الصحيح من سيرة النبى الاعظم(ص)
41
تيسري فصل :
ابتدائے ہجرت ميں بعض اساسى كام


43
تمہيد:
مدينہ پہنچنے كے فوراً بعد رسول اكرم (ص) نے بہت سے ايسے بنيادى كام انجام ديئے جو آپ (ص) كى اسلامى دعوت كے مستقبل سے مربوط تھے، يہ كام مختلف نوعيت كے تھے ذيل ميں ہم اختصار كے ساتھ ان كى طرف اشارہ كرتے ہيں_
1: نماز جمعہ كا انعقاد_
2 : مسجد قبا كى تعمير،ان دونوں كا موں كے متعلق ہم پہلے بحث كرچكے ہيں_
3 : مدينہ ميں مسجد كى تعمير _اس بارے ميں ايك عليحدہ فصل ميں بات كريں گے_
4 : ہجرى تاريخ كا آغاز _اس كے لئے بھى ايك عليحدہ فصل مخصوص كى گئي ہے_
5 : مہاجرين و انصار كے درميان بھائي چارہ_
6 : مسلمانوں كے آپس ميں آئندہ تعلقات نيز غير مسلم اقوام كے ساتھ ان كے روابط
كى نوعيت اور حدود كا تعين_
7 : علاقے ميں بسنے والے يہوديوں سے صلح :
اور ان مؤخر الذكر تين امور كے لئے بھى عليحدہ فصل ركھى گئي ہے_
اس سلسلے ميں آنحضرت (ص) نے كچھ اور كام بھى انجام ديئے ، آپ (ص) كى سيرت طيبہ پر روشنى ڈالتے ہوئے ہم ان كى طرف اشارہ كريں گے ، يہاں ہم مؤخر الذكر آپ (ص) كے پانچ كاموں كى وضاحت كرتے ہيں اور ابتدا ہجرى تاريخ كے آغاز سے كرتے ہيں_

44
1_ ہجرى تاريخ كى ابتداء كے متعلق تحقيق
كسى بھى ايسے تمدن كى حيات اور دوسرے گروہوں ، قبيلوں اور قوموں پر اس كے غلبے اور مطلوبہ اہداف تك پہنچنے كے لئے حالات، واقعات اور معاملات كو ضبط تحرير ميں لانا ايك لازمى اور ناگزير امر ہے جو مذكورہ كاموں كا ارادہ ركھتى ہو_ اور يہ مسئلہ اس مسلم امت كے لئے بہت ہى اہميت كا حامل ہوجاتاہے جو الطاف خداوندى اور رضائے الہى كے سائے ميں پھل پھول رہى ہو اور زمانوں بلكہ طويل دورانيے تك كے لئے تمام انسانوں كے تمام امور اور حالات كو دگرگوں كرنے كا ارادہ ركھتى ہو_ يہيں سے يہ بات بالكل واضح اور بديہى ہوجاتى ہے كہ رسول (ص) خدا نے فورى طور پر پہلا كام ہى تاريخ وضع كرنے كا كيا ہوگا _ بلكہ تعمير مسجد كى طرح يہ بات بھى آپ(ص) كى اولين ترجيحات ميں ہونى چاہئے تھي_ ليكن افسوس كى بات يہ ہے كہ كچھ در پردہ ہاتھوں نے اس اہم ترين واقعہ كى بھى پردہ پوشى كرنى چاہي_ اس لئے اس واقعہ پرتاريخى لحاظ سے بحث كرنا بھى ہمارے لئے ضرورى ہوگيا ہے_ جس كے نتيجے ميں علمى دلائل كے ساتھ ہمارے لئے يہ قطعى طور پر ثابت ہوجائے گا كہ اس ہجرى تاريخ كو رسول (ص) كريم نے ہى وضع كى ہے _ اور آپ(ص) نے ہى كئي بار اور كئي موقعوں پر تاريخ گذارى كى ہے _ اس لئے ہم يہ سب سمجھنے كے لئے اس بحث كى ابتداء ہى اس سوال سے كرتے ہيں كہ :

