منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خدا)
 

دوسرا باب
پہلی فصل
ولادت و پرورش کا عہد
دوسری فصل
شباب و جوانی کا دور
تیسری فصل
شادی سے بعثت تک


پہلی فصل
ولادت و پرورش
١۔ بت پرست معاشرہ کی جھلکیاں
بعثت نبوی سے قبل جزیرة العرب کے معاشرہ میں ظلم و فساد کا دور دورہ تھا۔ وہاں کے لوگوں کا کوئی متحدہ محاذ و بلاک نہیں تھا اور ان کی اجتماعی و ثقافتی خصوصیتیں، جو کہ صحرائی ماحول کی پیداوار تھیں، ان کی زوال پذیر حالت کو روکنے کے لئے کافی نہیں تھیں ، تباہی کے آثار جزیرة العرب کے معاشرہ میں نمایاں ہو چکے تھے اور ان کے درمیان جو معاہدے ہوتے تھے اس کی ایک اجتماعی خصوصیت تھی لیکن اس کے تعدد سے یہ بات عیاں ہے کہ ان کے معاشرہ میں مرکزیت ختم ہو چکی تھی۔
نہ ہی اس معاشرہ میں ہمیں کوئی ایسی اصلاحی و انقلابی تحریک نظر آتی ہے جس کو تاریخ نے بیان کیا ہو جواس معاشرہ میں ابھری ہو اوراس نے انہیں بہتر و خوش حال زندگی کی طرف دعوت دی ہو ہاں پراگندہ حالت میںبعض لوگوں کی تحریک ضرور تھی جسے اجتماعی ظلم و تعدی کا رد عمل ہی کہا جا سکتا ہے اس کے بانی جزیرة العرب کے بہت کم لوگ تھے اور یہ تحریک نہ تو ایک نظر یہ کے حد تک پہنچ سکی اور نہ ہی معاشرہ میں کوئی انقلاب برپاکر سکی(١) معاشرۂ قریش میںخلفشاراور اختلاف کو ہم خانۂ کعبہ کی تعمیر نو کے سلسلہ میں دیکھ چکے ہیں حالانکہ اس وقت قریش عرب کے قبائل میں سب سے زیادہ معزز اور متحد تھے۔ اس معاشرہ کی تباہی اور
..............
١۔ السیرة النبویة ج١ ص ٢٢٥۔
شکست و ریخت کو ہم جزیرہ نما ئے عرب میں مقیم یہودیوں کی دھمکیوں سے بھی ثابت کر سکتے ہیں یہاں کے
یہودجزیرہ نما عرب کے لوگوں سے کہا کرتے تھے بشریت کو نجات دلانے والا آسمانی شریعت کے ساتھ عنقریب ظہور کرے گا، نیز کہتے تھے: ایک نبیۖ ظہور کرے گا جو تمہارے بتوں کو توڑ دے گا۔(١)

٢۔رسولۖ کے آباء واجداد کا ایمان
رسولۖ نے ایسے موحد گھرانے میں ولادت و پرورش پائی جو کہ بلند اخلاق اور اعلیٰ اقدار کا حامل تھا۔ آپۖ کے جد عبد المطلب کے ایمان کا علم توہمیں ان کی اس دعا سے ہو جاتا ہے جو انہوں نے اس وقت کی تھی جب حبشی ابرہہ نے خانۂ کعبہ مسمار کرنے کے لئے چڑھائی کی تھی۔ اس وقت کعبہ کی حفاظت کے لئے عبدالمطلب نے کسی بت سے التجا نہیں کی تھی بلکہ خدائے واحد پر توکل کیا تھا۔(٢)
بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ عبد المطلب پیشین گوئیوں کے ذریعہ نبیۖ کی عظمت اور ان کے مستقبل سے واقف تھے چنانچہ انہوں نے رسولۖ کا واسطہ دے کر اس وقت بارش کی دعا کی تھی جب رسولۖ کی عمر بہت کم تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ رزق و نعمت دینے والے خدا کے نزدیک ان(محمدۖ) کی بڑی منزلت ہے ۔(٣) عبد المطلب کے مومن ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ انہوں نے آپ کے بچپنے میں ام ایمن سے فرمایا کہ خبردار ان (محمدۖ)سے غافل نہ ہونا۔ (٤)
یہی حال آپ کے چچا جناب ابو طالب کا ہے تبلیغ رسالت کے پیش نظر وہ بھی تا حیات، رسولۖ کی حفاظت و پشت پناہی کرتے رہے اس سلسلہ میں انہوں نے قریش کے بائیکاٹ اورشعب ابو طالب می گھیرائو اور ان کی دوسری اذیتوں کو برداشت کیا۔ اس حقیقت کو ہم ابو طالب کے بارے میں نقل ہونے والی روایتوں میں
..............
