دوسراحصہ:
پیغمبر اسلام ۖ
کا
جوانوںکے ساتھ سلوک
جوانی خدا وند متعال کی ایک گرانقدر نعمت اورانسانی زندگی کی سعادت کا بڑاسر مایہ ہے۔
میں تمہیںوصیت کرتاہوں کہ نوجوانوں اور جوانوں کے ساتھ نیکی کرو۔
( پیغمبر اکرمۖ)
پہلے حصہ میںمختصر طور پر آپ ،پیغمبر اسلام ۖ کے بچوں کے ساتھ حسن سلوک سے آگاہ ہوئے۔اب ہم دوسرے حصہ میں پیغمبر اسلام ۖ کے جوانوں کے ساتھ حسن سلوک کو پیش کرتے ہیں،تاکہ معاشرے اور مسلمانوں کی رہنمائی ہو سکے ،کیونکہ ایک ملک کا سب سے بڑا سر مایہ اس ملک کے انسان ہوتے ہیںاور ہرملک کی سب سے اہم انسانی طاقت اس ملک کے جوان ہی ہو تے ہیں ۔کیونکہ یہ جوانی کی طاقت ہی ہے جو زندگی کی مشکلات پر قابو پاسکتی ہے اور دشوار وناہموار راستوں کو طے کرسکتی ہے ۔اگر کھیتیاں سر سبز اورلہلہاتی ہیںاور بڑی صنعتوں کی مشینیں چل رہی ہیں ،اگر زمین کے اندر موجود کانیں زمین کی گہرائیوں سے نکال کر باہر لائی جاتی ہیں،اگر فلک بوس عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں،اگر شہر آباد کئے جاتے ہیں اور ملک کی اقتصادی بینادوں کو مستحکم اور بارونق بنا یا جاتا ہے،اگر ملک کی سرحدوں کودشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھاجاتا ہے اور ملک میں امن و امان بر قرارکیا جاتا ہے،تو یہ سب جوان نسل کی گرانقدر کو ششوں کا نتیجہ ہے،کیونکہ جوانوں کی یہ انتھک طاقت تمام ملتوں اورقوموں کی امید کا سبب ہوتی ہے۔
اسی لئے جوانی کے دن پہنچتے ہی بچپن کا دور ختم ہو جاتا ہے اور انسان شخصی ذمہ داریوںکی دنیامیںقدم رکھتا ہے اور اجتماعی و عمومی فرائض انجام دینے کابیڑا اٹھا لیتاہے اس لئے آج کی دنیا میں جوا نوں کو خاص اہمیت دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے نو جوان،سیاسی ، اجتماعی ،اقتصادی،صنعتی واخلاقی جیسے تمام مسائل میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
دین مقدس اسلام نے بھی چودہ سو سال قبل اپنے جامع،روح افزا اور سعادت بخش منصوبوں کے پیش نظر جوان نسل پر ایک ایسی خاص توجہ کی ہے کہ آج تک کوئی معا شرہ،کوئی تہذیب،کوئی دین اور کوئی مکتب اس کی مثال پیش نہیںکرسکا ۔اسلام نے جوانوں کو مادی، معنوی، نفسیاتی،تر بیتی، اخلاقی،اجتماعی،دنیوی و اخروی،غرض کہ ہر لحاظ سے زیر نظر رکھا ہے،جبکہ دوسرے مذاہب اور تہذبیوں میں جوانوں کے صرف بعض مسا ئل پر توجہ دی جا تی ہے۔
جوانی کی قدر وقیمت
جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ آج کی دنیا میں جوانوں کا موضوع اور ان کی قدر وقیمت تمام ملتوں اور اقوام کی زبان پر ہے اور ہر جگہ نسل جوان کا چرچا ہے ۔اس لئے محقیقن،مفکرین اور مصنفین نے ان کے بارے میں گونا گون علمی بحثیں کی ہیں۔
ان میں سے بعض افراد نے تند روی سے کام لے کرجوا نوں کو اپنے شائستہ مقام ومنزلت سے بلند تر کر دیا ہے اور کچھ لو گوں نے تفریط سے دو چار ہوکرنا پختگی اور علمی وعملی نا تجربہ کاری کے سبب جوانوں کو ان کے اصلی مقام سے گرا دیا ہے ۔ایک تیسرا گروہ بھی ہے جس نے اس سلسلہ میں درمیانی راستہ اختیار کیا ہے۔
دین کے پیشوائوں نے جوانی کو خدا وند متعال کی ایک گرانقدر نعمت اور انسانی زندگی کی سعا دت کا عظیم سر مایہ جا نا ہے اور اس مو ضوع کے بارے میں مختلف عبارتوں میں مسلمانوں کویاد دہانی کرائی ہے۔
رسول خدا ۖ نے فر ما یا:
ٍٍٍٍ''میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ نوجوانوں اور جوانوں کے ساتھ نیکی کرو،کیونکہ ان کا دل نرم اور فضیلت کوقبول کرنے والا ہو تا ہے۔خدا وند متعال نے مجھے رسالت پر مبعوث کیا کہ لوگوں کو رحمت الہٰی کی بشارت دوں اور انھیں خدا کے عذاب سے ڈرا ؤں۔جوا نوں نے میری بات کو قبول کر کے میری بیعت کی لیکن بوڑھوں نے میری دعوت کو قبول نہ کرتے ہوئے میری مخالف کی ۔(١١٣)''
