تیسری فصل : إنتظار اور هماری زمداریان –
جن قرآنی آیات اور روایات میں مسئله انتظار کے متعلق گفتگو هوئی هے ان سے بخوبی یه واضح هوتا هے –که عضر غیبت میں منتظر ین کے گردن پر بهت هی سنگین اور بڑی زمداری هے –اور جب تک ان زمداریوں اور وظائف پر عمل نه کریں حقیقی اور سچے منتظرین میں شمار نهیں هوتا –
لهذا واقعی اور سچے منتظر بنے کے لیۓ ان زمدایوں کو اچھی طرح جانا اور اس پر عمل پیرا هونا ضروری هے
هم یهاں چند اهم زمدّاریوں کو تفصیل کے ساتھ زیر تحریر لاتے هیں تاکه تشنئه معرفت حضرات کے لیےان وظائف اور زمداریوں کو جاننے میں آسانی هو جائے –
۱: إمام منتظر کی معرفت اور شناخت :
ایک مؤمن منتظر کی سب اهم ذمداری اور پهلا وظیفه هر دور کے امام کی معرفت اور انے شناخت هے ،اور فریقین کے رویات کے مطابق پیغمبر اکرم نے امام زمانه کی معرفت کا حکم دیا هے اور فرمایا هے: من مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة جاهلية(1) جو شخص اپنے امام زمانه كي معرفت كے بغير مر جاۓ وه جاهليت كي موت مراهے ”
اسلامی تعلیمات کے روشنی میں- جسکا تذکره پهلے بھی هو چکا هے- تمام مسلمانوں کا یه عقیده هے که جس هستی کے آمد کے هم سب منتظر هیں وه ایسی شخصیت هیں جن کو پروردگار عالم نے اسی دن کے لیے ذخیره کیا هے ، اس روۓ زمین پر امام زمانه اور حجت خدا هونگے اور انکے بابرکت وجود کے زریعۓ مقصد بعثت کامل اورخلقت کا نتیجه حاصل هو گا –لیکن خصوصیت کے ساتھ مکتب تشیّیع کے نزدیک وه ذات ابھی بھی همارے درمیاں زندگی کر رهیے هیں اگر چه انکی شخصیت کی زیارت سے هم سب محروم هیں ، آپ پرده غیب سے هماری مسلسل سرپرستی کررهے هیں ،انھیں کے وسیله سے اﷲ تعالی لوگوں کو رزق فراهم کرتا هے اور زمین وآسمان اپنی جگه ثابت وبرقرار هیں – آپ خدا اور مخلوق کے درمیا ں وسطه فیض هیں تمام انبیاء واوصیاء کے علوم اور اوصاف حمیده کے وارث هیں اورآپ هی کی ذات کو اﷲ تعالی کی إراده و إجازت سے نفوس پر تصرف کرنے کا حق حاصل هے اور حق وحقیقت کی طرف هدایت کرتی هے –
اگر آج مسلم سوسائٹی معیشتی و اجتماعی اور ثقافتی لحاظ سے اضطراب وتنزّل اور حفقان کا شکار هے ،تو یه سب آنحضرت سے غفلت و بے توجهی اور انکی معرفت حاصل کرنے میں کوتاهی کے وجه سے هے ،اور فطری طور پر جب انسان کسی موضوع کو کما حقه نه پهچانتا هو تو اسکے بارے میں وه اپنے وظیفه کو دلی لگاو سے انجام نهیں دے سکتا لھذا ایک حقیقی منتظر کی ظهور سے پهلے سب سے بڑی اور اهم ذمداری حضرت حجت اما م منتظر کی معرفت اور شناخت هے اوریهی سعادت و نجات کا باعث اور اسے دوری دنیوی نقصان اور خسران ابدی کا باعث هے لهذا صادق ال محمد فرماتے هیں : يَقُولُ اعْرِفِ الْعَلَامَةَ فَإِذَا عَرَفْتَهُ لَمْ يَضُرَّكَ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ فَمَنْ عَرَفَ إِمَامَهُ كَانَ كَمَنْ كَانَ فِي فُسْطَاطِ الْمُنْتَظَرِ ع(2) تم اپنے امام کو پهچانیں جسکے تم منتظر هے کیونکه جب تم پهچانیں گے تو پھر وه ظھور کرۓ یا نه کرۓ تمھیں کچھ نقصان نهیں هو گا –یعنی تم نے اپنے ذمداری انجام دیا اور حقیقی منتظرین میں سے هو گۓ اب انکے ظهور سے پهلے اگر تم اس دنیا فوت کر جاۓ تو یهی معرفت تمھار ی نجات اور سعادت کا باعث بنے گی تو پھر تمھارے لیۓ کیا نقصان که وه ظهور کرۓ یا نه کرۓ ، لیکن یه اسکے لیۓ نقصان هے جو اپنے امام کی معرفت نه رکھتا هے -
اسی طرح فضیل بن یسار نے امام محمد باقر سے روایت کی هے: يَقُولُ مَنْ مَاتَ وَ لَيْسَ لَهُ إِمَامٌ فَمِيتَتُهُ مِيتَةُ جَاهِلِيَّةٍ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ لَمْ يَضُرَّهُ تَقَدَّمَ هَذَا الْأَمْرُ أَوْ تَأَخَّرَ وَ مَنْ مَاتَ وَ هُوَ عَارِفٌ لِإِمَامِهِ كَانَ كَمَنْ هُوَ مَعَ الْقَائِمِ فِي فُسْطَاطهِ(3)” آپ فرما تے هیں جو شخص اس حالت میں مرۓجبکه وه اپنے امام کو نهیں پهچانتا هو تو وه جاهلیت کی موت مرا هے ،اور وه شخص جو اس دنیا سے چلے جاۓ جبکه وه اپنے امام زمانه کی صحیح معرفت رکھتا هو تو امام زمانه کے ظهور ميں تاخير اسے نقصان نهیں دے گا ،اور جو شخص مر جاۓ جبکه اپنے امام کی معرفت کے ساتھ مر ۓ تو گویا و ه اپنے امام کے همراه جهاد میں انکے خیمے میں هے -”
