منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خدا)
 

سید المرسلین ۖ کی علمی میراث کے چند نمونے
١۔ عقل و علم
١۔رسولۖ نے عقل کو بہت زیادہ اہمت دی ہے ، آپۖ نے اس کو پہچنوایا اور زندگی میں اس کے اثر و کردار کو بھی بیان کیا ہے یعنی ذمہ داری وفرائض، کام اور اس کی جزاء کی وضاحت کی ہے اسی طرح ان اسباب کو بھی بیان کیا ہے جن سے عقل میں رشد و تکامل پیدا ہوتا ہے ۔ فرماتے ہیں:
''ان العقل عقال من الجھل،و النفس مثل اخبث الدواب، فان لم یعقل حارت، فالعقل عقال من الجھل، و ان اللّہ خلق العقل، فقال لہ: اقبل فاقبل، و قال لہ : ادبر فادبر، فقال لہ اللہ تبارک و تعالیٰ: و عزتی و جلالی ما خلقت خلقاً اعظم منک ولا اطوع منک، بک ابدی و اعید، لک الثواب و علیک العقاب''
فتشعب من العقل الحلم و من الحلم العلم، و من العلم الرشد، و من الرشد العفاف، و من العفاف الصیانة، و من الصیانة الحیائ، ومن الحیاء الرزانة و من الرزانة المداومة علیٰ الخیر، و کراھیة الشر، و من کراھیة الشر طاعة الناصح۔
فھذہ عشرة اصناف من انواع الخیر، و لکل واحد من ھذہ العشرة الاصناف عشرة انواع...''۔(١)
..............
١۔ تحف العقول باب مواعظ النبی و حکمہ۔
عقل جہالت و نادانی کے لئے زنجیر ہے اور نفس پلید ترین جانور کے مانند ہے اگر اسے باندھا نہیں جائے گا تووہ بے قابو ہو جائے گا، لہذا عقل نادانی کے لئے زنجیر ہے ۔ بیشک خدا نے عقل کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا: آگے بڑھ تووہ آگے بڑھی، کہا: پیچھے ہٹ وہ پیچھے ہٹ گئی تو خدا وند عالم نے فرمایا: میں اپنی عزت وجلال کی قسم کھاتا ہوں کہ میںنے تجھ سے عظیم اور تجھ سے زیادہ اطاعت گذار کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے ۔ تجھ سے ابتداکی ہے اور تیرے ہی ذریعہ لوٹائوںگا۔ تیرے لئے ثواب دیا ہے او رتیری مخالفت کی وجہ سے عذاب کیا جائے گا۔
پھر عقل سے بردباری و جود میں آئی اور برد باری سے علم پیدا ہوا اور علم سے رشدو ہدایت و حق جوئی نے جنم لیا اور رشد سے پاک دامنی پیدا ہوئی اور عفت و پاکدامنی سے صیانت -بچائو اور تحفظ کا جذبہ ابھرا، صیانت سے حیا پیدا ہوئی اور حیاء سے سنجیدگی اور وقار نے وجود پایا، سنجیدگی سے نیک کام پر مداومت کرنے اور شر سے نفرت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا اور شر سے کراہت کرنے سے ناصح کی ا طاعت کا شوق پیدا ہوا۔
چنانچہ خیر و نیکی کی یہ دس قسمیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی دس قسمیں اور دس صنفیں ہیں...