كس شخص نے سب سے پہلے ہجرت نبويہ كے ساتھ تاريخ لكھى ؟
تمہيد:
مؤرخين كہتے ہيں كہ جس شخص نے سب سے پہلے ہجرت نبويہ كے ساتھ تاريخ لكھى وہ خليفہ ثانى عمر بن الخطاب ہے _اور اكثر مؤرخين كہتے ہيں كہ تاريخ كے لئے ہجرت كو مبدء اور بنياد قرار دينا حضرت على ابن ابى طالب (ع) كى رہنمائي سے تھا (1) اور بعض مؤرخين كہتے ہيں كہ مشورہ دينے والے فقط حضرت على (ع) نہيں تھے
---------------------------------------------------------
1) تاريخ عمر بن الخطاب لابن الجوزى ص 76 ، الكامل لابن الاثير مطبوعہ صادر ج/2 ص 526، تاريخ اليعقوبى ط صادر ج/2 ص 145 ، التنبيہ والاشراف ص 252 ، محاضرة الاوائل ص 28 ، تہذيب تاريخ ابن عساكر ج/1، ص 23 ،فتح البارى ج / 7 ، ص 209 ، تاريخ الخلفاء ص 132 ، 136 ، ص 23 و138 از تاريخ بخارى ،بحارالانوار ج /58 ص 350 ، 351 ، سفينةالبحار ج/2 ص 641 المناقب لابن شہر آشوب ج/2 ص 144، البحارج/40 ص218،ا حقاق الحق ج/8 ص 220 على و الخلفاء ص 139،141 ، اعلان بالتوبيخ ص 80 و 81 والوسائل سيوطى ص 129_

45
بلكہ ان كے ہمراہ كچھ اور صحابہ بھى تھے (1) اور تيسرے گروہ نے يہ روايت نقل كى ہے كہ كچھ صحابہ نے مشورہ ديا تھا ليكن مشورہ دينے والوں كا نام ذكر نہيں كيا (2)_
اور چوتھا گروہ مشورہ كے ذكر سے خاموش ہے اور فقط اسى پر اكتفا كرتاہے كہ حضرت عمر سب سے پہلے شخص ہيں جنہوں نے ہجرى تاريخ لكھى (3)_

تاريخ گذارى كى حكايت مؤرخين كى زباني:
مؤرخين نے وضع تاريخ كے سبب كے متعلق مختلف حكايتيں نقل كى ہيں ليكن ہم نے ابن كثير سے منقول واقعہ كا انتخاب كيا ہے البتہ در ميان ميں بعض وضاحتوں كو بريكٹ ميں لكھاہے، اور ان كے منابع كى طرف اشارہ بھى كرديا ہے _
ابن كثير كہتاہے كہ واقدى كا قول ہے كہ اسى سال (يعنى 16 ويں ،17 ويں يا 18 ويں (4) )سال كے ربيع الاول ميں حضرت عمر بن الخطاب نے تاريخ لكھى اور يہ پہلى شخصيت ہے كہ جس نے تاريخ لكھي_ البتہ اس كى وجوہات كے متعلق ميں كہتاہوں كہ ہم نے سيرت عمر ميں اس كے سبب كو ذكر كيا ہے اور وہ يہ كہ حضرت عمر كے پاس ايك سند لائي گئي جس ميں ايك شخص كے لئے دوسرے شخص كے ذمہ قرض لكھا ہوا تھا كہ جسے شعبان ميں ادا كيا جانا تھا تو اس نے كہا كہ كون سا شعبان ؟ اس سال كا ، گذشتہ سال كايا آئندہ سال كا؟
پھر ( اصحاب النبى (ص) ) كو جمع كيا اور كہا كہ لوگوں كے لئے كوئي ايسى تاريخ معين كريں كہ جس سے ان كو
---------------------------------------------------------
1) البداية والنھاية ج/7 ص 74 ، الوراء والكتاب ص 20 و مآثر الانافہ ج3 ص 336_
2) صبح الاعشى ج/6، ص 241، مآثر الانافة ج3ص36 ، فتح البارى ج7ص209، كامل ابن ج 1،ص10_
3) الاستيعاب (حواشى الاصابة) ج2 ، ص 460، المحاسن والمساوى ج2 ص 68 ، تاريخ الخميس ج/1 ص 338 ، اور ج/2 ص 241،تہذيب التھذيب ج/7 ص 440 ، ماثر الانافة ج1،ص 92 ، تحفة الناظرين شر قاوى ( حواشى فتوح الشام) ج/ 2 ص 62، صفة الصفوة ج/1 ص 276 ، طبقات ابن سعد ج 3 ، حصہ اول ص 202 تاريخ ابن الوردى ج/1 ص 145 الاوائل للعسكرى ج/1 ص 223 تاريخ طبرى ج/3 ص 277 ، محاضرات الراغب ج1 ص 105 ، الانس الجليل ج 1ص188 الاعلاق النفيسہ ص 199 بحارالانوار ج58 ص 349 و 350 ، نيز ملاحظہ ہو: الاعلان بالتوبيخ ص 79 و نفس الرحمان ص 44_
4)الوزراء والكتاب ص 20 نيز البدايہ والنہايہ ج3 ص 206 و 207_

