175
پانچويں فصل:
اسلام ميں جہاد كى اہميت
177
اسلام ... اور تلوار
اسلام دشمن عيسائي مشنرى اس بات كو بڑى اہميت اور اہتمام كے ساتھ بيان كرتى ہے كہ اسلام تلوار اور طاقت كا دين ہے_يہاں تك كہ بعض كتابوں ميں انہوں نے ايسے كارٹون بنائے ہيں جن ميں آنحضرت (ص) كے ايك ہاتھ ميں قرآن اور دوسرے ميں تلوارہے آپ(ص) لوگوں كے سروں پر كھڑے ہيں اور يہ عبارت تحرير ہے ''قرآن پر ايمان لے آؤ ... ورنہ تلوار سے تمہارى گردنيں اڑادونگا'' پس دشمن گويا يہ كہنا چاہتے ہيں كہ جو اسلام '' ادع الى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة'' (1) كا دعويدار ہے وہ اپنے اس دعوے ميں سچا نہيں ہے بلكہ وہ عملى طور پر تلوار سے اپنى تبليغ كا دعويدار ہے_
اس نظريئےى تقويت ميں خود مسلمانوں كى اس مقولے ميں طبعى شك و ترديد نے بھى مدد كى ہے كہ ''اسلام حضرت خديجہ (ع) كے مال اور حضرت على (ع) كى تلوار سے پھيلا'' (2)_ مسلمانوں نے اس جملے كے الفاظ پر تو توجہ كى ليكن اس كے مفہوم پر گہرى دقت نہيں كي_ ...بلكہ ايسا ہوا كہ بعض قديم مورخين اور قصہ نويس حضرات نے بھى اس مفہوم كو اسلام سے خارج كرنے ميں مدد كى _ كتاب ''فتوح الشام للواقدي'' سے يہ مطلب بڑى حد تك واضح ہوتاہے_ كيونكہ اس كتاب كا شايد ہى كوئي ايسا صفحہ ہو جو اس طرح كے محير العقول اور خارق العادہ كارناموں اور تباہ كن واقعات سے خالى ہو_ يہ سب كچھ بعض پس پردہ اہداف كى خاطر تھا تا كہ عوام كى توجہ اپنى طرف مبذول كرانے كے ساتھ ساتھ امويوں كى قدرت اور عظمت بيان كى جائے اموى حكومت كے منظور نظر افراد كے لئے خيالى بہادرياں ثابت كى جائيں اور اس ذريعہ سے
---------------------------------------------------------
1) اپنے رب كے راستے كى طرف حكمت اور موعظہ حسنة سے دعوت دو_ ( النحل125)
2) مفكر اسلام شہيد مطہرى كا مقالہ مجلہ '' جمہورى اسلامي'' ميں(10جمادى الثانى 1410 ھ شمارہ 261_
178
حضرت على (ع) كے موقف اور كارناموں كو لوگوں كى نظروں سے گرا ديا جائے _ اس كے علاوہ اور بھى مقاصد تھے جن كے متعلق گفتگو كى گنجائشے يہاں نہيں ہے _ ان بڑے بڑے سفيد جھوٹوں كا نتيجہ يہ نكلا كہ اسلام ايك تباہ كن طوفانى موج ( سونامى كى لہروں ) اور قتل و غارت كا دين دكھائي دينے گا _ يہاں تك كہ خود اكثر مسلمانوں كے لئے بھى يہ مسئلہ نہايت پيچيدہ ہوگيا جس كا جواب دينے كے لئے انہوں نے دائيں بائيں جانا شروع كرديا_ ان مسلمانوں نے جواباً جو مناسب سمجھا اور جس راستے كو اپنى خواہشات كے مطابق ديكھا اختيار كرليا_
اگر چہ يہ بات تاريخ سے مربوط ہے اور يہاں اس گفتگو كو طول دينے سے خاطر خواہ نتيجہ نہيں نكل سكتاتا ہم اپنا نقطہ نظر واضح كرنے كے لئے سر راہے چند نكات كى طرف اشارہ كرتے ہيں _
1: اسلام اور ديگر اديان ميں جنگ كے خد و خال
جنگ بدر سے پہلے كے سرايا اور غزوات كى فصل ميں اپنى افواج كو نبى كريم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى نصيحتوں كا مختصر ذكر ہوگا _ انہيں دقت سے پڑھنے اور ان پر غور كرنے كى ضرورت ہے _ مزيد مطالعہ كے خواہش مند حضرات بحار الانوار اور كافى كے علاوہ حديث اور تاريخ كى ديگر كتابوں كا بھى مطالعہ فرمائيں_
ساتھ ہى كتب حديث اور تاريخ كا دقت سے مطالعہ كرتے وقت جنگى قيديوں كے ساتھ مسلمانوں كے مثالى سلوك سے آگاہى بھى ضرورى ہے _ ہم بھى جنگ بدر كى بحث ميں انشاء اللہ اس موضوع پر روشنى ڈاليں گے _ اسى طرح علامہ احمدى نے بھى اپنى كتاب '' الا سير فى الاسلام'' ميں اس موضوع پر تفصيل سے روشنى ڈالى ہے _ ليكن اس كے مقابلے ميں مندرجہ ذيل مطالب ملاحظہ فرمائيں_