اسی طرح کسی اور حدیث میں جناب شیخ صدوق نقل فرماتے هیں : ولا يکون الإيمان صحيحا ً إلاّ من بعد علمه بحال من يؤمن به، كما قال اللّه تبارك وتعالي ”إلاّ من شهد بالحق وهم يعلمون(4) فلم يوجب لهم صحة ما يشهدون به إلاّ من بعدعلمهم ثم كذلك لن ينفع ايمان من آمن بالمهدي القآئم عليه السلام حتي يكون عارفاً بشأنه فى حال غيبته(5) ”كسي مؤمن کا ایمان اس وقت تک صحیح نهیں هوتا جب تک جس چیز پر ایمان رکھتا هے اس کے بارے میں پوری شناخت نهیں رکھتا هوں “جس طرح اﷲ تعالی فرماتا هے – إلاّ من شهد بالحق وھم یعلموں – مگر ان افراد کے جو علم و شناخت کے ساتھ حق کی گواهی دیں –پس حق پر گواهی دینے والوں کی گواهی قبول نهیں هو گی مگر علم رکھتا هو ”– اسی طرح مهدی قائم پر ایمان رکھنے والوں کے ایمان انھیں فائده نهیں دے گا (یعنی انکے ظهور اور قیام پر إجمالی ایمان اور انکے ظهور کے انتظار اسے فائده نهیں دے گا )مگر انکی غیبت کے دوران انکے متعلق اور انکے شان ومنزلت کےبارے میں صحیح معرفت رکھتا هو –
اور اما م زمانه کی معرفت کے لیے بعض چیزون کو جاننا ضروری هے ان میں سے بعض اهم موارد یهاں ذکر کرتے هیں که ان امور کو جاننے بغیر کس امام کی معرفت کامل اور مفید واقع نهیں هو گی –
الف: آپ کائنات کے اولین مخلوق هیں :
صحیح روایات سے یه معلوم هوتا هے که امام زمانه ورسول اکرم اور دیگر باره معصومین کے پاکیزه انوار کو اﷲ تعالی کائنات کے تمام مخلوقات سے پهلے خلق فرمایا هے –چناچه نبی اکرم ای بارے میں فرماتے هیں “لما اسری بی الی السماء .......(6) جس رات مجھے آسمان کا سیر کرایا میری نظری پڑی عرش پر تو لکھا هوا تھا “لا إله الاّ اﷲ محمد رسول اﷲ أيده بعلی....” اﷲ کے سواء کوئی معبود نهیں هے محمد اسکا رسول هیں اور علی کے زریعے هم نے انکی تایئد کیا ،اور میں نے عرش پر علی وفاطمه اور باقی گیاره معصومین کے مقدس انواردیکھا جنکے درمیان حضرت حجت کا نور کوکب درّی کے مانند درخشان اور چمک رها تھا میں نے عرض کیا پروردگار یه کس کا نور هے ، اور وه کن کے انوار هیں ؟ آواز آئی یه تیرے فرزندان ائمه معصومین کے انوار هیں اور یه نور حجت خدا کا نور هے جو زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بهر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکا هو گا –اسی طرح امیر المومنین فرماتے هیں رسول خدا نے مجھ سے فرمایا : لما عرج بي إلى السماء....... فقلت يا رب و من أوصيائي فنوديت يا محمد أن أوصياءك المكتوبون على ساق العرش فنظرت و أنا بين يدي ربي إلى ساق العرش فرأيت اثني عشر نورا في كل نور سطر أخضر مكتوب عليه اسم كل وصي من أوصيائي أولهم علي بن أبي طالب و آخرهم مهدي أمتي ...(7) “جب مجھے آسمان کا سیر کرایا .....تو میں نے عرض کیا پروردگارا کون هے میرےاوصیا ، ندا آئی یا محمد تمھارے وصیون کے نام ساق عرش پر لکھا گیا هے میں نے عرش کی طرف نظر کیا تو گیاره نور اسیے دیکھا هر نورمیں ایک سبز رنگ هے جس پر میرے هر ایک وصی کے اسماۓ گرامی لکھا گیا هے سب سے پهلے علی ابن ابی طالب کا اسم گرامی اور آخر میں میری امت کے مهدی کا نام تھا -
اسی طرح جناب شیخ صدوق امام صادق سے نقل کرتے هیں آپنے فرمایا:
الله تبارك و تعالى خلق أربعة عشر نورا قبل خلق الخلق بأربعة عشر ألف عام فهي أرواحنا فقيل له يا ابن رسول الله و من الأربعة عشر فقال محمد و علي و فاطمة و الحسن و الحسين و الأئمة من ولد الحسين آخرهم القائم الذي يقوم بعد غيبته فيقتل الدجال و يطهر الأرض من كل جور و ظلم....(8) “پرودگار عالم نے تمام مخلوقات کے آفرینش سے چھوده هزار سال پهلے چھوده نورخلق کئے تھے اور وه هماری پاکیزه ارواح تھیں ........ ان میں سے آخری قائم علیه السلام هے جو غیبت کے بعد قیام کرے گا ، دجال کو قتل کرے گا ،اور زمین کو هر طرح کے ظلم وستم سے پاک کر دے گا -
پس ان احادیث اور انکے علاوه اور دسویں روایات سے یه معلوم هوتا هے قائم آل محمد جس کے هم اور آپ سب منتظر هیں جنکے نور کو پروردگار عالم نے کائنات تمام مخلوقات سے پهلے خلق کیا هے اور انهیں دوسرے مخلوقات پر شاهد اور گواه بنا کر پیش کیا هے یه انے مقام ومنزلت خدا کے نزدیک –
ب :آ پ خالق ومخلوق کے درمیان واسطه فیض هیں :
