منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خدا)
 

چوتھی فصل
کشائش و خوشحالی ہجرت تک
طائف والوں نے اسلامی رسالت کو قبول نہیں کیا(١)
رسولۖ کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ اب قریش کی ایذا رسانیوں میں روز بروز اضافہ ہوگا اور رسالت کو ختم کرنے کے لئے مشرکین کی کوششیں موقوف نہیں ہوںگی۔ ابو طالب کی رحلت سے آپ کا امن و امان ختم ہو چکا تھا دوسری طرف اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت وسیع پیمانہ پر ہونا چاہئے تھی ۔ جس وقت رسولۖ، اسلام کے مبلغین کی تربیت کر رہے تھے اسی وقت ایک ایسا مرکز قائم کرنے کے لئے بھی غور کر رہے تھے کہ جس میں استقلال و خود مختاری کے نقوش واضح ہوں اور معاشرہ کا نظام ایسا ہو کہ جس میں فرد اپنی زندگی بھی گزارے اور خدا کے ساتھ اپنی صنف کے دوسرے افراد سے بھی اس کا رابطہ رہے تاکہ رفتہ رفتہ آسمانی قوانین کے مطابق اسلامی و انسانی تہذیب قائم ہو جائے۔ اس مرکز کی تشکیل کے لئے آپۖ کی نظر طائف پر پڑی جہاں قریش کے بعد عرب کاسب سے بڑا قبیلہ ''ثقیف'' آباد تھا۔ جب آپۖ تنہا، یا زید بن حارثہ یا علی بن ابی طالب کے ساتھ وہاں تشریف لے گئے (٢) اور قبیلۂ ثقیف کے بعض شرفاء و سرداروں سے گفتگو کی اور انہیں خدا کی طرف بلایا اور ان کے سامنے وہ چیز بیان کی جس کے لئے آپ ۖ کو نبی ۖ بنا کر بھیجا گیا تھا کہ آپۖ کی تبلیغ میں وہ مدد کریں اور آپۖ کو قریش وغیرہ سے بچائیں توانہوں نے آپۖ کی یہ بات تسلیم نہ کی
..............
١۔ آپۖ نے بعثت کے دسویں سال طائف کا سفر کیا تھا۔
٢۔نہج بلاغہ، ابن ابی الحدید، ج ٤ ص ٢٧ ١ ص ج١٤ ص ٩٧۔
بلکہ آپۖ کا مذاق اڑاتے ہوئے ان میں سے کسی نے کہا: اگر خدا نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے تو میں خانہ کعبہ کا پردہ پھاڑ ڈالوںگا دو سرے نے کہا: اگرآپ خدا کی طرف سے رسولۖ ہیں تو میں آپ سے ہرگز کلام نہیں کروںگا کیونکہ اس صورت میں آپ کی بات کا جواب دینا خطرہ سے خالی نہیں ہے ہاں اگر آپۖ نے خدا پر بہتان باندھا ہے تو میرے لئے ضروری نہیں کہ آپۖ سے گفتگو کروں تیسرے نے کہا: کیا خدااس سے عاجز تھا کہ تمہارے علاوہ کسی اور کو بھیج دیتا۔(١)
اس سوکھے اور سپاٹ جواب کو سن کر رسولۖ ان کے پاس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان سے یہ کہا: تمہارے اور میرے درمیان جو بھی گفتگو ہوئی ہے اس کو کسی اور سے بیان نہ کرنا کیونکہ آپ کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ یہ واقعہ قریش کو معلوم ہواورآپۖ کے خلاف ان کی جرأت بڑھ جائے ۔ لیکن ثقیف کے سرداروں نے آپۖ کی اس بات کو قبول نہ کیا بلکہ اپۖ کے خلاف اپنے لڑکوں اور غلاموں کو اکسایا تو وہ آپۖ کوبر بھلا کہنے لگے آپۖ کو ڈھیلے پتھر مارنے لگے، آپۖ کے پیچھے شور مچانے لگے۔ ان لوگوں نے اتنا پتھرائو کیا تھا کہ آپ کا جو قدم بھی پڑتا تھا وہ پتھر پر پڑتا تھا۔ بہت سے تماشائی اکھٹا ہو گئے یہاں تک کہ انہوں نے آپۖ کو ربیعہ کے بیٹوں، عتبہ و شیبہ کے باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا، وہ دونوں باغ میں موجود تھے، انہوں نے ان لوگوں کو بھگایا، آپ کے دو نوںپیروں سے خون بہہ رہا تھا آپ انگور کی بیل کے سایہ میں بیٹھ گئے اور اس طرح شکوہ کیا:
''الّلھم الیک اشکو ضعف قوّتی و قلّة حیلت و ھوان علیٰ الناس یا ارحم الرحمین انت رب المستضعفین و انت رب الیٰ من تکلن؟ الیٰ بعید یتجھمن ام الیٰ عدو ملکتہ امری؟ ان لم یکن بک غضب علّ فلا ابال ولکن عافیتک ھی اوسع ل۔''
اے اللہ! میں اپنی ناتوانی، بے سرو سامانی اور اپنے تئیں لوگوں کی اہانت کی تجھ سے فریاد کرتا ہوں،اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے! عاجز و در ماندہ لوگوں کا مالک تو ہی ہے ۔ میرا مالک بھی تو ہی ہے ، مجھے کس پر چھوڑا ہے کیا اس بندے پر جو مجھ پر تیوری چڑھائے؟ یا اس دشمن پر جو میرے کام پر
..............
١۔سیرت نبویہ ج١ ص ٤٢٠، بحار الانوار ج١٩ ص ٦ و ١٧ اور ص ٢٢، اعلام الوریٰ ج١ ص ١٣٣۔
پردسترسی رکھتا ہے؟ لیکن جب مجھ پرتیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ تیری عطا کی ہوئی عافیت میرے لئے بہت وسیع ہے ۔
رسولۖ ابھی خدا کی بارگاہ میں اسی طرح شکوہ کناںتھے کہ ایک نصرانی آپۖ کی طرف متوجہ ہوا اس نے آپ میں نبوت کی علامتیں دیکھیں۔(١)
جب رسولۖ قبیلۂ ثقیف کی نجات و بھلائی سے مایوس ہو کر طائف سے مکہ کی طرف واپس لوٹ رہے تھے اس وقت آپ کو اس بات پر بہت افسوس تھا کہ کسی نے بھی ان کی بات نہ مانی، مکہ و طائف کے درمیان آپ نخلہ میں ٹھہرے، رات میں جب نماز میں مشغول تھے، اس وقت آپ کے پاس سے جناتوں کا گذرہوا، انہوں نے قرآن سنا آپ نماز پڑھ چکے تو وہ اپنی قوم میں واپس آئے وہ خود رسولۖ پر ایمان لا چکے تھے اب انہوں نے اپنی قوم والوں کو ڈرایا، خداوند عالم نے ان کے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے:
(واذا صرفنا الیک نفراً من الجن یستمعون القرآن...و یجرکم من عذاب الیم) (٢)
اور جب ہم نے جنوںمیں سے ایک گروہ کو آپ کی طرف پلٹایا تاکہ وہ غور سے قرآن سنیں لہذا جب وہ حاضر ہوئے تو آپس میں کہنے لگے کہ خاموشی سے سنو پھر جب تلاوت تمام ہو گی تو فوراً اپنی قوم کی طرف پلٹ کر ڈرانے والے بن کر آگئے ،کہنے لگے اے قوم والو! ہم نے آیات کتاب کو سنا ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے یہ اپنی سابقہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور حق و انصاف اور سیدھے راستے کی جانب ہدایت کرنے والی ہے ،قوم والو! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لے آئو تاکہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخش دے اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے ۔
..............