٢۔رسولۖ نے زندگی میں علم کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے اس کی اہمیت بتائی ہے اور تمام کمالات کے مقابلہ میں اس کی قدر و قیمت پر زور دیا ہے :
''طلب العلم فریضہ علیٰ کل مسلم، فاطلبوا العلم من مظانہ، و اقتبسوہ من اھلہ ، فان تعلیمہ للّہ حسنة، و طلبہ عبادة، و المذاکرة بہ تسبیح، و العمل بہ جہاد، و تعلیمہ من لا یعلمہ صدقة، و بذلہ لاھلہ قربة الیٰ اللّٰہ تعالیٰ؛ لانہ معالم الحلال و الحرام، و منار سبل الجنة، و المؤنس فی الوحشة، و الصاحب فی الغربة و الوحدة، و المحدث فی الخلوة، و الدلیل علی السراء و الضرائ، و السلاح علیٰ الاعداء ، و الزین عند الاخلائ۔ یرفع اللّہ بہ اقواماً، فیجعلھم فی الخیر قادة، تقتبس آثار ھم، و یھتدی بفعالھم، و ینتھی الیٰ رایھم، و ترغب الملائکة فی خلتھم۔ باجنحتھا تمسحھم، و فی صلاتھا تبارک علیہم۔ یستغفر لھم کل رطب و یابس، حتی حیتان البحر و ھوامہ، و سباع البر و انعامہ۔ ان العلم حیاة القلوب من الجھل، و ضیاء الابصار من الظلمة، و قوة الابدان من الضعف۔ یبلغ بالعبد منازل الاخیار، و مجالس الابرار، والدرجات العلی فی الدنیا والآخرة۔ الذکر فیہ یعدل بالصیام، و مدارستہ بالقیام۔ بہ یطاع الرب ، و بہ توصل الارحام، و بہ یعرف الحلال و الحرام۔ العلم امام العمل و العمل تابعہ۔ یلھمہ السعداء ، و یحرمہ الاشقیائ، فطوبی لمن لم یحرمہ اللّٰہ منہ حظہ
و صفة العاقل ان یحلم عمّن جھل علیہ، و یتجاوز عمّن ظلمہ، و یتواضع لمن ھو دونہ، و یسابق من فوقہ ف طلب البر۔ و اذا اراد ان یتکلم تدبّر، فان کان خیراً تکلم فغنم، و ان کان شرّاً سکت فسلم، و اذا عرضت لہ فتنة استعصم باللہ، و امسک یدہ و لسانہ، و اذا رأی فضیلة انتھز بھا۔ لا یفارقہ الحیائ، و لا یبدو منہ الحرص، فتلک عشر خصال یعرف بھا العاقل۔
و صفة الجاہل ان یظلم من خالطہ و یتعدی علیٰ من ھو دونہ، و یتطاول علیٰ من ھو فوقہ۔ کلامہ بغیر تدبر، ان تکلم اثم، و ان سکت سھا، و ان عرضت لہ فتنة سارع الیھا فاردتہ، و ان راء فضیلة اعرض عنھا و ابطأ عنھا۔ لا یخاف ذنوبہ القدیمة، ولا یرتدع فیما بق من عمرہ من الذنوب۔ یتوانی عن البرّ و یبطیٔ عنہ، غیر مکترث لما فاتہ من ذلک او ضیّعہ ، فتلک عشر خصال من صفة الجاہل الذ حُرِم العقل۔''(١)
علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے پس علم کو اس کی جگہ سے حاصل کرو اور صاحب علم ہی سے علم حاصل کرو، کیونکہ خدا کے لئے تعلیم دینا نیکی ہے اور اس کا طلب کرنا عبادت ہے ۔ علمی بحث و مباحثہ تسبیح ہے اور اس پر عمل کرنا جہاد ہے اور نہ جاننے والے کو علم سکھانا صدقہ ہے اور اہل کے لئے اس سے خرچ کرنا تقرب خدا ک
..............
