پهلی فصل :انتظار کیوں ضروری هے -
سب سے پهلے نظریه انتظار کے انسانی زندگی میں ضروری هونے کو مختلف لحاظ سے زیر بحث لاتے هیں تاکه یه بخوبی معلوم هو جاۓ که انتار کیون کر ضروری هے-
۱: عقيده اور إنتظارکی ضرورت:
عقيدۃ اساس حياۃ اور زندگی کی بنياد هۓ عقيدۃ اور معرفت انسان کے اندر ايک ايسی حالت اور انگيزه پيدا کرديتی هیں جو خود بخود عمل اور کردار کے وجود ميں آنے کا سبب بنتی هیں ، چنانچه جتنا عقیده مستحکم اور معرفت وسیع هو گی اتنا هی عمل پکا اور عملی میدان پائيدار ثابت هو گا اور مختلف قسم کے لغزشون اور کج فهمیوں سے بچ جاےگا –
اور صحیح عقیدے کا حصول صرف اور صرف صحیح معرفت اور شناخت کے ساۓ میں ممکن هے،لھذا حقیقی منتظر وه شخص هو گا جسنے فکری سطح پر یه پهچان لیا هو که جس هستی کے وه منتطر هے وه ذات مظھر آسماۓ إلھی ،واسطه فیض ربانی اور خاتم اوصیاء هیں انکی صحیح معرفت اور شناخت اﷲ تعالی کی معرفت اور شناخت هے -
اور یه بھی جان لے که انتظار اس نفسانی حالت کا نام نهیں جس طرح لغت میں آیا هے بلکه انتظار عمل هے نه صرف عمل نهیں بلکه عقیدۃ هے عقیدۃ حجت خدا کے اس روۓ زمیں پر ظهور کرنے کا اور زمیں کو عدل و إنصاف سے پر کرنے اور هر جگه دستور إلهی نافذ کرنے کا عقیدۃ پرچم توحید کو هر قطعۃ زمیں پر لهرانے کا اگر اس عقیدۓ نے کسی شخص اور مومن کے دل و دماغ میں ریشه ڈال دیا اور اپنا جڑ مضبوط کردیا تو یه عقیدۃ اسے إنسانیت کے دشمن إستعمار کے جارحانه حربون کے مقابلے پهاڑ کے مانند ڈهت جانے اور انکے نپاک عزائم کو خاک میں ملانے میں کامیاب بناے گا، اور اسے معاشرے میں حقوق ﷲ اور حقوق الناس کے رعایت کرنے ساتھ ایک عدلانه إلهی نظام کے وجود میں لانے إستعماری إیجنڈوں کے خلاف قیام کرنے اور ظلم و بربیت کے خلاف مقاومت اور جان نثاری کرنے پر آمادۃ و تیّار کردے گا –
اور انسان کے فکر ودماغ اور کردار پر عقیدۃ انتظار کے معجزه آسا اثر کو مد نظر رکھتے هوۓ إسلام نے انتظار کو عبادت کا مقام دیا هے تو اهل بیت اطهار نے اسے افضل العبادۃ کها هے چناچه پیغمبر اکرم فرماتے هیں( إنتظار الفرج عبادة ) اسي طرح كسى اور حديث ميں فرماتے هیں (أفضل اعمال اُمتي إنتظار الفرج )(1) کسی اور حدیث چھٹے امام فرماتے هیں – إعلموا أنّ المنتظر لهذا الآمر له مثل أجر الصائم القائم – -
جان لو همارے قائم کے انتظار کرنے والے کیلیے صائم النهار اور قائم اللیل کا ثواب حاصل هے---
۲: سماج اور إنتظار کی ضرورت :
بشر فطری طور پر ایک سعادت مند اجتماعی زندگی گزارنے کی آرزو رکھتے هیں اگر یه آرزو اور خواهش ایک نه ایک دن پوری نه هونے والی نه هوتی تو اسکے فطرت اور خلقت میں خواهش اور تمنّا رکھی نه جاتی جس طرح آب وغذا نه هوتے تو بهوک اور پاس اسکے وجود کا حصه نه هوتا اسی طرح اگر یه فطری خواهش قابل تحقق نه هوتی تو اسے اسکے فطرت میں رکھے هی نه جاتے- اور آرزو صرف اور صرف ایک جامع اورکامل إجتماعی نظام کے زیر ساۓ میں قبل تحقق هے جو اس آدمی ذات کی تمام مشروع خواهشات کا جواب گو هو اور اسکی