|
حدیبیہ کا واقعہ
آنحضور کی زندگی کی تاریخ میں بے شمار ایسے واقعات پیش آئے ہیں‘ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مدنی زندگی کے دوران آپ پڑھنا‘ لکھنا نہ جانتے تھے۔ حدیبیہ کا واقعہ اپنی تاریخی اہمیت اور ایک حساس معاملے کی بناء پر بہت مشہور ہوا‘ اگرچہ تاریخ و احادیث کے حوالے سے اس سلسلے میں کافی اختلاف موجود ہے‘ لیکن اس کے باوجود ان حوالوں کی مدد سے اس موضوع پر روشنی ڈالنے میں کافی مدد ملتی ہے۔
سنہ ہجری کے چھٹے سال ماہ ذی القعدہ میں رسول اکرم عمرہ و حج کی غرض سے مدینے سے مکے کی جانب روانہ ہوئے اور حکم دیا کہ قربانی کے اونٹ بھی اپنے ہمراہ لے چلیں‘ لیکن جونہی مکہ سے ۲ فرسخ دور حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو قریش نے راستے کی ناکہ بندی کر دی اور آپ کو اور ساتھی مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا‘ باوجود اس کے ماہ حرام کا مہینہ تھا اور عہد جاہلیت کے قانون کے مطابق قریش کو یہ حق حاصل نہ تھا کہ وہ آپ کے لئے رکاوٹ پیدا کریں۔ آپ نے ان پر واضح کیا کہ میں صرف خانہ کعبہ کی زیارت کی غرض سے آیا ہوں‘ میرا کوئی اور مقصد نہیں‘ مناسک حج کی انجام دہی کے بعد میں واپس چلا جاؤں گا‘ لیکن قریش پھر بھی نہ مانے۔ ادھر دوسری طرف مسلمانوں خا اصرار تھا کہ زبردستی مکہ میں داخل ہو جائیں‘ لیکن آپ اس بات پر راضی نہ ہوئے اور آپ نے اس مہینے کے احترام اور کعبہ کی حرمت کو پامال نہ ہونے دیا اور پھر اتفاق رائے سے قریش اور مسلمانوں کے درمیان صلح کا معاہدہ طے پایا۔
صلح نامہ کی تحریری شکل
آنحضور نے حضرت علی(ع)سے صلح نامہ کو تحریر کروایا۔ آپ نے فرمایا لکھو‘ ”بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم“۔ سہیل بن عمرو جو قریش کا نمائندہ تھا‘ نے اعتراض کیا اور کہنے لگا کہ یہ آپ کا طریقہ کار ہے اور ہمارے لئے مانوس نہیں ہے‘ آپ یہ لکھو کہ ”بسمک اللھم“۔ آپ نے اس کی بات قبول کی اور حضرت علی(ع)سے فرمایا کہ آپ(ع)اسی طرح سے لکھیں‘ بعد میں فرمانے لگے‘ لکھو‘ یہ سمجھوتہ ہے محمد رسول اللہ اور قریش کے درمیان طے پا رہا ہے۔
قریش کے نمائندے نے اعتراض کیا اور کہا کہ ہم آپ کو اللہ کا رسول نہیں مانتے اور صرف آپ کے پیروکار آپ کو خدا کا رسول مانتے ہیں اور اگر ہم آپ کو رسول مانتے تو آپ سے جنگ نہ کرتے اور مکہ مکہ میں داخلے پر بھی پابندی نہ لگاتے‘ آپ اپنا اور اپنے والد کا نام لکھئے۔ آنحضور نے فرمایا‘ تم چاہے مجھے خدا کا رسول مانو چاہے نہ مانو لیکن میں اللہ کا رسول ہوں‘ اس کے بعد آپ نے حضرت علی(ع)کو حکم دیا کہ لکھو‘ یہ عہد نامہ‘ معاہدہ محمد بن عبداللہ اور قریش کے لوگوں کے درمیان طے پا رہا ہے۔ اس موقع پر مسلمانوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا‘ ازاں بعد تاریخی حوالوں کے مطابق اس معاہدے کے بعض پہلوؤں پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
