191
چھٹى فصل:
جنگ بدر سے پہلے كى لڑائياں
193
رسول (ص) كے غزوات اور سرايا:
''غزوہ'' سے مراد ايسى جنگ ہے جس ميں خود حضور سرور كائنات (ص) نے بنفس نفيس شركت فرمائي ہو اور ''سريہ' ' ايسى جنگ ہے جس ميں آپ (ص) نے براہ راست شركت نہ فرمائي ہو_
ان جنگوں كى تعداد ميں مورخين كے ہاں خاصا اختلاف پايا جاتاہے _ہمارے خيال ميں اس مطلب كى تحقيق ميں كلام كو طول دينے كى ضرورت نہيں_ ہم صرف ان اہم جنگوں كا ذكر كريں گے جن كا كوئي عمومى فائدہ تھا_ البتہ اس سے قبل دو نكات كا بيان ضرورى محسوس ہوتا ہے _
ايك : معركہ سے فرار
علماء نے يہاں بيان كيا ہے كہ ابتدائے امر ميں ايك مسلمان كا دس مشركين كے مقابلہ سے فرار كرنا جائز نہيں تھا (1) ( يعنى ايك مسلمان پر بيك وقت دس مشركوں كا مقابلہ واجب تھا ) پھر اللہ تعالى كى جانب سے مسلمانوں پر تخفيف اور رعايت كا حكم آيا كہ اب ايك مسلمان دو كا مقابلہ كرسكتاہے جيسا كہ ارشاد بارى تعالى ہے:
(يا ايھا النبى حرض المومنين على القتال ان يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مئتين و ان يكن منكم مئة يغلبوا الفاً من الذين كفروا بانھم قوم لا يفقہون
---------------------------------------------------------
1) الجامع لاحكام القرآن ج 8 ص 44 ، جامع البيان ج 10 ص 27 و تفسير المنارج 10 ص 77_
194
الان خفف اللہ عنكم و علم ان فيكم ضعفاً فان يكن منكم مئة صابرة يغلبوا مئتين و ان يكن منكم الف يغلبوا الفين باذن اللہ و اللہ مع الصابرين) (انفال 65 ، 66)
اے پيامبر آ پ (ص) لوگوں كو جہاد پر آمادہ كريں_ اگر ان ميں بيس افراد بھى صبر كرنے والے ہوں گے تووہ دو سو پر غالب آئيں گے اور اگر سوہوں گے تو ہزار كافروں پر غالب آئيں گے_ اس لئے كہ كفار سمجھ بوجھ نہيں ركھتے البتہ اب اللہ نے تمہارا بار ہلكاكر دياہے كيونكہ اس نے ديكھ ليا ہے كہ اب تم لوگوں ميں كمزورى پائي جاتى ہے تو اب تم ميں اگر سو افراد بھى صبر كرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائيں گے اور اگر ہزار ہوں گے تو بحكم خدا دو ہزار پر غالب آئيں گے اور اللہ صبر كرنے والوں كے ساتھ ہے_
اس بات كى مزيد تفصيل جنگ بدر كے باب كى آخرى فصل ''جنگ كے نتائج '' ميں ذكر ہوگى _
دو: سرايا كے لئے نبى (ص) كى وصيت :
دوسرى قابل ملاحظہ بات يہ ہے كہ حضور سرور دو عالم (ص) جب كسى سريہ كے لئے مسلمانوں كو بھيجنے كا ارادہ فرماتے تو مسلمانوں كو بلاتے_ اپنے سامنے بٹھاتے اور فرماتے:
( سيروا باسم اللہ ، و باللہ و فى سبيل اللہ و على ملة رسول اللہ و لا تغلوا و لا تمثلوا و لا تعذرو و لا تقتلوا شيخاً فانياً و لاصبياً و لا امراة و لا تقطعوا شجراً الاّ ان تضطروا اليہا ؟ و ايما رجل من ادنى المسلمين او افضلہم نظر الى رجل من المشركين فہو جار حتى يسمع كلام اللہ فان تبعكم فاخوكم فى الدين و ان ابى فابلغوہ مأمنہ و
---------------------------------------------------------
1)تاريخ الخميس ج/1 ص 356 ، السيرة الحلبيہ ج/3 ص 152_
195
استعينوا باللہ عليہ ...)
اللہ كے نام اور اللہ ( كى لا يزال قوت )كے ساتھ اور اللہ كى راہ ميں اور رسول (ص) اللہ كے دين پر ہوكے سفر كرو اور دور تك تير نہ پھينكو اورنہ ہى كسى كا ناك يا كان كاٹو(1)، كسى كے ساتھ بدعہدى اور خيانت نہ كرنا ، كسى نہايت بوڑھے كو قتل نہ كرنا اور نہ ہى كسى بچے يا خاتون كو قتل كرنا ، كسى درخت كو نہ كاٹنا مگر يہ كہ كوئي مجبورى پيش آجائے، تم ميں سے جس چھوٹے يا بڑے مسلمان نے كسى بھى مشرك پر نظر كرم كى تو وہ ا سے پناہ دينے والا ہے يہاں تك كہ وہ كلام الہى كو سنے پس اگر اس نے اطاعت كى تووہ تمہارا دينى بھائي ہے اور اگر اس نے انكار كيا تو اسے اس كى پناہ گاہ تك چھوڑ آؤ اور اس پر كاميابى كے لئے اللہ سے مدد طلب كرو ... (2)
يہ وصيت طولانى ہے اسى طرح آپ(ص) كى ديگر وصيتيں بھى ہيں جن كے مطالعہ كے لئے ان كے منابع كى طرف رجوع فرمائيں (3)_ آپ (ص) نے دشمن پر كبھى بھى شب خون نہيں مارا (4 ) بلكہ جب كبھى بھى كسى لشكر كو كہيں بھيجتے تو دن چڑھے بھيجتے تھے (5)_
اس كتاب ميںہمارا مطمح نظر:
ہم اپنى اس كتاب ميں تمام غزوات اور سرايا كے متعلق مكمل تفصيلى گفتگو نہيں كرسكتے اس لئے ہم ان جنگوں كے ذكر پر اكتفا كريں گے جن ميں لڑائي ہوئي ہے البتہ دوسرے غزوات اور سرايا كى طرف تھوڑا سا اشارہ بھى كريں گے _ مگر ان ميں كوئي ايسا نيا نكتہ پاياجائے جس پر روشنى ڈالنے كے لئے ان كا ذكر ناگزير ہوجائے تو ان كا بھى تفصيلى ذكر آئے گا _ البتہ اس فصل ميں مندرجہ ذيل سرايا كى طرف اشارہ كرتے ہيں :
---------------------------------------------------------
1)روايت ميں لفظ مثلہ كرنا آيا ہے جس كا مطلب ٹكڑے ٹكڑے كرنا يا دوسرے لفظوں ميں ناك كان كاٹنا ہے_
2)الكافى ج/1ص 334 ، 335 ، البحار ج/19 ص 177 ، 179 نيز ملاحظہ ہو سند احمد ج 1 ص 300 و غيرہ ، التہذيب شيخ طوسى ج 6 ص 138 و ص 139 و الاموال ص 35_
3)النظم الاسلاميہ صبحى صالح ص 514_
4) التہذيب شيخ طوسى ج 6 ص 174 ، الكافى ج 1 ص 334و ص 335 و بحار الانوار ج 19ص 177 تا ص 179 _
5) التراتيب الاداريہ ج 2 ص 22و الجامع الصحيح ج 3 ص 517_
196
ابتدائي جنگيں :
مؤرخين كہتے ہيں كہ :
1_ آنحضرت (ص) نے مدينہ تشريف آورى كے سات ماہ بعد ( البتہ ديگر اقوال بھى ہيں ) ابوجہل كا پيچھا كرنے كے لئے جناب حمزہ بن عبدالمطلب كو تيس مہاجرين كا سردار بنا كر بھيجا ( يہ بھى كہا گيا ہے كہ اس دستے ميں انصار كے كچھ افراد بھى شامل تھے ليكن يہ بات ناقابل وثوق ہے كيونكہ جنگ بدر سے پہلے آپ(ص) نے كسى بھى انصارى كو كسى جنگى مشن پر نہيں بھيجا تھا) (1) انہوں نے ابوجہل كو تين سو مشركوں ميں گھرے ہوئے جاليا _ ليكن وہاں فريقين كے ثالث مجدى بن عمرو جہنى ان كے اس مشن كے آڑے آگيا اور وہ جنگ كئے بغير واپس لوٹ آئے _
2_ آپ(ص) نے مدينہ تشريف آورى كے بعد ٹھيك آٹھويں مہينے كى ابتداء ميں دوسو افراد ميں گھرے ابوسفيان كو '' رابع'' كے ميدان ميں جا پكڑنے كے لئے عبيدہ بن حارث بن مطلب كى سركردگى ميں ساٹھ افراد كا ايك لشكر بھيجا _ اس سريہ ميں مقداد اور عتبہ بن غزو ان ابوسفيان كے دستے سے بھاگ كر مسلمانوں كے ساتھ مل گئے (2) _
3_ اس كے بعد مہاجرين كے ايك گروہ كى سركردگى ميں سعد بن ابى وقاص كا سريہ بھى ہے جو قريش كے ايك قافلے كا مقابلہ كرنے نكلا تھا ليكن وہ قافلہ ان كى پہنچ سے باہر جا چكا تھا _ البتہ ايك قول كے مطابق يہ واقعہ جنگ بدر كے بعد پيش آيا (3)_
4_ اس واقعہ كے بعد يعنى آپ(ص) كى ہجرت كے كم و بيش ايك سال بعد غزوہ ابواء كا واقعہ پيش آيا _ اس غزوہ ميں آپ(ص) بنفس نفيس قريش اور قبيلہ بنى مرّہ بن بكر سے جنگ كرنے نكلے ليكن '' ابوائ'' كے مقام پر قبيلہ بنى مرّہ كے سردار سے مڈبھيڑ ہوگئي جہاں انہوں نے آپس ميں صلح كرلى اور آپ(ص) واپس مدينہ پلٹ آئے (4) _
---------------------------------------------------------
1) تاريخ الخميس ج 1 ص 356، سيرہ حلبيہ ج 3 ص 152، السيرة النبويہ ابن ہشام ج 2 ص 245_
2) السيرة النبويہ دحلان ( مطبوعہ بر حاشيہ سيرہ حلبيہ ) ج 1 ص 360و 359 _ نيز ملاحظہ ہو تاريخ الخميس ج 1 ص 359_
3) تاريخ الخميس ج 1 359_
4) تاريخ الخميس ج 1 ص 363، السيرة النبوية ابن ہشام ج 2 ص 241 ، السيرة النبويہ دحلان ( مطبوعہ بر حاشيہ سيرہ حلبيہ ) ج 1 ص 361_
197
5_ اس كے بعد غزوہ '' بواط'' كا واقعہ پيش آيا ( بواط مدينہ كے قريب جہينہ قبيلہ سے متعلق ايك پہاڑى تھى ) اس غزوہ ميں آپ(ص) دوسو مہاجرين كو لے كر قبيلہ بنى ضمرہ كے قافلے كا سامنا كرنے نكلے ليكن بواط تك پيچھا كرنے كے بعد پھر واپس پلٹ آئے اور كوئي لڑائي نہيں كى (1) البتہ اس غزوہ ميں مہاجرين كى تعداد كے متعلق اپنا اعتراض ہم محفوظ ركھتے ہيں _
6_ مذكورہ غزوہ كے چند دن بعد '' غزوة العشيرہ '' كا واقعہ پيش آيا _ اس ميں آپ(ص) قبيلہ بنى مدلج اور اس كے حليف بنى ضمرہ سے صلح كر كے واپس مدينہ پلٹ آئے _ اس غزوہ ميں بھى كوئي لڑائي نہيں ہوئي _ البتہ اس غزوہ ميں حضرت على عليہ السلام كو '' ابوتراب '' كا لقب ملا جس كے متعلق ہم بعد ميں گفتگو كريں گے (2)_
7_ نخلہ كى وادى ميں عبداللہ بن حجش كا سريہ :
اس كے بعد ہجرت كے دوسرے سال رجب يا جمادى الثانى كے مہينے ميں عبداللہ بن حجش كى جنگ كا واقعہ رونما ہوا _ جس ميں آٹھ يا بارہ مہاجرين نے حصہ ليا تھا _ آپ(ص) نے عبداللہ بن حجش كو ايك خط دے كر روانہ كيا اور فرمايا كہ اس خط كو دو دن كے بعد كھول كرديكھنا ( يہ حكم غالباً اس لئے تھا كہ كوئي اسلام دشمن يہودى اور مشرك اس خط كے مضمون سے مطلع نہ ہونے پائے جس سے يہ بات تمام دشمنوں ميں پھيل سكتى تھى ) _ دو دن چلنے كے بعد جب اس نے خط كھول كرديكھا تو اس ميں بسم اللہ الرحمن الرحيم كے بعد لكھا تھا :
'' امّا بعد خدا كى بركت سے اپنے ساتھيوں سميت نخلہ كى وادى ميں جا كر قريش كے ايك قافلے پر گھات لگاؤ ( ايك روايت ميں آيا ہے كہ قريشيوں كے خلاف گھات لگاؤ) يہاں تك كہ ہمارے پاس كوئي اچھى خبر لے كر آو'' _
عبداللہ بن حجش نے اپنے ساتھيوں سے كہا كہ آنحضرت (ص) نے اسے حكم ديا ہے كہ اپنے كسى ساتھى پر بھى زبردستى نہيں كرو بلكہ انہيں اس بات كا اختيار دو كہ وہ تمہارے ساتھ جائيں يا پھر واپس پلٹ آئيں _ ليكن اس كے تمام ساتھى اس كے ساتھ ہولئے _ پھر يہ دستہ وادى نخلہ ميں ٹھہرا تو وہاں سے قريش كے ايك قافلے كا
