منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خدا)
 

تیسری فصل
مشرک طاقتوں کا اتحاد اور خدائی طاقت کی طرف سے جواب
جنگ خندق میں مشرک کی طاقتوں کا اتحاد
٥ھ ختم ہوا چاہتا ہے، پورا سال بحران اور فوجی کاروائیوں میں گذرا ، مسلمان ان حالات سے گذر گئے ان جنگوں کا مقصد نئی اسلامی حکومت کے نظام کا دفاع کرنا اور مدینہ میں امن و امان قائم کرنا تھا۔ دین اور اسلامی حکومت کی دشمنی میں رونما ہونے والے حوادث و واقعات کے مختلف پہلو اوران کی جداگانہ نوعیت تھی ان چیزوں سے اور اپنی یکجہتی و اتحاد کے ذریعہ یہودیوں نے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لہذاانہوں نے دشمنی کی آگ بھڑکانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ جزیرة العرب سے اسلام کا نام و نشان مٹ جائے چنانچہ جب مشرکین نے ان یہودیوں سے یہ معلوم کیا کہ دین اسلام افضل ہے یا شرک؟ تو انہوںنے کہا: بت پرستی دین اسلام سے بہتر ے (١) اس طرح وہ مشرک قبیلوں کو جمع کرنے، انہیں جنگ پر اکسانے اور حکومت اسلامی کے پائے تخت مدینہ کی طرف روانہ کرنے میں کامیاب ہو گئے؛ دیکھتے ہی دیکھے یہ خبر معتبر و موثق لوگوں کے ذریعہ رسولۖ تک پہنچ گئی جو کہ ہر سیاسی تحریک کواچھی طرح سمجھتے تھے اوربہت زیادہ بیدار و تیز بیں تھے۔
اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے رسولۖ نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا، مشورہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مدینہ کے میدانی رقبہ میں خندق کھود دی جائے، رسولۖ نے مسلمانوں کے درمیان کام تقسیم کر دیا ،
١۔ جیسا کہ سورۂ نساء آیت ٥١ میں بیان ہوا ہے ۔
خندق کھودنے میں آپ بھی مسلمانوں کے ساتھ شریک تھے اور انہیں اس طرح ابھارتے تھے:
''لا عیش الا عیش الآخرة اللھم اغفر للانصار و المہاجرة''۔ (١)
زندگی تو بس آخرت ہی کی ہے اے اللہ انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما۔
اگر چہ اس کام میں مخلص مسلمانوں نے ہمت و ثابت قدمی کا اظہار کیا تھا لیکن کام چور اور منافقین نے اس موقعہ پر بھی اپنا ہاتھ دکھا دیا۔
مختصر یہ کہ دس ہزار سے زیادہ فوجیوں پر مشتمل مشرکین کے لشکر نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا لیکن خندق کی وجہ سے وہ باہر ہی رہے ۔ اس دفاعی طریقہ کار کو دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ وہ اس سے واقف نہیں تھے۔ رسولۖ تین ہزار سپاہیوں کے ساتھ نکلے اور سلع پہاڑ کے دامن میں پڑائو ڈالا۔ اور کسی بھی اتفاقی صورت حال سے نمٹنے کے لئے لوگوں میںذمہ داری اور کام تقسیم کر دئیے۔
مشرکین کی فوجیں تقریباً ایک مہینے تک مدینہ کا محاصرہ کئے رہیں مگر مدینہ میں داخل نہیں ہو سکیں یہ مسلمانوں کے لئے بہترین جگہ تھی۔ ان کے پاس ایک ہی سورما تھا اور وہ تھے علی بن ابی طالب جب علی بن ابی طالب عرب کے سب سے بڑے سورما عمرو بن عبد ودسے مقابلہ کے لئے نکلے اور کوئی مسلمان اس کے مقابلہ میں جانے کے لئے تیار نہ ہوا تو رسولۖ نے حضرت علی کی شان میں فرمایا:
''برز الایمان کلہ الیٰ الشرک کلہ''(٢)
آج کل ایمان کل شرک کے مقابلہ میں جا رہا ہے ۔
مشرکین نے بنی قریظہ کے یہودیوں سے مدد مانگی حالانکہ انہوںنے رسولۖ سے یہ معاہدہ کر رکھا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہونگے، رسولۖ کو یہود کے جنگ میں شریک ہونے اورمسلمانوں
..............