بنیاد عدل و إنصاف پر رکھا گیا هو،اور اسلامی تعلیمات کی رےشنی مبں هم مسمانون کا عقیده هے اور اس پر قطعی طور پر یقین رکهتے هیں که وه إجتماعی نظام بشر کے تمام مشروع خواهشات کا جواب گو هوں جسکی بنیاد عد و انصاف پر رکھی گی هو جسکا معیار حق وحقیقت هو اور انسانی معاشرے کو یآس و ناامیدي جسے مهلک بیماربون سے نجات دلاۓ وه نظام سواۓ اسلامی نظام کے علاوه کو اور نظام نهیں هو سکتا هے اور یه مقدس نظام اپنی کامل ترین شکل وصورت میں إمام زمانه عجل اﷲ تعالی فرجه کے دور میں تحقق پاۓگا
یه نظریۃ اسلامی تعلیمات کے روشنی میں اس قدر روشن اور واضح هے که جسکے بعض مستشرقین (غیر مسلم محققین جو اسلام کے متعلق سرچ کرتے هیں )نے بهی اس حقیقت کا اعتراف کیا هے جسا که جرمن کا مشهور فلاسفر ماربین اس حقیقت کی تصریح کرتے هوے کهتا هے (( من جمله إجتماعی مسائل میں سے ایک بهت هی اهم مسئلۃ جو شیعون کے کامیابی کامرانی اور مستقبل سے امید کا باعث بنا هے وه هے امام حجت کے وجود اور انکے ظهور کے انتظار پر عقیده هے کیونکه یه عقیده دلون میں امید کی روح پھونگ دیتي هے اور کبهی اسے یآس و نا امیدی جیسے مهلک بیماریون کا شکار هونے نهیں دیتا اور برابر حرکت اور جنبش پیدا کر دیتا هے چونکه انکے سامنے روشن مستقبل هے اپ وه اس روشنائی تک اپنےآپ کو پھنچانے کیلیے مسلسل جدو جهجد اور کوشش کرتے رهیں گئیں کسی قسم کے مشکلات سختیان انکو اس هدف تک پهنچنے سے روک نیں سکھتی اس طرح بهت بڑے بڑے إجتماعي اور سماجي کامیابياں انتظار کے اس مستحکم عقیدے کے نتیجهے میں حاصل هوگے (2)
۳: عالمي سیاست اور انتظار کی ضرورت :
تاریخ اس بات پر گواه هے که زمین پر مختلف قسم کے فکری مکاتب مختلف انداز کے سیاسیي اور اجتماعي نظام کے ساتھ وارد میدان هوۓ لیکن عرصه نه گزرا صفحات تاریخ کے زینت بنی مثال کے طور پر سوینالستی نظام اپني تمام دوم دام کے ساتھ آۓ لیکن بهت هی کم مدت میں پاش پاش هو کر صفحه هستی سے مٹ گیا آج لبرال دیمو کراسی اور نظام سرمایه داری آزادي دیموکراسي جیسے خلاب نعرون کے سات وارد عرصه هوا هے اور اپنی ایٹمي وعسکري طاقتوں کے بل بوتے هر غریب اور کمزور کو جینا حرام کر دیا هے لیکن زمانه گزدنے کےساتھ ساتھ دوست ودشمن کو اسکی جارحیت اور بربریت کا شکوا هے اور سب کا یه اعتراف هے که موجوده عالمی نظام ظالم ترین عالمي نظام هونے سایھ بهران زده اور شکست خورده نظام میں شمار هوتا هے اور هر طرف بشر اخلاقي اقتصادي سیاسي و---- بهران کے شکار هے هر طرف پریشاني اضطراب نے گیر لیا هے چنانچه اس همه گیر عالمی بهران سے نجاب اور رهائی صرف اور صرف ایک ایسے آفاقي نظام میں دیکهتے هیں جس کی بنیاد عدل و انصاف اور انساني اقدار پر رکهي گی هو – اور همارا عقیده هے که ایسے علم گیر آفاقي سیاسي نظام کا تحقق منجي عالم بشریت امام منتظر کے إلهي قیادت میں امکان پزیر هے –
