منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خدا)
 

چوتھی فصل
رسولۖ کی زندگی کے آخری ایام
١۔وصیت لکھنے میں حائل ہون
شدید بخار اور نہایت ہی تکلیف کے باوجود، رسولۖ، علی اور فضل بن عباس کا سہارا لیکر لوگوں کو نماز پڑھانے کے لئے گھر سے مسجد میں آئے تاکہ ان مفاد پرستوں کے منصوبوںکو ناکام بنا سکیں جنہوں نے خلافت و قیادت کو غصب کرنے کے لئے سازش کی تھی، اس مقصد میں کامیابی ہی کے لئے ان لوگوں نے بھی نہایت ہی ہوشیاری سے رسولۖ کے حکم سے روگردانی کی تھی جب رسولۖ نے انہیں لشکرِ اسامہ کے ساتھ جانے کا حکم دیا تھا۔ نماز پڑھانے کے بعد رسولۖ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
''ایّھا النّاس سعرت النّار و اقبلت الفتن کقطع الّلیل المظلم، و انّی و اللّٰہ ما تمسکون علی بشیء انی لم احل الا ما احل اللہ ولم احرم الا ما حرم اللّٰہ''(١)
اے لوگو! فتنہ کی آگ بھڑک اٹھی ہے اور وہ کالی رات کے ٹکڑوں کی طرح بڑھے چلے آ رہے ہیں۔
میں نے اسی چیز کو حلال قرار دیا ہے جس کو خدا نے حلال کیا ہے اور میں نے اسی چیز کو حرام قرار دیا ہے جس کو خدا نے حرام قرار دیا ہے۔
یہ آپۖ کی طرف سے ایک اور تنبیہ تھی کہ یہ لوگ آپۖ کے حکم کی نافرمانی نہ کریں اگر چہ ان کی نیتوں سے یہ
..............
١۔ سیرت نبویہ ج٢ ص٩٥٤، طبقات الکبریٰ ج٢ ص ٢١٥۔
بات آشکار تھی کہ یہ لوگ امت اسلامیہ کو مصائب میں مبتلا کریں گے خصوصاًجب جاہل افراداس کے سربراہ و خلیفہ بن جائیں گے۔
رسولۖ کے مرض میں شدت پیدا ہو گئی، صحابہ بھی آپۖ کے گھر میں جمع ہو گئے انہیں لوگوں میں وہ اشخاص بھی شامل ہو گئے جنہوںنے لشکر اسامہ سے روگردانی کی تھی۔ آنحضرت ۖ نے انہیں لعنت و ملامت کی تو انہوںنے کھوکھلے قسم کے عذر بیان کئے، اس موقعہ پر رسولۖ نے امت کو ہلاکت و تباہی سے بچانے کے لئے دوسرے طریقہ سے کوشش کی فرمایا:
''ایتونی بدواة و صحیفة اکتب لکم کتاباً لا تضلون بعدہ''۔
مجھے کاغذ و دوات دیدو تاکہ میں تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھ دوں جس سے تم گمراہ نہ ہو۔
عمربن خطاب نے کہا: رسولۖ پر مرض کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن مجید ہے ، ہمارے لئے خدا کی کتاب کافی ہے ۔(١) اس طرح اختلاف و جھگڑا ہو گیا، پردہ کے پیچھے سے رسولۖ کی ازواج نے کہا: اللہ کا رسولۖ جو مانگ رہا ہے وہ انہیں دیدو، اس پر عمر نے کہا: چپ ہو جائو تمہاری مثال حضرت یوسف کی بیویوںکی سی ہے جب وہ بیمار ہوتے ہیں تو تم آنسو بہاتی ہوں اور جب صحت یاب ہو جاتے تو تم ان کے سر چڑھ جاتی ہو۔ رسولۖ نے فرمایا: وہ تم سے بہتر ہیں۔(٢)
پھر فرمایا: ''قوموا عنی لا ینبغی عندی التنازع'' میرے پاس سے اٹھ جائو میرے سامنے جھگڑا کرنا مناسب نہیںہے ۔
رسول ۖ کے اس نوشتہ کی امت کو شدید ضرورت تھی چنانچہ جب ابن عباس اس واقعہ کو یاد کر لیتے تھے تو افسوس کے ساتھ کہتے تھے: سب سے بڑا المیہ اور مصیبت یہ ہے کہ اللہ کے رسول ۖ کو نوشتہ نہیں لکھنے دیا گیا۔(٣)
..............