١۔ البدایة و النہایة ، ابن کثیر ، ج٤ ص ٩٦، مغازی ج١ ص ٤٥٣۔
٢۔ احزاب: ١٢تا ٢٠۔
مسلمانوں کے خلاف داخلی محاذ کھولنے کا یقین ہو گیا لہذا آپۖ نے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ کو ان کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس خبر کی تحقیق کریں انہوںنے بتایا کہ خبر صحیح ہے اس پر رسولۖ نے تکبیر کہی :''اللہ اکبر ابشروا یا معاشر المسلمین بالفتح''، (١) اللہ بزرگ و برتر ہے اور اے مسلمانو! تمہیں فتح مبارک ہو۔

مسلمانوں کے مشکلات
محاصرہ کے دوران مسلمان یقینا بہت سی مشکلوں سے دوچار ہوئے تھے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
١۔ کھانے کی اشیاء کی قلت تھی بلکہ مسلمانوں پر بھوک کے سائے منڈلانے لگے تھے۔ (١)
٢۔موسم بہت سخت تھا، سردی کی طویل راتوں میںشدید ٹھنڈ پڑ رہی تھی۔
٣۔منافقوںنے مسلمانوںکی صفوں میں نفسیاتی جنگ بھڑکادی تھی وہ انہیںجنگ میں جانے سے روکنا چاہتے تھے اور اس سلسلہ میں ثابت قدم رہنے سے انہیں ڈراتے تھے ۔
٤۔ محاصرہ کے زمانہ میںمسلمان اس خوف سے سو نہیں سکتے تھے کہ حملہ نہ ہو جائے، اس سے وہ جسمانی طور پر کمزور ہو گئے تھے اس کے علاوہ مشرکین کی فوجوں کے مقابلہ میں ان کی تعداد بھی کم تھی۔
٥۔ بنی قریظہ کی غداری، اس سے مسلمانوں کے لئے داخلی خطرہ پیدا ہو گیاتھا اورچونکہ ان کے اہل و عیال مدینہ میں تھے اس لئے وہ ان کی طرف سے فکر مند تھے۔

دشمن کی شکست
مشرکین کی فوجوں کے مقاصد مختلف تھے، یہودی تو یہ چاہتے تھے کہ مدینہ میں ان کا جو اثر و رسوخ تھا وہ واپس مل جائے جبکہ قریش کو رسولۖ اور آپۖ کی رسالت ہی سے عداوت تھی، غطفان،فزارہ وغیرہ کو خیبر کی
..............
١۔المغازی ج١ ص ٤٥٦، بحار الانوار ج٢٠ ص ٢٢٢۔
٢۔مغازی ج٢ ص ٤٥٦،٤٧٥، ٤٨٩۔
پیداوار کی طمع تھی ، یہودیوں نے اس کا وعدہ کیا تھا۔ دوسری طرف محاصرہ کی مدت درازہونے کی وجہ سے مشرکین فوجیںبھی اکتا گئی تھیں وہ مسلمانوں کے طرز تحفظ اور ان کی ایجاد سے بھی محو حیرت تھیں، اس وقت مشرکین کی فوجوں اور یہودیوں کی حالت کو نعیم بن مسعود نے اسلام قبول کرنے کے بعد بیان کیا تھا وہ خدمت رسولۖ میں حاضر ہوا اور عرض کی: آپۖ جو چاہیں مجھے حکم دیں: رسولۖ نے فرمایا: ہمارے درمیان تم ایک ہی آدمی ہو لہذا جہاں تک تم سے ہو سکے انہیں جنگ میں پسپا ہوجانے کی ترکیب کرنا کیونکہ جنگ ایک دھوکا ہے ۔
خدا کی طرف سے مشرکین کی فوجوں کو شدید آندھی نے آ لیا جس نے ان کے خیموں کو اکھاڑ کر پھینک دیا اور ان کی دیگوں کو الٹ دیا، اس صورت حال کو دیکھ کر قریش پر خوف و ہراس طاری ہو گیا ابو سفیان نے قریش سے کہا بھاگ چلو چنانچہ وہ جتنا سامان لے جا سکتے تھے اپنے ساتھ لے گئے ان کے ساتھ دوسرے قبیلے بھی کوچ کر گئے صبح تک ان میں سے کوئی باقی نہ بچا۔
(و کفٰی اللّہ المومنین القتال)(١)

غزوۂ بنی قریظہ اور مدینہ سے یہودیوں کا صفای
جنگ خندق کے دوران قریظہ کے یہودیوں نے اپنے دل میں چھپی ہوئی اسلام دشمنی کو آشکار کر دیا اگر مشرکین فوجوں کو خدا نے ذلیل و رسوا نہ کیا ہوتا تو بنی قریظہ کے یہودیوں نے مسلمانوں کی پشت میں چھرا بھونک دیا ہوتاتھا اب رسولۖ کے لئے ضروری تھا کہ ان کی خیانت کا علاج کریں ۔ لہذا رسولۖ نے قبل اس کے کہ مسلمان آرام کریں، یہ حکم دیا کہ مسلمان یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کریں، اس سے نئی فوجی کاروائی کی اہمیت کو بھی ثابت کرنا تھا چنانچہ منادی نے مسلمانوں کو ندا دی جو مطیع سامع ہے اسے چاہئے کہ نمازِ عصر بنی قریظہ میں پڑھے۔(٢)
..............
