تیسری فصل
شادی سے بعثت تک
١۔ شادی مبارک
حضرت محمدۖ کی شخصیت کے لئے جوہر شخصیت سے بلند تھی، ایسی عورت سے شادی کرنا ضروری تھا جس کا مزاج آپۖ کے مزاج سے ہم آہنگ ہو اور وہ آپۖ کے اغراض و مقاصد سے متفق ہوتا کہ وہ آپ کے ساتھ راہِ جہاد و عمل کو طے کرے دشواریوں اور مشکلوں میں صبر کرے، اس زمانہ میں ایسی کوئی عورت نہیں تھی جو محمدۖ کے لئے مناسب ہو، اس مہم کے لئے جناب خدیجہ سے بہتر کوئی نہیں تھا، خدا نے چاہا تو خدیجہ کا دل محمدۖ کی طرف مائل اور آپۖ کی عظیم شخصیت کا گرویدہ ہو گیا، حسن و جمال، عزت و شرافت اور مال کے لحاظ سے خدیجہ قریش کی تمام عورتوں پر فوقیت رکھتی تھیں، زمانہ جاہلیت میں ، انہیں ، طاہرہ اور سیدہ کہا جاتا تھا، ان کی قوم کا ہر مرد ان سے شادی کرنا چاہتا تھا۔
قریش کے بڑے بڑے لوگوں کی طرف سے آپ کے پیغام آئے اور اس سلسلہ میں انہوں نے بہت زیادہ مال خرچ کیا (١) لیکن خدیجہ نے سب کے پیغامات کو ٹھکرا دیا وہ عاقلہ تھیں۔ ہر چیز کو سمجھتی تھیں، لہذاانہوں نے اپنے لئے آنحضرتۖ ہی کو پسند کیا، کیونکہ خدیجہ آپ میں شرافت، اخلاق، بہترین عادات و خصلت اور بلند اقدار کا مشاہدہ کر چکی تھیں لہذا انہوں نے آپۖ کی دہلیز عظمت پر اترنا اور خود کو آپۖ کی نذر کرنا ہی بہتر سمجھا۔
..............
١۔ بحار الانوار ج١٦ ص ٢٢۔
بہت سے تاریخی نصوص سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ آپۖ سے شادی کی پیشکش خود جناب خدیجہ ہی نے کی تھی اس کے بعد ابو طالب اور قریش میں سے بعض افرادرشتہ لے کر ان کے خاندان والوں کے پاس گئے تھے اس وقت خدیجہ کے بزرگ اور ولی ان کے چچا عمرو بن اسد تھے(١) یہ واقعہ بعثتِ نبیۖ سے پندرہ سال قبل کا ہے ۔
جناب ابو طالب نے اس وقت جو خطبہ پڑھا تھا اس کا ایک اقتباس یہ ہے:
''الحمد لرب ھذا البیت الذی جعلنا من زرع ابراہیم و ذریة اسماعیل و انزلنا حرماً آمناً و جعلنا الحکام علیٰ الناس و بارک لنا فی بلدنا الذی نحن فیہ...''
ساری تعریف اس گھر -خانہ کعبہ-کے رب کے لئے ہے جس نے ہمیں ابراہیم کی نسل اور اسماعیل کی ذریت قرار دیا اور ہمیں محفوظ حرم میں اتارا، ہمیں لوگوں پر حاکم بنایااور ہمیں ہمارے اس شہر میں برکت عطا کی کہ جس میں ہم زندگی گزارتے ہیں...