46
اپنے قرض كى ادائيگى كا وقت معلوم ہو _ كہا جاتاہے كہ كچھ حضرات (يا ہرمزان) (1) نے كہا كہ ايرانيوں كى طرح تاريخ لكھى جائے جيساكہ وہ اپنے بادشاہوں سے تايخ لكھتے ہيں ، جب ايك بادشاہ ہلاك ہوجاتاہے تو بعد ميں آنے والے بادشاہ كى تاريخ حكومت سے تاريخ لكھتے ہيں ليكن اسے اصحاب نے ناپسند كيا ، كچھ لوگوں نے ( جو يہود يت سے مسلمان ہوئے تھے) (2)كہا:''اسكندر كے زمانہ سے روم كى تاريخ لكھى جائے''_ اسے بھى طولانى ہونے كى وجہ سے ناپسند كيا گيا اور كچھ لوگوں نے كہا كہ نبى اكرم (ص) كى ولادت سے تاريخ لكھى جائے اور كچھ كہتے تھے كہ آپ (ص) كى بعثت سے ليكن حضرت على (ع) ابن ابى طالب اور كچھ صحابہ نے مشورہ ديا كہ آپ (ص) كى مدينہ كى طرف ہجرت سے تاريخ لكھى جائے كيونكہ يہ واقعہ ہر شخص كے لئے آپ (ص) كى ولادت اور بعثت كى نسبت زيادہ واضح ہے _پس حضرت عمر اورديگر صحابہ نے اس كو پسند كيا اور حضرت عمر نے حكم ديا كہ نبى (ص) اكرم كى ہجرت سے تاريخ لكھى جائے (3) _
اور حاكم نے سعيد بن مسيب سے روايت كى ہے ( اس روايت كو حاكم اور ذہبى نے صحيح قرار ديا ہے) كہ اس نے كہا ہے كہ '' حضرت عمر نے لوگوں كو جمع كيا اور ان سے پوچھاكہ كس دن سے تاريخ لكھى جائے تو حضرت على (ع) بن ابى طالب نے فرمايا كہ جس روز نبى اكرم(ص) نے ہجرت فرمائي تھى اور شرك كى زمين كو چھوڑ ا تھا
---------------------------------------------------------
1) صبح الاعشى ج/6 ص 241 ، اس ميں لكھاہے كہ حضرت عمرنے اسے خط لكھا اور مشورہ چاہاالبحار ج/58 ص 349 ، 350 ، سفينة البحار ج/2 ص 641، تاريخ ابن الوردى ج /1 ص 145 ، الانس الجليل فى اخبار القدس و الخليل ج/1، ص 187 ، الخطط للمقريزى ج/1 ص 284 ، اور اس ميں ہے كہ حضرت عمر نے اس سے استدعا ء كى تھى _
2) الاعلان با لتوبيخ ص 81 ، البحار ج / 58 ، ص 350 ، اور نزھة الجليلس ج/1 ص 22 ميں تاريخ ابن عساكر سے نقل كيا گيا ہے كہ نصارى اسكندر كى تاريخ سے لكھتے تھے يہاں مؤلف كہتے ہيں كہ پھر تاريخ عيسوى كہاں تھى ، اور كب ظاہر ہوئي ؟ جواب: جيسا كہ كہتے ہيں كہ تقريباً چوتھى صدى ہجرى ميں ظاہر ہوئي ہے بلكہ ان آخرى صديوں ميں ظاہر ہوئي ہے_
3) البداية و النہاية ج / 7 ص 73 ، 74 نيز ج3 ص 306، تاريخ عمر بن الخطاب ابن جوزى ص 75، 76 تہذيب تاريخ ابن عساكر ج/1 ص 22 ، 23 ، شرح نہج البلاغہ للمعتزلى ج/12 ، ص 74 ، على و الخلفاء ص 240 ، الاعلان بالتوبيخ ص80 ، 81، منتخب كنز العمال ، حواشى مسند احمد ج / 4 ص 67 ، الكامل لابن الاثير ج/1 ص 10 البحار 58 ص349 نزھة الجليس ج1ص 21 طبرى ج2ص 388 ، الوزراء والكتاب ص 20 ، فتح البارى ج7ص209 ، صبح الاعشى ج6ص241 ابن حاجب نعمان سے ذخيرہ الكتاب ميں روايت ہے كہ ابوموسى نے حضرت عمر كو لكھا كہ آپ كى ہمارے پاس كچھ تحريرى اسناد آئي ہيں جو شعبان كى ہيں ہم نہيں جانتے يہ كونسا شعبان ہے گذشتہ يا آنيوالا تو حضرت عمر نے اصحاب كو جمع ليا ... الاوائل ابوہلال عسكرى ج1ص243 كنز العمال ج10 ص 195 از مستدرك و حصہ ادب صحيح بخارى و ص 193 از ابن ابى خيثمہ ، نيز الاعلان بالتوبيخ 79_

