229
چھٹا باب:
غزوہ بدر كا عظيم معركہ
پہلى فصل : جنگ كى فضاؤں ميں
دوسرى فصل : جنگ كے نتائج
تيسرى فصل : مال غنيمت اور جنگى قيدي
چوتھى فصل : سيرت سے مربوط كچھ ابحاث
231
پہلى فصل :
جنگ كى فضاؤں ميں
233
قريش كى ناكام سازش
نبى (ص) كريم كے مدينہ رہنے كے كچھ عرصہ بعد ،جنگ بدر كے واقعہ سے پہلے ،جن دنوں آنحضرت (ص) مدينہ ميں تشريف فرما تھے ، كفار قريش نے عبداللہ ابن ابى بن سلول اور اوس و خزرج كے بت پرستوں كو ايك دھمكى آميز خط لكھا جس ميں تحرير تھا :
'' مدينہ والوں نے ہمارے ايك مطلوبہ آدمى كو پناہ دے ركھى ہے ، حالانكہ مدينہ والوں ميں تمہارى تعداد بہت زيادہ ہے يا تو تم لوگ اسے قتل كر ڈالو يا اسے نكال باہر كرو نہيں تو پھر ہم خدا كى قسم كھا كر كہتے ہيں كہ يا تو پورے عرب كو تمہارے بائيكاٹ پر اكٹھا كرليں گے يا پھر ہم سب مل كرتمہارے اوپر چڑھائي كرديں گے اور اس صورت ميں تمہارے تمام جنگجوؤں كو تہہ تيغ اور تمہارى عورتوں كو اپنے لئے حلال كرديں گے '' _
جب يہ خط عبداللہ بن ابى اور اس كے بت پرست ساتھيوں تك پہنچا تو انہو ں نے ايك دوسرے كے ساتھ رابطے كر كے سب كو اكٹھا كيا اور سب آنحضرت (ص) كے قتل پر متفق ہوگئے _ جب يہ خبر نبى (ص) كريم اور آپ(ص) كے اصحاب تك پہنچى تو انہوں نے ايك گروہ كى صورت ميں ان لوگوں سے ملاقات كى اور كہا : '' قريش كى دھمكيوں سے تم بہت ہى زيادہ متاثر ہوگئے ہو _ وہ تمہارے خلاف اتنى بڑى چال نہيں چل سكتے جتنى بڑى تم خود اپنے خلاف چل رہے ہو _تم تو اپنے بيٹوں اور بھائيوں كو قتل كرنا چاہتے ہو _'' پس جب انہوں نے نبى (ص) كريم كى زبانى يہ الفاظ سنے تو منتشر ہوگئے اور آپ(ص) كے قتل سے دستبردار ہوگئے _ اور جب يہ بات قريش تك پہنچى تو ( وہ بہت جزبز ہوئے اور آپ(ص) كے خلاف جنگ كى تركيبيں سوچنے لگے جس كے نتيجے ميں ) جنگ بدر كا واقعہ رونما ہوا (1) _
---------------------------------------------------------
1)المصنف صنعانى ج 4 ص 358 و 359_
234
بدر كى جانب روانگي:
سترہ(17) رمضان المبارك 2 ہجرى ميں مسلمانوں اور مشركين مكہ كے درميان بدر عظمى كى جنگ ہوئي _اور وہ اس طرح كہ غزوة العشيرہ ميں مسلمانوں نے قريش كے جس قافلے كا پيچھا كيا تھا وہ ان سے بچ بچا كر شام نكل گيا تھا _آنحضرت(ص) پھر بھى اس كى تاك ميں تھے ، يہاں تك كہ اس كى واپسى كا آپ(ص) كو علم ہوا _ يہ قافلہ ابو سفيان كى قيادت ميں كم و بيش تيس (30) يا چاليس (40) يا زيادہ سے زيادہ سترہ (70) سواروں پر مشتمل تھا جس ميں قريش كا تجارتى سامان بھى موجود تھا_ اس كى ماليت كے بارے ميں اتنا تك بھى كہا جاتا ہے كہ اس سامان كى ماليت پچاس (50) ہزار دينار كے برابر تھى _ حالانكہ اس وقت پيسوں كى بہت زيادہ قيمت ہوتى تھي(1)_
بہرحال جب آپ(ص) كو اس قافلے كى آمد كا علم ہوا اور آپ(ص) نے مسلمانوں كو اس قافلے كى طرف جانے كا كہا تو لوگوں نے ترديد كے ساتھ آپ(ص) كى آواز پر لبيك كہا ، كيونكہ بعض تو فوراً آمادہ ہوگئے ليكن كچھ لوگوں نے پس و پيش كيا _ شايد وہ قريش كے انتقامى حملے سے ڈرتے تھے كيونكہ انہيں اس بات كا احساس تھا كہ قريش كے بنيادى مفادات كو نشانہ بنانا ان كے غضب اور انتقام كا باعث بن سكتا ہے _
اس كے متعلق كئي مؤرخين كہتے ہيں :'' نبى (ص) كريم كى حكم عدولى كركے بہت سے صحابہ مدينہ ميں رہ گئے اور ان لوگوں نے اس مشن پر جانا گوارا نہيں كيا _ اس مشن پر جانے كى بات پر بہت اختلاف اور لے دے ہوئي_ كئي صحابيوں كو آپ(ص) كا اس مشن پر جانا بھى اچھا نہ لگا اور بعض صاحب رائے اور با بصيرت افراد بھى اس مشن پر نہيں گئے ، كيونكہ انہيں جنگ چھڑ جانے كا گمان بھى نہيں تھا ، وہ تو يہ سمجھ رہے تھے كہ يہ لوگ مال غنيمت كے حصول كے لئے جا رہے ہيں_ اور اگر انہيں يہ گمان بھى ہوتا كہ وہاں جنگ بھى چھڑجائے گى تو وہ ہرگز پيچھے نہ رہتے بلكہ آپ(ص) كے ساتھ نكل پڑتے ''(2)_
---------------------------------------------------------
1)اس كى ماليت كا اندازہ اس بات سے بھى لگا يا جاسكتا ہے كہ وہ مال دو ہزار سے بھى زيادہ اونٹوں پر لدا ہوا تھا _ مترجم_
2)ملاحظہ ہو ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 14 ص 85 ، المغازى واقدى ج 1 ص 20 و 12 ، بحار الانوار ج 19 ص 328 و سيرہ حلبيہ ج 2 ص 143_
235
جبكہ واقدى كہتا ہے :'' رسول (ص) خدا كے كچھ صحابيوں نے بدر جانا گوارا نہيں كيا _ وہ كہنے لگے كہ ہم تعداد ميں بہت كم ہيں ،حالانكہ يہ من پسند بات نہيں تھى _ بہر حال اس بات پر صحابيوں ميں بہت زيادہ اختلاف پيدا ہوگيا'' (1) خدانے اس واقعہ كى حكايت يوں بيان كى ہے (كما اخرجك ربك من بيتك بالحقّ و ان فريقاً من المؤمنين لكارہون _ يجادلونك فى الحق بعد ما تبيّن كانّما يساقون الى الموت و ہم ينظرون)(2)_ ''خدا نے تمہيں (بدر كى طرف نكلنے كے لئے بالكل اسى طرح كہا ہے ) جس طرح گھر سے (ہجرت كے لئے) نكلنے كا كہا تھا _ ليكن اس كے باوجود مؤمنوں كا ايك ٹولہ اسے گوارا نہيں كرتا _ وہ حق كے واضح ہونے كے بعد بھى تمہارے ساتھ ايسے جھگڑتے اور بحث كرتے ہيں گويا كہ انہيں ان كے جانتے بوجھتے ہوئے موت كى طرف زبردستى لے جايا جارہا ہو ''_ جى ہاں وہ اس لئے جانا نہيں چاہتے تھے كيونكہ انہيں معلوم تھا كہ قريش اتنى بڑى بات پر ہرگز چپ نہيں رہ سكتے_
يہيں سے معلوم ہوتا ہے كہ بعض مؤرخين كى يہ بات كہ مدينہ رہنے والے صحابيوں كو ہرگز يہ گمان بھى نہيں تھا كہ آنحضرت(ص) كو جنگ كا سامنا بھى كرنا پڑے گا(3)_ نہ صرف بے جا ہے بلكہ يہ جنگ سے پيچھے رہ جانے والوں كے لئے ناكام اور نہايت نامعقول بہانہ تراشى ہے _ وگرنہ گذشتہ آيت ، مذكورہ نظريئے كے غلط ہونے پر بہترين دليل ہے_
بہرحال ادھر سے مسلمان تجارتى قافلے كو روكنے كے ارادے سے نكلے تو ابوسفيان كو ادھر اس بات كا علم ہوگيا _ جس پر اس نے ايك قاصد مكہ بھيج كر قريش كو قافلہ بچانے كے لئے بلوايا_
لوگوں سے ڈرنے والے
يہاںيہ كہا جاتا ہے كہ عبدالرحمان بن عوف ، سعد بن ابى وقاص ، مقداد اور قدامہ بن مظعون كو جب مكّہ
---------------------------------------------------------
1) المغازى واقدى ج 1 ص 131_
2)انفال ، 5،6_
3)الكامل ابن اثير ج 2 ص 116_
236
ميں اذيتيں دى جاتى تھيں تو وہ آنحضرت (ص) سے مشركين سے لڑنے كى اجازت مانگتے تھے جبكہ آپ(ص) انہيں اس كى اجازت نہيں ديتے تھے _ ليكن پھر جب انہيں لڑائي اور بدر كى طرف جانے كا حكم ملا تو كچھ لوگوں پر يہ بات گراں گذرى جس پر يہ آيت نازل ہوئي:
( الم تر الى الذين قيل لھم كفوا ايديكم و اقيموا الصلوة و آتوا الزكوة اذا فريق منھم يخشون الناس كخشية اللہ او اشد خشية و قالوا ربنا لم كتبت علينا القتال لو لا اخرتنا الى اجل قريب قل متاع الدنيا قليل و الآخرة خير لمن اتقي)(1)