الف: انجيل ميں لكھاہے''يہ گمان بھى نہيں كرو كہ ميں زمين پر امن پھيلانے آيا ہوں، ميں زمين پر سلامتى پھيلانے نہيں بلكہ تلوار كے ساتھ جنگ كے لئے آياہوں''(1)
باء : تورات ميں يوں تحرير كيا گياہے'' جب تم جنگ كے لئے شہر كے قريب جاؤ گے تو وہاں كے لوگوں
---------------------------------------------------------
1)انجيل متى اصحاح ( سورت ) 20 سطر 34_
179
سے صلح كى استدعا كرو_ اگرانہوں نے مثبت جواب ديا تو وہ تيرے لئے فتح ہوجائے گا _ پس وہاں موجود تمام افراد تيرے غلام ہوں گے_ ليكن اگرانہوں نے صلح نہ كى اور جنگ ہى كى تو شہر كا محاصرہ كر لو اور جب تيرا رب، تيرا معبود تجھے فتح دے دے تو تمام مردوں كى گردنيں تلوار سے اڑادے_ليكن خواتين، بچے اور حيوانات اور جو كچھ شہر ميں ہے يہ سب كچھ مال غنيمت ہے جو صرف تيرے لئے ہے_ دشمنوں كا مال غنيمت جو تيرے رب اور معبود نے تجھے عطا كياہے كھالے، استعمال كر_ وہ تمام علاقے جو تجھ سے بہت دور ہيں اور يہ علاقے ان اقوام كے نہيں ہيں ،ان ميں بھى يہى اعمال انجام دے_ ليكن وہ علاقے جو يہاں كى اقوام كے ہيں اور تيرے رب اور تيرے معبود نے تجھے عنايت كيے ہيں وہاں كا كوئي ذى روح بھى زندہ نہيں رہنا چاہئے''(1)_
جيم: تورات ہى ميں لكھا ہے''شہر والوں كو تلوار سے اڑاكے ركھ دو_ شہر كو اس ميں موجود تمام چيزوں سميت جلا دو_اسكے ساتھ حيوانات و غيرہ جو كچھ بھى ہے سب كو تلوار سے نابود كردو _ تما م اشياء كو اكٹھا كرو اور شہر كے چوك ميں جمع كركے انہيں شہرسميت آگ لگادو _اس سے وہ شہر ابد تك راكھ كا ٹيلہ بن جائے گا(2)_
يہاں مزيددستاويزات بھى ہيں جن كى تحقيق كا موقع و محل نہيں(3)_
ايك اشارہ
امويوںاور عباسيوں و غيرہ كے كرتو توں نيز جنگوں اور ذاتى دشمنيوں ميں ان كے مظالم اور قتل و غارتگرى كى وجہ سے ہونے والى اسلام كى بربادى اسلام كى پہچان نہيں بلكہ اسلام پر ہونے والا ظلم ، زيادتى اور خيانت ہے _ كيونكہ اسلام اپنے سے منحرفين كى بدكردارى كا ضامن نہيں ہے اس لئے كہ اسلام اور چيز ہے اور منحرفين كا كردار اور چيز ہے_
---------------------------------------------------------
1) سفر تثنيہ'' اصحاح'' 20 سطر/10 _ 17
2) سفر تثنيہ ''اصحاح'' 13 سطر15_
3) سفر تثنيہ الاصحاح 7 ;سطر1 ، 2 سفر سموئيل اوّل الاصحاح 15 ، عبرانيوں كو پولس كا خط الاصحاح 11 سطر 32 اور اسكے بعد ، انيس الاعلام ج/5 ص 302 و 316 اور ديگر كتب_
180
2 : جب جنگ ناگزيرہو
اگر ہم رسول (ص) كريم كى مشركوں كے خلافلڑى جانے والى جنگوں كا مطالعہ كرنا چاہيں تو انہيں مندرجہ ذيل نكات ميں خلاصہ كر سكتے ہيں:
الف : وراثت و غيرہ جيسے عوامل سے قطع نظر انسان كى شخصيت; اسكى خصوصيات، عادات، صفات اور مختلف نفسياتي، روحانى ، فكرى ، جذباتى اور ديگر پہلو عام طور پر اس ماحول كے زير اثر ہوتے ہيں جہاں انسان رہتاہے_ وہ والدين ، استاد اور دو ست و غيرہ سے افكار اور دينى مفاہيم و اقدار حاصل كرتا ہے_
پس وہ شخص ذليل و بزدل ہوگا جس كى تربيت كرنے والوں نے خوف اور دہشت كا رويہ اختيار كيا ہو اور وہ شخص شجاع اور جنگجو ہوگا جسكى تربيت كرنے والوں نے خوف كے برخلاف حوصلہ افزائي كى روش اختيار كى ہو(1)_ اسى طرح وہ بچہ جسے بچپن ميں بہت زيادہ توجہ اور شفقت ملى ہو اس كى پرورش بالكل مختلف ہوگى اور جو ظلم و قساوت كو ديكھے گا تو اس كا رد عمل بہت مختلف ہوگا _ چاہے ان دو بچوں نے ايك ہى گھر ميں پرورش پائي ہو اور وہ دونوں حقيقى جڑواںبھائي ہوں_