47
اس روز سے _پس حضرت عمر نے ايسا ہى كيا_ يہ حديث صحيح السند ہے ليكن شيخين نے اس كو درج نہيں كيا''(1)_
اور يعقوبى نے 6 1 ھ كے واقعات ميں لكھا ہے : '' اور اسى سال خطوط پر تاريخ لكھى گئي _ جبكہ وہ يہ چاہتے تھے كہ مولد النبى (ص) سے تاريخ لكھيں _اور پھر بعثت سے لكھنے كا ارادہ كيا ليكن حضرت على (ع) بن ابى طالب نے مشورہ ديا كہ ہجرت سے تاريخ لكھى جائے '' (2)_
ان كے علاوہ اور بھى نصوص پائي جاتى ہيں جو اس بات كى تاكيد كرتى ہيں كہ حضرت عمر ہى وہ پہلى شخصيت ہے جس نے تاريخ ہجرى اسلامى كو وضع كيا _

بہترين نظريہ
ليكن اس قول كے صحيح ہونے ميں ہميں شديد شك ہے ہمارى رائے يہ ہے كہ ہجرى تاريخ نبى اكرم (ص) كے زمانے سے ہى وضع كى گئي ہے اور خود نبى اكرم (ص) نے متعددبار مختلف مناسبتوں سے يہ تاريخ لكھى ہے اور جو كچھ حضرت عمر كے زمانے ميں ہوا ہے وہ فقط يہى ہے كہ ربيع الاول كے بجائے محرم كو سال كى ابتداء قرار ديا ہے جيسا كہ صاحب بن عباد نے بھى اس بات كى طرف اشار ہ كيا ہے(3)_
اور اس سلسلے ميں بھى مؤرخين كے درميان اختلاف ہے ، كچھ مؤرخين قائل ہيں كہ انہوں نے پہلے سال كے محرم كو ہجرى سال كى ابتداء قرار ديا تھا اور يہ جمہور كا نظريہ ہے، اور كچھ مؤرخين كہتے ہيں كہ انہوں نے دوسرے سال كے محرم كو ہجرى سال كى ابتداء قرار ديا تھا اور اس سے پہلے كے مہينوں كو شمار نہيں كيا اور ا س كى بيہقى نے حكايت كى ہے اور يعقوب بن سفيان الفسوى اسى كا قائل ہے(4)_
---------------------------------------------------------
1) مستدرك الحاكم ج/3 ص14 ، تلخيض المستدرك للذھبى ( اس صفحہ كے حواشى ميں ) الاعلان بالتوبيخ ص 80 فتح البارى ج7 ص 209 ; تاريخ الطبرى ط ا لمعارف ج/2 ، ص 391 اور ج/ 3 ص 144 ، تاريخ عمر بن الخطاب ص 76 ، تہذيب تاريخ ابن عساكر ج/1 ص 23 ، منتخب كنزالعمال (حاشيہ مسند)ج/4 ص 67 ، على و الخلفاء ص 239 ، و 240 ، احقاق الحق ج /8 ص 219 ، الخطط و الآثار ج/1 ص 284 ، الشماريخ للسيوطى ص 4 مطبوعہ ليڈ ن و التاريخ الكبير للبخارى ج/1 ص 9 اور الكامل ج/1 ص 10 ، ط صادر كنز العمال ج10 ص 193 و 192_
2) تاريخ اليعقوبى طبع صادر ج/ 2 ص 145_
3) عنوان المعارف و ذكر الخلائف ص 11_
4) البداية والنھاية ج/3 ص 94_

