پہلا حصہ:
بچوں کے ساتھ
پیغمبر اسلام ۖکا سلوک
بچوں کے ساتھ پیار ومحبت سے پیش آنا پیغمبر اکرم ۖکے نمایاں خصوصیات میں سے تھا۔
اپنے بچوں کااحترام کرواوران کے ساتھ ادب سے پیش آؤ۔
( پیغمبر اکرم ۖ)
تربیت کی اہمیت
بچہ پیدائش کے بعداپنے خاندان سے جدا ہونے اور دوسروں کے ساتھ مشترک زندگی گزارنے تک تربیت کے دودور سے گزرتا ہے:
١۔بچپنے کا دور،یہ دورایک سال کی عمرسے سات سال تک ہوتا ہے۔اس دور میںبچہ کے اندر براہ راست تر بیت حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ،کیونکہ وہ اس دور میں اپنی دنیا سے بے خبر ہوتا ہے۔
٢۔سات سے چودہ سال کی عمر تک کا دور۔اس دور میں عقل تدریجاً بڑ ھتی ہے اور فکری فعالیتوں کے لئے آمادہ ہوتی ہے۔اس دور میں انسان سیکھ سکتا ہے اور تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔
پہلے دور میں تربیت،براہ راست نہیں ہونی چاہئے اور ہر گز اس کو کسی چیز سے روکنے اور کسی چیز کے حکم دینے میں سختی نہیں کر نا چاہئے بلکہ بچہ اپنے ماحول سے تربیت پاتا اور ادب سیکھتا ہے اس طرح اس کے وجود میں اخلاق کی پہلی بنیاد پڑتی ہے اور وہ اپنے ماحول کے بارے میں اچھی یاد داشتیں اور مناسب طرز عمل کو اپنے ذہن میں محفوظ کرلیتا ہے۔
دوسرے دور میں بھی بچے کو آزادنہیں چھوڑنا چاہئے اور اس کی غلطیوں سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے، بلکہ اس کو اس کی بے ادبیوں سے روکنا چاہئے، اسے نظم وضبط سکھانا اورحد سے زیادہ کھیل کود وغیرہ میں وقت ضائع کرنے سے روکنا چاہئے،عبادت اور نیک کاموں کی طرف اسے رغبت دلانا چاہئے۔(١)
افسوس کہ اکثر لوگ یہ نہیں جانتے ہیں کہ اپنے بچوں کی تربیت کب سے شروع کریں۔بعض والدین یہ تصور کرتے ہیں کہ بچو ں کی تربیت چھ سال تمام ہونے کے بعدکی جانی چاہئے اور بعض تربیت کا آغازتین سال کی عمر ہی سے کر دیتے ہیں۔
لیکن یہ خیال غلط ہے،کیونکہ جب بچے کی عمرتین سال مکمل ہوتی ہے تو اس میں ٧٥فیصد صفات اچھے اور برے صفات پیدا ہو جاتے ہیں۔
بعض ماہرین نفسیات کا یہ خیال ہے کہ بچے کی تربیت پیدائش سے ہی شروع کی جانی چاہئے،لیکن بعض دوسرے ماہرین کسی حد تک احتیاط کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بچے کی تر بیت پیدائش کے بعد دوسرے مہینے کی پہلی تاریخ سے ہی ہوناچاہئے ۔لیکن ''شکا گو''یونیور سٹی میںاس موضوع پردقیق تحقیق کرنے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ:
''ایک صحیح وسالم بچے کی فکری سطح چار سال کی عمرمیں٥٠فیصد،آٹھ سال کی عمر میں٣٠ فیصد اور سترہ سال کی عمر میں٢٠ فیصد مکمل ہوتی ہے۔لہذا ہر چار سالہ بچہ٥٠فیصد سوجھ بوجھ کی صلاحیت رکھتاہے،اسی طرح٢اور٣ سال کے درمیان
