نبی امی


احادیث و تواریخ
ڈاکٹر عبداللطیف کا دعویٰ ہے کہ احادیث و تواریخ سے بھی آپ کے لکھنے‘ پڑھنے کے بارے استدلال پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ دو واقعات کا حوالہ دیتا ہے:

پہلا واقعہ
وہ کہتا ہے:
”بخاری کتاب ”العلم“ میں ثبت شدہ روایات و احادیث کے ضمن میں نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضور نے اپنے داماد علی(ع)کو ایک خفیہ خط دیا اور خصوصیت کے ساتھ ان سے فرمایا کہ اس خط کو نہ کھولیں اور جس کے نام یہ خط عنوان کیا گیا ہے‘ اس کا نام اچھی طرح ذہن نشین فرما لیں۔ اب جبکہ آنحضور کے خفیہ خط کو ان کے داماد اور معتمد خاص علی(ع)کو بھی کھولنے کی اجازت نہ تھی تو اس خط کو لکھنے والے سوائے آنحضور کے اور کون ہو سکتا ہے؟“(ج ۱‘ ص ۲۰)
افسوس ہے یہ روایت جو صحیح بخاری میں ہے اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس خط حامل علی(ع)تھے‘ جبکہ موصوف اس بات سے کہ آنحضور خط کے نفس مضمون سے علی(ع)کو بھی بے خبر رکھیں‘ یہ دلیل پیش کرنا چاہتا ہے کہ اس خط کو آنحضور نے بذات خود تحریر فرمایا تھا۔
صحیح بخاری کے باب ”العلم“ سے منقول ہے کہ آنحضور نے ایک گروہ کو روانہ فرمایا اور ان کے امیر کو ایک خط دیا اور فرمایا کہ فلاں علاقے میں پہنچنے سے قبل خط کو نہ کھولنا۔ یہاں پر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ ان کا امیر علی(ع)تھا اور روایت کے نفس مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ خط کے حامل کو ہی خط کو کھولنا ہے‘ نہ کہ کسی تیسرے شخص نے۔ جیسا کہ ڈاکٹر عبداللطیف کی سوچ ہے!
بخاری نے جو واقعہ اس ضمن میں بیان کیا ہے‘ واقعہ ”۱بطن نخلہ“ کے بارے میں ہے اور یہو اقعہ سیر و تواریخ کی کتابوں میں رقم ہے۔
سیرئہ ابن ہشام ج ۱‘ ص ۶۰۱ میں ”سرتة عبداللہ بن جحش“کے عنوان سے اور بحارلانوار میں بھی اسی کی مانند روایت نقل کی گئی کہ خط کا حامل عبداللہ بن جحش تھا۔ کہا جاتا ہے کہ آنحضور نے اس سے کہا کہ دو دن کی مسافت طے کرنے کے بعد خط کو کھولنا اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اس کے مطابق عمل کرنا۔ عبداللہ بن جحش نے دو دن کی مسافت طے کرنے کے بعد خط کو کھولا اور آپ کے حکم کی تعمیل کی۔
مغازی و اقدی واضح طور سے اور واشگاف الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ خط لکھنے والے آنحضور نہ تھے‘ بلکہ ابی بن ابی کعب تھا‘ وہ کہتا ہے کہ
”عبداللہ بن جحش سے منقول ہے کہ ایک رات نماز عشاء کے بعد آنحضور نے مجھ سے فرمایا‘ صبح سویرے تیار اور ہتھیاروں سے سمیت میرے پاس آنا‘ تمہیں ایک مہم پہ روانہ کرنا ہے۔ فجر کی نماز کے بعد جو آنحضور کی امامت میں مسجد میں ادا کی گئی‘ میں آنحضور سے قبل ہتھیاروں سے لیس مکمل طور پر آپ کے دولت خانے پر آمادہ تھا‘ کچھ اور لوگ بھی میری طرح آماد تھے۔ آنحضور نے ابی بن ابی کعب کو بلوایا اور اسے حکم دیا کہ ایک خط تحریر کرے۔ آنحضور نے وہ خفیہ طور مجھے دیا اور فرمایا‘ میں نے تمہیں اس لشکر کا امیر بنایا اور دو ر اتوں کی مسافت جو فلاں راستے سے گزرتے ہوئے طے ہونے کے بعد میرے اس خط کو کھولنا اور جو کچھ اس میں تحریر ہے اس پر عمل کرنا۔ میں نے دو روز کی مسافت طے کرنے کے بعد خط کو کھولا تو اس میں آپ کا یہ حکم تھا کہ قریش کے کارواں سے جدا ہو کر ضروری اطلاعات کے حصول کے لئے ”بطن مکہ“ (مکہ اور طائف کے درمیان واقع ایک مقام) کی جانب روانہ ہو جاؤ اور اس میں یہ بھی ہدایت تھی کہ اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی اپنے ہمراہ جانے پر مجبور نہ کرنا‘ بلکہ جو چاہے تمہارے ہمراہ جائے اور جو نہ چاہے واپس لوٹ جائے۔ یہ ایک خطرناک مہم تھی‘ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا جو بھی جام شہادت نوش کرنے کے لئے تیار ہے‘ میرے ہمراہ چلے اور جو آمادہ نہیں اسے لوٹ جانے کا اختیار ہے۔ سب نے ایک آواز میں کہا:
نحن سامعون و مطیعون للہ و رسولہ ولک
”ہم خدا اور اس کے رسول اور تمہارے حکم کے لئے ہمہ تن گوش ہیں۔“
لہٰذا جس بات کو ڈاکٹر سید عبداللطیف سند بنا رہے ہیں‘ مکمل طور سے بے بنیاد ہے۔

دوسرا واقعہ
جسے موصوف بطور سند پیش کرتے ہیں‘ حدیبیہ کا واقعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسا کہ بخاری اور ابن ہشام نے نقل کیا ہے:
”آنحضور نے معاہدہ لے کر اسے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا۔“
”اس سلسلے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اولاً بخاری نے ایک روایت میں مذکورہ بات نقل کی ہے اور ایک دوسری روایت میں اس بات کی مخالفت کی ہے۔ علمائے اہل سنت کا قریب قریب اس بات پر اجماع ہے کہ اگرچہ عبارت کا ظاہری مفہوم اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آنحضور نے بذات خود معاہدے کو تحریر فرمایا ہے‘ لیکن روایت کرنے والے کا مقصود یہ نہ تھا۔“(سیرئہ حلبی‘ مغازی و اقدی‘ ج ۱‘ ص ۱۳‘ ۱۴)
مذکورہ واقعہ کو انہیں الفاظ میں بیان کرتے ہوئے مزید وضاحت کرتا ہے کہ
”آنحضور نے لفظ رسول اللہ (ع)ؑکو مٹانے کے لئے حضرت علی(ع)کی مدد حاصل کی۔“
اور بخاری کی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ
”بعض نے دعویٰ کیا ہے کہ آنحضور کا یہ ایک معجزہ تھا جو ظہور پذیر ہوا۔“
لیکن آگے چل کر کہتا ہے کہ
”یہ روایت اس شکل میں اہل علم کے نزدیک معتبر نہیں ہے‘ یعنی آنحضور نے تحریر کرنے کا حکم دیا نہ کہ خود تحریر فرمایا۔“
وہ کہتا ہے:
”ابوالولید یا جی مالکی اندلسی جو بخاری کی عبارت کے ظاہری مفہوم سے استفادہ کرنا چاہتا تھا‘ اسے علمائے اندلس کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔“(السیرہ الحلبیہ‘ ج ۳‘ ص ۲۴)
جبکہ سیرئہ ابن ہشام میں اس قسم کی کوئی بات موجود نہیں ہے اور معلوم نہیں کہ ڈاکٹر سید عبداللطیف ایسی بات کیوں ابن ہشام سے منسوب کرتا ہے؟
ہم پہلے ہی عرض کر چکے ہیں کہ تاریخی نکتہ نگاہ کے مطابق‘ بیشتر منقول روایتوں سے یہ اخذ کیا جاتا ہے کہ جو کچھ بھی تحریر کیا گیا وہ کام حضرت علی(ع)کے ذریعے انجام پایا اور صرف ابن اثیر اور طبری کی روایت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ باوجود اس کے آنحضور لکھنا نہ جانتے تھے‘ قلم دست مبارک میں لیا اور تحریر فرمایا۔