''ان لوگوں كى حالت تو ديكھو جنہيں يہ كہا گيا تھا كہ ابھى ( لڑائي سے) اپنے ہاتھ روك ركھو اور نماز قائم كرو اور زكات ادا كرو تو ( جب ان پر جنگ فرض كى گئي تو ) ان ميں سے ايك گروہ لوگوں سے ايسا ڈرنے لگے جس طرح خدا سے ڈراجاتا ہے بلكہ وہ تو اس سے بھى زيادہ ڈرنے لگے اور يہ كہنے لگے كہ اے ہمارے پروردگار تو نے ہم پر جنگ كا فريضہ كيوں عائد كيا ہے ؟ تھوڑى دير اور رك جاتے_ ( اے نبى (ص) ) ان سے كہہ دو كہ دنياوى ساز و سامان اور فائدہ بہت كم ہے اورپرہيزگاروں كے لئے آخرت سب سے بہتر ہے''_
ليكن ہم كہتے ہيں كہ مقداد كى شخصيت ، نفسيات اور چند صفحات بعد ذكر ہونے والے اس كے عظيم موقف كى روسے ايسا نہيں لگتا كہ اس پر جنگ كا فريضہ گراں گذرا ہو _ اس پر مزيد يہ كہ گذشتہ آيت اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ مذكورہ افراد نے جنگ كے معاملے ميں بزدلى دكھائي ہے _ اور ان كا لوگوں سے يہ ڈر اور خوف ، خوف خدا سے بھى بہت زيادہ تھا_ اور اس كى وجہ زندگى اور دنيا سے محبت تھى _ جبكہ ہم جانتے ہيں كہ مقداد ہرگز بزدل نہيں تھا اور نہ ہى وہ دين اور اسلام كے ارشادات سے ہٹ كر دنيا سے محبت كرنے والا شخص
---------------------------------------------------------
1)بحار الانوار ج 19 ص 209 ، مجمع البيان ج 3 ص 77 و الدر المنثور ج 2 ص 184 از نسائي ، ابن جرير ابن ابى حات ، حاكم اور اس كے مطابق روايت صحيح ہے ، بيہقى در السنن ، عبد بن حميد و ابن منذر _
237
تھا اور اس كا طرز زندگى ہمارى اس بات كى بہترين دليل ہے_اسى طرح مذكورہ روايت اور آيت ميں بھى آيا ہے كہ مذكورہ افراد ميں سے بعض پر جنگ ناگوار گذرى ہے ، سب پر نہيں _ البتہ مقداد كے علاوہ روايت ميں مذكور ديگر افراد كے طرز زندگى اور مختلف موقعوں پر ان كے موقف اور نظريات سے ظاہر ہونے والى دنيا دارى اور دنيا سے محبت سے لگتا ہے كہ ان پر جنگ كا فريضہ گراں گذرا ہوگا_
عبدالرحمن بن عوف كے متعلق تو بہر حال كوئي شك نہيں كہ اس نے يہ بات كى ہوگى _ كيونكہ بعض روايات سے يہ بات سمجھ ميں آتى ہے(1) اور اس شخص نے مرتے وقت بہت مشہور و معروف تر كہ چھوڑا جس كى وجہ سے ابوذر ، عثمان اور كعب الاحبار كے درميان جھگڑا ہوا(2)مؤرخين و غيرہ صراحت كے ساتھ يہ كہتے ہيں كہ عبدالرحمن بن عوف قريش كا سب سے مالدار شخص تھا (3)_ شورى كے دن بھى اس كا موقف بہت مشہور ہے _ اسى نے حضرت على (ع) كے حق ميں آنحضرت (ص) كى تمام وصيتوں اور خدا كے احكام كو پس پشت ڈال ديا تھا _ وہ تو دنيا سے محبت اور دنيا كو اہميت دينے كى وجہ سے خدا اور اس كے رسول (ص) كے احكام كى زيادہ پروا نہيں كيا كرتا تھا_
اور قدامہ كو شراب پينے پر حضرت عمر نے حد ميں كوڑے مارے تھے اور اسى نے حضرت على (ع) كے بيعت سے انكار كيا تھا (4)_ اور يہ سب كام اس نے دنيا طلبى اور نفسانى خواہشات كى پيروى ميں كئے تھے_
اور سعد نے بھى حضرت على عليہ السلام كى بيعت سے انكار كرديا تھا_ اور جنگوں ميں بھى اس نے حق كا ساتھ دينے سے انكار كرديا تھا_ حضرت على (ع) نے بيت المال سے اس كا الاؤنس كاٹ ديا تھا ، عمار نے اس سے قطع تعلق كركے بول چال بھى بند كردى تھى اور اسى نے كوفہ كے بيت المال كا كچھ مال غبن كر ليا تھا(5)_
---------------------------------------------------------
1)در منثور كى روايتوں كے اطلاق سے مذكورہ بات سمجھ ميں آتى ہے _ ملاحظہ فرمائيں_
2) ملاحظہ ہو : مروج الذہب ج 2 ص 340 ، مسند احمد ج 1 ص 63 ، حلية الاولياء ج 1 ص 160، الغدير ج 8 ص 351، انساب الاشراف ج 5 ص 52، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 3 ص 54و ج 8ص 256 ، تفسير الميزان ج 9 ص 251 ،258 و تاريخ الامم و الملوك و ديگر كتب_
3)كشف الاستار عن مسند البزار ج 3 ص172 و مجمع الزوائد ج 9 ص 72_
4)قاموس الرجال ج 7 ص 385 اور اس كى شراب خورى كى حد كے متعلق ملاحظہ ہو: الاصابہ ج 3 ص 228و 229، الاستيعاب ج 3 ص 361 ، اسد الغابہ ج 4 ص 199 ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج20 ص 23_
5)قاموس الرجال ج 4 ص 312 ، 315_
238
اس كے علاوہ اور باتيں بھى ہيں جو اس كى دنيا طلبى اور خدا اور رسول (ص) كے احكام سے لا پروائي پر دلالت كرتى ہيں_ پس ہوسكتا ہے آيت اور روايت كا مدّ نظر يہى افراد ہوں ليكن اس وقت كى سياست اور سياست دانوں كے منظور نظر ہونے كى وجہ سے راويوں نے ان كا نام چھپا كر دوسرے افراد كے ساتھ ملا ديا ہو_ اور يہ بات بالكل واضح ہے_
عاتكہ كا خواب
مؤرخين كہتے ہيں كہ عبدالمطلب كى بيٹى عاتكہ نے ايك مرتبہ خواب ميں ديكھا تھا كہ اونٹ پر سوار ايك شخص يہ آواز لگاتا آرہا ہے كہ اے آل غالب ( البتہ ايك روايت ميں يا آل غُدُر '' اے كمينو'' آيا ہے ) كل صبح كو اپنى قبروں كى طرف نكل پڑو _ پھر ابو قبيس كے پہاڑ سے ايك بڑا پتھر لڑھكا اور مكّہ كے تمام گھروں ميں اس كا ايك ايك ٹكڑا گرا_
عاتكہ نے يہ خواب اپنے بھائي عباس كو سنا يا اور اس نے عتبہ بن ربيعہ كو يہ خواب سنا يا تو اس نے كہا : ''اس كا مطلب ہے كہ قريش پر مصيبت آنے والى ہے ''_ ليكن ابوجہل نے يہ سن كر كہا :'' لو اب عبدالمطلب كے خاندان ميں دوسرى نبيہ پيدا ہوگئي ہے_ لات و عُزّى كى قسم ہم تين دن تك صبر كريں گے _ اگر اس كا خواب سچا ہوا تو ٹھيك و گرنہ ہم اپنے درميان يہ تحرير لكھ ليں گے كہ بنى ہاشم كا گھرانہ عرب كے تمام مردوں اور عورتوں سے زيادہ جھوٹا ہے''_پھر جب تيسرا دن ہوا تو ايك ايلچى يہ آواز لگاتا ہوا آيا :'' اے آل غالب اے غالب كى اولاد غضب ہوگيا ، غضب ہوگيا ''(1)_
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو : سيرہ حلبيہ ج 2 ص 143 و 144، تاريخ الامم و الملوك ج 2 ص 136و 137 ، الروض الانف ج 3 ص 43 ، تاريخ الخميس ج 1 ص 369 از ابن اسحاق ، المغازى واقدى ج 1 ص 29 ، السيرة النبويہ ابن ہشام ج 2 ص 259 ، دلائل النبوة بيہقى مطبوعہ دار الكتب العلميہ ج 3 ص 29 و 30، الكامل فى التاريخ ج 2 ص 116 و 117 ، تاريخ الاسلام ( مغازى ) ص 53، بحار الانوار ج 19 ص 245 ، البدايہ و النہايہ ج 3 ص 357 و السيرة النبوية ابن كثير ج 2 ص 382 _
239
قريش كى تيارى :
قريش كے تمام بڑوں اور سرداروں نے لشكر كى تيارى ميں اپنا مال ديا _ اور انہوں نے يہ اعلان بھى كرديا كہ جو بھى اس جنگ پر نہيں جائے گا ہم اس كا گھر تباہ كر ديں گے_ اس لئے جو بھى اس جنگ پر خود نہ جاسكا اس نے اپنى جگہ پر كسى آدمى كو ضرور بھيجا (1)_ ابولہب نے بھى اپنى جگہ پر عاصى بن ہشام كو ان چار ہزار درہم كے عوض بھيجا جو بقولے جوئے ميں ہارنے كى وجہ سے اس كے ذمے واجب الادا تھے(2)_
