منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خدا)
 

پانچواں باب
پہلی فصل
فتح کا مرحلہ
دوسری فصل
اسلام کی تبلیغ جزیرة العرب سے باہر
تیسری فصل
جزیرة العرب سے بت پرستی کا خاتمہ
چوتھی فصل
حیات رسولۖ کے آخری ایام
پانچویں فصل
اسلامی رسالت کے آثار
چھٹی فصل
خاتم الانبیاء ۖ کی میراث


پہلی فصل
فتح کا مرحلہ
١۔ صلح حدیبیہ
ہجرت کا چھٹا سال ختم ہونے والا ہے ۔ مسلمانوںکا یہ سال مسلسل جہاد اور دفاع میں گذرا ہے ، مسلمانوں نے اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت ، انسان سازی ، اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور اسلامی تہذیب کی داغ بیل ڈالنے کے لئے بہت جانفشانی کی ہے ۔ جزیرة العرب کا ہر شخص اس دین کی عظمت سے واقف ہو گیا ہے اور یہ جانتاہے کہ اسے مٹانا آسان کام نہیں ہے ۔سیاسی و فوجی اعتبار سے قریش جیسی عظیم طاقت-یہود اور دوسرے مشرکین سے جنگ میں الجھنا بھی اسلام کی نشر و اشاعت اوراس کے مقاصد میں کامیابی کو نہیں روک سکا ۔
خانۂ کعبہ کسی ایک کی ملکیت نہیں تھا اور نہ کسی مذہب سے مخصوص تھا نہ خاص عقیدہ رکھنے والوں سے متعلق تھا ہاں اس میں کچھ بت و صنم رکھے ہوئے تھے ان کے ماننے والے ان کی زیارت کرتے تھے۔ مگر قریش کے سر کشوںکو یہ ضد تھی کہ رسول اور مسلمانوں کو حج نہیں کرنے دیں گے ۔
اس زمانہ میں رسولۖ نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اسلام کے خلاف قریش کا جو موقف تھا اب اس میں پہلی سی شدت نہیں رہی ہے لہذا آپۖ نے مسلمانوں کے ساتھ عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تاکہ عمرہ کے دوران اسلام کی طرف دعوت دی جا ئے ، اسلامی عقائد کی وضاحت کی جا ئے اور یہ ثابت کیا جائے کہ اسلام خانۂ کعبہ کو مقدس و محترم سمجھتا ہے ۔ اس مرحلہ میںرسولۖ دفاعی صورت سے نکل کر حملہ و ہجوم کی صورت میں آنا چاہتے تھے۔
رسولۖ اور آپۖ کے اصحاب نے دشوار راستہ سے سفر کیا۔ پھر حدیبیہ نامی ہموار زمین پر پہنچے تو رسولۖ کاناقہ بیٹھ گیا آپۖ نے فرمایا: ''ماھذا لھا عادة ولکن حبسھا حابس الفیل بمکة''۔(١)اس کی یہ عادت نہیں ہے لیکن اسے اسی ذات نے بٹھایا ہے جس نے مکہ سے ہاتھی کو روکا تھا۔ پھر آپۖ نے مسلمانوں کو سواریوں سے اترنے کا حکم دیا اور فرمایا:''لاتدعونی قریش الیوم الیٰ خطة یسالوننی فیھا صلة الرحم الا اعطیھم ایاھا''۔(٢)
اگر آج قریش مجھ سے صلہ رحمی کا سوال کریں گے تو میں اسے ضرور پورا کر دوںگا۔ مگر قریش مسلمانوںکی گھات ہی میںرہے اوران کے سواروںنے مسلمانوں کا راستہ روک دیا اس کے بعد قبیلۂ خزاعہ کے کچھ افراد پر مشتمل ایک وفد رسولۖ کی خدمت میں روانہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ نبیۖ کی آمد کا مقصد کیا ہے اس وفد کی سربراہی بدیل بن ورقاء کر رہا تھاان لوگوں کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکیں۔ یہ وفد واپس آیا اور قریش کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ نبی ۖ کا مقصد خیر سگالی اور عمرہ بجالانا ہے لیکن قریش نے اس کی بات پر کان نہ دھرے بلکہ حلیس کی سرکردگی میں ایک اور وفد روانہ کیا۔ جب رسولۖ نے اس وفد کو آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: یہ خدا پرست قوم سے تعلق رکھتا ہے ، چنانچہ حلیس قربانی کے اونٹوں کو دیکھتے ہی رسولۖ سے ملاقات کئے بغیر واپس چلا گیا تاکہ قریش کو اس بات سے مطمئن کر ے کہ رسولۖ اور مسلمان عمرہ کرنے آئے ہیں۔ مگر قریش ان کی بات سے بھی مطمئن نہ ہوئے اور مسعود بن عروہ ثقفی کو بھیجا اس نے دیکھا کہ مسلمان رسولۖ کے وضو کے پانی کا قطرہ بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے بلکہ اسے حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت کر رہے ہیں وہ قریش کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے قریش کے لوگو! میں نے کسریٰ کو اس کے ملک(ایران)میں اور قیصر کو اس کے ملک(روم)میں اور نجاشی کو اس کے ملک حبشہ میں دیکھا ہے خدا کی قسم !میں نے کسی بادشاہ کو اپنی قوم میں اتنا معزز نہیں پایا جتنے معزز اپنے اصحاب میں محمد ہیں، میں نے ان کے پاس ایسے لوگ دیکھے ہیں جو کسی بھی طرح ان سے جدا نہیں
..............
