نبی امی


کیا قرآن میں آنحضور کے پڑھنے اور لکھنے کے دلائل ہیں؟
عبداللطیف صاحب کا دعویٰ ہے کہ بعض قرآنی آیات سے واضح طور پر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آنحصور پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے۔ سورئہ آل عمران کی آیت ۱۶۳ پر اس طرف اشارہ ملتا ہے:
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فبصع رسولا من انفسھم یتلوا علیہم آیاتہ ویزکیھم و لعلمھم الکتاب و الحکمة و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین
”خدا نے یقینا ایمانداروں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا‘ جو انہیں خدا کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتا‘ ان کی پاکیزہ اور ان کا تزکیہ کرتا ہے‘ انہیں (کتاب خدا) اور عقل کی باتیں سکھاتا ہے‘ اگرچہ یہ لوگ (آپ کی بعثت) سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں گھرے ہوئے تھے۔“
وہ فرماتے ہیں کہ
”قرآن پاک نے واشگاف الفاظ میں بیان کیا ہے کہ فریضہ یہ تھا کہ آپ اپنے پیروکاروں کو قرآن پاک کی تعلیم دیں اور یہ بات عیاں ہے کہ کسی شخص کی کم از کم استعداد و لیاقت جو کتاب یا اس میں شامل موضوعات و دانشمندانہ باتیں دوسروں کو تعلیم دے‘ جو بجائے خود قرآنی تعلیمات کا حصہ ہے‘ یہ ہے کہ قلم کا استعمال کر سکے یا کم از کم قلم سے لکھے ہوئے مواد کو پڑھ سکے۔“
یہ استدلال بھی حیرت انگیز ہے کیونکہ
۱۔ تمام مسلمان جس بات پر اتفاق رائے رکھتے ہیں‘ جسے موصوف غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ آنحضور نبوت سے پہلے نہ پڑھنا جانتے تھے‘ نہ لکھنا۔ اس استدلال کی صداقت صرف اس حد تک ہے کہ آپ نبوت کے دوران سید مرتضیٰ‘ شعبی اور ایک اور گروہ عقیدہ کے مطابق پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے‘ لہٰذا ڈاکٹر عبداللطیف کا درست نہیں ہے۔
۲۔ جہاں تک نبوت کے عہد کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں بھی یہ استدلال مکمل نہیں ہے۔
البتہ بعض تعلیمات کے بارے میں جہاں پر ایک نئے متعلم کو پڑھنے‘ لکھنے کی تعلیم دی جاتی ہے یا یہ کہ ریاضی وغیرہ کی تعلیم ہو تو اس میں تعلیم حاصل کرنے والے کو قلم‘ کاغذ اور تختہ سیاہ وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے اور معلم کو عملاً اقدام کرنا چاہئے تاکہ متعلم تعلیم حاصل کر سکے‘ لیکن حکمت‘ اخلاق‘ حلال اور حرام جو پیغمبروں کے فرائض میں شامل ہے‘ تو اس کے لئے قلم‘ کاغذ‘ تختہ سیاہ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
حکماء کا وہ گروہ جو ”مشائین“ کے نام سے معروف ہے‘ انہیں اس لئے مشائین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ کیونکہ وہ راہ چلتے اپنے شاگردوں اور طالب علموں کو تعلیم دیتے تھے‘ لیکن وہ شاگرد جو ان تعلیمات کو ضبط تحریر میں لانا چاہتے تھے‘ تاکہ بھول جانے کی صورت میں انہیں دوبارہ یاد کر سکیں‘ ان کے لئے ضروری تھا کہ وہ ان تعلیمات کو تحریر کریں‘ لہٰذا آنحضور ہمیشہ ہدایت فرماتے تھے کہ ان کی باتوں کو تحریری شکل دیں۔ آپ فرماتے تھے:
قیدوا العلم