آیئں یهود اور مسیحي دنیا میں ۱۹ اور۲۰ صدی میں یهود او ر مسیحي دونو اپنے درینه دشمنی کے باوجود اس نتیجھے پر پونھچے که منجی “مسیحا ”کے ظهور کے لیۓ سیاسی سطح پر زمینه فراهم کرنے اور سیاسي پشتبانی کے طور پر ایک مشترکه حکومت جو صھونیزم کے بنیاد پر قائم هو وجود میں لایا جاۓ – اور اس سیاسی طرز فکر کے نتیجھے میں اسرائیلی غاصب حکومت فلسطینیون کے آبائی سر زمین پر وجود میں لائیں اور اسی نظرے کے پیچھے آمریکا و یورپین ممالک کے سینکڑون کنیسا اور مسیحی تنظیمون نے اسرائیل کے جارحانه اور غاصب حکومت کی پشپناهی کیں
اور ۱۹۸۰ ء میں انإنٹرنشنل ام بی سی اف کرچچن قدس میں تاسیس هوئی جسکا اصلی هدف یون بتایا گیا “هم إسرائیلیون سے زیاده صھونیزیم کے پابند هیں اور قدس هو شھر هے جس پر اﷲ تعالی نے اپنا خاص کرم کیا هے اور اسے تا ابد اسرائیلیون کے لیے دیا هے –
اور اس کرچچن سفارت کے اراکین کا یه عقیده هے ،اگر اسرائیل نه هے تو جناب مسیح کے بازگشت کا کوئی امکان هنیں هے چناچه اسرائیل کا وجود مسیح منجي عالم کےلیے ضروری هے (3)
تو جب یھود اور نصاری عقیده انتظار کے سیاسي پهلو کے پرتو میں اپنے درینه دشمنیون کو بھول کر اسلام اور مسلمین کے خلاف ایک غاصب حکومت وجود میں لا سکھتے هیں
تو کیاهم مسلمانوں کو نهیں چاهیے خود ساخته اور بناوٹي اختلافات کو بالاے طاق رکھ کر ایک پلٹ فارم پر جمع هو کر اس افاقی الهی نظام کے لیے زمینه فراهم کریں،اور
ایسے نظام کو عالمي سطح پر وجود لانے کیلیے انتظار کے سیاسي پهلو پر کام کرنے کی اشد ضرورت هے تاکه خود بخود إصلاحی حرکت شروع هو جاۓ اور رفته رفته پورے جهان کو اپنے لپیٹ میں لے لیں، انقلاب إسلامی جمهوري ایران اس حقیقت پر گو یا دلیل هے که جسے امام خمینے نایب امام زمان اور ایراني قوم نے إنتظار کے سیاسي پهلو پر عمل کرتے هوۓ اُس آفاقي إلهي نظام کے مقدمے کے طور پر اسلامی قوانین پر مبتنی اسلامي جمهوریت کو وجود میں لایے هیں اور اُمید هے که دنیا کے دوسرے مسلمان بهی بیدار هو جائیں اور اس بابرکت إصلاحی قدم پر قدم رکھتے هوے عصر ظھور کیلیے زمینه فراهم کرنے میں شریک بنئیں إنشاء اﷲ وعد إلهي کا تحقق نزدیک هو گا –
۴:ثقافتي یلغار اور إنتظار کی ضرورت :
بے شک عسکري اور بازو کی طاقت سے دنیا کو تسخیر کرنے کا دور گزر گیا هے لیکن عالمي سطح پر ثقافت اور تهزیب وتمدن کا جنگ اپنے اوج پر هے تمام مسلم دانشور حضرات اس بات پر متفق هیں که کے اس دور میں اسلامي کلچر اور تهذیب کے خلاف إستکبار جهاني نے جو جنگ سرد لڑٸ هے وه اپني جگه بے سابقه هے که جس میں اپني تمام تر شیطاني اور انسانَ طاقتون کو کام میں لایا هے اور اسلامي تهذیب وتمدن کو ختم کرنے کے نا پاک عزائم کے ساتھ میدان عمل میں اُترے هیں،اپ اس حالت میں هم سب که سب سے اهم زمداري دیني ثقافت اور اسلامي تهذب و تمدن کے تحفظ اور بقاء کیلیے جد وجهد اور قربانی دینا هے،اور یه هدف اس وقت قابل تحقق هے که جب انسان زندگی کے مختلف شعبون میں ایک منظم انداز میں ایک همه گیر تحرک کی ضرورت هے جو عصر ظهور کےاس روشن مستقبل کے ساتھ همآهنگ هو اور اسلامي معاشرے کو ان ثقافتي یلغار اور تهذیبي جنگ سے بچانے اور ایک همه گیر ثقافتي تحریک کے وجود میں لانے کے لیے نظریۃ انتظار کو اپنے صحیح مفهوم میں سمهجنے اور ثقافت انتظار کو سماج میں عام کرنے کی ضرورت هے –