١۔بحار الانوار ج٢٠ص ٢٢٩ ۔
٢۔طبری ج٣ ص ٢١٦۔
ہونگے۔ اب تم غور کرو۔ (١)
رسولۖ نے حرمت کے مہینوں کے احترام میںمسلمانوں سے یہ فرمایا تھا کہ اپنے اس عبادی سفر میں اپنے ساتھ اسلحہ نہ لے جانا ہاںمسافر جیسا اسلحہ اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو۔ اسی طرح مدینہ کے آس پاس بسنے والے قبائل سے یہ فرمایا: اس سفر میں تم بھی مسلمانوں کے ساتھ چلو، حالانکہ وہ مسلمان نہیں تھے، تاکہ دنیا کو یہ بتا دیں کہ دوسری طاقتوں سے اسلام کے روابط جنگ کی بنیاد پر ہی استوار نہیں ہیں۔
رسولۖ نے -کم سے کم-چودہ سو مسلمان سپاہی جمع کئے اور قربانی کیلئے ستر اونٹ بھیجے۔ قریش کو بھی یہ خبر ہو گئی کہ رسولۖ اور مسلمان عمرہ کی غرض سے روانہ ہو چکے ہیں، اس سے قریش میں بے چینی بڑھ گئی۔ ان کے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت دیدیں ، کہ اس سے مسلمانوں کی آرزو پوری ہو جائیگی وہ خانہ ٔ کعبہ کی زیارت کر لیں گے اور وہ اپنے خاندان والوں سے ملاقات کر لیں گے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں گے۔ یا قریش مسلمانوں کومکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں، لیکن اس سے قریش کی وضعداری کو دھچکا لگے گا اور دوسری قومیں انہیں اس بات پر ملامت کریں گی کہ تم نے ان لوگوں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کیا جو مناسک عمرہ بجالانا اور کعبہ کی تعظیم کرنا چاہتے تھے۔
قریش نے سرکشی اور مخاصمت کا راستہ اختیار کیا، رسولۖ اور مسلمانوں سے مقابلہ کے لئے خالد بن ولید کی سرکردگی میں دو سو سواربھیجے جبکہ رسولۖ احرام کی حالت میں نکلے تھے نہ کہ جنگ کرنے کی غرض سے اس صورت حال کو دیکھ کر آنحضرت ۖ نے فرمایا:
''یا ویح قریش لقد اکلتھم الحرب ماذا علیھم لو خلوا بینی و بین العرب فان ھم اصابونی کان الذی ارادوا و ان اظھرنی اللہ علیہم دخلوا فی الاسلام وافرین وان لم یفعلوا قاتلوا بھم قوة فما تظن قریش؟ فواللہ لا ازال اجاہد علیٰ الذی بعثنی اللّٰہ بہ حتی یظھرہ اللّٰہ او تنفرد ھذہ السالفة۔''
..............