بلكہ اس سے بھى بڑھ كر يہ كہ وہ ذہنى تصورات جنہيں انسان حو اس كے ذريعے حاصل كرتاہے اور انہيں اپنے علم و ادراك كا اہم منبع قرار ديتاہے وہ بھى دوسروں سے بہت مختلف ہوتے ہيں_ اگر ہم دو ايسے جڑواں بچوں كو فرض كر ليں جو اكٹھے رہتے ہوں ان كے حالات بھى ايك جيسے ہوں اور يہ بھى فرض كرليں كہ تعليم و تربيت ،وسائل اور حالات زندگى و غيرہ تك بھى يكساں ہوں تو اسكے باوجود بھى ہم ديكھيں گے كہ ان دونوں كے افكار ، نفسيات اور احساسات و غيرہ ايك دوسرے سے بہت حد تك مختلف ہيں_ اسكى وجہ وہ ذہنى تصورات ہيں جو دونوں نے اخذ كيے ہيں اورجن سے ان كے تفكر كى تشكيل ہوئي اور ان دونوں كا ان خيالات پر رد عمل مختلف تھا_
جى ہاں چاہے وہ دونوں ايك ہى كمرے ميں بيٹھے ہوں، ايك ہى راستے پر چل رہے ہوں اورايك ہى سكول اور مدرسے ميں پڑھ رہے ہوں پھر بھى دونوں كا ذہن ايك ہى خيال كے متعلق مختلف رد عمل ظاہر كرے گا
---------------------------------------------------------
1) يعنى خوف ، دھمكيوں اور دہشت كے سائے ميں پلنے والا بچہ خود اعتمادى كے فقدان سے بزدل اور ذلت پسند ہوگا _ ليكن محبت اور شفقت كے سائے ميں پلنے والا بچہ خود اعتمادى كے وجود سے بہادر اور سوشل ہوگا_ البتہ لاڈ اور ناز كے سائے ميں پلنے والا بچہ خود پسند اور مغرور ہوگا_
181
چاہے وہ اختلاف جزوى ہى ہو _ اور اس كا سبب يہ ہے كہ ہر ايك كانقطہ نظر مختلف ہے_ يہى صورت حال آوازوں،اور خوشبوؤں و غيرہ كے بارے ميںہے _يہ صورت اسكے ہاں اپناايك خاص مقام اور ايك خاص اثر ركھتى ہے، اس كے فكرى خطوط كو بھى بدل ديتى ہے_ كبھى تو ان خطوط كو آگے بڑھاتى ہے اور كبھى اس كے آگے بند با ندھ ديتى ہے _
تصورات كا اختلاف ان كے ذہنوں ميں مختلف نتائج كو جنم ديتاہے_ اسى طرح يہ تصورات روح ، آداب اور احساسات پر مختلف اثرات مرتب كرتے ہيں_
ان باتوں سے ہميں پتہ چل سكتا ہے كہ لوگ آداب، افكاراور اخلاقيات و غيرہ كے لحاظ سے ايك دوسرے پر كتنے اثر انداز ہوتے ہيں_آپ خود اگر كسى بدمزاج، غصيلے اور ترش رو دوكاندا ر كے پاس كھڑے ہوں اور پھر كسى ايسے مہذب دوكاندار كے پاس كھڑے ہوںجو مسكراتے ہوئے چہرے كے ساتھ ملے اور بہت اچھے اور ميٹھے لہجے كے ساتھ آپ سے گفتگو كرے تو آپ يقيناًاپنے رگ و پے ميں ان دونوں كا فرق محسوس كريں گے_ اس سارے عمل كا اثر بچوںاور دوستوں و غيرہ كے ساتھ آپ كے تعلقات پر يقيناً مرتب ہوگا_
پس جب ايك فكر اتنى اہميت كى حامل اور حساس ہے كہ اس سے انسانى عقيدہ تشكيل پاتا ہے اور انسان اس سے متاثر ہوتا ہے تو يقينا كسى معاشرے ميں پيدا ہونے والا انحراف چاہے وہ محدود پيمانے پر ہى ہو وہ صرف انحراف كے مرتكب ہونے والے تك محدود نہيں رہے گا بلكہ چاہے تھوڑى مقدار اور محدود پيمانے پر ہى سہى وہ اس كے ساتھ رہنے والوں اور اس كے دور يا نزديك كے تعلق داروں پر بھى اثر انداز ہوگا پھر ان سے دوسروں ميںسرايت كرجائے گا اور اسى طرح وہ انحراف آگے پھيلتا جائے گا_ ( اور انحراف كے مرتكب فرد كا حلقہ شناسائي اور دائرہ اثرجتنا وسيع اور پھيلا ہوا ہوگا انحراف بھى اتنے وسيع پيمانے پر اور تيزى سے پھيلے گا مترجم)_
يہى سبب ہے كہ اسلام برائي سے پورى طاقت كے ساتھ اورعلانيہ نبرد آزما ہوتاہے_ اسلام نے تو چھپ چھپ كر گناہ والے كى غيبت سے بھى منع كيا ہے تا كہ لوگ كسى بھى برائي يا انحراف كى خبرسننے كى عادت