علی علیہ السلام نے فر مایا:
''دو چیزیں ایسی ہیں جن کی قدر وقیمت کوئی نہیں جانتا،مگر وہ شخص جس نے ان کو کھودیا :ان میں سے ایک جوانی ہے اور دوسری تند رستی۔(١١٤)''
جب محمد ابن عبداللہ ابن حسن نے قیام کیا اورلوگوں سے اپنے لئے بیعت لے لی توامام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں آکر ان سے بیعت لینے کی درخواست کی لیکن امام نے قبول نہ کرتے ہوئے انھیںچند نصیحتیں کیں،ان میں سے ایک جوانوں کے بارے میں نصیحت بھی تھی ۔امام علیہ السلام نے یہ فرمایا:
''تمھیں جوانوں کو اپنے ساتھ رکھنا چاہئے اور بوڑھوں سے دوری اختیار کرنی چاہئے۔(١١٥)''
امام جعفر صادق علیہ السلام کی یہ نصیحت بذات خود جوانوں کی قدر وقیمت اور اہمیت واضح کرتی ہے اور خدا وند متعال کی اس بڑی نعمت کی طرف متوجہ کرتی ہے۔اسی لئے رسول خدا ۖ ابو ذر سے فرماتے ہیں:
''پانچ چیزوں کو کھو دینے سے پہلے ان کی قدر کرو،اوران میں سے ایک جوانی بھی ہے کہ بڑھا پے سے پہلے اس کی قدر کرو…(١١٦)''
جوانوں کو اہمیت دینا
اسلام کے سچے پیشوائوں نے قدیم زمانے سے، اپنے گرانقدر بیا نات سے جوا نو ں کی پاک روح اور ان کی اخلاقی وانسانی اصولوںکی پابندی کی نصیحت اور تاکید کی ہے اور جوان نسل کو تر بیت کرنے کے سلسلہ میںمربیوں کے اس گرانقدر سرمایہ سے استفادہ کرنے کی تا کیدکی ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی ''ابی جعفر احول'' نے ایک مدت تک شیعہ مذہب کی تبلیغ اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی فکر کی تعلیم وتربیت کی۔ایک دن وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوے۔امام علیہ السلام نے ان سے پوچھا:تم نے اہل بیت علیہم السلام کی روش کو قبول کرنے اور شیعہ عقائد کو قبول کرنے کے سلسلہ میں بصرہ کے لوگوں کو کیسا پا یا؟
اس نے عرض کی :ان میں سے بہت کم لوگوں نے اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کو قبول کیا ۔امام نے فر مایا :تم جوان نسل میں تبلیغ کر نا اور اپنی صلاحیتوں کو ان کی ہدایت میں صرف کرنا،کیونکہ جوان جلدی حق کو قبول کرتے ہیں اورہر خیر ونیکی کی طرف فوراًما ئل ہو تے ہیں۔(١١٧)
اسماعیل بن فضل ہاشمی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے(حضرت یوسف کو کنویں میں ڈالنے کے بعد یوسف کے بھائیوں نے اپنے باپ کے پاس آکر عفو وبخشش کی درخواست کی) اپنے بیٹوں کی عفو وبخشش کی درخواست کو منظور کرنے میں کیوں تاخیر کی ،جبکہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو فورا بخش دیا اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کی ؟
امام جعفرصادق علیہ السلام نے جواب میں فرمایا!''اس لئے کہ جوان کا دل بوڑھے کی نسبت حق کو جلدی قبول کرتاہے۔(١١٨)''
مذکورہ دو روایتوں سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ جوان نسل فضیلتوں کو پسند کرتی ہے اور خوبیوں کو جلدی قبول کرتی ہے اور فطری طور پر بہادری ،شجاعت،سچائی،اچھائی وعدہ وفائی، امانت داری ،خود اعتمادی،لوگوں کی خدمت خلق،جان نثاری اور اس طرح کی دوسری صفتوں کی طرف رجحان اور دلچسپی رکھتی ہے اور پست اور برُے اخلاق سے متنفر ہوتی ہے۔
چندنکات
دین کے پیشوائوں کی نظر میں،جوانی ایک گراںبہااور گرانقدر شی ہے۔جو لوگ اپنے لئے سعادت اور خوشبختی کے خواہشمند ہیںاور اس گرانقدرطاقت سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں،انھیں درج ذیل چند نکات کی طرف خاص توجہ رکھنی چاہئے!