اميہ بن خلف كا موقف
اميہ بن خلف جنگ پر جانے ميں پس و پيش كر رہا تھا _ كيونكہ كچھ عرصہ پہلے عمرہ كى غرض سے جب سعدبن معاذ مكّہ آيا تھا تو دونوں كے درميان دوستى كى وجہ سے وہ اميہ كے ہاں ٹھہرا _ ايك دن سعد ، اميہ كے ساتھ طواف كرنے نكلا تو راستے ميں ابوجہل سے مڈ بھيڑ ہوگئي _ ابوجہل نے سعد سے كہا :'' تم ديكھ لو كہ يہاں كس طرح امن و امان اور اطمينان سے مكّہ ميں طواف ميں مصروف ہو حالانكہ چند چھو كرے بھاگ كر تمہارے پاس آگئے ہيں اور تم يہ سمجھ رہے ہو كہ تم ان كى مدد كر رہے ہو اور انہيں پناہ دے رہے ہو؟ ليكن خدا كى قسم اگر تم ابوصفوان كے ساتھ نہيں ہوتے تو اپنے گھر تك صحيح سالم واپس نہيں جاسكتے تھے'' _ سعد نے اس سے اونچى آواز ميں بات كرتے ہوئے كہا :'' اگر تم مجھے يہ دھمكى دے رہے ہو تو ميں تمہيں اس سے بڑى اور سخت دھمكى دے سكتا ہوں _ تمہارا ( تجارتى ) راستہ مدينہ سے ہى گذرتا ہے''_اميہ نے اپنے گمان ميں سردار مكّہ كى آواز سے اپنى آواز اونچى كرنے پر سعد كو ٹوكا تو سعد نے كہا :'' چھوڑ دو مجھے ، خدا كى قسم ميں نے خود رسول (ص) خدا سے يہ بات سنى ہے كہ وہ تم لوگوں كو قتل كرنے والے ہيں'' _ جس پر اميہ نے كہا :'' كيا مكّہ ميں آكر؟'' _ تو سعد نے كہا : '' يہ ميں نہيںجانتا '' _ اميہ نے كہا : '' خدا كى قسم محمد(ص) نے كبھى جھوٹ نہيں بولا'' _ اور
---------------------------------------------------------
1)السيرة النبويہ ابن ہشام ج 2 ص 261_
2) اسيرة الحلبيہ ج 2 ص 145، انساب الاشراف ج 1 ص 292، السيرة النبوية ابن ہشام ج2 ص 261، تاريخ الخميس ج 1 ص 370 ، المغازى واقدى ج 1 ص 33، تاريخ الامم و الملوك ج 2 ص 137 و البدايہ و النہايہ ج 3 ص 258_
240
وہ بہت گھبرا گيا ( يہ بھى كہا جاتا ہے كہ اس نے اسى گھبرا ہٹ اور خوف ميں اپنے كپڑے گيلے كرديئے اور مكّہ سے كبھى نہ نكلنے كا تہيّہ كرليا _ اسى بنا پر وہ مكّہ سے نكلنے سے ہچكچا رہا تھا _ پھر جنگ بدر كے موقع پر ابوجہل نے اميّہ سے ساتھ جانے كے لئے بہت اصرار كيا _حتى كہ يہاں تك بھى كہا جاتا ہے كہ عقبہ بن ابى معيط اس كے پاس دھونى والى انگيٹھى لے آيا اور اس نے اس كے سامنے انگيٹھى ركھ كر كہا : '' لو عورتوں كى طرح بيٹھ كر دھونى دو كہ تم نامرد ہو'' _ جس پر اس كى غيرت كى رگ پھڑ كى اور جانے كا پكّا ارادہ كرليا حالانكہ اس كى بيوى نے يہ كہہ كر اسے روكنا بھى چاہا كہ ديكھ لو خدا كى قسم محمد(ص) جھوٹ نہيں بولتا ليكن وہ جانے پر مصمم ہى رہا اور بدر ميں ماراگيا(1)_
مذكورہ واقعہ پرچند نكات
يہاں مندرجہ ذيل تين نكات كا ذكر ضرورى معلوم ہوتا ہے:
1_يہاں پر قابل ملاحظہ بات سعد كى ابوجہل كو ''مدينہ كے راستے ميں اس پر ڈاكہ ڈالنے اور اس كا راستہ روكنے ''كى دھمكى ہے _ اور اس دھمكى پر عملدار آمد ابوجہل كي'' مدينہ والوں كو مكّہ نہ آنے دينے ''كى دھمكى سے زيادہ سخت تھى اور ابوجہل پر يہ بات نہايت گراں گذرى _ اور اس كا سبب بھى نہايت واضح ہے كيونكہ مكّيوں كى اقتصادى زندگى تجارت سے وابستہ تھى _ اور ان كا اہم ترين تجارتى مركز شام تھا_ اور اگر ان پر اتنا سخت اقتصادى دباؤ پڑتا كہ انہيں دوسروں كا محتاج ہونا پڑتا تو اس سے ان كى سياسى ، معاشرتى اور اجتماعى حيثيت خطرے ميں پڑجاتى اور دوسرے قبائل پر سے ان كا رعب ، نفوذ اور ان كى اہميت جاتى رہتى _ پھر وہ آنحضرت(ص) اور مسلمانوں سے كس بات پر اور كيوں جنگ كرتے ؟ كيا ان كى جنگ اس نفوذ اور سردارى كى بقاء كے لئے نہيں تھى جسے وہ ہر چيز سے بلند و بالا اور بڑھ كر سمجھتے تھے؟_ ہجرت كے متعلق گفتگو ميں اس بارے ميں بھى مختصراً گفتگو ہوئي ہے_
---------------------------------------------------------
1)سيرہ حلبيہ ج 2 ص145 نيز ملاحظہ ہو : صحيح بخارى كتاب المغازى ، باب غزوہ بدر و باب علامات النبوة و السيرة النبويہ ابن كثير ج2 ص 834و 835_
241
2_يہاں ہم يہ مشاہدہ بھى كرتے ہيں كہ اميّہ بن خلف كے نظريات ، گفتار اور كردار عقل اور ضمير كے تابع نہيں ہيں _ كيونكہ وہ آنحضرت (ص) كى سچائي كا قائل ہونے كے باوجود بھى جب جنگ پر نہ جانے كا ارادہ كرتا ہے تو صرف اپنى جان كے خوف سے ايسا كرتا ہے _ اور جنگ كا قصد بھى اس لئے نہيں كرتا كہ اس كا نظريہ بدل جاتا ہے بلكہ وہ غيرت ، جوش اور جاہلى غرور اور نخوت ميں آكر جنگ كا فيصلہ كرتا ہے _ جس كى وجہ سے اسے دنيا اور آخرت دونوں ميں ہلاكت كا سامنا كرنا پڑا _ خدا نے اس جيسے افراد كى حالت واضح الفاظ كے ساتھ يوں بياں كى ہے:
(و جحدوا بھا و استقينتھا انفسھم ظلما و علوا ً فانظر كيف كان عاقبة المفسدين ) ( 1 )
'' اورانہوں نے حقيقت كے قائل ہونے كے باوجود بھى تكبر اور دشمنى كى وجہ سے اس كا انكار كيا _ اب تم ديكھ لو ان فساديوں كا كيا حشر ہوا''
3_ اس واقعہ ميں اس بات كى واضح دلالت بھى پائي جاتى ہے كہ تمام لوگوں كے دلوں ميں آنحضرت(ص) كى بہت زيادہ عظمت اور اونچى شان بيٹھى ہوئي تھى نيز وہ اپنے ضمير كى عدالت ميں آنحضرت(ص) كو اپنى باتوں ميں بالكل سچا پاتے تھے اور وہ تہہ دل سے اس حد تك اس حقيقت كے قائل اور معترف تھے كہ وہ قسميں اٹھا كر كہتے تھے كہ آنحضرت (ص) اپنى باتوں ميں بالكل سچے ہيں اور وہ كبھى جھوٹ نہيں بولتے _ ليكن ان تمام چيزوں كے باوجود وہ مادى اور دنياوى فوائد اور قبائلى اثر و رسوخ و غيرہ كى خاطر آپ(ص) سے دشمنى كو ضرورى سمجھتے تھے_
طالب بن ابى طالب كى جنگ سے واپسي
مشركين كے ساتھ ساتھ بنى ہاشم كے بھى پانچ آدمى عباس ، عقيل ، نوفل بن حارث اور طالب بن ابى طالب بھى اس جنگ ميں شريك ہوئے _ طالب كو تو زبردستى لے آيا گيا جس پر اس نے يہ رجز كہا :
---------------------------------------------------------
1)نمل ، 14_
242
يا رب اما يغزون طالب
فى مقنب من ھذہ المقانب
فليكن المسلوب غير السالب
و ليكن المغلوب غير الغالب
پالنے والے طالب ان لٹيروں كے ٹولے ميں پھنس كر اس جنگ كے لئے آيا ہے _ ميرى خواہش ہے كہ يہ شكست كھا كر لٹ پٹ جائيں ، فتح كے نشے ميں يہ لٹيرے لوٹ ماركريں گے_
اس رجز كے بعد قريشيوں كا طالب كے ساتھ جھگڑا ہوگيا _ جس ميں انہوں نے كہا : '' خدا كى قسم ہميں معلوم ہوگيا ہے كہ تمہارا دل محمد (ص) كے ساتھ ہے'' _ اس لئے وہ دوسرے كئي لوگوں كے ساتھ واپس مكّہ لوٹ آيا_ اسى وجہ سے نہ تو وہ بدر كے مقتولين ميں نظر آيا ، نہ قيديوں ميں اور نہ ہى مكّہ واپس جانے والوں ميں نظر آيا(1)؟ _ بعض نے يہ دعوى بھى كيا ہے وہ جنگ بدر ميں اس وقت ماراگيا جب مشركوں نے اسے مسلمانوں سے لڑنے كے لئے بھيجا(2)_