١۔ اس موقعہ پر سورة احزاب نازل ہوا جس میں جنگ خندق کی تفصیل بیان ہوئی ہے ۔
٢۔ طبری ج٣ ص ١٧٩۔
رسولۖ نے پرچم حضرت علی کو عطا کیا مسلمان بھوک و بیداری اور تکان کے ستائے ہوئے تھے اس کے باوجود وہ حضرت علی کی قیادت میں روانہ ہو گئے...یہودیوں نے جب یہ دیکھا کہ رسولۖ مسلمانوں کے ساتھ ان کا محاصرہ کر رہے ہیں تو ان پر خوف و دہشت طاری ہو گئی اور انہیں یہ یقین ہو گیا کہ نبی ۖ جنگ کئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔
یہودیوں نے ابو لبابہ بن عبد المنذر کو بلایا-وہ ان کے حلیفوں میں سے ایک تھاتاکہ اس سلسلہ میں اس سے مشورہ کریں لیکن جب اس نے ان سے وہ بات بتائی جو ان کے سامنے آنے والی تھی تو چھوٹے بڑے یہودی رونے لگے (١) اور یہ پیشکش کی کہ انہیں ان کی گذشتہ خیانت کی سزا نہ دی جائے بلکہ وہ مدینہ چھوڑ کر چلے جائیں گے رسولۖ نے ان کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور فرمایا کہ خدا اور اس کے رسولۖ کے حکم کے سامنے سر جھکانا پڑے گا۔
اوس نے رسولۖ کی خدمت میں یہودیوں کی سفارش کی توآپۖ نے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ میں اپنے اور تمہارے حلیف-یہودیوں کے درمیان تمہیںمیں سے ایک شخص کو حکم بنا دوں؟ انہوںنے کہا: ہاں اے اللہ کے رسولۖ ہمیں یہ منظور ہے ۔ رسولۖ نے فرمایا: ان -یہودیوں-سے کہہ دو کہ اوس میں سے جس کوچاہیں منتخب کر لیں چنانچہ یہودیوںنے سعد بن معاذ کواپنا حکم منتخب کیا۔(٢) یہ یہودیوں کی بد قسمتی تھی کیونکہ جب مشرکین کی فوجوںنے مدینہ کا محاصرہ کیا تھا اس وقت سعد بن معاذ یہودیوں کے پاس گئے تھے اور ان سے یہ خواہش کی تھی کہ تم غیر جانب دار رہنا لیکن یہودیوںنے ان کی بات نہیں مانی تھی۔ اس وقت سعد بن معاذزخمی تھے۔ انہیں اٹھا کر رسولۖ کی خدمت میں لایا گیا رسولۖ نے ان کا استقبال کیا اور موجود لوگوں سے فرمایا کہ اپنے سردار کا استقبال اور ان کی تعظیم کرو انہوںنے بھی استقبال کیا اس کے بعد سعد نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کیا جائے اور عورتوں ، بچوں کو قید کر لیا جائے اور ان کے اموال کو مسلمانوں
..............
١۔ سیرت نبویہ ج٢ ص ٢٣٧۔
٢۔سیرت نبویہ ج٢ ص ٢٣٩، ارشاد ص ٥٠۔
کے درمیان تقسیم کر دیا جائے ۔ رسولۖ نے فرمایا: ان کے بارے میں تم نے وہی فیصلہ کیا ہے جو خدا نے سات آسمانوں کے اوپر کیا ہے ۔ (١)
پھر رسولۖ نے بنی قریظہ کا مال خمس نکالنے کے بعد مسلمانوں میں تقسیم کر دیا ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی مسلمانوں کے سپرد کردیا، سواروں کو تین حصے اور پیادوں کو ایک حصہ دیا، خمس زید بن حارثہ کو عطا کیا اور یہ حکم دیا کہ اس سے گھوڑا، اسلحہ اور جنگ میں کام آنے والی دوسری چیزیں خریدلو تاکہ آئندہ مہم میں کام آئے۔ (٢)
..............
١۔سیرت نبویہ ج٢ ص ٢٤٠، مغازی ج٢ ص ٥١٠۔
٢۔ سیرت نبویہ ج٢ ص ٢٤١۔