إنتظار کیا اور منتظر کون ؟
 

دوسری فصل :إسلام اور عقیده إنتظار :

إسلام میں إنتظار سے مراد مصلح اعظم منجی عالم قائم آل محمد موعود موجود فرزند زهرا حجت خدا وليّ عصر کے آخری زمانه میں آفاقي إمامت اور ولایت کے ساتھ ظهور کرنے اور دنیا کوظلم وجور سے خاتمه کرکے عدل و انصاف سے پُر کرنے پر عقیده اور ایمان هے انتظار یعنی تیاری اور آمادگی هے ،تیاری پاک هونے ،پاک زندگی گزارنے، بدیون زیشتیون سے دور رهنے، اور تزکیه نفس کا ،تیّاری خودسازی دیگر سازی سماج سازی اور معاشره سازی کی ،آمادگی تمام فردی اجتماغی جسمی اور معنوی طاقتون اور قوتون کو کے یکجا اور اکهٹا کر کے اس عظیم آفاقی اور آسمانی انقلاب میں برپور حصه لینے کی –
هم یهاں مختصر طور پر عقیده انتظار اهمیت انتظار اور مفهوم انتظار کو کتاب وسنت کی روشنی میں مزید واضحت دینے کی کوشش کریںگۓ –

ا: قرآن اور عقیده إنتظار:
تمام مسلمانوں کا اور خصوصیت کے ساتھ مذهب حقّه کا مستحم وراسخ عقیده هے که حق حق همشه ثابت اور دائمی هوتا هے تاهے اسکے مقابلے میں باطل عرضی اور وقتي هوتا هے ،اور هر شئی عارضی زود یا دیر زائل هو جانے والا هے اور باطل کے جگه حق لے گا
هر جگه حق کا چرچا اور حکومت هو گی ،قرآن کریم نے بھی متعدد آیات کے زریعے مختلف مقامات پر اس حقیقت کی طرف إشاره کرتے هوۓ آخری زمانه میں (وجاء الحق وزهق الباطل إنّالباطل كان زهوقا )کا اعلان کیا هے اور انتظار فرج کو نقالب تغیر مسائل میں سے گنا هے اور دین مبین اسلام کے دوسرے تمام آسمانی وغیرآسمانی مکاتب فکر پر غالب آنے کل حتمی وعده دیا هے –
چناچه پروردگار عالم اپنی لا ریب کتاب میں ارشاد فرماتا هے -هُوَ الَّذِى أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى‏ وَ دِينِ الْحَقّ‏ِ لِيُظْهِرَهُ عَلىَ الدِّينِ كُلِّهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (1) وه خدا وه هے جس نے اپنے رسول کو هدایت اور دین حق کے ساتھ بیھجا تاکه اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بناۓ چاهے مشرکین کو کتنا هی نا گوار کیوں نه هو -
اسی طرح اسی سوره مبارکه کے ۳۲ ایت میگ ارشاد هوتا هے - يُرِيدُونَ أَن يُطْفُِواْ نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَأْبىَ اللَّهُ إِلَّا
أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُون(2) یه لوگ چاهتے هیں که نور حدا کو اپنے منھ سے پھونک مارکر بجھا دیں حالانکه خدا اس کے علاوه کچھ ماننے کے لۓ تیار نهیں هے که وه اپنے نور کو تمام کردے چاهے کافروں کو یه کتنا هی بُرا کیوں نه لگے -
اسی طرح کسی تیسرے مقام پر اس عهد الهی کے حتمی هونے کو ان الفاظ کے ساتھ بیان فرماتا هے - وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فىِ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِىَ الصَّلِحُون‏(3) اور هم نے ذکر کے بعد بھی زبور میں بھی لکھ دیا هے که هماری زمین کے وارث همارے نیک بندے هی هوں گے -