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو : تاريخ الخميس ج 1 ص 363، السير النبويہ دحلان ج 1 ص 361، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 126و السيرة النبويہ ابن ہشام ج 2 ص 249_
2)ملاحظہ ہو : تاريخ الخميس ج 1 ص 363، السيرة النبويہ دحلان ج 1 ص 361 ، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 126، السيرة النبويہ ابن ہشام ج2 ص 249_
198
گذر ہوا جس پر انہوں نے جرات كا مظاہرہ كرتے ہوئے اس فاقلے پرہلہ بول ديا ، ان كے ايك آدمى كو قتل اور دو كو قيد كر كے ان كا تمام مال و اسباب لوٹ ليا _ يہ واقعہ اختلاف اقوال كى بناپر رجب كى پہلى تاريخ كو يا اس سے ايك دن پہلے پيش آيا _ پھر جب وہ رسول (ص) خدا كے پاس آئے تو انہوں نے وہ قافلہ مع مال و اسباب اور دو قيدى آپ(ص) كے حضور پيش كرديئےيكن آپ(ص) نے اس سے ايك دھيلا بھى لينے سے انكار كرديا ( ليكن ابو ہلال عسكرى كہتا ہے كہ عبداللہ بن حجش نے اس مال كو پانچ حصوں ميں تقسيم كر كے پانچواں حصہ رسول (ص) خدا كے حضور پيش كرديا اور باقى كو اپنے ساتھيوں كے درميان تقسيم كرديا _ اور اس كا يہ خمس اسلام كا پہلا خمس تھا) (1) _ البتہ دوسرے مسلمان بھائيوں نے ان كو سخت سرزنش كى _ اس واقعہ كى وجہ سے قريشيوں نے يہ كہنا شروع كرديا كہ (حضرت) محمد(ص) نے حرام مہينے كى حرمت كو پايمال كيا ہے _ اس مہينے ميں ان لوگوں نے خون بہايا، مال لوٹا اور كئي آدميوں كو قيدى بنايا ہے _ اس وجہ سے انہوں نے مسلمانوں كو بہت برا بھلا بھى كہا اور اس بارے ميں كئي خطوط بھى لكھے _ اس كے ساتھ ساتھ اس معاملہ كو مزيد ہوا دينے كے لئے يہوديوں كو بھى بھڑ كانا شروع كرديا_ جب ان كى سرگرمياں حد سے زيادہ بڑھ گئيں تو مہاجرين كے اس كام كى دليل اور توجيہ بيان كرنے كے لئے يہ آيتيں نازل ہوئيں:
(يسالونك عن الشھر الحرام قتال فيہ قل قتال فيہ كبير و صد عن سبيل اللہ و كفر بہ و المسجد الحرام و اخراج اہلہ منہ اكبر عنداللہ و الفتنة اكبر من القتل) (2)
اے پيغمبر وہ لوگ آپ(ص) سے (طنز يہ طور پر ) محترم مہينے ميں جنگ كے متعلق پوچھتے ہيں تو
---------------------------------------------------------
1) الاوائل ، ج 1 ، ص176 ، سيرہ حلبيہ، ج 3 ، ص 157 ، الاستيعاب زندگى عبداللہ بن جحش، نيز ملاحظہ ہو : السيرة النبوية ابن ہشام ، ج 3، ص 252 و 253_ المغازى واقدى ، ج 1 ، ص 13 ، طبقات الكبرى ، ج 2 ، ص 10 ، مطبوعہ1405 ھ _ تاريخ الامم و الملوك ، ج 2 ، ص 410تا 413 ، السنن الكبرى ، ج 9 ، ص 12 ، دلائل النبوة بيہقى ، ج 2 ، ص 307و 308 ، تاريخ الاسلام ذہبى (مغازى ) ص 29 ، اسباب النزول ص 36 ، بحارالانوار ، ج 20 ، ص 189و 190، رجال مامقانى ، ج 2 ، ص 173، قصص الانبياء راوندى ، ص 339_ السيرة النبويہ ابن كثير ، ج 2 ص366، الكامل فى التاريخ ، ج 2 ، ص 113، تاريخ الخميس ، ج 1 ، ص 365 _ تاريخ يعقوبى ، ج 2 ، ص 69_ الدرالمنثور سيوطى ، ج 1 ص 251_ مجمع الزوائد ، ج 2 ، ص 198_ السيرة النبويہ دحلان (مطبوعہ بر حاشيہ سيرہ حلبيہ) ، ج 1 ، ص 362 و ديگر كتب_
2) بقرہ / 217_
199
آپ(ص) انہيں كہہ ديجيے كہ اس مہينے ميں جنگ كرنا بہت بڑا گناہ اور خدا كے راستے سے روكنے اور خدا اور مسجد الحرام كے انكار كے مترادف ہے ليكن مسجد الحرام ميں رہنے والوں كو اپنے گھروں سے نكال با ہر كرنا خدا كے نزديك اس سے بھى بڑا جرم ہے نيز فتنہ اور سازش بھى قتل سے بہت بڑا جرم ہے_
ايك قول يہ بھى ہے كہ يہ آيت اس وقت اترى جب مشركين مكہ نے آپ(ص) كے پاس آكر بطور طنز اور تنقيد حرام مہينے ميں جنگ كى كيفيت كے متعلق سوال كيا تو اس آيت كے ذريعہ سے خدانے مسلمانوں كى مشكل آسان كردى اور قريشيوں كو اپنے قيديوں كا فديہ دے كر انہيں چھڑواناپڑا اور آپ(ص) نے بھى فديہ لے كر انہيں چھوڑ ديا (1)
8_ غزوة العشيرہ كے چند دن بعد غزوہ بدر اولى كا واقعہ پيش آيا _ جب كرز بن جابر فہرى ،مدينہ كے چوپائے غارت كر كے اپنے ساتھ لے گيا تو آنحضرت(ص) خود اس كا پيچھا كرنے كے لئے نكلے ليكن جب بدر كى جانب سفوان كى وادى تك پہنچے تو وہ آپ(ص) كى دسترس سے باہر نكل چكاتھا، جس كى وجہ سے آپ(ص) دوبارہ مدينہ پلٹ آئے (2)
يہاں ہم كچھ اہم امور پر بحث ضرورى تصور كرتے ہيں ان كاتعلق گزشتہ ابحاث سے ہے اور وہ مندرجہ ذيل ہيں_
1 _ حضرت على (ع) كى كنيت ابوتراب قرار دينا:
غزوة العشيرہ ميں نبي(ص) نے امير المومنين على (ع) كى كنيت ابوتراب ركھي_ يہ كنيت حضرت (ع) كو بہت زيادہ پسند تھى ليكن بنواميہ اس كنيت كى وجہ سے آپ(ص) كو تنقيد كا نشانہ بناتے تھے_
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو : تاريخ الخميس ، ج 1 ص 366 ، السيرة النبويہ دحلان (مطبوعہ بر حاشيہ سيرہ حلبيہ ) ، ج 1 ، ص 363 و السيرة النبويہ ابن ہشام ، ج 2 ، ص 254و 255_
2)سيرہ حلبيہ ، ج 2 ، ص 128، السيرة النبويہ ابن ہشام ، ج 2 ، ص 251_
200
جناب عمار بن ياسر كى روايت كے مطابق معاملہ اختصار كے ساتھ كچھ يوں ہے كہ جب آنحضرت (ص) اصحاب كے ہمراہ غزوة العشيرہ كے مقام پر پہنچے تو حضرت عمار اور حضرت على (ع) قبيلہ بنى مدلج كے حالات جانچنے گئے وہاں انہوں نے ديكھا كہ وہ لوگ اپنے لئے كنواں كھود رہے تھے اور كھجور كے درختوں پر كام كررہے تھے_ ديكھتے ہى ديكھتے ان دونوں پر نيند طارى ہونے لگى تووہ چل كر كھجور كے درخت كے سائے تلے پہلو كے بل مٹى كے اوپر ليٹ گئے_ حضرت عمار كہتے ہيں كہ خدا كى قسم ابھى ہم سونے كى تيارى كر ہى رہے تھے كہ ہميں اٹھانے كے لئے رسول(ص) اللہ بنفس نفيس تشريف لائے اور پاؤں سے ہميں جھنجھوڑا_ ہم لوگ جس مٹى پر سوگئے تھے اس سے اٹے ہوئے تھے_ اس روز رسول اللہ (ص) نے حضرت على (ع) كے بدن پر مٹى ديكھ كر ان كو ''ابوتراب'' كہہ كر آواز دى اور فرمايا :'' اے ابوتراب كيا بات ہے ؟''(1)_
''مؤاخات'' كے متعلق گفتگوميں بھى ابوتراب كى كنيت كاتذكرہ گزرچكاہے_
عبدالباقى العمرى نے ان اشعار ميں نہايت احسن انداز سے اس معنى كو بيان كيا ہے_
يا ابا الاوصياء انت لطہ
صہرہ و ابن عمہ و اخوہ
ان لله فى معانيك سراً
اكثر العالمين ما علموہ
انت ثانى الآباء فى منتہي
الدور و آباؤہ تعد بنوہ
اے ابوالاوصيائ( حضرت على (ع) )آپ (ع) آنحضرت(ص) كے داماد چچازاد اور بھائي ہيں_ اللہ كے ہاں آپ (ع) كے (اسماء القاب اور صفات كے ) معانى ميں كئي رازپوشيدہ ہيں جنہيں اہل جہاں نہيں جانتے _ آپ (ع) اس آخرى دور ميں دوسرے ابوالبشر ہيں جن كے آباء بھى ان كے بيٹے كہلاتے ہيں_
---------------------------------------------------------
1)البدايہ والنہايہ ج/3 ص 247، الآحاد والمثانى مخطوط كتابخانہ كوپر لى شمارہ 235، صحيح ابن حبان مخطوط ، البحار ج/ 19 ص 188 ، مسند احمد ج/4 ص 263 و 264، تاريخ طبرى ج/2ص 123،124،لكامل ابن اثير ج/2ص12 ط صادر، سيرة ابن ہشام ج/2 ص 249،250، مستدرك الحاكم ج/3 ص 140 ، كنز العمال ج/ 15 ص 123،124ازالمصنف ، البغوي،الطبرانى در الكبير ،ابن مردويہ ، ابو نعيم در معرفة الصحابة ،ابن النجار ابن عساكر وديگرا فراد، شواھد التنزيل ج/2 ص 342 ، مجمع الزوائد ج/9 ص 100، 136از طبرانى در الاوسط و الكبير ، البزارو احمد اوراس روايت كى بعض اسناد كى اس نے توثيق كى ہے _ تاريخ الخميس ج/1 ص 364 ، تاريخ ابن عساكرامام على (ع) كے حالات زندگى ج/3 ص86محمودى كى تحقيق سے، انساب الاشراف ج/2 ص 90، السيرة الحلبيہ ج/ 2 ص 126 ، طبقات ابن سعد، السيرة النبويہ ابن كثير ج/2ص363،كتاب الفضائل احمد بن حنبل ج295 ، الغدير ج/6ص334،عيون الاثر ابن سيد الناس ج/1ص226، الامتاع مقريزى ص55 و دلائل النبوہ بيہقى ، ج 2 ، ص 303 اور ديگر حوالہ جات بھى ہيں _بہرحال غزوة العشيرة كے حالات اگركوئي تاريخ اور حديث كى كتابوں ميں ملاحظہ كرے تواس مطلب كو پائے گا_
201
دغابازى اور جھوٹ:
ليكن مذكورہ باتوں كے با وجود بھى بعض لوگ يہ كہتے ہيں كہ جب حضرت على (ع) كى بى بى فاطمہ (ع) سے شكر رنجى ہوئي تو آپ(ع) نے غصے ميں آكر اپنے سر پر مٹى ڈال دى _ پھر جب نبى (ص) نے يہ منظر ديكھا تو آپ (ص) نے حضرت على (ع) كو اس خطاب سے نوازا (1) بعض يہ بھى كہتے ہيںكہ جب حضرت على (ع) جناب فاطمہ (ع) پر ناراض ہوگئے تو مسجد كى طرف چلے گئے اور مٹى پر سوگئے _ جب نبى اكرم(ص) كو پتہ چلا تو آپ (ص) حضرت على (ع) كى تلاش ميں نكلے ، جب آپ (ع) كو ديكھا تو اس خطاب سے مخاطب فرمايا (2)_ اس طرح وہ لوگ تو يہ بھى كہتے ہيں كہ حضرت على (ع) جناب فاطمہ پر سخت گيرى كيا كرتے تھے تو جناب فاطمہ (ع) نے كہا: '' خدا كى قسم ميں رسول (ص) خدا كے پاس جا كر ان سے تمہارى شكايت كرتى ہوں'' _ يہ بات كہہ كر وہ رسول (ص) خدا كى طرف چل پڑيں جبكہ حضرت على (ع) بھى ان كے پيچھے پيچھے چل پڑے _ وہاں انہوں نے رسول (ع) خدا سے شكايت كى تو حضرت على (ع) آپ (ص) پر سخت غصہ ہوئے اور آپ (ص) كو برابھلا كہا ، جس پر آنحضرت(ص) نے اپنى دختر سے فرمايا:'' بيٹى ميرى يہ بات خوب كان كھول كر سنو اور اسے ذہن نشين كرلو، وہ عورت كبھى راج نہيں كر سكتى جو شوہر كے چپ ہورہنے كى صورت ميں اس كى مرضى كے مطابق نہيں چلتى '' _ اس كے بعد حضرت على (ع) جو پہلے چپ كھڑے تھے بولے: ''اب ميں اسے كچھ نہيں كہوں گا '' _ اس پر حضرت فاطمہ (ع) نے فرمايا كہ اب ميں بھى ہرگز ايسا كام نہيں كروں گى جو اسے ناپسند ہوگا (3) _ ايك داستان يوں بھى ہے كہ حضرت علي(ع) اور جناب فاطمہ (ع) كے در ميان كچھ تلخ كلامى ہوگئي اور ان كے گھر ميں رسول(ص) خدا آئے تو حضرت على (ع) نے آپ(ص) كے لئے بستر بچھا يا اور آپ(ص) اس پر ليٹ گئے جناب زہرا(ع) آئيں تو وہ آپ(ص) كے ايك طرف ليٹ گئيں اور دوسرى جانب حضرت على (ع) آكر ليٹ گئے _آپ(ع) نے حضرت على (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) كے ہاتھ پكڑ كر اپنے شكم پر ركھا اور دونوں كے ہاتھ پكڑ پكڑ كر اپنے شكم پر ركھتے رہے حتى كہ دونوں ميں پھر سے صلح ہوگئي (4) _يہاں بعض نے اس طرح بھى كہا ہے كہ مؤاخات كے موقع پر آپ(ص)
