نبی امی


بحث کا حاصل
مجموعی طور پر جو کچھ بیان کیا گیا ہے‘ اس سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ تاریخ کے قطعی فیصلے کے مطابق اور قرآن کی گواہی اور اسلامی تاریخ کے بے شمار دلائل کی روشنی میں آپ کا لوح ضمیر کسی بشر یا انسان سے تعلم سے مبرا و منزہ تھا۔ آپ وہ انسان ہیں جنہون نے کسی بھی مدرسے سے تعلیم حاصل نہ کی‘ بلکہ صرف اور صرف مکتب الٰہی سے ہی اپنے لوح دل کو علمس ے منور فرمایا۔ آپ وہ پھول ہیں جن کے پروان میں سوائے باغبان ازل کے کسی کے ہاتھ نے چھوا نہیں‘ آپ کو باوجود اس کے کہ قلم‘ کاغذ‘ دوات اور پڑھنے‘ لکھنے سے آشنائی نہ تھی‘ لیکن خدا نے اپنی مقدس کتاب میں قلم اور اس کی تحریروں کا ایک مقدس امر کی حأثیت سے قسم کھائی:
ن و القلم وما یسطرون(قلم‘ ۱)
”قسم ہے ن و قلم کی اور اس چیز کی جسے لکھتے ہیں۔“
اس طرح سے خدا نے اپنے پہلے آسمانی پیغام میں پڑھنے کا اور حصول علم و دانش اور قلم کے استعمال کا حکم دیا اور پیدائش کی عظیم ترین نعمت کے ذکر کے بعد سب سے بڑی نعمت کا جس سے عالم بشریت کو نوازا گیا ہے‘ ذکر فرمایا:
اقرا باسم ربک الذی خلق خلق الانسان فی علق اقراء و ربک الاکرمo الذی علم بالقلم‘ علم الانسان مالم بعلم
”اے رسول! اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے ہر چیز کو پ یدا کیا‘ اسی نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا۔ پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے‘ جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی‘ اس نے انسان کو وہ باتیں بتائیں جن کو وہ کچھ جانتا ہی نہیں تھا۔“
وہ جس نے کبھی قلم کو ہاتھ نہ لگایا تھا‘ مدینے میں داخل ہوتے ہی معمولی وسائل کے ساتھ تحریک قلم کی داغ بیل ڈادلی اور اس سے قطع نظر کہ آپ نے کسی دنیاوی معلم کے آگے زانوں تلمذ اور کسی دارالعلوم یا یونیورسٹی کے مراحل طے نہ کئے ہوئے تھے‘ بذات خود معلم بشر اور یونیورسٹیوں کے وجود میں آنے کے سبب بن گئے۔
ستارئہ   ای  بدرخشید  و  ماہ  مجلس  iiشد        دل   رمیدئہ   مارا   انیس  و  مونس  iiسدا
نگار من کہ بہ مکتب نرفت و خط ننوشت        بہ   غمزہ   مسالہ   آموز  حد  مدرس  iiشد
کرشمہ   تو   شرابی   بہ   عاشقاف  پچود        کہ  علم  بی  خیر افتاد و عقل بی حس iiشد
”ایک ستارہ چمکا اور محفل کے لئے بدر منبر بن گیا اور ہمارے غمگین دل کا مونس و غمخوار ہو گیا۔ میرے آقا و سردار جو مدرسہ نہ گئے اور لکھنا نہ سیکھا‘ صرف ایک غمزہ کے نتیجے میں سو معلم کے لئے مشکل باتوں کی موشگافی کرنے لگا۔“
حضرت امام رض (ع)نے مختلف مذاہب و ادیان کے بزرگ علماء سے ایک مناظراتی بحث میں جو کہ ”راس الجالوت“ میں نقل کی گئی ہے‘ فرماتے ہیں:
”آنحضور کی سچائی کے دلائل میں سے ایک یہ بھی دلیل ہے کہ آپ یتیم‘ نادار‘ چرواہے‘ محنت کش اور آپ نے کوئی کتاب نہ پڑھی تھی اور کسی استاد و معلم کے سامنے زانوے تلمذ طے نہ کئے تھے اور اپنے ہمراہ ایک ایسی کتاب لائے جس میں پیغمبروں‘ گزشتہ اور آنے والوں کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔“(عیون اخبار الرضا‘ چاپ سنگی‘ ص ۹۴)
