|
حیرت انگیز بات
چار سال قبل ایرانی اخبارات و رسائل نے ایک حیرت انگیز بات شائع کی کہ ہندوستان کے ایک مسلمان دانشور جس کا نام سید عبداللطیف ہے اور جو دکن حیدر آباد کے رہنے والے ہیں جو مشرق قریب اور ہندوستان کے تہذیبی مطالعاتی ادارے کے سرپرست بھی ہیں‘ نیز دکن حیدر آباد کی اسلامی مطالعاتی اکیڈمی کے بھی سرپرست ہیں‘ نے ہندوستان کی ایک اسلامی کانفرنس میں اس سلسلے میں ایک جامع اور طویل تقریر کی جو انگریزی زبان میں شائع کی گئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ
”آنحضور عہد رسالت سے پہلے بھی پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے!!“(مجلہ روشن فکر‘ شمارہ ہشتم‘ مہرماہ و شمارہ پاتر دہم مہر ماہ ۱۳۴۴ و نشریہ کانون سرد فتزان شمارہ آیان ماہ ۱۳۴۴ نقل از نشریہ آموزشن و پرورشن شمارہ شہروپور ۱۳۴۴)
ڈاکٹر سید عبداللطیف کی اس تقریر کی اشاعت نے اس موضوع پر مطالعہ رکھنے والے ایرانی میں ہلچل اور حیرانگی پیدا کر دی۔ اس بات کے شائع ہونے کے ساتھ ہی اس موضوع میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں نے (شہید مطہری) عین اس موقع پر طلباء کے اجتماع سے ایک مختصر تقریر کی۔
اب کیونکہ عوامی سطح پر اس سلسلے میں خاصی دلچسپی نظر آ رہی تھی نیز ہ کہ موصوف کی تقریر میں کچھ ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جو کسی دانشور کے لئے شائستہ نہیں ہیں۔ ہم ان کی باتوں کو نقل کرتے ہوئے ان کا ایک تنقیدی جائزہ لے رہے ہیں۔ موصوف کا دعویٰ ہے کہ
۱۔ آپ کا پڑھا‘ لکھا نہ ہونے کا سبب یہ بتایا ہے کہ مفسروں نے لفظ اُمی کا غلط ترجمہ اور غلط تفسیر کی ہے۔ یہ لفظ سورئہ اعراف کی آیت ۱۰۶ اور ۱۰۴ آنحضور کے وصف کے ضمن میں آیا ہے۔ آیت ۱۰۶ میں ارشاد خداوندی ہے:
الذین یتبعون الرسول البنی الامی
”جو لوگ ہمارے نبی اُمی کے قدم بہ قدم چلتے ہیں۔“
اسی طرح آیت ۱۰۴ میں ارشاد ہوتا ہے:
فآمنوا باللہ و رسولہ النبی الامی
”پس (لوگو) خدا اور اس کے رسول نبی اُمی پر ایمان لاؤ۔“
موصوف کا کہنا ہے کہ مفسروں نے یہ سمجھا ہے کہ ”اُمی“ کا معنی ناخواندہ ہے‘ حالانکہ ”اُمی“ کا یہ مطلب نہیں ہے۔
۲۔ قرآن مجید میں دوسری آیات بھی ہیں جو وضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہیں کہ رسول خدا پڑھنا بھی جانتے تھے اور لکھنا بھی۔
۳۔ بعض احادیث اور تاریخی حوالوں سے واشگاف انداز میں پتہ چلتا ہے کہ آنحضور پڑھنا‘ لکھنا جانتے تھے۔
موصوف نے جو دعویٰ کیا ہے اس کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ اب ہم ترتیب وار ان تینوں نکات پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوئے ان کے بارے میں تفصیلاً بھی گفتگو کریں گے۔
|
|