---------------------------------------------------------
1)السيرة الحلبيہ ج/ 2 ص 127 ، انساب الاشراف ج/2 ص 90_
2)البداية والنہاية ج/ 3 ص 347 ، الغدير ج/6 ص 336 ازسيرة ابن ھشام ج /2 ص 237 ، عمدة القارى ج/7 ص 630 السيرةالنبويةلابن كثيرج/2ص363از صحيح البخارى ،المناقب للخوارزمى ص 7 ، انساب الاشراف ج/2ص 90 ، معرفة علوم الحديث للحاكم ص 211_
3و4)طبقات ابن سعدط ليڈن ، ج 8 ، ص 16_
202
نے حضرت على (ع) اور كسى اور كے درميان مؤاخات كا سلسلہ قائم نہ فرمايا تو آپ (ع) پر يہ بات گراں گزرى اور آپ (ع) مسجد كى طرف نكل گئے اور مٹى پر سوگئے_ آنحضرت(ص) آپ (ع) كے پاس پہنچے تو انہيں '' ابوتراب'' كے خطاب سے مخاطب فرمايا_
ليكن يہ سب اقوال صحيح نہيں ہيں _كيونكہ اس بات سے قطع نظر كہ آپ(ص) جيسى شخصيت نے مياں بيوى ميں صلح كرانے كے لئے (نعوذ باللہ ) وہ مزعومہ بھونڈا طريقہ كيوں اختيار كيا اور اپنى بيٹى پر (نعوذ باللہ ) ظلم كرنے و الے كے مقابلے ميں اپنى بيٹى كى حمايت اور طرفدارى كى بجائے اسے ہى سرزنش كرنا كيوں شروع كرديا؟ اس كى وجوہات ہمارى سمجھ سے بالا تر ہيں ، ليكن پھر بھى ان باتوں سے قطع نظر ہمارے پاس گذشتہ بے بنياد تہمتوں كے صحيح نہ ہونے كے دلائل مندرجہ ذيل ہيں:
1 _ حضرت بى بى فاطمہ (سلام اللہ عليہا) كا مقام اور مرتبہ اس بات سے كہيں ارفع و اعلى ہے كہ حضرت على (ع) آپ (ع) پر غضب ناك ہوں _ وہ صديقہ طاہرہ ہيں _ قرآن كريم كى نص كے مطابق آپ (ع) ہيں جن كو اللہ تعالى نے ہر طرح كے '' رجس'' سے پاك و پاكيزہ فرمايا اور ايسا پاك فرمايا جس طرح پاكيزہ ركھنے كا حق ہے _ قرآن حكيم كى يہ آيت مباركہ آپ (ع) كى شان ميں نازل ہوئي:
(انما يريد اللہ ليذھب عنكم الرجس اھل البيت و يطہركم تطہيرا) (احزاب _33)
اے اہل بيت بس اللہ كا ارادہ ہے كہ تم سے ہر برائي كو دور ركھے اور اس طرح پاك و پاكيزہ ركھے جس طرح پاك و پاكيزہ ركھنے كا حق ہے_
اسى طرح حضرت على (ع) كى ذات و الا صفا ت بھى اس بات سے انتہائي بالاتر اور ارفع و اعلى تھى _كيونكہ آپ (ع) كى شان ميں بھى آيہ تطہيرنازل ہوئي_ اسى طرح قرآن پاك ميں آپ (ع) كى شان ميں نازل ہونے والى ديگر آيات بھى ہيںجو آپ (ع) كى سيرت كے بعض پہلوؤںكو واضح كرتى ہيں_
2 _ حضرت على عليہ الصلوة والسلام نے گويا پہلے ہى خبردار كرديا تھا كہ كينہ پرورلوگ آپ(ع) پر جھوٹ
203
باندھيں گے اور تہمتيں لگائيں گے_اسى لئے آپ(ع) نے پہلے ہى فرما ديا تھا كہ ''اللہ كى قسم ميں اس ( حضرت فاطمہ (ع) ) كے آخرى دم تك نہ تو كبھى اس پر غضبناك ہوا اور نہ ہى اسے كسى كام پر مجبور كيا اور نہ فاطمہ (ع) نے مجھے كبھى غضبناك كيا اور نہ ہى كبھى ميرى نافرمانى كي_ ميںجب بھى فاطمہ (ع) كى طرف ديكھتا تھا ميرے سارے دكھ درد دور ہوجاتے تھے''_(1)
3_اپنى بيوى پر غصہ ہونے كى صورت ميں اپنے سر پر مٹى ڈالنا حضرت اميرالمؤمنين(ع) جيسے كسى عاقل، حكيم اور دانا انسان سے بہت بعيد ہے كيونكہ يہ عمل تو بچوں كى كھيل كود سے زيادہ شباہت ركھتاہے _
4_ اميرالمومنين (ع) وصى خاتم المرسلين كى ذات گرامى جو جنت و جہنم كو تقسيم كرنے والى ہے وہ كبھى بھى اللہ اور اسكے حبيب (ص) كو اذيت نہيں دے سكتى كيونكہ جو كوئي اللہ اور اس كے نبى (ص) كو اذيت دے يقيناً اس كى جزا جنت نہيں ہے اورادھر سے آنحضرت (ص) كا ارشاد پاك ہے كہ جس نے فاطمہ (ع) كو اذيت دى اس نے مجھے اذيت دى اور جس كسى نے فاطمہ (ع) كو غضبناك كيا اس نے مجھے غضبناك كيا (2)_ نيز فرمايا كہ خدا بھى فاطمہ (ع) كے غصہ پر غضبناك اور اس كے راضى ہونے پر خوش ہوتا ہے (3)_
5_ حضرت على (ع) كا پيغمبر (ص) سے خفا ہونے اور آپ (ص) كو برا بھلا كہنے كا كوئي امكان ہى نہيںكيونكہ آپ (ع) جانتے
---------------------------------------------------------
1)مناقب الخوارزمى ص 256، كشف الغمة ج/ 1 ص 363، البحار ج/43 ص 134_
2)البخارى ط مشكول ج/5 ص 36، بحارالانوار ، ج 28، ص 76; احقاق الحق ، ج 10 ، ص 190; حلية الاولياء ، ج 2 ، ص 40 ; نيابيع المودة ص 171و 173 و360;السنن الكبرى ، ج 10 ، ص 64و 201; مستدرك حاكم ج 3 ، ص 159 ; نيز اسى كے حاشيہ پر اسى كا خلاصہ ، اعلام النساء ، ج 4 ، ص 125; كنزالعمال ، ج 13 ، ص 93; الاصابہ، : 4، ص 378; تہذيب التہذيب ، ج 12، ص 441، نيز ابوجہل كى بيٹى سے حضرت علي(ع) كى خواستگارى والے جعلى افسانے ميں بھى بعض ديگر منابع ذكر ہوئے ہيں اس لئے ملاحظہ ہو : ذخائر العقبى ، ص 37، 38; كفاية الطالب ، ص 365 ; مقتل الحسين خوارزمى ، ج 1 ، ص 53 ; نظم درر السمطين ، ص 176، السيرة النبويہ دحلان (برحاشيہ حلبيہ) ، ج 2 ، ص 10; الخصائص نسائي ، ص 120، صفة الصفوة ، ج 2 ، ص 13، الجامع الصحيح ، ج 5 ، ص 698 ; مسند احمد، ج 4 ، ص 328; البدايہ و النہايہ ، ج 6 ، ص 333 ; نيز الصواعق المحرقہ ، ص 188_
3) ملاحظہ ہو : فرائد السمطين ، ج 2 ، ص 46 ، مجمع الزوائد ، ج 9 ، ص 203 ; مقتل الحسين خوارزمى ، ج 1 ، ص 52; كفايہ الطالب ، ص 364، ذخائر العقبى ، ص 39 ، اسدالغابہ ، ج 5 ، ص 522، تہذيب التہذيب ، ج 12، ص 442، ينابيع المودة ، ص 173، ص 174، ص 179، ص 198; نظم درر السمطين ، ص 177 ; مستدرك حاكم، ج 3، ص 154، 158; تلخيص مستدرك ذہبى (برحاشيئہ مستدرك ) ، كنز العمال ، ج 13، ص 96و ج 6 ، ص 219و ج 7 ، ص 111; الغدير ، ج 7 ، ص 231تا 236; احقاق الحق ، ج 10، ص 116، السنن الكبرى ، ج 7 ، ص 64، الصواعق المحرقہ، ص 186و سير اعلام النبلاء ، ج 2 ، ص 132_
204
تھے كہ آنحضرت(ص) كا كوئي عمل بھى ان كى ذات اقدس كى طرف سے نہيں بلكہ سب اللہ تعالى كى جانب سے ہوتاہے_ آپ (ع) كى سيرت تو يہ تھى كہ اگر ايك حرف بھى پيامبراسلام (ص) كى زبان مبارك سے نكلتا تو آپ (ع) اس پر مو بہ مو عمل فرماتے_حتى كہ جنگ خيبر كے موقع پر جب آنحضرت (ص) نے حكم فرمايا كہ خيبر كى فتح كے لئے جاؤ اور پيچھے مڑكر نہ ديكھنا تو آپ (ع) اللہ تبارك و تعالى كى ذات اقدس كے توكل پر چلے پھر توقف كيا اور اپنا رخ نہ موڑتے ہوئے عرض كيا : '' يا رسول(ص) اللہ ...''(1)_
6_ حضرت فاطمہ (ع) نے (بوقت شہادت) حضرت على (ع) سے كہا: '' آپ(ع) نے كبھى بھى مجھے جھوٹا اور خائن نہيں پايا اور مشتركہ زندگى كى ابتدا سے اب تك ميں نے كبھى بھى آپ(ع) كى مخالفت نہيں كى '' _ اور حضرت علي(ع) نے بھى ان كى اس بات كى تصديق كى (2)
7_ اس پر مزيد يہ كہ آنحضرت(ص) جب بھى جنگ بدر اور احد و غيرہ جيسے مختلف امور ميں اپنے صحابيوں سے كوئي مشورہ ليتے تو ان كے جى ميں جو بھى آتا كہہ ديتے ليكن حضرت على (ع) نے آپ(ص) كے حضور كبھى بھى اپنے خيالات كا اظہار نہيں كيا_ وہ تو رسول(ص) خدا سے پہلے يا ان كى اجازت كے بغير كوئي كام كرتے ہى نہيں تھے _ صرف ايك بار ام المؤمنين حضرت ماريہ پر كچھ افراد كے ناروا تہمت (3) كے معاملے ميں حضرت (ع) نے آنحضرت(ص) كو بى بى عائشہ كو طلاق دينے كا مشورہ ديا تا كہ اس سے شايد وہ ڈر ، سہم اور پچھتا كر اپنے خيالوں اور كرتوتوں سے باز آجائے اور رسول(ص) خدا اور آپ(ص) كى ازدواج كو اذيت دينے سے دستبردار ہوجائے_
آپ (ع) كيوں غضبناك ہوتے اوربرا بھلا كہتے ؟ كيا آپ(ع) ہجرت سے قبل آنحضرت(ص) كے برادر نہ تھے؟ اور اس كے بعد كے حالات جيسے بھى رہے آپ (ع) كى يہ اخوت قائم و دائم رہي_
---------------------------------------------------------
1)انساب الاشراف با تحقيق محمودى ، ج 2 ، ص 93; زندگانى امام على بن ابى طالب (ع) از تاريخ ابن عساكر با تحقيق محمودى ، ج 1 ، ص 159 ، صحيح ابن حبان زندگانى حضرت على (ع) (قپو سراى لائبريرى استانبول ميں خطى نسخہ ) ، فضائل الخمسة من الصحاح الستہ ، ج 1 ، ص 200و الغدير ، ج 10 ، ص 202_
2) روضة الواعظين، ص 151_
3) ام المؤمنين حضرت ماريہ قبطيہ چونكہ آنحضرت(ص) سے صاحب اولاد ہوئي تھيں جبكہ بى بى عائشہ اور حفصہ بانجھ ہونے كى وجہ سے صاحب اولاد نہيں ہو سكتى تھيں اس لئے حسد كے مارے انہوں نے بى بى ماريہ پر بدكارى كا بہت بڑا اور گھٹيا الزام لگايا جسے سن كر آنحضرت(ص) كوبہت صدمہ ہوا اور آپ(ص) نے ايك انتہائي فيصلہ كيا_ يہاں پر حضرت على (ع) نے آپ(ص) كو كچھ مشورے ديئےس پر آنحضرت(ص) نے تمام معاملہ حضرت على (ع) كے سپرد كرديا اور انہوں نے اپنى درايت سے يہ گتھى سلجھادي_
205
بہر حال ہم ہرگز اللہ كے نبى (ص) اور قرآن كريم كو نہ جھٹلائيں گے بلكہ ان كى تصديق كريں گے _ ہم ان لوگوںكے باطل خيالات كو كينہ توزى پر مبنى سمجھتے ہيں جوہميشہ حضرت على (ع) اور آپ (ع) كے اہل بيت (صلوات اللہ و سلامہ عليھم اجمعين ) كے خلاف رہے _
يہ جعل سازياں كيوں؟
ان باطل نظريات كا سبب شايد يہ تھا كہ لوگ يہ ظاہر كرنا چاہتے تھے كہ رسول خدا(ص) كے گھر كى طرح حضرت على (ع) كا گھر بھى جھگڑوںاور اختلافات كى آماجگاہ تھا_ اوررسول(ص) خدا كے گھر ميں يہ حالات بى بى عائشہ اور حفصہ جيسى آپ (ص) كى بعض ازواج نے پيدا كئے تھے_اس بات سے وہ غالباً يہ كہنا چاہتے ہيں كہ يہ حالا ت تو فطرى ،معمولى ، مطابق معمول اور ازدواجى زندگى كا حصہ ہيں_ لہذا اس سے كسى كى شخصيت كم نہيں ہوتى اورنہ ہى يہ بات كسى طرح كے اعتراض اور ملامت كا باعث بنتى ہے_ جيسے آنحضرت(ص) كى ازواج جھگڑالو تھيں ويسى (نعوذ باللہ) آپ(ص) كى بيٹى بھى تھى _ جس طرح عائشہ رسول(ص) خدا كو ناراض كرتى تھى اسى طرح حضرت فاطمہ(ع) بھى حضرت علي(ع) كو ناراض كيا كرتى تھيں، پس حساب برابر_