بعض روایات کے روشنی میں یه واضح هوتا هے که امام زمانه واسطه فیض وبرکت هیں ،
جناب شیخ مفیدابن عباس کے واسطے رسول خدا سے نقل کرتے هیں : قال رسول الله ص ذكر الله عز و جل عبادة و ذكري عبادة و ذكر علي عبادة و ذكر الأئمة من ولده عبادة و الذي بعثني بالنبوة و جعلني خير البرية إن وصيي لأفضل الأوصياء و إنه لحجة الله على عباده و خليفته على خلقه و من ولده الأئمة الهداة بعدي بهم يحبس الله العذاب عن أهل الأرض و بهم يمسك السماء أن تقع على الأرض إلا بإذنه و بهم يمسك الجبال أن تميد بهم و بهم يسقي خلقه الغيث و بهم يخرج النبات أولئك أولياء الله حقا و خلفائي صدقا عدتهم عدة الشهور و هي اثنا عشر شهرا.....(9) “ آنحضرت نے فرمايا :اﷲکا ذکر اور ميرا ذكر عبادت هے ،اور علی کا ذکر وانکے فرزاندان ائمه کے ذکر بھی عبادت هے ، قسم اس ذات کے جسنے مجھے نبوّت کے ساتھ بیجھا هے-......... اور میرے بعد علی ابن ابی طالب کے فرزاندان ائمه ھداء هونگے انھین کے واسطے اﷲ تعالی اهل زمین سے عذاب کو ٹال دے گا اور انھیں کے برکت سے آسمان ٹوٹ کر زمین پر آنے سے بچا لے گا ،اور انھیں کے خاطر پهاڑون کے بکھر جانے نهیں دے گا اور انھین کے طفیل سے اپنے مخلوق کو باران رحمت سے سیراب کرے گا اور زمین سے سبزه نکالے گا ،وهی لوگ هیں جو اﷲ کے حقیقی دوست اور جانشین ......
اسی طرح دعاے عدلیه کا فقره هے جس میں آیا هے :“ثم الحجة الخلف القائم المنتظر المهدي المرجي .....ببقائه بقيت الدّنيا وبيمنه رُزق الوري وبوجوده ثبتت الأرض والسماء وبه يملاء اللّه الأرض قسطاً وعدلاً بعد ما ملئت ظلماً وجوراً ” میں گواهی دیتا هوں انے فرزند حجت خدا وجانشین واما مقائم منتظر مهدی جن کے ساتھ عالم کی اُمید وابسته هے انکے وجود سے دنیا باقی هے اور انکے برکت سے مخلوق روزی پارهی هے ،اور انکے وجود سے زمین وآسمان قاظم هیں اور انھیں کے ذزیعے خدا زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا جب که وه ظلم وجور سے بھر چکی هے گی –
پس ان روایات کی روشنی میں یه واضح هوتا هے که اس دور میں امام زمانه خالق ومخلوق کے درمیاں واسطه فیض هیں –
ج: آپ کی معرفت کے بغیر خداکی معرفت کامل نهیں هے -
امام حسین سے خدا کی معرفت کے بارے میں پوچها گیا تو حضرت نے فرمایا :“معرفة اهل كلّ زمان امامهم الذّي يجب طاعته(10) هرزمانه میں لوگوں کے اپنے امام کی معرفت مراد هے جنکی اطاعت کو لوگوں پر واجب کی گی هے -اسی طرح امام محمد باقر نے فرمایا : “انما يعرف اللّه عزوجل ويعبده من عرف اللّه وعرف امامه منّا أهل البيت“(11) ؛صرف وه شخص خدا کی معرفت حاصل کر سکتا هے اور اسکی عبادت کر سکتا هے جسنے اﷲ اور هم اهل بیت میں سے اپنے اما م کو پهچان لیا هو – یا اهل بیت اطهار کی امامت کا انکار کو کفر سے تعبیر کیا هے (یعنی خدا کے انکار ) اگر چه وه شخص کلمه گو هی کیوں نه هو -جیسا که چھٹے امام سے روایت هے آپ فرماتے :“من عرفنا كان مومنا ومن انكرنا كان كا فراً (12) جس نے هماری معرفت حاصل کرلی وه مومن هے اور جس نے همارا انکار کیا وه کافر هے -اسی طرح بعض روایت میں آیا هے که امام خدا اور مخلوقات کے درمیان پرچم هدایت هے لهذا انکی معرفت کے بغیر اﷲ تعالی کی معرفت ممکن نهیں هے -
د: آپ تمام انبیاء کے کمالات کا مظھر هیں –
متعدد روایات سے یه معلوم هوتا هے که حضرت ولی عصر عجل اﷲ فرجه کی شخصیت جامع ترین شخصیت هیں اور آپ میں تمام انیباء کے کمالات پائی جاتی هیں جس طرح آپکے آباواجداد کی ذوات مقدسه تمام گذشته انبیاء کے کمالات کے حامل تھے –سلمان فارسی نے آنحضرت سے روایت نقل که هے آپ فرماتے هیں :الائمة بعدي إثنا عشر عدد شهور الحول ،ومنّا مهد ي هذه الاُمة ....(13) میرے بعد باره امام سال کے باره مهینون کے برابر امام هونگے اوراس امت کا مهدی بھی هم سے هی هونگے جس میں موسی کی هیبت ،عیسی کی عزت وبهاء،داود کی قضاوت ،اور ایوب کا صبر سب سمیٹ لاۓ هو گا –
اسی طرح چھٹے اما مفرماتے هیں : إنّ قائمنا اهل البيت عليهم السلام اذا قام لبس ثياب علي وسار بسيرة علي عليه السلام (14) همارے قائم جب قیام کریں گۓ تو اپنے جد علی علیه السلا مکے لباس زیب تن کریں گۓ اور انکی سیرت پر چلین گے –
