حضرت امام زمان علیہ السلام کے طول عمر
ہر سچے مومن کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پروردگار عالم ہر زمانے میں اپنی حجت کا وجود واجب قرار دیا ہے جس کے اوپر ایمان رکھنا ضروری ہے دشمنان اسلام اور محمد وآل محمد کے دشمنوں کے طرف سے حضرت امام زمان علیہ السلام کے طول عمر کے بارے میں مختلف قسم کے نظریات اور خیالات اور سوالات کے بوچھاڑ کرکے سادہ لوح مسلمانوں اور مومنین کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ خود شخص مسلمان اور مؤمن کی ذھن میں یہ سوال ابھرے کہ ایک شخص کیسے اتنی لمبی عمر پاسکتا ہے ؟ بہر حال جو بھی ہو تاریخ کے مطالعہ نہ ہوتے اور تاریخ سے آشنائی اور آگاہی نہ ہونے کے بناء پر یہ سوالات ذھنوں میں پیدا ہوئی ہے یایہ کہ خود اسلام دشمن طاقتوں اور محمد وآل محمد علیہم السلام کے دشمنوں کی طرف سے یہ سوالات اٹھائے جاتے ہیں اس ضمن میں ہم یہاں پر مختلف زاویوں سے مختصراً کچھ عرائض پیش کردیتے ہیں۔
شیعوں کے ممتاز عالم الدین علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ ودوسرے علماء اور دانشوروں نے اپنی کتابوں میں حضرت امام زمان علیہ السلام کی طول عمر کے ذیل میں بہت سے شخصیات کی ایک فہرست بیان کیں ہیں، جن کے مکمل حالات زندگی کتب تواریخ میں نقل کئے گئے ہیں۔ اگر کوئی عاقل اور انصاف پسند شخص توجہ کریں تو اس کے لئے صرف حضرت خضر علیہ السلام کی ذات کافی ہے جن کے روئے زمین پر موجود ہونے پر کسی کو کوئی اشکال نہیں ہے تو پھر حضرت امام عصر علیہ السلام کے وجود مقدس کی طول عمر پر کیوں اعتراض اور شکایت ہے۔
جو پروردگار عالم کی طرف سے سارے کائنات کی حیات کا باعث ہیں ، دو عظیم پیغمبر حضرت ادریس اور حضرت عیسیٰ مسیح علیہم السلام دونوں اب تک زندہ ہیں جن کو خداوند عالم کی طرف سے رزق مل رہا ہے ۔ اصحاب کہف سورہے ہیں زندہ ہیں ان کا کتا بھی زندہ ہے۔
حضرت آدم صفی اللہ کی عمر ١٣٦ سال
حضرت شیث علیہ السلام کی عمر ٩١٢ سال
حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ٢٥٠٠ سال
حضرت سام بن نوح کی عمر ٦٠٠ سال
حضرت لقمان حکیم کی عمر ١٠٠٠ سال
لقمان بن عاد کی عمر ٣٠٠٠ سال
خدا کے دشمن اوج بن عناق کی عمر ٣٠٠٠ ہزار ٦٠٠ (تین ہزار چھے سو سال) شداد کی عمر ٩٠٠ برس ہے ، اسی طرح دوسرے مختلف افراد کی عمریں بھی طولانی ذکر ہوئی ہے مثلاً جمشید نے جو ایران کے پادشاہ تھا ٥٠٠ سال زندگی کی۔
ضحاک نے ایک ہزار سال حیات پائی۔ فریدون عادل نے ایک ہزار سال زندگی کی ، اس کے علاوہ اور بھی افراد موجود ہیں جن کے عمرطولانی ذکر ہوئی ہے۔
پس خدواند رب العزت کی آخری حجت حضرت امام زمان علیہ السلام کی عمر طویل ہونے سے تعجب نہیں ہونی چاہئے اور حضرت کے وجود اقدس سے انکار نہیں کرنا چاہئے اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ رہنے کی حکمت یہ ہے کہ وہ حضرت امام زمان علیہ السلام کی تصدیق کریں۔
حضرت خضر اور حضرت الیاس علیہم جو ہزاروں برس پہلے دنیا میں موجود ہیں ان کا یہ بقا اور عمر کی طولانی اس کی مقصد اور غرض انکی پیغمبری نہیں ہوسکتی جسکا آیندہ وہ اظہار فرمائیں نہ ان پر کوئی آسمانی کتاب کسی وقت نازل ہونے والی ہے جس کے انتظار میں ان کو زندہ رکھا گیا ہونہ آگے چل کر ان کے پیش نظر کسی شریعت تازہ کی ترویج ہے نہ ان کے متعلق کسی ایسی پیشوائی کسی خبر دی گئی ہے جس پر بندہ گان خدا کے لئے ان کی اقتداء اور اطاعت لازم ہو بلکہ ان کی زندگی کا فلسفہ یہ ہے کہ مخلوق خدا ان کی طول عمر کو دیکھتے ہوئے آخری حجت خدا حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کی طولانی عمر ہونے پر تعجب نہ کریں اور حضرت کے وجود اقدس سے انکار نہ کرے اور اس حیثیت سے بھی بندوں پر حجت الٰہی قائم ہوجائے ۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ رہنے کی حکمت یہ ہے کہ ان کی تصدیق سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر اہل کتاب ایمان لائیں اور ان کی زندگی سے حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ کی زندگی کا ثبوت ہوجائے کیونکہ خاتم الانبیاء صلوات اللہ علیہ کے بعد کسی نبوت ورسالت کا وقت نہیں رہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی متابعت کریں گے اور دعوت اسلام میں ان کے معین ومددگار ہونگے۔
حضرت امام مھدی ؑکے بارے میں ذکر شده احادیث کی تعداد
v وه احادیث جو آپؑ کے ظهور انور کی بشارت کے حواله سے ذکر هوئی هیں ان کی تعداد 657هے وه احادیث جو آپؑ کو اهل بیت پیغمبر ؐ میں سے هونے کی خبر دیتے هیں ان کی تعداد 389هے۔
v وه روایات جو آپ ؑ کو فرزندان فاطمه زھرا سلام الله علیها کے عنوان سے معرفی کراتی هیں ان کی تعداد192هے ۔روایات میں سے بعض ایسی بھی هيں جن میں آپؑ کاامام حسین ؑکے نویں فرزند هونے کی صراحت موجود هے ان کی تعداد 148هے۔ آپؑ کے امام حسن ؑعسکری ؑکے فرزند ارجمند هونے پر ایک سوچھیالیس روایات موجود هیں ۔
v وه روایات جو پوری دنیا کو عدالت سے پر کرنے کے بارے میں وارد هوئی هیں ان کی تعداد 122هے۔
v وه روایات جن میں آپؑ کی ولادت کا تذکره هے ان کی تعداد 214 هے۔
v وه روایات جو آپؑ کے بارهویں امام هونے کو بیان کرتی هیں ان کی تعداد126هے۔
حضرت امام زمان علیہ السلام سے ملاقات کا ذکر
غیبت صغری میں حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے ملاقات کے بارے میں تو کوئی اعتراض اور اشکال نہیں ہے اس زمانے میں مومنین کرام حضرت امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے ملاقات کا شرف حاصل کرتے رہے ہیں۔
مگر کچھ افراد کو غیبت کبریٰ میں یہ شکایت رہی ہے کہ حضرت امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف عام طور پر سب کی نظروں سے پوشیدہ ہیں اور کسی شخص سے بھی حضرت کی ملاقات معنی غیبت کے خلاف ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ غیبت کبریٰ کا منشاء یہ ہے کہ غیبت صغریٰ میں خاص خاص افراد سے جو ملاقات کی صورت تھی وہ ختم ہوگئی اور حضرت کی قیام گاہ پر حاضری کا پہلا طریقہ باقی نہیں رہا اب حضرت کا مکان اور مقام نظروں سے پوشیدہ ہے اور اس کا مطلب کہ حضرت نظر خلائق سے غائب ہیں۔
عقل کی رو سے غیبت کا مسئلہ اور ملاقات میں کوئی منافات نہیں ہے مثال کے طور پر ملائکہ لوگوں کی نظروں سے غائب ہیں مگر انبیاء اور مرسلین علیہم السلام کی خدمت میں ان کی آمد ورفت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اگرچہ وہ جن نظروں سے مخفی ہے لیکن بعض لوگ ان کو دیکھتے ہیں ان سے ملاقات ہوتی ہے حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام کی غیبت ہے مگر کچھ لوگ ان دونوں حضرات سے ملتے رہتے ہیں پس بنا برایں جس طرح ان کے مکان ومقام معلوم نہ ہونے کے ان سے ملاقات ہوسکتی ہے اسی طرح حضرت امام زمان عجل اللہ..... سے ملاقات ہوسکتی ہے۔
حضرت امام زمان عجل.... سے ملاقات کا شرف حاصل ہونا خود اس انسان کی قسمت ہے بہت خوش نصیب ہیں وہ حضرات جن کو حضرت سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہو اس خطرناک دور میں بھی ایسی خوش قسمت اور مسرت والے بھی موجود ہوتے ہیں ہر زمانے میں بڑی بڑی ہستیاں گزری ہیں بڑے بڑے صاحبان زہد وتقویٰ ہوتے رہے ہیں ہوسکتا ہے کہ ان کو حضرت کی زیارت نصیب ہوئی ہو اور واقعات کو اس غرض سے پوشیدہ رکھا ہو کہ کہیں ریا اور خود نمائی نہ ہوجائے۔ جو واقع یہاں بیان ہوئے ہیں ان سے مومنین اور مسلمین کی کچھ رہنمائی ہوجائے ایسے قصوں اور واقعہ کا پڑھنا، سننا بھی عبادت ہوتا ہے۔