وَ نُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلىَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُواْ فىِ الْأَرْضِ وَ نجَْعَلَهُمْ أَئمَّةً وَ نجَْعَلَهُمُ الْوَارِثِين‏(4) “اور هم یه چاهتے هیں که جن لوگون کو زمین پر کمزور بنا دیا گیا هے ان پر احسان کریں اور انھین لوگوں کا پیشوا و اما م اور زمین کا وارث قرار دیدیں -
ان قرآنی آیات اور انھیں آیات کے علاوه اور بھی دوسرے بههت سی آیات سے یه قطعی طور پر واضح هو جاتا هے که ایک دن پوری دنیا کے حکومت اور قدرت اهل ایمان اورنیک بندون کے هاتھ آۓ گی اور هر جگه اسلام کا چرچا هوگا اور سارے دنیا واے ایک هی پرچم یعنی پر چم توحید کے ساۓمیں جمع هوں گے –اور یه وه دور هوگا جس میں منجی عالم مهد موعود ظهور فرما یئں گے اور وه آخری زمانه کا دور هو گا –
ان قرآنی آیات سے مجموعی طور پر جو اهم مطالب اخذ هوتے هیں بطور خلاصه یوں بیان کیا جاسکتا هے –
۱: موعود قرآنی کی امامت اور رهبری میں توحید اور عدل کے اصولوں پر بنیاد رکھی گی آفاقی حکومت اور نظام کے چلانے کے لیے اﷲکے نیک بندوں اور اهل إیمان کے هاتھون دیا جاۓ گا –
۲:آیئں اسلام دوسرے تمام آدیان اور فکری مکاتب پر غالب آجاۓ گا اور دستور اسلام کو عملی جامه پهنا جاے گا –
۳: پوری دنیا میں عدالت ،امنیت ،صداقت ،محبت والفت پھیل جاے گی اور هر طرح إطمینان وسکوں اورصفا کا سما ں هو گا ،اور هر طرح کی اختلافات جو طبقاتئیت نژادیت ،لسانیت ُعلاقیت اور وطنیت کی شکل میں اُمتون میں پھیلے هو ے هیں اور هر قسم کی خود پرستی دنیا پرستی اور منیت جو ظلم وبربریت اور وحشیت کی شکل میں اُبھری هوئی هے ان سب کا خاتمه کر کے اس طرح عدل وانصاف سے بھر دۓ گا جس طرح ظلم و جور سے بھر چکا هو گا -
۴: ر هر قسم کے شرک ، بت پرستی ، غلامی اور بردگی کا قلعه قمع هو کے توحید اور یکتا پرستی کا عالم هوگا (5)

ب: روایات اھل بیت اور عقیده إنتظار فرج :
اھل بیت اطهار سے امام زمانه عج کے متعلق سینکڑوں روایات اور احادیث هم تک پهنچی هیں ان میں خصوصی طور پر انتظار کی اهمیت ،ضرورت بیان هوئی هے –
ان روایات سے جو اهم مطالب اخذ هوتے هیں ان میں سے چند کا بطور خلاصه تحریر میں لاتے هیں –

۱: إنتظار افضل ترین عبادت هے :
اهل بیت اطهار نے واضح طور پر نظریۃانتظار کے بنیادی رکن کی طرف اشاره کرتے هوۓ فرمایا هے که انتظار صرف نفسانی حالت کا نام نهیں بلکه عمل هے اور وه بھی بهتریں عمل هے جیسا که فریقین کے جانب منقول هے رسول خدا نے فرمایا – افضل اعمال امتی انتظار الفرج من اﷲ(6) -میری امت کے اﷲ تعالی کی جانب سے ظهور وآسائش کا انتظار کرنا بزرک ترین عمل هے – یاکسی اور مقام پر آپ یوں فرماتے هیں -انتظار الفرج عبادۃ افضل اعمال اُمّتی انتظار فرج اﷲ عزّوجل (7) فرج اور آسائش کا انتظار کرنا عبادت هیں میری امت کے اعمال میں سب کے بهتر عمل اﷲ کی طرف مے فرج وکشائش کا انتظار هے –اور مضمون میں ائمه معصومین سے بھی بے شمار روایتیں نقل هوئی هے جیسا که امیر المؤمنیں علی فرماتے هیں –انتظروا الفرج ولا تيأسو من روح اللّه ،فإنّ أحب الأعما الي اللّه عزّوجل انتظار الفرج الآخذ بأمرنا معنا غداً في حظير القدس ،والمنتظر لأمرنا كالمتشحط بدمه في سبيل اللّه(8) آسائش اور رهائي کا انتظار کرو خدا کی رحمتون سے کبھی مایوس نه هوجاؤ اسلئے که پروردگا کے نزدیک سب سے پسندیده عمل انتظار فرج هے اور هماری ولایت کے مضبوطی سے تھامنے والا کل جنت میں همارے ساتھ هوگا اور هماری ولایت وامامت کے انتظار کرنے والا اس شخص کے مانند هے جو اﷲ کے راه میں اپنے خون سے غلطان هوا هو -