میرے اس بیٹے کا قریش کے جس مرد سے بھی موازنہ و تقابل کیا جائیگا تو یہ اس سے بلند ثابت ہوگا اور جسے بھی اس کے مقابلہ میں لایا جائیگا یہ اس سے عظیم قرار پائیگا۔کائنات میں کوئی بھی اس کا ہم پلّہ نہیں ہے اگر چہ اس کے پاس مال کم ہے ، لیکن مال کی وقعت ہی کیا ہے یہ تو آتاجاتارہتا ہے ، ڈھل جانے والا سایہ ہے ، یہ خدیجہ سے شادی کرنا چاہتا ہے اور خدیجہ بھی اس کی طرف مائل ہے ۔ ہم خدیجہ کی خواستگاری کے لئے اسی کے ایماء پر تمہارے پاس آئے ہیں رہی مہر کی بات تو وہ میں اپنے مال سے ادا کرونگا خواہ نقد ہو یا ادھار،...میرے بھتیجے اور ربِّ کعبہ کی بڑی عظمت ہے (کعبہ کے رب کی قسم میرے بھتیجے کی بڑی عظمت ہے)، ان کا دین مشہور اور ان کی رائے کامل ہے ۔(٢)
..............
١۔ سیرت حلبیہ ج١ ص ١٣٧۔
٢۔کافی ج٥ ص ٣٧٤، بحار الانوار ج١٦ ص ٥، اس میں کشاف و ربیع الابرار سے منقول ہے نیز ملاحظہ ہو سیرت حلبیہ ج١ ص ١٣٩، تاریخ یعقوبی ج١ ص ٢٠، الاوائل از ابو ہلال ج١ ص ١٦٢۔
اس پر خدیجہ نے فرمایا: ان کا مہر میں اپنے مال سے ادا کروںگی، بعض لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں کہ تعجب ہے عورتوں پر مردوں کا مہر ہے ، یہ بات سن کر ابو طالب کو غصہ آ گیا کہا : ہاں اگر مرد میرے بھتیجے جیسے ہونگے تو ان کی عظمت اس سے زیادہ ہے ان کو مہر ادا کیا جائے گا اور اگر مرد تم جیسے ہونگے تو ان سے زیادہ مہر لیکر شادی کی جائیگی۔
بعض معتبر کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدیجہ کا مہر خود رسولۖ نے ادا کیا تھااور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے کہ آنحضرتۖ نے ابو طالب کے ذریعہ مہردلایا ہو، ابو طالب کے خطبہ سے ہم کو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ لوگوں کے دل میں رسولۖ کی کتنی عظمت تھی اور بنی ہاشم کی کیا قدر و منزلت تھی۔
جناب خدیجہ؛رسولۖکے ساتھ شادی سے پہلے
جناب خدیجہ ایک بلند اخلاق خاتون، دین ابراہیم کی طرف مائل اورشریف و معزز خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد جناب خویلد تھے جنہوں نے یمن کے بادشاہ سے اس وقت مقابلہ کیا تھا جب وہ حجر اسود کو یمن لے جانا چاہتا تھا انہوں نے اپنے دین و عقیدہ کی حفاظت میں یمن کے بادشاہ کی طاقت اور کثیر فوج کی بھی پروا نہیں کی تھی اور جناب خدیجہ کے دادا -اسد بن عبد العزیٰ- حلف الفضول نامی جماعت کے نمایاں رکن تھے یہ جماعت مظلوموں کی حمایت کے لئے تشکیل پائی تھی۔ اس جماعت کی اہمیت کے پیش نظر اس میں رسولۖ شریک ہوئے تھے اور اس کے اعلیٰ اقدار کی تائید کی۔(١)
جنابِ خدیجہ کی شادی سے پہلے کے تفصیلی حالات ہمیں تاریخ میں نہیں ملتے ہیں، بعض مورخین نے تو یہاں تک لکھدیا کہ آنحضرتۖ سے قبل خدیجہ کی دو اشخاص سے شادی ہوئی تھی اور ان سے اولاد بھی ہوئی تھی، وہ دو اشخاص، عتیق بن عائد مخزومی اورابو ھالہ تمیمی ہیں۔(٢) جبکہ دوسری معتبر کتابوں میں یہ روایت ہے کہ جب رسولۖ نے جناب خدیجہ سے شادی کی تھی اس وقت آپ کنواری تھیں اور زینب و رقیہ جناب خدیجہ کی بہن
..............