کسی اور روایت میں امام رضا انکے مثالی شخصیت کے بارے میں فرماتے هیں : للإمام علامات يكون أعلم الناس و أحكم الناس و أتقى الناس و أشجع الناس و أسخى الناس و أعبد الناس ....(15) “ حضرت ولی عصر لوگوں میں سب سے زیادۃ دانا حلیم ، بردبار اور پرهیزگار هیں وه تمام انسانوں سے زیاده بخشش کرنے والے عابد اور عبادت گزار هیں .... ”
ھ: آپ تمام انبیاء اور ائمه کے اُمیدوں کو زند ه کریںگۓ-
قرآن مجید نے نے مختلف مقامات پر واضح طور پر بیاں کیا هے که پروردگار عالم نے تمام انبیاء کو دو بنیادی مقصد کے خاطر بیھے ،ایک شرک و بت پرستی کو صفحه ھستی سے مٹاکر تو حید ویکتا پرستی کو رائج دینے اور دوسرا یه که سماج سے ظلم وتربریت کی ریشه کنی کرکے اسکی جگه عدل و پاکدامنی کو رواج دینا تھا -لیکن هم دیکھتے هیں اب تک روۓ زمین پر یه مقصد تحقق نهیں پایا هے –جبکه تمام علماء ،دانشور حضرات اس بات پر متفق هیں که تمام انبیاء کے بعثت کا مقصد اور هدف حضرت ولی عصر ارواحنا له الفداء کے مبارک هاتھوں سے انکے آفاقی قیام کے ساۓ میں تحقق پاۓ گا،اورانھیں کے زریعے کفر وشرک کا ریشه خشوق هو جاۓ گا ،اور ظلم بربرییت کے اس تاریک دورکا خاتمه هو کر عدل وتوحید کا سنهری دور پورے زمین پر غالب آۓ گا -– چناچه سوره توبه کے ۳۲ اور ۳۳ آیات کے ذیل می تمام شیعه مفسرین نے اس حقیقت کی طرف کیا هے اور وه آیه مبارکه یه هے : يُرِيدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ٭ یه لوگ چاهتے هیں که نور حدا کو اپنے منھ سے پھونک مارکر بجھا دیں حالانکه خدا اس کے علاوه کچھ ماننے کے لۓ تیار نهیں هے که وه اپنے نور کو تمام کردے چاهے کافروں کو یه کتنا هی بُرا کیوں نه لگے- هُوَ الَّذِى أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَ دِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّينِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُون٭ وه خدا وه هے جس نے اپنے رسول کو هدایت اور دین حق کے ساتھ بیھجا تاکه اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاهے مشرکین کو کتنا هی نا گوار کیوں نه هو –
ان قرآنی آیات اور روایات کی روشنی میں آپکی عظمت کا اندازه هوتا هے ، که آپی شخصیت تنها وه ذاتهیں جو انبیاط وائمه کی کوششوں کو نتیجه خیز بنائیں گۓ اور تمام آسمانی رهبرون کی اُمیدون کو تحقق بخشین گۓ – اسی لیۓ روایت میں آیا هے کی انکی معرفت اور اطاعت رسول اﷲ کی اطاعب اور معرفت هے اور انکے ظهور کا انکار نبی اکرم کی رسالت کا انکار هے اگر چه وه شخص ایک مسلمان هو نے کی بنا پر انکے نبوّت کا اعتراف هی کیون نه کرے ،چنانچه آپ فرماتے هیں :
قال رسول الله ص القائم من ولدي اسمه اسمي و كنيته كنيتي و شمائله شمائلي و سنته سنتي يقيم الناس على ملتي و شريعتي يدعوهم إلى كتاب الله ربي من أطاعه أطاعني و من عصاه عصاني و من أنكر غيبته فقد أنكرني و من كذبه فقد كذبني و من صدقه فقد صدقني إلى الله أشكو المكذبين لي في أمره و الجاحدين لقولي في شأنه و المضلين لأمتي عن طريقته وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ(16). قائم ميرا فرزند هے انکا نام میرے نام پر انکی کنیت میری کنیت پر انکے شکل وشکائل میرے شکل وشمائل جیسی هوگی اور انکی سنت میری سنی پر هوگی لوگوں میرے دین اور شریعت پر پلٹا دین گۓ انھین میرے پروردگار کی کتاب کی طرف دعوت دیں گۓ جو انکی اطاعت کرۓ اسنے میری اطاعت کی هے اور جو انکی نافرنانی کرۓ اسنے میری نافرمانی کی هے ،اور جو انکی غیبت کا انکار کرۓ اسنے مجھے انکار کیا هے اور جو انھیں جھٹلالے اسنے مجھے جھٹلایا هے اور جسنے انکی امامت اور غیبت کا تصدیق کرۓ اسنے میری رسالت کی تصدیق کی هے....- اس جیسے بهت سارے روایات سے یه معلوم هوتا هے که انکی معرفت اور اطاعت نه صرف رسالت مآب کی معرفت اور اطاعت هے اور هی انکا انکار نه صرف آنحضرت کی رسالت کا انکار هے بلکه وعده الھی کا انکار هے ،ُمقصد خلقت بشر جو که عبادت کامله کے پورے انسانی معاشرے میں وجود میں لانا هے اس مقصد کا انکار هے -
اور دوران غیبت میں همارا معامله دو مطلب سے خارج نهیں هے یا یه که هم کلی طور پر امام زمانه سے بے گانه اور اجنبی هو جائین تو اس صورت میں کل قیامن کے دن میں همیں اپنی حسرت کی انگلی مهنه میں لیتے یه کهنا هو گا (یا حسرتا !علی ما فرّطنا فیها ) اے کاش هم نےاس بارے میں کوتا هی نه کیا هو تا ! ،یا تھوڑی بهت معرفت اور آشنائی امام کی اپنے اندر پیدا کریں –