دوسرى جہت يہ ہے كہ آپ (ص) كا يہ قول كہ جس كسى نے فاطمہ (ع) كو غضبناك كيا پس اس نے مجھے غضبناك كيا ، يہ قول جس طرح فلاں فلاں پر صادق آتا ہے اسى طرح يہ قول خود على (ع) پر بھى صادق آتا ہے_ يعنى جس طرح جناب ابوبكر اور عمر نے حضرت فاطمہ(ع) كو ناراض اور غضبناك كيا اسى طرح حضرت على (ع) نے بھى انہيں غضبناك كياپس يہ امر كسى دوسرے پر اعتراض كا باعث نہيں بنتا؟_بلكہ ان تہمتوں سے وہ حضرت علي(ع) كو ايك ايسے شخص كى صورت ميں دكھا نا چاہتے ہيں كہ وہ حضرت فاطمہ(ع) زہرا كو ناپسند تھے اور بى بى كى ان سے شادى بى بى كى مرضى كے بغير ہوئي تھى ، اور آنحضرت (ص) نے ان كے (نعوذ باللہ ) شر سے بچنے كے لئے ان كار شتہ منظور كيا تھا _ اور ان باتوں سے وہ حضرت علي(ع) سے آنحضرت(ص) كى دامادى كى فضيلت اور شرف سلب كرنا چاہتے ہيں _
206
اس كنيت كى اہميت :
حضرت ابن عباس نے حضرت على (ع) كى ابو تراب كى كنيت كى وجہ تسميہ يہ بتائي ہے كہ آنحضرت(ص) كے بعد حضرت على (ع) ہى اس زمين كے مالك اور زمين والوں پر خدا كى حجت ہيں _ ان كے ذريعہ سے زمين كى بقاء اورٹھہراؤ ہے _ ان كے بقول : '' ميں نے رسول(ص) كريم سے خود سنا ہے كہ قيامت كے دن جب كا فريہ ديكھے گا كہ خدا كے نزديك شيعيان على (ع) كا كتنا مقام ، مرتبہ ، ثواب اور قدر و منزلت ہے تو حسرت كے ساتھ كہے گا كہ اے كاش ميں بھى تراب ہوتا يعنى اے كاش ميں بھى على (ع) كا شيعہ ہوتا'' _ اس كے علاوہ خود امام على (ع)جو اس كنيت پر فخر كيا كرتے تھے ہرگز دنيا كى خاطر اور دنيا كے راستے ميں نہ جيئے اور نہ ہى دنيا آپ (ع) كاہدف تھا_ البتہ ايك عظيم ترين اور افضل ترين ہدف كے حصول كى خاطر دنيا آپ (ع) كى نظر ميں ايك ذريعہ اور وسيلہ تھى ، جب آپ (ص) نے ديكھا كہ آپ (ع) اپنے اہداف و نظريات پر سختى سے قائم ہيں تو پس اب آپ (ع) يقينا مشكلات پر قابو پاليں گے اور ان كے خلاف سيسہ پلائي ہوئي ديوار ثابت ہوں گے_ ايسے حالات و كيفيات ميں آنحضرت(ص) كى ذات اقدس كا حضرت على (ع) كو ابوتراب كہنا گويا اس بات كا اعلان تھا كہ على (ع) ہميشہ اپنے نظريات و اہداف پر انتہائي سختى سے قائم رہے گا اور ان كى حفاظت كرے گا _يہ دنيا كو اس كے مناسب مقام پر ركھے گا ، دنيا كى رنگينياں اور حسن و زيبائي اسكو كبھى دھوكانہ دے سكيں گى _ دنيا اسكے نظريات و اہداف اور اعمال ميں كبھى تناقض پيدا نہ كرسكے گي_اور نہ ہى وہ اپنے دعوے اور عمل ميں كبھى تضاد كا شكار ہوں گے_ يہى سبب ہے كہ حضرت على (ع) كو يہ كنيت انتہائي پسند تھي_
ليكن بنى اميہ جو حضرت على (ع) كو اس كنيت كى وجہ سے تنقيد كا نشانہ بناتے تھے ،ان كے نظريات و اعمال بھى ايك دوسرے سے منسجم تھے كيونكہ ان كى اقدار، خواہشات اور اہداف كا محور دنياتھي_ يہ لوگ انہى چيزوں كے ہونے يا نہ ہونے كے بنياد پر شخصيات اور نظريات كى اہميت كا اندازہ لگاتے ،اسى بنياد پر ان كا احترام يا تحقير كرتے _ حضرت على (ع) چونكہ ابوتراب تھے ، انكى نظر ميں دنيا كى كوئي اہميت نہ تھى اس دنيا سے صرف اتنا ليتے جس سے ان كى زندگى قائم رہ سكے او ر اپنے اعلى اہداف تك رسائي حاصل كرسكيںاس وجہ سے بنى اميہ والے ان
207
ميں ايسے اہم عنصر كو مفقود پاتے تھے جو ان كى نظر ميں عزت و عظمت اور شرافت و كرامت كا باعث تھا_ اسى سبب سے طبيعى طور پر وہ اس كنيت كا مذاق اڑاتے تھے _كيونكہ يہ عمل ان كے اہداف و خواہشات سے بالكل مطابقت ركھتا تھا ليكن دين ، قرآن ، عقل سليم اور سالم فطرت كے بالكل مخالف تھا_
2_ سرايا كا مقصد؟
بعض سرايا كا مقصد قريش كى نقل و حركت پر نظر ركھنا تھا_ اسى طرح بعض سرايا كا ہدف مدينہ والوں كے ريوڑ غارت كرنے والے دشمن كا پيچھا كرنا تھا_جيسے كرز بن جابر كا تعاقب كيا گيا _ ہم يہ بھى جان چكے ہيں كہ ان سرايا ميں مسلمانوں كو جنگ كا سامنا نہ تھا اس سے مسلمانوں كے حوصلے بلند ہوگئے اورخود پر اعتماد بحال ہوگيا _ ان سرايا كے نتيجے ميں مسلمانوں ميں اتنى جرات پيدا ہوگئي كہ وہ تعداد اور وسائل كى كمى كے باوجود اسلحہ اور كيل كانٹوں سے ليس قريش كے ہزار بڑے بہادروں كا مقابلہ كرسكيں _اور يہ بات ان كے لئے كوئي خوفناك و ہولناك مسئلہ نہ رہے گر چہ ان كا ظاہرى مقصد قريش كے قافلوں كے آگے ركاوٹ كھڑى كرنا تھا_
ليكن يہ تمام باتيں ہمارے لئے قانع كنندہ نہيں ہيں _ ہم ان واقعات كے اغراض و مقاصد جاننے كے لئے ان واقعات كانئے سرے سے جائزہ لينا چاہتے ہيں _ اس بناپر ہم ان كا مندرجہ ذيل دو عناوين سے جائزہ ليتے ہيں_
اول : صلح اور باہمى عہدو پيمان :
ان سرايا كا نتيجہ يہ نكلا كہ مدينہ ميں رہنے والے قبيلوں كو مسلمانوں كى طاقت ، ان كے جوش و جذبے اور قريش جيسے مضبوط دشمن سے مقابلے كے پختہ ارادے كا ادراك ہواجس كے نتيجہ ميں مسلمانوں اور ان قبائل كے در ميان صلح كے معاہدے اور دشمن كے مقابلے ميں ايك دوسرے كى مدد كے باہمى عہد و پيمان ہوئے _ اس كے نتيجے ميں طبيعى طور پر مدينہ كے مضافات ميں رہنے والے قبيلوں كے دلوں ميں بھى مسلمانوں كا اتنا
208
رعب بيٹھ جانا تھا كہ انہيںمدينہ پر بذات خود يا اسلام دشمن طاقتوں كے ساتھ مل كر حملہ كرنے كے لئے كئي كئي بار غور سے سوچنا پڑتا _ كيونكہ وہ عملى طور پر يہ ديكھ رہے تھے كہ يہاں ايك ايسى زبردست طاقت موجود ہے جس كے ساتھ ايسے تعلقات بر قرار ركھنا ضرورى ہيں جس سے مستقبل ميں ان كے علاقائي مفادات كو كوئي نقصان نہ پہنچے _
ان حالات كى روشنى ميں مدينے ميں امن و استحكام كا يك گونہ احساس پيدا ہوا _ اسى سبب سے مسلمانوں ميں قريش كى طرف سے ہونے والى سازشوں كازيادہ آزادى كے ساتھ ڈٹ كر مقابلہ كرنے كا حوصلہ پيدا ہوا _ يہى چيزيں جنگ بدر اور بعد كے حالات ميں نظر آتى ہيں_
يہ معاہدے اور عہد و پيمان قريش كے لئے بہت بڑے نفسياتى صدمے اور پريشانيوں كا باعث بلكہ ان كے منہ پر انتہائي زوردار طمانچے تھے_ كيونكہ وہ يہ ديكھ رہے تھے كہ مسلمان اب ايك ايسى طاقت بن چكے ہيں كہ مقابل كے دلوں ميں رعب اور دہشت طارى كرديتے ہيں اور دوسرے قبيلے خاص كر مكّہ كے تجارتى رستے ميں بسنے والے ايسے قبيلے بھى مسلمانوں كے ساتھ دفاعى معاہدے كر رہے ہيں جنہيں قريشى مشكلات اور خطرات كے وقت اپنا حامى اور مددگار سمجھتے تھے _ اس پر مزيد يہ كہ قريشى پھر مدينہ پر دباؤ ڈالنے اور مدينہ والوں كو مجبور كرنے كے لئے مدينہ كے قريب رہنے والے ان قبائل سے كوئي معاہدہ نہيں كرسكے _
دوم: قريش كى پريشاني
ان سرايا كا مقصد قريش كا اقتصادى اور نفسياتى محاصرہ تھا_ مراد يہ ہے كہ جب تك قريش ان مسلمانوں كو بے وطن كرتے رہيںگے ، انہيں تكليف اور دكھ ديتے رہيں گے ، ان كے اموال كو چھينتے رہيں گے اور بعض كو قتل كرتے رہيں گے تو مسلمان بھى ان كو آزادانہ طور پر نہيں گھومنے ديں گے _ گذشتہ معاہدے ميں ہم نے ديكھا تھا كہ آنحضرت (ص) نے مشركوں پر يہ شرط عائد كى تھى كہ وہ دوسرے مشركين كے ساتھ اپنے تعلقات ختم كرديں _ يہاں پر قابل ملاحظہ بات يہ بھى ہے كہ ان سرايا كا مقصد قريش كو قتل كرنا يا ان سے جنگ كرنا نہ تھا_
209
يہى وجہ ہے كہ حضرت حمزہ نے جہنى كى وساطت اور ثالثى كو قبول كرليا تھا_ اسى طرح عبيدہ بن الحارث نے بھى اس قافلے كا پيچھا نہ كيا جو اس سے آگے نكل گيا تھا نيز قريش كے تين اور قافلے بھى بڑے آسانى اور سلامتى سے گزرگئے تھے اور مسلمان مناسب وقت پر ان تك نہ پہنچ سكے تھے_ يہاں تك كہ جنگ بدر كے موقع پر بھى مسلمان قريش كے قافلے كوپہنچ نہيں پائے تھے ليكن اس كے باوجود قريش نے ہى مسلمانوں سے جنگ كرنے كى ٹھان لى _ انشاء اللہ اس پر بعد ميں گفتگو كريں گے _
پس ان سرايا كا مقصد قريش كو يہ باور كرانا تھا كہ اس علاقے ميں قريش اب آزادا نہ دندناتے نہيں پھر سكتے اور نہ اب ان كا قانون چلے گا اور آج كے بعد سے شام كى طرف جانے والے تجارتى قافلوں كى امنيت بھى خطرے ميں ہے اور جب تك وہ عقل اور منطق سے كام نہيں ليتے، حكمت كى سيدھى راہ اختيار نہيں كرتے نيز ظلم و تكبر اور جور وستم كار استہ ترك نہيں كرديتے تب تك ان كے ساتھ ايسا ہوتا رہے گا _ اور اب انہيں اپنا مكمل محاسبہ كرنا ہوگا تا كہ انہيں يہ يقين ہوجائے كہ اب ان كے لئے طاقت كے ساتھ اس موقف كى سركوبى نہايت مشكل ہوگئي ہے اور اب جلد يا بدير ان كے لئے حقيقت كے اعتراف كرنے اور حقيقت كے سامنے سر تسليم خم كرنے كے علاوہ اور كوئي چارہ نہيں رہے گا _ ور نہ دوسرى صورت ميں وہ خدا اور اس كے رسول (ص) كو دعوت جنگ ديں گے جس كے نتيجے ميں ان كا غرور اور تكبر سب كچھ خاك ميں مل جائے گا _ اور ہوا بھى يہى _
بہر حال مسلمانوں نے قريش كے تجارتى قافلوں كو چھيڑنے پر اكتفا كيا اور قافلوں كو لوٹنے كى كوشش نہيں كى صرف اس لئے كہ قريش كے لئے سامنے كا ايك دروازہ كھلا ركھيں اور انہيں اس معاملے ميں سوچ بچار كى مہلت ديں _ و گرنہ وہ قافلوں كو لوٹنے كا حق بھى ركھتے تھے _ كيونكہ يہ قريش سے عادلانہ اور منصفانہ بدلہ ہوتا جنہوں نے دشمنى كى ابتدا كى تھى اور ظلم اور زيادتى كى حديں توڑدى تھيں _ بہر حال اگر مسلمانوں كو يہ لوٹنا مہنگانہ پڑتاتو اپنے حق كے حصول كى جد و جہد ميں كوئي اور ركاوٹ نہيں تھى _ البتہ بعض مؤرخين كا كہنا ہے كہ ان سرايا كا مقصد جنگ نہيں بلكہ كچھ اور تھا كيونكہ ان سرايا ميں بھيجے جانے والے مسلمان جنگجوؤں كى تعداد كم