١۔ السیرة النبویة ج١ ص ١٤١۔
٢۔ اختلاف روایات کے بارے میں۔ اصابہ ج٣ ص ٦١١، سیرت حلبیہ ج١ ص ١٤٠، اسد الغابہ ج٥ ص ٧١و ص ١٢١ ملاحظہ فرمائیں۔
ہالہ کی بیٹیاں تھیں ان کی والدہ کے انتقال کے بعد جناب خدیجہ نے انہیں گود لے لیا تھا۔(١)
رسولۖ سے شادی کے وقت جناب خدیجہ کی عمر کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف ہے بعض نے یہ لکھا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ٢٥ سال تھی بعض نے یہ تحریر کیا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ٢٨ سال تھی، کچھ نے ٣٠، بعض نے ٣٥ اور بعض نے ٤٠ سال تحریر کی ہے۔(٢)
٢۔ حجر اسود کو نصب کرن
عرب کے نزدیک خانہ کعبہ کی بہت بڑی منزلت تھی وہ لوگ اس کی حرمت و اہمیت کے قائل تھے وہ زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا حج کرتے تھے۔ بعثت رسولۖ سے پانچ سال پہلے سیلاب کے سبب خانۂ کعبہ منہدم ہو گیا تھا قریش نے جمع ہو کر خانۂ کعبہ کی تعمیرنو اور اس کی تو سیع کا منصوبہ بنایا اور یہ طے کیاکہ یہ کام قریش اور دیگر اہل مکہ کی نگرانی میں ہوگا چنانچہ جب بنیاد یں بلند ہوکرحجر اسود کی جگہ تک پہنچیں تو ان میں اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ حجر اسود کو کون نصب کرے گا ہر قبیلہ یہی چاہتا تھا کہ حجر اسود کو نصب کرنے کا شرف اسے حاصل ہو، اس بات پر ان کے درمیان تلوار یں کھینچ گئیں ہر حلیف اپنے حلیف سے مل گیا، خانۂ کعبہ کی تعمیر کا کام بھی بند ہو گیا، وہ لوگ ایک بار پھر مسجد میں جمع ہوئے باہم مشورہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ سب سے پہلے جو شخص اس اجتماع میں داخل ہوگا وہی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا نیز انہوں نے یہ عہد کیا کہ وہ فیصلہ کرنے والے کے فیصلہ کو تسلیم کریں گے چنانچہ سب سے پہلے اس اجتماع میں محمد بن عبد اللہ داخل ہوئے۔ ان لوگوں نے کہا: یہ امین ہیں، ہم ان سے راضی ہیں، رسولۖ نے اس جھگڑے کونمٹانے کے لئے حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور فرمایا: ہر قبیلہ اس کا ایک ایک کونا پکڑے پھر فرمایا کہ سب مل کر اٹھائیں سب نے یکبارگی اٹھایا اور جب حجر اسود اپنی جگہ پر پہنچ گیا تو رسولۖ نے اپنے ہاتھوں سے نصب کیا اس کے بعد
..............