۵: وحدت اور انتظار کی ضرورت :
قرآن کریم کی نگاه میں آسماني کتابون نبیون اور الهي نمایندے کے اس ورۓ زمین پر بهیجنے کا ایک اهم مقصد متفرق پراکنده ،منتشر اور تقسیم شده إنسانیت کے اندر وحدت برقرار کرنا هے-هر نبي نے آکر اپنے زمانے میں اُمت و متحد کیا اور ان اختلافات کی نفی کی جو طبقائیت نژادیت ،لسانیت ُعلاقیت اور وطنیت کی شکل میں اُمتون میں پهیل گئی تهین –
اس حقیقت پر سب سے بڑی مستند پیامبر اکرم کا عمل اور آپکی سیرت هے آنحضرت ایک طبقاتي وتقسیم شده معاشرے میں مبعوث هوۓ لیکن آپ نے اپنی نبوت کا آغاز وحدت سے کیا اور (تآخوا فی اﷲ) کی بنیاد پر تمام مسلمانون کو آپس یں بھائی بھائی بنایا اور بابرکت زندگي کے آخری خطبےمیں بھی جو که خطبئه حجۃ الوداع یا الغدیریۃ کے نام سے مشهور هے اسی وحدت کے موضوع پر زور دیا گیا ، اور مسلمانون کو در پیش مشکلات وخطرات کو پیش نظر رکهتے هوۓ ثقلین کو اس وحدت کا محور اور میزان قرار دیتےهوۓ یه واضح کر دیا که هر قسم کے إختلافات وانحرافات و نژادیت اور فرقه وارانیت سے بهچنے کا واحد ذریعه قرآن وعترت سے تمسک اور پیروی هے:
پیغمبر اعظم کی فرمائشات ارشادات اور عملي سیرت همارے سامنے هونے کے باوجود امت مسلمۃکو جس چیز نے سب سے ذیاده نقصتان پهنچائی اور اب سخت نقصان دۓ رهی هے تفرقه إنتشار اور ناچاکی هے ،انتشار اور ناچاکی ایک ایسی بٹهيهے جسے متحده دشمن نے دین وثقافت کے خلاف حربے کے طور پر استعمال کر رها هے اپ جسکا ایندهن بهی مسلمان هیں اور جلانے والے بهی مسلمان هیں یعنی مسلمان هی کے وجود سے یه شعله نکلتاهے اور مسلمان هی کو جلاتا هے ،لیکن همارا دشمن تفرقه ختم کرکے جعرافیائی سرحدین،قومی سرحدیناور ثقافتي سرحین مٹا کر ایک ایک پلیٹ فارم پر جمع هو کر ایک آفاقی نظام کو وجود میں لانے طرف جارها هے،تو عالم اسلام کو بهی چاهےاسلامی تعلیمات کی روشنی مین هر طرح کی تفرقه بازيإختلافات اور ناچکیون کے بناوٹی سرحدون کو ٹور کر ایک ایسے آفاقی الھی نظام کے وجود میں لانے کے لئے متحد هو جاے جسکا وعده اﷲ تعالی نے اپني لا ریب کتاب دیا هے ، اور یه وحدت صرف اور صرف فکر آنتظار اور فلسفه انتظار کے سائے میں وجود میں آسکتا هے –
۶: تاریخ إنسانیت اور إنتظار کی ضرورت :
تاریخي سررچ سے معلوم هوتا هے که آخری زمانه میں منجی کا انتظار اور موجوده حالت سے عالم بشریت کو نجات دینا اسلام اور آسمانی مکاتب فکر سے مخصوص نهیں هے بلکه غیر آسماني اور مادي وفلسفي مکاتب فکر بھی ای نظریۃ کا عقیدۃ رکهتے هیں –
جیسا که راسل ( ) کهتا هے {آخری زمانے میں منجی کا انتظار اور اسکا آخری زمانه میں ظهور کرنا عالم بشریت کو نجات دینا یه آسمانی ادیان سے مخصوص نهیں هے بلکه غیر دیني اور مادی مکاتب فکر بهی تمام عالم بشریت کو نجات دلانے والے اور عدل وانصاف پھلانے والے کے ظھور کے انتظار میں زندگی بسر کر رهے هیں }