١۔ بحار الانوار ج١ص١٧١ طبع موسسة الوفائ، تحف العقول: ٢٨ طبع موسسہ النشر الاسلامی۔
باعث ہے ، کیونکہ اس سے حلال و حرام کی پہچان ہوتی ہے ۔ یہ جنت کے راستہ کا منارہ ہے ، وحشت میں مونس ومددگار ہے ، غربت و سفر میں رفیق و ساتھی ہے اور تنہائی میں دل بہلانے والا ہے ،خوشحالی و مصیبت میں رہنماہے ، دشمن کے خلاف ہتھیار ہے ،دوستوں کی نظر میں زینت ہے ، اس کے ذریعہ خدا نے قوموںکو بلند کیا ہے انہیں نیکی کا راہنما قرار دیا ہے ان کے آثار کو جمع کیا جاتا ہے اور افعال سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے ان کی رایوں سے آگے نہیں بڑھا جاتا، ملائکہ ان سے دوستی کا اشتیاق رکھتے ہیں اور اپنے پروں سے انہیں مس کرتے ہیں اور اپنی نماز میں ان کے لئے برکت کی دعا کرتے ہیں، ہر خشک و تر ان کے لئے استغفار کرتا ہے یہاں تک کہ دریا کی مچھلیاں اور اس کے جانور اورخشکی کے درندے اور چوپائے بھی ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ علم دلوں کی زندگی، آنکھوں کا نور اور بدن کی قوت ہے علم بندے کو اخیار کی منزلوں، ابرار کی مجالس اور دنیا وآخرت کے بلند درجات پر پہنچا دیتا ہے ۔ اس میں ذکر، روزہ کے برابر ہے اور ایک دوسرے کو پڑھکر سنانا قیام کے مانند ہے ، اس کے ذریعہ خدا کی اطاعت کی جاتی ہے صلۂ رحمی کی جاتی ہے ، اس کے وسیلہ سے حلال و حرام کی معرفت ہوتی ہے ، علم عمل کا امام ہے اور وہ اس کا تابع ہے ، اس سے نیک بخت لوگوں کو نوازا جاتا ہے ، بدبختوں کو اس سے محروم کیا جاتا ہے ، پس خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس کو خدا نے اس سے محروم نہیں کیا۔
عاقل کی صفت یہ ہے کہ وہ جہالت سے پیش آنے والے کے ساتھ بردباری سے پیش آتا ہے اور جو اس پر ظلم کرتا ہے وہ اس سے در گزر کرتا ہے ، اپنے سے چھوٹے کے ساتھ انکساری سے پیش آتا ہے اور نیکی کرنے میں اپنے سے بڑے پر سبقت لے جاتا ہے ۔ جب لب کشائی کرنا چاہتا ہے تو سوچ لیتا ہے اگر اس میں بھلائی ہوتی ہے تو بولتا ہے اور فائدہ اٹھاتا ہے اور اگر بولنے میں کوئی برائی محسوس کرتا ہے تو خاموش رہتاہے اورغلطیوں سے محفوظ رہتا ہے جب اس کے سامنے کوئی امتحانی منزل آتی ہے تو وہ خدا سے لو لگاتا ہے اپنی زبان اور اپنے ہاتھوں پر قابو رکھتا ہے، کوئی فضیلت دیکھتا ہے تو اسے سمیٹ لیتا ہے ، حیا سے دست کش نہیںہوتا، حرص اس میں دیکھنے میں نہیں آتی پس یہ دس خصلتیں ہیں جن کے ذریعہ عاقل پہچانا جاتا ہے ۔