١۔ مناقب آل ابی طالب ج١ ص ١٥٩، اعلام الھدایة ج٣ ، الصحیح من سیرت النبیۖ الاعظم ج١ص ١٢١ و ١٢٦۔
٢۔ سیرت حلبیہ ج١ ص ١٤٠، البدایة و النھایة ج٢ ص ٢٩٥، بحار الانوار ج١٦ ص ١٢سیرت مغلطائی ص ١٢، الصحیح من سیرت النبی الاعظم، ج١ ،ص ١٢٦۔
خانۂ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوئی۔ (١)
مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ لوگ زمانۂ جاہلیت میں بھی رسولۖ کو حکم بناتے تھے کیونکہ آپۖ لوگوں کو فریب نہیں دیتے تھے۔(٢)
یقینا آپۖ کے اس عمل کا ان قبیلے والوں کے دل پر بہت گہرا اثر ہوا، اجتماعی حیثیت حاصل کرنے کے لئے رسولۖ نے اپنی حیات کا عظیم سرمایہ خرچ کیا اور انوکھا کردار ادا کیا اور ان کی توجہ کو اپنی قیادت کی صلاحیت اور انتظامی لیاقت کی طرف مبذول کیا اور بلند بینی، عقلمندی و تجربہ اور امانت داری کے ذریعہ ان کا اعتماد حاصل کیا۔
٣۔ حضرت علی کی ولادت او ر نبیۖ کے زیر دامن پرورش
حضرت محمدۖ اور حضرت علی کے درمیان جو محبت و الفت تھی، اسے خاندانی محبت میں محدود نہیں کیا جا سکتا آپ دونوں کے درمیان فکری اور روحانی لگائو تھا۔ فاطمہ بنت اسد ابھی اس بچہ کو لیکر نکلنے نہیں پائی تھیں کہ جو عین خانۂ کعبہ میں پیدا ہوا ہے (٣) خودرسولۖ ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور علی کو ان سے لے لیتے ہیں انہیں سینہ سے لگاتے ہیں (٤) حضرت علی کے لئے یہ آپۖ کی عنایت و اہتمام کی ابتداء ہے ۔
یہ مولود اپنے والدین اور اپنے چچا زاد بھائی حضرت محمدۖ کی گود میں پروان چڑھا، رسولۖ جناب خدیجہ سے شادی کے بعد اکثر اپنے چچا ابو طالب کے گھر جایا کرتے اور مولود کو اپنی محبت وشفقت سے سرشار کرتے تھے، لوریاں دے کر سلاتے ، اپنے سینہ پر لٹاتے، اور جب یہ سو جاتے توان کی گہوارہ جنبانی کرتے تھے،
..............
١۔ تاریخ یعقوبی ج٢ ص ١٩، سیرت ابن ہشام ج١ ص ٢٠٤، البدایة النہایة ج٢ ص ٣٠٠، تاریخ طبری ج٢ ص ٣٧۔
٢۔ سیرت حلبیہ ج١ ص ١٤٥۔
٣۔حاکم نیشاپوری لکھتے ہیں: یہ بات متواتر حدیث ثابت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جوف کعبہ میں پیدا ہوئے ہیں، مستدرک علی الصحیحین ج٣ ص ٤٨٣۔
٤۔الفصول المہمة ابن صباغ ص ١٣۔
نگہداری و پاسبانی کا یہ سلسلہ عرصۂ دراز تک جاری رہا اس لطف و محبت نے حضرت علی کے کردار و شعور پر اتنا اثر کیا کہ اس کا اظہار آپ کے کلام و زبان سے بھی ہو ا۔ چنانچہ رسولۖ سے آپۖ کوجو شدید قربت تھی اس کے بارے میں فرماتے ہیں۔
''قد علمتم موضعی من رسول اللّہ بالقرابة القریبة و المنزلة الخصیصة، وضعنی فی حجرہ و انا ولید یضمنی الیٰ صدرہ و یکنفنی فی فراشہ و یمسّنی جسدہ و یشمّنی عرفہ و کان یمضغ الشیء ثم یلقمنیہ وما وجد لی کذبة فی قول ولا خطلة فی فعل، ولقد کنت اتبعہ اتباع الفصیل اثر امہ یرفع لی فی کل یوم من اخلاقہ علما و یامرنی بالا قتداء بہ۔''(١)
یہ بات تو تم سبھی جانتے ہو کہ قریبی قرابتداری اور مخصوص قدر و منزلت کے سبب رسولۖ کے نزدیک میرا کیا مرتبہ تھا۔ رسولۖنے مجھے بچپنے ہی میں گود لے لیا تھا، آپۖ مجھے سینہ سے لگاتے اور اپنے بستر پر اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم کو مجھ سے مس کرتے تھے اور مجھے اپنی خوشبو سنگھاتے تھے۔ کسی چیز کو آپۖ پہلے چباتے تھے اور پھر لقمہ بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے، آپۖ نے نہ تو میری کسی بات کو خلاف واقعہ پایا اور نہ میرے کسی کام میں کوئی لغزش دیکھی ، میں آپۖ کے پیچھے اس طرح چلتا تھا جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے ، آپ ہر روز میرے لئے اپنے اخلاق کا پرچم بلند کرتے تھے اور مجھے اس کی اقتدا کرنے کا حکم دیتے تھے۔
جب قریش مالی بحران کا شکار ہوئے تو حضرت محمدۖ اپنے چچا جناب حمزہ اور عباس کے پاس گئے اور ان سے یہ خواہش کی کہ جناب ابو طالب کا بارتقسیم کر لیا جائے چنانچہ طالب کو عباس اور جعفر کو حمزہ اپنے گھر لے گئے ، عقیل کو جناب ابو طالب نے اپنے پاس ہی رکھا، حضرت علی کو محمدۖلے گئے اور انہیں مخاطب کرکے فرمایا: ''قد اخترت من اختار اللّٰہ لی علیکم علیا''۔ (٢)
..............