”علم کو ثبت کیا کرو۔“
وہ دریافت کرتے کہ ہماری جانیں آپ پر قربان یہ کیونکر ممکن ہے؟ آپ جواب میں فرماتے:
”اسے تحریر و ثبت کیا کرو۔“(بحار‘ چاپ جدید‘ ج ۲‘ ص ۱۵۱)
آپ نے مزید فرمایا:
نضر اللہ عبدا سمع مقالتی فوعاھا و بلغھا من لم یسمعھا(کافی‘ ج ۱‘ ص ۴۰۳)
”خدا اس بندہ کو خوش و خرم رکھے‘ جس نے میری بات سنی‘ ازبر کی اور بعد میں اس تک پہنچائی جس نے نہ سنی ہو۔“
حدیث میں وارد ہے کہ آنحضور نے مسلسل تین بار فرمایا:
”خداوندا! میرے جانشینوں پر رحم فرما۔“
اصحاب نے فرمایا:
”یا رسول اللہ! آپ کے جانشین کون ہیں؟“
آپ نے فرمایا:
”میرے جانشین وہ ہیں جو میرے بعد میری احادیث و سنت پر عمل کریں گے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیں گے۔“
(بحار‘ چاپ جدید‘ ج ۲‘ ص ۱۴۴)
نیز آنحضور نے فرمایا:
من حق الولد علی الوالد ان یحسن اسمہ و ان یعلمہ الکتابة و ان یزوجہ اذا بلغ(وسائل الشیعہ‘ ج ۳‘ ص ۱۳۴)
”باپ پر بیٹے کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے‘ اس کو پڑھنا‘ لکھنا سکھائے اور جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کر دے۔“
قرآن پاک میں واشگاف انداز میں ارشاد ہوتا ہے:
یا ایھا الذین آمنوا اذا توا ینقم بدین الی اجل مسمی فاکتبوہ و لیکتب بینکم کاتب بالعدل(بقرہ‘ ۲۸۲)
”اے اہل ایمان جب ایک میعاد مقرر تک کے لئے آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور لکھنے والے کو چاہئے کہ تمہارے درمیان ہونے والے قول و رار کو انصاف سے ٹھیک ٹھیک لکھے۔“
لہٰذا خدا اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے دینی ورثے کی حفاظت کے لئے‘ نیز اپنی اولاد کے حقوق کی ادائیگی کے لئے اور دنیاوی امور کے انتظام و انصرام کے لئے لکھنے اور پڑھنے کی مقدس صنعت کے لئے کمر ہمت باندھیں۔ اس بناء پر ”تحریک قلم“ وجود میں آئی‘ یہ اسی تحریک کا نام ہے جس میں ہاتھ کی انگلیوں پر شمار کئے جانے والے افراد شاسمل تھے‘ ان افراد نے علم و دانش اور پڑھنے‘ لکھنے کے فن کے حصول کے لئے انتھک کوشش کی اور جنہوں نے مدینے کی کئی زبانیں سیکھیں‘ جس کے نتیجے میں وہ ان تعلیمات کے ذریعے اسلام کے پیغام کو متعدد زبانوں میں ھھھ پوری دنیا میں پھیلا دیا۔
ہم تواریخ میں پڑھتے چلے آئے ہیں کہ آنحضور نے اسیران بدر کو فدیہ لے کر آزاد کر دیا۔ ان میں سے بعض اسیر مفلس و نادار تھے‘ ان سے فدیہ لئے بغیر آزاد کر دیا گیا‘ جبکہ جو اسیر لکھنے کے فن سے واقف تھے‘ ان کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا کہ ہر ایک مدینے کے دس بچوں کو لکھنے کی تعلیم دے کر آزادی حاصل کرے۔
(تاریخ الخمیس دیار بکری‘ ج ۱‘ ص ۳۹۰‘ السیرہ الحلیبہ‘ ج ۲‘ ص ۲۰۴)
لکھنے کی صنعت کی ترویج کے سلسلے میں آنحضور کو اس حد تک اصرار تھا تاکہ مسلمان تعلیم و تعلم کی جانب راغب ہو سکیں‘ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود یہ استدلال پیش نہیں کیا جا سکتا کہ آپ کے لئے لوگوں کو تعلیم و تعلم کے زیور سے آراستہ کرنے اور پھر ترویج و تبلیغ دین اسلام کے بارے میں پڑھنے‘ لکھنے کا جاننا ضروری تھا۔
موصوف کا کہنا ہے کہ