ہمارا نظريہ
الف: ... يہ كيسے ہوسكتا ہے كہ وہ ( راستے ميں پلٹ جانے كے باوجود بھى ) مكّہ پہنچنے والے لوگوں ميں نظر نہ آئے ہوں ، حالانكہ ابن ہشام نے رسول (ص) خدا كى مدح اور ( ابن ہشام كے بقول ) قليب ( جنگ بدر)كے مقتولين كے مرثيہ ميں اس كے اشعار نقل كئے ہيں جس ميں وہ نوفل اور عبدشمس كے خاندان سے بنى ہاشم سے جنگ نہ كرنے كى اپيل كرتا ہے كيونكہ اس كا نتيجہ صرف دكھ، درد، تكليفيں اور مصيبتيں ہى ہوں گي_
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو : بحار الانوار ج 19 ص 294 و 295 ، روضہ كافى ص 375، تاريخ طبرى ج 2 ص 144، الكامل ابن اثير ج 2 ص 121، سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 271، تاريخ الخميس ج 1 ص 375، البدايہ و النہايہ ج 3 ص 266 ، انساب الاشراف ج 2 ص 41، البتہ اس ميں صرف يہ آيا ہے كہ وہ مشركين كے ساتھ جنگ ميں شريك ہوئے_
2)تاريخ الخميس ج 1 ص 163_
243
اس نظم كے چند اشعار يہ ہيں:
فما ان جنينا فى قريش عظيمة
سوى ان حمينا خير من وطا التربا
اخاثقة فى النائبات مرزا
كريماً ثناہ ، لا بخيلا و لا ذربا
يطيف بہ العافون يغشون بابہ
يؤمّون نہراً لا نزوراً و لا ضرباً
فواللہ لاتنكف عينى حزينة تململ
حتى تصدقوا الخزرح الضربا(1)
قريش نے ہم بنى ہاشم كے ساتھ ايسى جانى دشمنى كيوں كرلى ہے ؟ حالانكہ ہم تو قريش كے خلاف كسى بھى زيادتى كے مرتكب نہيں ہوئے _ ہم نے تو صرف روئے زمين كى سب سے بہترين ، فياض ، اور شريف شخصيت كى حمايت كى ہے جو سختيوں ميں قابل اعتماد ساتھى ہے _ اس نے كبھى بخل اور ترشروئي نہيں كى ہے_ اچھائي كے متلاشى پروانوں كا اس كے گرد ايسے جم گھٹا لگا رہتا ہے جيسے لوگ كسى لبالب بھرى نہر پر جمع ہوجاتے ہيں_ اس كى عطا نہ كم ہوتى ہے نہ كبھى ختم ہوتى ہے بلكہ يكساں طور پر سب كے لئے جارى ہے _ پس اب ميں ہميشہ گرياں اور نالاں رہوں گا يہاں تك كہ خزرج والوں كى جيت نہيں ہوتي_
اس كى يہ نظم اس بات كى دليل ہے كہ وہ جنگ بدر كے واقعہ كے بعد بھى زندہ رہا _ البتہ اس كا جنگ بدر كے مقتولين پر گريہ شايد قريش كا ساتھ دينے كى غرض سے ہوگا ( كيونكہ وہ خود كا فريا مشرك نہيں تھا) اس لئے كہ نبى (ص) كريم كے متعلق اس كے مدحيہ اشعار اور نوفل اور عبد شمس كے خاندان سے اس كى بنى ہاشم كے خاندان سے نہ لڑنے كى التجا ہمارى مذكورہ بات پر دلالت كرتى ہيں_ و گرنہ اس كے اس شعر كى كيا توجيہ كى جاسكتى ہے؟
---------------------------------------------------------
1) سيرہ ابن ہشام ج 3 ص 27 و 28 و البدايہ و النہايہ ج 3 ص 340_
244
و ليكن المسلوب غير السالب
و ليكن المغلوب غير الغالب
ب: ايك مرسل روايت ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے روايت ہے كہ طالب مسلمان ہوگيا تھا (1) اور يہ بھى كہا جاتا ہے كہ مندرجہ ذيل شعر بھى اسى كا ہے:
و خير بنى ہاشم احمد(ص)
رسول الا لہ على فترة (2)
اور بنى ہاشم كے بھى بہترين فرد زمانہ جاہليت ميں مبعوث ہونے والے خدا كے رسول (ص) حضرت محمّد(ص) ہيں_
البتہ يہ بات بھى بعيد نہيں ہے كہ قريش نے جنگ بدر و غيرہ ميں ( حضرت على (ع) كے كارناموں كى وجہ سے ) مارے جانے والے اپنے ساتھيوں كا انتقام لينے كے لئے طالب سے چھٹكارے كى خاطر كوئي چال چل دى ہو جس كى وجہ سے آج تك طالب كا كوئي صحيح اتا پتا معلوم نہيں ہوسكا_
مجبور اور واپس پلٹ جانے والے
جب ابوسفيان اپنا تجارتى قافلہ بچا كر دوسرے راستے سے نكال كرلے گيا تو اس نے قريش سے اب واپس پلٹنے كو كہا ليكن ابوجہل بدر جاكر وہاں تين دن تك شراب و كباب كى محفل سجانے پر اس لئے مصر رہا كہ تمام عرب ان كے اس خروج اور اتنے بڑے مجمع كے متعلق سنيں گے تو ہميشہ كے لئے ان سے ڈرتے رہيں گے_ ليكن اخنس بن شريق وہاں سے قبيلے بنى زہرہ كے افراد كو لے كر واپس پلٹ گيا_
البتہ يہ بھى كہا گيا ہے كہ اس قبيلہ كے دو افراد جنگ بدر ميں مارے گئے _ بلكہ تلمسانى نے تو'' الشفائ'' كى شرح ميں يہاں تك بھى لكھا ہے كہ خود اخنس بھى جنگ بدر ميں ماراگيا تھا البتہ يہ بھى كہا گيا ہے كہ وہ عمر كى خلافت كے دوران مراتھا_
---------------------------------------------------------
1) البحار ج/19 ص 294_
2)شرح نہج البلاغہ ج 14 ص 78_
245
مؤرخين اخنس كى قبيلہ بنى زہرہ كے ساتھ واپسى كى وجوہات كے متعلق كہتے ہيں كہ اس نے چپكے سے ابوسفيان سے پوچھا كہ كيا محمد(ص) جھوٹ بولتا ہے؟ تو اس نے كہا كہ اس نے كبھى بھى جھوٹ نہيں بولا _ ہم تو اسے ''امين'' كہا كرتے تھے، ليكن يہ تو ديكھو كہ عبدالمطلب والوں كے پاس اگرسقايت ( پانى پلانے) ، رفادت (مہمان داري) اور مشورت كے عہدوں كے ساتھ ساتھ نبوت بھى آجائے تو پھر ہمارے لئے كيا بچے گا؟ _ يہ بات سن كر اخنس پيچھے ہٹ گيا اور بنى زہرہ والوں كو لے كر واپس لوٹ آيا(1)_
اسى طرح قبيلہ بنى عدى كا بھى كوئي فرد جنگ بدر ميں شريك نہيں ہوا _ اور بنى ہاشم نے بھى واپس لوٹنے كا ارادہ كيا تو ابوجہل نے انہيں نہيں جانے ديا اور كہا : '' (حضرت محمد(ص) كے ) يہ رشتہ دار تب تك ہمارا ساتھ نہيں چھوڑ سكتے جب تك ہم صحيح سالم واپس نہيں لوٹ جاتے''(2)_
مذكورہ افراد كے متعلق نبى كريم(ص) كا موقف
مكّہ ميں نبي(ص) كريم اور مسلمانوں كے متعلق بنى ہاشم كے مؤقف اور ان كى حمايت كى وجہ سے نيز مذكورہ وجوہات كى بنا پر آنحضرت(ص) نے جنگ بدر ميں بنى ہاشم كے افراد كو قتل كرنے سے منع فرمايا _ آپ(ص) نے اسى طرح ابوالبخترى وليد بن ہشام كو بھى قتل كرنے سے منع فرمايا كيونكہ يہ شخص بھى بائيكاٹ والى دستاويز كى مخالفت اور بائيكاٹ ختم كر نے ميں پہل كرنے والوں ميں شامل تھا اور آپ(ص) كو نہ صرف خود اذيت نہيں ديتا تھا بلكہ دوسرے لوگوں كو بھى اس كام سے روكتا تھا_ ليكن بدر ميں جب اس نے اپنے ساتھى كے بغير قيدى بننا گوارا نہ كيا تو اسے اس كے ساتھى سميت قتل كرديا گيا _ اسى طرح آپ(ص) نے حارث بن نوفل كو بھى قتل كرنے سے اس لئے منع فرمايا كہ اسے جنگ كے لئے زبردستى لايا گيا تھا، ليكن اس سے ناآشنا ايك شخص نے اسے قتل كرديا_ اور زمعہ بن اسود كے ساتھ بھى ايسا ہى ہوا_
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو ، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 153_
2)ملاحظہ ہو : سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 271، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 154و ج 1 ص 291 و تاريخ الاسلام ذہبى ( حصہ مغازي) ص 31و 33_
246
آپ (ص) كے مؤقف پر ايك سر سرى نظر
گذشتہ واقعہ سے سبق لينے كے لئے مندرجہ ذيل نكات بيان كئے جاتے ہيں:
الف: مذكورہ افراد كے قطعى موقف كو مد نظر ركھتے ہوئے ہم يہ كہہ سكتے ہيں كہ آنحضرت (ص) كا جنگ سے مقصد كاميابى ، غلبہ ، حكومت اور سلطنت كا حصول نہيں تھا اور نہ ہى آپ(ص) كو خون بہانا، پسر مردہ ماؤں اور بيواؤں كو رلانا اور كشتوں كے پشتے لگانا پسند تھا_ بلكہ آپ(ص) كا مقصد اور ہدف تو ان باتوں سے افضل اور اعلى تھا جس كا عام فائدہ تمام امت كو بلكہ كئي نسلوں كو پہنچتاا اور آپ(ص) ممكنہ حد تك انتہائي كم قربانيوں سے اپنے اصلى مقصد تك رسائي چاہتے تھے_
ب: آپ(ص) لوگوں كے موقف اور نظريات كى قيمت ان كے حسن خلق ، اچھى عادت اور فطرت ، بہادرى اور نيك خصلتوں كى وجہ سے لگاتے تھے_ چاہے وہ شخص كوئي بھى ہوتا ، اس كى وابستگى جس كے ساتھ بھى ہوتى اور اس كا عقيدہ اور نظريہ جو بھى ہوتا اس سے آپ(ص) كو كوئي فرق نہيں پڑتا تھا، كيونكہ آپ(ص) ہى وہ كامل انسان اور انسانيت كے ايسے رسول (ص) تھے جو ان اچھى صفات كو صحيح طريقے سے سمجھ سكتے تھے اور كسى بھى دوسرے شخص سے زيادہ ان كى قيمت لگا سكتے تھے_ اسى وجہ سے ان سب لوگوں كے ساتھ آپ(ص) كا يكساں موقف رہا جنہوں نے آپ(ص) اور آپ(ص) كے ساتھيوں كے ساتھ چاہے ايك بار ہى سہى حسن سلوك اور نيك رفتارى كا مظاہرہ كيا تھا_كيونكہ آپ(ص) كا يہ مذكورہ موقف صرف اپنے عزيزوں اور خاندان والوں كے ساتھ منحصر نہيں تھا _اس لئے كہ آپ(ص) رشتہ داريوں سے متاثر ہو كر كوئي موقف يا نظريہ اپنا نے والے نہيں تھے اور اس جيسا پرخطر موقف عقل سليم كے لحاظ سے آپ(ص) كى مصلحت ميں تھا بھى نہيں_
ج: آپ(ص) ان مشكل گھڑيوں كو بھى اچھى طرح سمجھ رہے تھے جن سے بعض لوگ گھبرائے ہوئے تھے_ ان لوگوں پر يہ گھڑى آئي ہوئي تھى كہ قريش نے انہيں ايسا مؤقف اپنا نے پر مجبور كرديا جو ان كے اغراض و مقاصد يا كم از كم ذاتى خواہشات اور رجحان كے برخلاف تھا_ اگر چہ كہ ايك لحاظ سے وہ قصور وار بھى تھے كيونكہ وہ حق كى مدد كرسكتے تھے اور عقل سليم كے مطابق ايك صحيح موقف بھى اپنا سكتے تھے _ جس طرح كہ ان كے ديگر
247
مسلمان بھائيوں نے اس طرح كيا تھا اور اپنے آپ كو ہنسى خوشى مشقتوں اور تكليفوں ميں جھونك ديا تھا _ يہاں تك كہ خدا نے ان كى مدد كى اور حق كا بول بالا ہوا_
جنگ كے لئے آپ(ص) كا مشورہ لينا
مسلمان جب بدر كے قريب پہنچے اور انہيں قريش كے اكٹھے ہونے اور جنگ كے لئے روانہ ہونے كى اطلاع ملى تو وہ اس بات سے بہت خوفزدہ ہوئے_ جس كى وجہ سے آپ(ص) نے جنگ كرنے يا تجارتى قافلے كے پيچھے جانے كے متعلق اپنے اصحاب سے مشورہ ليا_
حضرت ابوبكر نے كھڑے ہوكر كہا : '' يا رسول (ص) اللہ يہ قريشى اپنے لشكر كے ساتھ غرور اور تكبر ميں اور كيل كانٹوں سے مكمل طور پر ليس ہو كر آرہے ہيں_ يہ ہميشہ سے بے ايمان كافر اور ناقابل شكست رہے ہيں_ جبكہ ہم جنگ كرنے كے لئے بھى نہيں نكلے''(1) _ اس پر رسول (ص) خدا نے اس سے فرمايا:'' بيٹھ جاؤ'' _ تو وہ بيٹھ گيا _ آپ(ص) نے پھر فرمايا :'' مجھے مشورہ دو '' _ تو عمر نے كھڑے ہوكر ابوبكر كى بات دہرائي _ اسے بھى آپ(ص) نے بيٹھ جانے كو كہا تو وہ بيٹھ گيا _ ليكن واقدى اور حلبى نے مذكورہ باتوں كو عمر سے منسوب كرتے ہوئے ابوبكر كے متعلق كہا كہ اس نے بہترين مشورہ ديا تھا (2)_
پھر مقداد نے اٹھ كر كہا : '' يا رسول اللہ ٹھيك ہے كہ وہ مغرور قريشى ہيں اور ساتھ ہى ان كا لاؤ لشكر ہے ، ليكن ہم بھى تو آپ(ص) پر ايمان لانے والے ، تصديق كرنے والے اور يہ گواہى دينے والے ہيں كہ آپ(ص) خدا كى طرف سے حق بات لے كر آئے ہيں_ خدا كى قسم اگر آپ(ص) ہميں جھاؤ جيسے سخت درخت كے تنے كے گودے يا نوكيلى خاردار جھاڑيوں ميں گھسنے ( دوسرے لفظوں ميں گہرے كنويں ميں كو دنے) كا حكم بھى ديں گے تو ہم بے چون و چرا آپ(ص) كے ساتھ ان ميں گھس جائيں گے_ اور ہم آپ(ص) كو بنى اسرائيل كى وہ بات نہيں كريں گے
---------------------------------------------------------
1) البتہ جناب ابوبكر كے اور بھى الفاظ ہيں جن ميں انہوں نے تجارتى قافلے كے لوٹ ماركى ترغيب دلائي تھى جو يہاں مذكور نہيں ہےں ليكن ديگر كتابوں ميں مذكور ہےں_ مترجم_
2)ملاحظہ ، مغازى واقدى ج 1 ص 48 ، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 150، در منثور ج 3 ص 166از دلائل النبوة بيہقى ، بحار الانوار ج 19 ص 247 و تفسير قمى ج 1 ص 258_
248
جو انہوں نے حضرت موسى عليہ السلام سے كى تھى كہ جاؤ تم اور تمہارا رب دونوں جاكر لڑو ہم يہاں بيٹھے ہوئے ہيں(1)_ بلكہ ہم تو يہ كہيں گے كہ آپ(ص) اور آپ(ص) كا رب جاكر لڑيں ہم بھى آپ(ص) كے شانہ بشانہ جنگ كريں گے_ خدا كى قسم ہم آپ(ص) كے دائيں ، بائيں ، آگے اور پيچھے چاروں طرف سے لڑيں گے ( اور آپ(ص) كى حفاظت كريں گے) اور اگر آپ(ص) سمندر ميں بھى كو دجائيں گے اور برك الغماد ( 2) تك بھى لے جائيں گے تو بھى ہم آپ(ص) كے ساتھ ساتھ رہيں گے_
يہ بات سن كر آپ(ص) كے چہرہ كھل اٹھا اور آپ(ص) نے خوش ہو كر اسے دعا دى بلكہ مؤرخين كے مطابق آپ(ص) كھكھلا كرہنسے تھے(3)_
نوٹ : مذكورہ تمام باتيں مہاجرين كى تھيں اور ان كى باتوں سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ وہ جنگ نہيں كرنا چاہتے بلكہ وہ ہر قيمت پر اس ٹكراؤ سے بچنا چاہتے ہيں ليكن مقداد نے مہاجر ہونے كے با وجود شيخين كى مذكورہ باتوں كو ٹھكراديا اور ان كے موقف كو رد كرديا_
پھر تاريخى دستاويزات كے مطابق آپ(ص) نے انصار كى طرف متوجہ ہو كر فرمايا :'' مجھے مشورہ دو '' _ اس بات سے آپ(ص) كى مراد انصار تھے، كيونكہ آپ(ص) كى فوج كا بيشتر حصہ انصار پر مشتمل تھا_ نيز آپ(ص) كو اس بات كا خطرہ بھى تھا كہ ان كے ذہن ميں يہ بات نہ ہو كہ ان پر صرف مدينہ ميں ہى دشمن كے حملہ كے وقت آپ(ص) كى مدد كرنے كا فريضہ عائد ہوتا ہے مدينہ سے باہر نہيں_ پس سعد بن معاذ نے (البتہ سعد بن عبادہ كا نام بھى ليا گيا ہے ليكن يہ ايك خيال اور وہم سے زيادہ كچھ نہيں ، اس لئے كہ وہ تو بچھو و غيرہ كے ڈسنے كى وجہ سے چلنے پھر نے سے معذور تھا اس لئے وہ بدر نہيں جاسكتا تھا)(4) كھڑے ہوكر كہا : '' يا رسول (ص) اللہ ميرے ماں باپ بھى آپ(ص) پر
---------------------------------------------------------
1)بنى اسرائيل كى مذكورہ بات سورہ مائدہ آيت 24 ميںمذكور ہے_
2) تاريخ الخميس ج 1 ص 373 كے مطابق برك الغماد حبشہ كا ايك شہر ہے جبكہ واقدى كى المغازى ج 1 ص 48 كے مطابق برك الغماد مكّہ سے سمندر كى جانب پانچ دن كے فاصلے پر ساحل كے ساتھ ايك جگہ ہے جبكہ يہ جگہ مكّہ سے يمن كے راستے ميں آٹھ دن كے فاصلے پر ہے_
3) تاريخ الخميس ج 1 ص 373 ، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 150 ازالكشاف و المغازى و اقدى ج 1 ص 48 _ البتہ يہ بات سمجھ سے بالاتر ہے كہ جس بات كو مؤرخين نے بہترين مشورہ قرار ديا وہ رسول (ص) خدا كى ناراضگى موجب كيوں بنا؟