182
نہ اپنا ليں كيونكہ اس سے ان كے ذہن برائي سے مانوس ہو جائيں گے پھر ان كے لئے برائي كا ارتكاب آسان ہو جائے گا اور وہ اس كى عادت بناليں گے _ اسلام تو اتنا بھى نہيں چاہتا كہ ان كے ذہنوں ميں برائي كے تصور كابھى گزر ہو چہ جائيكہ وہ شخص خوداس برائي كى عادت اپنالے كيونكہ اسلام چاہتا ہے كہ لوگ برائيوں سے دور رہيں ليكن اس كے اثر سے لوگ برائيوں كے مرتكب ہوں گے _ آپ ذرابرائيوں اور نقصان دہ امو ر پر لفظ '' المنكر''كے اطلاق پر غور كريں تو آپ ديكھيں گے كہ اسلام چاہتاہے كہ لوگ ان باتوں سے دور اور لاعلم رہيں_ اسى طرح جہاں اسلام چھپ چھپ كر گناہ كرنے والے كى غيبت سے منع كرتاہے تو وہ يہچاہتاہے كہ گناہگار انسان كو ايك فرصت مہيا كى جائے تا كہ وہ اپنے گناہوں سے چھٹكارا حاصل كرسكے نيز اس كى شخصيت كى تعمير و ترقى كے لئے اسے ايك مناسب معاشرتى فضا مہيا كرے نيزاس كى عزت و شرافت و غيرہ كى حفاظت كرے اس كے علاوہ اور بھى مقاصد ہيں جن كے بيان كا مقام يہاں نہيں ہے _
پس اگر انحراف اور كجى كا نقصان اسكے ارتكاب كرنے والے تك محدود نہ رہے اور وہ دوسروں تك سرايت كر جائے تو پھر دوسروں كوبھى يہ حق حاصل ہے كہ وہ خود كو اس نقصان سے محفوظ كريں_ اگر شريعت كى بات نہ بھى ہو تو بھى عقل و فطرت كا يہى حكم ہے _ البتہ شريعت ،ذات كے اس حق دفاع كے اعتراف پر ہى اكتفا نہيں كرتى بلكہ امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كے وجوب كے ذريعہ اس دفاع كو ہر فردپر واجب اور فرض قرار ديتى ہے تا كہ ايك تو يہ لوگ اپنى حفاظت كريں اور دوسرا اس انحراف اور برائي سے دوسروں كو بچائيں (1)_
گذشتہ تمام گفتگو كى روشنى ميں رسول (ص) كريم كے اس فرمان كا راز بھى معلوم ہو جاتاہے كہ اسلام كى نظر ميں
---------------------------------------------------------
1)برائي كے ا نجام دينے والے كو دو عذاب (ايك برائي كے انجام دينے پر اور دوسرا عذاب دوسروںكو مبتلاكرنے پر)نہيں ہوں گے بلكہ اس شخص كے لئے صرف ايك ہى عذاب ہے ، وہ اس لئے كہ اس نے (برائي نہ كرنے پر )دوسروں كے اختيار كو سلب نہيں كيا اور نہ ہى اسكا يہ ارادہ تھا_ البتہ اسكے فعل نے دوسروں كے لئے برائي انجام دينے كى راہ ہموار كى اور يہ امر دوسروں كى برائي كا مسبب نہيں_ارتكاب گناہ ميں ارادہ اور نيت نيز عذاب كے استحقاق يا عدم استحقاق كے عنصر كو مد نظر ركھتے ہوئے ہمارى بات اور مندرجہ ذيل معروف حديث كے درميان فرق واضح ہوجائے گا _ معروف حديث يہ ہے :'' جس كسى نے ايك نيك عمل كى بنياد ركھى اس كو اسكا اجر اور قيامت تك ہر اس شخص كے عمل كا اجر ملے گا جو اس پر عمل كرتا رہے گااورجس كسى نے ايك برے عمل كى بنياد ركھى تو اس كو اپنے عمل كاگناہ اور قيامت تك ہر اس شخص كے عمل كاگناہ بھى ملے گا جو يہ برائي انجام دے گا''_
183
سب مؤمن ايك جسم كى مانند ہيں كہ جب بھى جسم كے كسى حصے ميں تكليف ہوتى ہے تو سارا جسم بے خوابى و پريشانى ميں مبتلارہتاہے_
پس اس بنا پر برائي سے روكنے اور نيكى كا حكم دينے والے كو يہ نہيں كہا جاسكتاكہ تجھے كيا ؟ تجھے اس سے كوئي مطلب ؟ يا ميں آزاد ہوں ... يا اسطرح كے جملے_ كيونكہ يہ امر بالمعروف ہى ہے جو در حقيقت آپ كى حفاظت كرتا ہے_ اور ہر كسى كى آزادى اتنى ہے كہ وہ دوسروں پر كسى قسم كى بھى زيادتى نہ كرے اور نہ ہى اس كى آزادى كو كوئي نقصان ہو _ او رانحراف تو زيادتى كى خطرناك ترين اور ناپسنديدہ ترين صورت ہے _