۲: انتظار واجب اورظهور خدا کا حتمی وعده :
کلمات معصومین سے اتنا ضرور معلوم هوتا هے که حجت خدا کا ظهور حتمی هو جبکه اسکا انتظار فرض اور واجب یعنی ضروری هے –
جیسا که معصومیں کا جمله هے :أنّ قائم منّا هو المهدی الذّی يجب ان ينتظر فی غيبته ،ويطاع فی ظهوره (9) هم میں سے جو قائم هونگے وه مهدی هیں زمانه غیبت میں انکا إنتظار اور ظهور کے بعد انکی اطاعت سب پر واجب هے-
اسی طرح ابی داود اور ترمذی دونون نے اپنے سند کے ساتھ پیغامبر اعظم سے نقل کیا هے ،که آنحضرت نے فرمایا – ولو لم يبق من الدهر إلاّ يوم واحد لبعث اﷲ رجلاَ من أهل بيتي يملؤ ها عدلاً كما ملئت جوراً وظلماً (10)
“اگر دنیا کے عمر میں ایک دن سے زیاده باقی نه رهے تو پھر بھی پروردگار عالم میرے اهل بیت میں یےایک شخص کو بیجھا جاۓ گا اورزمیں کو ظلم وجور سے بھر جانے کے بعد عدلو انصاف سے بھر دے گا ”–
کسی اور روایت میں جناب طبرانی اور احمد حنبل وغیره نے رسول خدا سے نقل کی هے آنحضرت فرماتے هیں – ولو لم يبق من الدنيا الاّ يوم لطوّل اللّه ذلك اليوم حتي يبعث رجلاً منّي –أو من أهل بيتي – يواطيئ إسمه اسمي يملأ الأرض قسطاً وعدلأً كما ملئت ظاماً وجوراً ...... (11)
اگر عمر دنیا یے ایک دن سے زیاده باقی نه رهی تو پروردکار عالم اس دن کو اس طرح طول دے گا که مجھ سے یا میرے اهل بیت سے ایک شخص جو میرا هم نام هو گا ظهور کرۓ گا اور زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دۓ گا جس ظرح ظلم و جور سے بھر چکا هو گا ----
پس ان روایات کے علاوه سینکڑون روایات جسے فریقین نے تاریخی تفسیری اور حدیثی کتب میں نقل کی هے جو دلالت کرتی هے که جس هستی کے تما عالم منتظر هیں وه فرزند رسول اور هم نام رسول مهدی منتظرهوں گے که جنکےانتظار ضروری اور واجب هے جبکه انکے ظهور کا اﷲ تعالی حتمی وعده دیاهے –