١۔ صحیح بخاری کتاب العلم باب کتابة العلم و کتاب الجہاد، باب جوائز الوفد۔
٢۔ طبقات الکبریٰ ج٢ ص ٢٤٤، کنز العمال ج٣ ص١٣٨۔
٣۔ صحیح بخاری کتاب العلم ج١ ص٢٢ و ج٢ ص ١٤، الملل و النحل ج٢ ص ٢٢، طبقات الکبریٰ ج٢ ص ٢٤٤۔
جب آپ کے پاس صحابہ میںاختلاف ہو گیا تو آپۖ نے نوشتہ لکھنے پر اصرار نہیں کیا، پھر یہ بھی خوف تھا کہ اس کے بعد ان کی سرکشی اور بڑھ جائیگی اور اس کا نتیجہ اس سے زیادہ خطرناک ہوگا۔ رسولۖ نے ان کی نیتوں کو سمجھ لیا تھا چنانچہ جب صحابہ نے قلم و دوات کی بات دہرائی تو اپۖ نے فرمایا: ''ابعد الذی قلتم'' کیا تمہاری گستاخی کے بعد بھی(١)پھر آپ نے انہیں تین وصیتیں فرمائیں لیکن تاریخ کی کتابوںمیں ان میں سے دو ہی نقل ہوئی ہیں وہ یہ ہیںکہ مشرکین کو جزیرہ نما عرب سے نکال دیا جائے اور وفود بھیجے جائیں جیسا کہ آپ بھیجتے تھے۔
علامہ سید محسن امین عاملی نے اس پر اس طرح حاشیہ لگایا ہے : جوشخص بھی غور کرے گا وہ اس بات کو بخوبی سمجھ لے گا کہ محدثین نے اسے جان بوجھ کر بیان نہیں کیا ہے ، فراموشی کی وجہ سے نہیں چھوڑا ہے ۔ سیاست نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اسے بیان نہ کریں وہ وصیت یہ تھی کہ رسولۖ نے ان سے دوات و کاغذ طلب کیا تھا تاکہ ان کے لئے ایک نوشتہ لکھ دیں۔(٢)

٢۔ فاطمہ زہرا باپ کی خدمت میں
رنجیدہ اور غم سے نڈھال فاطمہ زہرا آئیں، اپنے والد کو حسرت سے دیکھنے لگیںکہ وہ عنقریب اپنے رب سے جا ملیں گے، دل شکستہ حال میں باپ کے پاس بیٹھ گئیں، آنکھیں اشکبار ہیں اور زبان پر یہ شعر ہے :
و ابیض یستسقی الغمام بوجہہ + ثمال الیتامیٰ عصمة الارامل
نورانی چہرہ جس کے وسیلہ سے بارش طلب کی جاتی ہے ۔ وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیوہ عورتوں کا نگہبان ہے ۔
اسی وقت رسولۖ نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور آہستہ سے فرمایا: بیٹی یہ تمہارے چچا ابو طالب کا شعر ہے ، اس وقت یہ نہ پڑھو بلکہ یہ آیت پڑھو:
..............