اورامام زمانه کی یه معرفت جسے هم نے مختصر انداز میں بیاں کیا آپ کی شکل وصورت دیکھے بغیر بھی حاصل کی جاسکتی هے ، لهذا ایک مؤمن منتظر کی سب سے بڑی ذمداری اپنے وقت کی امام و حجت خدا کی معرفت اور پهچان هے که جسکے وجود کے بغیر زمین ایک لحظه بھی اپنی جگه ثابت نهیں ره سکتی ”لو خلت الأرض ساعة واحدة من حجة اللّه ،لساخت بأهلها“(17) اور بھی بهت روایا هر زمان میں امام کی ضرورت پر دلالت کرتی هیں -
۲: إمام منتظَر کی محبت -
معرفت کا لازمه محبت هے یه اس معنی میں که جب تک انسان کسی چیز کو نه پهچانتا هو اور اسکی خاصیت کو نه جانتا هو اسکی عظمت وفضائل اسکے مقام و منزلت سے بے خبر هو اس سے محبت نهيں کر سکتا لیکن اس کے بر عکس انسان جس قدر کسی کی عظمت اور فضائل سے واقف هو جاۓ تو خود بخود اسکی محبت اسکے دل میں آجاتا هے ،اور اسکی ظرف توجه بڑھتی چلی جاتی هے -
اور خدا ورسول اور ائمه اطهار کی محبت وه شمع هے جو انسان کے تاریک دلوں کو پاک منور کر دیتا هے ، اور انسانوں کو گناهوں وبرائیوں سے نجات دیتا هے کیونکه معرفت محبت کا ستوں هے اور محبت گناهون سے بچنے کا عظیم ذریعه اورتهذیب وتزکیه نفس کی شاهراه هے
اور روایات معصومین میں امام عصر ارواحنا له الفدء کی محبت پر خاص طور پر توجه دی گئی هے –چناچه رسول اکرم فرماتے هیں :“خداوند متعال نے شب معراج مجھ پر وحی کیا اےمحمد ! زمین پر کس کو اپنے امت پر اپنا جانشین بنایا هے ؟ جبکه خالق کائنات خود بهتر جانتا تھا ،میں نے کها پروردگارا اپنے بھائی علی ابن ابی طالب کو ........ اچانک میں نے علی ابی طالب اور ....... حجت قائم کو ایک درخشان ستارے کے مانند انکے درمیان تھے دیکھا عرض کیا پروردگارا یه کون لوگ هیں ؟ فرمایا یه تمھارے بعد ائمه هیں اور یه قائم هے جو میرے حلال کو حلال اور حرام کو حرام کر دے گا اورمیرے دشمنون سے إنتقام لے گا .اے محمد ! اسے دوستی کرو کیونکه میں انکو اور ان سے دوستی رکھنے والوں کو دوست رکھتا هوں – پس اگر چه تمام معصومین کی محبت واجب هے لیکن اس روایت سے معلوم هوتا هے که حضرت حجت کی محبت خاص اهمیت اور خصوصیت کے حامل هے – اسیلۓ آٹھوین امام نے اپنے آباء و اجداد کے واسطے امام علی علیه السلام سے نقل کیا هے ، آپ نے فرمایا :قال لي أخي رسول اللّه ..........ومن أحبّ ان يلقي اللّه وقد كمل ايمانه وحسي اسلامه فليتولّ الحجة صاحب الزّمان المنتظر ......(18) ”مجھ سے میرے بھاظی رسول خدل نے فرمایا جو شخص اﷲ تعالیسے اپنے مکمل ایمان اور نیک اسلام کے ساتھ ملاقات کا خوهاں هے تو اسے چاهے که حضرت حجت صاحب الزمان کی ولایت کے پرچم تلے آجاۓ اور انھیں دوست رکھےّ.......-
لهذا منتظرین کی دوسری سب سے بڑی ذمداری إمام عصر ارواحنا له فداء کی محبت کو اپنے اندر بڑھنا هے اور همیشه انکی طرف متوجه رهنا هے ، اور اسکے لیے مختلف ذریعے بیاں هوۓ هیں ،هم یهاں پر چند اهم موارد احادیث معصومین کی روشنی میں بیاں کرتے هیں –
الف: امام منتظَر کی اطاعت اور تجدید بیعت -
إمام زمانه کی محبت کے منجمله مظاهر اور اثار میں سے ایک حضرت کی اطاعت پر ثابت قدم رهنا اور انکی بیعت کی همیشه تجدید کرنا هے ، اور یه جا ننا هے چاهے که اسکا امام اور رهبر اسکے هر چھوٹے بڑے کاموں پرمطلع اوراسکے رفتار وگفتار کو دیکھتے هیں، اچھے اور نیک کامون کو یکھ کر انکے دل میں سرور آجاتاهے جبکه اسکے برے اور ناشائسته کامون کو دیکھ کر انکو دکھ هو جاتاهے ،اور یه بھی معلوم هونا چاهے که انکی رضا خدا و رسول کی رضا هے اور انکے کسی پر ناراضگی خدا و رسول کی ناراضگی اسکے درپے هے ،اور میرا هر نیک عمل هر اچھا کردار اور هر مثبت قدم اطاعت کی راه میں روز موعود کو نزدیک کرنے میں مؤثر ثابت هو گا ،اسی طرح میرا اخلاص ،دین ومذهب اور اهل ایمان کے نسبت میرا احساس مسؤلیت انکے ظهور میں تعجیل کا سبب بنے گا – اور یه بھی جاننا چاهے که اما م زمانه کی اطاعت صرف اور صرف پیغمبر اکرم کی اطاعت اور انکے لاۓ هوۓ دین کے مکمل پیروی میں حاصل هوتا هے ،اور جب تک عملی میدان میں اطاعت نه هومحبت ومودت یا معنی هی نهیں رکھتا یا اگر اجمالی محبت دل میں هو تو اسے آخری دم تک اطاعت کے بغیر محفوظ رکھ سکھنا بهت هی دور کی بات هے چناچه عرتون کا ضرت المثل هے (وانت عاصیُ ُ إنّ المحبَ لمن یحبُّ مطیعُ)یه ساری نافرمانی اور سر پیچدگی کے ساتھ تم کس طرح اپنی محبت کا إظهار کرتے هو جب جو جسے محبت کرتا هے همیشه اسی اطاعت گزار هوتا هے –