اگر یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے تو آنحضور نے عہد رسالت میں صرف ایک یا چند بار لکھا ہے‘ جبکہ بحث کا موضوع عہد رسالت سے قبل آپ کے لکھنے‘ پڑھنے سے متعلق ہے۔

مخالفین کا الزام
اس مقالہ کے آغاز میں ہم کہہ چکے ہیں کہ تاریخ کے اس حصے میں آنحضور اور اسلام مخالفین نے آپ پر یہ الزام عائد کیا کہ آپ دوسروں سے سنی ہوئی باتیں نقل فرماتے ہیں (اس الزام کی قرآن پاک کی بعض آیات آئینہ دار ہیں)‘ لیکن آپ پر اس پہلو سے الزام عائد نہ کیا کیونکہ آنحضور پڑھے‘ لکھے ہیں‘ تو شاید آپ کے پاس کتابیں موجود ہیں اور جو باتیں بیان فرماتے ہیں‘ دراصل انہیں کتابوں سے مآخوذ مواد پر مبنی ہیں۔
یہ عین ممکن ہے کہ آنحضور پر اس لحاظ سے بھی الزام لگایا گیا ہو‘ جس کا قرآن میں بھی ذکر ہے اور سورئہ فرقان کی آیت ۵ اس کی آئینہ دار ہے:
وقالوا اساطیر الاولین اکتتبھا فہی تملی علیہ بکرة و عشیا
”انہوں نے کہا کہ جو آپ بیان فرماتے ہیں‘ اگلے لوگوں کے افسانے ہیں جسے اس نے (آپ نے) کسی سے لکھوا لئے ہیں‘ پس وہی صبح و شام اس کے سامنے القاء و املاء ہوتے ہیں۔“
اس استدلال کا یہ جواب ہے کہ اس بات سے قطع نظر کہ آنحضور کے دشمنوں اور مخالفین کے الزام اس حد تک تعصب آمیز اور احساس کمتری کے آئینہ در ہیں کہ قرآنی تعبیر کے مطابق اس قسم کے الزام کو صرف اور صرف ظلم و زبرستی کا ہی مصداق قرار دیا جا سکتا ہے۔
یہ آیت اس امر کی وضاحت نہیں کرتی کہ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ حضور پاک خود تحریر فرماتے تھ۔ لفظ ”اکتتاب“ کا مفہوم لکھنا بھی ہے اور ”استکتاب“ بھی ‘ دوسرے لفظوں میں یہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے لکھوائے۔
آیت کا آخری حصہ دوسرے مفہوم کا مصداق ہے‘ کیونکہ آیت کا نفس مضمون یہ ہے کہ
”انہوں نے کہا کہ اگلے لوگوں کے افسانے ڈھکوسلے ہیں کہ جنہیں کسی سے لکھوا لئے ہیں‘ پس صبح و شام وہی اس کے سامنے القاء ہوتے ہیں۔“
اس ضمن میں لفظ ”اکتتاب“ کو ماضی کے صیغے میں اور ”املاء“ کو جاری اور صیغہ استمراری میں ذکر کیا گیا ہے‘ یعنی وہ چیزیں جو پہلے اس نے لکھوائی ہیں اور دوسرے لوگ جو پڑھنا جانتے ہیں‘ صبح و شام آتے ہیں اور اس کو سناتے ہیں اور وہ انہیں ازبر یاد کر لیتا ہے۔ اگر آنحضور بذات خود پڑھنا جانتے تو اس کی ضرورت ہی نہ تھی کہ وہ یہ کہیں دوسرے صبح و شام اس کے پاس آتے ہیں اور اسے لکھواتے ہیں‘ لکہ اتنا ہی کہنا کافی تھ اکہ آپ خود ان کے پاس جاتے ہیں اور ازبر یاد کر لیتے ہیں۔
ان باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دھونس جمانے والے اور الزام لگانے والوں کافر بھی جو آپ پر ہر قسم کا الزام عائد کرتے‘ یعنی کبھی آپ کو دیوانہ قرار دیتے‘ کبھی جادوگر کہتے اور کبھی آپ کو جھوٹا کہتے اور اس بات کا بھی آپ پر الزام لگاتے کہ آپ دوسروں سے سنی ہوئی باتیں نقل فرماتے ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ نہ کر سکے کہ کیونکہ پڑھنا‘ لکھنا جانتے ہیں‘ تو دوسری کتابوں کے مواد سے اپنے سے منسوب کرنے کے بعد ہمارے سامنے پڑھتے ہیں۔