يہ بڑى واضح سى بات ہے كہ انحراف كے خطرے كو دور كرنے اوربرائي كے خاتمے كى خاطر مختلف مدارج اور مراحل كا خيال ركھا جانا چاہئے_ جيسے آپكا بيٹا اگركسى برائي يا غلطى كا مرتكب ہوتا ہے تو پہلے مرحلے ميں آپ اسے منع كريں گے ، پھراسے سمجھائيں گے ، پھر ڈرائيںدھمكائيں گے،پھر ماريں پيٹيں گے اور پھر خود سے دور كريں گے _ اسى طرح شدت اختيار كرتے جائيں گے_ يہ سب مراحل و مدارج شرعى ، عقلى اور فطرى ہيں_ انسان كا كوئي ايك عضواگر بيمارى ميں مبتلا ہوجائے تو پہلا مرحلہ دوائيوں سے علاج ہے_ اگرپھر بھى ٹھيك نہ ہو تو جراحى ''operation'' كا مرحلہ آتا ہے _اور اگر اس كے باوجود مرض اتنى خطرناك صورت اختيار كرجائے اور زخم ناسور بن جائے كہ وہ عضو نہ صرف پورے جسم پر بے فائدہ بوجھ بن جائے بلكہ اس كا درد اوراس كى بيمارى دوسرے اعضاء ميں سرايت كرنے لگے اور انہيں صحيح طريقے سے كام نہ كرنے دے تو اس صورت ميں اگر طبيب اس حصے كو عليحدہ نہيں كرے گا تو خود انسان كے تلف ہونے كا خطرہ پيدا ہوجائے گا_ اس مرحلے ميں بدن كے اس حصے كو كاٹنے كى نوبت بھى آسكتى ہے _ نہ كاٹنے كى صورت ميں وہ طبيب اس بيمار سے خيانت كا مرتكب ہوگا_ يہى سبب ہے كہ اسلام ، عقل اور فطرت نے مسلمانوں كو ايك جسم كى طرح قرار دياہے _ جب ايك عضو ميں درد ہو تو سارا بدن درد و اضطراب ميں مبتلا ہوجاتاہے_يہ بات صرف مسلمانوں ہى سے مخصوص نہيں بلكہ تمام بنى آدم كے ساتھ ايسا ہى ہے_ پس جو شخص عقيدہ و اخلاق اور آداب و كردار كے لحاظ سے منحرف ہوجائے تو ضرورى ہے كہ سب سے پہلے حكمت ، پياراور موعظہ حسنہ سے
184
اسكى اصلاح كى جائے پھر ڈرايا دھمكايا جائے اسكے بعد سختى اور شدت كا استعمال كيا جائے _ اگر يہ سارے ذرائع اور و سائل كامياب نہ ہوں تو پھر اس كاآخرى علاج اسے قرنطينہ كرنا ہے اور اگربيمارى انتہائي خطرناك اور ناسورہو جائے تو پھر( نہ صرف اس شخص كو قرنطينہ كرنا چاہئے بلكہ) ضرورى ہو جاتا ہے كہ اس بيمارى كو ہى جڑ سے اكھاڑ پھينكا جائے_اس صورت ميں عضو فاسدكو نہ كاٹنا پورى امت بلكہ نسلوں اور انسانيت كے ساتھ خيانت ہوگي_ بلكہ دينى اور عقيدتى انحراف كا خطرہ تو جسمى اور بدنى امراض سے كہيں زيادہ ہے كيونكہ جسمانى امراض كا دائرہ نسبتاً محدود ہے ليكن ديني، عقيدتي، فكر ى اور اخلاقى انحراف سے جسم، مال و اموال،مقام، انسان ، اخلاقى اقدار ، انسانيتبلكہ سارا معاشرہ تباہ ہوجاتاہے جس كے اثرات آنے والى نسلوں پر بھى پڑتے ہيں _ يہ اس وقت ہوتاہے جب اس منحرف شخص كو جرم اور گناہ انجام دينے ميں كوئي ركاوٹ پيش نہيں آتى اور وہ بڑے سے بڑا جرم و گناہ انجام ديتاچلا جاتاہے_جب اس انسان كى كسوٹى اورمعيار ،فقط اور فقط اسكے ذاتى مفادات ہوں ، تب وہ شخص كسى اور چيز كو اہميت نہيں ديتا، اللہ كى خوشنودى كو اہم نہيں سمجھتا، امت كى اجتماعى مصلحتوں كو مدنظر نہيں ركھتا، شريعت اور دين كے احكام كو غير اہم سمجھتا ہے اورعقل و منطق كو كوئي حيثيت نہيں ديتا_
اسى لئے جہاد در حقيقت اس انحراف كو روكنے كا ايك ذريعہ ہونے كى وجہ سے دين اور شريعت سے بڑھ كر عقل اورفطرت كے احكام ميں سے ايك حكم ہے_
گزشتہ بحث كى روشنى ميں ہم نہايت جرا ت كے ساتھ كہہ سكتے ہيں كہ اگر اسلا م، جہادكے لئے تلوار استعمال نہ كرتا تووہ حق اور عدل نيز فطرت اور عقل كا دين ہى نہ ہوتا_ اس طرح نہ صرف معاشرے بلكہ ابد تك كے لئے تمام انسانيت كا خائن ہوتا_ ہم جانتے ہيں كہ فكر ، عقل اور قوت مدافعت پر مبنى سياسست ہى عدل قائم كرنے والے اور ظلم كو مٹانے والے دين ،اسلام كا اصل اصول ہے_