اسیلۓ صادق آل محمد فرماتے هیں : مَنْ سُرَّ أَنْ يَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ الْقَائِمِ فَلْيَنْتَظِرْ وَ لْيَعْمَلْ بِالْوَرَعِ وَ مَحَاسِنِ الْأَخْلَاقِ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ فَإِنْ مَاتَ وَ قَامَ الْقَائِمُ بَعْدَهُ كَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ أَدْرَكَهُ فَجِدُّوا وَ انْتَظِرُوا هَنِيئاً لَكُمْ أَيَّتُهَا الْعِصَابَةُ الْمَرْحُومَةُ (19)
جو شخص چاهتے هے ،كه امام زمانه كے اصحاب میں یے هو جاۓ تو اسے چاهۓ که انتظار کرۓ اور ساتھ ساتھ تقوی وپرهیزگاری اور نیک اخلاق اپناۓ –اسی طرح آپ سے هی دعاۓعهد کے یه فقرات هقل هوۓ هیں :“اللهم انّي اُجدد له في صبيحة يوم هذا وما عشت في أيامي ....... “ خدایا ! میں تجدید (عهد ) کرتا هوں هے ،آج کے دن کی صبح اور جتنے دنوں مین زنده رهوں اپنے عقد وبیعت کی جو میرے گردن میں هے میں اس بیعت سے نه پلٹوں گا اور همشه تک اس پر ثابت قدم هوں گا ، خدایا مجھ کو ان کے اعوان وانصار اوران سے دفاع کرنے والوں میں سے قرار دۓ .....
بلکه متعدد روایات سےیه معلوم هوتا هے ، که اهل بیت اطهار کی نسبت جو عهد وپیمان اپنے ماننے والوں کی گردن پر لیا هے، وه چھارده معصومین کی اطاعت حمایت اور انسے محبت کا وعده هے –
چنانچه خود امام زنانه نے جناب شیخ مفید کو لکھے هوۓ نامے میں فرماتے هیں :“ و لو أن أشياعنا وفقهم الله لطاعته على اجتماع من القلوب في الوفاء بالعهد عليهم لما تأخر عنهم اليمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا على حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما يحبسنا عنهم إلا ما يتصل بنا مما نكرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوكيل و صلاته على سيدنا البشير النذير محمد و آله الطاهرين و سلم (20) “اگر همارے شیعه – اﷲ تعالی انهیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد هو کر همارے ساتھ باندھے گۓ عهد وپیمان کو وفا کرتے تو همارا إحسان اور هماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے هرگز مؤخر نه هوتا : اور بهت جلد کامل معرفت اور سچی پهچان کے ساتھ همارے دیدار کی سعادت انکو نصیب هوگی ،اور همیں شیعون سے صرف اور صرف انکے ایک گروه کے کردار نے پوشیده کر رکھّا هے – جو کردار همیں پسند نهیں اور هم ان سے اس کردار کی توقع نهیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم همارا بهترین مددگار هے اور وهی همارے لیۓ کافی هے –
پس حصرت حجت علیه السلام کے اس کلام سے یه بات ےاضح هو جاتی هے که اهل بیت اطهار کے چاهنے والوں سے جس چیز کے وفا کا عهد وپیمان لیا هے ،وه انکی ولایت اطاعت حمایت اورمحبت هے –
اور جو چیز امام زمانه کی زیارت سے محروم هونے اور انکے ظهور میں تاخیر کا سبب بنی هے وه انکے مانے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آماده نه هونا هے ،اور یهی اطاعت اور حمایت ظهور کے شرائط میں سے ایک اهم شرط بھی هے –
اس حقیقت کی طرف اشاره کرتے هوۓ امیر المومنین فرماتے هیں : “إعلموا أنّ الأرض لاتخلو من حجة لللّه عزوجل ولكنّ اللّه سيعمي خلقه عنها بظلمهم وجورهم وإسرافهم علي انفسهم(21) جان لو زمین هرگز حجت خدا سے خالی نهیں هو سکتی-لیکن عنقریب پروردگار عالم لوگون کےظلم وجور اور اپنے نفسوں پر اسراف کرنے کی وجه سے انھیں انکی زیارت سے محروم کر دۓ گا -
پس ان روایات سے معلوم هوتا هے که منتظرین کی ایک اوراهم ذمداری صاحب العصروالزمان کی اطاعت اور تجدید بیعت هے اوریهی شرط ظهور اور محبت کی شاهراه هے که جسکے بغیر حقیقی اورکامل محبت حاصل نهیں هوتی –
ب: إمام منتظر کی یاد –