بچے میں رونماہونے والی تبدیلیاں ٨اور٩ سال کے درمیان رونما ہونے والی تبدیلیوں سے کئی گنا زیادہ اوراہم ہوتی ہیں۔(٢)''
بچے کی تربیت کہاں سے شروع کریں؟
تعلیم وتربیت کو مفیدبنانے کے لئے ضروری ہے کہ آج کل کے تصور کے برخلاف مذکورہ مدت سے پہلے ہی بچے کی تربیت اس کی پیدائش کے ابتدائی ہفتوں سے ہی شروع کرنا چاہئے ،پہلے صرف جسمانی مسائل اور پھر ایک سال کی عمر سے نفسیاتی مسائل کی طرف توجہ کی جانی چاہئے۔
یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ بچے کے لئے وقت کی اہمیت یکساں نہیں ہوتی،کیونکہ ایک سال کی عمر میںایک دن کی مدت،تیس سال کی عمر میںایک دن کی مدت سے کئی گنا طولانی ہوتی ہے۔شاید یہ مدت جسمانی اور نفسیاتی حوادث کے لحاظ سے چھ گنا زیادہ ہو۔لہذا بچپن کے اس گرانقدر دور سے پھر پورا فائدہ اٹھانے میں غفلت نہیں کرنی چاہئے۔اس بات کا قوی احتمال ہے کہ بچے کی ابتدائی چھ سال کی عمر کے دوران زندگی کے قواعد وضوابط کے نفاذ کانتیجہ یقینی ہے۔(٣)
اسی لئے حضرت علی فرماتے ہیں:
''من لم یتعلّم فی الصّغر لم یتقدّم فی الکبر۔(٤)''
''جوبچپن میں کچھ نہ سیکھے وہ بڑا ہو کرآگے نہیں بڑھ سکتا ۔''
..............
١۔''باتربیت مکتبی آشنا شویم''،ص٧٧۔٧٨
٢۔''روانشناسی کودک''،ص٧٧
٣۔''راہ و رسم زندگی''،ص١١٨
٤۔غرر الحکم،ص٦٩٧
لہذا بچپن کا دور زندگی کے صحیح طور طریقے سیکھنے کا بہترین وقت ہو تا ہے۔کیونکہ اس زمانے میں بچے میں تقلید اور حفظ کی توا نائی بہت قوی ہوتی ہے۔اس دور میں بچہ اپنے معاشرہ کے افراد کے حرکات وسکنات اور ان کے چال چلن کو پوری توجہ کے ساتھ دیکھتا ہے اور ان کا عکس،کیمرے کے مانند،اپنے ذہن میں کھینچ لیتاہے۔
اس لئے،بچے کے جسم کی نشو ونما اور تکامل کے ساتھ اس کی روح کی بھی صحیح راستے کی طرف ہدایت ہونی چاہئے تاکہ اس میں نیک اور شائستہ صفات پیدا ہو جائیں۔ کیونکہ جن بچوں کی بچپن میں صحیح طریقے سے تربیت نہیں ہوتی ہے،ان میں بڑے ہو نے کے بعد اخلاقی تبدیلی کا آنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
خوش قسمت اورکامیاب وہ لوگ ہیں،جو ابتدائے زندگی سے ہی صحیح وسالم تربیت کے ساتھ نشو ونما پاتے ہیںاور نمایاں اورگرانقدر صفات ان کی زندگی کا جزولا ینفک بن جاتے ہیں۔
بعض ماہرین نفسیات نے بچے کوایک ننھے پودے سے تشبیہ دی ہے،جس کی حالت کو ایک باغبان صحیح طریقہ کار کے تحت بدل سکتاہے۔لیکن جو لوگ ایک پرانے درخت کے مانند گندے اور نا پسندماحول میں پلے بڑھتے ہیں،ان کی اصلاح کرنا بہت دشوار ہوتا ہے،اور جو شخص ایسے افراد کے کردارو طرز عمل کو بدلنا چاہے گا،اسے بہت سی مشکلات کا سامناکر ناپڑے گا۔(٥)
..............
