا میں نازل ہونے اور پیغمبر اسلام ۖ کے رسالت پر مبعوث ہونے کے بعد جب آنحضرت ۖ ۖ گھر تشریف لائے اور وحی کے متعلق حضرت علی علیہ السلام کو اطلاع دی تو علی علیہ السلام ، جو کہ اس وقت نو سال کے تھے، نے پیغمبر اکر م ۖ کی دعوت کو قبول کیا لہذاآپۖمردوں میں پہلے مسلمان ہیں۔(١٣٣)
پیغمبر اسلام ۖ نے رسالت پر مبعوث ہونے کے بعد تین سال تک اپنی دعوت کو آشکار نہیں کی۔ تیسرے سال خدا کے حکم سے آنحضرت ۖ مامور ہوئے تا کہ اپنی دعوت کو آشکار فرمائیں اور اس دعوت کا آغاز میں اپنے رشتہ داروں سے کریں۔ اس لئے آنحضرت ۖ نے اپنے رشتہ داروں کو دعوت دی اور کھانا کھلانے کے بعد فرمایا: اے عبد المطلب کے بیٹو! خدواند متعال نے مجھے عام لوگوں اور بالخصوص تم لوگوں کی رہبری کے
لئے بھیجا ہے اور فرماتاہے:
..............
١٣٢۔ اصول کافی، ج ١، ص ٤٤۔ الغدیر، ج ٧، ص ٣٣٠۔ بحار الانوار ، ج ٣٥، ص ٦٨ تا ١٨٣
١١٣٣۔ تاریخ طبری، ج ٢، ص ٢١٢۔ الغدیر،ج ٣،ص ٢٢٦۔ بحار الانوار ، ج ٣٨، ص ٢٦٢۔احقاق الحق، ج ٢، ص ١٥٣
(و انذر عشیرتک القربین)
''اور پیغمبر! آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے''(١٣٤)
پیغمبر اسلام ۖ نے تین بار اس مطلب کو دہرایا، لیکن علی علیہ السلام کے علاوہ کسی نے پیغمبر اکرم ۖ کی آواز پر لبیک نہ کہا، جبکہ اس وقت علی علیہ السلام صرف ١٣ سال کے تھے۔ رسول خدا ۖ نے فرمایا: اے علی! تم ہی میرے بھائی ، جانشین، وارث اور وزیر ہو۔(١٣٥)

بستر رسول ۖ پر علی علیہ السلام کی جان نثاری
بعثت کے تیرھویں سال قریش کے سرداروں نے ایک سازش کے تحت پیغمبر اسلام ۖ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ اس کام کے لئے ہر قبیلہ سے ایک شخص کاانتخاب کیا، تاکہ رات کے وقت آنحضرتۖ پر حملہ کرکے آپۖ کو شہید کرڈالیں ۔ رسول خدا ۖ نے علی علیہ ال
السلام سے اپنے بستر ا پر سونے کو کہا تاکہ دشمن یہ نہ سمجھ سکیں کہ پیغمبر اسلام ۖ ہجرت کر گئے ۔
حضرت علی علیہ السلام کی عمر اس وقت ٢٣ سال تھی، آپ نے رسول خدا ۖ کی خواہش کو دل سے قبول کیا اور آنحضرت ۖ کے بستر پر سو گئے۔ رسول خدا ۖ شہر سے باہر نکل کر مکہ کے نزدیک واقع غارثور میں تشریف گئے۔اس رات کے آخری حصہ میں چالیس افراد نے رسول خدا ۖکے گھر پر حملہ کیا اور رسول خداۖ کے بسترپر علی علیہ السلام کو پایا ۔(١٣٦)
..............
١٣٤۔ شعرائ٢١٤، تفسیر فرات ، ص ١١٢
١٣٥۔ احقاق الحق ج ٦، ص ٤٤٩، بحار الانوار، ج ٣٨، ص ٢٤٤، مناقب ابن شہر آشوب ، ج ٢،ص ١٨٠، کنزالعمال ، ج ٦، ص ٣٩٧
١٣٦۔ احقاق الحق، ج ٣، ص ٢٦ و ج ٦، ص ٤٧٩۔ بحار الانوار ج ١٩، ص ٦٠۔ سیرہ حلبیہ ج ٢، ص ٢٦