١۔طبری ج٢ ص ٤٢٦، انساب الاشراف ج١ ص ٢٢٧، تاریخ یعقوبی ج٢ ص ٣٦، سیرت نبویہ ج١ ص ٤٢٠۔
٢۔طبری ج٢ ص ٣٤٦، سیرت ابن ہشام ج٢ ص ٦٣، الطبقات الکبریٰ ص ٣١٢، ملاحظہ ہو سورۂ احقاف: ٢٩ تا ٣١۔
مکہ میں راہ رسالت میں رکاوٹیں
رسولۖ کی تحریک ایک ترقی پذیر و تعمیری جہاد تھا۔ آپ کا قول و فعل اورحسن معاشرت؛ فطرت سلیم اور بلند اخلاق کا پتہ دیتا تھا آپ نفوس میں حق کو اجاگر کرتے تھے تاکہ انہیں زندہ کر سکیں اور انہیں فضائل کی طرف بلاتے تھے تاکہ بشریت ان سے آراستہ ہو سکے یہی وجہ ہے کہ قریش کی ایذا رسانیوں ،ان کی سنگدلی اور طائف والوں کے ظلم و ستم کے باوجود رسولۖ مایوس نہیں ہوئے بلکہ لوگوں کو دین خدا کی طرف دعوت دیتے رہے۔ خصوصاً عمرہ وحج کے زمانہ میں کیونکہ اس وقت تبلیغ کا بہترین موقعہ ملتا تھاآپ قبائل کی قیام گاہ پر جاتے اور ان سب کو دینِ خدا قبول کرنے کی دعوت دیتے اور فرماتے تھے:
''یا بنی فلان انی رسول اللہ الیکم یا مرکم ان تتعبدوا الیہ ولا تشرکوا بہ شیئاً و ان تومنوا بی و تصدقونی و تمنعونی حتی ابین عن اللہ ما بعثنی بہ''۔(١)
اے فلاں خاندان والو! مجھے تمہاری طرف رسولۖ بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ خدا تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو، میرے اوپر ایمان لائو، میری تصدیق کرو اور میری حفاظت کرتے رہو یہاں تک کہ میں تمہارے سامنے اس چیز کو کھول کر بیان کر دوں جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے ۔
رسولۖ نے قبیلوں سے ملاقات کرنے کا سلسلہ جاری رکھا بعض نے سنگدلی سے آپ کی دعوت کو رد کر دیا اور بعض نے معذرت کر لی ،کچھ لوگوں کے اندر آپۖ نے اسلام کی طرف سیاسی رجحان پایا وہ اسلام کے ذریعہ حکومت حاصل کرنا چاہتے تھے لہذا انہوں نے اسی کے مطابق کوشش کرنا شروع کی لیکن رسولۖ نے سختی سے ان کو ٹھکرا دیا اور انہیں موقعہ سے فائدہ نہیں اٹھانے دیا رسولۖ نے فرمایا:''الامر الیٰ اللّٰہ یضعہ حیث یشائ''یہ معاملہ خدا کے ہاتھ ہے وہ جہاںچاہتا ہے قرار دیتا ہے۔(٢)
..............