٥۔''کودک ازنظر وراثت وتر بیت''،ص ٢٢٣و٢٢٤
پیغمبر اکرم ۖ لو گوں کے لئے نمونہ عمل ہیں
خدا وند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:
(لقد کان لکم فی رسول اﷲ اسوة حسنة)(احزاب٢١)
''بیشک رسول خدا ۖ تمہارے لئے بہترین نمونہ ہیں،لہذا تم لوگ ان کے وجودمبارک سے مستفید ہو سکتے ہو۔''
پیغمبر اسلام ۖ پوری تاریخ میں بشریت کے لئے سب سے بڑے نمونہ عمل تھے،کیونکہ آپ ۖ اپنے بیان کے ذریعہ لوگوں کے مربیّ وراہنما ہونے سے پہلے اپنی سیرت اور طرز عمل سے بہترین مربیّ اور رہبر تھے،
پیغمبر اسلام ۖ کی شخصیت صرف کسی خاص زمانہ،کسی خاص نسل ،کسی خاص قوم،کسی خاص مذہب اورکسی خاص علاقہ کے لئے نمو نہ نہیں تھی،بلکہ آپ ۖ عالمی اورابدی لحاظ سے تمام لوگوں اورتمام ادوار کے لئے نمونہ تھے۔
ہم یہاں پرمعتبر اسناد وشواہد کی روشنی میں بچوںاور نوجوانوں کے ساتھ پیغمبر اسلام ۖ کے حسن سلوک اور طرز عمل کو بیان کر رہے ہیں۔
بچے کو اہمیت دینا
دور حاضر میں بچوں کوبہت اہمیت دی جارہی ہے۔خاندانوں اور معا شروں کے بچوں کی شخصیت کے احترام پرحکومت اور قوم کافی توجہ دے رہی ہے۔اس کے باوجود پیغمبر اسلام ۖ بچوں کی تربیت پرجتنی توجہ دیتے تھے،اتنی توجہ آج کی دنیا بھی نہیں دے پا رہی ہے ۔
اگرچہ،کبھی کبھی تہذیب و ترقی یافتہ ممالک کے زمامدار اور حکمران یتیم خانوںاور نرسریوں میں جاکرایک دو گھنٹے بچوں کے ساتھ گزار تے ہیںاور ان میں سے بعض تو بچوں کو گود میںلیکرتصویریںکھنچاتے ہیںاور ویڈیوفلم بناتے ہیں ،ان کے بارے میںمقا لات بھی لکھتے ہیں اور اس طرح بچوں کے تئیں اپنے احترام کولو گوں پر ظاہر کر تے ہیں،لیکن آج تک کوچہ و بازار میں کسی شخص نے بھی پیغمبر اسلام ۖ کے مانندنہایت سادگی کے ساتھ بچوں کو گود میں لے کرپیار نہیں کیا ۔اس طرح پیغمبر اکرم ۖاپنے اور غیروں کے تمام بچوں،سے خاص محبت فرماتے تھے۔اس سلسلہ میںآنحضرت ۖ کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ:
''والتّلطف بالصبیان من عادةالرّسول(٦)''
''بچوں سے پیار ومحبت کرنا پیغمبر اسلام ۖکی عادت تھی ''
شیعوں کے ائمہ اطہار علیہم السلام دوسرے دینی پیشوائوں نے بھی اسی پر عمل کیا ہے اور وہ بھی بچوں کی اہمیت کے قائل تھے۔ذیل میںہم چند نمونے پیش کر رہے ہیں:
١۔بچے سے سوال کرنا
حضرت علی علیہ السلام ہمیشہ لوگوں کے سامنے اپنے بچوں سے علمی سوالات کر تے تھے اور بعض اوقات لوگوں کے سوالات کا جواب بھی انھیں سے دلوا تے تھے۔
ایک دن حضرت علی علیہ السلام نے اپنے فرزندامام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سے چند موضوعات کے بارے میںکچھ سوالات کئے چنانچہ ان میں سے ہر ایک
نے مختصر لفظوں میں حکیمانہ جواب دئے۔اس کے بعدحضرت علی علیہ السلام نے مجلس میں موجودحارث اعور نامی ایک شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا:
ایسی حکیمانہ باتیں اپنے بچوں کو سیکھاؤ ،کیونکہ اس سے ان کی عقل وفکر میں استحکام وبالیدگی پیدا ہوتی ہے ۔(٧)
اس طرح حضرت علی علیہ السلام نے ان کا بہترین انداز میں احترام کیا اور ان کے وجود میں ان کی شخصیت کو اجاگر کیا اور خود اعتمادی پیدا کی ۔
..............
٧۔بحارالانور ج٣٥،ص٣٥٠،البدایة ج٨ص٣٧
٦۔المحجةالبیضا ج٣،ص٣٦٦
|