۳ : علوم ومعارف اهل بیت کو رائج دینا –
علوم ومعارف اهل بیت علیه السلام کی نشر و إشاعت اور ترویج کرنا اهل ببت اطهار کے امر کو احیا کرنے کے مصادیق میں سے هے جس کے بهت تاکید کیا گیا هے “ اور منتظرین کی ایک اهم زمداریوں میں سے بھی هے ،جس طرح روایت میں امام صادق علیه السلام سے نقل کیا گیا هے آپ فرماتے هیں : تَزَاوَرُوا فَإِنَّ فِي زِيَارَتِكُمْ إِحْيَاءً لِقُلُوبِكُمْ وَ ذِكْراً لِأَحَادِيثِنَا وَ أَحَادِيثُنَا تُعَطِّفُ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فَإِنْ أَخَذْتُمْ بِهَا رَشَدْتُمْ وَ نَجَوْتُمْ وَ إِنْ تَرَكْتُمُوهَا ضَلَلْتُمْ وَ هَلَكْتُمْ فَخُذُوا بِهَا وَ أَنَا بِنَجَاتِكُمْ زَعِيمٌ .
“ایک دوسرے کی ملاقات کرو، زیارت پر جاو چونکه تمھارے ان ملاقاتوں سے تمھارے قلوب زنده اورهمارے احادیث کی یاد آوری هوتی هے ،اور هماری احادیث تمھارے ایک دوسرے پرمهربان هونے که سبب بنتی هیں ، لهذا گر تم نے ان احادیث کو لے لیا اور اس پر عمل کیا تو تم کامیاب هو جاؤ گے نجات پاؤ گۓ اور جب بھی اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا هلاک هے جاؤ گۓ ،پس ان احادیث پر عمل کرو میں تمھاری نجات کی ضمانت دونگا (1) اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں ابن شعبه حرّانی نے چھٹے امام سے نقل کیا هے آپ منتظرین کی توصیف میں فرماتے هیں :“....... وفرقة احّبونا وحفظوا قولنا ،واطاعو أمرنا ولم يخالفوا فعلنا فاولئك منّا ونحن منهم (2) اور ایک گروه وه هیں جو همیں دوست رکھتے هے ،همارے کلام کی حفاظت کرتے هیں ،همارے امر کی اطاعت کرتے هیں اور هماری سیرت اور فعل کی مخالفت نهیں کرتے هیں ، وه هم سے هیں اور هم ان سے هیں –
اورعصر غیبت میں امام زمانه کی بهترین خدمت جسکے امام صادق علیه السلام تمنا کرتے تھے ، علوم اهل بیت کی نشرو اشاعت انکی فضائل ومناقب کو لوگوں تک پهوچانا هے ، جو حقیقت میں دین خدا کی نصرت هے جس کے بارے میں پروردگار عالم خود فرماتا هے ”.... وَ لَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِىٌّ عَزِيز(3) “بے شک اﷲ اسے مدد کرۓ گا جو اسکی نصرت کرۓ اور بتحقیق خداوند عالم صاحب قدرت اور هر چیز پر غلبه رکھنے والاهے ”اس آیه مبارکه کے ذیل میں مفسیرین فرماتے هیں –که نصرت خدا سے ماد دین خدا کی نصرت مراد هے – پیغر اعظم اور ائمه معصومیں علیهم السلام کی نصرت مراد هے اور هر وه نصرت مراد هے جس میں خدا کی رضایت هے – لیکن حضرت صاحب العصر والزمان کا وجود مقدس کچھ علیحده خصوصیات کا مالک هے اور و ه خصوصیات انکی نصرت اور خدمت کی اهمیت وفضیلت کو بڑھانے کی موجب بنی هے ،یه اسلئے که آپکی کی نصرت اور یاری مظلومون غریبون وبے کسوں کی نصرت هے آپکی نصرت ذی القربی اور ولی نعمت کی یارو مدد هے آپکی نصرت تمام انبیاء اور اولیاء کے امیدوں کی تحقق کے راه میں جان نثاری هے آپکی نصرت عدل الھی کو جهان هستی میں پھلانے اور پرچم اسلام کو زمین کے کونے کونے میں لهرانے کی راه میں مشارکت هے
اسیلئے صادق آل محمد فرماتے هیں :”ولوأدركته لخدمتُ ايّام حياتي “(4) اے کاش اگر میری ان تک رسائی هوتی تو میں زندگی بھر انکی خدمت میں رهتا !اور اگر کوئی شخص خدا واهل بیت اطهار کی معرفت کے بعد انکی خدمت و نصرت کی راه میں مر جاۓ تو گویا وه امام زمانه کےرکاب مین شھید هوا هے –چنانچه اصول کافی میں جناب شیخ کلینی نے امام محمد باقر علیه السلام سے روایت کی هے :جب عبد الحمید واسطی نامی صحابی آپ سے پوچھتا هے ،“ قُلْتُ لَهُ أَصْلَحَكَ اللَّهُ لَقَدْ تَرَكْنَا أَسْوَاقَنَا انْتِظَاراً لِهَذَا الْأَمْرِ حَتَّى لَيُوشِكُ الرَّجُلُ مِنَّا أَنْ يَسْأَلَ فِي يَدِه........... قُلْتُ فَإِنْ مِتُّ قَبْلَ أَنْ أُدْرِكَ الْقَائِمَ ع قَالَ إِنَّ الْقَائِلَ مِنْكُمْ إِذَا قَالَ إِنْ أَدْرَكْتُ قَائِمَ آلِ مُحَمَّدٍ نَصَرْتُهُ كَالْمُقَارِعِ مَعَهُ بِسَيْفِهِ وَ الشَّهَادَةُ مَعَهُ شَهَادَتَا(5)ِ. اے فرزند رسول .....اگر هم انکے ظهور سے پهلے مر جائیں تو همارا کیا حال هو گا ؟ فرمایا –تم میں سے جو شخص جسکا یه عقیده هو که جب امام قائم ظهور کریںگۓ تو میں انکی نصرت کروں گا ،اگر وه اس عقیدے کے ساتھ انکے قیام سے پهلے مر جاۓ تو گویا اس نے مسلح هو کر انکے حضور میں جھاد کیا هے، اور انکے رکاب میں شھید هوا هے-
اور معصومین نے همیں انکے امر (دین اور علوم ال محمد )کیاحیا کرنے کا حکم دیا هے اور فرماتے هیں :“ َ إِنَّ تِلْكَ الْمَجَالِسَ أُحِبُّهَا فَأَحْيُوا أَمْرَنَا يَا فُضَيْلُ فَرَحِمَ اللَّهُ مَنْ أَحْيَا أَمْرَنَا (6) همارے امر کی احیا کرو ، خدا رحمت کر ۓ اس شخص پر جو همارے امر کی احیا کرۓ-
پس ان روایات سوے یه معلوم هوتا هے که عصر غیبت میں منتظرین کی ایک اهم ذمداری علوم ومعارف اهل بیت کو فروغ دینا هے که جو خود حقیقت میں دین خدا کی نصرت اور احیا هے جس پر هم سب مامور هیں –
۴:فقیه اهل بیت کی اطاعت اور پیروی :
امام زمانه کی غیبت سے یه هرگز مراد نهیں که پروردگار عالم نے اس امت کو اپنے آپ پر چھوڑ دیا هے اور انکی هدایت ورهبری کا کچھ انتظام نه کیا هو ،یه اسلئے که اگر چه حکمت الھی کی بنا پر حجت خدا لوگوں کے عادی زندگی سے مخفی هیں ،لیکن آپکی نشانیاں اور آثار اهل بصیرت پر مخفی نهیں هے (بنفسي انت من مغيب ٍِ لم يخل منّا ، بنفسي انت من نازح ِ ما نزح عنّا )(7) “ قربان هوجاوں آپ پر پرده غیبت میں هیں لیکن همارے درمیاں هے ،فدا هو جاوں آپ پر همارے آنکھون سے مخفی هیں لیکن هم سے جدا نهیں هے ”