إمام زمانه عجل اﷲ فجره کے بلند مقام کی شناخت اور انکی مودّت ومحبت کو اپنے دل میں ایجاد کرنے اور اسے رشد دینے کے لیۓ ضروری هے که همیشه آنحضرت کو یاد کریں ،اور انکی طدف متوجه رهيں یعنی بهت زیاده توحه کرنا چاهیے اور یقینی طور پر یه اثر رکھتا هے ،کیونکه مسلم طور پر اگر کوئی اپنی روح کو ایک چیز کی طرف متوجه کریں تو هو هی نهیں سکتا که اس چیز کے ساتھ رابطه برقرارنه هو سکے –
اسی طرح اگر آپ نے اما زمانه کو اپنی توجه کا مرکز بنا لیا تو خود یه کثرت توجه روحی کشش کو ایجاد کر دیتی هے –البته استعداد ظرف کی حفاظت اور شرائط کے ساتھ اور جب شرائط پائی جاتی هیں تو اسکا اثر خواه نخواه هو گا –اور رایات کے تاکید بھی اسی لحاظ سے هے ،که یه توجه اور یاد لا محاله متوجه اور متوجه الیه کے درمیان رابطه پیدا کر دیتا هے اور وقت گزر نے کے ساتھ یه رابطه شدت اختیار کرجاتا هے اور پهلے سے زیاده مؤثر هوتا جاتا هے اور همیں بھی آج سے اسکی تمرین کرنا چاهیے اور کم سے کم چوبیس گنٹھون کیں دو وقت ایک صبح اور دوسرے رات کے وقت حضرت بقیۃ اﷲ اعظم کی طرف توجه کریں – معصومین نے بھی ایک نماز صبح کے بعد دعا عهد کے پڑهنے دوسرا نماز مغربین کے بعد اس دعا کو پڑهنے کا حکم دیا هے –السلام عليك في اليل اذا يغشي والنهار اذا تجلي (22) سلام هو تجھ پر جب رات کی تاریکی چھا جاۓ اورجب دن کا اُجالا پھیل جاۓ اور امام صادق علیه السلام سے روایت هے :جو شخص اس عهد نامه کو چالیس صبح پڑھے گا وه حضرت قائم علیه السلام کے مددگاروں میں سے شمار هو گا اور اگر وه شخص ان طهور سے پهلے مر جاۓ تو اﷲ تعالی اسے امام کی خدمت کے لیۓ مبعوث کرۓ گا اور اسے هر کلمه کے عوض میں هزار نیکیان مرحمت فرمائیگا اور هزارگناه محوکیا جاۓ گا (23) اسی طرح هر روز جمعه کو امام زمانه کی تجدید بیعت کرنا مستحب هے –تاهم آسانی فرشتے بھی جمعه کے دن بیت المعمور پرجمع هوتے هیں اور ائمه معصومین کے تجدید بیعت کرتےهیں-
اور امام منتظر کے ساتھ اس روحی اور دلی توجه کو مستحکم کرنے اور انکی یاد کو مؤثر بنانے کےلیۓکچھ طریقه کاربھی همیں بتاۓ هیں هم ان میں سے بعض موارد یهاں ذکر کرتے هیں -
الف :امام منتظر کے نیابت میں صدقه دینااور نماز پڑھنا –
امام زمانه کی محبت کو بڑھانے اور انکی یادکو زنده رکھنے اور اپنی دلی توجه کو متمرکز کرنے کے لیۓ ایک بهت هی اهم زریعه انکی نیابت میں صدقه دینا اور نماز پڑھنا هے-
هماری ان سے دلبستگی وتوجه اور انکی اطاعت وپیروی ایسی هونی چاهے جس طرح خدا و رسول اور خود امام زمانه اور انکے اجداد طاهرین هم سے چاهتۓ هیں همیں جب بھی نماز حاجت بجالاۓ یا صدقه دین تو آنجناب کی حاجتون کو اپنے حاجتون پر مقدم اور انکی طرفسے صدقه دینے کو اپنے اوپر اور اپنے عزیزون کے اوپر صدقه دینے پر مقدم کرنا چاهے ،اور اپنے لیۓ دعا کرنے سے پهلے انکے سلامتی اور تعجیل ظهور کے لیے دعا کریں ،اسی طرح هر نیک عمل جو انکے وفاء کا سبب بنتا هے اپنے کاموں پر مقدم کرۓ تاکه آنحضرت بھی هماری طرف توجه کرۓ اور هم پر احسان کرۓ (24) اور اس حقیقت کی طرف اشاره کرتے هوۓ سرور کائنات فرماتے هیں : “....... کسی بندے کا ایمان کامل نهیں هوتا جب تک وه اپنی ذات سے زیاده مجھ سے اور اپنی خاندان سے زیاده میری خاندان کو نهیں چاهتے هے ، اسی طرح اسکے نزدیک اپنے عترت سے زیاده میری عترت اور اپنی ذات سے زیاده میری ذات عزیزتر نه هو -– اسی طرح متعدد روایات میں ائمه معصومین کو صله دینے کے بارے میں آیا هے ،که ایک درهم امام کو صله میں دینا دوملین درهم دیگر کار خیر میں خرچ کرنے کے برابر هے – یا کسی اور روایت میں.آیا هے ایک درهم جو اپنے امام کو دۓ اسکا ثواب اُحد کی پهاڑیسے بھی سنگین هے يَا مَيَّاحُ دِرْهَمٌ يُوصَلُ بِهِ الْإِمَامُ أَعْظَمُ وَزْناً مِنْ أُحُدٍ(25) اسی طرح امام کے نیابت میں حج بجا لانے زیارت پر جانے ،اعتکاف پر بیٹھنے ،اور صدقه دینے پر تاکید کیا گیا هے –
یقینا ان کامون کا ایک اهم مقصد اورهدف اما م زمانه کی یاد کو هر وقت اپنے دل ودماغ میں زنده رکھنا اوران سے اپنی قلبی و روحی توجه کو تقویت دینا اور ان کی محبت میں إضافۃ کرنا هے ، دوسری عبارت میں یه که انسان هر چیز میں اپنے امام کو یاد رکھے اور انکو کبھی یاد سے جانے نه دۓ –
ج: انکے فراق کی داغ میں همیشه غمگین رهنا -
