آنحضور کے کاتبین
قدیم اسلامی مستند تواریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مدینہ منورہ میں آنحضور کے کچھ معاونین موجود تھے۔ یہ معاونین خدا کی نازل کردہ وحی کے علاوہ آپ کے فرمودات‘ لوگوں کے عقائد‘ مذہبی معاملات‘ آپ کے عہد و پیمان‘ اہل کتاب‘ مشرکین کے نام آپ کے خطوط‘ پیغامات‘ دفتری معاملات‘ صدقات و جزیہ سے مربوط کتابچے‘ خمس و غنیمت سے مربوط کھاتے اور دیگر ضروری امور پر بہت سے خطوط جو آپ کی طرف سے قرب و جوار میں بھیجے گئے۔
اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کے علاوہ آپ کے زبانی فرامین جو ضبط تحریر میں آ گئے تھے اور ابھی تک باقی ہیں‘ مزید برآں دور نبوت میں آپ نے جتنے بھی معاہدے اور خطوط جو وقتاً فوقتاً لکھوائے وہ بھی تاریخ کے اوراق پر ثبت ہیں۔
محمد بن سعد اپنی کتاب الطبقات الکبیر‘ ج ۲‘ ص ۱۰ تا ۳۸ میں آپ کے ۱۰۰ کے قریب خطوط کا حوالہ اپنے مضامین میں دیتا ہے۔ ان میں سے دعوت اسلام پر مشتمل کچھ خطوط دنیا کے مختلف بادشاہوں‘ حکمرانوں‘ قبائل کے سرداروں‘ دیگر سرکردہ افراد‘ رومی‘ ایرانی‘ خلیج فارس کے عمال اور دیگر اہم شخصیات کو تحریر کئے گئے ہیں‘ ان میں سے کچھ سرکلر‘ فرامین اور بعض دیگر معاملات کے بارے میں ہیں جو اسلام کے فقہی مدارک کے اسناد سمجھے جاتے ہیں۔ زیادہ تر خطوط کا علم ہے کہ وہ کسی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں‘ کاتب نے خط کے مضمون کے آخر میں اپنا نام ثبت کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کاتب کا نام خط کے آخر میں ثبت کئے جانے کی روایت پہلی بار ابی بن کعب جو معروف صحابی رسول ہیں‘ کے ذریعے رائج ہوئی۔
مذکورہ بالا خطوط‘ معاہدے اور کھاتوں میں سے کوئی بھی آپ کے اپنے دست مبارک کا لکھا ہوا نہیں ہے‘ یعنی کوئی ایک خط بھی ایسا نہیں دیکھنے میں آیا کہ جس کے بارے میں کہا جائے کہ یہ خط رسول خدا نے خود تحریر کیا ہے۔ مزید برآں کہیں بھی یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ نے نزول قرآن کے دوران ایک بھی قرآنی آیت اپنے دست مبارک سے تحریر فرمائی ہو‘ بلکہ کاتبین وحی نے فرداً فرداً قرآن مجید کو تحریر کیا تھا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ رسول خدا لکھنا جانتے ہوئے بھی اپنے دست مبارک سے ایک سورة یا کم از کم ایک آیت بھی نہ لکھتے ہوں۔
تاریخ میں آنحضور کے کاتبین کے نام
کتب تواریخ میں آنحضور کے معاونین کے نام آئے ہیں۔ یعقوبی نے اپنی تاریخ کی دوسری جلد میں رسول خدا کی وحی‘ خطوط اور معاہدے لکھنے والے معاونین کے نام تحریر کئے ہیں:
”علی(ع)ابن ابی طالب(ع)‘ عثمانؓ بن عفان‘ عمرو بن العاص‘ معاویہ بن ابی سفیان‘ شرجیل بن حسنہ‘ عبداللہ بن سعید بن ابی سرح‘ مغیرة بن شعبہ‘ معاذ بن جبل‘ زید بن ثابت‘ حنظلہ بن الربیعہ‘ ابی بن کعب‘ جہیم بن الصلت‘ حضین النمیری۔“(تاریخ یعقوبی‘ ج ۲‘ ص ۶۹)
کاتبین کی فرداً فرداً خصوصی ذمہ داریاں
مسعودی اپنی کتاب ”التنبیہ والاشراف“ میں اس قدر تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ یہ معاونین کاتبین اور ان میں سے ہر ایک شخص نے اپنے ذمے کون کون سا کام لیا ہوا تھا اور ان کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ بھی بتاتا ہے کہ ان تمام معاونین کا دائرئہ کار اس مقررہ حد سے بھی زیادہ تھا اور اسی نظم و ضبط کے امور بھی ان کے درمیان تقسیم کر دیئے گئے تھے۔ مسعود مزید کہتا ہے کہ