جاہل کی صفت یہ ہے کہ جو اس سے گھل مل جاتا ہے یہ اس پر ظلم کرتا ہے ، اپنے سے چھوٹے پر زیادتی کرتا ہے ، اپنے بڑے کی نافرمانی کرتا ہے ، اس کے ساتھ گستاخی سے پیش آتا ہے، اسکی بات بے تکی ہوتی ہے، بولتا ہے تو گناہ کرتا ہے اور چپ رہتا ہے تو غافل ہو جاتا ہے ۔ اگر فتنہ کے روبرو ہوتا ہے تو اس کی طرف دوڑ پڑتاہے اور اسی وجہ سے ہلاک ہو جاتا ہے ، اگر کہیں کوئی فضیلت نظر آتی ہے تو اس سے روگردانی کرتا ہے۔ اس کی طرف بڑھنے میں سستی کرتا ہے ، وہ اپنے پہلے گناہوں سے نہیں ڈرتا ہے اور باقی ماندہ عمر میں گناہ ترک نہیں کرتا نیک کام کی انجام دہی میں سستی کرتا ہے اور جو نیکی اس سے چھوٹ گئی یا ضائع ہو گئی ہے اس کی پروا نہیں کرتا ۔ یہ صفت اس جاہل کی ہے جو عقل سے محروم ہے ۔

٢۔ تشریع کے مصادر
٣۔یقینا اللہ کے رسولۖ نے تمام لوگوں کے لئے حقیقی سعادت و کامیابی کے راستہ کی نشاندہی کی ہے سعادت کے حصول کی ضمانت لی ہے بشرطیکہ وہ ان تعلیمات پر عمل کریں جو آپۖ نے ان کے سامنے بیان کی ہیں۔ رسولۖ کی نظر میں سعادت و کامیابی کا راستہ یہ ہے کہ انسان دو بنیادی اصولوں سے تمسک کرے اوریہ اصول ایک دوسرے کے بغیر کسی کو بے نیاز نہیں کریں گے یہ ثقلین ہیں۔ رسولۖ کا ارشاد ہے:
ایھا النّاس ! انی فرطکم، و انتم واردون علیّ الحوض، الا و انّی سائلکم عن الثقلین، فانظروا: کیف تخلفونی فیھما؟ فان اللطیف الخبیر نبأنی: انھما لن یفترقا حتی یلقیانی، و سالت ربی ذلک فاعطانیہ، الا و انی قد ترکتھما فیکم: کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی، لا تسبقوھم فتفرقوا ولا تقصروا عنھم فتھلکوا، ولا تعلموھم، فانھم اعلم منکم۔
ایھالناس! لا الفینکم بعدی کفاراً!، یضرب بعضکم رقاب بعض، فتلقونی فی کتیبة عمجریٰ السیل الجرار۔
الا و ان علی بن ابی طالب اخی و وصیی، یقاتل بعدی علی تاویل القرآن ، کما قاتلت علی تنزیلہ''۔
اے لوگو!میں تم سے پہلے جانے والا ہوں اور تم میرے پاس حوض(کوثر) پر پہنچو گے اور میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کرونگا کہ میرے بعد تم نے ان دونوںکے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ؟ مجھے لطیف و خبیر نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ مجھ سے ملاقات کریں گے، میںنے اپنے رب سے اس کا سوال کیا تو اس نے مجھے عطا کر دیا، دیکھو: ان دونوں کو میں تمہارے درمیان چھوڑ ے جا رہا ہوں ( وہ ہیں) کتاب خدا اور میرے اہل بیت سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا تم میں تفرقہ پڑ جائیگا اور ان سے پیچھے نہ رہ جانا ورنہ ہلاک ہو جاوگے اور انہیں سکھانے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔
اے لوگو! دیکھو! میرے بعدکافر نہ ہو جانااس طرح سے کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو تم مجھے ایک بڑے لشکر میں پائوگے ۔
آگاہ ہو جائو! علی بن ابی طالب میرے بھائی اور میرے وصی ہیں، وہ میرے بعد تاویل قرآن کے لئے ویسے ہی جنگ کریں گے جیسے میں نے اس کے نازل ہونے کے سلسلہ میں جنگ کی تھی۔

قرآن اور اس کا ممتا زکردار