١۔ بحار الانوار ص ٤٦٩ ج٢٢۔
٢۔اعیان الشیعة ج١ ص ٢٩٤، صحیح بخاری باب مرض النبی ۖ۔
(وما محمّد الّا رسول ۖ قد خلت من قبلہ الرّسل افان مات او قتل انقلبتم علیٰ اعقابکم و من ینقلب علیٰ عقبیہ فلن یضر اللّہ شیئا و سیجزی اللّہ الشاکرین)۔ (١)
اور محمدۖ توبس رسولۖ ہیں ان سے پہلے بہت سے رسولۖ گزر چکے ہیں پھر اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دئیے جائیں تو کیا تم الٹے پیروں پلٹ جائو گے؟ یاد رکھو جو بھی ایسا کرے گا تو وہ خدا کو نقصان نہیں پہنچائے گا اور خدا شکر گذاروںکو عنقریب جزا دے گا۔
اس طرح رسولۖ اپنی بیٹی فاطمہ ۖ کو ان افسوسناک حوادث کے لئے تیار کرنا چاہتے تھے جو عنقریب رونما ہونے والے تھے یقینا یہ چیز حضرت ابو طالب کے قول سے زیادہ بہتر تھی۔
اس کے بعد نبی ۖ کریم نے اپنی بیٹی کو قریب آنے کا اشارہ کیا تاکہ آپۖ سے کچھ گفتگو کریں، فاطمہ ۖ زہرا جھک کر سننے لگیں، آنحضرت ۖ نے ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ رونے لگیں، پھر آپۖ نے ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ مسکرانے لگیں، صورت حال سے بعض حاضرین کے اندر تجسس پیدا ہو گیا، انہوںنے فاطمہ زہرا سے دریافت کیا آپۖ کے رونے اور پھر مسکرانے کا کیا راز ہے ؟ آپۖ نے فرمایا؛ میں رسولۖ کے راز کو افشا نہیں کروںگی۔
لیکن جب رسولۖکی وفات کے بعد آپ سے دریافت کیا گیا تو فرمایا:''اخبرنی رسول اللّہ ۖ انّہ قد حضر اجلہ و انہ یقبض فی وجعہ ھذا فبکیت ثم اخبرنی انّی اوّل اھلہ لحوقاً بہ فضحکت''۔(٢)
مجھے رسولۖ نے یہ خبر دی تھی کہ ان کی وفات کا وقت قریب ہے اور اسی مرض میں آپ ۖ دنیا سے اٹھ جائیں
..............
١۔ آل عمران: ١٤٤۔
٢۔ طبقات الکبریٰ ج٢ ص ٢٤٧، تاریخ کامل ج٢ ص ٢١٩۔
گے تویہ سن کر میں رونے لگی پھر مجھے یہ خبر دی کہ ان کے اہل بیت میں سب سے پہلے میں ان سے ملحق ہوںگی تو میں مسکرائی۔

٣۔رسولۖ کے آخری لمحاتِ حیات
علی رسول ۖ کے ساتھ ایسے ہی رہتے تھے جیسے ایک انسان کے ساتھ سایہ رہتا ہے ، زندگی کے آخری لمحات میں بھی آپ ان کے ساتھ ہی تھے آنحضرت ۖ انہیں تعلیم دیتے اپنا راز بتاتے اور وصیت کرتے تھے۔ آخری وقت میں رسولۖ نے فرمایا: میرے بھای کو میرے پاس بلائو، علی کو رسولۖ نے کہیں کام سے بھیجا تھا، بعض مسلمان آپۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن رسولۖ نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی کچھ دیر بعد علی بھی آ گئے تو رسولۖ نے فرمایا: مجھ سے قریب ہو جائو، علی آپۖ سے قریب ہو گئے آنحضرت ۖ علی کے سہارے بیٹھ گئے اور ان سے باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ آپۖ پر احتضار کے آثار ظاہر ہو گئے اور رسولۖنے حضرت علی کی گود میں وفات پائی، اس بات کو خود حضرت علی نے اپنے ایک مشہور خطبہ میں بیان فرمایا ہے ۔(١)

٤۔ وفات ودفن رسولۖ
آخری وقت میں رسولۖ کے پاس علی ابن ابیطالب ، بنی ہاشم اور ازواج کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا، آپۖ کے فراق میں آپۖ کے گھر سے بلند ہونے والی آہ و بکا کی آواز سے آپۖ کی وفات کی خبر سب کو ہو گئی تھی ، سرور کائنات ۖکے غم میں دل پاش پاش تھے، دیکھتے ہی دیکھتے مدینہ بھر میں آپ کی وفات کی خبر پھیل گئی۔ سبھی پر غم و الم کی کیفیت طاری تھی اگرچہ رسولۖ نے اس حادثہ کے لئے انہیں آمادہ کر دیا تھا اور متعدد بار اپنے انتقال کی خبر دے چکے تھے اور امت کو یہ وصیت کر چکے تھے کہ وہ آپۖ کے بعد آپۖ کے خلیفہ علی بن ابی طالب کی اطاعت کرے۔ یقینا آپۖ کی وفات ایک بہت بڑاسانحہ تھا جس سے مسلمانوں کے دل دہل گئے تھے مدینہ پر ایک اضطرابی کیفیت طاری تھی، رسولۖ کے گھر کے اطراف میں جمع افراد عمر بن خطاب کی بات
..............