۳: انتظاریعنی امام غائب پر عقیده :
ایک طرف تمام مسلمانوں کا عقیده هے که مهدی موعود روۓزمین پر خدا کا نمائیده اور بندون پر حجت هو ں گۓ تو دوسری طرف زمین کبھی حجت خدا سے خالی نهیں هوتی تاهم حجت خدا کی معرفت اور اور شناخت واجب اور ضروری هے –
چنانچه رسالت کآب فرماتے هیں – من مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة جاھلية(12) جو شخص اس حالت میں مرے جبکه وه اپنے امام زمان کونهیں پهچانتا هو تو وه جاهلیت کی موت مراهے -كسي دوسرےحدیث میں آپ فرماتے هیں: قَالَ قلتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَ تَبْقَى الْأَرْضُ بِغَيْرِ إِمَامٍ قَالَ لَوْ بَقِيَتِ الْأَرْضُ بِغَيْرِ إِمَامٍ لَسَاخَتْ (13)”اگر ایک لحظه بھی حجت خدا سے خالی هو جاۓ تو زمین هر چند کو نگل لے گئی –اسی طرح کسی اور مقام پر آپ اما م غائب پر عقیده رکھنے اور انکے ظهور کا انتظار کرنے والون کی توصیف میں فرماتے هیں:
طوبی للصابرين فی غيبته ! طوبی للمقيمين علی محبته ! اُولئک الذّين وصفھم اﷲ فی کتابه وقال:”هدی للمتقين الذّين يومنون بالغيب “(14) -” ان صبر کرنے والوں کے لیے خوش بختی هے جو انکے غیبت کے دوران صبر کرۓ ! اورخوشابحال هے وه لوگ جو انکی محبت پر پابر جا رهے ! یه وهی لوگ هیں جن کے متعلق پروردگار عالم نے اپنی کتاب میں کها هے ”هدایت هے ان صاحبان تقوی اور پرهیزگار لوگوں کے لۓ جو غیب پر ایمان رکھتے هیں”-اور انكے امامت پر ایمان نه رکھنے والے اور انکے خروج کے انکار کرنے والوں كرنے والوں کے بارے میں فرماتے هیں ”من انکر خروج المهدی فقد کفر بما اُنزل علی محمّد(15) حضرت مهدی عجل کے ظهور کا انکار کُل اسلام کے انکار کرنے کا برابر هے –
پس هر فرد مسلمان کی ذمداری هے که وه امام زمانه کے غیبت پر ایمان لاۓ انکی معرفت خدا ورسول کی معرفت انکی غیبت پر ایمان عالم غیب پرایمان اور انکے وجود مقدس پر ایمان خدا ورسول پر ایمان اور انکےاور انکے خروج کا انکار اسلام کے انکار کے برابر هے –

۴: إنتظار یعنی اهل بیت اطهار کے تقرب کیلۓ جدوجهد :
انتظار کا تقاضا هے که همیشه امام زمانه کی محبت اور تقرب کو هاتھ میں لانے اور انکے مورد غضب اور نارضگی واقع هونے کی فکر میں رهیں لهذا ایسا کام انجام نه دیں جو ان سے دوری اور انکے خاص عنایتوں محروم هونے کا سبب بنے بلکه همیشه اسیے عمل انجام دینے کی کوشش میں هونا چاهیے جو زیاده سے زیاده آنحضرت سے نزدیک هونے اور انکے رضایت کو جلب کرنے میں زیاوه مؤثر واقع هوتا هو –چناچه خود امام زمان جناب شیخ مفید کو ارسار کۓ گے ایک خط میں فرماتے هیں “فليعمل کلّ إمرء منکم بما يقرب به من محبّتنا ويتجنب ما يدنيه من کراهتنا وسخطنا ”(16) تم میں سے هر شخص کو ایسا کام کرنا چاهیے جو هماری محبت اور دوستی سے نزدیک کرنے کا سبب بنے اور جو چیزین همیں نا پسند هیں اور هماری کراهت وناراضگی سے نزدیک کرنے کا باعث بنتی هیں ان سے پرهیز کرنا چاهیے -

انتظار کا صحیح مفهوم –
لغت کے لحاظ سے انتظار ایک نفسیاتی حالت جو آئنده اور مستقبل کے لیۓ امیدوار هونا هے لیکن اسلامی تعلیمات میں إنتظار نه صرف ایک نفسیاتی حالت کا نام نهیں بلکه عقیده هے عقیده حق وعدالت کے طاقتوں کا ظلم وباطل کے طاقتوں پر مکمل طور پر غالب آنے ،تمام انسانی اقدار کا روۓ زمین پر برقرار هونے اور مدینه فاضله یعنی ایک آئیڈیل آفاقی معاشرے کے وجود میں بلاآخر عدل الهی اور دین الهی کا اس روۓ زمین پر آخری حجت خدا کے ھاتھوں جلوه گرھونے کا –
انتظار نظریه هے نظریه آخری زمانه میں منجی موعود کا ظهور کرنے اور عالم بشریت کو موجوده حالات سے نجات دینے اور مستضعفیں کے هاتھوں ایک آفاقی اور الھی نظام کا قائم کرنے کا هے –
انتظار عمل اور حرکت هے ایسا عمل جو جس میں نفس که تزکیه هو، فردی اور اجتماعی اصلاح هو یعنی خود سازی کے ساتھ دیگر سازی اور سماج سازی بھی هو ،اور ایسی حرکت جو منظم اور انسانی زندگی کے تمام پهلو اور زاویوں سے هو، اور اس آفاقی نظام کے لیۓ زمینه فراهم کرۓ اور اس دور کے ساتھ هم آهنگ اور وهم سوهوں ،یه هے حقیت انتظار اسلامی نقط نگاه میں انشاء اﷲ بعد میں تفصیلی وضاحت دین گے –