ارشاد بارى تعالى ہے:
(و لقد ارسلنا رسلنا بالبينات و انزلنا معھم الكتاب و
185
الميزان ليقوم الناس بالقسط و انزلنا الحديد فيہ باس شديد و منافع للناس و ليعلم اللہ من ينصرہ و رسلہ بالغيب ان اللہ قوى عزيز) ( حديد /25 )
بے شك ہم نے اپنے رسولوں كو واضح دلائل كے ساتھ بھيجاہے اور ان كے ساتھ كتاب اور ميزان كو نازل كيا تا كہ لوگ انصاف كے ساتھ قيام كريں اور ہم نے لوہے كو بھى نازل كيا ہے جس ميں شديد سختى اور لوگوں كے لئے بہت سے دوسرے فوائدبھى ہيںيہ سب اس لئے ہے كہ خدا يہ ديكھے كہ كون بغير ديكھے اسكى اور اسكے رسول كى مدد كرتاہے اور يقيناً اللہ بڑا صاحب قوت اور صاحب عزت ہے_
اگر دين خيانت كو اپنى عادت اور اصول قرار ديتا، انسانى نسلوں كى مصلحتوں سے تجاہل برتتااور اس كے احكام ميں يہ بہت بڑے نقائص ہوتے تو اس كے قوانين كى انسانوں اور انسانى سماج كو قطعاً ضرورت نہ ہوتى _ پھر تو اسكى راہ ميں قربانى دينے بلكہ اس كى حفاظت كرنے اور دين كى عظمت اور سر بلندى كى خاطر كسى بھى كام كا كوئي معنى اور فائدہ نہ رہتا _ يہيں سے معلوم ہوتا ہے كہ كيوں جہاد كو جنت كے دروازوں ميں سے ايك ايسا دروازہ قرار ديا گيا ہے جسے اللہ نے اپنے خاص اولياء كے لئے كھول ركھاہے_ يہ تقوى كا لباس، اللہ تعالى كى مضبوط زرہ اور قابل اعتماد ڈھال ہے ...(1)_
يہ سب تونظرياتى لحاظ سے ہے_ البتہ رسول اسلام (ص) كے زمانے كے تاريخى حقائق كيا تھے جہاد كے متعلق گفتگو كے دوران اس كى طرف اشارہ كريں گے_
باء :اہل مكہ كے مقابلے ميں اپنا دفاع كرنا ہرمسلمان كا حق تھا كيونكہ انہوں نے مسلمانوں كو ان كے دين سے ہٹانے كے لئے سازشيں كيں اور اللہ كے راستے ميں ركاوٹيں ڈاليں_ اس لئے ان سب كا حق بنتا تھا كہ وہ عقيدہ ، بيان ، فكر اور دعوت الى اللہ كى آزادى كے حصول كے لئے اہل مكہ كے خلاف جنگ كرتے يہ جنگ خصوصاً اس وقت ضرورى ہوجاتى ہے جب دشمن تشدد كے استعمال پر اصرار كرے اور اس كے نيز اس
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو: نہج البلاغہ شرح محمد عبدہ خطبہ جہاد ج 1 ص 63_
186
كے عقائد كے سامنے منطق اور دليل كى كوئي حقيقت نہ ہو _ پس اسلام يہ نہيں چاہتا كہ كوئي جبراً اس كو قبول كرے_اسلام تو يہ چاہتا ہے كہ سب كو عقيدے، فكر ، اور موقف ميں آزادى حاصل ہو _ اس لئے اسلام نے جو علاقے فتح كئے وہاں كے لوگوں كو بعض معاملات ميں اختيار ديا_ ان ميںسے ايك '' قبول اسلام''بھى تھا_ جو كوئي اسلام قبول كرتا وہ پورى رغبت وشوق ، آزادى اور ارادے كے ساتھ نيزمسلمانوں كى طرف سے كسى رسمى سے دباؤ كے بھى بغير قبول كرتا_ بہت سارے علاقوں ميں تو اسلامى فتح كا انتظار بھى نہ كيا گيا_ فقط اسلام كى اطلاع پر ہى لوگ اسلام كے سامنے جھك گئے_
ليكن اس كا مطلب يہ نہيں كہ اسلا م اور مسلمان اپنے خلاف ہر طرح كى سختي،زيادتى اور مسلسل ظلم كے سامنے ہاتھ باندھے ركھيں كہ ظالم ان كا خون چوستے رہيں _ ياان لوگوں كے ہر دباؤ اور فيصلوں كے سامنے جھك جائيں جو ہر حال ميں انكے خلاف ہيں_نيز اس آزادى كا يہ مطلب بھى نہيںكہ مسلمانوں كو اپنے دشمنوں كے مقابلے ميںايسى تيارى بھى بالكل نہيں كرنى چاہئے كہ جس سے وہ اللہ اور اپنے دشمن كو خوف زدہ كرسكيں_ جس اسلام كى طرف مسلمان دعوت ديتے ہيں اور آزادى فكر و نظرسے اسے قبول كرنے كے خواہاں ہيں وہ فقط ايك انفرادى مذہبى اعمال يا تزكيہ نفس جيسے اعمال ہى كا مجموعہ نہيں ہے بلكہ اسلام ايك ايساعمومى نظام حيات ہے جو عالمى سطح پر يكسر تبديليوں كى قيادت كرنے كى مكمل صلاحيت ركھتاہے _ اور ايك ايسا نظام ہے جس ميں سب انسانوں كے حقوق محفوظ ہوں_ يہى وہ بات ہے جس نے اسلام كى وسيع سطح پر حمايت كو يقينى بناياہے_ كيونكہ اسلام كو ان جابر و ظالم اور لالچى افراد سے ٹكر لينى ہے جو اپنى نفسانى خواہشات اور رجحانات كے مطابق لوگوں پر حكومت كرنا چاہتے ہيں _ہاں جب رائے، فكر اور عقيدہ كى آزادى كا حصول صرف طاقت كے استعمال سے ہى ممكن ہو تو پھر سختى اور شدت استعمال كرنے كى ضرورت ہوتى ہے تاكہ معاشرے ميں اسلامى قوانين كے نفاذ كے لئے ايك مناسب فضا مہيا كى جائے نيز حقيقى اسلام، ان حكمرانوں كے اسلام ميں تبديل نہ ہوجائے جو اسلام كو اپنى خواہشات اور مفادات كے مطابق ڈھالنا چاہتے ہيں_ جيسا كہ بعض فرقوں اور مذاہب كے ساتھ ايسا ہى ہوا اور وہ اس شديد بيمارى ميں مبتلا ہوگئے ،نيز اسلامى
187
قانون سازى كا محور كوئي بڑى اور سركردہ شخصيت بھى نہ بننے پائے ورنہ اسلام ايك مردے كى فكر ہوگى جوصرف اور صرف عجائب گھر ميں ركھنے كے قابل ہوگى جس كا تعلق معاشرتى زندگى سے قطعاً نہيں ہوگا(1)
اگر رائے ، فكر اور عقيدہ كى آزادى ہو تو يہ بات دوسروںكے حوصلے كا سبب بنے گى كہ وہ لوگ بھى دائرہ اسلام ميں داخل ہوكرتكليفوں ، اذيتوں ، مختلف قسم كے دباؤ اور اس فتنہ كى آگ سے بھى محفوظ رہيں جو اسلام كى نظر ميں قتل سے زيادہ خطرناك ہے _ پس مسلما ن جب جنگ كرتے ہيں تو وہ اپنے ان حقوق كے دفاع كے لئے جنگ لڑتے ہيں جو اللہ نے ان كے لئے قرار ديئےيں_ اس سلسلے ميں رسول اكرم(ص) كى احاديث بھى ہيں جن كا ذكر بعد ميں آئے گا_نيز قرآن حكيم ميں ارشاد بارى تعالى ہے_
(اذن للذين يقاتلون بانہم ظلموا و ان اللہ على نصرھم لقدير الذين اخرجو من ديارھم بغير حق الا ان يقولوا ربنا اللہ ...) (الحج 39 ، 40)
جن لوگوں سے مسلسل جنگ كى جارہى ہے انہيں ان كى مظلوميت كى بنا پر(جنگ كي) اجازت دى گئي ہے اور يقينا اللہ ان كى مدد پر قدرت ركھنے والا ہے_ يہ وہ لوگ ہيں جو اپنے گھروں سے نا حق نكال ديئے گئے ہيںان كا قصور صرف يہ ہے كہ وہ كہتے ہيں اللہ ہمارا پروردگار ہے_
پس مسلمانوں كو جنگ كى اجازت اس صورت ميں ملى كہ دوسروں نے ان پر جنگ مسلط كردى تھى اور انہيں اپنے گھروں سے بھى نكال باہر كياتھا ليكن اگر ايسى كتابوں كا مطالعہ كيا جائے جن ميں غزوات كا ذكر ہے تو قارى كے ذہن ميں يہ تصور ابھرتاہے كہ اسلام تو قتل و نابودى كا مذہب ہے_ آپ واقدى كى '' فتوح الشام'' كى طرف رجوع كركے ديكھيں _يہ سب كچھ غالباً اس لئے ہے كہ اس ميں بنى اميہ كى شان و شوكت اور اقتدار و غلبے كا ذكر ہے_ بعض محققين نے اس امر كى طرف اشارہ كيا ہے(1)_
---------------------------------------------------------
1) مصنف كا اشارہ شايد كيمونزم كى جانب ہے جس كے متعلق خمينى بت شكن نے گورباچف كے نام اپنے خط ميں پيشين گوئي كردى تھى كہ (دوسرے باطل عقائدو مذاہب كى طرح) يہ بھى تاريخ كے ميوزيم ميں منتقل ہوجائے گا _ اور ہوا بھى يہى اب صرف چند مردہ پرست ہى اس دنيا ميں رہ گئے ہيں جو اسے زندہ ركھنے كى نام كوششوں ميں مصروف ہيں _ مترجم
2)آيت الله سيد مہدى الحسينى الروحاني_
188