٤۔ رسولۖ نے زندگی میں قرآن کے کردار اور اس سے مکمل تمسک کرنے کی قیمت کو واضح کرتے ہوئے اس کی عظمت کو بیان کیا ہے اور پوری بشریت کو مخاطب کرکے فرمایا ہے :
''ایھا النّاس : انکم فی دار ھدنة و انتم علیٰ ظھر سفر، و السیر بکم سریع، فقد رأیتم اللیل و النہار، و الشمس و القمر، یبلیان کل جدید، و یقربان کل بعید، و یاتیان بکل وعد و وعید ، فاعدوا الجہاز لبعد المجاز۔ انھا دار بلاء و ابتلائ، و انقطاع و فناء ، فاذا التبست علیکم الامور کقطع اللیل المظلم، فعلیکم بالقرآن، فانہ شافع مشفع، و ماحل مصدق۔ من جعلہ امامہ قادہ الیٰ الجنة، و من جعلہ خلفہ ساقہ الیٰ النار، و من جعلہ الدلیل یدلہ علیٰ السبیل۔ و ھو کتاب فیہ تفصیل، وبیان و تحصیل۔ ھو الفصل لیس بالھزل، و لہ ظھر و بطن، فظاھرہ حکم اللہ، و باطنہ علم اللہ تعالیٰ، فظاہرہ انیق، و باطنہ عمیق،لہ تخوم، و علیٰ تخومہ تخوم، لا تحصی عجائبہ ، ولا تبلی غرائبہ ، مصابیح الھدی، و منار الحکمة، و دلیل علیٰ المعرفة لمن عرف الصفة، فلیجل جالٍ بصرہ، و لیبلغ الصفة نظرہ، ینج من عطب، و یتخلص من نشب؛ فان التفکر حیاة قلب البصیر، کما یمشی المستنیر فی الظلمات بالنور، فعلیکم بحسن التخلص، و قلة التربص۔''(١)
اے لوگو! تم ابھی راحت کے گھر میں ہو، ابھی تم سفر میں ہو، تم کو تیزی سے لے جایا جا رہا ہے، تم نے رات ، دن اور چاند ، سورج کو دیکھا ہے یہ ہر نئے کو پرانا کر رہے ہیں اور ہر دور کو نزدیک کر رہے ہیں اور جس چیز کا وعدہ کیا جا چکا تھا اسے سامنے لا رہے ہیں ، تم اپنا اسباب تیار رکھو یہ منزل فنا ہے ، اس کا سلسلہ منقطع ہو جائیگا جب تم پر کالی رات کے ٹکڑوںکی طرح امور مشتبہ ہو جائیں گے اس وقت تم قرآن سے تمسک کرنا کیونکہ وہ شفاعت کرنے والا ہے اور اس کی شفاعت قبول کی جائیگی اوراس کی شکایت بھی قبول کی جائے گی جو اسے اپنے آگے رکھتا ہے وہ اسے جنت کی طرف لے جاتا ہے اور جو اسے پسِ پشت قرار دیتا ہے وہ اسے جہنم میں پہنچا دیتا ہے اور جو اسے راہنما بناتا ہے تو وہ اسے سیدھے راستہ کی ہدایت کرتا ہے ۔ یہ ایسی کتاب ہے کہ جس میں تفصیل ہے واضح بیان اور علوم و معارف کا حصول ہے یہ قول فیصل ہے کوئی مذاق نہیں ہے۔ اس کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے ، اس کا ظاہر تو حکم ِ خدا ہے اور اس کا باطن علم خدا ہے ، اس کا ظاہر عمدہ و خوبصورت ہے اور اس کا باطن عمیق ہے، اس میں رموز ہیں بلکہ رموز در رموز ہیں اس کے عجائب کو شمار نہیں کیا جا سکتا ہے اور اس کے غرائب کہنہ و فرسودہ نہیں ہو سکتے ہیں اس کی ہدایت کے چراغ اور حکمت کے منارے ہیں اور جو اس کے صفات کی معرفت رکھتا ہے اس کے لئے دلیلِ معرفت ہے، راہرو کو چاہئے کہ اپنی آنکھ کو اس سے منورکرے اور اس کے اوصاف تک اپنی نظر پہنچائے تاکہ ہلاکت سے نجات اور جہالت سے رہائی پائے،
..............