اسیلئے معصوم فرماتے هیں :وإن غاب عن الناس شخصه في حال هدنة لم يغب عنهم مثبوت علمه (8) ”اگر چه غیبت کے دوران انکی شخصیت لوگوں کے نظروں سے مخفی هونگے لیکن انکے علمی آثار اهل بصیرت پر عیان هوں گی –یعنی اسکا مطلب یه هے که خود لوگوں کے حالات سے آگاه هونگے اور جو علوم علماء اور فقھاء کے نزدیک احادیث اور سیرت کی صورت میں موجود هیں اسکے آثار بھی لوگوں کے سامنے هیں -لوگ اگر چه انکے نورانی چهرے کی زیارت سے محروم هیں اور ڈائرکٹ انکی اطاعت نهیں کر سکتے لیکن انکے نائب عام ولی فقیه اور علماء کی اطاعت کے ذریعے اپنے امام کی اطاعت کر تے هیں ،که جنکی اطاعت کا خود معصومین علیهم السلام نے حکم دیا هے “ “فَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَ الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِينِهِ مُخَالِفاً عَلَى هَوَاهُ مُطِيعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ يُقَلِّدُواه (9) اور فقهامیں سے وه فقهه جو اپنے دین کا پابند هو، نفس پر کنڑول رکھتا هو ، نفسانی خواهشات کے تابع نه هو، اور اپنے مولا کے فرمان بردار هو تو انکی اطاعت اور پیروی(تقلید )سب عوام پر واجب هے – یا خود امام زمانه علیه الصلاۃ والسلام اس بارے میں فرماتے هیں - وَ أَمَّا الْحَوَادِثُ الْوَاقِعَةُ فَارْجِعُوا فِيهَا إِلَى رُوَاةِ حَدِيثِنَا فَإِنَّهُمْ حُجَّتِي عَلَيْكُمْ وَ أَنَا حُجَّةُ اللَّهِ عَلَيْهِم (10) اور درپیش مسائل ميں همارے احادیث کے جاننے والے (فقهاء) کی طرف مراجعت کریں ،جس طرح میں ان پر حجت هوں اسی طرح وه تمھارے اوپر میری جانب سے حجت هیں –یعنی اگر حجت خدا غیبت میں هیں تو لوگوں بغیر حجت کے رها نهیں کیا گیا هے ،بلکه فقهاء ان پر حجت هیں انکی پیروی خدا اورسول کی پیروی هے –
فَإِنِّي قَدْ جَعَلْتُهُ عَلَيْكُمْ حَاكِماً فَإِذَا حَكَمَ بِحُكْمِنَا فَلَمْ يَقْبَلْهُ مِنْهُ فَإِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُكْمِ اللَّهِ وَ عَلَيْنَا رَدَّ وَ الرَّادُّ عَلَيْنَا الرَّادُّ عَلَى اللَّهِ وَ هُوَ عَلَى حَدِّ الشِّرْكِ بِاللَّه(11) ”اور هم نے انھین تمھارے اُپر حاکم بنایا هے ،پس وه(فقیه )جو حکم دیتا هے وه همارے حکم سے دیتا هے جو انسے قبول نه کرۓ تو گویا اسنے حکم خدا کی بے اعتنائی که هے ،اور همیں رد کیا هے اور جو همیں رد کرے اسنے خدا کو رد کیا هے جو درحقیقت میں خدا سے شرک کے حد میں هے یعنی انکی نافرمانی همارے نافرمانی هے اورهماری نافرمانی خدا کی نافرمانی اور خدا کی نافرمانی شرک هے –اور اھل بیت نے اپنے مانے والے شیعون کو ابلیس اور اسکے کارندوں کر شر سے بچا کر رکھنا اور انکے ععقیدتی و ایمانی مرزون وحدودن کی نگهبانی کو علماء ،فقهاء کی سب سے بڑی ذمداری بتائی هے اور فرمایا هے : علماء شيعتنا مرابطون في الثغر الذي يلي إبليس و عفاريته يمنعونهم عن الخروج على ضعفاء شيعتنا و عن أن يتسلط عليهم إبليس و شيعته النواصب ألا فمن انتصب لذلك من شيعتنا كان أفضل ممن جاهد الروم و الترك و الخزر ألف ألف مرة لأنه يدفع عن أديان محبينا و ذلك يدفع عن أبدانهم(12) ”همارے شیعون کے علماء ان حدودن کے محافظ اور نگهبان هیں که جن حدودن سے گزر کر شیطان اور اسکے کارندے اور پیروان داخل هوتے هیں اوریه علماء انے همارے کمزور شیعون شیطان کے غلبه آنے اور انھوں بے ایمانی کی طرف سوق دیینے سے بچاتے هیں ،آگاه هو جو جو شخص همارے شیعون میں سے اس ذمداری کو ادا کرے اسکی فضیلت اسلام کے تمام دشمنون سے جنگ کرنے والے مجاهدین سے هزار هزار بار ذیاده هے چونکه علماء همارے مانے والے محبین کے دین اور عقیدے کی دفاع اور محافظت کرتے هیں جبکه مجاهد انکے بدن اور جسم کی دفاع کرتے هیں” اورقیامت کے دن پروردگار عالم کی طرفسے ایک منادی ندا دے گا کهاں هے هیں ایتام آل محمد کے کفالت کرنے والوے جو انکے غیبت کے دوران انکے کفالت کرتے تھے ( يُنَادِي مُنَادِي رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ ص النَّاعِشُونَ لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِينَ هُمْ أَئِمَّتُهُم(13)
پس ائمه اطهار کے کے ان نورانی کلمات سے معلوم هوتا هے که عصر غیبت میں فقها ء علماء اورخصوصاً ولی امر مسلمین کے انے نزدیک کیا حیثیت هے اور انکے کها نه مانا انکے حق میں جفا اور امام کے نزدیک انکے مقام کا خیال نه رکھنا انسان کو کهاں تک پهونچا دیتی هے اورکس موقعیت میں قرار دے دیتا هے اگر چه افسوس کے ساتھ یه کهنا پڑھتا هےکه همارے معاشرے میں هم میں سے بعض خوسته یا ناخواسته دشمن کے غلط پڑوپکنڈوں کی زد میں آکر امام زمانه کے مطیع نمائندوں کے خلاف ناحق زبان کھولنے و گستاخی کرنے کی جرئت کرتے هیں جبکه شیطان اور پیروان شیطان اپنے تمام تر طاقتوں کے ساتھ یه کوشش کرتے هیں که ان غلط پڑوپکنڈون اور افواھون کے ذریعے مجھ جیسے کمزور مؤمنین کو علماء سے فقهاء سے دور کیا جاۓ تاکه انھیں دین اور ایمان کے دائرے سے نکالنا آسان هو جاۓ ، اور هم خود بھی جنتے هیں که جو لوگ علماء اور ولایت فقیه سے کٹ جاتے هیں حقیقت میں وه دین اور صراط مستقیم سے کٹ جانتے هیں گمراه هے جاتے هیں-نعوذ باﷲ من ذلک - خدا همیں بچا کے رکھے -
پس ان روایات سےمعلوم هوتا هے عصر غیبت میں منتظریں ایک اور اهم ذمداری علماء ،فقهاء کی اطاعت اورفرمان برداری اور خصوصیت کے ساتھ ولی امر مسلمین کے فرمان پر لببیک کهنا اور انکے نقش قدم پر چلنا هے – جو که حقیقت میں خط ولایت کے ساتھ متمسک رهنا اور صراط مستقیم پر چلنا هے - خدایا همیں هر دور میں اپنے حجت کو تشخیص دینے اور انکی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرما - آمین !ثم آمین!
