إنتظار کیا اور منتظر کون ؟
 

چوتھی فصل : انتظارکے آثار اورنتائج :

جو فرائض اور ذمداریان اسے پهلے فصل میں منتظرین کے ذکر هوئیں اگ ان ذمداریون پر هم سب درست عمل کریں تو ضرور عقیدث انتظار کا ریشه همارے فردی اور اجتماعی زندگی میں سر سبز هو گا اور آهسته آهسته اس عمل اور کوشش کے ماسب نتائج اور اثرات سماج میں زندگی کے مختلف پهلو میں عصر ظهور سے پهلے هی رونما هونگے- اب هم انھیں نتائج میں سے بعض که کی طرف مختصر اشاره کریں گے –

۱ :مستقبل کی امید -
انتظار کے مثبت فردی نتائج میں سے ایک یه هے که عقیده انتظار او ر هر فرد منتظر کے دل میں مستقبل کے لئے امید پیدا کردیتا هے ،اور نهی اپنے مستقبل سے امید اس شخص کے فردی اور اجتماعی سطح پر مختلف قسم کے جدوجهد،کوشش اور حرکتوں میں ایک عظیم کردار ادا کرتی هے - اورشاید انتظار کے اسی فردی پهلو کو مد نظر رکھتے هوۓ معصومین نے منجی عالم امام عصر کے ظهور کے انتظار پر تاکید اور اسے اپنے وصیت ونصیحتوں کا مرکز قرار دیا هو –
جسیا که امرمومنین علیه السلام انتظار کے بارے میں فرماتے هیںں که انتظار انتظار محتوب خدا هو اور اسکے نتائج میں سے خدا کے رحمتوں کا اس شخص پر نازل هوتا هے - و انتظروا الفرج و لا تيأسوا من روح الله فإن أحب الأعمال إلى الله عز و جل انتظار الفرج ما دام عليه العبد المؤمن توكلوا على الله عزوجل(1) ”فرج ظهور کے انتظار کرو،اور رحمت خدا سے کبھی نا امید مت هو جاؤ ،بے شک خدا کے نزدیک سب سے بهتر عمل انتظار فرج هے جب تک بنده مومن خدا پر اپنا توکل رکھے :
اسی طرح انتظار هر طرح کے نا امیدی ،افسردگی اور عاجزی سے رهائی کا بهترین ذریعه هے که جسکےے آج کی (بقول )ترقی یافته اقوام دوچار هیں ،کها جاتاهے ایک رسرچ کے مطابق دنیا کے ۹۰ ⁄ لوگ مختلف قسم کے ناامیدی افسردگی و...جیسی نفسیاتی بیماریون سےرنج بھر رهیں -
اور اسیحقیقت کی طرف اشاره کرتے هوے امام زین العابدین فرماتے هیں : انتظار الفرج من أعظم الفرج‏ انتظار(2)فرج بهت بڑا کام اور بزرگترین رهائي هے-

۲:فردی اور اجتماعی اصلاح :
منجمله نتائج انتظارمی سے ایک دوسرا نتیجه اور اثر جو فردی اور اجتماعی دونوں سطح پر نمایاں هوتا هے وه فردی سطح پر نفس کی اصلا ح اور خود کوناپسد عادات واخلاق سے پاک کرکے اچھے اور نیک عادت واخلاق حسنیه سے زینت بخشنا هے -چونکه ایک واقعی منتظر خدا اور ولی خدا کو همیشه حاصر ناظردیکھتا هے اور همیشه اس کو شش میں هوتا هے که وه اپنے عمل وکردار کے ذریعے انکی تقرب اوررضایت حاصل کرۓ -
اور اجتماعی سطح پر وه نه صرف خود صالح هوتا هے بکه معاشرۓ کی اصلاح کے درپے هوتا هے اور همیشه مصلح کل کے ظهور کے لئے زمینه فراهم کرنے کی فکر میں هوتا هے ،اور چونکه اسے یقین هے که آخر کار اس طمین کا مالک وحاکم خدا کے صالح بندے هونگے اور قدرت پلٹ کر صاحب قدرت کے هاتھ آے گی تو اصلاح کی راه میں پیش آنے والی شواریوں سختیوں کےسامنے کبھی دل نهیں ٹوٹا اور نه ظالمون طاغوتیون کے مقابله کرنےمیں خوف وحراس اسکے دل میں بیٹھا دیتا هے ،اور اسےدل میں همیشه یه تمنا ،عمل میں یه اثراور زبان پر یه دعا هو گی -
اللَّهُمَّ إِنَّا نَرْغَبُ إِلَيْكَ فِي دَوْلَةٍ كَرِيمَةٍ تُعِزُّ بِهَا الْإِسْلَامَ وَ أَهْلَهُ وَ تُذِلُّ بِهَا النِّفَاقَ وَ أَهْلَهُ وَ تَجْعَلُنَا فِيهَا مِنَ الدُّعَاةِ إِلَى طَاعَتِكَ وَ الْقَادَةِ فِي سَبِيلِكَ وَ تَرْزُقُنَا بِهَا كَرَامَةَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ(3) پروردگارا هم تیرے طرف دولت کریمه کی رغبت رکھتے هیں جس کے ذریعے اسلام اور اسلام والے عزت پائیں اور نفاق واھل نفاق ذلیل هو جائیں اور هم کو اس حکومت حق میں اپنی اطاعت کی طرف بلانے والا قرار دے، اور اپنی راستے کی طرف دعوت دینے والا قرار دے اور همیں اس میں دنیا و اخرت دونوں کی کرامت دے-