١۔بحار الانوار ج١٥، ص ٢٣١، السیرة النبویة ج١ ص ٢١١، البقرة : ٨٩۔
٢۔سیرة النبویة ج١ ص ٤٣۔٦٢، تاریخ کامل ج١ ص ٢٦٠، بحار الانوار ج٥ ص ١٣٠۔
٣۔سیرة حلبیہ ج١ ص ١٨٢، الملل و النحل شہرستانی ج٢ ص ٢٤٨۔
٤۔سیرة زینی دحلان جو کہ سیرة حلبیہ کے حاشیہ برچھپی ہے : ج١ ص ٦٤، تاریخ یعقوبی ج٢ ص ١٠۔
دیکھتے ہیں کہ وہ رسولۖ کی حفاظت کا کتنا خیال رکھتے تھے۔(١)
ہاں بعض (ضعیف) روایتوں میں رسولۖ کے والدین کی طرف شرک اور بت پرستی کی نسبت دی گئی ہے ،لیکن ان کے ایمان کی دلیل رسولۖ کا یہ قول ہے:
''لم ازل انقل من اصلاب الطاھرین الیٰ ارحام الطاھرات''۔
میں پاک و پاکیزہ صلبوں سے پاک و پاکیزہ رحموں میں منتقل ہوتا رہا۔
اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپۖ کے آباء و اجداد اور مائیں ہر شرک و رجس سے پاک تھیں۔

٣۔ ولادتِ رسولۖ
عیسائیت نے انسانی معاشرہ میں نہ تو نفوذ ہی پیدا کیا تھا اور نہ ہی اس کے ایسے کارنامے ہیں کہ جن کا ذکر کیا جاسکے اس کے نتیجہ میں دنیا میں گمراہی و انحراف پھیل گیا تھا لوگ حیرتوں اور فتنوں کی گمراہیوں میں مبتلا ہو چکے تھے جاہلوں کی جاہلیت نے ان کوبے وقعت کر دیاتھا، روم کی حالت بھی اپنے حریف ملک ایران کی حالت سے کچھ کم بدتر نہیں تھی اور جزیرة العرب کی حالت ان دونوں سے بہتر نہیں تھی ہر ایک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا تھا۔
اس وقت کی انسانی حیات کے ایک المناک گوشہ کو قرآن مجید نے نہایت ہی فصیح و بلیغ انداز میں بیان کیا ہے اور اسی طرح اہل بیت نبوت کے سید و سردار علی ابن ابی طالب نے اپنے متعدد خطبوں میں ان کی افسوسناک حالت کو بیان فرمایا ہے۔ جس معاشرہ میں نبیۖ کو مبعوث کیا گیا تھا اس کی حالت کو آپ نے اس طرح بیان فرمایا ہے :
١۔ السیرة النبویہ ج١ ص ٩٧٩، تاریخ ابن عساکر ج١ ص ٦٩، مجمع البیان ج٧ ص ٣٧، مستدرک حاکم ج٢ ص ٦٢٣، طبقات الکبریٰ ج١، ص ١٦٨، سیرة حلبیہ ج١ ص١٨٩، اصول کافی ج١ ص ٤٤٨، الغدیر ج٧ ص ٣٤٥۔
''ارسلہ علیٰ حین فترة من الرسل و طول ھجعة من الامم و اعتزام من الفتن و انتشار من الامور و تلظّ من الحروب و الدنیا کاسفة النور، ظاہرة الغرور علیٰ حین اصفرار من و رقھا و ایاس من ثمرھا و اغورار من مائھا، قد د رست منائر الھدیٰ و ظھرت اعلام الردیٰ فھی متجھمة لاھلھا، عابسة فی وجہ طالبھا ثمرھا الفتنة و طعامھا الجیفة و شعارھا الخوف و دثارھا السیف۔'' (١)
اللہ نے اپنے رسولۖ کو اس وقت بھیجا جب رسولوںکی آمد کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا، امتیں عرصۂ دراز سے خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں فتنے سر اٹھا رہے تھے، تمام چیزوں کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے، دنیا کی رونق ختم ہو چکی تھی ، اس کی فریب کاریاںکھلی ہوئی تھیں، اس کے پتے زرد ہو گئے تھے اور پھلوں سے نا امیدی ہو چکی تھی، پانی زمین میں تہ نشیں ہو چکا تھا۔ ہدایت کے نشان مٹ گئے تھے، ہلاکت و پستی کے پرچم کھلے ہوئے تھے، دنیا اپنے باشندوں کے سامنے تیور چڑھائے ہوئے کھڑی تھی، اس کا پھل فتنہ تھا، اس کی خوراک مردار تھی اس کے اندر کا لباس خوف اور ظاہری لباس تلوار تھی۔