یہاں پر چند واقعات کا ذکر کریں گے جو امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے ملاقات کے بارے میں نقل کرنے کے ہیں۔ البتہ شیعہ اعتقاد اور عقیدے کے تحت ملاقات سے مراد یہ ہے کہ وہ صاحب جس نے امام علیہ السلام سے ملاقات کی ہو وہ صاحب تقویٰ وپرہیزگار ہو۔ شہرت طلب نہ ہو نہایت ہی متین اور سلجھا ہوا بندہ ہو۔ یہ جو واقعات نمونے کے طور پر یہاں ذکر کر رہے ہیں جن میں سے اکثر ان صاحب کی وفات کے بعد ہی برملا ہوا ہے لہٰذا یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ ہر کوئی بندہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں امام سے ملاقات کئے ہوئے ہوں۔ بلکہ احادیث میں بھی نقل ہوا ہے کہ امام سے ملاقات کے بارے میں دعویٰ کرنے والا جھوٹا ہے حقیقت بھی یہی ہے ورنہ دین میں فتنہ وفساد برپا ہوگا۔
امام مهدی عجل الله تعالیٰ فرجه الشریف کا ظهور
حضرت امام رضا ؑنے فرمایا: قائم آل محمد ؐ کی مثال قیامت جیسی هے جس طرح قیامت ناگهانی طورپربر پا هوگی اسی طرح امام زمان ؑاچانک ظهور فرمائیں گے۔
جیسا که خدا وند عالم نے قرآن مجید میں اشاره فرمایا هے که لوگ آپؑ سے سوال کرتے هیں که قیامت کب برپا هو گی؟
آپؑ کهه دیجئے: که اس کا علم صرف خدا کے پاس هے اس کے علاوه اس وقت کے بارے میں کوئی نهیں جانتا۔یه واقعه و حادثه زمین و آسمان پر سخت گزرے گا اور یه واقعه اچانک رونما هو گا ۔(1)
اس آیت کی ذیل میں دو مهم نشایاں ، اجمالی طور پر قیامت کے بارے میں ذکر هوئی هيں :۔
١۔ قیامت کا وقت نهایت هی سنگین اور سخت ترین وقت هو گا کیونکه اجرامی فلکی سب ٹوٹ پھوٹ کا شکار هونگے سورج خاموش، چاندتاریک،ستار ے بے نور ، سیارے بے حرکت اور ایٹم تباه و برباد هو جائیں گے۔
٢۔ جس طرح قیامت اچانک برپا هو گی۔ اسی طرح امام زمان ؑکا ظهور انور بھی پلک جھپکنے میں هوگا۔ پھر آپؑ سب سے پهلے پوری دنیا کے نظام کی ازسر نو بنیاد گزاری فرمائیں گے۔
٣۔ آپؑ کا ظهور اچانک اور انقلابی طور پر واقع هو گا۔
..............
(1) سورہ اعراف: 187
حضرت امام مهدی ؑکے ظهور کی جگه:
حضرت امام رضا ؑفرماتے هیں :۔ ایک منادی غیب سے اس طرح ندا دے گی که روئے زمین کے تمام انسان اس ندا کو سن لیں گے، اس آواز کے ذریعے انسانوں کو دعوت دیں گے مزید فرماتے هیں :۔
آگاه هو جاؤ ! الله کی حجت نے خدا کے گھر کے کنارے ظهور فرمایا هے اس کی اطاعت اور پیروی کرو! کیونکه حق اس کے ساتھ هے اور قدرت بھی اسی کے هاتھ میں هے۔مھدی منتظر تمام ادیان کی زبان اور تمام مسلمانوں کے نزدیک بالاتفاق اور باقی تمام ادیان کے مطابق کعبه سے ندا دیں گے اور بشریت کو توحید کی دعوت فرمائیں گے۔ کعبه اور مکه سے یه آواز هر ایک تک پهنچے گی ، لوگوں کو چاۀے که اس آواز پر لبیک کهیں اور اس کی پیروی کریں ۔آپؑ کلمه توحید کی طرف لوگوں کو دعوت دیں گے اور اس مکان مقدس سے آواز آئے گی که آج کے بعد ظلم و کفر کی بنیادیں مٹادی جائیں گی اور تمام سیاسی اور بربریتی حکومتیں توڑ دی جائیں گی اور شیاطین کو خصوصاً سب سے بڑے شیطان کو پتھر مارے جائیں گے اور ان چھوٹے اور بڑے شیطانوں کو نیست و نابود کیا جائے گا تاکه خلیل الله و حبیب الله اور ولی الله مھدی عزیز کی حج بجا لائے جاسکیں گے و ا لّاهمارے لئے کها گیاهے۔
( ما اکثر الضجيج و اقلَّ الحجيج )
کتنے شور شرابے هیں اور حج کرنے والے کس قدر کم هیں ۔
(1)
..............
(1) صحیفہ نور؛ ص 18 ،ص 88
|