۵: برادان ایمانی کے ساتھ همدردی اور معاونت -
ائمه معصومین کے إرشادات کے مطابق هر دور کے امام کو اپنے مانے والے مؤمنین پر ایک مهربان اور فداکار باپ کا حیثیت حاصل هے ، اور تمام مؤمین انکے فرزند کا مقام رکھتے هیں اور یهی وجه هے امام زمانه عجل اﷲ فرجه کے دوران غیبت میں مؤمنین کو ایتام آل محمد سے پکارا گیا هے ،( يُنَادِي مُنَادِي رَبِّنَا عَزَّ وَ جَلَّ أَيُّهَا الْكَافِلُونَ لِأَيْتَامِ آلِ مُحَمَّدٍ ص النَّاعِشُونَ لَهُمْ عِنْدَ انْقِطَاعِهِمْ عَنْ آبَائِهِمُ الَّذِينَ هُمْ أَئِمَّتُهُم (14)اور کسی مؤمین بھائی کے ساتھ احسان وهمدردی ، اسکے ساتھ تعاون کرنے کو امام زمانه کے ساتھ تعاون کرنے اور انکے حق میں همدردی سے پیش آنے اسی طرح کسی مؤمن بھائی کے حق کشی ، اسکے ساتھ بے دردی وبے اعتانی سے پیش آنے کو امام زمانه پر ظلم وجفا اور انکے ساتھ بے اعتنائی سے پیش آنے کا برابر شمار کیا گیا هے –لھذا منتظرین کی ایک اور بهت هی اهم ذمداری عصر غیبت میں هر ممکنه راستون سے برادان ایمانی کے معاشتی ،سماجی ،اجتماعی ا،اقتصادی ، معنوی اور دیگر مختلف قسم کے مشکلات اور گرفتاریون کو حل کرنے اور انکے ضروریات کو پورا کرنے کی جد جهد کرنا هے -
چنانچه اسی اجتماعی ذمداری کی اهمیت اور اس پر عمل کرنے والوں کی خدا و رسول اور انکے حقیقی جانشین کے نزدیک قدر ومنزلت
کو بیان کرتے هوۓ جناب شیخ صدوق نے سوره عصر کے تفسیر میں امام صادق سے نقل کرتے هیں آپ فرماتے هیں : (والعصر انّ الإنسان لفی خسر ) میں عصر سے مراد قائم کے ظھور کا زمانه هے – اور(إنّ الإنسان لفی خسر) سے مراد همارے دشمن هیں اور (إلاّ الذين آمنوا )سے مراد وه مؤمنین هیں جنهون نے هماری آیات کے زریعے ایمان لائیں هونگے - اور( وعملوا الصالحات )یعنی برادران دینی کے ساتھ همدردی اورتعاون کرتے هیں -(وتواصوا بالحق )یعنی امامت اور (وتواصوا بالصبر )یعنی زمانه فترت یعنی وهی غیبت کا زمانه هے یعنی اس سوره مبارکه میں نجات یافته مؤمنین سے مراد وه مؤمنین هیں جنھون نے دوران غیبت میں اپنے مالی ،معنوی اسطاعت کے زریعے پسمانده ،بے کس اور ناتوان مؤمنین کےهم دم اور فریاد رس رهے هو –
اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں امام صادق اور امام کاظم دونوں سے روایت هے فرماتے هیں : ُ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى زِيَارَتِنَا فَلْيَزُرْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ زِيَارَتِنَا وَ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ أَنْ يَصِلَنَا فَلْيَصِلْ صَالِحَ إِخْوَانِهِ يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ صِلَتِنا(15) “جو شخص هم اهل بیت سے تعاون کرنے یا صله کرنے سے معذور هوں اسے چاهئے همارے چاهنے والوں کے ساتھ نیکی اور تعاون کرئے تو اسے همارے ساتھ تعاون کرنے اور نیکی کرنے کا ثواب عطا کرے گا،اسی طرح اگر هماری زیارت سے محروم هیں تو همارے دوستوں اور صالح بندوں کی زیارت کرۓ تو اسے هماری زیارت کا ثواب دیا جاۓ گا اسی طرح اما م موسی کاظم علیه السلا م سے روایت هے فرماتے هیں : مَنْ أَتَاهُ أَخُوهُ الْمُؤْمِنُ فِي حَاجَةٍ فَإِنَّمَا هِيَ رَحْمَةٌ مِنَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى سَاقَهَا إِلَيْهِ فَإِنْ قَبِلَ ذَلِكَ فَقَدْ وَصَلَهُ بِوَلَايَتِنَا وَ هُوَ مَوْصُولٌ بِوَلَايَةِ اللَّهِ وَ إِنْ رَدَّهُ عَنْ حَاجَتِهِ وَ هُوَ يَقْدِرُ عَلَى قَضَائِهَا سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْهِ شُجَاعاً مِنْ نَارٍ يَنْهَشُهُ فِي قَبْرِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَغْفُوراً لَهُ أَوْ مُعَذَّباً فَإِنْ عَذَرَهُ الطَّالِبُ كَانَ أَسْوَأَ حَالا(16) “کسی کے پاس اسکا مؤمن بھائی کوئی نه کوئی حاجت لے کر آۓ تو اسے یه سمجھنا چاهئے که وه خدا کی طرف سے رحمت هے جو اس پر نازل هوئی هے – پس اس حالت میں اگر اسکی حاجت پوری کر لی تو اسے هماری ولایت کے ساتھ متصل کیا هے اوروه خدا کے ولایت تک پهنچ گیا (چونکه هماری ولایت خدا کے ولایت ساتھ متصل هے )لیکن اسے رد کر لے جبکه وه اس شخص کی حاجت پوری کرنے کی توانائی رکھتا هو تو پروردگار عالم اسکے قبرمیں ایک آگ کے بنائے سانپ اس پر مسلط کرۓ گا جوقیامت تک اسے ڈھستا رهے گا چاهے اسے خدا معاف کرے یا نه کرۓ اور قیامت کے دن صاحب حاجت اسکا عذر قبول نه کرے تو اسکی حالت پهلے سے بھی بتر هو جاۓ گئی-