انتظار کا غلط مفهوم اور اسکا منفی نتائیج –
ممکن هے بسا اوقات نظریه انتظار کو اپنے درست اور اصلی مفههوم میں نه سمجھنےبلکه کج فهمی اور غلط مراد لینے کی وجه سے یھی انتظار سازندگی وتعمیری روخ کو بدل کر تخریبی ویرانگی کا روخ اختیار کر لے اور ایک متحرک انقلابی اور پاک سرش شخص یا معاشرے کو رکود وجمود ،مفلوج اور خباثت کی طرف دعوت دے -
اگر آپ تاریخ کا مطالعه کریں تو سینکڑون هزاروں کی تعداد میں افراد مختلف گروپوں تنظیموں کی شکل میں نظر ایئین گے جنهون نے عقیده انتظار کو الٹ سمجھنے اور اسے غلط مفهوم مراد لینے کی وجه سے نه صرف انتظار کو اپنے ترقی وسازندگی کا ذریعه بنایا بلکه الٹا یهی انتظار انکےمفلوج هونے جمود کے شکار هونے اور اپنے علاوه سکاج کو بھی فساد اور گناهوں کی طرف دعوت دینے کا سبب بنا مثال کے طور پر (انجمن حجتیه )نامی تنظیم جنهوں نے انقلاب اسلامی ایران سے پهلے انقلاب کے دوران او انقلاب کے بعد بھی ایران میں ملکی سطح پر لوگوں کو فساد اور گناهوں کی طرف دعوت دیتے تھے اور انکا یه شعار تھا که هم معاشرے میں جتنا بھی هو سکھے گناهوں کو اور ظلم وبربریت کو عام کر دے اتنا هی امام زمانه کی ظهور میں تعجیل کا زمینه فراهم هو گا اور امام جلدی ظهور کریںگے –
هم یهاں پر ان گروپوں میں سے ایک دو کی طرف اشاره کرتے هیں تاکه مؤمنین کے لیےاس قسم کے منحرف شده گروهوں کو پهچانے اور ان سے دوری اختار کرنے میں مدد ثابت هو جاے