بعض معصومین بھی امام زمانه کی غیبت کے دوران کو یاد کرتے هوۓ انکے شوق دیدار میں آنسو بھاتے تھے اور ان سے زیارت کی تمنا کرتے تھے – یهاں تک اما م زمانه کی فراق میں مهموم وغمگین هونا مومن کی نشانیوں میں سے شمار کیا هے – جیسا که امیر مؤ منین حقیقی چاهنے والوں کی اوصاف اور نشنیا ں یون بیاں فرماتے هیں –
“ومن الدلائل ان يُري من شوقه مثل السقيم وفي الفؤاد غلائلٌ
ومن الدلآئل ان يري من اُنسه مستوحشاَ من كل ما هو مشاغل ٌ
ومن الدلآئل ضحكه بين الوري والقلب مخزون كقلب الثاكل "
انكي نشانيوں، ميں سے ایک یه هے که شدت شوق کی وجه سے بیمار جیسے نظر آئیں گۓ جبکه انکا دل درد سے پھوٹ رها هوتا هے –
انکی دوسیری نشانی یه هے که اپنے محبوب کے اُنس میں اس طرح نظر آئیں گۓ که هر وه چیزجو انهیں محبوب سے دور کر دیتی هے اسے بھاگ جاتے هیں –
اور تیسری نشانی یه هے که ملنے میں خندان نظر آئیں گۓ لیکن انکا دل غم و اندوه سے بیٹھا مرا شخص کی طرح محزون هوتا هے –
لیکن خصوصیت کے ساتھ امام ولی عصر کی فراق وجدائی اور انکے مقدس قلب پر جو مصیبتین گزر رهی هے انکو یاد کرتے هوۓ آنسو بھانا گریه وزاری کرنے کی بهت ساری فضیلت بیاں هوئی هے ،اور واقعی اور حقیقی مؤمن کی نشانیوں میں سے قرار دیا هے چنانچه چھٹے امام اس بارے میں فرماتے هیں : إِيَّاكُمْ وَ التَّنْوِيهَ أَمَا وَ اللَّهِ لَيَغِيبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِيناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّى يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ هَلَكَ بِأَيِّ وَادٍ سَلَكَ وَ لَتَدْمَعَنَّ عَلَيْهِ عُيُونُ الْمُؤْمِنِينَ (26)” اے مفضل خدا کی قسم تمھارے امام سالوں سال پرده غیب میں هونگے اور تم لوگ سخت امتحان ما شکار هوگا –یهاں تک انکے بارے میں کها جاے گا که وه فوت کر گیا هے یا انھیں قتل کیا گیا هے ؟ ...لیکن مؤمنین انکی فراق میں گریاں هونگے.......
کسی دوسرے حدیث میں جسے جناب شیخ صدوق نے سدیر صیرفی سےروایت کی هے ،کهتے هیں :ایک دن میں مفضل بن عمیر و ابو بصیر اور ابان بن تغلب هم سب مولا امام صادق کے خدمت میں شرفیاب هوۓ تو آپکو اس حالت میں دیکھے که آپ زمین پر تشریف فرماں هیں ، جُبه خیبری زیب تن کیۓ هوۓ هیں -جو عام طور پر مصیبت زده لوگ پهنتے هیں -،چهره مبارک پر حزن واندوه کی آثار نمایاں هیں اور اس شخص کے مانندبے تابی سے گریه کر رهے هیں که جس کا جوان بیٹھا مرا هو ،آنکھوں سے آنسوں جاری هے ،اور زبان پر فرما رهے هیں اے میرے دل کا سرور تیری جدائی نے میرے آنکھوں سے ننید اُڑا لی هے اور مجھ سے چین چھین لی هے ،اے میرے سردار تیری غیبت نے میری مصیبتوں کو بے انتها کر دی هے .......روایت بهت هی طولانی هے اور بهت هی ظریف نکات بھی هیں جو چاهتے هیں تو مراجعه کریں –
پس ان روایات سے یه معلوم هوتا هے که ائمه بھی امام زمان علیه السلام کی غیبت سے نگران اور انکے شوق دیدار میں بے تاب تھے –
-----
(1) شرح مقاصد: ج 2 ص 275-
(2)مرآۃ العقول :ج۴ ص ۱۸۶ – اور اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲ -
(3) کلینی: اصول الکافی:ج۱ “ص۳۷۲
(4) زخرف :۸۶ -
(5) صدوق :كمال الدين اتمام النعمة :ج 1 ص 19 -
(6) سید هاشم بحرینی :منيت المعاجز ص ۱۵۳ -
(7) كمالالدين ج : 1 ص : 25۶
(8) صدوق :اکمال الدین ج ۲ ص ۳۳۵ باب ۳۳ -
(9) شیخ مفید :الاختصاص ص :۴ 22
(10) مجلسی : بحار انوار، ج ۸۳ ،ص ۲۲ -
(11) كليني: كافي ،ج 1 ، 181 -
(12) كليني :كافي ،ج1 ،ص 181 -
(13) صافي گلپائی گانی: منتخب الاثر فصل ۱ ص ۲۶ -
(14)مجلسی :مرآۃ العقول ج ۴ ص ۳۶۸ -
(15) محقق طبرسی :الاحتجاج ج : 2 ص : 437
(16) صدوق : كمالالدين ج : 2 ص : 4۱۱-: إعلامالورى 425 -
(17) كافي :ج1 ،ص179 اور الغيبة ،نعماني ص 141 اور كفاية الاثر ص 162 -
(18) الصراطالمستقيم ج : 2 ص : 14۹
(19) مجلسي بحار انوار ،ج52 ،ص 140 -
(20) طبرسی - الاحتجاج ج : 2 ص : 499 -
(21) نعماني :الغيبة ،باب 10 ،ص 141 -
(22) پیام اما زمانه :ص ۱۸۸ ، آیۃاﷲ وحید خراسانی کے اما م زمانه کے متعلق تقریر کا ایک حصه -
(23) مجلسی :ج ۱۰۲ ،ص ۱۱۱ –مصباح الزائر ص ۲۳۵ -
(24) کشف المحجه : فصل ۱۵۰ ،ص ۱۵۱ -
(25) کلینی :اصول کافی،ج ۲ ،ص ۱۵۶ – اور،ج ۱ ص ۵۳۸ -
(26) کلینی :اصول کافی ،ج۱ ،ص ۳۳۶ باب غیبت -
|