اسی ظرح کتاب مقدس (توریت ار انجیل ) میں بهت ساری نصوص اسیے هیں جو عقیدۃ انتضار پر پروی طرح روشني ڈالتی هیں ،اور آخر زمانه کیں مسیحا یا منجی بشریت کی آمد اور اس کائنات کو عدل و انصاف سے بھر دینے اور بشریت کو ظلے وجور سے نجات دینے کی بشا رت دی هے ،اسی لیے امریکا کا مسیحي شهرت یافه مؤلف اپنی کتاب –قاموس المقدس – میں یهودیون کے انتظار پر عیقدے کے متعلق یون لکھتا هے {یھودی نسل در نسل عهد قدیم – توارت - کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی پر مشقت طویل تاریخ میں هر قسسم کی ذلتون اذیتون رسویون اورشکنجون کو صرف اس اُمید کے ساتھ تحمل کیا که ایک دن مسیحا –مجنی یهودیت – آیں گے اور انهیں ذلت وخورای و رنج و مصیبتون کے گرداب سے نجات دلایئں گے ، اور همیں پورے کائنات کا حاکم بنایں گے(4) لیکن اس انتظار سوزان کے بعد جب جناب مسیح اس دنیا میں اۓ تو انهون ان میں کچھ وه صفتیں نهیں پایۓ جنکے مسیحا میں هونا ضروری سمجهتے تھے چنانچه انهون انکی مخالفت شروع کی یهان تک انکو سولی پر چهڑایا اور قتل کیا ،پهر کهتا هے انجیل میں بهی منجی عالم بشریت کو فرزند انسان کے نام سے ۸۰ جگهون پر پکارا هے ان میں سے صفر ۳۰ مورد حصرت مسیح پر صدق آتا هے باقی ۵۰ مورد ان پر صدق نهين اتا بلکه یهاں ایک ایسے مصلح اور منجی جهانی کے بارے میں گفتگو هوئی هے جو آخری زمانه میں ظھور کریں گے- (5)
چناچه تورات میں هم مطالعه کرتے هیں :اشرار اور ظالمون کے وجود سے کبھهی نا امید نه هو اس لیۓ که ظالمون کی نسل زمین سے مٹادی جاۓگا،اور عدل الهی کا انتظار کرنے والے زمین کا وارث بنین گے جو افراد جن پر خدا نے لعنت کی هے ان کے درمیان اختلاف پیدا هو گا –اور صالح افراد وه هونگے جو زمیں کے وارث بن چکے هونگے اور تاریخ کے إختتام تک زمین پر زندگی بسر کریں گیے (6)
اسی طرح انجیل یوحنا میں حضرت عیسی مسیح کا قول نقل هوا هے ”اور عنقریب جنگون اور اسکی افواهون کو سنیں تو کبھی ایسا نه هو که اسکی وجه سے بے صبری کا اظهار کریں،اس لیے که اسکے علاوه کو اور چاره نهیں هے، لیکن وه دن وقت تاریخ کا إختتامی زمانه نهیں “ –(7)
۷: عقل اور إنتظار کی ضرورت :
جب هم موجوده عالمی حالات کا جائزه لیتے هیں اور بهڑتی هوئی فتنه وفساد وهرج ومرج وظلم وجور قتل وغارت لوٹ مار وخونریزي نا إنصافی تجاوز قومی اور ملکي سطح پر باهمي کشمکش وإجتماعي سطح پر اخلاقی وجنسی اور اجتماعي فسادات کا مشاھده کرتے هیں تو یه سوال خود بخود ذهن میں آجاتا هے که کیا دنیا اپنی موجوده حالت پر باقی رهے گیی ؟کیا ظلم وستم سلطه طلبی -----میں کما کان اضافه هوتا رهے گا ؟یا یه که بشر اس دن کو بهی دیکھے گا جس دن ان تمام فسادات کو جڑ سے اُکاڑ کر ستمگرون ظالمون اور جلاّدون کاخاتمه کر چکا هو گا –اور ایک همه گیر تحریک کے زریعے هر طرح عدل وانصاف برادری محبت و الفت کی سنهری خوشبو پهیل چکی هو گی ؟