48
محرم كا مشورہ كس نے ديا ؟
ليكن ربيع الاول كى بجائے محرم كو ابتدائے سال ہجرى قرار دينے كا مشورہ كس شخص نے ديا؟ تو اس سلسلہ ميںبھى روايات ميں اختلاف پايا جاتاہے ، كہا گيا ہے كہ يہ حضرت عثمان بن عفان كے مشورہ سے تھا (1) يہ بھى كہا گيا ہے كہ بلكہ يہ خود حضرت عمر كى رائے تھي(2) اور كچھ كہتے ہيں كہ عبدالرحمن بن عوف نے رجب كا مشورہ ديا تو حضرت على (ع) نے اس كے مقابلہ ميں محرم كا مشورہ ديا تو اسے قبول كرليا گيا (3)_
اورديار بكرى و غيرہ قائل ہيں كہ حضرت عمر نے حضرت على (ع) اور حضرت عثمان كے مشورہ دينے كے بعد محرم سے ابتداء كى (4)_
سخاوى اور كچھ دوسرے حضرات قائل ہيں كہ '' ... تمام روايات و آثار سے استفادہ ہوتاہے كہ عمر حضرت عثمان اور حضرت على (ع) نے محرم كا مشورہ ديا تھا (5) اور كتاب اوائل ج/1 ص 223 ميں كلام عسكرى سے معلوم ہوتاہے كہ حضرت عمر ہى ہيں جنہوں نے سال كى ابتداء محرم قرار دينے كا مشورہ ديا تھا كہ امن والے مہينے ايك ہى سال ميں جمع ہوجائيں_
ليكن ہميں بہت بعيد معلوم ہوتاہے كہ حضرت على (ع) نے ربيع الاوّل كو چھوڑ دينے اور محرم كو ابتداء قرار دينے كا مشورہ اس لئے ديا ہو كہ محرم عربوں كے نزديك سال كا پہلا مہينہ شمار ہوتاہے (6)بلكہ ہم اس كے خلاف يقين ركھتے ہيں_ حضرت على (ع) تو اپنى پورى زندگى ميں ربيع الاول كو ابتداء سال قرار دينے پر مصرّ تھے اور يہ فقط آپ كى رائے نہيں تھى بلكہ بہت سے نيك و صالح مسلمانوں اور صحابہ كرام كى بھى يہى رائے تھى اور اس سلسلہ ميں ہم مندرجہ ذيل امور كو دليل سمجھتے ہيں كہ جن كو مجموعاً ملاحظہ كيا جانا چاہيے_
---------------------------------------------------------
1) نزھة الجليس ج/1 ص 21 ، فتح البارى ج / 7 ص 209 ، الاعلان بالتوبيخ ص 80 ، منتخب كنز العمال (حاشيہ مسند احمد) ج / 4 ص 67 ، الشماريخ ص 10 ، ط 1971، كنز العمال ج17 ص 145 از ابن عساكر و ج10 ص 193 از ابوخيثمہ_
2) الاعلان بالتوبيخ ص 79 ، الوزراء والكتاب ص 20 ، فتح البارى ج/7 ص 209 نيز مآثر الانافہ ج3 ص 337
3) الاعلان بالتوبيخ ص 81 ، ط القاھرہ اور ص 82 ، ميں لكھا ہے كہ الفردوس ميں ديلمى اور اس كے بيٹے دونوں نے اس واقعہ كو على (ع) سے روايت كى ہے، احقاق الحق ج/8 ص 220_
4) تاريخ الخميس ج/1 ص 338 ، وفاء الوفاء ج/1 ص 248_
5) الاعلان بالتوبيخ لمن يذم التاريخ ص 80 ، ارشاد السارى ج/6 ص 234 ، فتح البارى ج/7 ص 209 و ص 210_
6)البداية والنہاية ج3 ص 207 ، بحارالانوار ج58_