اسی متعدد روایات میں کسی مومن بھائی کی حرمت کا خیال نه رکھنا اسکے ساتھ نیک برتاؤ سے پیش نه آنا اور اسکے ساتھ تعاون نه کرنا ائمه علیهم السلام کے ساتھ تعاون نه کرنے اور ان مقدس ذوات کی بے حرمتی کرنے کے برابر هے –چنانچه ابو هارو نے چھٹے امام سے نقل کیا هے آپ فرماتے هیں : قَالَ قَالَ لِنَفَرٍ عِنْدَهُ وَ أَنَا حَاضِرٌ مَا لَكُمْ تَسْتَخِفُّونَ بِنَا قَالَ فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنْ خُرَاسَانَ فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ نَسْتَخِفَّ بِكَ أَوْ بِشَيْءٍ مِنْ أَمْرِكَ فَقَالَ بَلَى إِنَّكَ أَحَدُ مَنِ اسْتَخَفَّ بِي فَقَالَ مَعَاذٌ لِوَجْهِ اللَّهِ أَنْ أَسْتَخِفَّ بِكَ فَقَالَ لَهُ وَيْحَكَ أَ وَ لَمْ تَسْمَعْ فُلَاناً وَ نَحْنُ بِقُرْبِ الْجُحْفَةِ وَ هُوَ يَقُولُ لَكَ احْمِلْنِي قَدْرَ مِيلٍ فَقَدْ وَ اللَّهِ أَعْيَيْتُ وَ اللَّهِ مَا رَفَعْتَ بِهِ رَأْساً وَ لَقَدِ اسْتَخْفَفْتَ بِهِ وَ مَنِ اسْتَخَفَّ بِمُؤْمِنٍ فِينَا اسْتَخَفَّ وَ ضَيَّعَ حُرْمَةَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ(17) ” ایک دفعه امام صادق نے کچھ لوگ جوآپ کے پاس بیٹھے هوۓ تھے او رمین بھی حاضر تھا ،ان سےکها تمھیں کیا هو گیا هے هماری حرمت کا خیال نهیں رکھتے هو ،تو اهل خرسان کا ایک شخص کھڑا هوا اور کها خدا سے پناه مانگتا هوں که هم آپکو سبک شمار کرے یا آپکے فرمان میں کسی چیز کا بے اعتنائی کرے ، امام نے فرمایا هاں انھیں میں سے ایک تم بھی هے جو همارے لاج نهیں رکھتے ،اس شخص نے دوبارر ه کها میں خدا سے پناه مانگتا هوں که آپکی لاج نه رکھوں ،فرمایا چپ هو جاؤ کم بخت کیا تم نے اس شخص کی آواز نهیں سنی تھی اس وقت جب هم جعفه کے نزدیک تھے اور وه تم سے که رها تھا که مجھ صرف ایک میل تک اپنے سواری پر بٹھا کر لے چلو خدا که قسم میں بهت هی تھکا هوں ،خدا کی قسم تم نے سر اُٹھا کر بھی اسکی طرف نهیں اس طریقے سے تم نے اسکی بے اعتنای کی هے جو شخص کسی مومن کی استخفاف کرے اسنے همارے بے اعتنائی که هے ،اور خدا کی حرمت ضائع کر دی هے –
اسی طرح کسی دوسرے حدیث میں جابر جعفی امام محمد باقر علیه السلام سے نقل کرتے هیں : و نحن جماعة بعد ما قضينا نسكنا، فودعناه و قلنا له أوصنا يا ابن رسول الله. فقال ليعن قويكم ضعيفكم، و ليعطف غنيكم على فقيركم، و لينصح الرجل أخاه كنصيحته لنفسه.... ، و إذا كنتم كما أوصيناكم، لم تعدوا إلى غيره، فمات منكم ميت قبل أن يخرج قائمنا كان شهيدا، و من أدرك منكم قائمنا فقتل معه كان له أجر شهيدين، و من قتل بين يديه عدوا لنا كان له أجر عشرين شهيدا(18). “که هم نے مناسک حج اکٹھے بجھا لا نے کے بعد جب امام علیه السلا م سے الگ هونے کو تھے آپ سے عرض کیا اے فرزند رسول همارے لیے کوئی نصیحت فرمائیں تو آپ نے فرمایا تم میں سے جو قوی هیں قدرت ومقام رکھتا هے اسکی ذمداری هے کمزور لوگوں کی مدد کرے اور جو مالدار هیں فقیرون اور بے کسون پر ترس کریں انکی نصرت کریں ،اور مومن بھائی کے ساتھ اس طرح خیر خواهی سے پیش آئیں جس طرح اپنے نفس کے ساتھ خیر خواه هیں.....اور اگر تم نے هماری نصیحت پر عمل کیا تو غیروں میں سے شمار نهیں هونگے- اب اس حالت میں تم میں سے جو شخص قائم آل محمدکے قیام کرنے سےپهلے مرے جاۓ تووه شهید کی موت مرا هے ،اور جو اپنی زندگی میں انھیں درک کرلے اور انکے ساتھ جھاد کرۓ تو اسے دو شهید کا ثواب عطا کرے گا ،اور جو شخص انکے ساتھ هوتے هوے همارے کسی دشمن کو قتل کرلیں تو اسے بیست ۲۰ شهید کا اجر دیا جاۓگا-
پس ان روایات سے بخوبی یه واضح هوتا هے که منتظرین کی اپنے مومن بھائی کی نسبت کیا ذمداری هے اور اس اجتماعی ذمداری کی کیا اهمیت هے که جس کا خیال رکھنا هم سب کا شرعی اور اخلا قی فریضه هے -
۶: خود سازی اور دیگر سازی -
منتظرین کی اور ایک اور اهم ذمداری خودسازی و اپنے جسم وروح کی تربیت کے ساتھ ساتھ دیگر سازی اور هم نوع کی تربیت بھی هے ،خود سازی اور دیگر سازی ایک اهم دینی وظیفه هونے کے ساتھ بزرگ ترین اور عالی ترین انسانی خدمات میں سے بھی شمار هوتا هے –
اور اسلامی تعلیمات میں بھی حضرت ولی عصر اور انکے جان به کف آصحاب تاریخ انسانت کے پرهیز گار متقی اور صالح ترین افراد هونگے –
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فىِ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصَّلِحُون(19) ترجمه بعد میں لکھے
اسی طرح احادیث معصومین میں بھی امام عصر کے آصحاب وه لوگ هونگے جنھین خدا ورسول اور ائمه معصومین کی صحیح معرفت هوگئی ، اخلاق اسلامی سے متخلق نیک کردار کے مالک وعملی میدان میں ثابت قدم و پائیدار ؤدستورات دینی کے مکمل پابند اور فرامین معصومین کے سامنے سر تسلم خم هونگے –
چنانچه امیر المؤمنین علی علیه السلام نھج بلاغه میں انے توصیف میں فرماتے هیں : وَ ذَلِكَ زَمَانٌ لَا يَنْجُو فِيهِ إِلَّا كُلُّ مُؤْمِنٍ نُوَمَةٍ إِنْ شَهِدَ لَمْ يُعْرَفْ وَ إِنْ غَابَ لَمْ يُفْتَقَدْ أُولَئِكَ مَصَابِيحُ الْهُدَى وَ أَعْلَامُ السُّرَى لَيْسُوا بِالْمَسَايِيحِ وَ لَا الْمَذَايِيعِ الْبُذُرِ أُولَئِكَ يَفْتَحُ اللَّهُ لَهُمْ أَبْوَابَ رَحْمَتِهِ وَ يَكْشِفُ عَنْهُمْ ضَرَّاءَ نِقْمَتِه(20) “اخری زمانه وه زمانه ایسا هے گا جس میں صرف وه مؤمن نجات پاسکے گا که جو گمنام اور بے شر هو گا مجمع اسے نه پهچانے اور غائب هو جاۓ تو کوئی تلاش نه کرۓ یهی لوگ هدایت کے چراغ اور راتوں کے مسافروں کے لیۓ نشان منزل هوں گۓ نه إدھر ادُھر لگاتے پھرین گۓ اور نه لوگوں کے عیوب کی اشاعت کریںگئے –ان کے لئے اﷲ رحمت کے دروازے کھول دے گا اور ان سے عذاب کی سختیوں کو دور کردے گا –