بشریت ایسے ہی سخت و دشوار حالات سے دو چار تھی کہ نور الٰہی چمکا اور خدا کے بندوں اور روئے زمین پر بسنے والوں کو بہترین زندگی اور ابدی سعادت کی بشارت دی اور سر زمین حجاز ١ عام الفیل مطابق ٥٧٠ئکو ماہ ربیع الاوّل میں بابرکت ہو گئی، جیسا کہ اکثر مورخین و محدثین نے لکھا ہے۔
آپ کے روزِ ولادت کو اہل بیت نے بیان کیا ہے واضح ہے کہ گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرماتے ہیں آنحضرتۖ نے ١٧ ربیع الاول بروز جمعہ طلوع فجر کے بعد ولادت پائی، مذہب امامیہ کے درمیان یہی قول مشہور ہے لیکن عامہ کا نظریہ یہ ہے کہ آپۖ کی ولادت١٢ ربیع الاول دو شنبہ کے روز ہوئی۔(٢)
..............
١۔ نہج البلاغہ خطبہ٨٩۔
٢۔ ملاحظہ ہو امتاع الاسماع۔
تاریخ و حدیث کی معتبر کتابوں میں وہ عجیب و غریب حوادث بیان ہوئے ہیں جو آپ کی ولادت کے دن رونما ہوئے تھے مثلا: فارس کے آتشکدہ کی آگ بجھ گئی، شدید زلزلہ آیا کہ جس سے عیسائیوں اور یہودیوں کے گرجا و کلیسا منہدم ہو گئے ہر وہ چیز اپنی جگہ سے اکھڑ گئی جس کی پرستش کی جاتی تھی اور خانہ کعبہ میں نصب ہوئے بت منہ کے بل گر پڑے کا ہنوںاور ساحروں کے اعداد و شمار اور حساب و کتاب بے کار ہوگئے، کچھ ایسے ستارے طلوع ہوئے جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے تھے جب آپۖ پیدا ہوئے تو آپ کی زبان پر ''اللّٰہ اکبر، و الحمد للّٰہ کثیرا، و سبحان اللّٰہ بکرة و اصیلا''۔ تھا۔(١)
نبیۖ نے اپنے دو ناموں ، محمدۖ واحمد، سے شہرت پائی، قرآن مجید نے دونوں کا ذکر کیا ہے مورخین نے لکھا ہے کہ آپۖ کے جد عبد المطلب نے آپ کا نام محمدۖ رکھا تھا اور جب ان سے محمد کی وجہ تسمیہ معلوم کی گئی تو انہوں نے جواب دیا: میں چاہتا ہوں کہ آسمان اور زمین پران کی تعریف کی جائے(٢) آپ کے جد سے پہلے آپ کی والدہ نے آپ کا نام احمد رکھا تھا۔
اسی نام کی بشارت حضرت عیسیٰ کی زبانی انجیل میں دی گئی ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اسکو بیان کیا ہے اور علمائے اہل کتاب نے اس کی تصدیق کی ہے ، خداوند عالم نے اسے اس طرح نقل کیا ہے :
''مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد ''۔(٣)
اور میں تمہیں اپنے بعد ایک رسولۖ کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہوگا۔
اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے کہ ایک شخص دو نام، دو القاب اور دو کنیتوں سے پہچانا جائے جزیرة العرب و غیرہ میں ایسا ہوتاآیاہے ۔
..............