”خالد بن سعید بن العاص آنحضور کے دست راست تھے‘ جو مختلف مسائل درپیش ہوتے وہ انہیں تحریر کرتے۔ اسی طرح مغیرہ بن شعبہ‘ حصین بن نمیر‘ عبداللہ بن ارقم اور علاء بن عقبہ لوگوں کے دستاویزات‘ معاہدوں اور دیگر معاملات کے دستاویزات کو ضبط تحریر میں لاتے تھے۔ زبیر بن العوام اور جہیم بن الصلت ٹیکسوں اور صدقات کے گوشواروں کو ضبط تحریر میں لاتے۔ حذیفہ بن الیمان کے سپرد حجاز کے لین دین کے معاملات یا اس سے متعلق امور کا شعبہ تھا۔ معیقب بن ابی فاطمہ کے ذمے اموال غنیمت کے ثبت کرنے کا شعبہ تھا۔ زید بن ثابت انصاری بادشاہوں اور دوسرے اعلیٰ حکام وغیرہ کو خطوط تحریر کرتے تھے‘ آپ آنحضور کے ترجمان بھی تھے اور آپ فارسی‘ رومی‘ قبطی اور حبشی زبانوں کے دستاویزات و خطوط کا ترجمہ بھی کرتے تھے۔ انہوں نے یہ تمام زبانیں اہل مدینہ کے درمیان رہ کر سیکھی تھیں۔ حنظلہ بن ربیع ایک نہایت قیمتی سرمایہ تھے‘ انہوں نے لکھنے کے فن میں بہت شہرت و نیک نامی حاصل کی اور حنظلہ کاتب کے نام سے معروف ہوئے اور جب حضرت عمرؓ کے دور میں اسدلامی فتوحات کے سلسلے کا آغاز ہوا‘ ”رھا“ کے علاقے میں گئے اور اسی مقام پر وفات پا گئے۔ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کچھ عرصہ کتابت اور لکھنے سے منسلک رہے‘ لیکن بعد میں یہ مرتد ہو گیا اور مشرکین کے گروہ میں شامل ہو گیا۔ شرجیل بن حسنہ طایخی نے بھی آپ کے لئے لکھا۔ ایان بن سعید اور علاء بن الحضرمی بھی گاہے بگاہے آپ کے لئے تحریر کرتے رہے۔ معاویہ نے آپ کی رحلت سے صرف چند ماہ قبل آپ کے لئے لکھنے کے فرائض انجام دیئے۔ یہ تمام افراد وہ ہیں جو عمومی طور پر کچھ عرصہ کے لئے لکھنے لکھانے کے سلسلے میں آپ کے محرر رہے‘ لیکن وہ لوگ جو آپ کے لئے ایک یا دو خطوط لکھتے رہے وہ آپ کے معاونین میں شمار نہیں کئے جاتے اور ہم ان کا ذکر بھی نہیں کرتے۔“(التنبیہ والاشراف‘ ص ۲۴۰‘ ۲۸۶)
جامع ترمذی میں زید بن ثابت نقل فرماتے ہیں کہ آنحضور نے فرمایا اور میرے لئے ہدایت جاری کہ میں سریانی زبان سیکھوں اور جامع ترمذی میں زید بن ثابت سے یہ منقول ہے کہ رسول اکرم نے مجھے ہدایت فرمائی کہ اب تم یہود کی لغت ”زبان“ بھی سیکھو‘ خدا کی قسم میں اپنے خطوط کے سلسلے میں یہودیوں پر اعتبار نہیں کر سکتا۔ زید بن ثابت کا کہنا ہے کہ میں نے یہ زبان ڈیڑھ ماہ سیکھی‘ اس کے بعد جب بھی آپ قوم یہود کے نام خط لکھواتے تو مجھ سے ہی لکھواتے تھے اور جب بھی یہود سے آپ کے نام خط موصول ہوتا تو میں ہی آپ کے لئے پڑھ کر سناتا تھا۔
فتوح البلدان میں بلاذری نے ص ۴۶۰ پر یہ لکھا ہے کہ زید بن ثابت نے کہا:
”رسول اللہ نے مجھے حکم دیا کہ یہود کی کتاب کو سریانی زبان میں سیکھو اور مجھ سے فرمایا کہ مجھے اپنے کاتبین کے بارے میں یہودیوں سے خدشہ ہے‘ تو ۱۵ دن یا ۶ ماہ میں‘ میں نے سریانی سیکھ لی۔ ازاں بعد میں یہود کے نام آپ کے خطوط کو رشتہ تحریر میں لاتا اور ان سے ”یہود“ سے موصول خطوط کو آپ کو پڑھ کر سناتا۔“
مسعودی نے اس مقام پر کاتبین وحی اور اسی طرح سرکاری معاہدوں کے لکھنے والوں کے نام جیسے علی(ع)بن ابی طالب(ع)‘عبداللہ بن مسعود اور ابی بن ابی کعب وغیرہ کا ذکر نہیں کیا ہے۔ یہاں پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف ان لوگوں کے نام کا تذکرہ کرنا چاہتا ہے جو وحی کی کتابت کے علاوہ دوسری ذمہ داریوں کے حامل تھے۔