١۔ مغازی ج٢ ص ٥٩٨۔
افسوس ہے قریش کے اوپر کہ جنگ نے انہیں تباہ کر دیا، اگر وہ مجھے دوسرے اعراب کے درمیان چھوڑ دیتے اور وہ مجھ پر کامیاب ہو جاتے تو ان کا مقصد پورا ہو جاتا اوراگر میں ان پر فتحیاب ہوتا تو یا وہ اسلام قبول کرتے یا اپنی محفوظ طاقت کے ساتھ مجھ سے جنگ کرتے لیکن نہ جانے قریش کیا سمجھے ہیں؟ خدا کی قسم میں اس اسلام کے لئے ہمیشہ جنگ کرتارہونگا جس کے لئے خدا نے مجھے بھیجا ہے یہاں تک کہ خدا مجھے کامیاب کرے ، میں اس راہ میں اپنی جان دے دوں۔
پھر آپۖ نے جنگ سے احتراز کرتے ہوئے قریش کے سواروں سے بچ کر نکلنے کا حکم دیا۔ اس راستہ پر چلنے سے قریش کے سواروں کے ہاتھ ایک بہانہ آجاتا۔ اس کے بعد رسولۖ نے خراش بن امیہ خزاعی کو قریش سے گفتگو کے لئے روانہ کیا لیکن قریش نے ان کے اونٹ کو پے کر دیا قریب تھا کہ انہیں قتل کر دیتے، قریش نے کسی رواداری اور امان کا لحاظ نہیں کیا۔ کچھ دیر نہ گذری تھی کہ قریش نے پچاس آدمیوں پر یہ ذمہ داری عائد کر دی کہ تم مسلمانوں کے اطراف میں گردش کرتے رہو اور ممکن ہو تو ان میں سے کچھ لوگوں کو گرفتار کرلو، حالانکہ یہ چیز صلح کے منافی تھی اس کے باوجود ان کا وہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوا۔ اس کے بر عکس مسلمانوں نے انہیں گرفتار کر لیا،لیکن رسولۖ نے انہیں معاف کر دیا اور اپنی صلح پسندی کو ظاہر و ثابت کر دیا۔(١)
آنحضرت ۖ نے سوچا کہ قریش کے پاس دوسرا نمائندہ بھیجا جائے، حضرت علی بن ابی طالب کو نمائندہ بنا کر نہیں بھیج سکتے تھے کیونکہ اسلام سے دفاع کے سلسلہ میں ہونے والی جنگوں میں علی نے عرب کے سورمائوں کو قتل کیا تھالہذا اس مہم کو سر کرنے کے لئے عمر بن خطاب سے فرمایا لیکن انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ قریش انہیں قتل کر دیں گے حالانکہ عمر نے قریش میں سے کسی ایک آدمی کو بھی قتل نہیں کیا تھا پھر بھی انہوں نے رسولۖ سے یہ درخواست کی کہ عثمان بن عفان کو بھیج دیجئے (٢) کیونکہ وہ اموی ہیں اور ابو سفیان سے ان کی قرابت بھی ہے ۔ عثمان نے لوٹنے میں تاخیر کی تو یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں قتل کر دیا گیا۔ اس سے مکہ میں داخل ہونے
..............
١۔ تاریخ طبری ج٣ ص ٢٢٣ ۔
٢۔ سیرت نبیویہ ج٢ ص ٣١٥۔
کی جو مصالحت آمیز کوششیں ہوئی تھیں وہ سب ناکام ہو گئیں۔ رسولۖ نے دیکھا کہ جنگ کی تیاری بھی نہیں ہے اسی موقعہ پر بیعت رضوان ہوئی ، آنحضرت ۖ ایک درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے اور اصحاب نے اس بات پر آپۖ کی بیعت کی کہ جو بھی ہوگا ہم ثابت قدمی و استقامت سے کام لیں گے۔ عثمان کے واپس آنے سے مسلمانوں کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور قریش نے رسولۖ سے گفتگو کے لئے سہیل بن عمرو کو بھیجا۔

صلح کے شرائط
صلح کے شرائط کے سلسلہ میں سہیل چونکہ سخت تھا اس لئے قریب تھا کہ مذاکرات ناکام ہو جائیں مگرآخر میں درج ذیل شرائط صلح پر فریقین متفق ہو گئے:
١۔ فریقین عہد کرتے ہیں کہ دس سال تک جنگ نہیں ہوگی، اس عرصہ میں لوگ امان میں رہیں گے اور کوئی کسی پر حملہ نہیں کرے گا۔
٢۔ اگر قریش میں سے کوئی شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر محمدۖ کے پاس آئیگا تو اسے واپس لوٹایا جائیگا لیکن اگر کوئی شخص محمد ۖ کی طرف سے قریش کے پاس آئیگا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔
٣۔ جو شخص محمد کے معاہدہ میں شامل ہونا چاہے وہ اس میں شامل ہو سکتا ہے اور جو قریش کے معاہدہ میں داخل ہونا چاہئے وہ اس میں داخل ہو سکتا ہے ۔
٤۔ اس سال محمد اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ واپس جائیں گے مکہ میں داخل نہیں ہونگے ہاں آئندہ سال مکہ میں داخل ہونگے اور تین دن تک قیام کریں گے ،اس وقت ان کے پاس صرف مسافر کا اسلحہ تلوار ہوگی کو بھی نیام میں رکھیں گے۔(١)
٥۔ کسی پر یہ دبائو نہیں ڈالا جائیگا کہ وہ اپنا دین چھوڑ دے اور مسلمان مکہ میں آزادی کے ساتھ علی الاعلان خدا کی عبادت کریں گے، مکہ میں اسلام ظاہر و آشکار ہوگا نہ کوئی کسی کو اذیت دے گا اور نہ برا کہے گا۔(٢)
..............