210
ہوتى تھي_ ليكن ہم سمجھتے ہيں كہ سرايا كے مقاصد كو سمجھنے كے لئے يہ دليل كافى اور قانع كرنے والى نہيں ہے كيونكہ تجارتى قافلوں كو روكنے ياانہيں لوٹنے كے لئے كم افراد ہى كافى ہوتے ہيں اور اتنى تعداد ميں جنگجوؤں كے شريك ہونے كى كوئي ضرورت نہيں ہوتى _ہم يہاں صرف اس بات كا ذكر كريں گے كہ مسلمانوں كے ان قافلوں پر گھات لگانے اور چھيڑ چھاڑ كے بعد قريش نے جو سب سے بڑا تجارتى قافلہ بھيجا يہ وہى تھا جس كے نتيجے ميں جنگ بدر واقع ہوئي (حالانكہ چھيڑچھاڑ طبعى طور پر محافظين كى تعدا بڑھانے كا باعث ہوئي تھى ) اس قافلے كى قيادت ابوسفيان كے پاس تھي_ جبكہ اس قافلے كے ساتھ صرف بيس (20) سے كچھ زيادہ افراد تھے حالانكہ يہ قافلے دوہزار سے بھى زيادہ اونٹوں پر مشتمل تھا اور اس ميں قريش كا تجارتى سامان بھى موجود تھا _
3_سپاہيوں كو آنحضرت (ص) كى نصيحتيں
سرايا كے لئے جانے والے سپاہيوں كو آنحضرت (ص) كى گذشتہ نصيحتوں كا مطلب يہ ہے كہ آنحضرت (ص) كا مقصد صر ف زمين كو آباد كرنا اور زمين سے فتنہ و فساد كا خاتمہ تھا ، منحرفوں اور ظالموں سے آپ (ص) كے جہاد كى نوعيت بھى ايسى ہى تھى بالفاظ ديگر يہ عمل كڑوى دوا كى طرح تھا_ پس جو عمل بھى اس ہدف سے دور ہوتاآنحضرت (ص) كى نظر ميں انتہائي قابل نفرت اور قابل مذمت تھا _چاہے يہ عمل اصحاب نے يا كسى قريبى نے ہى انجام ديا ہو_ اس سلسلے ميں آپ (ص) كى نصيحتوں كے گہرے مطالعہ كى ضرورت ہے تا كہ صاحب انصاف با ضمير اور زندہ دل انسان بہت سے اہم حقائق كا ادراك كر كے اپنے گفتار اور كردار نيز نظريات اور اعمال ميںان سے استفادہ كرے اور اس سے زندگى كا بہترين راستہ منتخب كرے _ حضرت على عليہ السلام بھى اپنے فوجيوں كو نصيحت كرنے كے معاملے ميں آنحضرت (ص) كے نقش قدم پر چلے ہيں _ اس بارے ميں مندرجہ ذيل منابع كا مطالعہ فرمائيں (1) _
---------------------------------------------------------
1) تاريخ يعقوبى ج 2 ص 182 و 183، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 1 ص 23 الفتوح ابن اكثم ج 3 ص 45 و 135 و انساب الاشراف با تحقيق محمودى ج 2 ص 262 و ص 240و ص 302و ص 331 و ص 479_
211
4_ صرف مہاجرين ہى كيوں ؟
يہ بات قابل غور ہے كہ آنحضرت (ص) جنگ بدر سے پہلے كے غزوات اور سرايا ميں صرف مہاجرين كو ہى بھيجتے تھے_اس لئے يہاںيہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ نبى اسلام (ص) ايسا كيوں كرتے تھے؟اور اس امر ميں كيا حكمت پوشيدہ تھى ؟
اس كا ايك جواب يہ ديا جاتاہے آپ (ص) انصار كو سمجھانا چاہتے تھے كہ آ پ (ص) اپنے مقاصد كے حصول پر مصمم ہيں چاہے انصار مدد نہ بھى كريں اور انصار كہيں يہ تصور نہ كريں كہ آپ (ص) ،مہاجرين كا بچاؤ كر كے ہميں اپنے اہداف كا ذريعہ بنانا چاہتے ہيں_اوراس گمان سے انصاركہيں مظلوميت اور كمزورى كا احساس نہ كريں_
ہمارے خيال ميں بات اس سے كہيں زيادہ گہرى ہے لہذا ہم مندرجہ ذيل عناوين سے اس كا جائزہ ليتے ہيں_
الف: انصار كا گمان
ايسا معلوم ہوتا ہے كہ پہلے انصار كا خيال تھاكہ نبى كريم (ص) كى مدد و نصرت كا فريضہ فقط اپنے علاقے تك ہى محدود ہے_ اگر اچانك كوئي معاملہ پيش آگيا تو وہ اس سے آپ (ص) كى حفاظت اسى طرح كريںگے جيسے وہ اپنى حفاظت كرتے ہيں ليكن اگر آپ (ص) خود حملہ فرماتے ہيں يا كسى اور علاقے ميں جنگ ہوتى ہے تو انصار آپ (ص) كى مدد نہيں كريں گے_ اس بات پر غالباً بيعت عقبہ كے موقع پراتفاق ہوا تھا_ اس پر مؤرخين كى يہ بات بھى دليل ہے جو انھوں نے جنگ بدر كے حالات ميں نہايت واضح طور پر بيان كى ہے كہ آنحضرت(ص) كو اس بات كا انديشہ تھا كہ انصار آپ(ص) كى مددنہيں كريں گے مگر يہ كہ مدينے ميںآپ(ص) پر اچانك كوئي افتاد آن پڑتى _ اس لئے انصار كا آ پ(ص) كے ساتھ اس جنگ پر جانا ضرورى نہيں تھا_ اس كى تفصيلات غزوہ بدر كے حالات ميں آئيں گي_
انشاء اللہ تعالى
212
باء : جنگ اور امن كا مسئلہ
اہل مدينہ كے لئے جنگ كوئي آسان مسئلہ نہ تھا_كيونكہ وہ يہ سمجھ رہے تھے كہ انہيں ہى جنگ كى نہايت اہم ذمہ داريوں كو قبول كرنا ہوگا_ اس راہ ميں اپنى جان اور مال كى قربانى دينى ہوگى _ اور انہيں ہى اپنے وسيع معاشرتي، اقتصادى ، سياسى اور ديگر تعلقات پر اس كے اثرات و نتائج كا سامنا كرنا ہوگا_ عربوں كے نزديك يہ مسئلہ انتہائي اہم اورخطير تھا كيونكہ يہ مسئلہ خون، انتقام، زندگي، موت، خوشبختى اور بدبختى كا مسئلہ تھا_
جب جنگ كا مطلب ہى يہى كچھ ہے تو پھر ان لوگوں ميں اعلى سطح كے صبر، برداشت اور تحمل كے ہو نے كے علاوہ ان لوگوں كا اپنى مرضى سے ان جنگوں ميں حصہ لينا نہايت ضرورى تھا_ اگر ( آغاز ہى ميں) ان پر جنگ كا فريضہ عائد كرديا جاتا تو ممكن تھا كہ اس كے نتائج بالكل برعكس ہوتے يا شايد انتہائي خطرناك ہوتے جن كے نتيجے ميں اسلام اور مسلمانوں كے مستقبل پر بہت زيادہ مشكلات اور مصيبتيںنازل ہوتيں جن كامداوا بھى مشكل ہوتا_ ان مشكلات سے اپنے عظيم اور اعلى ہدف كى كاميابى كے ساتھ اپنى مرضى اور عزت سے نكلنا ممكن نہ ہوتا _
يہى سبب ہے كہ رسول اكرم(ص) نے جنگ بدر اور احد كے سلسلے ميں اپنے اصحاب سے مشاورت فرمائي_ اس بات پر ہم انشاء اللہ بعد ميں گفتگوكريں گے_
ج :انصار كے مخصوص حالات
انصار اپنے علاقے ميں (اپنے رسوم و رواج اور طبعى سماجى تعلقات ميں گھرے)امن و امان كى زندگى بسر كررہے تھے_ يہ لوگ اپنے ماحول سے بہت زيادہ مانوس تھے_ اپنے معاشى معاملات اور زراعت كے مسائل ميں مصروف تھے اور اپنى زمينوں سے استفادہ كررہے تھے_ يہ لوگ اپنى خوشحال زندگى كے معاملات ميں مگن تھے اور يہى چيز اس بات كا باعث تھى كہ وہ اپنى زندگى سے پيار كريں _ ان حالات ميںكسى ايسے بہت ہى طاقتور عامل يا سبب كى ضرورت تھى جو انہيں ان حالات سے نكال كرحال اور مستقبل ميں كٹھن مشكلات،
213
اور تكاليف ميں گھرے نئے حالات ميں لے جاتا_
اسى طرح كل كلاںانصار كو قريش سے جنگ بھى كرنا ہوگي_اور قريش ايك ايسا قبيلہ تھاجو عربوں ميںبہت بڑاخطرناك ، با اثر اور بانفوذ بلكہ محترم قبيلہ تھا_ پس انصار كے لئے اہل مكہ كے ساتھ اپنے تعلقات كو خطرے ميں ڈالنے والے كسى بھى كام كے اقدام سے پہلے اپنے آپ كو ذہنى ، عملى اور سماجى طور پر اس نئے معاشرے اور نئے حالات سے ہم آہنگ كرنا ضرورى تھا_خصوصاً جبكہ مكہ والوں سے دشمنى مول لينے سے تمام عربوں كى طرف سے دشمنى كا خطرہ لاحق تھا _خاص طور پر ايسے حالات ميں جبكہ دوسروں كى نظر ميں اہل مدينہ قصور واربھى ہوں_ اور ايسا ہوا بھى ہے كيونكہ تاريخى دستاويزات ميں ابى بن كعب كى يہ بات مذكور ہے كہ جب نبى كريم(ص) اور ان كے اصحاب نے مدينہ ہجرت فرمائي اور انصار نے انہيں پناہ دى توسارا عرب ان كا دشمن بن گيااسكے بعد اہل مدينہ راتوں كو اسلحہ لے كر سوتے اور دن كو بھى اسلحہ سے ليس ہوتے تھے (1) جس پر خدا نے دشمنوں كى سازشوں كا توڑ اور اپنا دفاع كرنے كے لئے انہيں جنگ اور جہاد كى اجازت دى كيونكہ اللہ تعالى كا ارشاد ہے (اذن للذين يقاتلون بانھم ظلمواوان اللہ على نصرہم قدير)(2)
ليكن دوسرى طرف مہاجرين كے حالات اس لحاظ سے ان سے بالكل مختلف تھے_ ان كى قريش سے جنگ اور نبرد آزمائي سہل اور آسان تھي_ ان كى قريش كے خلاف معركہ آرائي كى وجوہات واضح طور پربالكل ذاتى اور معاشرتى نوعيت كى تھيں_ كيونكہ سب كو معلوم تھا كہ قريش ہى وہ ظالم قوت تھى جس نے ان مہاجرين كى ا ہانت كى ، ان كواذيتوں سے دوچار كيا، ان كے گھر وں سے انہيں نكال باہر كيااور ان كے اموال چھين لئے تھے _ اور يہ دھتكارے ہوئے، مغلوب مہاجرين، قريش كے ظلم كومحسوس كر چكے تھے اور يہ جانتے تھے كہ قريش اخلاقيات كے حدوں كو پھلانگ چكے ہيں، معاشرتى رسم و رواج كى بيخ كنى كرچكے ہيں اور عقلى ، دينى اور فطرى احكام كى بھى پرواہ نہيں كرتے ہيں_ پس ايسے مسلمان مہاجرين كا غصہ اور دفاع
---------------------------------------------------------
1)منتخب كنزالعمال ج/1ص 465دبر حاشيہ مسند احمد) از دلائل النبوة بيہقى ، ابن مردويہ ،ابن منذر،كنز العمال ج/1 ص295 از مذكورہ افراد و از ،طبرانى ، الحاكم، سعيدبن منصور، اور روح المعانى ج/6 ص 98 نيز ملاحظہ ہو : سيرہ حلبيہ ، ج 2 ، ص 123، بحارالانوار ، ج 19، ص 8، اعلام الورى ، ص 55_
2) حج 6/39_
214
فطرى طور پر انتہائي عظيم اور شديد تھا_ اس وجہ سے قريش كے قافلوں كو تنگ كرناان كے لئے نہايت آسان تھا_ كيونكہ يہ تجارتى قافلے اس لٹے پٹے گروہ كے لئے دشمنيوں كا مجسم نمونہ تھے اس لئے كہ ان تجارتى قافلہ والوں كے پاس جو بھى مال تھا سب ان لٹے پٹے اور شہر بدر كئے گئے لوگوں كامال تھا _ خلاصہ يہ كہ مہاجرين كى ان جنگوں كو زيادتى اور دشمنى كى نگاہ سے نہيں ديكھا جا سكتا بلكہ قريشيوں كے خلاف مہاجرين كى جنگ تو انتہائي عادلانہ اور حقوق كے حصول كے لئے تھى _ كيونكہ ان مہاجرين كے ساتھ قريش كا تو معاملہ ہى ايسا تھا اور مخالفين كے ساتھ ان كا سلوك بھى تو بہت برا تھا_ اور وہ مخالف تھے كون ؟ وہ تو باقى لوگوںكى نسبت ان كے سب سے زيادہ قريبى اور پيارے تھے_ پس يہيں سے اندازہ لگايا جاسكتاہے كہ غيروں كے ساتھ ان كا كيا سلوك ہوگا جن كے ساتھ نہ توان كا كوئي قريبى رابطہ و تعلق تھا اور نہ ہى كوئي رشتہ دارى بنتى تھي_
د: مہاجرين كى نفسياتى كيفيت