اسی طرح صادق آل محمد سے روایت هے آپ فرماتے هیں : “جو شخص چاهتا هے که حضرت قائم کے اصحاب میں سے هوں اسے چاهئے انتظار کےنے کے ساتھ ساتھ پرهیزگاری اور نیک اخلاق کو پناۓ ،پھر اگر وه اس حالت میں انکے قیام سے پهلے مر جاۓ اور بعد میں همارا قائم قیام کرۓ تو اسے ایسا اجر دیا جاۓگا جیسے اس نے حضرت کو درک کیا هو. .(21)
اور خود معصومیں کے فرمان کے مطابق مبغض ترین فرد وه شخص هے جو مؤمن اور امام زمانه کے منتظر هونے دعوا کرے لیکن قول وفعل میں انے دیے هوۓ دستورات اور دینی قوانین کے مخالفت سمت قدم اٹھاۓ
چنانچه اسی نقطے کی طرف اشارۃکرتے هوۓ امام ذین العابدین فرماتے هیں : لَا حَسَبَ لِقُرَشِيٍّ وَ لَا لِعَرَبِيٍّ إِلَّا بِتَوَاضُعٍ وَ لَا كَرَمَ إِلَّا بِتَقْوَى وَ لَا عَمَلَ إِلَّا بِالنِّيَّةِ وَ لَا عِبَادَةَ إِلَّا بِالتَّفَقُّهِ أَلَا وَ إِنَّ أَبْغَضَ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ مَنْ يَقْتَدِي بِسُنَّةِ إِمَامٍ وَ لَا يَقْتَدِي بِأَعْمَالِهِ(22)” کسی کو عربی اور قریشی هونے که بنا پر دوسروں پر کسی قسم کی فوقیت اور برتری حاصل نهیں هے سواۓ تواضع کے اورکسی کو کوئی کرامت حاصل نهیں هے الا یه که تقوای اختیار کرۓ اور کوئی عمل نهیں هے سواۓ نیت کے اور کوئی عبادت نهیں هے سواۓ تفقه کے (یعنی عبادت درست معرفت کے ساتھ هے ) پس هو شار رهو!پروردگار عالم کے نزدیک مبغوض ترین شخص وه هے جو هماری ملت اور مذهب پر هو لیکن عمل میں هماری پیروی واقتدا ء نه کرۓ –
اسی طرح امام صادق علیه السلام فرماتے هیں : إِنَّا لَا نَعُدُّ الرَّجُلَ مُؤْمِناً حَتَّى يَكُونَ لِجَمِيعِ أَمْرِنَا مُتَّبِعاً مُرِيداً أَلَا وَ إِنَّ مِنِ اتِّبَاعِ أَمْرِنَا وَ إِرَادَتِهِ الْوَرَعَ فَتَزَيَّنُوا بِهِ يَرْحَمْكُمُ اللَّهُ وَ كَبِّدُوا أَعْدَاءَنَا بِهِ يَنْعَشْكُمُ اللَّهُ (23) ”هم کسی کو مومن نهیں جانتے جب تک وه هماری مکمل پیروی نه کرۓ –اور یه جان لو هماری پیروی پرهیز کاری اور تقوی اختیار کرنے میں هے ،پس اپنے آپکو ذھد و تقوی کے ذریعے زینت دو تاکه خدا تمھیں غریق رحمت کرۓ ،اور اپنے تقوی کے ذریعے همارے دشمنوں کو سختی وتنگی میں ڈال دو تاکه خدا تمھیں عزت کی زندگی عطا کرے-
پس انروایات اور دوسرے متعدد روایات سے معلوم هوتا هے که جب هم نے ان مقدس هستیوں کو اپنے مولا ومقتدا قبول کیا هے تو وه ذوات بھی هم سےیه توقع رکھنے کا حق رکھتے هیں که هم عمل وکردار میں انکے نقش قدم پر چلیں –اسی لیے معصمین فرماتے هیں :که تم همارے لئے زینت کا باعث بن جاو ننگ وعار کے باعث مت بنو (24)
۷: شبھات اور بدعتوں کا مقابله-
زمان غیبت میں منتظرین اور خﷲوﷲا علماءوبیدار طبقے که ایک اهم فرائض معاشرۓ میں خود غرض یا سادهلوح دوستوںکۓ هاتھوں مختلف قسم کےبدعتون اور ان شبھات کا مقابله کرنا هۓ جو امام زمانه کی غیبت کی وجه سے انے بارے میں وجود میں ائیں هیں چنانچه امام صادق علیه السلام اس بارے میں فرماتے هیں : إِذَا رَأَيْتُمْ أَهْلَ الرَّيْبِ وَ الْبِدَعِ مِنْ بَعْدِي فَأَظْهِرُوا الْبَرَاءَةَ مِنْهُمْ وَ أَكْثِرُوا مِنْ سَبِّهِمْ وَ الْقَوْلَ فِيهِمْ وَ الْوَقِيعَةَ وَ بَاهِتُوهُمْ كَيْلَا يَطْمَعُوا فِي الْفَسَادِ فِي الْإِسْلَامِ وَ يَحْذَرَهُمُ النَّاسُ وَ لَا يَتَعَلَّمُوا مِنْ بِدَعِهِمْ يَكْتُبِ اللَّهُ لَكُمْ بِذَلِكَ الْحَسَنَاتِ وَ يَرْفَعْ لَكُمْ بِهِ الدَّرَجَاتِ فِي الْآخِرَةِ(25)”میرے بعد اهل تریدد (یعنی ائمه کے ولایت و امامت کے متعلق شک وتردید کا اظهار کرۓ )اور اهل بدعت (یعنی دین میں نیئ چیز ایجاد کرنے والے جسکا دین سے کوئی ربط نه هو)کو دیکھیں تو تم لوگ ان سے اپنی برائت و بیزاری کا اظهار کےیں ،اور اس طرح انکے خلاف پڑوپکنڈه کریںکه آیند ه اسلام مین اس طرح کی فساد پھلانے کی جرئت نه کرۓ اور لوگ خود بخود ان سے دور هو جائیں اور انکی بدعتوں کو نه اپنائیں اگر اسیا کیا تو پروردگار عالم اسکے مقابلے میں تمھیں حسنه دیا جاۓ گا اور تمھاے درجات کو بلند کر ۓ گا –
اسی طرح بعض شبھات دشمنون نے خود امام زمانه کے بارے میں لوگوں کے انتظار پر عقیدے کو کمزور کرنے اور اس میں خلل پیدا کرنے کے لئے ایجاد کیا هے جیسا که آج کل نٹ پر ۱۰ هزارسے زیاده شبھات انکے متعلق دیا گیا هے تو علماء کی ذمداری هے که ان شبھات کا مقابله کریں اور بطوراحسن جواب دیے کر لوگوں کو امام زمانه کے مقدس وجود کی طرف جذب هونے کا زمینه فراهم کرے –لهذا اس اهم زمداری اور عصر غیبت میں رونا هونے والے شبھات کی شرف اشاره کرتے هوۓ چھٹے امام فرماتے هیں :.....