١۔سیرت حلبیہ ج٣ ص٢١۔
٢۔بحار الانوارج٢٠ص٣٥٢۔
٦۔چوری اور خیانت کا ارتکاب نہیں کیا جائیگا بلکہ فریقین میں سے ہر ایک دوسرے کے اموال کو محترم سمجھے گا۔(١)
٧۔قریش محمدۖ اور ان کے اصحاب پر کوئی پابندی عائد نہیں کریں گے۔(٢)
بعض مسلمان صلح کے شرائط سے راضی نہیں ہوئے چنانچہ انہوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ نبی ۖ قریش سے ڈرگئے ہیں آپۖ پر اعتراض کیا وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ نبی ۖ خدا کی طرف سے خیر پر ہیں اور اسی رسالت اور اس کے عظیم فوائد کو مستقبل سے آگاہ نظر سے دیکھتے ہیں رسولۖ نے ان کی بات کو رد کرتے ہوئے فرمایا:''انا عبد اللّٰہ و رسولہ لن اخالف امرہ و لن یضیعنی'' میں خدا کا بندہ اور اس کا رسولۖ ہوں میں اس کے حکم کے خلاف نہیں کرونگا اور وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا۔ رسولۖ نے انہیں شرائط کو برقرار رکھا جو مسلمانوں کو پسند نہیں تھے۔ ابو جندل کو قریش کے حوالے کرنے سے(٣) کشیدگی پیدا ہو گئی، بعض تونفسیاتی الجھن میں مبتلا ہو گئے۔
لیکن یہ صلح ،ان لوگوں کے نظریہ کے بر خلاف جو صلح کے شرائط کا دوسرا مفہوم سمجھ رہے تھے، مسلمانوں کے لئے کھلی اور عظیم فتح تھی کیونکہ صلح کے شرائط تھوڑی ہی مدت کے بعد مسلمانوں کے حق میں ہو گئے تھے ۔
جب آپۖ مدینہ واپس آ رہے تھے اس وقت قرآن مجید کی کچھ آیتیں نازل ہوئیں (٤) جن سے بت پرستوں کے سردار سے کی گئی صلح کے حقیقی پہلو آشکار ہوئے اور مستقبلِ قریب میں مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے کی بشارت دی گئی تھی۔
..............
١۔مجمع البیان ج٩ ص ١١٧۔
٢۔ بحار الانوار ج٢٠ ص ٣٥٢۔
٣۔ سیرت حلبیہ ج٣ ص ٢١، سیرت نبویہ ج٢ ص ٢٥٢۔
٤۔ فتح ١،١٨،٢٨۔
صلح کے نتائج
١۔ قریش نے مسلمانوں کے نظام کو ایک فوجی ، منظم سیاسی اور نئی حکومت کے عنوان سے تسلیم کر لیا۔
٢۔ مشرکوں اور منافقوں کے دل میں رعب بیٹھ گیا، ان کی طاقت گھٹ گئی اور ان میں مقابلہ کی طاقت نہ رہی۔
٣۔صلح و آرام کے اس زمانہ میں اسلام کی نشر و اشاعت کی فرصت ملی جس کے نتیجہ میں بہت سے قبیلے اسلام میں داخل ہو گئے؛ رسولۖ کی اسلامی رسالت کے آغاز ہی سے یہ آرزو تھی کہ قریش آپ کو اتنی مہلت و فرصت دیدیں کہ جسمیں آپۖ آزادی کے ساتھ اپنا راستہ طے کر سکیں اور اطمینان کے ساتھ آپ لوگوں کے سامنے اسلام کی وضاحت کر سکیں۔
٤۔ مسلمانوںکو قریش کی طرف سے سکون مل گیا تو یہودیوں اور دوسرے دشمنوں سے مقابلہ کے لئے ہمہ تن تیار ہوئے۔
٥۔قریش سے صلح کے بعد ان کے حلیفوں کے لئے یہ آسان ہو گیا کہ وہ مسلمانوں کے موقف کو سمجھیں اور ان کے پاس آئیں۔
٦۔ صلح ہو جانے سے نبیۖ کو یہ موقع ملا کہ آپۖدیگر ممالک کے بادشاہوں اورسربراہوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور غزوہ موتہ کی تیاری کریں تاکہ جزیرةالعرب سے باہر اسلام کا پیغام پہنچایا جائے۔
٧۔ صلح کی وجہ سے آنے والے مرحلے میں فتحِ مکہ کا راستہ ہموار ہو گیا ،مکہ اس زمانہ میں بت پرستی کا اڈہ تھا۔

٢۔اسلامی رسالت کی توسیع
زمانہ ٔماضی میں قریش اسلام کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے یہی وجہ تھی کہ رسولۖ اور مسلمان دفاعی جنگوں، اپنی حفاظت اور اسلامی حکومت اور اس کے معاشرہ کی تشکیل میں چند سال تک مشغول رہے ۔ اس عہد میں آپ ۖ اپنی آسمانی عالمی اور تمام ادیان کو ختم کرنے والی رسالت کی آزادی کے ساتھ تبلیغ نہ کر سکے تھے لیکن صلح حدیبیہ کے صلح نامہ پر دستخط ہو جانے کے بعد رسولۖ قریش کی طرف سے مطمئن ہو گئے اور اس صلح سے رسولۖ کو یہ موقع مل گیا کہ آپۖ جزیرة العرب کے اطراف میں بسنے والی بڑی طاقتوں اور خطۂ عرب کے سرداروں کے پاس اپنے نمائندے بھیجیں تاکہ وہ ان کے سامنے الٰہی قوانین کو بیان کریں اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں۔