”خدا نے سورئہ قلم کے آغاز میں قلم اور لکھنے کے بارے میں بتایا ہے۔ کیا یہ واضح صریح آیات اس امر کی دلیل نہیں کہ آنحضور پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے اور کتاب و قلم سے واسطہ تھا؟… یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپ لوگوں کو حصول علم اور پڑھنا‘ لکھنا سیکھنے کی ترغیب دیں اور آپ ذاتی طور پڑھنے لکھنے کے لئے اہمیت کے قائل نہ ہوں؟ جبکہ یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ آپ تمام احکامات میں دوسروں سے پیش پیش ہوتے تھے۔“(مجلہ روشن فکر)
یہ استدلال بھی حیرت انگیز ہے‘ لیکن یہ آیات اس امر کی دلیل ہیں کہ خدا نے یہ آیات ایک انسان پر نازل فرمائیں تاکہ وہ خدا کے بندوں کو صحیح راستہ دکھلائے‘ نیز یہ کہ آنحضور بھی جن کے قلب مقدس پر یہ آیات نازل ہوئیں‘ بنی نوع بشر کے لئے پڑھنے‘ لکھنے کی اہمیت کو جانتے تھے‘ لیکن یہ آیات کسی بھی پہلو سے اس امر کی دلیل نہیں ہیں کہ خدا اور اس کے رسول کو پڑھنے‘ لکھنے اور قلم و کاغذ سے کوئی سروکار ہے۔
موصوف کا کہنا ہے کہ
”آنحضور تمام احکامات کے سلسلے میں پیش پیش ہوتے تھے‘ لہٰذا کیونکر یہ ممکن ہے کہ پڑھنے‘ لکھنے کی ضرورت کا حکم دیا ہو اور بذات خود اس پر عمل نہ کیا ہو؟ یہ بات ایسی ہی ہے کہ ایک ڈاکٹر جو کسی بیمار کے لئے کوئی نسخہ تجویز کرتا ہے‘ تو اسے چاہئے کہ اس نسخے کو پہلے خود استعمال میں لائے۔ فطری طور پر اگر ڈاکٹر بیمار ہوتا ہے تو اسے بھی دوسرے بیماروں کی طرح دوا استعمال کرنی پڑے گی‘ یعنی دوسروں کے علاج سے قبل پہلے وہ اپنا علاج کرے گا‘ لیکن اگر بیمار نہ ہوا ہو اور اسے دوا کی ضرورت ہوئی ہو تو پھر کیا ہو گا؟“
ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا دوسروں کی طرح آنحضور کو بھی پڑھنے‘ لکھنے کی صنعت ضرورت ہوتی ہے کہ عام لوگوں کے لئے کمال و بلندی کی علامت بنتا ہے اور اس صنعت کا ان میں نہ ہونا نقص سمجھ جاتا ہے یا یہ کہ آنحضور ایک خصوصی کیفیت کے حامل تھے کہ ان کے لئے یہ صنعت جاننا ضروری نہیں تھا۔ آپ عبادت‘ جانثاری‘ تقویٰ‘ سچائی‘ صداقت‘ حسن خلق‘ جمہوریت پسندی‘ انکساری و عاجزی اور دیگر تمام آداب و صفات حسنہ میں سب کے لئے اسوہ تھے‘ کیونکہ آپ کے لئے ان تمام تر صفات کا ہونا باعث کمال اور ان فقدان کا ایک نقص سمجھا جاتا‘ جبکہ عرف عام میں پڑھا‘ لکھا ہونا وہ آپ کے لئے ضروری نہیں تھا۔
دراصل بنی نوع انسان کے لئے تعلیم یافتہ ہونا اس لئے ضروری ہے کیونکہ یہ وہ ذریعہ ہے کہ جس کی مدد انسان ایک دوسرے کی معلومات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ چنانچہ حروف ان کی شکل وہیات اور صنعت خط وہ علامات ہیں کہ انسانوں نے ایک دوسرے کے افکار و مقاصد کو سمجھنے کے لئے وضع کی ہیں۔ صنعت خط کے سیکھنے سے ایک فرد دوسرے فرد کو اور ایک قوم کسی دوسری قوم کو اپنی معلومات منتقل کرتی ہے۔ اسی طرح معلومات کا سلسلہ نسل در نسل منتقل ہوتا چلا جاتا ہے‘ لہٰذا بنی نوع انسان اس ذریعے سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی معلومات کو نابودی و بربادی اور فراموشی سے بچاتے ہوئے محفوظ کرتا ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے تعلیم یافتہ ہونا کسی بھی زبان سے واقفیت رکھنے کے مترادف ہے‘ لہٰذا جو فرد زیادہ تعداد میں زبانیں جانتا ہو گا‘ وہ دوسروں سے معلومات حاصل کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہو گا۔