فإياكم و الشك و الارتياب و انفوا عن أنفسكم الشكوك و قد حذرتكم فاحذروا أسأل الله توفيقكم و إرشادكم(26) خبردار شک وریب سے پرهیز کرنا ،(یعنی انکے غیبت اور ظهور کے بارے میں) اپنے دلوں سے شکوک وشبھات باهر نکال دو –میں نے تم لوگوں کو برحزر کردیا هے لھذا تم لوگ اس قسم کے شک وتردید سے باز رهو (اسیلے اس میں شک صراط مستقیم میں شک هے ) میں اﷲ تعالی سے تمھارے لئے توفیقات اور هدایت کی دعا کروں گا-اسی طرح رسول اکرم فرماتے هیں :......... يا جابر إن هذا الأمر أمر من أمر الله و سر من سر الله مطوي عن عباد الله فإياك و الشك فيه فإن الشك في أمر الله عز و جل كفر (27) اے جابر ..... انکی غیبت اورظهور میں شک کرنا خدا سے کفر اختیار کرنے کے برابر هے هیں -
اورهم سب جانتے هیں کی آج کا دور ایسا دور هے جس میں ایک طرف دشمن مختلف شبهات اور غلط پروپکنڈون کے ذریعے لوگوں کو عقیده انتظار اور اسکی حقیقت سے دوررکھنے اور انکے دلوں میں شک وتردید پیدا کرنے کے درپے هیں تو دوسری طرف جعلی اور فرصت طلب افراد امام زمانه کے مقدس نام پر اومنین کے انکے نسبت صادقانه عقیدے سے سؤء استفاده کرنے اور مختلف قسم کے دکانین کھولنے کی کوشش میں لگے هوۓ هیں لهذا علماو اور ذمدار افراد کی ذمداری ان دونون جبھوں پر دشمن کے مقابله کرنا هے –
۸:بے صبری سے پرهیزکرنا –
اس ميں کوئی شک نهیں که عصر غیبت مشکلات اور مصائب کے هجوم لانے کا زمانه هے اور مومنین سے مختلف قسم کے سختیوں وگرفتاریوں کے ذریعے سے امتحان لیا جاۓ گا تاکه اس طرح نیک وبد صادق و کاذب اور مومن ومنافق میں تمیز هو جاۓ –اور یه ایک سنت الھی هے اس امت یا اس زمان کے لوگوں تک محدود نهیں بلکه گزشته امتوں سے لیا گیا هے اور آئیند آنے والے نسلوں سے بھی تا قیامت تک مختلف ذریعوں سے امتحان لیا جاۓ گا –چناچه اسی سنت الھی کی طرف اشاره کرتے هوۓ پروردگار عالم قرآن مجید میں فرماتا هے : ما كانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنينَ عَلى ما أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَميزَ الْخَبيثَ مِنَ الطَّيِّبِ.....(28) ” اﷲ تعالی مومنین کو منافقین سے جس حالت میں نا مشخص هے نهیں رکھا جاۓ گا ،یهاں تک (امتحان کےذریعے )خبیث اور طیب میں تمیز پیدا هو جاۓ – اسی طرح سوره عنکبوت کے ایت نمبر۲ میں فرماتا هے : أَ حَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَ هُمْ لا يُفْتَنُونَ٭ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذينَ صَدَقُوا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكاذِبينَ (29) “کیا لوگوں نے یه خیال کر رکھا هے که وه صرف اس بات پر چھوڑ دۓ جائیں گے که وه یه کهے دیں که هم ایمان لے آۓ هیں اور انکا امتحان نهیں هو گا ٭ بشک هم نے ان سے پهلے والوں کا بھی امتحان لیا هے اور اﷲ تو بهر حال یه جاننا چاهتا هے که ان میں کون لوگ سچے هیں اور کون جھوٹے هیں ”
اورناطق قرآن علی ابن ابی طالب اسی بارے میں فرماتے هیں :..... ِ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعَاذَكُمْ مِنْ أَنْ يَجُورَ عَلَيْكُمْ وَ لَمْ يُعِذْكُمْ مِنْ أَنْ يَبْتَلِيَكُمْ وَ قَدْ قَالَ جَلَّ مِنْ قَائِلٍ إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ وَ إِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِين(30) لوگو اﷲ تعالی کسی پر ظلم نهیں کرتا لیکن کبھی یه ضمانت نهیں دیا هے که تم سے امتحا ن بھی نهیں لیا جاۓ گا ، اور خدا سب سے بڑکر سچا هے ،یوں فرماتا هے –“ بے شک ان حوادث اور وقعات میں علامتیں اور نشانیان هیں اور هم اچھے اور بُرے سب بندوں سے امتحان لیتے هیں ”-
اور انھیں نشانیوں کی طرف اشاره کرتے هو ۓ اما صادق فرماتے هیں :مارے قائم کے ظھور سے پهلے مومنین کے لئے خدا کے جانب سے کچھ نشانیاں هیں ،عرض هوا با ابن رسول اﷲ وه نشانیان کیا هیں ؟ فرمایا وه نشانیاں اس کلام الھی میں ذکر هوٓی هیں “وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوعِ وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوالِ وَ الْأَنْفُسِ وَ الثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَّابِرينَ(31) “اور یقیناً هم تم سے خوف، بھوک اور اموال ،نفوس اور ثمرات کی کمی سے امتحان لیا جاۓ گا اور اے پیغمبر آپ ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں ” بے شک تم سے امتحان لیا جاۓ گا یعنی حضرت قائم کے خروج سے پهلے مومنین سے سلاطین جور کے ترس ،منگائی ،گرانی کی وجه سے بھوک گرسنگی ،تجارت میں ورشکستگی و نگهانی موت اورفصل وکاشت میں نقصان کے ذریعے امتحان لیا جاۓ گا ،پھر فرمایا اے محمد بن مسلم یه هے اس آیت کا تاویل جسکی تاویل (وَ ما يَعْلَمُ تَأْويلَهُ إِلاَّ اللَّهُ وَ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنا وَ ما يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُولُوا الْأَلْباب (32) سواۓ خدا اور راسخین فی علم کے کوئی نهیں جانتا –