روایت ہے کہ آپۖ نے اپنے اصحاب کے در میان فرمایا:
''ایھا النّاس ان اللّٰہ قد بعثنی رحمة و کافة فلا تختلفوا علّ کما اختلف الحواریون علیٰ عیسیٰ بن مریم''۔
اے لوگو! مجھے خدا نے رحمت بنا کر بھیجا ہے پس مجھ سے اس طرح اختلاف نہ کرو جس طرح حواریوں نے عیسیٰ سے کیا تھا اصحاب نے عرض کی: اے اللہ کے رسولۖ حواریوں نے کس طرح اختلاف کیا تھا؟ فرمایا:
''دعاھم الیٰ الذی دعوتکم الیہ فاَما من بعثہ مبعثا قریباً ترضی و سلّم و اما من بعثہ مبعثا بعیداً فکرہ وجہہ و تثاقل''۔(١)
حضرت عیسیٰ نے انہیں اس چیز کی طرف دعوت دی جس کی طرف میں نے تمہیں دعوت دی ہے جس کو انہوں نے قریب کی ذمہ داری سپرد کی تھی وہ تو خوش ہو گیا اور اس ذمہ داری کوتسلیم کر لیا اور جس کے سپرد دور کی ذمہ داری کی تھی وہ ناخوش رہا اور اسے بوجھ محسوس ہوا۔
ہدایت و دعوت کے نمائندے رسولۖ کے امر کو دنیا کے مختلف گوشوں میں لے گئے۔(٢)
..............
١۔ سیرت نبویہ ج٢ ص ٦٠٦، طبقات الکبریٰ ج١ ص ٢٦٤۔
٢۔اسلام کی دعوت کے سلسلہ میں رسولۖ نے بادشاہوں کو جو خطوط روانہ کئے تھے علماء اسلام نے ان کی تعداد ١٨٥ بیان کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: مکاتیب الرسولۖ، از علی بن حسین احمدی۔

٣۔ جنگ خیبر(١)
اپنی حقیقی جد و جہد، اعلیٰ تجربہ ، بے مثال شجاعت اور تائید الٰہی کے سبب رسولۖ نے مسلمانوں کو آزاد خیالی ، ثبات و نیکی کے بام عروج پر پہنچا دیا، ان کے اندر صبر اور ایک دوسرے سے ربط و ضبط کی روح پھونک دی...اس طرح رسولۖ نے اپنے قرب و جوار کے سرداروں کے پاس خطوط اور نمائندے بھیج کر جزیرة العرب سے باہر بھی لوگوں تک اپنی آسمانی رسالت پہنچا دی۔
رسولۖ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ آپۖ کے اس اقدام کے مختلف رد عمل ہونگے ان میں سے بعض مدینہ میں موجود یہو دو منافقین ، جن کی خیانتوں اور غداریوں سے تاریخ بھری پڑی ہے ،کی مدد سے مدینہ پر فوجی حملے ہوںگے ۔
خیبر یہودیوں کا مضبوط قلعہ اور عظیم مرکز تھا لہذا رسولۖ نے یہ طے کیا کہ اس باقی رہ جانے والے سرطان کا صفایا کر دیا جائے چنانچہ حدیبیہ سے لوٹنے کے کچھ دنوں کے بعد سولہ سو افراد پر مشتمل مسلمانوں کا ایک لشکر تیار کیا اور یہ تاکید فرمائی کہ غنیمت کے لالچ میں ہمارے ساتھ کوئی نہ آئے ۔ فرمایا: ''لا یخرجن معنا الا راغب فی الجہاد''(٢) ہمارے ساتھ وہی آئے جو شوقِ جہاد رکھتا ہو۔
رسولۖ نے کچھ لوگوںکو یہودیوں کے حلیفوں کے پاس بھیجا کہ وہ انہیں ان کی مدد کرنے سے روکیںتاکہ مزید جنگ و خونریزی نہ ہو مسلمانوں نے بہت جلد یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا ۔ علی بن ابی طالب ان میں سب سے پیش پیش تھے آپ ہی کے دست مبارک میں پرچم رسولۖ تھا۔
یہودی اپنے مضبوط قلعوں میں جا چھپے اس کے بعد کچھ معرکے ہوئے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بعض اہم مقامات پر قبضہ کر لیا، لیکن جنگ نے شدت اختیار کر لی اور محاصرہ کا زمانہ طویل ہو گیا۔ مسلمانوں کے سامنے خوراک کا مسئلہ آ گیا اور مسلمان مکروہ چیزیں کھانے کے لئے مجبور ہو گئے۔
..............