١۔سیرت نبویہ ج١ ص ٤٢٣، تاریخ طبری ج٢ ص ٤٢٩، انساب الاشراف ج١ ص ٢٣٧۔
٢۔سیرت نبویہ ج١ ص ٤٢٤ تاریخ طبری ج٢ ص ٤٣١۔
اکثر ابو لہب رسولۖ کے پیچھے پیچھے جاتا اور لوگوں کو آپۖ کی متابعت کرنے سے منع کرتا تھا اور کہتا تھا: اے فلاں خاندان والو! یہ تو بس تمہیں لات و عزی کو ٹھکرانے اور بدعت و ضلالت کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے پس تم اس کی اطاعت نہ کرنا اور اس کی بات نہ سننا۔(١)
دوسری طرف ام جمیل عورتوں کے بیچ میں کھڑی ہوتی اور رسولۖ اور آپۖ کی تبلیغ کا مذاق اڑاتی تاکہ عورتیں آپۖ کی متابعت نہ کریں۔
نبیۖ قبائل کو اسلامی رسالت کے ذریعہ مطمئن نہیں کر سکتے تھے کیونکہ قریش کو دوسرے قبائل کے درمیان دینی اعتبار سے فوقیت حاصل تھی اور خانۂ کعبہ کی خدمت و دربانی بھی قریش ہی کے پاس تھی اور جزیرہ نما عرب کی تجارت و اقتصاد کا مرکزبھی مکہ ہی تھاپھر جن قبائل کو رسولۖ نے اسلام کی دعوت دی تھی قریش سے ان کے تعلقات اور معاہدے بھی تھے ان کے لئے ان معاہدوں اور پابندیوںکو توڑنا بہت مشکل تھا۔ پس اسلام قبول کرنے میں لوگوں کا متردد ہونا یقینی تھا اس کے باوجود قریش کو رسولۖ کی تحریک اور آپ کی تبلیغ رسالت سے خوف لاحق تھا لہذا انہوں نے ایک منصوبہ بنایا کہ ممکن ہے بت پرستوں کی عقلیں اس کو قبول کر لیں انہوں نے بالاتفاق لوگوں کے درمیان یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کیاکہ محمد اپنے بیان کے ذریعہ جادو کر دیتا ہے اور مرد سے عورت کو بھائی کو بھائی سے جدا کر دیتا ہے لیکن جب لوگ رسولۖ سے ملاقات کرتے اور ان پر رسولۖ و رسالت کی عظمت آشکار ہوتی تھی تو قریش کا یہ پروپیگنڈہ ناکام ثابت ہوتا تھا۔(١)

عقبۂ اولیٰ کی بیعت
تبلیغ رسالت کے سلسلہ میں رسولۖ نے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا بلکہ آپ ۖمکہ میں آنے والے ہر اس شخص کو دعوت اسلام دیتے تھے جس میں بھلائی و بہتری دیکھتے یا اس کا اثر و نفوذ محسوس کرتے تھے۔ مدینہ میں دو قوی ترین قبیلوں اوس و خزرج کے درمیان مدتوں سے سیاسی و فوجی معرکہ آرائی چلی آ رہی تھی یہود اپنی خباثت و مکاری سے اس ماحول میں ان کی جنگ کو مستقل ہوا دیتے تھے تاکہ اسلامی قانون کا نفاذ نہ ہو سکے۔
..............
١۔سیرت نبویہ ج١ ص ٢٧٠۔
یثرب سے جو لوگ حلیف بنا کراپنی طاقت بڑھانے کے لئے مکہ آتے تھے ان میں سے بعض سے رسولۖ نے ملاقات کی اور دیکھتے ہی دیکھتے رسالت کا اثر اور نبوّت کی صداقت ان کے نفوس میں جا گزیں ہو گئی۔ ایک ملاقات میں رسولۖ نے بنی عفراء کی ایک جماعت سے گفتگو کی یہ جماعت خزرج سے منسوب تھی ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور قرآن کے ایک حصہ کی تلاوت کی تو ان کی آنکھوں اور دلوں میں مزید آیتوں کے سننے کا اشتیاق پایا...رسولۖ کی گفتگو سے وہ سمجھ گئے کہ یہ وہی نبیۖ ہے کہ جس کا ذکر یہود ،مشرکین سے نزاع کے وقت انہیں ڈرانے کے لئے کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ایک نبی کی بعثت ہو گی اور اس کا زمانہ قریب ہے ہم اس کا اتباع کریں گے اورپھر ہم تمہیں ارم و عاد والوں کی طرح قتل کریں گے۔(١)