سیرة ابن ہشام اور صحیح بخاری سے ”باب الشروط فی الجہاد و المصالحہ مع اہل الحرب“، ج۳‘ ص ۲۴۲ میں تحریر ہے کہ
”رسول اللہ کی جگہ محمد بن عبداللہ لکھے جانے کا واقعہ معاہدہ تحریر ہونے کے آغاز ہی میں رونما ہوا‘ لیکن زیادہ تر کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اعتراض اس وقت پیدا ہوا جب یہ لفظ حضرت علی(ع)نے تحریر فرمایا تھا اور رسول اکرم نے حضرت علی(ع)سے درخواست کی کہ اس لفظ کو مٹا دو‘ حضرت علی(ع)نے اس لفظ کو اپنے دست مبارک سے مٹانے سے معذرت چاہی۔ یہاں ایک بار پھر اختلاف پایا جاتا ہے‘ اہل تشیع کی روایات اس بات سے متفق ہیں کہ حضرت علی(ع)کے انکار کرنے پر آپ نے اپنے دست مبارک سے خود اس لفظ کو یعنی محمد رسول اللہ کو مٹا دیا اور اس کی جگہ محمد بن عبداللہ تحریر فرمایا۔“
اور بعض دوسری روایات میں اور اہل سنت کی روایات میں بھی بڑے کھلے الفاظ میں آیا ہے کہ
”آپ نے حضرت علی(ع)سے درخواست کی کہ اس لفظ کو مجھے دکھاؤ اور میرا ہاتھ پکڑ کر اس لفظ کو مٹا دو اور اس کی جگہ محمد بن عبداللہ لکھوں گا۔“
یہاں پر یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ تحریر کرنے والے حضرت علی(ع)تھے‘ آپ نہیں۔ ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اہل تشیع اور اہل سنت دونوں کی رائے سے آپ نہ پڑھنا جانتے تھے اور نہ لکھنا۔
قصص القرآن کی کتاب میں ابوبکر عتیق نیشاپوری سور آبادی کی تفسیر قرآن جو پانچویں صدی میں لکھی گئی ہے اور فارسی زبان میں ہے‘ شائع ہوئی ہے‘ میں بھی حدیبیہ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ
”جب سہیل بن عمرو جو حدیبیہ کے سمجھوتے میں قریش کا نمائندہ تھا جب لفظ ”رسول اللہ “ پر اعتراض کرتا ہے‘ تو کہتا ہے ”سہیل بن عمرو“ اس طرح لکھو ”ھذا ما صالح علیہ محمد بن عبداللہ سہیل بن عمرو“ یعنی یہ شرائط ہیں جن پر محمد بن عبداللہ نے سہیل بن عمرو سے سمجھوتہ کیا۔ آنحصور نے حضرت علی(ع)سے فرمایا‘ میرا نام یعنی لفظ رسول اللہ کو مٹا دو‘ علی(ع)کا دل اس بات کو نہ مانا تھا کہ لفظ رسول اللہ کو مٹا دیں اور آپ کے بار بار کہنے پر علی(ع)رنجیدہ خاطر ہوئے‘ یہاں تک کہ آنحضور نے فرمایا‘ میری انگلی اس لفظ پر رکھو تاکہ میں اسے مٹا دوں کیونکہ آپ اُمی تھے اور آپ لکھنا نہ جانتے تھے‘ حضرت علی(ع)نے آپ کی انگلی سے اس لفظ کی نشاندہی کروائی اور آپ نے اس لفظ کو مٹا دیا اور اس طرح سہیل بن عمرو نے جو بات کہی پوری کی۔“