4) سيرہ حلبيہ ج 2 ص 150_
249
قربان شايد آپ(ص) ہم سے مشورہ چاہتے ہيں؟'' _ آپ(ص) نے فرمايا:'' ہا ںبالكل'' _ اس نے كہا :'' شايد آپ(ص) نكلے كسى اور كام سے ہيں اور آپ(ص) كو حكم كسى اور كام كاملا ہے؟ ''_ آپ(ص) نے فرمايا:'' ايسا ہى ہے''_ تو اس نے كہا :'' يا رسول (ص) اللہ ميرے ماں باپ بھى آپ(ص) پر قربان ہم تو آپ(ص) پر ايمان لاچكے ہيں، آپ(ص) كى تصديق كر چكے ہيں اور يہ گواہى بھى دے چكے ہيں كہ آپ(ص) خدا كى طرف سے حق بات لے كر آئے ہيں_ پس آپ(ص) ہميں جو چاہيں حكم دے سكتے ہيں'' يہاں تك كہ اس نے كہا :'' خدا كى قسم اگر آپ(ص) ہميں يہ حكم ديں كہ اس سمندر ميں كود پڑو تو ہم آپ(ص) كے حكم پر كود پڑيں گے_ آپ(ص) خدا كا نام لے كر ہميں لے چليں ، ہوسكتا ہے ہمارے كارناموں سے خدا آپ(ص) كو راضى اور خوشنود كردے''_
اس بات سے آپ(ص) نہايت خوش ہوئے اور انہيں آگے بڑھنے كا كہا اورانہيں يہ خوشخبرى دى كہ خدا نے مجھ سے دوگروہوں ( تجارتى قافلے يا لشكر قريش) ميں سے كسى ايك پر كاميابى كا وعدہ كيا ہے_ اور خدا كبھى وعدہ خلافى نہيں كرتا _ پھر آپ(ص) نے يہ پيشين گوئي بھى فرمائي كہ گويا ميں ابوجہل بن ہشام ، عتبہ بن ربيعہ اور ہشام كى لاشيں ديكھ رہا ہوں ... _ پھر آپ(ص) وہاں سے چلے اور بدر آكر پڑاؤكيا_
بعض روايتوں سے ظاہر ہوتا ہے كہ اكثر صحابہ تجارتى قافلے كا پيچھا كرنے كے خواہش مند تھے اور جنگ سے كترا رہے تھے(1)_
خداوند عالم نے قرآن مجيد ميں مذكورہ بات كا تذكرہ اپنى اس آيت ميں كيا ہے:
(واذ يعدكم اللہ احدى الطائفتين انھا لكم وتودون ان غير ذات الشوكة تكون لكم و يريد اللہ ان يحق الحق بكلماتہ ويقطع دابر الكافرين) (2)
---------------------------------------------------------
1)در منثور ج 3 ص 163و 169 از ابن جرير ، ابوالشيخ ، ابن منذر ، ابن ابى حاتم ، ابن مردويہ ، كشاف ، بيہقى و عبد بن حميد و البدايہ و النہايہ ج 3 ص 263_
2)انفال : 7_
250
اور ( وہ قت ياد كرو) جب خدا نے تم سے يہ وعدہ كيا تھا كہ دو گروہوں ميں سے ايك گروہ تمہارا ہى ہے ليكن تم يہ چاہتے تھے كہ بے وقعت چيز تمہارے ہاتھ لگے جبكہ اس بات سے خدا كاارادہ حق كابول بالا كرنے اور كافروں كى جڑيں كاٹنے كا تھا''_
بہرحال آگے بڑھنے سے قبل مندرجہ ذيل چھ نكات كى طرف اشارہ كرتے چليں:
1_ آنحضرت (ص) كا اپنے صحابہ سے مشورہ
اس بارے ميں ہم پہلے بھى جنگوں ميں مہاجرين كو بھيجنے كى وجوہات كے متعلق گفتگو كے دوران بات كرچكے ہيں اور بعد ميں بھى غزوہ احد كے باب ميں '' جنگ چھڑنے سے پہلے'' كى فصل ميں اس بارے ميں انشاء اللہ سير حاصل گفتگو كريں گے_
ليكن يہاں اس اشارے پر اكتفا كرتے ہيں كہ بدر جيسى فيصلہ كن جنگ ميں آپ(ص) كا اپنے صحابہ سے مشورہ لينا ضرورى تھا كيونكہ اس علاقے ميں كم از كم مستقبل قريب تك ايمان اور كفر كا انجام اس جنگ كے نتائج پر منحصر تھا_بلكہ يہ ہميشہ كے لئے ايك فيصلہ كن جنگ تھى جس طرح كہ آپ(ص) نے اپنى اس دعا '' خدا يا اگر تيرے يہ پيارے مارے گئے تو تيرى عبادت كبھى نہيں ہوگي'' ميں اس بات كى طرف اشارہ فرمايا ہے_
البتہ يہ بات واضح ہے كہ آنحضرت (ص) كو ان كے مشورے كى بذات خود كوئي ضرورت نہيں تھى _ آپ(ص) نے ان سے مشورہ اس لئے ليا كہ اس جنگ كا بوجھ بھى انہيں ہى اٹھا نا تھا اور نتائج بھى انہيں ہى بھگتنا تھے_ پھر آپ(ص) اس ذريعے سے ان كے اندر كا حال بھى جاننا چاہتے تھے جس سے آپ(ص) مؤمن كو منافق سے ، بہادر كو بزدل سے ، صحيح سمجھ دار كو كم سمجھ جاہل سے ، دوست كو دشمن سے ، طاقتور كو كمزور سے اور مفاد پر ست كو فريضے پر عمل كرنے والے اطاعت گذار سے جدا كرنا چاہتے تھے_ ہمارى اس بات كى دليل سعدبن معاذ كا آنحضرت (ص) سے وہ سوال ہے جس ميں اس نے آپ(ص) سے پوچھا كہ شايد آپ(ص) نكلے كسى كام سے ہيں اور آپ(ص) كو
251
حكم كسى اور كام كا ملا ہے؟ جس پر آپ(ص) نے جواب ديا تھا كہ ہاں ايسا ہى ہے_ اور يہ جملے اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ جنگ كا فيصلہ پہلے سے ہوچكا تھا اور خدا كى طرف سے يہ حكم پہلے ہى آچكا تھا_ پس آپ(ص) كے مشورے كى وجوہات وہى تھيں جو ہم ابھى كہہ چكے ہيں، پہلے بھى كہہ چكے تھے اور غزوہ احد ميں بھى كہيں گے_
2_ بہترين رائے ، قريش سے جنگ
يہ بات بھى واضح ہے كہ صحيح رائے قريش سے جنگ ہى تھى جس ميں خدا اور اس كے رسول (ص) كى مرضى بھى تھي_
كيونكہ مسلمان ايك دورا ہے پر كھڑے تھے:
يا تو تجارتى قافلے اور قريش كى فوج كا سامنا كئے بغير مسلمان واپس پلٹ جاتے_ اور يہ بات مسلمانوں كى واضح روحى اور نفسياتى شكست اور مشركوں ، يہوديوں اور منافقوں كو اپنے اوپر جرى كرنے كا باعث تھي_
يا پھر وہ تجارتى قافلے تك پہنچ كر كئي لوگوں كو قتل يا قيد كرنے كے بعد اسے لوٹ ليتے _ اس صورت ميں قريشى ہرگز خاموش نہ رہتے بلكہ وہ وسيع پيمانے پر اور مكمل طور پر ليس ہو كر مسلمانوں سے جنگ كرتے _ وہ تو اس صورتحال ميں مسلمانوں كے واپس مدينہ پہنچنے سے بھى پہلے مدينہ پر چڑھائي كر كے مسلمانوں پر مہلك وار كرسكتے تھے_ كيونكہ اتنى بڑيتعد اد اور تيارى كے ساتھ قريشى اتنى بڑى بات پر چپ نہيں رہ سكتے تھے بلكہ وہ جلدى سے اپنى جاتى ہوئي حيثيت ، ہيبت ، رعب و دبدبے اور بزرگى كے اعادے كى كوشش كرتے_
پس مسلمانوں كے سامنے صرف ايك ہى راستہ باقى رہتا تھا_ اور وہ قريش (كو پہلے اپنا عادلانہ ،عاقلانہ اور قابل قبول چہرہ اور طاقت دكھانے نيز منصفانہ پيشكش سامنے ركھنے كے بعد اب ان )كے مقابل كھڑا ہونا تھا_ پس ان حالات ميں قريش سے جنگ ہى بہترين اور بے مثال انتخاب تھا_ خاص طور پر جب وہ قريش كے تجارتى قافلے كے تعاقب ميں نكل بھى چكے تھے اور اس كام سے ان كا پيچھے ہٹنا مسلمانوں كے لئے عديم المثال پيچيدگيوں، مشكلات اور اعتراضات كا باعث بنتا_
252
ان تمام باتوں كا نتيجہ يہ نكلا كہ اگر مسلمان عزت اور وقار كى ايسى زندگى گذارنا چاہتے ہيں كہ ان كا كوئي بھى ہمسايہ ، مشرك ، يہودى ، منافق اور كوئي بھى دشمن ان كى طرف للچائي ہوئي نظروں سے نہ ديكھے تو انہيںجنگ كے لئے پيش قدمى كرنى ہوگي_ اس كے علاوہ ان كے پاس اور كوئي چارہ بھى نہيں ہے_
3_ نفسياتى تربيت:
اس بات كى طرف بھى اشارہ كرتے چليںكہ :
الف: اس جنگ ميں پہلے پہل عام مسلمانوں كا مقصد مال كا حصول تھا_ ليكن خدا اور رسول (ص) نے انہيں اس دنياوى مقصد سے كہيں بلند ، قيمتى اور بہترين ہدف كى طرف لے جانا چاہا و گرنہ قريشيوں كى اس لشكر كشى اور جنگ كے پيچھے بھى تو دنياوى ، اقتصادى ، اجتماعى ( معاشرتى ) اور سياسى مقاصد كار فرماتھے_پھر تو مسلمانوں اور مشركوں ميں كوئي فرق باقى نہ رہتا_