١۔نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ١٩٢۔
٢۔مقاتل الطالبین ص ٣٦، تاریخ کامل ج١ ص ٣٧۔
میں نے اسی کو منتخب کیا ہے جس کو خدا نے میرے لئے منتخب فرمایا ہے اور علی کو تم پر منتخب کیا ہے اس طرح علی اپنے ابن عم کے گھر اور ان کی سرپرستی میں چلے گئے، آپ کی شخصیت نکھرنے لگی، آپ نبیۖ کی آخری سانس تک ان سے جدا نہیں ہوئے۔ رسولۖ خدا نے علی کے بارے میں جواہتمام کیا تھا اس کی علت کوفقط مالی و اقتصادی بحران میں محدود نہیں کیا جا سکتا، اس سے ہماری سمجھ میںیہ بات آتی ہے کہ رسولۖ نے حضرت علی کی تربیت و سرپرستی اس لئے کی تھی تاکہ آپ رسولۖ کی اس شریعت کوبچائیں جس کے لئے خدا نے اپنی مخلوق میں سے سب سے بہترین فرد کو اور اپنے بندوں میں سب سے اعلیٰ وبرگزیدہ ذات کو منتخب کیاتھا۔
اسی طرح خدا نے حضرت علی کے لئے یہ پسند فرمایا تھا کہ آپ عہد طفلی سے ہی آغوش ِ رسولۖ میں زندگی گزاریں اور آنحضرتۖ کی محبت و شفقت سے بہرہ ور ہوں رسولۖ کے اخلاق و عادات کو اپنائیں، یہ تو ایک طرف دوسری طرف رسولۖ نے علی کے ساتھ اپنے محبوب فرزند جیسا سلوک روا رکھاعلی ہر وقت رسولۖ کے ساتھ ساتھ رہے، ہر انقلاب و حادثہ میں آنحضرت ۖ کے رفیق رہے کیونکہ رسولۖ آپ کو چھوڑتے ہی نہیں تھے۔ (١)
ہمارے سامنے تاریخ نے حضرت علی کی جو سیرت پیش کی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی نے رسولۖ کی زیر نگرانی پیغام رسانی کے میدان میں بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعدجو مہارت حاصل کر لی تھی اور علی کے لئے رسولۖ نے روحی و نفسی تربیت کاجو خاص اہتمام کیا تھا اس کے سبب علی ،رسولۖ کے بعد سیاسی ،فکری اور علمی مرجعیت و محور کا استحقاق پیدا کر چکے تھے چہ جائیکہ سیاسی مرجعیت۔
٤۔ بعثت سے قبل رسولۖ کی شخصیت
حضرت محمدۖ کا نام جزیرہ نما عرب میں اس وقت روشن ہو ا جب اس معاشرہ میں خلفشار و پراگندگی کے آثار ہر طرف رونما ہو رہے تھے اور حضرت محمدۖ کی شخصیت روز بروز ابھرتی اور نکھرتی جا رہی تھی۔
..............