١۔ نہج البلاغہ خطبہ ١٩٧۔
سے حیرت زدہ تھے وہ تلوار سے لوگوں کو ڈراتے ہوئے کہہ رہے تھے: منافقین میں سے بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ اللہ کا رسولۖ مر گیا۔ خدا کی قسم! وہ مرے نہیں ہیں ہاں وہ موسیٰ بن عمران کی طرح اپنے رب کے پاس چلے گئے ہیں۔ (١)
اگر چہ موسیٰ کی غیبت اور محمدۖ کی وفات میں کوئی مماثلت نہیں ہے لیکن اس مماثلت و مشابہت پر عمر کے اصرار سے خود ان کے کردار سے پردہ ہٹتا ہے ۔
عمر آرام سے نہیں بیٹھے یہاں تک کہ ابوبکر آئے اور رسولۖ کے گھر میں داخل ہو ئے اور رسولۖ کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور تیزی سے باہر نکلے اورکہنے لگے: اے لوگو! سنو جو محمد کی پرستش کرتا ہے وہ جان لے کہ محمد مر گئے اور جو خدا کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ اللہ زندہ ہے اسے موت نہیں آئیگی۔ پھر یہ آیت پڑھی:(وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل) اس سے عمر کا سارا جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ گویا وہ اس طرف متوجہ ہی نہیں تھے کہ قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت ہے ؟ (٢)
اس کے بعد ابو بکر اور عمر بن خطاب اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ سقیفہ بنی ساعدہ گئے انہیں یہ خبر ملی تھی کہ سقیفہ میں ایک ہنگامی جلسہ ہو رہا ہے جس میں رسولۖ کی وفات کے بعد خلافت کا مسئلہ حل کیا جائیگا۔ یہ لوگ حضرت علی بن ابی طالب کا منصوب ہونا بھول گئے اور یہ بھی بھول گئے کہ انہوںنے خلیفہ کے عنوان سے علی کی بیعت کی تھی ، ان لوگوںنے یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کے اس عمل کو رسولۖ کے جنازہ کی بے حرمتی تصور کیا جائے گا۔
علی بن ابی طالب اور آپۖ کے اہل بیت رسولۖ کے جنازہ کی تجہیز و تدفین کے امور میں مشغول تھے، علی نے آپۖ کی قمیص اتارے بغیر غسل دیا، عباس بن عبد المطلب اور ان کے بیٹے فضل نے مدد کی ، غسل دیتے وقت علی فرماتے تھے:''بابی انت و امی ما اطیبک حیاً و میتاً''(٣) میرے ماں باپ آپ پر قربان
..............