یهاں پر آکر عقل حکم کرتی هے بشر سر انجام قانون عدالت اور فطرت کے که جسکی بنیاد پر ساری کائینات کی پیدائش هوئی هے سر تسلیم خم هونے پر مجبور هے ، چونکه پروردگار عالم نے اس جهان کو اس قدر منظم اور قانون مند خلق کیا هے که ایک منظم قانون پوری کائینات کے چهوٹے سے چهوٹے ذرات سےلے کر بڑے سے بڑ ے کهکشانون اور شمسی نظاموں پر حاکم هے اور تمام اجزاۓ هستی ایک هی دقبق معین اور یک سان نطام کے تابع هیں اور اسی نظام کے ما تحت حرکت کرتے هیں که انسان بهی اُسی کائینات کا ایک حصه اور اسی کل کا ایک کجزء هے هو نهیں سکتا که جزء کل کے خلاف سمت نا منطم انداز میں حرکت کرتا رهے چونکه به تمام اجتماعی سماجی اور فردی فسادات هر ایک اپنی جگه نظام پیدائش کے متضاد حرکت هے ،
پس نظام پیدائش کا تقاضی یه هے که انسان نظام فطرت که طرف پلٹ آینں اور اپنی حرکت کا روخ بدل دین ورنه زوال اور فنا حتمي هوگا
تو دوسری طرف الهي حکمت کا تقاضی هے که اس انسان کو زوال و فنا سے بچانے اورسعادت مند زندگی گزارنے کے لیے ایک الهی نمائنده بیجھ دین که جس کا رابطه عالم غیب سے هو اور هر لحاظ سے معصوم هو تاکه انسان اس آیڈیل هستی کے پیروی اور إقتداء میں دوباره اپنا درست رآسته انتخاب کرسکهے اور إجتماعی عدالت قائم کر سکهے اور ایک کامل اور دقیق نظام صرف اور صرف ایک کامل اور عالم هستی کی محتاج هے جو ان تمام قوانیں کا علم رکهتی هو خارق عات قدرت کا مالک هو هر لحاظ سے معصوم اور منزه هو ایک ایسی هستی کے هاتھون قابل تحقق هے که جسکے پوری دنیا انتظار کر رهی هے
اور ضروت عقلی که طرف اشاره کرتے هوے امیر المؤمنین ع فرماتے“بلى،لا تخلوا الآرض من قائم للّه بحجّة إماّ ظاهراً مشهودا ، وإمّا خائفا مغموراٌ ،لئلاٌ تبطل حجج اللّه وبيّناته “بے شک زمین اسیے شخص سے خالی نهیں هوتا جو حجت خدا کے ساتھ قیام کرتا هے چاهے وه ظاهر اور مشهور هو یا خائف اور پوشیده –تاکه پروردگا کی دلیلیں اور اس کی نشانیاں مٹنے نه پائیں -
پس عقل اور نظام پیدائش کا تقاضا هے که انسان ایک روشن مستقبل کے بارے میں سوچیں اور اسے سنوارنے کیلیے سب مل کر اصلاح قدم اٹهایں اور اسی روشن مستقبل کے انتظار اور اسےسنوارنے کیلیے قدم اُٹهانے کا نام هے انتظار –
۸:تقاضاۓ فطرت اور انتظار کی ضرورت :
مختلف دینی اور غیر دینی مکاتب فکر کی نگاه میں انتظار ان فطری مسائل میں سے هیں جسے اس انسان کے سرشت اور خلقت میں رکھّا گیا هے ،اس بات پر بهترین دلیل خود ان مختلف مکاتب اور مذاهب کا مختلف عقیدۓ مختلف طرز فکر سے تعلق رکھنے اور مختلف آداب ورسوم کے پابند هونے کے باوجود سب کا اس بات پر مقفق هونا اور سب کا اس حقیقت کی طرف نشاندهی کرنا هے کگر چی نفس پروری اور دنیا پرستی کی وجه سے یه حقیقت هر فرد کیلیے واضح نه هو اور شخص اپنے اندر منجی بشریت کے ظهور کا إحساس نه کرۓ لیکن جب مصائب تنگدستی ضعف و---میں مبتلا هو نے پر فطرت بیدار اور صداے فطرت نا خواسته طور پر نکل آتی هے اور ظهور منجی کا إشتیاق دل میں شعله ور هو جاتا هے –
۹:جهان سازی اور إنتظار که ضرورت :