اسلامی تواریخ اور احادیث سے واقعات بہت زیادہ سامنے آتے ہیں‘ جن کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور کے پاس دور دراز علاقوں کے ضرورت مند افراد آیا کرتے تھے اور آپ سے وعظ و نصیحت کرنے کی درخواست کرتے اور آپ اپنی مدبرانہ اور نصیحت آمیز گفتگو سے ان کے سوالوں کے جواب دیتے‘ یہ تمام باتیں اور گفتگو ”فی المجلس“ میں یا بعد میں تحریری شکل میں محفوظ ہو چکے ہیں۔
اس کے باوجود ہماری نظر سے ایسی کوئی تحریر نہیں گزری کہ جس سے ثابت ہو کہ آپ نے کسی فرد کے جواب میں اپنے دست مبارک سے ایک سطر بھی تحریر فرمائی ہو‘ یقینا اگر آپ نے کوئی سطر بھی تحریر کی ہوتی تو مسلمان اس کو بطور تبرک یا نشانی اور اپنے خاندان کے لئے ایک بہت بڑا افتخار سمجھتے ہوئے محفوظ کر لیتے ہیں۔ جس طرح ہم حضرت علی(ع)اور دیگر آئمہ معصومین(ع)کے بارے میں اس قسم کے واقعات سے عموماً ہمارا واسطہ پڑتا ہے کہ ان سے منسوب کچھ تحریریں یا خطوط‘ سالوں اور صدیوں سے ان کی نسلوں میں محفوظ ہیں اور آج بھی ایسے قرآنی نسخ موجود ہیں جو انہیں بزرگ ہستیوں سے منسوب ہیں۔ حضرت زید(ع)بن علی(ع)بن الحسین(ع)اور یحییٰ بن زید اور ان کے ذریعے صحیفہ سجادیہ کی حفاظت کا واقعہ‘ اس سلسلے میں ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔
آنحضور نے درخواست گزاروں کے جواب میں ایک سطر تحریر نہیں فرمائی
ابن الندیم اپنے ”فن اول“ الفہرست کے دوسرے مقالے میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ بیان کرتا ہے‘ وہ کہتا ہے:
”محمد بن الحسین نامی کوفہ کا رہنے والا ایک شیعہ جو ابن ابی بعرہ کے نام سے مشہور تھا۔ میری ملاقات ہوئی‘ اس کا ایک کتب خانہ تھا جو اپنی مثال آپ تھا۔ یہ کتاب خانہ اس نے کوفہ کے رہنے والے ایک شیعہ سے حاصل کیا تھا اور بڑی حیران کن بات یہ ہے کہ اس میں موجود ہر کتاب پر اور ہر صفحہ پر تحریر کرنے والے کا نام ثبت تھا اور علماء کی ایک جماعت اور گروہ نے لکھنے والے افراد کے ناموں کی تائید بھی کی ہے۔ اس کتب خانہ میں حسنین علیہا السلام سے منسوب خطوط موجود و محفوظ تھے‘ نیز حضرت علی(ع)کے دست مبارک اور آنحضور کے تمام معاونین و کاتبین‘ سے لکھے ہوئے دستاویزات اور معاہدے موجود تھے اور ان کی مکمل حفاظت و نگہداشت کی جاتی رہی۔“
(الفہرست‘ مطبوعہ مطبعة الاستقامہ‘ قاہرہ‘ ص ۶۸)
جی ہاں! ان نادر نمونوں اور پربرکت تحریروں کی اس حد تک حفاظت کی جاتی رہی‘ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ آنحضور نے ایک بھی سطر تحریر کی ہو اور تحریروں کے سلسلے میں مسلمانوں کی گہری دلچسپی کے معیار‘ خاص طور سے قبروں کی تحریروں کے بارے میں ان کے گہرے عقیدے کے باوجود ان کا نام و نشان نہ ملے؟
شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضور کے لکھنے کا ثبوت‘یہاں تک کہ عہد رسالت میں بھی کوئی بھی سامنے نہیں ہے‘ لیکن عہد رسالت میں آپ کے پڑھنے کے سلسلے میں یہ بات قطعی اور حتمی طور سے نہیں کہی جا سکتی کہ آپ پڑھنا نہیں جانتے تھے اور اس دور نبوت میں آپ کے پڑھنے کے بارے میں بھی ہمارے پاس مکمل دلیلیں نہیں‘ بلکہ زیادہ تر شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ آپ پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے۔
|