١۔تاریخ یعقوبی ج٢ ص ٨، سیرة حلبیہ ج١ ص ٩٢۔
٢۔ سیرة حلبیہ ج١ ص ١٢٨۔
٣۔ صف: ٦، ملاحظہ ہو سیرة حلبیہ ج١ ص ٧٩۔
٤۔ مبارک رضاعت
حضرت محمدۖ کی ساری ذمہ داری ان کے جد عبد المطلب کے سپرد ہو گئی تھی کہ جو عین شباب کے عالم میں اپنے چہیتے بیٹے جناب عبد اللہ سے محروم ہو گئے تھے، اس لئے آپ کے جد عبد المطلب نے آپ کی پرورش کی ذمہ داری ابو لہب کی کنیز ثویبہ کے سپرد کر دی تاکہ آپ کو بنی سعد کے پاس بادیہ میں بھیج دیا جائے اور وہاں کے صاف و شفاف ماحول میں نشو نماپائیں اور ان وبائوں سے دور رہکر-جو کہ اہل مکہ کے بچوں کے لئے خطرہ بنی ہوئی تھیں۔ بادیہ نشین لوگوں کے بچوں کے ساتھ پرورش پائیں، جیسا کہ اہل مکہ کے شرفاء کی عادت تھی کہ وہ اپنے بچے دودھ پلانے کے لئے دودھ پلانے والیوں کو دیدیا کرتے تھے اور دودھ پلانے کے سلسلہ میں قبیلۂ بنی سعد کی عورتیں مشہور تھیں، وہ مکہ کے مضافات اور حرم کے نواح میں رہتی تھیں دودھ پینے والے بچے لینے کے لئے ان کی عورتیں سال میں ایک مرتبہ مکہ آتی تھیں جس سال نبیۖ نے ولادت پائی تھی اس سال بہت سی عورتیں آئی تھیں کیونکہ یہ قحط کا سال تھااس لئے انہیں مکہ کے شرفاء سے مدد لینا تھی۔
بعض مورخین کا خیال ہے کہ ان دودھ پلانے والیوں میں سے کسی نے بھی محمدۖ کو نہ لیا کیونکہ آپۖ یتیم تھے، قریب تھا کہ ان کاقافلہ واپس چلا جائے، حلیمہ بنت ابی ذویب سعدیہ کے علاوہ ہر عورت کو بچہ مل گیا تھا، دوسری دودھ پلانے والیوں کی مانند پہلے حلیمہ نے بھی آپۖ کو لینے سے انکار کر دیا تھا لیکن جب انہیں کو ئی بچہ نہ ملا تو انہوں نے اپنے شوہر سے کہا: خدا کی قسم! میں اس یتیم کے گھر جائونگی اور اسی کو لائونگی، ان کے شوہر نے رضامندی کا اظہار کیا تو وہ عبدالمطلب کے گھر واپس آئیں اور محمدۖ کو گود میں لیا ، گود لیتے ہی ان کا پورا وجود اس امید سے معمور ہو گیا کہ اس بچہ کے ذریعہ انہیں بہت سی خیر و برکت ملے گی۔ (١)
مورخین کا یہ خیال ہاشمی گھرانے کی عظمت اور رسولۖ کے جد، کہ جو اپنے جود و کرم اور مفلس و محتاجوں کی مدد کرنے کے حوالے سے مشہور تھے ۔
مزید بر آں بعض مورخین نے لکھا ہے کہ آنحضرتۖ کے پدر بزرگوار کا انتقال آپۖ کی ولادت کے کئی مہینے
..............