ان چھہ اشخاص نے اسی وقت اپنے اسلام کا اعلان کر دیا،رسولۖ کی خدمت میںعرض کی: ہم نے اپنی قوم کو اس حال میں چھوڑ ا ہے کہ کسی قوم میں اتنی عداوت و دشمنی نہیں ہے جتنی ان کے درمیان ہے امید ہے کہ خدا آپۖ کے ذریعہ ان کے درمیان صلح کرادے۔ ہم ان کے سامنے اسلام پیش کریں گے اور انہیں آپۖ کے دین کی طرف بلائیں گے اس دین کی طرف جو آپۖ نے ہم سے قبول کرایا ہے ۔
اس کے بعد وہ یثرب کی طرف لوٹے ؛ نبیۖ اور رسالت کے بارے میںآپس میں گفتگو کرتے ہوئے اور آنے والی امن و امان کی زندگی سے متعلق اظہار خیال کرنے لگے ان کے درمیان دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کا پیغام پھیل گیا، یثرب میں کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس میں رسول کا ذکر نہ پہنچا ہو۔(٢)
دن گزرتے دیر نہیں لگتی پھر گیارہویں بعثت کو جب حج کا زمانہ آ گیا یثرب سے اوس و خزرج کا ایک وفد آیا جو بارہ افراد پر مشتمل تھا ان میں چھہ افراد وہ تھے جو عقبہ اولیٰ میں خفیہ طریقہ سے رسولۖ سے ملاقات کرکے اسلام قبول کر چکے تھے-عقبہ وہ جگہ ہے جہاں سے یثرب والے مکہ پہنچتے ہیں-اس مرتبہ ان لوگوں نے یہ اعلان کیا کہ ہم نے اس بات پر رسولۖ کی بیعت کر لی ہے کہ کسی کو خدا کا شریک قرار نہیں دیں گے چوری نہیں
..............
١۔ سیرت نبویہ ج١ ص ٤٢٨، بحار الانوار ج١٩ ص ٢٥۔
٢۔ تاریخ یعقوبی ج٢ ص ٣٧ و ص٣٨، سیرت نبویہ ج١ ص ٤٢٩، بحار الانوار ج١٩ ص ٢٣۔
کریں گے۔ زنا نہیں کریں گے ، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے اوراز خود گڑھی ہوئی باتوں کے ذریعہ بہتان نہیں باندھیںگے اور نیک کاموں میں آپۖ کی نافرمانی نہیں کریں گے۔(١)
رسولۖ ان پر اس سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالنا چاہتے تھے ان کے ساتھ آپۖ نے جوان مسلمان مصعب بن عمیر کو یثرب بھیجا تاکہ وہ ان کے درمیان عقائد کی تبلیغ کریں۔ عقبۂ اولیٰ کی بیعت اسی پر تمام ہوئی۔

عقبۂ ثانیہ
مصعب یثرب کے گلی کوچوں میں اور ان کے مجامع میں قرآن کی آیتوں کی تلاوت کرتے تھے، قرآن کے ذریعہ ان کے دلوں اور عقلوں کو جھنجھوڑتے رہے یہاں تک کہ بہت سے لوگ رسالت اسلامیہ پر ایمان لے آئیے۔
اسلام نے لوگوں کے دلوں میں رسولۖ سے ملنے کا بڑا اشتیاق پیدا کر دیا انہوں نے والہانہ انداز میں رسولۖسے گزارش کی کہ آپۖ ہمارے یہاں تشریف لائیں۔
بعثت کے بارہویں سال جب حج کا زمانہ آیا تو یثرب سے حاجیوں کے قافلہ چلے ان میں ٧٣ مسلمان مرد اور دو عورتیں بھی تھیں رسولۖ نے ان سے یہ وعدہ کیا کہ آپۖ ان سے عقبہ میں ایام تشریق میں رات کے وقت ملاقات کریں گے؛ یثرب کے مسلمان اس وقت تک اپنا اسلام چھپائے ہوئے تھے۔
جب تین حصہ رات گذر گئی اور آنکھوں سے نیند اچٹ گئی تو مسلمان چھپ کراپنے خیموں سے نکلے اور رسولۖ کے انتظار میں جمع ہو گئے رسولۖ آئے آپۖ کے ساتھ آپۖ کے اہل بیت ۖ میں سے بھی کچھ لوگ تھے، سب جمع ہو گئے، ان لوگوں نے گفتگو شروع کی، پھر رسولۖ نے گفتگو کا آغاز کیا، قرآن مجید کی چند آیتوں کی تلاوت کی اس کے بعد انہیں خدا کی طرف بلایا اور اسلام کی ترغیب دلائی۔
..............