اور امام زمانه کے طول غیبت کے دوران مختلف قسم کےسختیوں ومصیبتوں پر صبر کرنے والوں کی توصیف میں پیغامبر اکرم فرماتے هیںَّ: قَالَ ص طُوبَى لِلصَّابِرِينَ فِي غَيْبَتِهِ طُوبَى لِلْمُقِيمِينَ عَلَى مَحَجَّتِهِمْ أُولَئِكَ وَصَفَهُمُ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ فَقَالَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ...(33) خوش هیں وه لوگ جو اس کی غیبت کے زمانه میں صبر سے کام لیں خوش هیں وه لوگ جواسکی محبت پر ثابت قدم رهيں،ان هی لوگوں کی تعریف میں اﷲ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا هے ،اور وه لوگ غیب پر ایمان رکھتے هیں....-
اور متعدد روایات میں انکی غیبت کی وجه سے پیش آنے والی مصیبتوں وآذیتوں پر بے صبری کرنے سے منع کیا گیا هے اور قضاء وقدر کے سامنے تسلم هونے کا حکمدیا هے جیسا که شیخ کلینی نے اپنی سند امام صادق علیه السلام سے نقل کیا هے حضرت نے فرمایا :
كَذَبَ الْوَقَّاتُونَ وَ هَلَكَ الْمُسْتَعْجِلُونَ وَ نَجَا الْمُسَلِّمُونَ (34) ظهور کے وقت تعین کرنے والے هلاک هوں گے لیکن قضاوقدر الھی کے سامنے تسلیم هونے والے نجات پائین گۓ -
۹: جوانوں کی مخصوص ذمداری :
اسلامی تعلیمات میں جوانی اور جوان طبقے کو خاص اهمیت اور مخصوص مقام حاصل هے ،انکے ساتھ الفت ،عطوفت کے ساتھ پیش آنے اور همیشه اچھی نگاهوں سے دیکھنے پر زور دیا گیا هے ،جس طرح رسول اکرم کا فرمان هے :اوصيكم بالشباب خيراً فإنّهم ارقُّ افئدةً انّ اللّه بعثني بالحق بشيراً ونذيراً فحالفني الشباب وخالفني الشيوخ .تمھیں وصیت کرتا هوں ان جوانوں کے بارے میں جو پاک دل هوتے هیں ،جب اﷲ تعالی نے مجھے بشیرو نذیر بنا کر بیجھا تو یه جوان تھے جنھوں نے میرے ساتھ دیا جبکه عمر رسیده افراد نے میری مخالفت کی –
پس کلام رسول پاک سےهمیں یه درس ملتا هے که جوانو کو بری نگاه سے نهیں دیکھنا چاهیے بلکه انے بارے می نیک سوچ رکھنا چاهیے –اور تاریخ ایلام اس بات پر زنده گواه هے که جب نبی اکرم نے ذوالعشیرهمیں قریش کو توحید اور دین کی طرف پهلی بار دعوت دیا تو جس شخص نے سب سے پهلے آنحضرت کے دعوت پر لبیک کها وه علی ابن اب طالب ۱۰ ساه نوجوان تھے جبکه بزرگان قریش اخری دم تک آش کے مخالفت کرتے رهیں –
جوانی کی قدر وقیمت کے لیے یهی کافی هے که خود امام زمانه ظهور کریںگے تو اپ جوان هونگے جیسا که امیر مومنین عله السلام فرماتے هے-مهدی قریش کے خناندان کا ایکدلیر شجاع اور تیز هوش جان هونگے تیس یا چالیس سے کم عمر میں ظهور کریںگے -– اسی طرح امام زمانه کا خاص سفیر نفس زکیه جنھیں رکن مقام کے درمیان شهید کیا جاۓ گا ایک جوان هو گا –اما صادق اس بارے میں فرماتے هیں :امام زمانه کے ظهورکے وقت انکی طرفسے ایک جوان شخص سفیرکے عنوان سے منتخب هونگے تاکه امام کے پیغام کو اهل مکه تک پهنچا ۓ اور انھیں آنحضرت کی حکومت کے پرچم تلے آنے کی دعوت دے لیکن مکه کے حکمران اسے رکن مقام کے درمیان شھید کریںگے(35) اسی طرح مختلف روایا میں ایا هے که امام عصر کے ۳۱۳ اصحاب میں سے بهت هی کم افراد کے سب جوان هونگے -چناچه امیر مومنین فرماتے هیں اس بارے مین : أصحاب المهدي شباب لا كهول فيهم إلا مثل كحل العين و الملح في الزاد و أقل الزاد الملح(36) امام مهدی کے اصحاب سارے جوان هونگے ان میں کوئی بھوڑے نهیں هو گے سواۓ آنکھ میں سرمه اور زاد سفر میں نمک کے برابر اور کتنا هی کم هو گا زادراه میں نمک کی مقدار –
اور روایات سے معلوم هوا هے که اما مزمانه کے غیبی ندا پر سب سے پهلے لبک کهنےوالے اکثر جوان هی هونگے – چھتے اما م فرماتے هیں : امام کے ظهور کرنے کے بعد جب انکیآسمانی ندا انے کانوں تک پهنچ جاے گی تو اس حالت میں لبیک کهین گے که اپنے اپنے چھتوں پر آرام کررهے هونگے اور بغیر کسی آمادگی کے حرکت کریںگے اور صبح هوتے هیں اپنے امام کی زیارتس شرف یاب هونگے - (37)
۱۰: وا قعی منتظرین کا مقام ومنزلت اهل بیت کی نگاه میں -
عصر غیبت میں منتظرین کی اهم ذمداریاں جسے هم نے قرآنی آیات اور معصومین کے نورانی کلمات کے روشنی میں مختصر انداد میں اپنے محترم قارین کے لیے بیان کیا هے ،اب اگر کسی شخص نے ان ذمداریوں کو حسب استطاعت بطور احسن انجام دیا تو انشاء اﷲ حقیقی منتظرین میں سے شمار هو گا –اور انھیں کے توصیف میں انکے مقام و منزلت بیان کرتے هوے پیغمبر اکرم فرماتے هیں : في وصية النبي ص يذكر فيها أن رسول الله ص قال له يا علي و اعلم أن أعجب الناس إيمانا و أعظمهم يقينا قوم يكونون في آخر الزمان لم يلحقوا النبي و حجبتهم الحجة فآمنوا بسواد على بياض(38) یا علی جان لو! ایمان کے لحاظ سے حیرت انگیز ترین لوگ اور یقین کے اعتبار سے عظیم ترین لوگ آخر ی زمان کے وه لوگ هونگے جنھوں نےنه اپنے پیغامبر کو دیکھا هے اور نه هی حجت خدا تک انکی دست رسی هے لیکن انھوں نے سفید کاغذ پر سیاهی کو دیکھ کر ایمان لاۓ هیں –
کسی اور مقام پر آپ اپنے اصحاب سے مخاطب هو کر فرماتے هيں :