١۔جوانی کا دور،انسانی زندگی کا ایک بہترین ،گرانقدر اور مفید دور ہے۔
٢۔جوانی کی طاقت سے استفادہ کرنے کے سلسلہ میں سعی وکوشش کرنا، کامیابی کی بنیادی شرط ہے۔
٣۔ہر انسان کی خوشبختی اور بد بختی کی داغ بیل اس کی جوانی کے دوران پڑتی ہے،کیونکہ جو انسان ان فرصتوں سے ضروری استفادہ کرے،وہ کامیاب ہو سکتاہے اور صلاحیتوں سے استفادہ کرکے اپنی پوری زندگی کے لئے خوشبختی حاصل کر سکتا ہے۔(١١٩)
قیامت کے دن جوانی کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
رسول خدا ۖنے فر مایا:
''قیامت کے دن کوئی بندہ مندرجہ ذیل سوالات کا جواب دئے بغیرایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکے گا:
١۔اس نے اپنی عمر کس کام میں صرف کی ؟
٢۔اس نے اپنی جوانی کس طرح اورکہاں گزاری ؟
پیغمبر اسلام ۖکے اس ارشاد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے جوانی کی طاقتوںکو کس قدر اہمیت دی اور توجہ دی ہے،کیونکہ اس گرانقدر سرمایہ کو ضائع کرنے کے سلسلہ میں قیامت کے دن خاص طور پر سوال کیا جائے گا۔
جی ہاں،اخلاقی اقدار اور انسانی صفات کے مالک جوانوںکی قدر ومنزلت، پھولوں کی ایک شاخ کی مانند ہے جو عطر وخوشبو سے لبریز ہے،تازگی کے علاوہ ،اس کی فطری خوبصورتی اور حسن و جمال بھی معطر ہے۔لیکن اگر جوانی الہٰی اقدارکی مالک نہ ہو،تو اس کی مثال کانٹوں کی سی ہے جن سے ہرگزکوئی محبت نہیں کرتا۔
رسول خدا ۖنے فرمایا:
''با ایمان شخص کے لئے ضروری ہے کہ اپنی طاقت سے اپنے لئے استفادہ کرے اور دنیا سے اپنی آخرت کے لئے، جوانی سے بڑھاپے سے پہلے اور زندگی سے موت سے پہلے استفادہ کرے۔(١٢٠)
آنحضرت ۖنے مزید فرمایا:
''فرشتہ الہٰی،ہر شب بیس سالہ جوانوں سے مخاطب ہوکر فریاد کر تا ہے کہ سعی وکوشش کرواور کمال وسعادت تک پہنچنے کے لئے کو شش کرو۔(١٢١)''
اس لئے،جوانی کا دور،انفرادی مسئولیت ،بیداری،ہوش میں آنے اور عمل وکوشش کا دور ہے اور جو لوگ اس الہٰی طاقت سے استفادہ نہیں کریں گے،انھیں سر زنش کی جائے گی۔
خدا وند متعال فرماتا ہے :
(ولم نعمّرکم مایتذکّر فیہ من تذکّر)(فاطر٣٧)
''…تو کیا ہم نے تمھیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ جس میں عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرتے؟''
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
''یہ آیت ان غافل جوانوںکی سرزنش و ملامت کے لئے ہے جو اٹھارہ سال کے ہو گئے ہیںاور اپنی جوانی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔(١٢٢)
..............
١١١٣۔''باتر بیت مکتبی آشنا شویم''،ص٣٢٠
١١٤۔شرح غرر الحکم ج٤،ص١٨٣
١١٥۔کافی ج ٢،ص١٦٣
١١٦۔بحا رالانوار ج٧٧،ص٧٥،ج٨١،ص١٨٠۔الحضال ج١،ص١١٣
١١٧۔روضہ کافی،ص٩٣
١١٨۔سفینہ البحار،مادہ قلب ج٢،ص٢٤٢
١١٩۔''گفتار فلسفی،جوان''ج١ ص٧١
١٢٠۔وسائل الشیعہ ج ٤ ص٣٠
١٢١۔مستدرک الوسائل ج٢،ص٣٥٣
١٢٢۔مذکورہ آیت کے ذیل ہیں،تفسیر البرہان
|