١۔ نہج البلاغہ خطبہ ١٩٢، شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج٤ ص ٣١٥۔
کردار و کمال اور اخلاق کے میدان میں آپ کی شخصیت مسلم ہو چکی تھی ایک طرف خاندانی شرافت وفضیلت اور پاکیزہ ولادت ، دوسری طرف غیبی امداد اور خدائی نگرانی و صلاح(عصمت) ہے جو آپۖ کو ہر گناہ اوربرائی سے بچاتی ہے۔
آپۖ کے ساتھ سب سے زیادہ حضرت علی بن ابی طالب رہتے تھے، وہی سب سے زیادہ آپ کی معرفت رکھتے تھے، رسولۖ کے بارے میں جو علی نے بیان کیا اس سے سچا کسی کا کلام نہیں ہو سکتا۔ فرماتے ہیں:
''ولقد قرن اللّہ بہ من لدن ان کان فطیما اعظم ملک من ملائکتہ یسلک بہ طرق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیلہ و نہارہ''۔ (١)
خدا نے آپۖ کی دودھ بڑھائی کے زمانہ ہی سے ایک عظیم فرشتہ آپۖ کے ساتھ مقرر کر دیا تھا، وہ آپۖ کو رات، دن اعلیٰ خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں پر چلاتا تھا۔
رسولۖ کے بارے میں روایت ہے کہ آپۖ بچپن ہی سے بتوں کونگاہ تنفّرسے دیکھتے تھے جب آپۖ نے اپنے چچا جناب ابوطالب کے ساتھ شام کا سفر کیا تھا اس میں آپۖ نے بتوںکو کوئی اہمیت دینے سے انکار کر دیا تھا۔(٢)
بیشک محمدۖ نے اپنی ذات و شخصیت کی تعمیر کے لئے ایک خاص نہج اختیار کیا تھا جس نے آپۖ کی حیات کو معنویت اور بلند اقدار سے معمور کیا آپۖ کسی پر بار نہیں بنے اور کام سے دست کش نہیں ہوئے نوجوانی کے زمانہ میں اپنی بکریاں چرائیں(٣) ، عنفوان شباب میں تجارت کے لئے سفر کیا (٤) دوسری طرف ہم آپ میں انسانیت کا حسن و جمال کمزوروں اور ناداروں سے محبت و ہمدردی کا جلوہ دیکھتے ہیں زید بن حارثہ کے
..............
١۔ نہج البلاغہ خطبہ ١٩٢ ۔
٢۔السیرة النبویة ج١ ص ١٨٢، الطبقات الکبریٰ ج١ ص ١٥٤۔
٣۔سیرت حلبیہ ج١ ص ١٢٥، سفینة البحار مادہ نباء ، السیرة النبویہ ج١ ص ١٦٦۔
٤۔ بحار الانوار ج١٦ ص٢٢ ، کشف الغمہ ج٢ ص ١٣، تاریخ کامل ج٢ ص ٢٤۔
ساتھ آپ کا سلوک اس کا بہترین ثبوت ہے۔
زید نے اپنے باپ کے پاس جانے سے انکار کر دیا تھا اور حضرت محمدۖ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی تھی۔(١)
حضرت محمدۖ بعثت سے پہلے عہدِجوانی میں بھی ایک عقلمند، فاضل و رشید تھے، جزیرہ نما عرب کے جاہلی معاشرہ میں آپۖ انسانی و اجتماعی اقدار کے حامل تھے۔ اپنی مثالی شخصیت کے لحاظ سے آپۖ معاشرۂ انسانی پر جوفوقیت رکھتے تھے، اس کی گواہی خود قرآن مجید نے اس طرح دی ہے : انّک لعلیٰ خلق عظیم۔ (٢) یقینا آپۖ خلق عظیم پر فائز ہیں۔
..............
١۔ الاصابہ ج١ ص ٥٤٥، اسد الغابہ ج٢ ص ٢٢٥ ۔
٢۔ قلم:٤۔
|