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص ذَاتَ يَوْمٍ وَ عِنْدَهُ جَمَاعَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ اللَّهُمَّ لَقِّنِي إِخْوَانِي مَرَّتَيْنِ فَقَالَ مَنْ حَوْلَهُ مِنْ أَصْحَابِهِ أَ مَا نَحْنُ إِخْوَانَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ لَا إِنَّكُمْ أَصْحَابِي وَ إِخْوَانِي قَوْمٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ آمَنُوا وَ لَمْ يَرَوْنِي لَقَدْ عَرَّفَنِيهِمُ اللَّهُ بِأَسْمَائِهِمْ وَ أَسْمَاءِ آبَائِهِمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُخْرِجَهُمْ مِنْ أَصْلَابِ آبَائِهِمْ وَ أَرْحَامِ أُمَّهَاتِهِمْ لَأَحَدُهُمْ أَشَدُّ بَقِيَّةً عَلَى دِينِهِ مِنْ خَرْطِ الْقَتَادِ فِي اللَّيْلَةِ الظَّلْمَاءِ أَوْ كَالْقَابِضِ عَلَى جَمْرِ الْغَضَا أُولَئِكَ مَصَابِيحُ الدُّجَى يُنْجِيهِمُ اللَّهُ مِنْ كُلِّ فِتْنَةٍ غَبْرَاءَ مُظْلِمَةٍ (40) خدا میرے بھایوں کی زیارت مجھے نصیب کرۓ جب آنحضرت نے دو مرتبه یهی فرمایا تو جو اصحاب آپکے ساتھ تھے عرض کیا یا رسول اﷲ کیا هے آپکے بھائی نهیں هے ؟ فرمایا نهیں تم لوگ میرے اصحاب هیں اور میرے بھائی وه لوگ هیں جو آخری زمانه میں ایمان لے آئیں گے جبکه انھون نے مجھے نهیں دیکھا اﷲ تعالی نے مجھے انکے اور انکے آباو اجداد کے ناموں سے اشنا کرایا هے قبل از اس کے آباء کے صلب سے اور ماؤں کے رحم سے باهرنکل آۓ –ان میں سے هر ایک کے لیۓ اپنے دین کو بچا نا شب تاریک میں کانٹے پر هاتھ رکھنے یا جلتی هوئی اگ کو هاتھ میں اٹھانے سے بھی زیاده سخت هو گا ،وهی لوگ تاریکی میں روشن چراغ هے پروردگار عالم انھیں هر قسم کے ظلمانی فتنوں سے نجات دے گا – اور حقیقی منتظرین کا مقام بیاں کرتۓ هوے سیّد الساجدین فرماتے هیں ......... يا أبا خالد إن أهل زمان غيبته القائلين بإمامته و المنتظرين لظهوره أفضل من أهل كل زمان لأن الله تبارك و تعالى أعطاهم من العقول و الأفهام و المعرفة ما صارت به الغيبة عندهم بمنزلة المشاهدة و جعلهم في ذلك الزمان بمنزلة المجاهدين بين يدي رسول الله ص بالسيف أولئك المخلصون حقا و شيعتنا صدقا و الدعاة إلى دين الله عز و جل سرا و جهرا(40) ”اۓ ابو خالد کاهلی عصر غیبت میں امام زمانه کی امامت کا اقرار کرنے والوں اور انکے ظهور کے انتظار کرنے والوں کا مقام ومنزلت تمام اهل زمان سے بالاتر و افضل تر هے کیونکه اﷲ تعالی نے انھیں اتنی معرفت عقل اور فهم عطا کیا هے که جسکے نتیجے میں غیبت انکے لیۓ پھر غیبت نهیں رهی هے بلکه عیان هو گئی هے ،اور انھیں اس زمانه میں پیغمبر خدا کے ساتھ تلوار اٹھا کر جھاد کرنے والے مجاھدین کےجیسے قرار دیا هے ،وهی لوگ هیں جو همارے مخلص اور سچھے شیعه اور دین خدا کی طرف سریا اشکار
خدا یا هم سب کو همارے امام زمانه کے حقیقی منتظرین میں سے قرار دیں –آمین !ثم آمین –
-----
(1) وسائلالشيعة ج : 16 ص : 34۶ بحارالأنوار ج : 71 ص : 35۸
(2) تحف العقول :ص 513 :اور بحار انوار :ج75 ،ص 38۲ -
(3) سوره حج ۴۰ -
(4) نعمانی :غیبت نعمانی ،ص ۲۴۵ -
(5) كلييني روضة كافي ،ص 80 ،ح 37 -
(6) مجلسي :بحار انوار ،ج 44 ،ص 282 –اور قربالإسناد ص : 1۸
(7) دعاي ندبه كا ايك فقره -
(8) صافي گلپائی گانی :منتخب الاثر ،ص ۲۷۲ -
(9) مجلسي :بحار الانوار،ج2 ،ص 88 - وسائلالشيعة ج : 27 ص : 13
(10) """" """"ج 53 ،ص 181 - الغيبةللطوسي ص : ۲۹۱
(11) کلینی :اصول الكافي ج : 1 ص :۶۷ - تهذيبالأحكام ج : 6 ص : 21۸
(12)الصراط المستقیم :ج ۳ ،ص۵۵ ، الاحتجاج ج : 2 ص۳۸۵ : عوالی اللئالی ج ۱ ص ۱۸ .
(13)۷۳ الصراطالمستقيم ج : 3 ص۵۵ -
(14) صدوق : اکمال الدین:ج۲ ،ص ۶۵۶ -
(15) طوسی ،تهذیب ج ۶ ،ص۱۰۴ –اور کامل زیارات :ص ۳۱۹ -
(16) کلینی: اصول الكافي ج : 2 ص :۶ 19
(17) کلینی :روضۃ الکافی،ج۸، ص ۱۰۲ -
(18) امالی طوسی ،ص ۲۳۲ –اور بحار انوار ،۵۲ ،ص ۱۲۲ ،ح ۵ -
(19) انبیاء :۱۰۵ -
(20) نهج البلاغه ،خ ۱۰۳ ،ص ۲۰۰ ،ترجمه سید ذیشان حیدر جوادی -
(21) غیبۃ نعمانی :ص ۱۰۶
(22) کلینی :روضۃ الکافی ،ص ۲۳۴ ،ح۳۱۲ -
(23) کلینی :اصول کاقی ،ج۲ ،ص ۷۸ ،ح۱۳ -
(24) کلینی: کافی ،ج ۲ ، ص ۷۷ ،ح۹ -
(25) کلینی : اصول کافی،ج۲ ،ص ۳۷۵ ،ح ۴ -
(26) الغيبةللنعماني ص 150 ،ح ۸ -
(27) صدوق اکمال الدین : ج ۱ ، ص ۲۸۷ -
(28) سوره آل عمران :۱۷۹ -
(29) سوره عنکبوت :۲ -۳ -
(30) نهج البلاغه خطبه ۱۰۳ اردو ترجمه سید ذیشان حیدر -
(31) بقره :۱۵۵ -
(32) آل عمران :۷ -
(33) مجلسی : بحار الانوار،ج۵۲ ،ص ۱۴۳ -
(34) الكافي ج : 1 ص : 368
(35) طوسی الغیبه ،ص ۴۶۴ -
(36) طوسی الغیبه ،ص ۴۷۶ اور بحار انوار ج ۵۲ ، ص ۳۳۳ -
(37) نعمانی الغیبه :ص ۳۱۶ ،باب ۲۰ ح ۱۱-
(38) صدوق :اکمال الدین ،ج ۱ ، ص ۲۸۸ -
(39) مجلسی : بحارالأنوار ،ج 52 ص 123 باب 22- بصائر الدرجات :ﷲ ۸۶ -
(40) علامالورى ص : 40۷ – اور کمال الدین ج ۱ ص ۳۲۰ -
|