زبان دانی اور پڑھا‘ لکھا ہونا بذات خود حقیقی ”علم“ نہیں ہے‘ تاہم حقیقی علم کے کسب کے لئے ایک ذریعہ ہے اور کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔
علم یہ ہے کہ انسان کو ایک حقیقت اور ایک قانون یا ضابطے تک رسائی حاصل ہو جو وجود و ہستی کے لحاظ سے ایک اٹل سچائی ہو۔ طبیعیات‘ منطق‘ ریاضی علوم علم کے زمرے میں آتے ہیں‘ کیونکہ انسان ان علوم کے ذریعے مختلف مظاہر اور ذہنی کیفیات کے درمیان ایک حقیقی و تکوینی اور علّی و معلولی رابطے کو منکشف کرتا ہے‘ لیکن کسی زبان کا جاننا اور نحو و صرف دانی وغیرہ بذات خود علم نہیں کہلاتا‘ کیونکہ مختلف اشیاء کے درمیان رابطے اور رشتے کے بارے میں آگاہ نہیں کرتا‘ بلکہ صرف اور صرف وضع کئے گئے اصولوں اور فرضیوں کے ایک سلسلے کے بارے میں آگاہی دیتا ہے‘ لہٰذا اس قسم کے امور و مسائل کا جاننا یا ان کے بارے میں واقفیت کا حصول حقیقی ”علم“ تک رسائی کی ایک کنجی ہے اور بذات خود اسیر ”علم“ کے حقیقی مفہوم کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اس طرح سے انہیں وضع شدہ امور اور قواعد و ضوابط بعض حقیقی واقعات رونما ہوتے ہیں‘ مثلاً زبانوں اور ان کی تراکیب کا ارتقاء کہ بجائے خود افکار کے ارتقاء کا ایک ضمنی ن تیجہ ہوتا ہے اور ایک فطری قانون کے موافق وقوع پذیر ہوتے ہیں‘ یقینا ان طبیعی اور فطری قوانین کے بارے میں آگاہی علم و فلسفہ کا حصہ ہے۔ اس طرح سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تعلیم یافتہ ہونا اس لحاظ سے اہم ہے کہ انسان کو دوسروں کے علم و دانش کی کنجی مل جاتی ہے۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا حصول علم اور اس استفادہ کرنے کا دوسروں کے علم‘ عقل و دانش کی کنجی ہاتھ میں ہونے پر انحصار ہے؟ کیا پیغمبر (ع)ؑکو عالم بشریت کے دوسرے افراد کے دانش اور علم سے استفادہ کرنا چاہئے؟ اگر یہ بات درست ہے تو فہم و فراست اور تخلیقی صلاحیتوں کا کیا بنے گا؟ الہام کسی زمرہ میں ہوگا‘ عالم طبیعت سے بلاواسطہ علم و دانش کا حصول کا کیا بنے گا؟
اتفاق کی بات ہے کہ علم کا بدترین درجہ دوسرے کی تحریروں اور تقریروں سے حاصل ہوتا ہے‘ جبکہ طالب علم کی ذاتی شخصیت اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اور یہ بھی یاد رہے کہ انسانی تحریروں میں توہم پرستی اور حقائق خلط ملط ہوئے ہوتے ہیں۔
مشہور فرانسیسی دانشور اور فلسفی ڈیکارٹ نے اپنے مضامین کے ایک مجموعہ کی اشاعت کے بعد ہر طرف شہرت حاصل کی اور اس کی تازہ تقاریر کو تمام لوگوں میں پذیرائی ملی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔
ڈیکارٹ کے مضامین کا ایک پرستار جس فکری رسائی اور سوچ کا انداز ڈاکٹر عبداللطیف کی مانند تھا‘ یہ سمجھا کہ ڈیکارٹ کو کتابوں کا ایک خزانہ مل گیا ہے اور انہیں کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے تازہ افکار پر مبنی مضامین شائع کر رہا ہے۔ یہ شخص ڈیکارٹ سے ملاقات کے لئے گیا اور اس سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اسے اپنا کتبہ خانہ دکھائیں۔ ڈیکارٹ اس شخص کو ایک چار دیواری میں لے گیا‘ جہاں پر تشریح (پوسٹ مارٹم) شدہ بچھڑے کی لاش دکھائی اور اس شخص سے کہا‘ یہ ہے میرا کتب خانہ! میں نے ان کتابوں سے معلومات حاصل کی ہیں۔
مرحوم سید جمال الدین اسدآبادی کہا کرتے تھے:
”یہ ایک عجیب بات ہے کہ بعض لوگ اپنی ساری عمر چراغ کی روشنی میں اپنے جیسے انسانوں کی لکھی ہوئی کتابوں اور تحریروں کے مطالعے میں صرف کر دیتے ہیں‘ لیکن ایک رات بھی اس چراغ کے بارے میں غور و فکر نہیں کرتے‘ اگر کسی رات میں کتاب کو ایک طرف رکھ دیں اور چراغ کے بارے میں غور و فکر کریں‘ زیادہ اور وسیع معلومات ان کو حاصل ہوں۔“
کوئی بھی پیدائشی طور پر عالم نہیں ہوتا‘ سارے لوگ ابتداء میں ان پڑھ و نادان ہوتے ہیں‘ بعد میں کم و بیش عالم بن جاتے ہیں۔
زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہ ذات الٰہی کے سوا ہر شخص جاہل ہے اور مختلف توانائیوں و دیگر علل و اسباب کے ذریعے عالم بن جاتا ہے‘ لہٰذا ہر شخص کو معلم کی ضرورت ہے‘ یعنی اسے ایک طاقت و توانائی کی ضرورت ہو جو الہامی طور پر دونوں راہیں دکھلائے۔
آنحضور کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے:
الم یجدک یتیما فآوی ووجدل ضالا فہدی ووجدل عائداً فا غنی(ضحی‘ ۸)
”کیا اس (خدا) نے تمہیں یتیم پا کر پناہ نہ دی اور تم کو (اپنی قوم) میں غیر معروف پایا تو (تمہاری معرفت کی طرف سب کی) رہبری نہ کی اور تم کو تنگ دست دیکھ کر مستغنی نہ کیا؟“
لیکن اس بات کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ معلم کے بارے میں بتایا جائے کہ وہ کیا اور کون ہونا چاہئے؟ کیا انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان ہی سے علم حاصل کرے؟ لہٰذا اس بات کی روشنی میں ایسے معلم کے پاس دوسرے انسانوں کے دانش کی کنجی جو پڑھے لکھے ہونے کا دوسرا نام ہے‘ ہونی چاہئے؟ کیا انسان وہ ستون اور بنیاد نہیں ہے کہ وہ تخلیق کار ہو؟ کیا انسان دوسرے انسانوں سے بے نیاز ہو کر کتاب طبیعی امور اور خلقت کا مطالعہ کرے؟ کیا انسان کا وہ مقام اور درجہ نہیں ہے کہ وہ عالم غیب اور ملکوت تک رسائی حاصل کرے اور خدا اس کا براہ راست معلم و رہنما ہے؟ قرآن مجید آنحضور کے بارے میں فرماتا ہے:
وما ینطق عند الہوی ان صو الا وحی یومی علمہ شدید القوی(نجم‘ ۳-۵)
”اور وہ تو اپنی نفسانی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں‘ یہ بس وحی ہے جو بھیجی جاتی ہے ان کو نہایت طاقتور نے تعلیم دی ہے۔“
اور حضرت علی(ع)آپ کی ذات مبارک کے بارے میں فرماتے ہیں:
ولقد قرن اللہ بہ منز کان فطیما اعظم ملک من ملائکتہ یسلک بہ طریق المکارم و محاسن اخلاق العالم
(نہج البلاغہ‘ خطبہ ۱۹۰)

ان طرف کہ عشق می افزود درد
بو حنیفہ و شافعی درسی نکرد
عاشقان راشد مدرس حسن دوست