پهلاگروه –
لوگوں کے ایک گروه کا یه نظریه هے که عصر غیبت کیں هماری ذمداری صرف اور صرف حضرت حجت کے تعجیل فرج کے لیے دعا کرنا هے اور کسی قسم کی اصلا حی واجتماعی حرکت کو انتظار اور خدائی مصلحت کے خلاف سمجھتے هیں انکا خیال هے که دنیا میں جو کچھ هو رها هے هونے دو هم کوئی ربط نهیں امام زمانه خود تشریف فرما کر ان سب کو ٹھک کرے گریں گے،اسے پهلے جو بھی علم اٹھے گا باطل کا علم هو گا اور لا محاله دین و شریعت کے خلا ف هو گا لهذا اسے اصلاحی اور اجتما عی حرکت کے خلاف اُٹھ کھڑے هوتے هیں –
اما م خمینی قدس اﷲ (عصر حاضر کے عظیم هستی)ا نکے رد میں فرماتے هیں –
(کچھ لوگ انتظار فرج کو صرف مسجدوں حسینیوں اور گھروں میں بیٹه کر امام زمانه کے ظهور کے لیے خدا کی درگاه میں دعا کرنے میں دیکھتا هے اور تکلیف اور ذمداری سمجھتے هیں هم سے کوئی ربط نهیں دنیا میں ملتوں پر کیا گزرے ،خود امام ظهور کریں گے تو سب کچھ ٹھیک کریں گے )یه ان لوگوں گا منطق هے جو حقیقت میں اپنے وظیفے پر عمل کرنے سے گریز کرنا هے ،اسلام انکو قبول نهیں کرتا بلکه هماری ذمداری هے که انکیامد کے لیے زمینه فراهم یں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں انشاء اﷲ ظهور کریں گئے (17) اگر هماری بس میں هوتی تو پوری دنیا سے ظلم وجور کو مٹا دیتے هماری شرعی ذمداری تھی لیکن یه هماری بس سے باهر هے ،اور حقیقت یه هے که حضرت حجت دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے یه نهیں که تم لوگ اپنے شرعی تکلیف سے هاتھ اُٹھاے بیٹھے اور اپنی ذمداری کو انجام نه دے(18) بلکه دوران غیبت میں چونکه احکام حکومتی اسلام جاری وساری هیں کسی قسم کی هرج و مرج قابل قبول نهیں هے ،پس حکومت اسلامی کا تشکیل دینا هماری ذمداری هے جسکا عقل حکم کرتی هے ،تاکه کل اگر هم پر حمله کرے یا ناموس مسلمین پر هجوم لانے صورت میں دفاع کر سکھے اور انھوں روک سکھے –هم ان سے یه سوال کر تے هیں ،که کیا پیغمبر اکرم نے جن قوانین کی تبلیغ وتبین اور نشروتنفیذ کے لیے ۲۳ سال ظاقت فرسا زحمتیں برداشت کی وه قوانیں محدود مدت کے تھیں ؟ یا خدا نے ان قونیں کے اجرا کرنے کو ۲۰۰ سال تک کے لیے محدود کیا ؟کیا غیبت صغری کے بعد اسلام نے سب کچھ چھوڑ دیا ؟(بے شک ) اس طرح کے عقیده اور اسکا اظهار کرنا اسلام کے منسوخ هو جانے پر عقیده رکھنے اور اسے اظهار کرنے سے زناده بدتر هے ، کوئی شخص نه نهیں کهه سکھتا کهاب اسلامی مملکتوں کا انکے حدود و باڈروں کا دفاع کرنا واجب نهیں هے یا مالیات ،جزیه ،خمس وزکواۃ اور خراج نهیں لینا چاهیے ،یا اسلام کے کیفری احکام دیات قصاص سب تعطیل هے (19)