١۔تفسیر العیاشی ج١ ص ٢۔٣، کنز العمال ج٢ ص ٢٨٨، الحدیث ٤٠٢٧۔
بیشک فکر و نظر دل کی بصارت ہے جیسا کہ روشنی کاطالب تاریکی میں روشنی لیکر چلتا ہے ، تمہارے لئے ضروری ہے کہ ہر پستی سے نجات حاصل کرو اور توقعات کو کم رکھو۔

اہل بیت دین کے ارکان ہیں
٥۔ رسولۖ نے ثقل کبیر، اہل بیت رسول ۖ-علی اور ان کے بارہ فرزندوں کو- مختلف طریقوں سے پہچنوایا ، اپنے آخری خطبہ میں فرمایا:
''یا معشر المھاجرین و الانصار! و من حضرنی فی یومی ھذا ، و فی ساعتی ھذہ، من الجن و الانس فلیبلغ شاھدکم الغائب: الا قد خلفت فیکم کتاب اللہ ۔ فیہ النور، وا لھدی، و البیان، ما فرّط اللہ فیہ من شیء ، حجة اللّہ لی علیکم۔ و خلفت فیکم العلم الاکبر، علم الدین ، و نور الھدی، وصیی: علی بن ابی طالب، الا و ھو حبل اللّہ، فاعتصموا بہ جمیعاً ، ولا تفرقوا عنہ، ( و اذکروا نعمت اللّہ علیکم اذ کنتم اعدائً فالّف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخواناً)(١)
ایھا النّاس ! ھذا علی بن ابی طالب، کنز اللّہ، الیوم وما بعد الیوم، من احبہ و تولاہ الیوم و ما بعد الیوم ، فقد اوفی بما عاہد علیہ، و ادی ما وجب علیہ، و من عاداہ الیوم وما بعد الیوم ، جاء یوم القیامة اعمی و اصم، لا حجة لہ عند اللّہ۔
ایھا الناس! لا تاتونی غداً بالدنیا، تزفونھا زفاً، و یأ تی اھل بیتی شعثاء غبرائ، مقھورین مظلومین ، تسیل دماؤھم امامکم، و بیعات الضلالة و الشوری للجہالة فی رقابکم۔
الا و ان ھذا الامر لہ اصحاب و آیات، قد سمّا ھم اللّہ فی کتابہ، و عرفتکم ، و بلغتکم ما ارسلت بہ الیکم، ولکنی اراکم قوماً تجھلون۔ لا ترجعن بعدی کفاراً مرتدین،
..............
١۔ آل عمران:١٠٣۔
متاولین للکتاب علیٰ غیر معرفة، و تبتدعون السنة بالھوی؛ لان کل سنّة وحدیث و کلام خالف القرآن فھو ردّ و باطل۔
القرآن امام ھدی، و لہ قائد یھدی الیہ، و یدعو الیہ بالحکمة و الموعظة الحسنة۔ و ھو ولیّ الامر بعدی، ووارث علمی و حکمتی ، و سری و علانیتی، و ما ورثہ النبیون من قبلی، وانا وارث و مورث، فلا یکذّبنّکم انفسکم۔
ایّھا النّاس! اللّہ اللّہ فی اھل بیتی؛ فانھم ارکان الدین ، و مصابیح الظلم ، و معدن العلم؛ علی اخی، و وارثی، و وزیری، و امینی، و القائم بامری، و الموفی بعھدی علیٰ سنتی۔ اول النّاس بی ایماناً، و آخرھم عھداً عند الموت، و اوسطھم لی لقاء اً یوم القیامة، فلیبلّغ شاھدکم غائبکم الا و من امّ قوماً و من ام قوماً امامة عمیاء ، و فی الامة من ھو اعلم فقد کفر۔
ایّھا النّاس! و من کانت لہ قبلی تبعة فیما انا، و من کانت لہ عدة، فلیات فیھا علی بن ابی طالب، فانہ ضامن لذلک کلّہ، حتی لا یبقی لاحد علیّ تباعة''۔ (١)
اے گروہِ مہاجرین و انصار جوبھی آج اس وقت میرے سامنے موجود ہے ، مجھے دیکھ رہا ہے اسے چاہئے غائب لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دے۔ آگاہ ہو جائو میں نے تمہارے درمیان خدا کی کتاب چھوڑی ہے، جس میں نور ، ہدایت اور بیان ہے ، اس میں خدا نے کسی چیز کو بیان کئے بغیر نہیں چھوڑا ہے ۔ یہ تمہارے اوپر خدا کی حجّت ہے اور میں نے تمہارے درمیان علمِ اکبر، علم دین ، نورِ ہدایت اور اپنا وصی، علی بن ابی طالب کو چھوڑا ہے ، اچھی طرح سمجھ لو کہ وہ حبل اللہ یعنی خدا تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں سب مل کر ان کا دامن تھام لو انہیں چھوڑکر پراگندہ نہ ہو جانا۔ تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جس سے اس نے تمہیں نوازا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈال دی تو اس کی نعمت کے سبب تم ایک دوسرے کے
..............