دفتر و درس و سبقشان روی اوست
خامش اند و نعرئہ تکرا و شان
می روود تا عرش و تخت یار شان
درسشان آشوب و چرخ و لولہ
نی زیارات است و باب و سلسلہ
سلسلہ این قوم جعد مشکبار
مسالہ دور است اما دور یار
ہرکہ در خلوت بہ بنیش یافت راہ
او زدا نشہا بخوید دستگاہ
ترجمہ:
(زیارات‘ باب اور سلسلہ اس زمانے کی تین کتابوں کے نام ہیں)۔
عارف از پرتو می راز معانی دانست
گوہر ہر کسی از ایں لعل توانی دانست
شرح مجموعہ گل مرغ سحر دانہ و بس
کہ نہ ہر کو ورقی خواند معانی دانست
ای کہ از دفتر عقل آیت عشق آموزی
ترسم این نکتہ بہ تحقیق نشانی دانست
(ثنوی دفر سوم)
ترجمہ:
ابن خلدون اپنی مشہور کتاب مقدمہ کے”فی ان الخط و الکتابة من عدار الصنائع الاستاینة“ کے باب کے ضمن میں ایک طویل بحث کرتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ
”تحریر ایک بے مثال چیز ہے اور انسانی سماج کی سرمایہ حیات ہے اور سماج کے افراد معلومات کے حصول کے سلسلے میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔“
ازاں بعد وہ مختلف تہذیبوں میں فن تحریر کے ارتقائی عمل کے بارے میں گفتگو کرتا ہے‘ اس طرح وہ سرزمین حجاز کے ماحول میں فن تحریر کے وجود میں آنے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتا ہے:
”صدر اسلام میں تحریر فنی حوالے سے اپنے ابتدائی مراحل طے کر رہا تھا اور صحابہ کی تحریریں رسم الخط کے لہاظ سے عیوب و نقائص سے مبرا نہیں تھیں‘ لیکن تابعین تبع تابعین نے اس رسم الخط کو قرآن پاک کی کتابت میں تبرکاً پاسداری کی اور اسی میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کی‘ جبکہ ان رسوم الخط میں سے بعض قاعدہ اور اصول کے مطابق نہ تھے‘ لہٰذا قرآن پاک کے بعض الفاظ آج بھی خاص قسم کے رسم الخط میں محفوظ ہیں۔“
وہ مزید کہتا ہے:
”کم فنی اور عملی کمالات جو رسم الخط کے سلسلے میں بھی پائے جاتے ہیں‘ زندگی کے اسباب و وسائل پر منحصر ہیں اور ان کا مطلق کمالات سے کسی حد تک تعلق ہے‘ ان کمالات کا فقدان دراصل انسان کی انسانیت میں نقص کا نتیجہ ہے جو بجائے خود ایک حقیقی نقص ہے اور اس سلسلے میں غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔“
ابن خلدون اس کے بعد آنحضور کے اُمی ہونے کے مسئلے کو پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ
”آنحضور اُمی تھے اور اُمی ہونا ان کے لئے کمال محسوب ہوتا ہے‘ کیونکہ آپ نے اپنے علم کو عالم بالا سے حاصل کیا تھا‘ جبکہ اُمی ہونا ہمارے لئے نقص محسوب ہوتا ہے‘ کیونکہ ہمارا اُمی ہونا جاہل اور بے خبر ہونے کے مترادف ہے۔“
ایک اور آیت جس کا موصوف نے سہارا لیا ہے اور اس کو بطور سند پیش کرتا ہے‘ وہ ورئہ ”لم یکن“ کی وہ ھھھ بیان کرتا ہے کہ
”بڑی حیرت کی بات ہے کہ قرآن پاک کے مترجمین اور مفسرین نے اس آیت کی جانب‘ جس میں آنحضور کی تعریف کی گئی ہے‘ توجہ نہیں کی ہے کہ اس آیت میں ارشاد ہوا ہے:
رسول من اللہ یتلوا صحفا مطہرة(بینہ‘ ۲)
آپ جو اللہ کے رسول ہیں اور مقدس و پاک صحیفوں کی قرات کرتے ہیں۔“