١۔ سیرت نبویہ ج١ ص ٤٣٣، تاریخ طبری ج٢ ص ٤٣٦۔
اس بار اسلام کے ہر پہلو، اس کے احکام اور جنگ و صلح کے بارے میں صریح طور پر بیعت ہوئی؛ رسولۖ نے فرمایا:
''ابایعکم علیٰ ان تمنعونی مما تمنعون منہ نسائکم و ابنائکم''
میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم ہر اس چیز سے میری حفاظت کرو گے جس سے تم اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔ اس پر ان لوگوں نے رسولۖ کی بیعت کی۔
اس موقعہ پر یثرب کے مسلمانوں کی طرف سے خدشہ کا اظہار ہوا، ابو الہیثم ابن تیہان نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولۖ! ہمارے اور یہودیوں کے درمیان کچھ معاہدے ہیں اگرہم انہیں توڑ دیں تو کیا ایسا کرنے سے ہم گناہگار ہونگے اور اگر خدا آپۖ کو کامیاب کر دے توکیاآپ اپنی قوم کی طرف پلٹ جائیں گے ؟اس پر رسولۖ مسکرائے اور فرمایا:''بل الدم الدم و الھدم الھدم احارب من حاربتم و اسالم من سالمتم''(١)بلکہ خون کا بدلہ خون اور مباح کئے ہوئے خون کا عوض مباح ہے ۔ میں اس سے جنگ کرونگا جس سے تم جنگ کروگے میں اس سے صلح کرونگا جس سے تم صلح کروگے۔
اس کے بعد رسولۖ نے فرمایا: تم میں سے بارہ افراد میرے پاس آئیں تاکہ وہ اپنی قوم میں میرے نمائندے قرار پائیں چنانچہ ان میں سے نو افراد خزرج میں سے اور تین اوس میں سے نکلے ان سے رسولۖ نے فرمایا:
''انتم علیٰ قومکم بما فیھم کفلاء ککفالة الحواریین لعیسیٰ بن مریم و انا کفیل علیٰ قوم''۔(٢)
تم اپنی قوم کے درمیان ان کے معاملات کے ایسے ہی ذمہ دار و ضامن ہو جیسے حضرت عیسیٰ کے حواری ضامن و ذمہ دار تھے اور میں اپنی قوم کا ذمہ دار ہوں۔
..............
١۔ سیرت نبویہ ج١ ص ٤٣٨، تاریخ طبری ج٢ ص ٤٤١، مناقب آل ابی طالب ج١ ص ١٨١۔
٢۔ تاریخ طبری ج٢ ص ٤٤٢، سیرت نبویہ ج١ ص ٤٤٣، مناقب آل ابی طالب ج١ ص ١٨٢۔
رسولۖ نے ہرکام کے لئے حکیمانہ راہنمائی پختہ اور عمدہ تدبیر ، گہری سیاسی سوجھ بوجھ سے کام لیا اور اس مقصد کی طرف رسالت کو لیکر بڑھے جس کی وحی ِ الٰہی نے تائید کی تھی اور بیعت کرنے والوں سے فرمایا کہ تم اپنی قیام گاہ کی طرف لوٹ جائو مشرکین سے نہ ٹکرانا کہ خدا نے قتال و خونریزی کا حکم نہیں دیا۔
قریش نے جب یہ محسوس کیا کہ یثرب کے مسلمان نبیۖ کی مدد کر رہے ہیں توانہوں نے اسے اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھا اور وہ غیظ وغضب میں آپے سے باہر ہو گئے اور چاہا کہ نبیۖ اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہو جائیں لیکن عقبہ کے اجتماع میں جناب حمزہ و علی پاسبان و محافظ تھے لہذا قریش ناکام واپس لوٹ گئے۔(١)

ہجرت کی تیاری