ب: جنگ بدر نے مسلمانوں كے اندر خود اعتمادى كى روح پھونكنے اور بھر پور قوت اور شجاعت كے ساتھ آئندہ كے خطرات كا سامنا كرنے كى جرات پيدا كرنے ميں اپنا بہت بڑا اثر دكھا يا _ كيونكہ انہيں خدا كے ''ہوكر رہنے والے حتمى ''كام كى انجام دہى كے لئے قريش كے جابروں، متكبروں اور سرداروں كو قتل اور قيد كرنا پڑا اور اس امتحان ميں وہ سرخرو ہوگئے ہيں تواب انہيں عرب اور عجم سميت پورى دنيا سے جنگ كى تيارى كرنى تھى _
4_ جنگ سے متعلق مشوروں پر ايك سرسرى نگاہ
يہ بات بھى قابل ملاحظہ ہے كہ اكثر مؤرخين نے اس مرحلے ميں عمر اور ابوبكر كا كلام حذف كر كے صرف يہ كہنے پر اكتفا كيا كہ ابوبكر نے كھڑے ہوكر اچھى رائے دى او رعمر نے بھى كھڑے ہوكر بہترين مشورہ ديا پھر
253
مقداد نے كھڑے ہوكر فلاں بات كى (1)_ بلكہ ان ميں سے كچھ لوگوں كى طرف ايسى باتيں بھى منسوب كرتے ہيں جن كا آنحضرت (ص) كے سوال سے سرے سے كوئي تعلق ہى نہيں تھا_(2) بہرحال شيخين كى مذكورہ باتيں چونكہ اكثر مؤرخين كو اچھى نہيں لگيں اس لئے وہ مذكورہ طريقے سے اس سے كنى كتراگئے _ ليكن يہ واضح سى بات ہے كہ آنحضرت(ص) كا مقداد كى باتوں پر خوش ہوكر اسے دعائيں دينا اس بات كى دليل ہے كہ شيخين كى باتيں آپ(ص) كے مشاورتى مقاصد سے ميل نہيں كھاتى تھيں بلكہ وہ تو آپ(ص) كے اعلى مقاصد كے بالكل برخلاف تھيں_ وگر نہ اگر ان كى باتيں لائق ذكر ہوتيں تو ان كے چاہنے والے راوى اور مؤرخين ان كى باتوں كو ضرور بڑھا چڑھاكر پيش كرتے_ ليكن مقداد كا مشورہ چونكہ بالكل صحيح ، منطقى اور آپ(ص) كے اعلى اہداف و مقاصد كے موافق نيز آپ(ص) كى توقعات كے عين مطابق تھا اس لئے مقداد آنحضرت(ص) كى دعاؤں اور تعريفوں كا مستحق ٹھہرا_
بلكہ كتابوں ميں يہاں تك بھى آيا ہے كہ جب آنحضرت(ص) كو ابوسفيان كے تجارتى قافلے كى آمد كى اطلاع ملى تو آپ(ص) نے اپنے صحابيوں سے مشورہ ليا_ يہاں ابوبكر نے كوئي بات كى ليكن آپ(ص) نے اس كى بات كو رد كرديا اور عمر نے بھى كوئي بات كى تو آپ(ص) نے اس كى باتوں كو بھى ٹھكرا ديا (3) _ پس آپ(ص) كا ان كى باتوں كو رد كردينا صرف اس وجہ سے نہيں تھا كہ آپ(ص) انصار كا جواب سننا چاہتے تھے بلكہ آپ(ص) كى رو گردانى ان دونوں كے قريش سے جنگ نہ كرنے پر اكسانے نيز ان الفاظ كے ساتھ قريش كى تعريف كرنے كى وجہ سے تھى كہ يہ ہميشہ سے ناقابل شكست اور بے ايمان كا فرر ہے ہيں _ وگرنہ آپ(ص) نے مقداد كى باتوں سے خوش ہوكر اسے دعائيں كيوں دى تھيں؟ حالانكہ وہ بھى تو ايك مہاجر تھا ؟حتى كہ ابن مسعود نے اس كے اس موقف كے متعلق كہا كہ اس كى ہم وزن كسى بھى چيز سے زيادہ مجھے اس كا ساتھى بننا بہت پسند تھا(4)_ اور ابوايوب انصاري
---------------------------------------------------------
1) بطور مثال ملاحظہ ہو: البدايہ و النہايہ ج 3 ص 262 و الثقات ج 1 ص 157_
2)وہ بات قريش كے تجارتى قافلے كو لوٹنے والى بات تھي
3) صحيح مسلم باب غزوہ بدر ج 5 ص 170 مسند احمد ج 3 ص 219 دو اسناد كے ساتھ نيز از الجمع بين الصحيحين ، البدايہ و النہايہ ج 3 ص 263 و السيرة النبويہ ابن كثير ج 2 ص 394_
4) صحيح بخارى باب '' تستغيثون ربكم'' مطبوعہ الميمنيہ ، البدايہ و النہايہ ج 3 ص 262 _ 263و سنن نسائي _
254
نے بھى اپنى باتوں كے دوران يہ اظہار كيا كہ ہم انصار جماعت كى يہ حسرت رہى كہ اے كاش اس دن ہم نے بھى مقداد كى طرح باتيں كہى ہوتيں ( اور پيغمبر(ص) كى دعائيں سميٹى ہوتيں) تو يہ چيز ہميں بہت زيادہ مال سے بھى زيادہ پسند تھى _ جس پر خدا نے يہ آيت نازل كى تھى (كما اخرجك ربّك من بيتك بالحق و ان فريقاًمن المؤمنين لكارہون) (1)_
گذشتہ تمام باتوں كے علاوہ يہ بات بھى قابل غور ہے كہ آنحضرت (ص) كا كلام مہاجرين و انصار سب كے لئے دعوت عام تھا _ اسى طرح جنگ پر بيعت نہ كرنے كے لحاظ سے مہاجرين بھى انصار ہى كى طرح تھے_پس مؤرخين كى يہ بات كہ آنحضرت(ص) كے مخاطب صرف انصار تھے صحيح نہيں ہے_
5_ مقداد اور سعد كى باتوں پر آنحضرت(ص) كے سرور كى وجوہات
مقداداور سعد بن معاذ كى باتوں ميں غور كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ انہوں نے آپ(ص) كو كوئي مشورہ نہيں ديا نہ جنگ كا اورنہ ہى صلح كا بلكہ انہوں نے تو صرف آپ(ص) كى بے چون و چرا اطاعت اور فرمانبردارى كا اظہار كيا تھا_ انہوں نے تو اپنى كسى رائے كا اظہار كيا نہ آپ(ص) كو كسى چيز كا مشورہ ديا _ اور يہ ايمان خلوص ، اطاعت ، فرض شناسى اور موقع شناسى كى انتہا ہے _
خدا كا فرمان ہے كہ ( و ما كان لمؤمن و لامؤمنة اذا قضى اللہ و رسولہ امراً ان يكون لہم الخيرة من امرہم ) (2) ترجمہ : '' جب خدا اور اس كا رسول (ص) كوئي فيصلہ كرليں تو كسى بھى مؤمن مرد اور مؤمنہ عورت كو اپنى مرضى كرنے كا كوئي حق نہيں ہے '' _ نيز ( يا ايہا الذين آمنوا لاتقدموا بين يدى اللہ و رسولہ و اتقو اللہ ان اللہ سميع عليم) (3) ترجمہ : '' اے مؤمنوا خدا اور اس كے رسول(ص) سے كسى بھى چيز ميں پيش قدمى نہ كيا كرو اور خدا سے ڈرو كہ خدا خوب سننے اور جاننے والا ہے '' _ اور خدا كے ان
---------------------------------------------------------
1) البدايہ و النہايہ ج 3 ص 263 و ص 264 از ابوحاتم و ابن مردويہ_
2) احزاب /36 _
3) حجرات_
255
فرامين كى روشنى ميں يہ دونوں شخصيات خدا اور اس كے رسول(ص) كے فيصلے كے سامنے اپنى كوئي حيثيت نہيں سمجھتے تھے اور اپنے لئے كسى بھى مرتبے كے قائل نہيں تھے اور رسول(ص) خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خوشى اور سرور بھى ان كے اسى گہرے اور پختہ ايمان اور بے چون و چرا فرمانبردارى كى وجہ سے تھى _
6_ حضرت على عليہ السلام نے مشورہ كيوں نہيں ديا؟
يہاں قابل ملاحظہ بات يہ بھى ہے كہ اس موقع پر حضرت على عليہ السلام نے عقلمندى اور دانائي كا سرچشمہ ہونے كے باوجود اپنى كسى رائے كا اظہار نہيں كيا اور نہ ہى اپنا موقف اور مشورہ سنانے كى انہيں كوئي جلدى تھي_ آپ لوگوں كے خيال ميں اس كى كيا وجہ ہوسكتى ہے ؟
اس سوال كے جواب ميں يہ كہا جاسكتا ہے كہ حضرت على عليہ السلام كا موقف بعينہ آنحضرت (ص) كاہى موقف تھا _ كيونكہ آيت مباہلہ ميں خدا نے ان الفاظ ميں حضرت على عليہ السلام كو آنحضرت (ص) كى ذات اور نفس قرار ديا :
(فقل: تعالوا ندع ابنائنا و ابنائكم ونسائنا و نسائكم و انفسناو انفسكم)
تو ( اے پيغمبر(ص) اس صورت ميں انہيں ) كہہ دو كہ پھر آؤ ہم اور تم اپنے اپنے سپوتوں ، عورتوں اور اپنى سب سے پيارى شخصيتوں كو بلاليں ...