49
1_ پہلے گزر چكاہے كہ آپ نے مشورہ ديا تھا كہ يوم ہجرت يا جس دن نبى اكرم (ص) نے شرك كى زمين كو چھوڑا اس دن سے تاريخ لكھى جائے جيسا كہ ابن مسيب كى روايت ميں يہ صراحت موجود ہے اور يہ ہجرت سب كو معلوم ہے كہ ربيع الاول كے مہينے ميں ہوئي_
2_ اہل نجران كے ساتھ معاہدہ ميں يہ عبارت امير المؤمنين (ع) نے لكھى تھى _
عبداللہ(1) بن ابى رافع نے 10 جمادى الثانى 37 ھ نبى اكرم (ص) كے مدينہ ميں داخل ہونے كے دن سے سينتيس سال بعد تحرير كيا ہے(2)_اور واضح ہے كہ رسول (ص) خدا ربيع الاول كے مہينے ميں مدينہ ميں داخل ہوئے_
دوسرے صحابہ كى بہ نسبت ہم كہتے ہيں كہ:
1_ سھيلى و غيرہ كى روايت كے مطابق مالك بن انس قائل ہے كہ ''اسلامى سال كى ابتداء ربيع الاول سے ہے چونكہ يہى وہ مہينہ ہے كہ جس ميں نبى اكرم (ص) نے ہجرت فرمائي تھي''(3)_
2_ سنحاوى نے اصمعى سے نقل كيا ہے كہ انہوں نے ربيع الاول يعنى ''ماہ ہجرت'' سے تاريخ لگائي(4) اور اس طرح زھرى سے بھى نقل كيا گيا ہے_
3 _ جہشيارى كہتاہے كہ ايك شاذ روايت ميں آياہے كہ جب رسول (ص) خدا نبوت كے چودہويں سال پير كے روز بارہ ربيع الاول كو ہجرت كركے مدينہ پہنچے تو تاريخ گذارى كا حكم ديا (5)_
5_ ہجرت كے پانچويں سال كے وسط تك صحابہ ربيع الاول سے ہجرى سال كے مہينوں كو شمار كرتے تھے (اور بعد ميں آئے گا كہ مؤرخين نے بھى صحابہ كى پيروى كى ہے)_
ان تمام باتوں كو مدّ نظر ركھتے ہوئے ہم جان سكتے ہيں كہ حضرت على (ع) نے كبھى بھى حضرت عمر كو مشورہ نہيں ديا كہ محرم كو ابتدائے سال ہجرى قرار ديا جائے بلكہ آپ ان لوگوں ميں سے تھے جو اصرار كرتے تھے كہ
---------------------------------------------------------
1)ظاہراً عبيداللہ ہے_
2)الخراج لابى يوسف ص 81 ، جمھرة رسائل العرب ج/1 ص 82 ،شمارہ نمبر 53_
3) البداية والنھاية ج/3 ص 207 ، اور اسى طرح اس كى طرف ج/4ص94 ميں بھى اشارہ كيا ہے_
4) الاعلان بالتوبيخ لمن يذم التاريخ ص 78_
5)الوزراء والكتاب ص 20_

50
ابتدائے سال ربيع الاول ہى كو رہنے ديا جائے كہ جس ميں نبى اكرم (ص) مكہ سے خارج ہوئے يا غار سے نكلے يا آپ(ص) كے مدينہ ميںداخل ہونے كے پہلے دن كو ابتدائے تاريخ رہنے ديا جائے جيسا كہ بہت سے مسلمان و صحابہ بھى اس تبديلى پر راضى نہيں تھے ليكن دوسرے گروہ نے غلبہ حاصل كرليا_
اس بات كى طرف بھى متوجہ كر تے چليںكہ نبى (ص) كريم كے مدينہ ميں داخل ہونے كے دن كو تاريخ كى ابتداء قرار دينے پر حضرت على (ع) كے اصرار والى روايت اس شخص كے قول كى تائيد كرتى ہے جو قائل ہے كہ نبى اكر م (ص) ربيع الاول كى پہلى تاريخ كو مدينہ ميں داخل ہوئے اوراس كے متعلق كچھ گفتگو آئندہ بھى آئے گي_ اگر چہ اس بحث ميں ہمارا اصلى مقصد يہ نہيں بلكہ يہاں پر ہمارا اصل مقصد يہ بحث كر نا ہے كہ كس شخص نے سب سے پہلے ہجرى سال كے ساتھ تاريخ لكھى اور ہم كہہ چكے ہيں كہ ہمارا نظريہ يہ ہے كہ نبى اكرم (ص) نے سب سے پہلے ہجرت كے ساتھ تاريخ لكھي_