جو بات قرآن پاک کی عظمت اور بلندی میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے اور اس نورانی کتاب کے آسمانی ہونے کے بارے میں ایک محکم دلیل ہے‘ وہ یہ ہے کہ یہ عظیم آسمانی کتاب جس میں یہ آغاز تخلیق‘ قیامت‘ انسان‘ اخلاق‘ قانون‘ سچی کہانیاں‘ عبرت کے معارف و مواعظ کے ساتھ ساتھ تمام تر فصاحت و بلاغت کی حامل ہے‘ اس کے باوجود ایسے شخص کی زبان پر جاری ہوئی کہ جو بذات خود اُمی تھا۔ آپ نے نہ صرف اپنی تمام عمر میں کسی مدرسہ یا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل نہ کی اور دنیا کے کسی دانشور سے علم و دانش کسب نہ کیا‘ بلکہ آپ نے حتیٰ کہ اپنے زمانے کی ایک معمولی کتاب کو بھی نہ پڑھا تھا۔ یہ آسمانی معجزہ جس کو خدا نے اپنے رسول کو دیا‘ وہ کتاب کی شکل میں ہے‘ اس میں بیان ہیں‘ اس فکر ہے اور احساس ہے‘ اسے عقل و فکر یا دل و ضمیر سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ وہ کتاب ہے کہ صدیوں سے اپنی معجزانہ روحانی طاقت کو ثابت کرتی چلی آ رہی ہے اور زمانے کے نشیب و فراز اسے کبھی پرانا اور متروک نہیں کر سکتے۔ کروڑوں افراد کے دلوں کو اپنی جانب کھینچتی چلی آ رہی ہے‘ اس میں قوت حیات موج زن ہے‘ اس کتاب نے کتنے فرزانہ عقول کو تدبر و تفکر کرنے پر مجبور کیا اور کتنے دلوں کو روحانی ایمان‘ ذوق و اشتیاق سے لبریز کیا اور کتنے سحر خیزوں اور تہجد گزاروں کی روح کی غذا بنا اور کتنے آنسوؤں کو عشق الٰہی اور خوف الٰہی سے آدھی راتوں میں گالوں کو تر کیا اور زنجیروں میں جکڑی ہوئی کتنی اقوام کو ظلم و آمریت کے نرغے سے آزاد کرای (ع)ؑؑ
نقش  قرآن  چونکہ  بر عالم iiنشست        نقش  ھای  پاپ  و کاھن را iiشکست
فانہ  گویم  آنچہ در دل مضمر iiاست        این  کتابی  نیست  چیز  دیگر iiاست
چونکہ در جان رفت جان دیگر شود        جان  چو  دیگر شد جہان دیگر iiشود
ھمچو  حق  پیدا  و  پنھان است iiاین        زندہ   و   پایندہ   و  گو  پاست  iiاین
”جب قرآن پاک کا نقش دنیا پر ثبت ہوا‘ پادریوں اور کاہنوں کے منصوبوں کو ناکام کر دیا‘ جو کچھ دل میں ہے میں اسے آشکارا کہتا ہوں‘ یہ کتاب نہیں ہے بلکہ کوئی اور چیز ہے۔ جب یہ جسم و جان میں سرایت کرتی ہے تو جسم جان کی کچھ اور شان ہو جاتی ہے اور جب جام و جسم کی شان ب دلتی ہے تو کوئی اور جہان بن جاتی ہے۔ یہ کتاب اللہ تبارک و تعالیٰ کی مانند ظاہر بھی ہے اور باطن بھی۔ یہ زندہ ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اور ہمکلام ہوتی ہے۔“
یقینا حالت کائنات کی یہ ازل سے عنایت ہے کہ اس کتاب کی روشن دلیل اور وحی الٰہی کا کلام ثابت کرنے کے لئے اسے اپنے اس بندہ پر نازل فرمایا‘ جو یتیم‘ فقیر‘ چرواہا‘ بادیہ نشین اور پڑھنا‘ لکھنا نہ جاننے والا اور کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہ کرنے والا تھا:

ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء و اللہ ذوالفضل العظیم