١۔ جنگ خیبر ماہ جمادی الاخریٰ ٧ھ میں ہوئی ، ملاحظہ ہو طبقات الکبریٰ ج٢ ص ٧٧۔
٢۔طبقات الکبریٰ ج٢ ص ١٠٦۔
رسولۖ نے بعض صحابہ کو علم دیا کہ انہیں کے ہاتھ پر فتح ہو جائے لیکن وہ میدان سے بھاگ آئے جب مسلمان عاجزآگئے تو رسولۖ نے فرمایا:
''لاعطینّ الرّایة غداً رجلاً یحب اللّہ و رسولہ و یحبہ اللّہ و رسولہ کراراً غیرا فرار لا یرجع حتی یفتح اللّہ علیٰ یدیہ'' (١)
میں کل اس مرد کو علم دونگا جو خد اور رسولۖ سے محبت رکھتا ہے اور خدا و رسولۖ اس سے محبت رکھتے ہیں وہ بڑھ بڑھ کے حملہ کرے گا، میدان سے نہیں بھاگے گا، وہ اسی وقت میدان سے پلٹے گا جب خدا اس کے دونوں ہاتھوں پر فتح عطا کرے گا۔
دوسرے روز رسولۖ نے علی کو بلایا اور آپ کو علم عطا کیا اور آپ ہی کے ہاتھ پر فتح ہوئی ، رسولۖ اور سارے مسلمان خوش ہو گئے اور جب باقی یہودسپر انداختہ ہو گئے تو رسولۖ نے اس بات پر صلح کر لی کہ وہ آپ کو اپنے باغوں اور کھیتوں کا نصف محصول بطور جزیہ دیا کریں گے ظاہر ہے فتح کے بعد وہ باغات اور کھیت رسولۖ کی ملکیت بن گئے تھے۔ خیبر کے یہودیوں کے ساتھ رسولۖ نے بنی نضیر، بنی قینقاع اور بنی قریظہ جیسا سلوک نہیں کیا کیونکہ مدینہ میں یہودیوں کی کوئی خاص حیثیت نہیں رہ گئی تھی ۔

٤۔ آپۖ کے قتل کی کوشش
ایک گروہ نے خفیہ طریقہ سے رسولۖ کے قتل کا منصوبہ بنا لیا تاکہ وہ اپنی دشمنی کی آگ کو بجھائیں اور چھپے ہوئے کینہ کو تسکین دے سکیں لہذا-سلام بن مشکم یہودی کی زوجہ- زینب بنت حارث نے رسولۖ کی خدمت میں بھنی ہوئی بکری ہدیہ کی جس میں اس نے زہر ملا دیا تھااور چونکہ وہ جانتی تھی کہ رسولۖ کو ران کا گوشت پسند تھا لہذا اس میں زیادہ زہر ملایاتھا۔
..............