دوسرا اور بدتریں گروه-
اس گروه کا کهنا هے که نه صرف سماج سے ظلم وستم کو ختم کرنا اور گناهوں سے پاک کرنا هماری ذمداری نهیں بلکه همیں چاهیے که لوگوں کو گناهوں که طرف دعوت دیں اور جتنا بھی هو سکھے ظلم وبربریت کے دائرے کو بڑھنے کی کوشش کریں تاکه امام زمانه کی ظهور کے لیے زمینه فراهم هو جاۓ ،اس گروه میں بعض خود غرض افراد بھی هوتے هیں جو سوچھے سمجھے فساد کی طرف دعوت دیتے هیں اور بعض ایسے ساده لوح افراد بھی هوتے هیں جو دوسروں کے غلط افکار کے زد میں ا کر منحرف هوتے هیں –
انکے رد میں رهبر کبیر امام خمینی فرماتے هیں :یه جو کهتے هیں ضروریات اسلام کے خلاف هے ،یه که هم خود بھی گناه انجام دیں اور معاشرے میں بھی گناهوں پھلاے تاکه حضرت حجت جلدی ظهور کریں ،....حضرت حجت ظهور کریں گے تو کس لیے ظهور کریں گے ؟اسیلیے ظهور کریں گنے که دنیا میں عدالت کو گسترش دیں ،حکومت کو تقویت دینے کے لیے ، فساد کو زمین سے ریشه کن کرنے کے لیے ظهور کریں گے ،لیکن هم قرانی ایات کے خلاف امر بالمعروف اور منکر سے نهی کرنے سے هاتھ اُٹھا لیں اور گناهوں کو پھیلانے کی فکر میں رهیں تاکه حضرت جلدی ظهور کریں ،کیا انحضرت جب ظهور کریں گے تو یهی کام انجام دیں گئے ؟
ابھی دنیا ظلم وجور سے بھرا هوا هے ...اگر ظلم وجور کے روک سکھتے هیں تو هماری ذمداری اور تکلیف هے ضرورت اسلام اور قران نے هماری ذمداری ڈال دی هے که باید قیام کرے اورهر کام کو انجام دے - (20)
یقیناً اس قسم کا انتظار جس میں ایک قسم حدود قوانین اور اسلامی مقررات کا تعطیل هونا لازم آتا هو اور منتظرین کو گناهوں کی طرف دعوت دے تخریب اور جود کا شکار هو جاے یقیناً اسیے انتظار خود امام زمانه کے ارشاد کے مطابق طهور کی راه میں سب سے بڑا مانع اور سد راه هے چنانچه اپ فرماتے هیں : و لو أن أشياعنا وفقهم الله لطاعته على اجتماع من القلوب في الوفاء بالعهد عليهم لما تأخر عنهم اليمن بلقائنا و لتعجلت لهم السعادة بمشاهدتنا على حق المعرفة و صدقها منهم بنا فما يحبسنا عنهم إلا ما يتصل بنا مما نكرهه و لا نؤثره منهم و الله المستعان و هو حسبنا و نعم الوكيل و صلاته على سيدنا البشير النذير محمد و آله الطاهرين و سلم (21) “اگر همارے شیعه – اﷲ تعالی انهیں اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرماۓ ،ایک دل اور متحد هو کر همارے ساتھ باندھے گۓ عهد وپیمان کو وفا کرتے تو همارا إحسان اور هماری ملاقات کا شرف وفیض ان سے هرگز مؤخر نه هوتا : اور بهت جلد کامل معرفت اور سچی پهچان کے ساتھ همارے دیدار کی سعادت انکو نصیب هوگی ،اور همیں شیعون سے صرف اور صرف انکے ایک گروه کے کردار نے پوشیده کر رکھّا هے – جو کردار همیں پسند نهیں اور هم ان سے اس کردار کی توقع نهیں رکھتے تھے ،پروردگار عالم همارا بهترین مددگار هے اور وهی همارے لیۓ کافی هے –
پس حصرت حجت علیه السلام کے اس کلام سے یه بات ےاضح هو جاتی هے که اهل بیت اطهار کے چاهنے والوں سے جس چیز کے وفا کا عهد وپیمان لیا هے ،وه انکی ولایت واطاعت هے –
اور جو چیز امام زمانه کی زیارت سے محروم هونے اور انکے ظهور میں تاخیر کا سبب بنی هے وه انکے مانے والوں کے آنجناب کی اطاعت اور حمایت کے لیے آماده نه هونا هے ،اور یهی اطاعت اور حمایت ظهور کے شرائط میں سے ایک اهم شرط بھی هے –
-----
(1) توبه: ۳۳ -
(2) توبه: ۳۲ -
(3) انبیاء: ۱۰۵ -
(4) قصص:۵ -
(5) ظهور حضرت مهدی : اسد اﷲهاشمی شهیدی ،ص ۱۹۸ -
(6) کمال الدین: ج ۲ باب نمبر ۵۵ ح ۱ -
(7) کنزل العمال : ج ۳ ص ۲۷۳ ح ۶۵۰۹ -
(8) بحار انوار : ج ۵۲ ص ۱۲۳ ح ۷ -
(9) منتخب الاثر –ص ۲۲۳ -
(10) سنن ابی داود ج ۲ ص ۴۲۲ -
(11) تاج الجامع للاُصول :ج۵ ص ۳۴۳ و بحار انوار ج ۵۱ ص ۷۴ ح ۲۷ اور مسند احمد:ج۳ ص ۳۷ -
(12) شرح مقاصد :ج ۳ ص ۳۷۵ المغنی :ج ۱ ص۱۱۶ صحیح مسلم :ج۶ ص۲۱ معجم الکبیر :ج۱۰ ص ۳۵ -
(13) کلینی:اصول الكافي ج : 1 ص : 17۹ -
(14) مجلسی : بحار الانوار،ج۵۲ ،ص ۱۴۳ -
(15) ینابیع المودۃ:ج ۳ ص ۱۸۰
(16) احتجاج :ج ۲ ص ۳۲۳ -
(17) مجله مهدی موعود : شماره نمبر ۱،ص ۱۶ -
(18) مجله مهدی موعود : شماره نمبر ۱،ص۱۴ -
(19) مجله مهدی موعود : شماره نمبر ۱،ص۱۵ -
(20) مجله مهدی موعود : شماره نمبر ۱،ص۱۵ -
(21) الاحتجاج ج : 2 ص : 499