اگر چه نظریۃ مهدویت اور انتظار ایک آفاقی نظریۃ هے تمام آسمانی ادیان اور غیر آسمانی مکاتب فکر اس عقیده میں مشترک هیں لیکن اس شخصیت کے متعلق إختلاف پایا جاتا هے که وه شخص کون هو گا که جسکے هاتھون آفاقی انقلاب اور تبدیلی وجود میں آۓگا –
یهودی قوم کا نظریۃ هے که وه شخص جناب إسحاق کے نسل سے هوگا ابھی دنیا میں نهیں آیا بعد میں آے گا –
چنانچه تورات کا یهودی مفسر “حنان إیل ”سفر تکوین نمبر ۱۷ إصحاح نمبر ۲۰ کے ذیل کیں لکهتا هے –اس آیت کے پشنگویی سے ۲۳۳۷ سال گزر گیا یهان تک عرب إسماعیل کے نسئل سے ایک عظیم امت که شکل میں پورے عالم پر غالب آیا هے که جسکے جناب إسماعیل مدّتون سے منتظر تھے لیکن زریه اسحاق میں هماری گناهون که وجه سے خدائي وعده اب تک تحقق نهیں پایا هے پهر بهی همیں اس حتمی وعد کے تحقق پانے میں نا اُمید نهیں هونا چاهیے -
مسیحیون کا عقییده هۓ که جس شخص کے سب منتظر هیں وه جناب مسیح هیں یهودیون نے قتل کرنے کے بعد اﷲ تعالی نے انهیں دوباره زندگی دی اور آسمان پر لے گیا تاکه آخری زمانه میں انهیں دوباره زمین پر بیجھ دیا جاے اور انکے ذریعے هی وعد الهی تحقق پاۓ –
لیکن هے مسلمانون کا مشترکه عقبده هے انکی ذات آقدس جناب اسماعیل کے نسئل فرزند خاتم المرسلین ذریه سیّده کو ننین اولاد امام حسیں هیں،بلکه بعض اهل سنت علماء کے نزدیک بھی آپ امام حسن العسکري ع کے بلا فصل فرزند ارجمند هیں ، چنانچه ابی داود نسائي وابن حنبل وطبرانی وحاکم اور دیگر شیعه سنی اکثر علماء نے پیغامبر اکرم سے نقل کیا هے آنحضرت فرماتے هیں “اگر دنیا کی عمر میں سے صرف ایک دن باقی هو تو اﷲ تعالی اس دنیا میں ایک شخص کو منتخب کرۓگا جسکا نام میرے نام پر هوگا،اس کا اخلاق میرے اخلاق جیسا هے گا اور اس کی کنیت ابو عبداﷲ هے رکن ومقام کے درمیان اس کے ساتھ بیعت هو گی اﷲ تعالی اس کے ذریعه دین کو اس کے اّپنی اصلی حالت کی طرف پلٹا دے گا اور اس کے ليے کامیابیان حاصل هون گی ،زمیں پر صرف خدا پرست اور لا الله الاﷲ کهنے والے باقی ره جائیں گے اس وقت سلمان نے آنحضرت سے عرض کیا :یا رسول اﷲ آپ کے فرزندوں میں سے کوں سا فرزند هو گا ؟ آنحضرت نے اس وقت اپنا دست مبارک امام حسین پر رکھ کر فرمایا :میرے اس بیٹے کی نسل سے هو گا – اسی طرح امام علی رسول اﷲ سے نقل کرتے هیں که آنحضرت نے فرمایا :دنیا ختم نهیں هوگی مگر یه کی هماری امت میں نسل حسین سے ایک شخص قیام کرے گا ----
اسی طرح سبط ابن جوزی فرماتے هیں :محمد ابن حسن ابن علی ابن محمد ----آپ کی کنیت ابو عبداﷲ اور ابوالقاسم هے---- آپ خلیفه،حجت ،صاحب الزمان ،قائم اور منتظر هیں –
۱۰: دشمن کے تسلط سے مانع اور انتظار کی ضرورت :
عقیده انتظار کی ضرورت اور اهمیت کے لیے اتنا هی کافی هے ،که اسلام کا قسم خورده دشمن اس نظریۓ کو مسلمانوں پر اپنا سلطه جمانے میں سب سے بڑا مانع اور رکاوٹ شمار کرتے هیں ،میشل فوکر ،کلربریر ،عقیده انتظار کی فکر سے مبارزه کرنے کی بحث میں ابتداً امام حسین اور پھر امام زمانه کا ذکر کرتا هے ، اور انهی دونوں نکات کو شیعوں کی پائیداری کا عنصر شمار کرتا هے “نگاه سرخ اورنگاه سبز ” تلابیب کی کانفرنس میں بھی “برنارڈیئس”مائیکل ام جی ،جنشر ،بروبزگ ،اورمارٹیم کو امر ”جیسے افراد نے اس نکته پر بهت زیاده تاکید کی هے انھون نے اسلامی جمهوری ایران کے اسلامی انقلاب کے جائزه میں شیعوں کی نگاه سرخ یعنی عاشورا اور انکی نگاه سبز یعنی انتظار تک بحث کرتے هوۓ اس مشهور جمله کو نتیجه کے طور پر یوں پیش کیا – یه لوگ امام حسین کے نام سے قیام کرتے هیں اور امام زمانه کے نام سے اس قیام کی حفاظت کرتے هیں -