١۔ سیرت نبویہ ج٢ ص ٣٣٧، صحیح مسلم ج١٥ ص ١٧٦ و ١٧٧، فضائل الصحاب ج٢ ص ٦٠٣، مسند امام احمد ج٣ ص ٣٨٤، مواہب اللّدنیہ ج١ ص ٢٨٣، استیعاب ج٣ ص ٢٠٣، کنز العمال ج١٣ ص ١٢٣۔
آنحضرتۖ کے سامنے یہ بھنی بکری پیش کی گئی اور آپۖ نے اس کی اگلی ران اٹھائی اور ایک بوٹی چبائی لیکن اسے نگلا نہیں، بلکہ تھوک دیا جبکہ بشر بن براء بن معرور بوٹی نگلتے ہی مر گیا۔
یہودی عورت نے اپنے اس جرم کا یہ کہہ کر اعتراف کر لیا کہ میں آپۖ کا امتحان لینا چاہتی تھی کہ آپۖ بنی ہیں یا نہیں رسولۖ نے اسے معاف کر دیا اور جو مرد اس سازش میں شریک تھے ان سے رسولۖ نے کوئی تعرض نہ کیا۔(١)

٥۔ اہل فدک کی خود سپردگی
حق و عدالت کے دبدبے سے خیانت کاری کے مرکز تباہ ہو گئے جب خدا نے رسولۖ کو خیبر میں فتح عطا کی تو اس کے بعد خدانے فدک والوں کے دلوں میںآپ کا رعب پیدا کر دیا چنانچہ انہوںنے رسولۖ کی خدمت میں ایک وفد روانہ کیا تاکہ وہ رسولۖ سے اس بات پر صلح کرے کہ اہل فدک اسلامی حکومت کے زیر سایہ اطاعت کے ساتھ زندگی گزاریں گے اور اس کے عوض وہ فدک کا نصف محصول ادا کیاکریں گے، ان کی پیشکش کو رسولۖ نے قبول کر لیا۔
اس طرح فدک ، قرآن کے حکم کے بموجب خاص رسولۖ کی ملکیت قرار پایا کیونکہ اس سلسلہ میں نہ گھوڑے دوڑائے گئے اور نہ اسلحہ استعمال ہوا بلکہ انہوں نے دھمکی اور جنگ کے بغیرہی اپنی خود سپردگی کا اعلان کیا تھا۔ لہذا رسولۖ نے فدک اپنی بیٹی جناب فاطمہ زہرائۖ کو ہبہ کر دیا۔(٢)
جزیرة العرب کی سر زمین خیانت کاروں کے ٹھکانوں سے پاک ہو گئی اورمسلمانوں کو یہودیوں کے فتنوں سے نجات مل گئی ،یہودیوںنے ہتھیار ڈال دئیے اور اسلامی حکومت و قوانین کے سامنے سر جھکا دیا ۔
جس روز خیبر فتح ہوا اسی دن جناب جعفر بن ابی طالب حبشہ سے واپس آئے تو رسولۖ نے ان کا استقبال کی
..............
١۔ سیرت نبویہ ج٢ ص ٣٣٧، مغازی ج٢ ص ٦٧٧۔
٢۔ مجمع البیان ج٣ ص٤١١، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١٦، ص ٢٦٨، الدرالمنثور ج٤ ص ١٧٧۔
ان کی پیشانی کو چوما اور فرمایا: ''بایھما اسر بفتح خیبر او بقدوم جعفر ''(١)
میں کس چیز کی زیادہ خوشی منائوں، فتح خیبر کی یا جعفر بن ابی طالب کی آمد کی ؟

٦۔ عمرة القض
آرام و سکون کا زمانہ گذرتارہا لیکن رسولۖ اور مسلمان اسلامی حکومت کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی سعیٔ پیہم میں مشغول رہے ، فتحِ خیبر کے بعد تبلیغی یا تادیبی مہموں کے علاوہ کوئی فوجی معرکہ نہیں ہوا۔
صلح حدیبیہ کو ایک سال گذر گیا، طرفین نے جن چیزوں پر اتفاق کیا تھا، ان کے پابند رہے اب وہ وقت آ گیا کہ رسولۖ اور مسلمان خانۂ خد ا کی زیارت کے لئے جائیں۔ لہذا رسولۖ کے منادی نے یہ اعلان کیا کہ مسلمان عمرة القضا کی ادائیگی کے لئے تیاری کریں چنانچہ دو ہزار مسلمان رسولۖ کے ساتھ روانہ ہوئے ان کے پاس تلوارکے علاوہ اور کوئی ہتھیار نہیں تھا ۔ وہ بھی نیام میں تھی لیکن رسولۖ اپنی فراست سے مشرکوں کی غداری کو محسوس کر چکے تھے۔
اس لئے آپۖ نے ایک گروہ کو اس وقت مسلح ہونے کا حکم دیا-جب آپ ظہران سے گذرے-تاکہ یہ گروہ اتفاقی صورت حال سے نمٹنے کے لئے تیار رہے۔
جب رسولۖ ذو الحلیفہ پہنچے تو آپ ۖ نے اور اصحاب نے احرام باندھا۔ آپۖ کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، ایک دستہ آپ نے آگے روانہ کر دیا تھا اس دستہ میں تقریباً سو آدمی تھے جس کی قیادت محمد بن مسلمہ کر رہے تھے ۔ مکہ کے سردار اور ان کے تابع افراد یہ سوچ کر مکہ کے اطراف میں واقع پہاڑوں کی چوٹیوںپر چڑھ گئے کہ وہ نبی ۖ اور ان کے اصحاب کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے ، لیکن رسولۖ کا جلال اور ان مسلمانوں کی ہیبت، جو کہ رسولۖ کو اپنے حلقہ میں لئے ہوئے تلبیہ کہہ رہے تھے ، ایسی تھی کہ جس سے مکہ والوں کی آنکھیں کھلی رہ گئیں وہ حیرت واستعجاب میں نبی ۖ کو دیکھتے ہی رہ گئے حالانکہ رسولۖ اور مسلمان حج کے اعمال انجام دے رہے تھے۔
..............
