کتاب :إنتظار کیا اور منتظر کون ؟

مصنف:شیخ فداحسین حلیمی


پشکش-
إسلامی تعلیمات میں ایک بهت هی اهم موضوع جس کی اهمیت اور ضرورت کو بیان کرتے هوے دسویں قرآنی آیات اور سینکڑوں کی تعدات میں احادیث اهل بیت اطهار مختلف قسم کی حدیثی ،تفسیری ،تاریخی اور دیگر کتابوں میں ملنے میں اتئیں هیں وه هے عقیده انتظار یعنی آخری زمانه میں منجی عالم بشریت ،فرزند ختم نبوت ،نور چسم خاتوں جنت سلسله امامت کی بارهویں کڑی حضرت حجت ابن حسن العسکری کے ظهور کرنے اور بساط ظلم وبربریت کو جڑ سے اکھاڑ کر هر جگه عدل و انصاف کو فروغ دینے پر عقیده اور اسے تحقق بخشنے کے لیے زمینه فراهم کرنا هے –
لیکن ان تمام تر دینی سفارشات اور تاکیدات کے باوجود افسوس کے ساتھ یه کهنا پڑتا هے که نه جانے کن کن وجوهات کی بنا پر مسلمانوں نے اس قرآنی اور الهی نظریے کو بالاۓ طاق رکھتے هوے آج تک اس راه میں کوئی قابل تقدیر قدم نهیں اٹھائیں هیں –جسکے نتجے میں آج مؤ منین اور اهل تحقبیق حضرات کے ایک بڑی تعداد کی جانب سے فرھنگ انتظار اور عقیده انتظارسے اشنائی اور اسکے شناخت کے لیے انتهائی اشتیاق او ر تشنهگی کے اظهار کرنے کے باوجود مستقل طور پر کوئی قابل قبول کتاب عربی ،فارسی ُاردو اور دیگر زبانوں میں که جس میں عقیده انتظار کو مختلف زاویوں سے زیر بحث لایا هو اور اس پر مستدل اور مستندل انداز میں روشنی ڈالی هو نظر نهیں آتی تاکه مؤمنین کی روحی اور قلبی تشنگی سیراب هے جاے ،لهذا علماو فضلاء اور هر ذمدار افرادکی ذمداری هے که هر ایک اپنی اپنی ظرفیت اور استطاعت کے مطابق اس حیاتی اور نوید بخش عقیدے پر کام کریں تاکه نسل آینده کےلیے اسکی اهمیت ضردرت اور فردی واجتماعی آثار ونتائج سےگاهی اور آشنائی حاصل کرنے کا زمینه فراهم هو جاے-
کتاب حاضر اس راه میں فقدان اور مؤمنین کے دلی خوهشات کے کو مد نظر رکھتے هوۓ نظریے انتظار کے متعلق اهم سوالات کے جواب میں پیش کیا هے،جس کے پهلی فصل میں ضرورت انتظار و دوسری فصل میں مفهوم انتظار اور تیسری و چوتھی فصل میں منتظرین کے اهم ذمداریان اور نتائج انتظار پر گفتگو کی هے
تاکه مؤمنین اور اهل تحقیق حضرات کے لیے اس موضوع پر مختلف زاویون سے شناخت حاصل کرنے کا موقع کل سکھے –
آخر میں اُمید هے یه ناچیز هدیه حضرت بقیۃ اعظم ارواحنا له الفداء کے مورد قبول قرار پاۓ“ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا وَ أَهْلَنَا الضُّر وَ جِئْنا بِبِضاعَةٍ مُزْجاة فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَ تَصَدَّقْ عَلَيْنا إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ“الهی عجل فرج مولانا امام الزمان آمین !

مقدمه
کسی بھی موضوع کے متعلق قلم اٹھانے اور ريسرج کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس موضوع کا انسانی زندگی سے کیا رابطہ ہے اور کس حد تک مؤثر واقع هوتا ہےـ تاکہ پوری توجہ اور توانائی کے ساتھ اس موضوع کے متعلق بحث کرسکھےـ
لہذا سب سے یہ سوالات ذهن میں آجاتی هیں ہے کہ
1 انتظار کیا ہے اور منتظر کون ہے ؟
2 عقیدہ انتظار انسان کے فردی اور اجتماعی زندگي پر کیا اثر رکھتا ہے؟
3 نظریۃ انتظار اپنے حقیقی مفہوم میں ایک مسلم فرد کی زندگی میں کیا کیا تبدیلیان لا سکہتا ہے ؟
بے شک مسئلہ انتظار کوئ ایسا مسئلہ نہیں جسے لوگوں نے مظلومون اور ستمدیدہ افراد کے دلوں کی تسکین کے خاطر انکے اذهان میں ڈالا گیا هو،بلکہ قرآنی آیات وروایات اور تاریخی حقا‏ئق کی روشنی میں یہ بخوبی واضح هوجتا هے کہ بنی نوع انسان اپنے طول وعریض تاریخ میں خواہ فردی زندگی میں هو یا سماجی زندگی میں همیشہ نعمت انتظار کا مرهون رہا ہے ،چناچہ اگر کوئی انسان انتظار کی حالت سے باہر اے اور مستقبل سے امیدیں کھو دے تو پھر اسکا جينا مشکل هو جاے گا اور اسکے دل میں زندگی کے لیے ذرہ برابر جگہ باقی نہیں رہے گی­ بلکہ الٹا خود زندگی اس کے لیے رنج و مشقت کا باعث بنے گی –
پس جس عامل نے اس انسان کو هر قسم کے مصیبتون سختیون اور پریشانیوں ڈھڈ جانے اور جينے کا قابل اور مزيد زندگي کي انجن کو آگے بڑانے کا اميدوار بنايا هے وه صرف اور صرف انتظار اور مستقبل سے اميد کے علاوه کچھ هو هی نھيں سکتا ­
إنتظار فرج اور اُمید کي معجزۃ آسا جادو هے که اس انساں کو زندگي کے پر طلاطم اور گٹھا ٹھوب طوفان سے پار کر کے لے جا رهي هے إنشاء ﷲ عن قريب اسے ساحل نجات تک پھنجا دے گي ­اس طرح اس انسان کے درينه آرزو اور پراني اميد پوري هو جاے گي (إنھم يرونه بعيدا ونراه قريبا ً )خدا کرے اس دن کو ديکھنے کی توفيق نصيب هو-
لھذا هم ضرورت إنتظار و منتظرین کی اهم زمداریا ں اور فوائد انتظار کو الک الک باب کی شکل میں مختلف زاويوں سے زير بحث لاتے هيں
تاکه يه معلوم هو جاۓ که مسئله إنتظار کا إنسانی زندگی کے ساتھ کيا رابطۃ هے اوراس پر کتنا مؤثر واقع هوتا هے –