لوگ امام مہدی علیہ السلام کے مقابل ہوگا یا ساتھ ہونگے؟
اس وقت ہمیں انتہائی بیدار اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکیہ ہم وہی لوگ ہیں جو خدا پرستی کے بجائے ہوا پرستی کو اختیار کیا ہوا ہے اپنی زندگی کو قرآن کے مطابق چلنے کے بجائے اپنے آراء اور افکار کے مطابق ڈالے ہوئے ہیں یہی سبب ہے اسلام فرسودہ اور کہنہ ہوچکا ہے ، ظاہری اسلام کے ساتھ بھی ہمارے حکام اور حکمران مذاق اڑایا جارہا ہے ۔ اور عوام اور عوامی لیڈر صرف نعرہ بازوں میں وقت ضائع کررہے ہیں آج الحمد للہ سے سارے دنیا کے مسلمان جانتے ہیں کہ ان کے ملک کے حکمران ننگ دین اور تنگ ملت ہیں لیکن یہ بیچارے عوام کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں ۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اگر کسی ملک کے عوام اپنے ظالم اور نمدار حکمرانوں کے خلاف جمہوری طریقے سے آواز بلند کرنا چاہئے بھی تو ان کی آواز کو ٹینگ اور توپ کے ذریعہ دبانا چاہتے ہیں مسلمانوں کے ۷۳ فرقوں میں سے ہر ایک اپنے ہاں قرآن اور اسلام کی خاص تعبیر وتصریح کرتے ہیں اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس حدیث شریف میں کتنی وزن اور حقانیت پوشیدہ ہے اور یہ بھی یاد رکھنی چاہئے فی الحال تو صرف مسلمان ہی وہ قوم ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں اسلام ہی تنہا نجات دھندہ بشریت ہے اور احکام اسلامی پر عمل اور اس کو اجراء کرنے والے ہم ہی ہیں لیکن ہم لوگ ھوی وھوس پر غالب کریں اور اپنی آراء وافکار کو قرآن پر مقدم کریں پہلے مرحلے میں تو یقینا تنہا ہم ہی ہونگے جو امام زمان علیہ السلام ہمارے خلاف قیام فرمائیں گے اور قرآن اور اسلام کو ہمارے غلط آراء اور افکار سے پاک وصاف اور ہم سے نجات دلائیں گے ۔
جو اس راہ میں مخالفت اور مزاحمت کریں تو ان کے جڑ سے اسلام کو آذاد اور اس گروہ کے قلع قمع کریں گے اور یہ بات بھی حدیث شریف میں آیا ہے کہ سب سے پہلا گروہ جو حضرت کو قتل کرنے کے بارے میں فتوی دیں گے وہ امت اسلامی کے مفتی اور فقہاء ہونگے !
بقیۃ اللہ خیر لکم سے مراد کون ہے؟
یہ جملہ سورہ ہود کی آیہ شریفہ کی ضمن میں ہے اور حضرت شعیب سے متعلق ہیں آپ نے اپنی قوم سے فرمایا۔
لاتنقصوا المکیال والمیزان ، ہوشیار رہئے ! اپنے ترازو اور پیمانہ میں کم نہ تولئے ۔
آلودگیوں کی وجہ سے دعا کا مستجاب نہ ہونا :
معاملات میں توجہ کرنی چاہئے یہ ایک ایسا مطلب ہے جس کی طرف قرآن مجید نے بہت تاکید کی ہے ۔ حقیقتا یہ ایک ایسی بات اور توجہ طلب چیز ہے ہماری بہت بڑی مشکلات ہماری کاروباری زندگی کی آلودگیوں کی وجہ سے ہیں ۔
یہی سبب ہے کہ ہماری کاروباری زندگی کے آلودگیوں کی وجہ سے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتی اور وعظ ونصیحت اثر نہیں کرتی ہے ۔ یعنی ہمارے دل سیاہ ہوچکے ہیں اس اثر کی وجہ سے ہماری دعائیں رک جاتی ہیں اور مشکلات اور گرفتاریوں میں دگنی اضافہ ہوجاتی ہے ۔
اور معاشی طور پر تنگ دستی کا شکار ہوجاتی ہے لہٰذا قرآن مجید میں خداوند منان فرماتا ہے ، لا تنقصوا المکیال والمیزان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہوشیار رہنا چاہئے ۔ اپنے معاملات میں گڑھ بڑھ نہیں کرنا چاہئے کمی وبیشی نہیں کرنی چاہئے ۔ ناپ تول میں کمی نہیں کرنی چاہئے ۔
انی اراکم بخیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں اسطرح دیکھ رہا ہوں کہ اگر تم لوگ خدا کی وعظ ونصیحت کو قبول کریں تو تمہاری زندگی سراسر خیرو برکت سے پر ہوجائیں گے اور اگر نہ کریں !
وانی اخاف علیکم عذاب یوم محیط(1) مجھے ڈر اس بات پر ہے کہ خدا کی عذاب میں تم لوگ گرفتار ہوجائیں گے ، دنیا ، عالم برزخ اور محشر کے دن عذاب خدا میں مبتلا ہوجائیں گے ۔
..............
(1) سورہ ھود آیہ ۸۴
ولا تبخسوالناس اشیائهم ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں کے قیمتی اشیاء میں کم نہ کیجئے ۔
اپنے بازار کی رونق کے لئے دوسروں کے بازار کو خراب نہ کریں ۔
بقیۃ اللہ خیر لکم ان کنتم مؤمنین ، جو کچھ اللہ کی طرف سے بچا ہے تمہارے لئے خیر وبرکت ہے ۔
خداوند عالم کی اطاعت وفرمان برداری میں حرام چیزوں کو چھوڑ دے اس ضمن میں جو کچھ باقی رہ جائے لیکن اسی حلال چیز میں اگرچہ کم ہی کیوں نہ ہو ۔ خدا کی مرضی اور دستخط کی وجہ سے بہت زیادہ حرام مال سے بہتر ہے اسی میں خداوند عزوجل خیروبرکت عنایت کرے ۔ اگرچہ اس قلیل سی مال سے آپ کے پاس بلڈنگ ، محل ، بڑے قیمتی گاڑی وغیرہ نہیں ہونگے، مگر یہ کہ آپ کی خیر دنیا اور آخرت اسی میں مضمر ہیں وہ ہیں بقیۃ اللہ ۔
یعنی وہی مختصر سود جو خدا کی مرضی اور حلال طریقے سے ہاتھ میں آجاتے ہیں یہاں پر بقیۃ اللہ کی مصداق وہی حلال سود ہے ۔
مگر اس آیت کی تاویل میں آیا ہے بقیۃ اللہ سے مراد وجود اقدس حضرت امام زمان علیہ السلام ہیں ، چونکہ خدا کی طرف سے انبیاء اور ائمہ طاہرین کے بعد باقی رہنے والا تنہا آپ کی ذات مبارک ہیں ۔
وہ تمہارے لئے خیر ہیں اس شرط پر اگر تم اپنے زندگیوں میں حلال اور حرام خدا میں رعایت کریں اور خدا کی مرضی کے مطابق زندگی چلائیں ۔
اس وقت ہم خوشی منائیں ، جشن منائیں ، چراغان کریں ، نعرہ لگائیں بہت اچھی بات ہیں اس وقت خدا ہمیں اپنے خیر وبرکت سے مالا مال کریں گے ۔ یہ کہ ہم سب اظہار محبت کرتے ہیں لیکن یہ تمام جلسے جلوس ہمارے عیاں ، چراغان وغیرہ طبق تقوی الٰہی کے مطابق ہونی چاہئے اسی لئے خداوند قدوس فرماتا ہے ۔
ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقویٰ القلوب(1) یہاں پر شعائر اللہ سے مراد ، مسجد ، امام بارگاہ ، خیابان ، گلی کوچہ کو چراغان کرنا وغیرہ مقدمہ ہے اصل میں دل کو روشن کرنا چاہئے ۔ قلوب کو عشق ومحبت امام زمان سے منور کرنا چاہئے۔
مسجد ، امام بارگاہ، خیابان ، گلی کوچہ ، شہر اور محلہ وغیرہ روشن کریں خدا نخواستہ ، دل روشن نہ ہو، قلوب عشق ومحبت اور معرفت بقیۃ اللہ سے تاریک ہو تو پھر فیصلہ آپ پر؟؟ البتہ مسجد، امام بارگاہ، سڑکیں، گلی کوچےوغیرہ کے ساتھ ساتھ آپ کے قلوب بھی عشق ومحبت، ایمان ویقین کے نور سے روشن ہوجائیں یہ بہت ہی اچھی بات ہوگی ۔
..............
(1) سورہ حج ۲۲
دنیا کی آخرین حکومت:
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: اول ماینطق بہ القائم حین فرج ۔ ۔ ۔ ۔ جب امام زمان علیہ السلام ظہور فرمائیں گے ۔ تو سب سے پہلا کلمہ یہ ہوگا ۔ انا بقیۃ اللہ وحجتہ وخلیفتہ علیکم:
میں بقیۃ اللہ ہوں ، میں اللہ کی طرف سے تمہارا خلیفہ ہوں ۔ لہٰذا اس وقت کوئی بھی حضرت کو سلام عرض کریں تو ان جملوں کے ساتھ السلام علیک یا بقیۃ اللہ فی ارضہ ، آپ پر سلام ہو اے خدا کی باقی ماندہ حجت خدا جو روئے زمین پر ہیں ۔
آپ فرماتے ہیں۔ ان دولتنا آخر الدّول ۔ یعنی ہماری دولت آخرین دولت ہیں ۔ (1)
ہماری دولت آخرین دولت ہیں ، ہماری حکومت آخرین حکومت ہیں ۔
..............
(1) منتخب الاثر ص۳۰۸
حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوئی ہے ۔ مایکون ھذا الامر حتی لا یبقیٰ صنف من الناس الا وقد ولوا علی الناس ۔
حضرت امام زمان کی حکومت اس وقت تک منشاء شہود پر واقع نہیں ہونگے جب تک دنیا کی ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والا حکومت تک نہیں پہنچ گے اور حکومت تک پہنچے کے بعد دیکھیں گے وہ دنیا میں اصلاح نہیں کرسکا ہے۔ حتی لایقول قائل انا لو ولّینا لعدلنا ثم یقوم القائم بالحق والعدل ۔ (غیبت نعمانی)
جب ہم حکومت ہاتھ میں لیں گے اور دنیا کی اصلاح کریں گے تو اس وقت کوئی مائی کا لال یہ نہ کہیں اگر یہ حکومت ہماری ہاتھ میں آجاتے تو ہم بھی اس طرح اصلاح کرتے ۔
ہم مہلت دیں گے تاکہ زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ حکومت تشکیل دیں اس وقت ہم دیکھتے ہیں جو ہم نے اصلاح کی ہے وہ کسی کو توفیق نہیں ہونگے ۔ انّ دولتنا آخر الدول ولم یبق اھل بیت لھم دولۃ الا ملکوا قبلنا لئلا یقولوا اذا رأوا سیرتنا اذا ملکنا سیرنا بمثل سیرۃ ھؤلائ قول اللہ تعالیٰ (والعاقبۃ للمتقین) ۔ (منتخب الاثر ص ۳۰۸)
|