١۔تاریخ کامل ج ٢ ص ٣٢٣، طبقات الکبریٰ ج٢ ص ٢٦٦، سیرت نبویہ، زینی دحلان ، ج٢ ص ٣٠٦۔
٢۔ طبقات الکبریٰ ج٢ ص٥٣ و ٥٦۔
٣۔ سیرت نبویہ ، ابن کثیر ج٤ ص ٥١٨۔
آپ زندگی میں بھی پاکیزہ تھے اور مرنے کے بعد بھی طیب و طاہر ہیں۔
پھر آپۖ کے جسد اقدس کو ایک تخت پر لٹا دیا ۔ علی نے فرمایا: '' ان رسول اللہ ۖ امامنا حیاً و میتاً فلید خل علیہ فوج بعد فوج فیصلون علیہ بغیر امام و ینصرفون''۔
بے شک اللہ کا رسولۖ زندگی میں بھی ہمارا امام ہے اور مرنے کے بعد بھی لہذا دستہ دستہ بغیر امام کے نماز جناہ پڑھیںاور لوٹ جائیں، چنانچہ سب سے پہلے آپۖ کی نماز جنازہ حضرت علی اور بنی ہاشم نے پڑھی اور ان کے بعد انصار نے پڑھی۔(١)
اس کے بعد علی رسولۖ کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا:''سلام علیک ایھا النبی ورحمة اللّہ و برکاتہ، الّلھم انّا نشھد ان قد بلغ ما انزل الیہ و نصح لامتہ و جاہد فی سبیل اللّہ حتّی اعز اللّہ دینہ و تمت کلمتہ الّلھم فاجعلنا ممن یتبع ما انزل اللّہ الیہ و ثبتنا بعدہ و اجمع بیننا و بینہ''۔
سلام اور خدا کی رحمت و برکات ہوں آپۖ پر اے نبی ۖ ، اے اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ انہوںنے ہر اس چیز کی تبلیغ کی جو تونے ان پر نازل کی ، اپنی امت کو نصیحت کی اور راہِ خدا میں جہاد کیا یہاں تک کہ خدا نے اپنے دین کو عزت بخشی اور اس کی بات پوری ہو گئی۔ اے اللہ ہمیں ان لوگوں میں قرار دے جو ان چیزوں کا اتباع کرتے ہیں جو تونے ان ۖ پر نازل کی ہیں اور ان کے بعد ہمیں ثابت قدم رکھ ہمیں اور انہیں یکجا کر دے۔ اس پر لوگوں نے آمین کہا۔ پھر دوسرے مردوںنے ان کے بعد عورتوں نے اور سب کے بعد لڑکوںنے آپۖ کے جنازہ پر نماز پڑھی۔(٢)
آپۖ کی قبر اسی حجرہ میں تیار کی گئی جس میں آپۖ نے وفات پائی تھی۔ جب حضرت علی نے آپ ۖ کو قبر
..............
١۔ ارشاد ج١ ص ١٨٧، اعیان الشیعة ج١ ص ٢٩٥۔
٢۔ طبقات الکبریٰ ج٢ ص ٢٩١۔
میںاتارنا چاہا تو دیوار کے پیچھے سے انصار نے ندا دی۔ اے علی ! ہم آپ کو خدا کا واسطہ دیتے ہیں رسولۖ کے بارے میں ہمارا جو حق ہے آج وہ حق ہاتھ سے جا رہا ہے اس کام میں ہم میں سے بھی کسی کو شریک کر لیجئے تاکہ رسولۖ کے امور دفن میں ہم بھی شریک ہو جائیں حضرت علی نے فرمایا: اوس بن خولی شریک ہو جائیں یہ بنی عوف سے تھے اور بدری تھے۔
علی قبر میں اترے ، رسولۖ کے چہرہ کو کھولا، آپۖکے رخسار کو خاک پر رکھا اور قبر کو بند کر دیا۔رسولۖ کے دفن اور نمازِ جنازہ میں وہ صحابہ شریک نہیں ہوئے جو سقیفہ چلے گئے تھے۔
اے اللہ کے رسولۖ ! آپ پر سلام ہو جس دن آپۖ پیدا ہوئے ، جس دن وفات پائی اور جس دن زندہ اٹھائے جائیں گے۔