١۔ سیرة حلبیہ ج١ ص ١٤٦۔
کے بعد ہوا تھا(١) مورخین نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ آپۖ نے حلیمہ کے پستان کے علاوہ کسی کے پستان کو منہ نہیں لگایا تھا۔ (٢)
حلیمہ کہتی ہیں: عبد المطلب نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں بنی سعد کی عورت ہوں انہوں نے کہا: تمہارا کیا نام ہے؟ میں نے کہا : حلیمہ اس پر عبد المطلب مسکرائے اور فرمایا: مبارک ہو مبارک سعد وحلم ایسی دو خصلتیں ہیں کہ جن میں زمانہ کی بھلائی اور ابدی عزت ہے ۔(٣)
عبد المطلب کے یتیم کو لینے کے سلسلہ میں حلیمہ کو جو خیر و برکت کی امید ہوئی تھی اس میں انہیں خسارہ نہیں ہوا مروی ہے کہ حلیمہ کے پستان میں دودھ نہیں تھا لیکن جب محمدۖ نے منھ لگایا تو ان کے پستان میں دودھ بھر گیا ۔
حلیمہ کہتی ہیں: ہم نے اپنے مال و متاع میں اسی وقت سے خیر و برکت محسوس کی ہے جب سے رسولۖ کو پرورش کے لئے لیا یہاں تک کہ قحط و غربت کے بعد ہم مالدار ہو گئے۔(٤)
عبد المطلب کا پوتا حلیمہ اور ان کے شوہر کی گود میں چلا گیا اور تقریبا ٥ سال تک وہیں رہا دو سال کے بعد حلیمہ انہیں لے کر واپس آئیں لیکن اب تو حلیمہ آپ کے وجود میں خیر و برکت محسوس کر چکی ہیں اور آپ کو دو بارہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہیں دوسری طرف آپۖ کی والدہ امراض اور وباء سے بچانے کی خاطر آپۖ کومکہ سے دور رکھنا چاہتی ہیں لہذا حلیمہ خوشی خوشی رسولۖ کو اپنے ساتھ لیکر واپس لوٹ گئیں۔
روایت ہے کہ حلیمہ دوبارہ آپ کو اس وقت مکہ واپس لائیں جب انہیں آپۖ کی جان خطرہ میں نظر آئی کیونکہ حلیمہ نے نصاریٰ کی اس جماعت کو دیکھا تھا جو حبشہ سے حجاز آئی تھی اس نے محمدۖ میں نبی موعود کی علامتیں دیکھیں تو اصرار کیا کہ ہم انہیں اپنے ساتھ حبشہ لے جانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی پرورش کا شرف حاصل کریں۔ (٥)
..............
١۔ الصحیح من سیرة النبی الاعظم ۖ ج١ ص ٨١، سیرة حلبیہ ج١ ص ٨١۔
٢۔ بحار الانوار ج١٥ ص ٣٤٢۔
٣۔سیرة حلیبہ ج١ ص ١٤٧۔
٤۔بحار الانوار ج١٥ ص ٣٤٥، المناقب ابن شہر آشوب ج١ ص ٢٤، سیرة حلبیہ ج١ ص ١٤٩۔
٥۔ السیرة النبویة ج١ ص ١٦٧، بحار الانوار ج١٥ ص ١٠٥، سیرة حلبیہ ج١ ص ١٥٥۔
٥۔ نبی ۖ کے واسطہ سے بارش
مورخین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رسولۖ کے واسطہ سے آپ کی حیات میں متعدد بار بارش ہو ئی ہے ۔آپ کی شیر خوارگی کے زمانہ میں آپ کے جد اور آپ کے چچا ابو طالب کی زندگی میں ، پہلی بار اس وقت آپ کے واسطہ سے بارش ہو ئی تھی جس وقت اہل مکہ شدید قحط میں مبتلا تھے، دو سال سے بارش نہیں ہوئی تھی، جناب عبد المطلب نے اپنے بیٹے ابو طالب کو حکم دیا کہ ان کے پوتے حضرت محمدۖ کو لائیں حالانکہ وہ اس وقت شیر خوار تھے چنانچہ ابوطالب انہیں لائے، اور دادا کی گود میں دیدیا، عبد المطلب انہیں لئے ہوئے خانۂ کعبہ گئے اور انہیں آسمان کی طرف بلند کرکے عرض کی: بار الٰہا! اس بچہ کے حق کا واسطہ، اسی جملہ کو باربار کہتے اور دعا کرتے رہے کہ ہمیں موسلادھار بارش کے ذریعہ سیراب کر کچھ دیر نہ گذری تھی کہ آسمان پر گھٹا چھا گئی اور اتنی شدید بارش ہوئی کہ لوگوں کو مسجدالحرام کے منہدم ہونے کا خوف لاحق ہو گیا۔ (١)