یعقوبی اپنی تاریخ میں ”تاریخ یعقوبی“ میں لکھتا ہے کہ
”رسول اللہ نے حضرت علی(ع)کو حکم دیا کہ لفظ ”رسول اللہ “ کاٹ کر عبداللہ لکھیں۔“
صحیح مسلم میں بھی یہ نقل ہوا ہے کہ
”جب علی(ع)لکھے ہوئے لفظ کو مٹانے سے انکار کرتے ہیں… “
روایت کچھ اس طرح ہے‘ آپ نے فرمایا:
فارنی مکاتھا فاراہ مکاتھا فمحاھا و کتب محمد ابن عبداللہ
’ ’آنحضور نے علی(ع)سے فرمایا‘ اس لفظ کی نشاندہی کرو اور علی(ع)نے اس لفظ کی نشاندہی کرائی‘ پس آپ نے اس لفظ کو مٹا دیا اور محمد بن عبداللہ لکھا۔“(صحیح مسلم‘ ج‘ ص ۱۷۴)
اس روایت میں ایک جگہ تو یہ کہا جا رہا ہے کہ آنحضور لفظ مٹانے کے لئے علی(ع)سے لفظ کی نشاندہی کروا رہے ہیں اور دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ آپ نے اس لفظ کو مٹایا اور دوسرا لفظ ”محمد بن عبداللہ“ لکھا۔
آغاز میں یوں لگتا ہے کہ آپ نے مٹانے کے بعد تحریر فرمایا‘ درحقیقت حدیث کے راوی کا مقصود حتمی طور پر یہ ہے کہ علی(ع)نے لکھا‘ کیونکہ حدیث کے مطابق یہ کہا گیا ہے کہ آنحضور نے علی(ع)سے لفظ مٹانے کے لئے مدد مانگی۔
تاریخ طبری اور تاریخ کامل‘ ابن اثیر اور بخاری کی باب الشروط سے ایک اور روایت کے مطابق واضح طور پر کہا گیا ہے کہ آنحضور نے اپنے دست مبارکس ے لکھا‘ کیونکہ کہا گیا ہے کہ
فاخذہ رسول اللہ و کتب
”آنحضور نے دستاویز لیا اور خود لکھا۔“
طبری اور ابن اثیر کی عبارت میں ایک اور جملے کا اضافہ کیا گیا ہے کہ
فاخذہ رسول اللہ و لیس یحسن ان بکتب فکتب
”آنحضور نے سمجھوتہ کی دستاویز لی‘ جبکہ آپ لکھنا نہیں جانتے تھے اور لکھا۔“
طبری اور ابن اثیر کی روایت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ آنحضور لکھنا نہیں جانتے تھے اور واقعہ حدیبیہ کے موقع پر آپ نے استثنائی طور پر لکھا۔
اس روایت سے شاید ان لوگوں کی بات کی تائید ہوتی ہو جو یہ کہتے ہیں کہ اگر آنحضور علم الٰہی کے ذریعے لکھنا چاہتے تو لکھ سکتے تھے‘ لیکن نہیں لکھتے تھے۔ اسی طرح آپ نے کبھی نہ کسی کے شعر پڑھے اور نہ کہے‘ بعض دفعہ اگر آپ کسی سے کوئی شعر پڑھنے کے لئے کہتے تو اس کے مختلف حصوں کی تقدیم و تاخیر کر کے یا اس کے الفاظ میں کمی بیشی کر کے اس کے شعری ہیئت کو تبدیل فرما دیتے‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ شعر و شاعری کو آپ کے مقام و مرتبے کے شایان شان نہ سمجھتا تھا۔
ارشاد خداوندی ہے:
وما علھاo الشعر وما ینبغی لہ ان ھم الا ذکر و قرآن مبین(یس‘ ۶۹)
”اور ہم نے اس (پیغمبر) کو شعر کی تعلیم دی اور نہ شاعری اس کے شان کے لائق ہے‘ یہ (کتاب) تو بس (نری) نصیحت ہے اور صاف صاف قرآن ہے۔“