اس نظريہ كے حامى حضرات :
اگر چہ بہت سے حضرات اس نظريہ ميں ہمارے ساتھ موافقت نہيںركھتے اور بعض اس بارے ميں كوئي قطعى حكم لگانے ميں تردد كا شكار ہيں_ اور بعض كى باتوں سے پتہ چلتاہے كہ قول مشہور كى طرف رجحان ركھتے ہيں ليكن ان سب چيزوں كى بازگشت ايك ہى امر كى طرف ہے اور وہ يہ كہ اس سلسلہ ميں قطعى نظريہ پيش كرنے كيلئے وہ حضرات ضرورى مقدار ميں نصوص كے وجود سے بے خبر ہيں اور مؤرخين اور راويوں كے زبانوں پر جو مشہور ہے اسى پر قناعت كے عادى ہوگئے ہيں بہر حال پھر بھى يہ حضرات ہمارے نظريہ كے موافق ہيں :سيد عباس مكى نزھة الجليس ميں _( جيسا كہ بعد ميں اس كى عبارت كا ذكر آئيگا)_ اور اسكوسيوطى نے ابن القماح سے ( اس نے) ابن الصلاح سے اور اس نے ابن مجمش الريادى سے نقل كيا ہے (اسكا ذكر بھى آئے گا) البتہ صاحب المواھب نے كہا ہے كہ '' نبى اكرم (ص) نے تاريخ لكھنے كا حكم ديا اور ہجرت كے وقت سے تاريخ لكھي'' _زرقانى كہتاہے كہ '' اسى كو حاكم نے الاكليل ميں زھرى سے مفصلاً روايت كياہے جبكہ قول

51
مشہوراس كے برخلاف ہے كہ حضرت عمر كے زمانہ ميں ايسا ہوا ہے جيسا كہ حافظ نے كہا ہے(1)'' اس كو اصمعى و غيرہ سے بھى نقل كيا گيا ہے جيسا كہ بعد ميں آئے گا_
صاحب بن عباد كہتاہے كہ '' آپ (ص) بروز سو مواربارہ ربيع الاوّل كو مدينہ ميں داخل ہوئے اور تاريخ ہجرى اسى دن سے شروع ہوئي ليكن پھر اسے محرم سے شمار كيا گيا (2)_
ابن عساكر كہتاہے كہ ''يہى قول نہايت ہى مناسب ہے'' سيوطى نے بھى ان بعض امور كےساتھ اس كى بات تائيد كى ہے جو بعد ميں ذكر ہوں گے (3)_
قسطلانى نے المواہب اللدنيہ ج1 ص 67 ميں اورمغلطائي نے اپنى كتاب سيرت ص 35 ، 36 ، ميں لكھا ہے '' نبى اكرم (ص) نے تاريخ لكھنے كا حكم ديا اور يہ تاريخ ہجرت سے لكھى گئي_ اورابن الجزّار كہتاہے كہ يہ سال عام الاذن كے نام سے مشہور ہے جبكہ ايك قول يہ ہے كہ سب سے پہلے حضرت عمر نے تاريخ لكھى اور سال ہجرى كو محرم سے شماركيا '' علاوہ ازيں ان دس سالوں ميں سے ہر ايك كو ايك خاص نام كے ساتھ موسوم كيا گيا ہے اور پہلے سال كو مسعودى كى التنبيہ والاشراف ميں بھى عام الاذن كہا گيا ہے_(4) علامہ مجلسى كا كہنا ہے كہ ہجرت كو مبدا تاريخ قرار دينا در اصل حديث نبوى سے منسوب اور وحى الہى سے حاصل شدہ، كلام جبرائيل سے ماخوذ ہے (5)_

سہيلى كى بات:
سہُيلى اس بات پر مصر ہے كہ قرآن مجيد ميں ہجرى تاريخ كا حكم نازل ہوا ہے_ اس كى بات كا خلاصہ يہ ہے كہ اگر تاريخ كے لئے ہجرت كو مبدا قرار دينے پر صحابہ كا اتفاق اس وجہ سے ہے كہ انہوں نے اس چيز كو
---------------------------------------------------------
1) التراتيب الادارية ج/1 ص 181 ، المواھب اللدنيہ ج/1 ص 67_
2) عنوان المعارف و ذكر الخلائف ص11_
3) الشماريخ فى علم التاريخ للسيوطى ج10 ط 1971_
4)نفس الرحمان ص 44 نيز ملاحظہ ہو: الاعلان بالتوبيخ ص 82_
5)ملاحظہ ہو بحارالانوار مطبوعہ مؤسسہ الوفاء ج55 ص 351 نيز ملاحظہ ہو : المناقب ابن شہر آشوب ج 2 ص 144 ، بحارالانوار ج40 ص 218و على الخلفاء ص 241_