قریش غفلت سے بیدار ہو چکے تھے جبکہ مسلمانوں میں کامیابی کی امید جاگ اٹھی تھی جس کی وجہ سے مشرکوں کی طرف سے ایذا رسانی میں بھی اضافہ ہو گیا اور قریش نے مسلمانوں کے ساتھ سخت و سنگدلی کا رویہ اختیار کیا ان پر شدید ظلم کئے اور یہ کوشش کی کہ مسلمانوں کا شیراز ہ بننے سے پہلے ہی ان کا صفایاکر دیں،مسلمانوں نے رسولۖ سے اس ظالمانہ سلوک کی شکایت کی اور آنحضرت سے مکہ چھوڑنے کے لئے اجازت چاہی آپۖ نے ان سے چند روز کی مہلت طلب کی پھر فرمایا:''لقد اخبرت بدار ھجرتکم و ھی یثرب فمن اراد الخروج فلیخرج الیھا'' (٢)مجھے تمہارے جس دار ہجرت کی خبر دی گئی ہے وہ مدینہ ہے پس جو تم میںسے مکہ چھوڑنا چاہتا ہے وہ مدینہ چلا جائے۔
دوسری روایت میں اس طرح نقل ہوا ہے :''ان اللّٰہ قد جعل لکم دارا تامنون بھا و اخوانا''(٣) بیشک خدا نے تمہارے لئے ایک جگہ مقرر کر دی ہے جہاں تم امن و اخوت کی زندگی گزار وگے۔
بعض مسلمانوں نے خفیہ طریقہ سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت شروع کر دی تاکہ قریش کو شک نہ ہو۔
..............
١۔ تفسیر قمی ج١ ص٢٧٢۔
٢۔ الطبقات الکبریٰ ج١ ص٢٢٦۔
٣۔مناقب آل ابی طالب ج١ ص ١٨٢، السیرة النبویہ ج١ ص ٤٦٨۔
ہو۔ رفتہ رفتہ مکہ کے راستوں ، گھروں اور اجتماع میں رسولۖ کے اصحاب کم نظر آنے لگے خود رسولۖ، حکم خدا کے منتظر تھے اور یہ بھی چاہتے تھے کہ مسلمان صحیح و سالم ہجرت کر جائیں۔ ادھر قریش کو بھی رسولۖ کے عزم کا علم ہو گیا لہذا انہوں نے مسلمانوں کو مکہ چھوڑ کرہجرت کرنے سے روکنے کی سعی کی اور مدینہ میں جاکر مسلمانوں کو لالچ و دھمکی کے ذریعہ مکہ لوٹانے کی کوشش کی۔
قریش مکہ میں امن برقرار رکھنا چاہتے تھے اسی وجہ سے مسلمان مہاجروں کو قتل نہیں کرتے تھے بلکہ قید میں ڈال دیتے تھے سزا دیتے تھے کیونکہ انہیں خوف تھا کہ مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان جنگ ہو جائے گی۔
ہاں قریش یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ رسولۖ کی مدینہ ہجرت سے مسلمانوں کی بڑی طاقت بن جائے گی اور جب آپۖ ان سے ملحق ہو جائیں گے تو چونکہ آپ ثابت قدمی حسن رائے، قوت و شجاعت میں مشہور ہیں، اس لئے اس وقت مشرکین عام طور سے اور قریش خاص طور سے مصیبتوں میں مبتلا ہوجائیں گے ۔
قریش کے سرداروں نے اپنے سامنے عظیم خطرے سے نمٹنے کے لئے دار الندوہ میں جلدی سے ایک جلسہ کیا، اس میں مختلف رائیں سامنے آئیں ایک رائے یہ تھی کہ محمد کو قید کر دیاجائے، ان کے پیروں میں زنجیر ڈال دی جائے یا انہیں مکہ سے دور صحرا ء میں جلا وطن کر دیا جائے لیکن رسولۖ کو قتل کرنے اور ان کے خون کو قبائل میں اس طرح تقسیم کرنے والی رائے سب کو پسند آئی، کہ بنی ہاشم انتقام نہ لے سکیں (١) کیونکہ اگر انہوں نے رسولۖ کو قتل کر دیا ہوتاتوابتداء ہی میں اسلامی رسالت کا خاتمہ ہو جاتا۔
رسولۖ کو خدا کا حکم ہوا کہ یثرب-مدینہ-ہجرت کر جائیں اس حکم کا رسولۖ کوبڑی شدت سے انتظار تھاتاکہ اس سر زمین پر پہنچ جائیں جہاں آپ ۖتقوے اور آسمانی قوانین کے مطابق ایک حکومت قائم کر سکیں اور ایک صالح انسانی معاشرہ کی تشکیل کر سکیں۔
جب مشرکوں نے قتل رسولۖ کا منصوبہ بنا کر اسے آخری شکل دیدی تو امینِ وحی جبریل رسولۖ پر نازل ہوئے
..............