اسی طرح جرمن محقق “ماربین ”کهتا هے –منجمله اجتماعی اهم ترین مسائل میں سے جو شیعوں کی امیدواری اور کامیابی کا باعث بنا هے وه حضرت حجت کے وجود کا اعتقاد اور انکے ظهور کا انتظار هے -
اسی طرح فرانس کے مشهور شرق شناس اور زبان دان “جمیز دار مستر ”اپنی کتاب “مهدی صدر اسلام سے ۱۳ هجری تک ”میں لکھتا هے وه قوم جنکی پرورش ایسی فکر کے ساتھ هوئی هو ان سے قیام کا توقع رکھا جاسکتا هے لیکن کبھی کوئی انھیں اپنا مطیع نیں بنا سکتا
بے شک دشمن نے عقیده انتظار کی اهمیت وه بھی اس زمانے میں جب انکا امام غائب هے اندازه لگا لیا هے ،اور اسی وجه سے چند اقدامات سیاسی إجتماعی اور ثقافتی میدان میں اس نظریے کے متعلّق انجام دیا هے
مثال کے طور پر امریکه میں خالورد هر سال ۷۸۰ فلیم بناتے هیں ان میں ۲۵۰ فلمیں صرف اما م زمانه کی شخصیت پر بناتے هیں اور ان فلیموں کا اهم تریں مقصد لوگوں کو یه باور کرانا اور یقین دلنا هوتا هے که جس شخص کے آنے کے تمام مکاتب فکر کے پیرواں منتظر هیں وه ایک غربی شخص هیں ،اور وه غربی ثقافت کی بنیاد پر قیام کرۓگا ،اور ان میں بعض فلمین مثال کے طور پر “هرئلیس ”و۲هزار ۱۲ اور “هری پوٹر” کڑورون کی تعداد میں دنیا میں بھیگ چکے هیں اور نا محسوس طور پر هر گھر گھر میں گھس چکے هیں -اب همیں بھی اس ثقافتی جنگ کے خلاف مقابله کرنے کی ضرورت هے ،اور اسکے معکوس هر ایک کو اپنے گھر ،فیملی، اجتماعی اور سماجی سطح پر حقیقی اما م منتظر کو - که جسکے آنے کا خالق کائنات نے وعده دیا هے –پهچانوانے اور انے ظهور کے لیے زمینه فراهم کرنے کی اشد ضرورت هے -
------
(1) بحار انوار ج ۵۲ ص ۱۲۲ ج ۲ ص ۳
(2) سیاست اسلام ،ماربین ،صل هفتم ،فلسفه مذهب شیعه ،ص ۴۹ – ۵۰ -
(3) (الصهونیۃفی امریکا ) صھونیزیم امریکا میں :حسن حداد ،مجله شؤون فلسطینیّه ش ۹۲- -۹۳ ،۱۹۹۰ ء -
(4) قاموس مقدس : مسٹر هاکس ، ص۸۰۶
(5) قاموس مقدس :ص ۲۱۹ :وه آجاے گا ،والی کتا سے نقل کیا هے ،ص ۳۳
(6) کتاب مقدس: سفر مزامیر داود، نمبر ۳۷
(7) کتاب مقدس :یوحنا إصحاح ۲۴ نمیر ۶
(8) نهج بلاغة كلمات قصار: نمبر 139 .
(9) The stone edtion the chvmash by, r. hosson scherman r.meiv .ziotowird,third edtion first impressin :1994 p.76.
(10) عقدالدرر: ص ۵۶ باب دوم -
(11) عقد الدرر: باب نهم ص ۲۸۲ والفتن ص ۲۲۹-
(12) سیاست اسلام ماربین ،فصل هفتم ، فلسفه مذهب شیعه،ص ۴۹ ۵۰ –نقل از کتاب امامت اور غیبت اور هماری ذمداریان ص ۳۴۹ ،اردو ترجمه -
(13) مهدی صدر اسلام سے ۱۳ هجری تک :ترجمه فارسی میںمترجم محسن جھان سوز،ص ۳۸ - -۳۹
|