گذشتہ عرائض كى روشنى ميں معلوم ہو جاتا ہے كہ انصار كى بہ نسبت مہاجرين كے لئے جہاد نہايت آسان تھا _ كيونكہ يہ دشمنى اور چڑھائي شمار نہيں ہوتى تھى بلكہ دفاع شمار ہوتا تھا _ پس اس صورت ميں اس جہاد كے لئے سياسى اور اجتماعى بلكہ ايسے ذاتى اہداف اور مقاصد بھى پائے جاتے تھے كہ جن كا حصول بھى نہايت ضرورى تھا اور جس كى وجہ سے انصار بھى اسلام كى مضبوط ڈھال اور كاٹ دار تلوار كى حيثيت سے اس جہاد ميں شامل ہو جاتے _پس مہاجرين نے اپنى فعاليت شروع كردى اور اس فعاليت سے ان غريب الوطن مہاجرين كو ايك موقع ملا كہ وہ اس نئے علاقے كى جغرافيائي شناخت قائم كرسكيں ،چاہے محدود پيمانے پر ہى سہى _ كيونكہ نفسيانى طور پر مجروح يہ مہاجرين اس نئے علاقے سے اجنبيت كا شديد احساس ركھتے تھے_ انہيں ايك ايسے تحرك كى ضرورت تھى جس سے ان كى خود اعتمادى دوبارہ لوٹ سكے انہيں معنوى ترقى حاصل ہو اور ان ميں قوت، استقلال اور آزادى كا احساس و شعوراجا گر ہو _ اب ان تحركات سے ان ميں يہ احساس پيدا ہوگيا تھا كہ ، اب وہ قريش كو تنگ كرنے اور ان پردباؤ ڈالنے كى طاقت ركھتے ہيں _ اب ان لوگوں ميں خود اعتمادى
215
كوٹ كوٹ كر بھر دى گئي تھى _
نيز اس علاقے ميں رہنے والے ديگر قبائل كے ساتھ رسول (ع) خدا كے صلح كے معاہدے نے بھى ان كى خود اعتمادى ميں مزيد اضافہ كرديا تھا _ ليكن انصار ان مذكورہ باتوںسے بالكل بے نياز تھے_ پس وہ مہاجرين جن پر آزمائشےوں نے گہرے اثرات چھوڑے ہوں اور صدمات نے ان كے ايمان كو متزلزل كرديا ہو ان كا جہاد كرنا اور اس دين كى راہ ميں قربانى دينا انہيں ( نفسانى كمزورى كے سبب) شيطان كے چنگل اور وسوسوں ميں پھنسنے سے بچا سكتا ہے _ كوئي مسلمان جب خود كو دين اور عقيدے كى راہ ميں مصروف عمل ، اس راہ ميں قربانى ديتا ہوا اور اپنے اس عمل كو پر ثمر اوراس كا نتيجہ خوب سے خوب تر ديكھے گا تو اسے پھر سے ثبات ، استقلال اور اطمينان قلب حاصل ہوگا اور اس كى آزمائشےيں كم سے كمتر ہوں گى جن كا منفى رد عمل بھى ناياب ہوگا اور جس مقصد اور چيز كے لئے اس نے قربانياں دى ہيں اور مشقتيںاٹھائي ہيں اس كے ساتھ اس كا تعلق مزيد پختہ اور مضبوط ہوجائے گا _
عربوں ميںخون كا معاملہ
عرب، خون كبھى معاف نہيں كرتے تھے اور كبھى بھى اس سے چشم پوشى نہيں كرتے تھے '' خون كا بدلہ خون'' كى بنياد پر مختلف قبائل اور اقوام كے آپس ميں سياسى ، اقتصادى ، معاشرتى اور ديگر روابط قائم ہوتے تھے_ بعض اوقات تو خون كے انتقام كا يہ مسئلہ كئي نسلوں تك چلتا تھا_
اب جب ايك ايسے اسلامى معاشرے كى تشكيل كى ضرورت ہے جس ميںہر كوئي ايك دوسرے كا ضامن ہو اور ايك جسم كى طرح سب ايك دوسرے كے ساتھ جڑے ہوئے ہوں تو ايسے معاشرے كے لئے خون اور اس كے بدلے كا دائرہ ممكنہ حد تك تنگ كرنا ضرورى تھا_تاكہ اس كينے كو جڑ سے اكھاڑ پھينكا جائے جو روحوں ميں سرايت كر چكا تھا اور اس كے اثرات آنے والى نسلوں پر كئي دہائيوں بلكہ صديوں تك باقى رہتے تھے _
216
اسى لئے ہم ديكھتے ہيں كہ اگر چہ جنگ بدر ميں انصار كى تعداد مہاجرين كى نسبت چاريا پانچ گنا زيادہ تھى ليكن اكثر مشركين كا قتل حضرت على (ص) اور حمزہ كے ہاتھوں ہو اجو مہاجر اور قريشى تھے _
بالكل اسى لئے نيز مقتولين كى تعداد كم كرنے كے لئے امير المومنين (ع) نے جنگ صفين ميں قبيلہ ازداور قبيلہ خثم كو فرمايا كہ صرف اپنے ہم قبيلہ لوگوں كے ساتھ لڑو ، اسى طرح اہل عراق كے ہر قبيلہ كو فرمايا كہ وہ اہل شام كے اپنے ہم قبيلہ افراد كے مقابل ہو ں مگر يہ كہ اہل شام ميںان كے ہم قبيلہ افراد نہ ہوں يا بہت كم ہوں مثلاً شامى فوج ميں بجيلہ كے بہت كم لوگ تھے تو انہيں قبيلہ لخم كے مقابل قرار ديا (1) يہى معاملہ جنگ جمل ميں ہوا_ جنگ جمل ميں حضرت على (ع) نے جناب عائشہ كى فوج ميں ايك منادى كو يہ اعلان كرنے كے لئے بھيجا (2) كہ مالك اشتر اور جندب بن زہير كى تلوار سے بچو (3) پھر آپ (ع) نے ہى ان كى طرف صلح نامہ بھيج كر انہيں كتاب و سنت كے مطابق صلح كرنے كا كہا ليكن ا نہوں نے آپ(ص) كا قاصد ہى قتل كرديا _ يہ تو ان كوششوں كے علاوہ ہے جو آپ (ع) نے طلحہ ، زبير اور عائشہ كو جنگ سے روكنے كے لئے صرف كر دى تھيں _ اور آپ (ع) نے ہى بى بى عائشہ كى ناقہ كى كونچيں كٹ جانے پر جنگ ختم كرنے كا اعلان كرديا تھا اور مقتولين پر اظہار افسوس بھى كيا تھا _ اسى طرح جنگ صفين ميں بھى آپ (ع) نے معاويہ اور اس كے حليفوں كو اپنى ضد اور ہٹ دھرمى سے باز رہنے اور احكام خداوندى كو قبول كرنے كے لئے راضى كرنے كى كئي ہفتوں پر محيط بہت كوششيں كيں _
يہ سب كچھ اس لئے تھا كہ حضرت على (ع) انسانوں كو قتل نہ كرنا چاہتے تھے بلكہ آپ (ع) كا مقصد فقط امت محمديہ(ص) كى حيات اور زندہ دلى كے لئے كم سے كم نقصان ميں فتنہ و فساد كا قلع قمع اور دين كا نفاذ تھا اس بات كى تاريخى گواہى يوں دى جاسكتى ہے كہ مختار ثقفى نے پہلے ابراہيم بن مالك اشتر سے كہا كہ وہ قبيلہ مضر يا اہل يمن كى طرف جائے ليكن پھر اس نے اپنا نظريہ بدل كر اس كے مضر كى طرف جانے كو ترجيح دى _طبرى نے لكھا ہے''با
---------------------------------------------------------
1)وقعہ صفين نصر بن مزاحم ص 229 ، انساب الاشراف ج/2 ص 305، الفتوح ابن اعثم ج 3 ص 141و ج 2 ص 299 ،1 و تاريخ الامم و الملوك ج 4 ص 9 اور اس ميں آيا ہے كہ حضرت على عليہ السلام نے پہلے شامى قبائل كے متعلق جستجو اور پوچھ گچھ كى پھر مذكورہ فيصلہ كيا_
2)الفتوح لابن اعثم ج/ 2 ص 299_
3)لباب الآداب ص 187 ، الاصابة ج/ 1 ص 248 _الجمل شيخ مفيد ص 149_
217
بصيرت مختارنے سوچا كہ ابراہيم اگر اپنى قوم كى طرف جائے گا تو قتل و غارت بھى كم كرے گا_پس مختار نے يوں كہا كہ جاؤ مضر كى طرف جھاڑوپھيرو '' (1)خلاصہ يہ كہ جب ايك ہى قبيلے كے بعض افراد يا بعض گروہوں كے درميان جنگ ہو تو غالباً خون كم بہتا ہے ( جب كہ دو مختلف قبائل ميں ايسا نہيں ہوتا) كيونكہ دونوںطرف نسلى ہمدردياں اور قبائلى قرابت دارى موجودہوتى ہے جس سے كينہ ختم كرنا آسان ہوتا ہے_ اس لئے كہ خلوص ، پيار اور محبت سے معمور زندگى كى طرف دوبارہ لوٹنے كے لئے حالات مساعد ہوتے ہيں _ ہمارى اس بات كى دليل يہ ہے كہ قريش ايك لمبى مدت تك انصار كے زخم نہ بھولے اور بد لہ لينے كى كوشش ميں انہوں نے نہ ہى كھل كر غم منايا اور نہ ہى كوئي اور كسر چھوڑي_ بلكہ قريش تو (حضرت على (ع) كے انہيں ذليل و خوار كرنے كى وجہ سے )پورے قبيلہ بنى ہاشم كے خلاف اپنے دلوں ميں سخت كينہ ركھتے تھے _ خود رسول صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم بھى ان كينوں كے نيتجے ميں اپنے اہل بيت (ع) پر ہونے والے مظالم كے تصور سے گريہ فرمايا كرتے تھے (2) _
گذشتہ تمام باتيں تو اس بات كے علاوہ ہيں كہ اپنوں كے خلاف اس جہاد ميں ان كى آزمائشے بھى ہو رہى تھى ، كيونكہ اپنے رشتہ داروں كے قتل جيسى كٹھن ذمہ دارى كو قبول كرنے كے لئے پختہ ايمان اور مكمل اخلاص كى ضرورت ہوتى ہے _ خدا نے بنى اسرائيل كو بھى اسى طرح آزمايا تھا بلكہ خود حضرت اسماعيل (ع) كے معاملے ميں بھى حضرت ابراہيم (ع) كا اسى طرح كا امتحان ليا تھا _
قريش اور انصار
انصار كے خلاف قريش كے جذبات اور عزائم كے مطالعے كے سلسلے ميں سب سے پہلے جنگ بدر كے بعد كہے گئے ابوسفيان كے مندرجہ ذيل اشعار كا مطالعہ ضرورى ہے _
---------------------------------------------------------
1)تاريخ طبرى ط الاستقامة ج/4 ص 521_
2) ملاحظہ ہو: امالى شيخ صدوق ص 102، فرائد السمطين ج 2 ص 36، بحار الانوار ج 28 ص 37، ص 38، ص 41، ص 51و ص 81و ج 43 ص 172و ص 156 ، العوالم ص 216، ص 217و ص 218، كشف الغمہ اربلى ج 2 ص 36، انساب الاشراف بلاذرى و مسند ابويعلى ج 1 ص 427، مجمع الزوائد ج 9 ص 118 ، مستدرك حاكم ج 3 ص 139، المطالب العاليہ ج 4 ص 61 طبع دار المعرفہ_
218
آليت لا اقرب النساء و لا
يمس راسى و جلدى الغسل
حتى تبيروا قبائل الاوس والخزرج
ان الفؤاد يشتعل
ميں نے قسم كھالى ہے كہ جب تك اوس و خزرج كو نابودنہيں كردوں گا تب تك ميں عورتوں كے قريب جاؤں گا نہ اپنے جسم كے كسى حصے كو دھوؤں گا_ كيونكہ دل مسلسل آگ ميں جل رہاہے_
اس بات كو انصار بھى اچھى طرح جانتے تھے _اسى لئے جب پيامبر اسلام (ص) كى رحلت ہوئي تو انصار نے بہت گريہ كيا كيونكہ انہيں معلوم نہ تھا كہ لوگ آپ (ص) كے چلے جانے كے بعد ان كے ساتھ كيا كريں گے(1)_
ان لوگوں نے سعد بن عبادہ كى بيعت بھى صرف اور صرف اسى خيال كے تحت كى _اس بات كو حباب بن منذر نے سقيفہ كے دن يوں بيان كيا:'' ہميں تو اس بات كا ڈرہے كہ حكومت تمہارے بعد ان لوگوں كے ہاتھ آجائے گى جن كے آباء و اجداد ، بھائيوں اور بيٹوں كو ہم لوگ قتل كرچكے ہيں ''_(2) حضرت على (ع) نے سعد بن عبادہ كے اپنے لئے بيعت طلب كرنے كى وجوہات بھى بيان كى ہيں _ آپ(ع) نے اپنے اصحاب كو ايك خط ميں لكھا : ''جب سعد نے ديكھا كہ لوگ ابوبكر كى بيعت كرنے لگے ہيں تو اس نے پكار كر كہا كہ لوگو خدا كى قسم جب ميں نے ديكھا كہ تم لوگ حضرت على (ع) سے روگردانى كرچكے ہو تب ميں نے يہ كام كيا _ او رجب تك على (ع) بيعت نہيں كرتے ميں بھى تم سے بيعت نہيں ليتا _ اور علي(ع) كى خاطر ميں كچھ بھى نہيں كروں گا چاہے وہ بيعت كر بھى ليں ''_ نيز اسى خط ميں ہى ايك جگہ تحرير ہے كہ انصار نے كہا : '' پس اگر تم حكومت على (ع) كے سپرد نہيں كرتے تو ہمارا سردار ديگر تمام لوگوں سے زيادہ اس كا حق دار ہے '' (3) اس سے واضح ہوتا ہے كہ انصار نے يہ سب كچھ اس لئے كيا كہ انہيں يہ يقين ہوگيا تھا كہ عرب اور قريش مل كر على (ع) كو اقتدار نہيں دينا چاہتے، جبكہ نبى (ص) كو سخت ،