جنگ بدر
تاریخ اسلام میںحق وباطل کا پہلا معر کہ جنگ بدر تھا ۔یہ جنگ ٢ہجری میں کفارمکہ کے سرداروں اور اسلام کے سپاہیوں کے درمیان بدر نامی جگہ پر واقع ہوئی۔بدر کا مقام مدینہ سے ٢٨ فرسخ دور اور بحر الاحمر سے چھ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔کفّارکا لشکر ایک ہزار سے زائد افراد پر مشتمل تھا اور سب کے سب جنگی ساز وسامان سے مسلح تھے ۔لیکن رسول خدا ۖکی فوج صرف ٣١٣ سپاہی تھے ۔اس جنگ میں لشکر کفّارکے تین نامور پہلوان عتبہ،اس کا بھائی شیبہ اوراس کا بیٹا ولید ،علی علیہ السلام، جناب حمزہ اورجناب عبیدہ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔اس جنگ میں علی علیہ السلام کی عمر ٢٥ سال تھی۔(١٣٧)

جنگ احد
جنگ بدر کے ایک سال بعد،مشرکین نے اپنی فوج کو نئے سرے سے منظم اور مسلح کر کے مختلف قبیلوں سے تین ہزار جنگجو ابو سفیان کی سرکردگی میںروانہ کئے اور تمام جنگی سازوسامان سے لیس ہو کر اس فوج نے مدینہ سے ایک فرسخ کی دوری پر کوہ احد کے دامن میں پڑائو ڈالا۔رسول خدا ۖنے سات سو سپا ہیوںپرمشتمل ایک فوج کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔آنحضرت ۖ نے عبد اللہ ابن جبیر کی سر کرد گی میںپچاس تیراندازوں کو لشکر اسلام کے پیچھے ایک پہاڑ کے درہ پر مامور کیا اور حکم دیاکہ اس جگہ کو کسی بھی حالت میں نہ چھوڑیں۔
لشکر کفّارسے ، طلحہ ا بن ابی طلحہ، ابو سعید ا بن طلحہ، حرث ا بن ابی طلحہ، ابوعزیز ا بن طلحہ، عبد اللہ ابن ابی جمیلہ او رارطات ابن سر جیل نامی کئی پہلوان با لترتیب میدان کارزار میں
..............
١٣٧۔ احقاق الحق، ج ٨، ص ٣٥٢۔ بحار الانوار ، ج ٤١ ، ص ٨٠۔ ارشادمفید ، ج ١، ص ٦٢
آئے اور یہ سب، ٢٦ سالہ نوجوان حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل کئے گئے۔ اسلام کے سپاہی جنگ کی ابتدا ء میں فتحیاب ہو ئے۔ لیکن تیراندازوں کے درہ کو چھوڑنے کی وجہ سے خالدا بن ولید کی سرکردگی میں دشمن کے سواروں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور انھیں شکست دیدی۔ اس جنگ میں ستر مسلمان شہید ہوئے، جن میں حضرت حمزہ بھی تھے۔ بعض سپاہیوں ، من جملہ علی نے رسول خدا کا مشکل سے دفاع کیا۔ علی علیہ السلام کے بدن پر اس جنگ میں ٩٠ زخم آئے، اسی جنگ میں یہ آسمانی آواز سنی گئی'' لافتی الا علی لا سیف الا ذولفقار'':''علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی جوان نہیں اور ذوالفقار کے علاوہ کوئی تلوار نہیں (١٣٨)''۔