دوبارہ آپ کے وسیلہ سے اس وقت بارش ہوئی جب آپۖ کا بچپناتھا جناب عبد المطلب آپۖ کو لیکر کوہ ابو قبیس پرگئے قریش کے دوسرے نمایاں افراد بھی ان کے ہمراہ تھے تاکہ نبیۖ کی برکت سے دعا مستجاب ہو جائے۔ اس واقعہ کی طرف جناب ابو طالب نے اس طرح اشارہ کیا ہے :

ابو نا شفیع الناس حین سقوابہ
من الغیث رجاس العشیر بکور
و نحن-سنین المحل-قام شفیعنا
بمکة یدعو و المیاہ تغور(٢)
مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ قریش نے ابو طالب سے التماس کی کہ ہمارے لئے بارش کی دعا کریں تو ابو طالب ، نبیۖ کو مسجد الحرام کے پاس لائے، اس وقت آپ کا چہرہ سورج کی طرح دمک رہا تھا، ابو طالب نے نبیۖ کے واسطہ سے بارش کے لئے دعا کی تو آسمان پر بادل چھا گئے اورموسلا دھار بارش ہوئی اس صورت حال کودیکھ کر سب لوگ خوش ہو گئے۔ اس کرامت کا ذکر ابو طالب نے اس وقت کیا تھا جب قریش
..............
١۔الملل و النحل ج٢ ص ٢٤٨، سیرة حلبیہ ج١ ص ١٨٢ و ١٨٣۔
٢۔سیرة حلبیہ ج١ ص ٣٣١۔
نے نبیۖ اور ان کی رسالت سے دشمنی کی حد کر دی تھی، کہتے ہیں:

و ابیض یستسقیٰ الغمام بوجھہ
ربیع الیتامی عصمة للارامل
تلوذ بہ الھلاک من آل ہاشم
فھم عندہ فی نعمة و فواضل(١)
سفید رنگ سردار جس کے چہرہ سے بادل برسایا جاتاہے، جو یتیموں کا فریاد رس اور بیوائوں کا محافظ ہے یہ وہ ذات ہے جس کے سایہ میں آل ہاشم کے مجبور لوگ پناہ لیتے ہیں اور اس کے تصدق میں نعمت پاتے ہیں۔
ان تمام باتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رسول خدا کے دونوں کفیل خالص مومن تھے اور دونوں خدا پر ایمان رکھتے تھے ان کی عزت و افتخار ، توحید اور اللہ پر ایمان کے لئے اتنا کافی ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسولۖ نے اس گھر میں پرورش پائی تھی جوعقیدۂ توحید سے معمور تھا۔

٦۔ اپنی والدہ آمنہ کے ساتھ
آپۖ کے والد کا سایہ تو پہلے ہی اٹھ چکا تھا والدہ کی محبت و شفقت سے بھی آپۖ تا دیربہرہ یاب نہ رہ سکے، والدہ کو یہ امید تھی کہ عبد اللہ کا یتیم ان کی حیات میں جوان ہوگا اور شوہر کی جدائی کے بعد بیٹا سہارا بنے گا۔ مگر موت نے انہیں زیادہ مہلت نہیں دی، حلیمہ سعدیہ سے روایت ہے کہ وہ نبیۖ کو ان کے گھر لے کر آئیں اس وقت نبیۖ کی عمر پانچ سال ہو چکی تھی، آپ کی والدہ آمنہ یہ چاہتی تھیں کہ محمدۖ کو ساتھ لیکر اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کو جائیں اور اس سفرمیں محمدۖ یثرب میں بنی نجار میں سے اپنے ماموں کو بھی دیکھ لیں لیکن اس سفر میں رسولۖ کو ایک اور غم ہوا، آپ اپنے پدر بزرگوار کی قبر کی زیارت کرکے واپس آ رہے تھے کہ مقام ''ابوائ'' میں آپۖ کی والدہ کا انتقال ہو گیا گویا عہد طفلی میں آنحضرت ۖ کے قلب میں دو غموں کا اجماع ہو گیا آپ کی شخصیت کی تکمیل کے لئے یہ خدائی منصوبہ تھا۔
جناب ام ایمن نے ان کے قافلہ کو مکہ پہنچایا، یہ نبیۖ کے ساتھ رہیں یہاں تک کہ آپۖ کو آپۖ کے
..............