---------------------------------------------------------
1) مسند احمد ج 5 ص 339 و مجمع الزوائد ج 9 ص 34 از مسند احمد _
2) حياة الصحابہ ج 1 ص 420_
3) معادن الحكمة ص 153 و 154 ، نيز اسى كتاب كے ص 470، تا 473 كا حاشيہ بھى ملاحظہ فرمائيں تو اس ميں كثير منابع تحرير ہيں _
219
غليظ اور( نعوذ باللہ ) توہين آميز الفاظ ميں تحرير لكھنے سے منع كئے جانے اور پھر اسامہ كے لشكر كى روانگى ميں تاخير اور ديگر واقعات و حالات سے ان كا يہ يقين مزيد پختہ ہو گيا تھا _
آنحضرت (ص) كى رحلت كے بعدوہى ہوا جس كاڈر تھا يعنى انصار كو مصيبتوں نے گھير ليا ،ان پر مشكلات كے پہاڑ ٹوٹ پڑے، سارى قوتيں ، ترجيحات اور اہميتيں مہاجرين كو حاصل ہوگئيں_ يہ اس بات كى تائيد و تصديق تھى جو آنحضرت (ص) نے انہيں بتايا تھا كہ ميرے بعد تم لوگوں پر مصيبتيں آئيں گي_ پھر فرمايا تھا كہ تم لوگ صبر كرنا يہاں تك حوض كوثر پر مجھ سے ملاقات كرو_(1)
مندرجہ ذيل امور اسكى دليل ہيں_
1 _ محمد بن مسلمہ نے جب قريش كو قيمتى پوشاكيں پہن كر تكبر كرتے ہوئے ديكھا تو مسجد ميں آكر بلند آواز سے تكبير بلند كى جس پر حضرت عمر نے اسے بلوا يا اور اس سے اس كى وجہ پوچھى تو اس نے تكبر و خودپسندى كے اس منظر كو بيان كيا پھر كہا : ''استغفر اللہ ميں دوبارہ يہ كام نہيں كروں گا '' (2) _ حالانكہ محمد بن مسلمہ حكمران طبقے كے قريبيوں اور انتہائي وفادار يا رو انصار ميں سے تھا جس پر وہ اطمينان و اعتماد كا اظہار كيا كرتے تھے_
2 _ حضرت عمر نے اپنى خلافت كے آخرى ايا م ميںمالداروں كا زائد مال لے كر مہاجرين كے فقيروں ميں تقسيم كرنے كا ارادہ كيا (3)_
3_ حضرت عمر جمعہ كے دن دو اہم كام كيا كرتے ايك يہ كہ مہاجرين كے يتيموں كے اموال كى ديكھ بھال كرتے تھے اور دوسرا غلاموں كے حالات كا جائزہ ليتے(4)_
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو : حياة الصحابہ ج 1 ص 409 و ص 411 و ص 414_
2)حياة الصحابہ ج/ 1 ص 413 ،كنز العمال ج/ 1 ص 329 ،از ابن عساكر _
3)ہمارے مضمون '' ابوذر سو شلسٹ ، كيمونسٹ يا مسلمان''كا آخرى حصہ ہمارى كتاب ''دراسات و بحوث فى التاريخ والاسلام'' ميں ملاحظہ كريں_
4) المصنف ج/2 ص 349 اوراس كے حاشيہ ج/1ص 69 پر مالك سے _
220
4 _ حضرت عمر انصار كى ضروريات اور درخواستوں كا كوئي خيال نہ ركھتے تھے البتہ ابن عباس اگر كبھى رابطہ كرتے تو كچھ كرديتے_(1) _
5 _ صرف بنى ہاشم ہى تھے جو انصار كا خيال ركھتے تھے حضرت عمر كے زمانے كے بعدتو انصار كے حالات مزيد بگڑ گئے حتى كہ :
6 _ يزيد نے كعب بن جعيل كو بلايا اوراس سے انصار كى برائي بيان كرنے كا مطالبہ كيا _ كعب نے اس سے كہا: '' كيا تم مجھے دوبارہ شرك كى طرف پلٹاناچاہتے ہو_ كيا ميں اس قوم كى برائي بيان كرو ں جس نے رسول اللہ (ص) كى نصرت كى اور انہيں پنا ہ دى ؟'' اس كے بعد كعب نے يزيد كو اخطل نصرانى كے متعلق كہا جس نے يزيد كى فرمائشے پر يہ شعر پڑھا_
ذھبت قريش بالسماحة والندى
واللؤم تحت عمائم الانصار (2)
قريش نے بڑى سخاوت اور فياضى كا مظاہرہ كيا ليكن انصار كے عماموں تلے كمينگى چھپى ہوئي ہے_
7 _ اسكے بعد يزيد نے'' حرہ '' كے واقعہ ميں ظلم و جنايات كى حديں توڑ كے ركھ ديں_ اس واقعہ ميں انصار كے عزيزوں كو ذليل كيا گيا ، ان كى ہتك حرمت كى گئي ، ان كى عزتوں كو لوٹا گيااور ان كے مردوں كو قتل كرديا گيا_ يہ واقعہ اموى حكمرانوں كے ننگ و عار كا منہ بولتا ثبوت ہے اور انكے ماتھے پر ہميشہ ہميشہ كے لئے كلنك كاٹيكا بن كے رہ گيا _ امويوں نے پرانے بغض ،كينے اور دشمنى كى بناپر ذلت و عار كا ارتكاب كياليكن يہ رسوائي ہميشہ كے لئے كينہ پرور امورى حكمرانوں اور ان كے چاہنے والوں اور پيروكاروں كے دامن پر كبھى نہ مٹنے والا داغ بن گئي ہے _
---------------------------------------------------------
1) حياة الصحابہ ج/ 1 ص 414 ، 415، 416_
2)الشعر والشعراء لابن قتيبة ص 302_
221
تاريخى دغابازي
مدائنى كہتاہے كہ مجھے ابن شہاب نے بتايا ،اس نے كہا كہ مجھے خالد بن عبداللہ القسرى نے كہا كہ ميرے لئے نسب نامہ لكھو _ميں نے ''مضر'' كے نسب نامے سے شروع كيا _ ابھى اسے مكمل بھى نہ كيا تھا كہ اس نے كہا : ''اس كو كاٹ دو ، كاٹ دو _ اللہ ان كى جڑيں كاٹے ''_ پھر اس نے كہا :'' ميرے لئے كوئي سيرت تحرير كرو'' _ ميں نے كہا : '' اگر كہيں حضرت على بن ابن طالب كى سيرت كا ذ كر آجائے تو كيا اسے بھى لكھوں ؟'' تو خالد نے كہا : ''نہيں ،ليكن صرف اس صورت ميں كہ اسے جہنم كى اتھاہ گہرائيوں ميں دكھاؤ'' (خدا خالد اور اسكے چاہنے والوں پر لعنت كرے اور امير المؤمنين على عليہ السلام پر اللہ كا درود و سلام ہو) (1)
جب معاويہ كو حضرت على عليہ السلام كا اپنے فضائل پر مشتمل خط ملا تو اس نے كہا : '' اس خط كو چھپا دو كہيں شاميوں كے ہتھے نہ چڑھ جائے و گرنہ وہ على بن ابى طالب كے حامى بن جائيں گے'' (2) _ ہشام بن عبدالملك نے اعمش كو خط لكھ كر اس سے عثمان كے فضائل اور حضرت على (ع) كى برائياں لكھنے كا مطالبہ كيا ليكن اس نے انكار كرديا (3) _ شعبى كہتا ہے كہ اگر ميں حضرت على (ع) پر جھوٹ گھڑ نے كے بدلے ميں ان امويوں سے غلام بننے يا گھر سونے سے بھر دينے كا مطالبہ بھى كرتا تو وہ ايسا كر گذرتے (4) _ ابو احمد عسكرى كا كہنا ہے كہ اوزاعى كے متعلق كہا جاتا ہے كہ اس نے (حديث كساء كے علاوہ ) فضائل اہل بيت (ع) كى كوئي روايت ذكر نہيں كى ، واللہ اعلم _ اسى طرح زہرى نے بھى صرف ايك حديث ذكر كى ہے _ يہ دونوں بنى اميہ كے مظالم سے ڈرتے تھے _(5) ان مؤرخين كى اس تاريخى دغابازى پر يہى دليل كافى ہے كہ مورخين كے اس دعوے كے باوجود كہ جنگ جمل ميں سات سو مہاجر اور انصار ، ستر يا اسى بدرى اور بيعت شجرہ ميں شامل دو سو صحابى حضرت على (ع) كے ساتھ تھے (6)(شعبى كے بقول ) دشمنان على (ع) اور تاريخى دھوكہ باز مؤرخين كى ڈھٹائي اس حد
---------------------------------------------------------
1)الاغانى ج/ 19 ص 59_
2) معجم الادباء ج 5 ص 266_
3) شدرات الذہب ج 1 ص 221_
4) تاريخ واسط ص 173_
5) اسعد الغابہ ج 2 ص 20_
6) المعيار و الموازنہ ص 22، مستدرك حاكم ج 3 ص 104، الغدير ج 10ص 163 از صفين و ص 266 تا ص 268 و از شرح نہج البلاغہ ج 1 ص 483و جمہرة خطب العرب ج 1 ص 179و ص 183 _
222
تك بڑھ گئي كہ وہ يہ كہنے لگے : '' جس كو يہ گمان ہو كہ جنگ جمل ميں چار سے زيادہ بدرى صحابى موجود تھے اسے جھٹلادو _ على (ع) اور عمار ايك طرف اور طلحہ اور زبير بھى ايك طرف تھے'' (1) _ اسكافى كہتا ہے كہ معاويہ نے صحابہ اور تابعين كے ايك گروہ كو پر كشش تنخواہ اور مراعات پر صرف اس لئے ملازم ركھا ہوا تھا كہ وہ حضرت علي(ع) كے خلاف ايسى گھٹيا حديثيں گھڑيں جس سے لوگ حضرت على (ع) سے متنفر ہوجائيں اور آپ(ع) پر انگلى اٹھانے لگيں _ اور انہوں نے بھى معاويہ كى من پسند حديثيں گھڑيں _ ان صحابيوں ميں ابوہريرہ ، عمروبن عاص اور مغيرہ بن شعبہ بھى تھے اور تابعيوں ميں عروة بن زبير نام آور ہے (2) _ نيز معاويہ شاميوں كو يہ باور كرانے ميں كامياب ہوگيا تھا كہ حضرت على (ع) اور آپ(ع) كے ساتھى بے نمازى ہيں (3) _
يہى معاملہ انصار كے ساتھ بھى تھا_ زبير بن بكار كى بات كا خلاصہ يہ ہے كہ سليمان بن عبدالملك جب ولى عہد تھا حج كرنے كے لئے نكلا اور مدينے سے گزرا تو ابان بن عثمان سے كہا كہ وہ پيامبر اسلام(ص) كى سيرت اور غزوات كا حال تحرير كرے_ ابان نے كہا : '' صحيح سيرت كا ايك نسخہ ميرے پاس ہے جسے ميں نے بہت مؤثق آدمى سے ليا ہے'' _ سليمان نے كہا: '' اس سے ايك نسخہ تيار كرو'' ابان نے نسخہ تيار كيا اور لے گيا _ جب سليمان نے اس پر نگاہ دوڑائي تو ديكھا كہ عقبتين ( عقبہ اولى اور عقبہ ثانيہ كے معروف واقعے ) ميںانصار كا ذكر ہے اورجنگ بدر ميں بھى انصار كا ذكر ہے تو اس نے كہا كہ ميں تو ان لوگوں كے لئے كسى ايسى فضيلت كا قائل نہيں _ اس واقعہ ميں يا تو ہمارے خاندان كے متعلق جھوٹ لكھا گيا ہے يا پھر انصار ايسے نہيں تھے _
ابان نے كہا : ''اے امير شہيد مظلوم (4)كے ساتھ ان كى ظلم و زيادتى ہمارے حق بات بيان كرنے سے مانع تو نہيں ہے _ وہ لوگ ايسے ہى تھے جيسے اس كتاب ميں تحرير ہے '' _
سليمان نے كہا :''جب تك ميں امير المؤمنين سے پوچھ نہ لوں مجھے اس نسخے كى ضرورت نہيں ہے كيونكہ
---------------------------------------------------------
1) العقد الفريد ابن عبدربہ ج 4 ص 328 _
2) شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 4 ص 64_
3)الغدير ج 9 ص 122 از صفين منقرى ص 402 و تاريخ طبرى ج 6 ص 23 و شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 2 ص 278 و از الكامل فى التاريخ ج 3 ص 135_
4) يہاں شايد مراد حضرت عثمان ہيں جنہيں اپنے محل ميں قتل كرديا گيا تھا _ مترجم
223
ہوسكتاہے وہ مخالفت كريں'' پس اس نے اس كتاب كو جلانے كا حكم ديا _
جب سليمان و اپس پہنچا اور اپنے باپ كو سب كچھ ذكر كياتو عبدالملك نے كہا : ''ايسى كتاب كى تمہيں كيا ضرورت ہے جس ميں ہمارى فضيلت بيان نہ ہوئي ہو ؟ تم شاميوں كو وہ باتيں بتانا چاہتے ہو جسے ہم نہيں چاہتے كہ وہ جانيں '' _ اس نے جب اس نسخے كے پھاڑ نے (1) كى اطلاع دى تو عبدالملك نے اس كے اس كام كو سراہا _