جيم: گزشتہ گفتگو كى روشنى ميںيہ بات قابل ذكر ہے كہ نبي(ص) اور مسلمانوںكى سيرت اور عادت يہ تھى كہ وہ دشمنوں كے سامنے نہايت منصفانہ انتخاب ركھتے تھے_ حتى كہ ان پيشكشوں كے بعد بعض مشركين يہ اقرار كرتے تھے كہ اس پيشكش كے بعد اب جنگ پر اصرار ظلم و زيادتى كے علاوہ اور كچھ نہيں ليكن سريہ ابن حجش ميں ابن حضرمى كے قتل كے بعد باقى مشركوں نے ان پيشكشوں كو ٹھكرانا شروع كرديا تھا كيونكہ وہ مسلمانوں سے جنگ كا پختہ ارادہ كرچكے تھے (1)_
حالانكہ وہ ابن حضرمى كے قتل كا بدلہ دو طرح سے لے سكتے تھے_ايك يہ كہ محدود پيمانے پر اس كا بدلہ ليا جاتا دوسرا يہ كہ ديت قبول كرلى جاتى حالانكہ يہ دونوں عمل عربوں كے رسم و رواج كا حصہ تھے اور ان كى اخلاقيات كے لحاظ سے بعيد بھى نہيں تھے _
دال: معاہدے توڑنے والوںكے خلاف قيام كرنااور انہيں اپنى حدود ميں ركھنا كيونكہ يہودى معاہدے توڑتے تھے اور پھر كفار و مشركين مكہ بھى وہ لوگ تھے جو صلح حديبيہ كا معاہدہ توڑ چكے تھے_
ہائ: جنگ كے شعلے بھڑ كانے والوں اورزيادتى كرنے والوں كے مقابلے ميں اپنا دفاع _ جن لوگوں نے مدينہ پر لشكر كشى كى اور لوٹ مار مچائي ان كا پيچھا _
بہر حال ہم ديكھتے ہيں كہ مشركين مكہ نے مسلمانوں كے خلاف مسلسل معركہ آرائي جارى ركھى جبكہ مسلمان صلح حديبيہ تك ہميشہ اپنا دفاع كرتے رہے_ حتى كہ بخارى لكھتے ہيں كہ نبى كريم(صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم) نے غزوہ بنى قريظہ سے پلٹنے كے بعد فرمايا: '' اب ہم ان كے خلاف جنگ كر سكتے ہيں ليكن وہ ہمارے خلاف جنگ نہيں كرسكتے '' _اس كا ذكر انشاء اللہ آئے گا _
كيا اسلام تلوار سے پھيلا؟
گذشتہ مطالب كى روشنى ميں ہمارے لئے واضح ہوجاتاہے : كہ'' اسلام على (ع) كى تلوار سے پھيلا '' كے
---------------------------------------------------------
1)تاريخ طبرى ج/2 ص 131 كامل ابن اثير ج/ 2 ص 116_
189
مقولے كا مطلب ہر گزيہ نہيں ہے كہ حضرت (ع) نے لوگوںكے سر پر تلوار ركھ كر فرمايا ہو كہ اسلام لے آؤ يا قتل كے لئے تيار ہوجاؤ_ بلكہ اس كا مطلب يہ ہے كہ حضرت على (ع) كى تلوار فقط اور فقط اسلام كے دفاع كے لئے اٹھي_ اس تلوار نے دشمنوںكى زيادتيوںكو روكا اور آزادى رائے ، فكر اور عقيدہ كى حفاظت كى اور اسلام كے دفاع ميں اپنا گہرا اثر چھوڑا_
اور چونكہ اسلامى جنگوں كا مقصد انسان كى حفاظت ، اس كى شخصيت كاتحفظ اور آزادى فكر و عقيدہ و رائے كے لئے فضا ہمواركرنا تھا ،اس لئے ان وجوہات كى روشنى ميں ہم ديكھتے ہيں كہ يہ جنگيں ممكنہ طور پر اتنى مختصر تھيں جن سے فقط مقصد حاصل ہوجائے_يہى وجہ ہے كہ انتہائي ضبط نفس اور تقوى كا خيال ركھا جاتا تھا_ يہاں تك كہ خطرناك ترين حالات اور لحظوں ميںبھى ان چيزوں كا لحاظ كيا جاتا تھا_ اسى لئے پيامبر اسلام(ص) كى دس سالہ مدنى زندگى كے مختصر عرصے ميں غزوات اور سريوں پر مشتمل دسيوں جنگوں ميں مؤرخين كے بقول آپ(ص) كى تلوار سے مقتولين كى تعداد ايك ہزار سے تجاوز نہيںكرتى (1) حالانكہ ان جنگوں سے مشركين كا مقصد پورے جزيرة العرب ميں اسلامى حكومت كے نفوذ و قدرت كے زيادہ ہونے نيزاسكى حدود كو اس سے كہيں زيادہ پھيلنے سے روكنا تھا بلكہ سرے سے اسلام كا ہى قلع قمع كرنا تھا_
ہم نے عجلت ميں اس بات كى طرف اشارہ كيا ہے ورنہ جہاد كا موضوع تو بہت زيادہ طول و تفصيل كا طالب ہے_ اس سلسلے ميں ضرورى ہے كہ قرآن حكيم كى آيات ،پيامبر اسلام (ص) اور آئمہ ہدى (ع) كى احاديث ، انكے جہادى موقف اور كوششوں پر گہرى نظر ڈالى جائے_
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو سيد ھادى خسرو شاہى كا مضمون '' سيماى اسلام'' _
|