١۔سیرة حلبیہ ج١ ص ١٩٠، البدایہ و النہایة ج٣ ص ٥٢، بحار الانوار ج٨ ص ٢۔
جد عبد المطلب کے سپرد کیا عبد المطلب اپنے پوتے سے بہت محبت کرتے تھے۔ (١)

٧۔ اپنے جد عبد المطلب کے ساتھ
محمدۖ نے عبد المطلب کے دل میں جو مقام و مرتبہ حاصل کر لیا تھا وہ ان کے بیٹوں اور پوتوں میں سے کسی کو حاصل نہیں تھا حالانکہ وہ بطحاء و مکہ کے سردار تھے، روایت ہے کہ ایک مرتبہ عبد المطلب خانہ ٔ کعبہ کے چبوترے پر چادر بچھائے ہوئے بیٹھے تھے ،یہ چادرمخصوص آپ کے لئے بچھائی جاتی تھی اس وقت آپ کے چاروں طرف قریش کے سر بر آوردہ سردار اور ان کے بیٹے بیٹھے تھے، عبد المطلب کی نظر اپنے پوتے، محمدۖ پر پڑی، آپ نے حکم دیا کہ محمدۖ کے لئے راستہ چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ آپ کے پاس پہنچ گئے آپ نے انہیں اس خاص چادرپر اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔(٢) قریش کے سردار کی یہ خاص عنایت اس لئے تھی تاکہ قریش کے دلوں میں ان کی بلندی راسخ ہو جائے اوروہ آپ کے خلق عظیم سے متاثر تھے ہی ۔
قرآن مجید نے آپ کے اس دورِ یتیمی کا ذکر کیا ہے جس سے آپۖ اپنے پروردگار کی نگہبانی کے ساتھ گذرے ہیں ارشاد ہے : ''الم یجدک یتیماً فآویٰ '' کیاہم نے آپ کو یتیم پایا تو آپ کو پناہ نہیں دی، یتیمی کا دور انسان کی شخصیت اور اس کی ترقی پر اثر انداز ہوتا ہے ، اس سے انسان کے اندر خود اعتمادی، پختگی، مشکلات و مصائب پر صبر کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے خدا وند عالم نے اپنے نبی ۖ کو اس طرح تیار کیا کہ آپۖ مستقبل میں پیش آنے والی مشکلوں کو برداشت کرنے اور اس رسالت کبریٰ کا بار اٹھانے پر آمادہ ہو جائیں جس سے آپۖ کا کمال نکھرے گا اور آپۖ کی شخصیت میں پختگی آئے گی۔ اس حقیقت کی طرف رسولۖ نے اس طرح اشارہ فرمایا ہے:
''ادبنی ربی فاحسن تا دیبی''(٣)
میرے پروردگار نے مجھے ادب سکھایاپس میں نے بہترین تربیت پائی۔
..............
١۔ سیرة حلبیہ ج١ ص ١٠٥۔
٢۔السیرة النبویة ج١ ص ١٦٨۔
٣۔ مجمع البیان ج٥ ص ٣٣٣ ملاحظہ ہو تفسیر سورة قلم۔
ابھی نبیۖ آٹھ سال کے بھی نہیں ہوئے تھے کہ آپۖ اپنے جد بزرگوار عبد المطلب، کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے عبد المطلب کی موت سے آپ کو جو صدمہ ہوا تھا وہ آپ کی مادر گرامی کی موت سے کم نہیں تھا آپۖ پر شدید رقت طاری تھی ، جنازہ کے پیچھے پیچھے قبر تک روتے ہوئے گئے تا حیات عبد المطلب کو یاد کرتے رہے کہ وہ آپۖ کے بہترین نگہبان تھے وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آپ نبی ہیں روایت ہے کہ ایک شخص یہ چاہتا تھا کہ عبد المطلب آپ سے نظر پھیر لیں ۔ آپ نے اس سے فرمایا: میرے بیٹے کے بارے میں کچھ نہ کہو اس کے پاس تو فرشتہ آتا ہے ۔(١)
..............
١۔ تاریخ یعقوبی ج٢ ص ١٠۔