یہاں پر ہمیں اس بات پر متوجہ ہونا چاہئے کہ ان آیات میں یہ نہیں کہا گیا کہ آپ ان پاک مقدس صحیفوں کو اپنے پاس سے لائے ہیں ا ور خود ساختہ و پرداختہ ہیں‘ لکہ اس کی وضاحت ہو چکی ہے کہ آپ ان صحیفوں کی قرات کرتے ہیں اور دیکھ کر پڑھتے ہیں۔“
اس استدلال کا جواب اس طرح واضح ہوتا ہے‘ جب مذکورہ آیت کے دو الفاظ یعنی ”صحیفہ“ ”یتلوا“ کی وضاحت کی جاتی ہے‘ صحیفہ کا مطلب ”کاغذ“ ہے اور لفظ ”صحف“، لفظ ”صحیفہ“ کا جمع کا صیغہ ہے۔ اس آیت کا مفہوم بعد میں آنے والی آیات کی رو سے جہاں ارشاد ہوتا ہے:
فیہا کتب قیمة
”آنحضور پاک و مقدس اوراق جن پر سچ اور پائیدار تحریریں ثبت ہیں‘ لوگوں کے سامنے پڑھتے ہیں۔“
ان اوراق کا مقصود یہ ہے کہ یہ وہی چیزیں ہیں جن پر قرآنی آیات کو تحریر کیا جاتا تھا‘ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنحضور قرآن پاک کی لوگوں کے سامنے تلاوت فرماتے تھے۔
لفظ ”یتلو“ کا مصدر ”تلاوت“ ہے۔ ہم نے کہیں پر یہ نہیں دیکھا کہ تلاوت کا مطلب دیکھ کر پڑھنا ہو اور لفظ قرات اور ”تلاوت“ سے جو مجموعی طور سے مفہوم سامنے آیا ہے‘ یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہر کی جانے والی بات تلاوت نہیں ہوت۔ قرات اور تلاوت اس بیان کے بارے میں ہے جسے پڑھا جائے اور ایک ہی متن سے مربوط ہو‘ نیز یہ کہ جو متن دیکھ کر پڑھا جائے یا ازبر یاد ہو اور پڑھا جائے‘ مثال کے طور پر قرآن پاک کا پڑھنا‘ قرات اور تلاوت چاہے ناظرہ پڑھا جائے یا حفظ ہو اور پڑھا جائے‘ ان دونوں لفظوں میں تلاوت‘ قرات ایک فرق کو سامنے رکھتے ہوئے‘ تلاوت صرف اور صرف اس متن کے پڑھنے کے لئے مخصوص ہے جو مقدس ہو جبکہ لفظ قرات مقدس آیات اور غیر مقدس تحریروں کے لئے مستعمل ہے۔ مثال کے طور پر یہ بات درست ہے کہ یہ کہا جائے کہ میں ”گلستان سعدی کی قرات کی“ لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ ”میں نے گلستان سعدی کی تلاوت کی“ بہرحال اگر وہ متن ازبر پڑھا جائے یا دیکھ کر (ناظرہ) تو اس کا نہ تو قرات کے مفہوم میں عمل دخل ہے اور نہ ہی تلاوت کے مفہوم میں‘ لہٰذا مذکورہ آیت صرف یہ بیان کر رہی ہے کہ آنحضور قرآنی آیات کو جو صفحات پر لکھی ہوئی ہیں‘ لوگوں کو پڑھ کر سناتے ہیں۔
بنیادی طور پر آنحضور کو اس بات کی کیونکر ضرورت ہو کہ آپ قرآنی آیات دیکھ کر پڑھیں؟ قرآن پاک کو سینکڑوں مسلمانوں نے حفظ کیا ہوا تھا‘ کیا آنحضور بذات خود حافظ نہ تھے اور کیا انہیں اس امر کی ضرورت تھی کہ دیکھ کر پڑھیں؟ خدا نے آپ کے لئے حفظ کی ضمانت دی ہوئی تھی:
سنر لک فلا تسنی(اعلی‘ ۷)
”ہم تمہیں (ایسا) پڑھا دیں گے کہ کبھی بھولو ہی نہیں۔“
مجموعی طور پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآنی آیات سے کسی صورت میں یہ استدلال پیش نہیں کیا جا سکتا کہ آنحضور پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے‘ بلکہ اس بات کے برعکس استدلال کیا جا سکتا ہے اور بفرض محال اگر یہ کہا جائے کہ آنحضور پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے تو یہ بات تو عہد رسالت سے مربوط ہے‘ جبکہ موصوف کا دعویٰ تو یہ ہے کہ آپ عہد رسالت سے قبل پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے۔