۳: بقاۓ مذهب تشیع -
کتب اھل البیت کو اپنے ظلم وجور سے بھر پور تاریخ میں زوال وانقراض سے نجات دینے اور بچا کر رکھنے کا سب سے بڑا عامل عقیدهانتظار رها هے ،تاریخ اسلام اس بات پر گواه هے کی صدر اسلام سے آج تک کو ئی اور اسلامی گروه یا مکتب مکتب اھل بیت جیسے مظلوم اور مغلوب مقهور واقع نیں هوا هے بنی امیه کے دور سے لے کر آج تک خاندان نبوت سے محبت ان سے مودت رکھنے اور ظالم فاجر حکمرانوں کے سامنے سر نه جھکنے کی جرم میں هر طرح کی محرومیت ،بربریت ،جلاوطنی اور ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑا اور هر دور میں ظالم حکمرانوں کے قتل وغارت کا نشانه بنا رهے –اب اس حالت میں اگر امام زمانه کے ظهور اور انتظار فرج اپنا سحر انگیز اثر نه دکھایا هوتا تو کب سے مکتب اھل بیت صفحه ھستی سے مٹ چکا هوتا یا کم سے کم اتنی ترقی اور رشد نه کر لیتے ،بے شک پیروان مکتب اهل بیت نے سب کچھ کھونا تحمل کیا لیکن ایک دن کے لئے ظالم حکمرانوں کے سامنے سر تسلیم خم هونے اور دست بیعت کو پھلانے مو کبھی گوارا نه کیا (هيهات من الذلّة)کو کبھی قبول نهیں کیا ،اور یه سب عقیده انتظار کا کرشمه هے –
بے شک مکتب اهل بیت علیهم السلام کی بقا کے مخفیانه رازوں میں سے اهم ترین راز یهی روح انتظار اور عقیده انتظار هے جو هر شیعه مؤمن کے تن ومن میں زندگی وکامیابی کی امید پھونگتی هے چونکه جس قوم اور معاشرے کی هر فردپر منحی بشریت کے انتظار کی حالت حاکم هو تو خواه نهخواه وه معاشره حرکت میں هوتی هے اور همیشه جون وتون اصلاح کی طرف قدم اٹھے رهتی هیں جو خود دین ومذهب کی بقا کا سب بنتی هے اور اس حقیقت کا اعتراف بعض معربی دانشورں اور محققین نے بھی کی هے اور انھوں نے اس عقیدے کو اپنے استکباری سلطه جمانے کی راه میں سب سے بڑا مانع شمار کیا هے جسکا تذکره پهلے بھی (ضرورت انتظار کے بحث میں ) هوا هے-
اور نظریه انتظار اور امام زمانه کے وجود پر عقیدے کی اهمیت پر ورشنی ڈالٹے هوۓ فروفیسر هانری کربن (جرمن کے معصر فلاسفر جنهوں نے ایک مدت تک علامه طباطبائی کے ساتھ مختلف موضوعات پر خطوکتابت کا سلسله جاری رکھا پھر آخرمیں شیعه هو گے ) فرانس کے مشھور یونیورسیٹی سوربین میں ادیان کے متعلق جو کانفرنس هواتھا اس میں انھوں نے کها تھا که تمام ادیان اور مذاهب جھانی کے درمیان صرف کتب تشیع ایک ایسا مکتب هے جو جاویدانگی رکھتا هے اور اس میں استمرار کی قابلیت هے لهذا یه مکتب دوسروں کے لئے بھی قابل پیشکش هے –چونکه انکا عقیده هے که انسان کا خدا کے ساتھ رابطه کبھی قطع نهیں هو سکھتا بلکه انسان کامل جو اس روۓ زمین پر خدا کا نمائنده ،وواسطه فیض اور ولی مطلق هیں خالق ومخلوق کے درمیان واسطه هیں اور کبھی زمیں ان سے خالی نهیں هوتی هے اوریه وهی شخص هیں جسکے آمد کے انتظارمیں سب بیٹھے هوۓ هیں (4) اورتاریخ اسلام میں آج تک اهل بیت اطهار کے مانے والوں نے ظالم اور غاصب حکمرانوں کے خلاف جتنے بھی تحریکین چلائی هیں تو ان تمام تحریکوں کا ریشه عقیده انتظارمیں هے –جیسا که پیڑوشفکی (مورخ وسابق روسی علوم کا ماهر اور ایران شناس )اس بارے میں کهتا هے :مهدی کے انتظار میں آنکھیں بچھاۓ رکھنا ایران کے تیرویں صدی هجری کی عوامی تحریکوں کے عقائد میں شامل هے اور یه عقیده چودھوین صدی کے تحریکون میں پهلے سے زیاده کردار ادا کرتے هےۓ دیکھنے میں آیا -– اور آینده بھی اُمید هے امت مسلمه پهلے سے زیاده بیدار اور متحد هو جائیں اور اپنے دینی تحریکوں میں شدت ارو تعمیم دے دی جاۓ انشاء اﷲ عصر ظهور قریب هو گا -

-----
(1)صدوق: الخصال ج 2 ص 616
(2) كمال‏الدين ج : 1 ص : 32۰
(3)کلینی: اصول کافی ،ج۳ ،ص ۴۲۴ -
(4) جوادی آملی : امام مهدی موجود وموعود،ص ۱۰۶ -