اور اسی طرح دیکھنے میں آتا ہے کہ حدیبیہ کے سلسلے میں منقول واقعات میں تسلسل نہیں پایا جاتا‘ اگرچہ بعض منقول واقعات سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اس واقعہ میں کلمہ ”بن عبداللہ“ جو آنحضور کے دستخط کا حصہ شمار ہوتا‘ آپ نے خود اپنے دست مبارک سے تحریر کیا تھا‘ لیکن انہیں حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اقدام ایک استثنائی اقدام تھا۔
اسدالغابہ میں تمیم بن جراشہ ثقفی کے حالات کے ضمن میں ایک حکایت نقل کی گئی ہے‘ جس سے واشگاف انداز میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ آنحضور عہد رسالت میں بھی نہ پڑھنا جانتے تھے‘ نہ لکھنا۔ یہ واقعہ کچھ یوں ہے:
”میں اور بنی ثقیف کا ایک گروہ آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہوئے‘ پھر ہم نے آپ سے درخواست کی ہمارے ساتھ ایک معاہدہ کریں اور ہماری شرطوں کو تسلیم فرما لیں۔ آنحضور نے فرمایا‘ جو کچھ لکھنا چاہتے ہو لکھو اور مجھے دکھا دو۔ ہم چاہتے تھے کہ ہمارے لئے ریا اور زنا کی اجازت کی شرط کو قبول فرمائیں‘ اب کیونکہ ہم لکھنا نہیں جانتے تھے ہم نے علی(ع)سے رجوع کیا۔ حضرت علی(ع)کو جب ہماری شرطوں کے بارے میں آگاہی ہوئی تو آپ(ع)نے معاہدہ لکھنے سے انکار کر دیا‘ ہم نے ازاں بعد خالد بن سعید بن العاص سے اس سلسلے میں درخواست کی تو علی(ع)نے اس سے کہا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم سے وہ کیا تحریر کرانا چاہتے ہیں؟ اس نے جواب میں کہا‘ اس سے مجھے سروکار نہیں‘ وہ مجھ سے جو بھی تحریر کرنے کے لئے کہیں گے میں تحریر کروں گا۔ جب وہ آنحضور کے پاس جائیں گے تو آپ جو مناسب سمجھیں گے‘ کریں گے۔
چنانچہ خالد نے یہ معاہدہ لکھ دیا اور ہم اسے لے کر آنحضور کی خدمت میں گئے۔ آنحضور نے ایک شخص سے اسے پڑھنے کے لئے حکم دیا‘ دوران قرات جونہی لفظ ”ریا“ آپ نے سنا‘ فرمایا‘ میرا ہاتھ لفظ ”ریا“ پر رکھو‘ اس نے لفظ ”ریا“ پر آپ کا دست مبارک رکھا اور آپ نے اسے مٹا دیا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی:
یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ و ذروا مابقی من الربا(بقرہ‘ ۲۷۸)
”اے ایمان والو! خدا سے ڈرو اور جو سود لوگوں کے ذمہ باقی رہ گیا ہے‘ اگر تم سچے مومن ہو تو چھوڑ دو۔“
اس آیت کو سن کر ہماری روح اور ایمان کو اطمینان پہنچا اور ہم نے آپ کی بات مان لی کہ ہم آئندہ ”ریا“ یعنی سود نہیں لیں گے۔ وہ شخص جو اس تحریر کو پڑھ کر سنا رہا تھا‘ جب ”زنا“ کے بارے میں بتایا تو ایک بار پھر آپ نے اپنا دست مبارک اس لفظ ”زنا“ پر رکھا اور یہ آیت پڑھ کر سنائی:
ول تقربوا الزنی انہ کان فاحشة…(اسراء‘ ۳۲)
”اور دیکھو سنا کے پاس بھی نہ بھٹکنا کیونکہ بے شک وہ بڑی بے حیائی کا کام ہے۔“(اسدالغابہ‘ ج ۱‘ ص ۲۱۶)
|
|