١۔ طبقات الکبریٰ ج٢ ص ١٠٨، سنن الکبریٰ بیہقی ج٧ ص١٠١، سیرت نبویہ ابن کثیر ج٣ ص ٣٩٨۔
رسولۖ اپنی سواری پر سوار خانۂ کعبہ کا طواف کر رہے تھے۔ آپۖ کی سواری کی مہار عبد اللہ بن رواحہ پکڑے ہوئے تھے، رسولۖ نے یہ حکم دیا کہ مسلمان بلند آواز سے یہ نعرہ بلند کریں۔
''لا الہ الا اللّہ وحدہ، صدق وعد ہ و نصر عبدہ و اعز جندہ و ھزم الاحزاب وحدہ''۔
سوائے اللہ کے کوئی خدا نہیں ہے وہ یکتا ہے ،اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اس نے اپنے بندے کی مدد کی ،اپنی فوج کی مدد کی ہے اور سپاہ دشمن کو شکست دی ہے ،وہ یکتا ہے ۔
پھر کیا تھا مکہ کی فضائوں میں یہ آواز گو نجنے لگی خوف سے مشرکوں کا زہرہ آب ہونے لگا اور خدا کی طرف سے نبی ۖ کو ملنے والی فتح پر وہ پیچ و تاب کھانے لگے یہ وہی رسولۖ ہے جس کو انہوں نے سات سال قبل وطن چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔
مسلمانوں نے رسولۖ کی معیت میں عمرہ کے مناسک انجام دئیے۔ قریش اسلام اور مسلمانوں کی طاقت کو مان گئے اور انہیں اس شخص کی دروغ گوئی کا یقین ہو گیا جس نے، انہیں یہ خبر دی تھی کہ رسولۖ اور ان کے اصحاب مدینہ ہجرت کر جانے کی وجہ سے بہت تنگی و پریشانی میں ہیں۔
بلال خانۂ کعبہ پر گئے اور نما زظہر کے لئے اذان دیتے ہوئے ندا ئے توحید بلند کی جو کہ روحانی مسرت کا سبب ہے اس سے کفر کے سرداروں کو مزید افسوس ہوااس وقت پورا مکہ مسلمانوں کے قبضہ میں تھا۔
مہاجرین اپنے بھائی انصار کے ساتھ مکہ میں پھیل گئے تاکہ اپنے ان گھروں کو دیکھیں جن کو راہ خدا میں چھوڑنا پڑا تھا اور طولانی فراق کے بعد اپنے اہل و عیال سے ملاقات کریں۔
تین روز تک مسلمان مکہ میں رہے اور پھرقریش سے کئے ہوئے اس معاہدہ کے بموجب ، مکہ چھوڑ دیا، رسولۖ نے قریش سے یہ فرمایا کہ وہ میمونہ سے عقد کے رسوم یہیں ادا کرنا چاہتے ہیں، لیکن قریش نے اس کو قبول نہ کیا کیونکہ یہ خوف تھا کہ اگر رسولۖ مکہ میں زیادہ دن ٹھہریں گے تو اس سے اسلام کی طاقت میں اضافہ ہو گا او رمکہ میں اسلام کو مقبولیت ملے گی۔
ابو رافع کو رسولۖ نے مکہ میں چھوڑ دیا تاکہ وہ سرشام آپۖ کی زوجۂ میمونہ، کو لے کر آئیں کیونکہ مسلمانوںکونمازِظہر سے پہلے مکہ چھوڑنا تھا۔(١)
..............
١۔ سیرت نبویہ ج٢ ص ٣٧٢۔