مزيد يہ كہ حضرت على عليہ السلام خدا اور اس كے رسول(ص) سے كسى بھى معاملے ميں پيش قدمى كرنے والے تھے ہى نہيں _ اور اس موقع پر وہ خدا اور اس كے رسول(ص) كے فيصلے كے سامنے خاموشى ، رضا اور سر تسليم خم كرنے كو اپنے لئے ضرورى سمجھتے تھے اور اس كام ميں انہيں كوئي عار بھى محسوس نہيں ہوتا تھا _
'' حباب'' اچھى رائے والا
مؤرخين كے بقول جب رسول(ص) خدا نے بدر كے مقام پرپانى كے كنويں كے قريب پڑاؤ كيا تو حباب بن
256
منذر نے آپ(ص) كو يہ مشورہ ديا كہ دشمن كى فوج كى بہ نسبت آپ(ص) پانى كے زيادہ قريب پڑاؤ كريں اور وہاں پانى كا ايك حوض بنائيں پھر ديگر تمام كنوؤں كا پانى نكال ليں_ اس سے مسلمان تو پانى استعمال كرسكيں گے ليكن مشركين ايسا نہ كرسكيں گے _ آپ(ص) نے ايسا ہى كيا توحباب كے مشورہ كو درست پايا_ اس پر حباب كو '' حباب ذوالرا ى '' ( حباب بہترين رائے والا ) پكارا جانے لگا (1) _
ليكن يہ بات صحيح نہيں ہے _ كيونكہ :
ايك : پختہ دليلوں سے ثابت ہے كہ آنحضرت (ص) جو كچھ سوچتے يا كرتے تھے وہ سب صحيح اور بہترين ہوتا تھا _ اور يہ نظريہ كہ آپ(ص) دنياوى معاملات ميں غلطى كرسكتے تھے ، ناقابل اعتبار ہے كيونكہ يہ بات عقل اور آيات و روايات كے بالكل بر خلاف ہے (البتہ خطا اور نسيان سے عصمت كے اختيارى ہونے كى گفتگو عنقريب ہوگى انشاء اللہ )
دو : '' عدوة القصوى '' جہاں مشركوں نے پڑاؤ كيا تھا پانى بھى وہاں تھا اور وہ ايك بہترين زمين تھى جبكہ '' عدوة الدنيا '' ميں كوئي پانى نہيں تھا ، جبكہ وہاں كى زمين اتنى نرم تھى كہ اس ميں پاؤں دھنس جاتے تھے (2)
تين : مسلمانوں سے پہلے مشركوں نے بدر كے مقام پر آكر پڑاؤ كيا تھا _ اور يہ معقول ہى نہيں ہے كہ انہوں نے ايسى جگہ جا كر پڑاؤ كيا ہو جہاں كوئي پانى نہ ہو اور پانى والا حصہ اوروں كے لئے چھوڑديا ہو_
چار : خود ابن اسحاق يہ بيان كرتا ہے كہ مشركين حوض سے پانى لينے آئے تو آنحضرت(ص) نے حكم ديا كہ انہيں پانى بھرنے ديا جائے (3) _ اميرالمؤمنين حضرت على عليہ السلام نے بھى جنگ صفين ميں آنحضرت(ص) كى پيروى ميں اپنے سركش دشمنوں كو بھى پانى لينے كى اجازت دے ركھى تھي_ حالانكہ انہوں نے پہلے آپ(ع) كو اسي
---------------------------------------------------------
1) سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 272 ، تاريخ الخميس ج 1ص 376، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 155، الكامل ابن اثير ج 2 ص 122، سيرہ نبويہ ابن كثير ج 2 ص 403و ص 402 و البدايہ والنہايہ ج 3 ص 267 و غيرہ _
2) ملاحظہ ہو : فتح القدير ج 2 ص 291 از زجاج و ص 311 و كشاف ج 2 ص 203 تا 223 ، تاريخ الخميس ج 1 ص 375 ، تفسير ابن كثير ج 2 ص 292 از ابن عباس ، قتادہ ، سدى و ضحاك ، در منثور ج 3 ص 171 از ابن منذر ، ابوالشيخ ، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 154 ، سيرہ ابن كثير ج 2 ص 400 ، كشاف ، انوار التنزيل و مدارك و غيرہ _
3) ملاحظہ ہو : الكامل ابن اثير ج 2 ص 123_
257
پانى سے محروم كيا ہوا تھا (1) اور يہ واضح سى بات ہے كہ دشمنوں كو پانى سے روكنا اور منع كرنا پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى اخلاقيات اور اسلام كى بنيادى تعليمات سے سازگار نہيں ہے _
پس صحيح روايت يہ ہے كہ پہلے پہل مسلمانوں كے پاس پانى نہيں تھا _ ليكن ايك رات خدا نے موسلا دھار بارش برسائي تو وادى ميں سيلاب سا آگيا اور مسلمان نے كئي حوض (گڑھے) بنالئے ، خود بھى پانى پيا اور جانوروں كو بھى پلايا ، نہايا دھويا بھى اور اپنى مشكيں بھى بھر ليں (2)_ اس بات كى طرف يہ آيت اشارہ كررہى ہے _ ( اذ يغشيكم الناس امنة منہ و ينزل عليكم من السماء مائً ليطہركم بہ و يذہب رجز الشيطان و ليربط على قلوبكم و يثبت بہ الاقدام ) (3) پس حوض بنانے كے وجوہات وہ نہيں جو پہلے ذكر ہوئي ہيں بلكہ يہى ہےں جواب ذكر ہوئي ہےں_
مسلمانوں اور مشركوں كى تعداد اور ساز و سامان
جناب طالوت كے ساتھيوں كى تعداد كے مطابق آنحضرت (ص) بھى اس جنگ ميں اپنے تين سو تيرہ صحابيوں كو لے كر نكلے ( البتہ كم يا زيادہ تعداد كے اقوال اور نظريات بھى ہيں ليكن مذكورہ قول اكثر بزرگان كا نظريہ ہے (4) _ اور ان كے ساتھ ستر اونٹ تھے جن پر دود ويا تين تين آدمى بارى بارى سوار ہوتے تھے _ خود نبى كريم (ص) ، حضرت على (ع) اور مرثد بن ابى مرثد ( البتہ بعض مؤرخين كے مطابق تيسرا شخص زيد بن حارثہ تھا ) ايك اونٹ پر بارى بارى سوار ہوتے تھے _ مؤرخين كا اس بات پر تو اتفاق ہے كہ اس لشكر ميں ايك گھوڑا مقداد كا ضرور تھا ليكن باقى كے متعلق اختلاف ہے _ ايك نظريہ يہ بھى ہے كہ فقط يہى ايك گھوڑا تھا (5)اور يہ قول حضرت على (ع) سے بھى منقول ہے (6) ايك نظريہ يہ ہے كہ ايك گھوڑا زبير كا يا مرثد كا بھى تھا جبكہ يہ بھى كہا
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو مصنف كى كتاب '' الاسلام و مبدا المقابلة بالمثل '' _
2) ملاحظہ ہو : كشاف ج 2 ص 203 وص 204 و تفسير ابن كثير ج 2 ص 292 البتہ اس ميں حوض بنانے كا ذكر نہيں ہے _
3) انفال /11_
4)سيرہ حلبيہ ج2 ص 149_
5) تاريخ الخميس ج 1 ص 371 از كشاف ، مناقب ابن شہر آشوب ج 1 ص 187 ، بحار الانوار ج 9 1 ص 323 از تفسير عياشى ج 2 ص 25 و 54 و حياة الصحابہ ج 1 ص 493 از الترغيب ج 1 ص 1316 از ابن خزيمہ نيز ملاحظہ ہو _ المغازى ذہبى ( تاريخ الاسلام ) ض 56و 59 ، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 149 ، دلائل النبوة بيہقى مطبوعہ مكتبة العلميہ ج 3 ص 38 و ص 39 و 49 ، المغازى واقدى ج 1 ص 27 و تاريخ الام و الملوك ج 2 ص 35_
6) تاريخ طبرى ج 2 ص 135، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 149 و سيرہء نبويہ ابن كثير ج 2 ص 388_
258
گيا ہے كہ دونوں كے گھوڑے تھے_
اسلحہ ميں صرف چھے ڈھاليں اور آٹھ تلوار يں تھيں(1)
ان تين سو تيرہ سپاہيوں ميں سے مہاجرين كى تعداد كے متعلق مختلف اقوال ہيں_ چونسٹھ(64) بھى كہا گيا ہے ستر (70) بھي، چھيتر(76) بھى ، ستتر (77) اور اسى (80) تك بھى كہا گيا ہے اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ دو سو ستر (270) انصارى تھے اور باقى دوسرے لوگ تھے _ اس كے علاوہ ديگر اقوال بھى ہيں (2)_ اور انصارميں سے كہا گيا ہے كہ ايك سو ستر (170) خزرجى تھے البتہ اس تعداد ميں بھى اختلاف پايا جاتاہے_
ليكن مشركين نشے ميں بد مست تھے اور اپنے ساتھ ڈفلى بجانے والى گلوكار ائيں بھى لائے تھے جنہيں انہوں نے راستے سے ہى واپس پلٹا ديا تھا_ ان كے ساتھ سات سو اونٹ تھے(3)_ البتہ گھوڑوں كى تعداد ميں اختلاف ہے _ چارسو بھى كہا گيا ہے (4)، دو سو بھى كہا گيا ہے اور ايك سو بھى (5) نيز ديگر اقوال بھى ہيں_ اور ان سب كے پاس ڈھاليں تھيں اور ڈھال والى فوج كى كل تعداد چھ سو(600) تھى (6)_
پورے لشكر كے كھانے پينے كا بند و بست كرنے والے كل بارہ آدمى تھے جن ميں عتبہ ، شيبہ ، عباس ، ابو جہل اور حكيم بن حزام بھى تھے _ البتہ مشہور يہ ہے كہ مؤخر الذكر بعد ميں مؤلفة القلوب ميں شمار ہونے لگا تھا _ بہرحال ان بارہ آدميوں ميں سے ہر ايك پورے لشكر كے ايك دن كا كھانا اپنے ذمہ لے ليتاتھا _ اور وہ ان كے لئے نو ياد س اونٹ ذبح كرتا تھا_
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو :مناقب آل ابى طالب ابن شہر آشوب ج 1 ص 187، بحار الانوار ج 19 ص 206، مجمع البيان ج 2 ص 214 البتہ دار احياء التراث كى طباعت كے مطابق ج 1 ص 415 و تاريخ الخميس ج 1 ص 371_
2) ملاحظہ ہو : بحارالانوار ج 19 ص 323، دلائل النبوة بيہقى ج 3 ص 40، البداية و النہايہ ج 3 ص 269، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 146، حياة الصحابہ ج 1 ص 603 ، تاريخ الخميس ج 1 ص 371، انساب الاشراف ج 1 ص 290، مجمع الزوائد ج 6 ص 93، الكامل فى التاريخ ج 2 ص 118 و ديگر كتب_
3) ملاحظہ ہو گذشتہ چند حاشيوں ميں مذكور منابع_
4) تفسير قمى ج 1 ص 262_
5) ملاحظہ ہو : مناقب آل ابى طالب ج 1 ص 187، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 146، بحار الانوار ج 19 ص 224 و ص 206، الكامل ابن اثير ج 2 ص 118 ، مجمع البيان و ديگر كتب نيز سيرہ نبويہ ابن كثير ج 2 ص 387_
6) التنبيہ و الاشراف ص204 و سيرہ نبويہ ابن كثير ج 2 ص 387_
|