١۔ بحار الانوار ج٢٢ ص ٤٨٤ ، ٤٨٧۔
بھائی بن گئے۔
اے لوگو! یہ علی بن ابی طالب آج اور بعد کے لئے خدا کا ذخیرہ ہیں جو شخص آج اور بعد میں ان سے محبت کرے گا اور ان کی پیروی کرے گا تو وہ اپنے کئے ہوئے عہد کو پورا کرے گا اور اپنے فرض کو انجام دے گا اور جس شخص نے آج اور آج کے بعد ان سے عداوت رکھی وہ قیامت کے دن اندھا اور بہرہ اٹھے گا اور خدا پر اس کی کوئی حجّت نہیںہوگی اور وہ خدا کے سامنے کوئی عذر نہیں پیش کر سکے گا۔
اے لوگو! تم کل-روز قیامت- میرے پاس اس طرح نہ آنا کہ تم مال دنیا سے لدئے ہوئے ہو اور میرے اہل بیت کی غربت کی وجہ سے یہ حالت ہو کہ ان کے بال گرد سے اٹے ہوئے ہوں، مظلوم و ستم دیدہ ہوں اور تمہارے ہاتھوں سے ان کا خون ٹپک رہا ہو۔ یاد رکھو کہ گمراہی و ضلالت کی بیعت اور جاہلوں کی شوریٰ کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔
میں تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ اس خلافت کے اہل موجود ہیں وہی خدا کی نشانیاں ہیں خدا نے اپنی کتاب میں ان کی پہچان بتا دی ہے اور میں نے ان کا تعارف کرا دیا ہے میں نے تم تک وہ پیغام پہنچا دیا ہے جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا تھا، اس کے باوجود میں تمہیں جاہل و نادان ہی دیکھ رہا ہوں۔ خبردار میرے بعد تم کافر و مرتد نہ ہوجانا اور علم و معرفت کے بغیر قرآن کی تاویل نہ کرنا اور میری سنت کو اپنی خواہش کے مطابق نہ ڈھال لینا کیونکہ ہر بدعت اور ہر وہ کام جو قرآن کے خلاف ہوتا ہے وہ باطل ہے۔
اس میں شک نہیں کہ قرآن ہدایت کا امام ہے لیکن اس کے لئے ایک قائد ناطق کی ضرورت ہے جو اس کی طرف ہدایت کرے اور حکمت و بہترین نصیحت کے ساتھ اس کی طرف بلائے اور وہ ہے میرے بعد ولیِ امر، وہی میرے علم و حکمت کا حقدار اورمیرے اسرار کا وارث اور انبیاء کی میراث کا حامل ہے دیکھو! میں بھی وارث ہوں اور میرے بھی وارث ہیں، تمہارے نفس کہیں تمہیں دھوکا نہ دیں۔
اے لوگو! میرے اہل بیت کے بارے میں خدا سے ڈرو! خدا سے ڈرو! دیکھو یہ دین کے ارکان و ستون ، تاریکی کے چراغ اور علم کا سر چشمہ ہیں ، علی میرے بھائی، میرے وارث، میرے وزیر، میرے امین اور میرے امور کو انجام دینے والے اور میری سنت کے مطابق میرے وعدہ کو پورا کرنے والے ہیں سب سے پہلے اپنے اسلام و ایمان کا اظہار کرنے والے ہیں،یہ دمِ آخر تک میرے ساتھ رہیں گے اور روز قیامت مجھ سے ملاقات کرنے والوں میں اوسط ہیں۔ تم میں سے جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہئے کہ میرا یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیں جواس وقت یہاں موجود نہیں ہیں یاد رکھو کہ اگر کسی نے اندھے پن میں کسی کو اپنا امام بنا لیا اور وہ جانتا تھا کہ قوم میں اس سے بہتر آدمی موجود ہے تو وہ کافر ہو گیا۔
اے لوگو! اگر کسی کے پاس میری دستاویز ہے کہ جس میں، میں ضامن ہوں یا کسی سے میرا وعدہ ہے تو وہ علی بن ابی طالب کے پاس جائے وہ میرے تمام امور کے ضامن ہیں وہ میرے ذمہ کسی کاکچھ باقی نہیں رہنے دیںگے۔