١۔ السیرة النبویہ ج١ ص ٤٨٠، الطبقات الکبری ج١ ص ٢٢٧، تفسیر العیاشی ج٢ ص ٥٤۔
اور آپۖ کو مشرکوں کی اس سازش کی خبر دی جو انہوں نے آپ کے خلاف بنا رکھی تھی اور آپ کے سامنے اس آیت کی تلاوت کی :
(و اذ یمکربک الذی کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک و یمکرون و یمکر اللّہ و اللّہ خیر الماکرین )(١)
اور اے رسولۖ! آپۖ اس وقت کو یاد کریں جب کفار آپ کو قید کرنے یا قتل کرنے یا شہر بدر کرنے کی تدبیر کر رہے تھے اور اسی کے ساتھ خدا بھی ان کی تدبیروں کے خلاف بند و بست کر رہا تھا اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے ۔
چونکہ رسولۖ کو مکمل یقین تھا کہ خدا آپۖ کی حفاظت کرے گا اور غیبی امداد آپۖ کے شاملِ حال ہو گی اس لئے آپ اپنی تحریک میں عجلت سے کام نہیں لے رہے تھے اور نہ ہی جلد بازی میں قدم اٹھا رہے تھے بلکہ آپ بہت سوچ سمجھ کر اور نہایت ہی احتیاط کے ساتھ قدم اٹھاتے تھے۔

ہجرت سے پہلے مہاجرین کے درمیان مواخات
ہجرت سے پہلے مہاجرین کے درمیان اخوت قائم کی گئی تاکہ ایک ایسا اسلامی معاشرہ وجود میں آجائے کہ جس کے ا فراد اسلام کے مفاد اور اعلاء کلمة اللہ کے لئے ایک جسم کے اعضاء کی مانند ایک دوسرے سے تعاون کریں کیونکہ مسلمانوں کے سامنے بڑی مشکلیں آنے والی تھیںجن سے گزرنے کے لئے ایک دوسرے کاتعاون اور ایک دوسرے کی مددضروری تھی ۔
رسولۖ نے گویا اس طرح اپنی ہجرت کا آغاز کیا کہ مہاجرین کے درمیان ایمانی اور خدائی رشتہ کی بنا پر اخوت قائم کی اور مالی مدد کرنے میں بھی انہیں ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا اس طرح وہ نفسی نفسی کو چھوڑ کرایک مضبوط ومحکم معاشرہ تشکیل دیں چنانچہ رسولۖ نے ابو بکر کو عمر کا، حمزہ کو زید بن حارثہ کا، زبیر کو ابن مسعود کا اور
..............
١۔ مناقب آل ابی طالب ج١ ص ١٨٢ تا ١٨٣، انفال:٨،٣۔
عبید بن حارث کو بلال کا بھائی بنا دیا۔
اور علی کوخود اپنا بھائی بنایا اور حضرت علی سے فرمایا: کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ میں تمہارا بھائی بن جائوں؟ حضرت علی نے عرض کی: اے اللہ کے رسولۖ میں اس سے خوش ہوں۔ اس وقت آپ نے فرمایا: اے علی تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔ (١)
..............
١۔ سیرت حلبیہ ج٢ ص ٢٠، مستدرک حاکم ج٣ ص ١٤۔