پھر يہ روايت ، سليمان كے قبيصہ بن دؤيب كو سارا ماجرا بيان كرنے اور اس كے جواب كے بعد كہتى ہے كہ : پس سليمان نے كہا :'' اے ابواسحاق كيا مجھے امير المؤمنين اور انكے خاندان كى جانب سے انصار سے دشمنى اور انہيں اتنا پسماندہ ركھنے كى وجوہات كے متعلق نہيں بتا ئيں گے ؟''
اس نے جواب ديا: '' بھتيجے اس كا آغاز كرنے والا معاويہ بن ابى سفيان تھا _اس كے بعد عبدالملك كے والد اور پھر تمہارے والدنے يہ كام كيا '' _ سليمان نے كہا: '' كس بنياد پر ايسا ہوا ؟'' اس نے جواب ديا : ''خدا كى قسم ميںابھى تمہيں بتانا ہى چاہتا تھا '' _ پھر كہا : ''' انصار نے بنى اميہ كے بہت سے لوگوں كو قتل كيا اور ان كى ايك رسوائي حضرت عثمان كا قتل بھى ہے _ اس وجہ سے بنى اميہ نے ان سے كينہ روا ركھااور ان سے غضبناك رہے اوريہ كينہ انہوں نے نسل در نسل پروان چڑھايا ليكن ميں تو امير المؤمنين كے متعلق پہلے يہ گمان كرتا تھا كا ان كہ انصار كے ساتھ رويہ دوسروں سے مختلف ہوگا اب تم يہ بات اس سے جاكر پوچھ سكتے ہو ''_
سليمان كہنے لگا:'' اللہ كى قسم ميں ايسا ہى كرونگا'' وہ بولتا رہا اور قبيصہ بھى وہاں موجود تھا _ اسى نے جاكر عبدالملك كو ان كے درميان ہونے والى گفتگو كى رو داد سنائي تو عبدالملك نے كہا :''اللہ كى قسم ميں اس كے علاوہ كچھ كرہى نہيں سكتا _ان كا ذكر بھى اب چھوڑو _ ''
---------------------------------------------------------
1) چند سطر اوپر اس كتاب كے جلائے جانے كا ذكر ہے ليكن يہاں پھاڑنے اور ٹكڑے ٹكڑے كرنے كا ذكر ہے _ بظاہر تو اس واقعہ ميں تضاد پايا جاتا ہے ليكن دستاويز چونكہ عربى زبان ميں ہے اور عربى ميں جلانے كو (حرق) اور پھاڑنے كو ( خرق) كہتے ہيں اس لئے اس ميں صرف ايك نكتہ كا فرق ہے جو شايد طباعت كى وجہ سے بھى ہوسكتا ہے بہر حال يہ فيصلہ يہاں مشكل ہے كہ '' حرق'' ہے يا '' خرق'' البتہ اصل منبع اور مآخذ سے معلوم ہوسكتا ہے _ مترجم
224
اسكے بعد سب لوگ خاموش ہوگئے(1)ليكن قبيصہ كى يہ بات صحيح نہيں ہے كہ انصار كى محروميوں كا دور معاويہ كے زمانے سے شروع ہوا _
انصار كى مايوسيوں كا دور تو حضرت عمر بلكہ حضرت ابوبكر كے زمانے سے شروع ہوا تا ہم يہاں تحقيق كا مقام نہيں_ بہر حال كسى انصارى نے يہ اشعار كہے ہيں_
ويل امھا امة لو ان قائدھا
يتلوا الكتاب و يخشى العار والنار
اما قريش فلم نسمع بمثلہم
غدراً و اقبح فى الاسلام آثارا
ضلوا سوى عصبة حاطوا نبيھم
بالعرف عرفا ً و بالانكار انكارا(2)
كتنى اچھى ہے وہ قوم جس كا سردار جب بھى قرآن كى تلاوت كرتا ہے تو گناہ اور جہنم كے تصور سے بھى ڈرتا ہے _ليكن قريش كى خيانت اور اسلام ميں انكے انتہائي مكروہ اعمال كى مثال ہم نے كبھى نہ سنى _ نبى (ص) كريم كے سب سے قريبى رشتہ داروں كے علاوہ سب كے سب گمراہ ہيں _ بہرحال اچھائي كا بدلہ بھى اچھائي ہوتا ہے جبكہ برائي كا بدلہ برائي ہے _
ايك اور انصارى نے كہا ہے_
دعاھا الى حرماننا و جفائنا
تذكر قتلى فى القليب تكبكبوا
---------------------------------------------------------
1)اخبار الموفقيات ص 332 _ 334_
2) الحور العين ص 215_
225
فان يغضب الابناء من قتل من مضي
فو اللہ ما جئنا قبيحاً فتعتبوا (1)
انہوں نے ہميں محرومياں ديںاور ہم پر ظلم كى داستان رقم كى _وہ جنگ بدر كے اپنے مقتولين كو ياد كر كے تڑپتے اور لوٹتے رہتے ہيں _ ماضى ميں بڑوں كے قتل سے اگر ان كے بيٹے آج ہم پر غضبناك ہوتے ہيں تو ہوتے رہيں ہميں اس كى كوئي پروا نہيں ليكن انہيں معلوم ہونا چاہئے كہ ہم نے كوئي برا كام نہيں كيا تھا جس پر وہ ہم پر غصہ ہو رہے ہيں_
ھ: انصار كے متعلق پيامبر اسلام (ص) كى تاكيد:
امويوں كى انصار سے دشمنى اپنے مقتولين كى وجہ سے نہيں بلكہ در اصل اسلام سے دشمنى تھى اور اسى اسلام دشمنى كى وجہ سے وہ انصار كے بھى دشمن ہوگئے تھے كيونكہ انصار نے خدا اور اس كے رسول (ص) كى مدد كى تھى اور خدا نے ان كے ذريعہ سے شرك كو مٹايا تھا اور مشركوں كو ذلت اور رسوائي سے دوچار كيا تھا _ يہى علت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے بار بار تاكيد فرمائي كہ انصار سے محبت كرواور ان كا احترام كرو كيونكہ انہوں نے ہى اس دين كو پناہ دى ، اس كى نصرت كى اور ان كے پاس جو كچھ بھى تھااسے اس دين كے لئے وقف كرديا _ آنحضرت(ص) نے انصار كى محبت كو ايمان اور ان سے نفرت كو نفاق شمار فرمايا (2) اور فرمايا: '' جس نے انصار سے محبت كى اس نے ميرا دل جيت ليا اور جس كسى نے انصار سے دشمنى اور نفرت كى اس نے ميرى دشمنى اور غضب كو للكارا'' (3)_
---------------------------------------------------------
1) الحورالعين ص 215 از اميرنشوان حميرى _
2)مسند احمد ج 5 ص 285و ج 6 ص 7، ج 4 ص 283و ص 292و ج 3 ص 130 ، نيز انصار كے فضائل كے متعلق ملاحظہ ہو مسند احمد ج 4 ص 70 و ج 6 ص 382، مسند ابويعلى ج 7 ص 191 و 285و 285، منحة المعبود ج 2 ص 138و 138، صحيح مسلم ج 1 ص 60 سنن ابن ماجہ ج 1 57 ، 58، 140 ، صحيح بخارى ج 2 ص 198و 199 و مجمع الزوائد ج 10 ص 39 ، 40_
3) مجمع الزوائد ج9 ص 376 عن الطبرانى فى الصغير و الكبير، البداية والنہاية ج3 ص 203 ، فتح البارى ج1 ص 59 ، 60 ، مجمع الزوائد باب حب الانصار ج10 ص 28 ، 42 اس كے علاوہ كتب احاديث ميں ايك باب انصار كے فضائل سے مخصوص ہے_
226
يہ زيادہ تر انصار ہى تھے جنہوں نے اكثر مہاجرين كے برخلاف اہل بيت (ع) اور امير المومنين (ع) كى راہ ميں قربانياں ديں _اس كے برخلاف مہاجرين ايسے نہ تھے_ جنگ جمل، جنگ صفين اور جنگ نہروان ميں انصار نے امير المؤمنين (ع) كا ساتھ ديا_انصار كے دلوں ميں حضرت على (ع) كے مقام ، مرتبے اور احترام كى دليل عمروبن عاص كى زبير بن بكار كے ذريعہ بيان كردہ وہ روايت ہے جس ميں آيا ہے كہ سعد بن عبادہ كے لئے بيعت لينے كى انصار كى ناكام كوششوں كے بعد مسجد نبوى ميں عمرو بن عاص نے انصار كے خلاف بہت سخت اور غليظ زبان استعمال كى _ زبير كہتا ہے : '' پھر جب وہ متوجہ ہوا تو وہ عباس بن عبدالمطلب كے بيٹے فضل كو ديكھ كر اپنے كئے پر بہت نادم ہوا كيونكہ ايك تو جناب عبدالمطلب كى اولاد كى انصار كے ساتھ ننھيالى رشتہ دارى تھى اور دوسرا انصار بھى اس وقت حضرت على (ع) كى بہت تعظيم كيا كرتے تھے اور ان كا دم بھرتے تھے '' پھر روايت يہ بتاتى ہے كہ كس طرح حضرت على (ع) نے مسجد ميں آكر انصار كا دفاع كيا _ يہ واقعہ بہت طويل ہے (1)_ بنى ہاشم نے انصار كا ساتھ ا س لئے ديا كہ ايك تو پيامبر گرامى اسلام (ص) كى وصيت تھى _اور دوسرا سقيفہ كے دن جب سعد بن عبادہ كى بيعت نہ ہوسكى تو انہوں نے كہا كہ ہم صرف على (ع) كى بيعت كريںگے (2) يہ حضرت على (ع) ہى تھے جنہو ں نے قريش كے بڑے بڑے سور ماؤں اورمتكبروں كو ہلاك كيا تھا_
ان سارى باتوں كى وجہ غالباً يہ تھى كہ يہ لوگ صحيح معنوں ميں با ايمان اور پكے دين دار تھے اور انہيں دين كا گہرا شعور حاصل تھا _يہاں تك كہ ان كى خواتين بھى ايسى ہى تھيں _يہاں يہ ذكر بھى كرتے چليں كہ علماء كہتے ہيں كہ اصحاب رسول (ص) كا سارا علم انصار كے پاس تھا (3) نيز حضرت عائشہ انصار كى خواتين كے بارے ميں فرماتى ہيں : '' اگر چہ قريش كى عورتوں كى فضيلت بہت زيادہ ہے ليكن خدا كى قسم ميں نے انصار كى عورتوں سے زيادہ با فضيلت كسى كو نہيں ديكھا، اللہ كى كتاب كى تصديق كرنے ميں ان سے زيادہ قوى كوئي نہيں اور نہ ہى نزول قرآن پر ايمان ميں ان سے كوئي آگے ہے'' (4) _
---------------------------------------------------------
1) الموفقيات ص 595 و 596و شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 6 ص 33_
2) تاريخ ابن اثير ج 2 ص 325_
3) التراتيب الاداريہ ج 2 ص 325_
4)الدرالمنثور ج/5 ص42 از ابن ابى حاتم، ابى داود،ابن مردويہ ، تفسير ابن كثير ج/3 ص 284، مسند ابوعوانہ ج 1 ص 317 و حياة الصحابہ ج 3 ص 87_
227
حضرت عائشہ ہى سے روايت ہے :'' انصار كى خواتين سب سے بہترين خواتين ہيں وہ دين سيكھنے كے لئے بالكل بھى نہيں شرماتيں '' (1)_
جنگ انصار پر معاف نہ تھي:
گذشتہ بحث كا يہ مطلب نہيں ہے كہ انصار كو جنگوں ميں بالكل شركت ہى نہيں كرنا چاہئے تھا _ كيونكہ اس مسئلے كا تعلق اسلام سے ہے اور اسلام تو سارى امتوں بلكہ تا ابد تمام بنى نوع بشر كے لئے ہے_
اس كى اہميت اور اس كو در پيش خطرات بہرحال انصار كى اہميت اور انہيں قريش كى طرف سے در پيش خطرات سے زيادہ ہيں خاص كر اس صورت ميں جب اس قسم كى صورتحال كے رد عمل كے طور پر اسلام ، ان كى حفاظت كى ضرورى ضمانت بھى فراہم كرتا ہے البتہ جو كچھ ہوا وہ امت كے اسلامى قوانين پر عمل نہ كرنے كا نتيجہ تھا اور نہ ہى ان ضمانتوں كا خيال ركھا گيا _ اور يہ ايك عليحدہ بات ہے _
پس انصار كے لئے جنگ ميں شركت كے علاوہ اور كوئي چارہ نہ تھا البتہ يہ بھى ضرورى تھا كہ قريش اور اسلام دشمنوں كے كينے كى شدت كم كرنے كے لئے كوئي عملى كام كيا جائے تا كہ مستقبل ميں انصار كو در پيش مشكلات اور خطرات ميں كچھ حد تك كمى كى جائے _ اور ہوا بھى اسى طرح_ انشاء اللہ جنگ بدر كى بحث ميں قريش اور انصار كے مسائل پر مزيد بات ہوگي_
---------------------------------------------------------
1)_ ملاحظہ ہو: صحيح بخارى ج1 ص 24 ، المصنف عبدالرزاق ج 1 ص 314،ا س كے حاشيہ ميں ہے كہ يہ روايت بخارى ، مسلم اور ابن ابى شيبہ سے منقول ہے ، كنز العمال ج 5 ح 3145 نيز خواتين انصار كى علم دين سيكھنے كى كوششوں سے متعلق ملاحظہ ہو: التراتيب الاداريہ ج2 ص 321_
|