جنگ خندق(احزاب)
شوال ٥ ہجری میں مشرکین مکہ نے مدینہ میں بچے کچھے یہودیوں اور دوسرے قبائل کی مدد سے ایک ہزار سپاہیوں پر مشتمل ایک فوج تشکیل دی اور مسلمانوں کو نابود کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس جنگ میں لشکر کفّارکا اسی (٨٠) سالہ نامور پہلوان عمروا بن عبدود بھی شریک تھا۔ وہ جنگ بدر میں زخمی ہواتھا لہذا اس کے دل میں مسلمانوں کے متعلق کینہ تھا اور اس نے قسم کھائی تھی کہ جب تک رسول خدا ۖ اور مسلمانوں سے انتقام نہیںلوں گا اس وقت تک اپنے بدن پر تیل کی مالش نہیں کروںگا!!
مدینہ میں داخل ہونے کے بعد یہودیوں کے قبیلہء بنی قریضہ نے ،رسول خدا ۖسے کئے ہوئے اپنے عہد وپیمان کو توڑ کر کفار کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا!مسلمانوں
..............
١٣٨۔ احقاق الحق، ج ٨، ص ٣٥٩۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج ٣، ص ٤٠١۔ تذکرة الخواص، ص ٣٠، تاریخ طبری ، ج ٣، ص ٣٧
نے سلمان فارسی کے مشورے پر مدینہ کے اطراف میںخندق کھودی تاکہ دشمن شہر میں داخل نہ ہوسکیں۔مسلمان ٢٨ دن تک محاصرہ میں رہے ،یہاں تک کہ کفار کا پہلوان عمروا بن عبدود نے خندق کو عبور کر کے مسلمانوں کو مقابلہ کی دعوت دی ۔علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی شخص اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوا کیونکہ عمرو بن عبدود ایک زبر دست پہلوان تھا ۔علی علیہ السلام میدان میں تشریف لائے۔جب علی علیہ السلام کاعمرو ابن عبدود سے مقا بلہ ہوا تو رسول خدا ۖنے فرمایا:آج کل ایمان کل کفر کے مقا بلہ میں ہے۔''
اس مقابلہ میں حضرت علی نے دشمن کو ہلاک کر دیا اور اس کے سر کو تن سے جدا کر کے رسول خداۖ کے سامنے ڈال دیا ۔رسول خداۖ نے فر مایا:''بیشک خندق میں علی کی ضربت جن وانس کی عبادت سے افضل ہے۔''
علی علیہ السلام نے جس وقت یہ گرانقدرخدمت اسلام اور مسلمانوں کے حق میں انجام دی،اس وقت آپ ٢٧سالہ جوان تھے۔اس جنگ کے بعدرسول خدا ۖ،حضرت علی علیہ السلام کی سرکر دگی میں ایک لشکر کو لے کر بنی قریضہ کے یہو دیوںکی طرف روانہ ہو ئے۔یہودیوں کے سر دارحی ابن اخطب کے مارے جانے کے بعدشہر مدینہ کے باشندے یہو دیوں کے خطرہ سے مکمل طور پر محفوظ ہوئے اوریہودیوں کا مال ومنال اور ان کی عورتیںمسلمانوں کے قبضہ میں آگئیں۔(١٣٩)
..............
١٣٩۔احقاق الحق ج٨،ص٣٧٨ ،مستدرک حاکم ج ٣ص٣٢۔تاریخ بغداد ج١٣،ص١٩ ۔مقتل الحسین خوارزمی ص٤٥


علی علیہ السلام کے ہاتھوں خیبر کی فتح
٧ ہجری میں خیبر کے یہودیوں نے ایک منصوبہ بنایا۔انہوں نے مدینہ کے
شمال مغرب میں دو سو کلو میٹر کے فاصلہ پرواقع خیبر کے سات قلعوں میں سے بعض کو جنگی اسلحوں سے بھر دیا ۔ان قلعوں میں چودہ ہزار یہودی رہائش پذیر تھے۔رسول خدا ۖچودہ سو پیدل سپاہیوں اور دوسوشہسوا روں کے ساتھ خیبر کی طرف روانہ ہوئے اور لشکر کا پرچم علی علیہ السلام کو دیا جواس وقت تیس سال کے جوان تھے۔
اس جنگ میں عمر اور ابو بکر نے شکست کھائی ۔یہاں تک کہ رسول خدا ۖکے حکم سے علی علیہ السلام میدان جنگ میں آئے اور یہودیوں کے نامور پہلوان مرحب پربجلی کی طرح ٹوٹ پڑے اور ایک کاری ضرب سے اس کا کام تمام کیا۔اس کے بعد مسلمانوں نے حملہ کیا اور علی علیہ السلام نے خیبر کے آہنی دروازہ کواکھاڑ کر سپر کے مانند ہاتھ میں اٹھا لیا۔اس جنگ میں یہودیوں کے تین پہلوان مرحب،حارث اور یاسر علی علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوئے اور خیبر فتح ہوا۔جنگ کے خاتمہ پر چالیس آدمیوں کی مدد سے در خیبرکو دوبارہ اپنی جگہ پر نصب کیا گیا۔(١٤٠)
..............
١٤٠۔احقاق الحق ج٥،ص ٤٢٠۔کنز العمال ج٥ ،ص٢٨٣۔ارشاد مفید ج١،ص١١٤ ۔مستدرک الصحیحین ج٣ ص٣٧