52
قرآن سے اخذ كيا ہے تو يہ اچھا استفادہ ہے اور ان كے متعلق ہمارا گمان خير بھى يہى ہے اور اگر ان كى اپنى ذاتى رائے اور اپنا اجتہاد تھا تو پھر بھى اچھى رائے اور اجتہاد ہے اور قرآن كريم نے ان كے ايسا كرنے سے پہلے اس كے صحيح ہونے كى طرف اشارہ فرمايا ہے:
آيت مجيدہ ہے:
(و لمسجد اسس على التقوى من اول يوم احق ان تقوم فيہ) (توبہ /108)
وہ مسجد جس كى بنياد پہلے دن سے تقوى پر ركھى گئي ہے وہ اس كى زيادہ حقدار ہے كہ تم اس ميں (نماز كے ليے) قيام كرو _
اس آيت ميں '' اول يوم ''سے مراد تمام دنوں ميں سے پہلا دن قطعاً نہيں اور اس طرح اس آيت ميں ظاہراً كوئي ايسا لفظ بھى موجود نہيں كہ جس كى طرف يوم مضاف ہو بس لفظ يوم كى اضافت ضمير كى طرف متعين ہوجائے گى اور يہ معقول نہيں كہ كوئي شخص يہ كہے كہ ميں نے پہلے دن انجام ديا مگر يہ كہ سال يا مہينہ يا كسى معلوم تاريخ و دن كى طرف اضافت دے_ (يعنى اسے يہ كہنا ہوگا كہ ميں نے فلاں سال كے يا مہينے كے پہلے دن يہ كام انجام ديا ہے_مترجم)
اور يہاں پر كوئي حاليہ يا لفظى قرينہ بھى نہيں مگر يہ كہ اصل عبارت اس طرح ہو_''من اول يوم حلول النبي(ص) المدينة '' (نبي(ص) كے مدينہ پہنچنے كے پہلے دن سے ہي ...) اور وہى تاريخ ہجرى كا پہلا دن ہے _بعض نحويوں كا يہ كہنا كہ اصل عبارت ''من تاسيس اول يوم'' ہے ، كيونكہ ''من '' زمان پر داخل نہيں ہوتا، يہ صحيح نہيں اس لئے كہ اس تقدير كى بناء پر بھى زمان كو مقدر ماننا ضرورى ہے پس اس طرح كہا جائے گا '' من وقت تاسيس'' پس لفظ تاسيس كو مقدر ماننا كوئي فائدہ نہيں ديتا علاوہ ازيں لفظ ''من'' زمان و غير زمان دونوں پر داخل ہوتاہے _ بطور مثال اللہ تعالى ہى كا ارشاد ہے ''من قبل و من بعد'' (1) يہاں تك سہيلى كي
---------------------------------------------------------
1) الروض الانف ج/2 ص 246 ط1972ء ، ارشادالسارى ج/6 ص 234 ، فتح البارى ج/7 ص208 و ص 209 ، وفاء الوفاء ج/1 ص 248_ نيز اس بات كا اشارہ البدايہ والنہايہ ج3 ص 207 ميں بھى ہے_

53
بات كا خلاصہ ختم ہوا_ الكتانى كہتاہے كہ حافظ نے فتح البارى ميں سہيلى كے كلام كے بعد كہا ہے اور ''من اول يوم''سے مراديہ ذہن ميں آتاہے كہ جس دن نبى اكرم (ص) اور ان كے اصحاب مدينہ ميں داخل ہوئے(1)
ليكن ابن منير كى رائے يہ ہے كہ سھيلى كا كلام تو تكلف اور انحراف ہے اور متقدمين كى تقدير سے خارج ہے چونكہ انہوں نے ''من تاسيس اول يوم'' كى تقدير كو ذكر كيا ہے يعنى اس پہلے دن سے ہى جس دن مسجد كى تاسيس ہوئي ہے اور عربيت اسى كا اقتضاء كرتى ہے اور قواعد اس كى شہادت ديتے ہيں_
الكتانى كہتاہے كہ سہيلى كا كلام ظاہر ہے اور اگر اس پر انصاف سے غور كريں تو ديكھيں گے كہ حق بھى يہى ہے_ اسى لئے شہاب الدين الخفاجى نے اپنى كتب عنايت القاضى اور كفاية القاضى ميں اسے پسندكرتے ہوئے اسى پر اكتفا كيا ہے (2)_
اور ياقوت الحموى كہتاہے كہ '' من اول يوم ''سے مسجد قبا كى تعمير والادن مراد ہے چونكہ دارالہجرة (مدينہ) ميں نبى اكرم (ص) كے داخل ہونے كے پہلے دن ہى اس كى بنياد ركھى گئي تھى اور وہى دن تاريخ ہجرى كا پہلا دن ہے اور چونكہ خداوند متعال علم ركھتاتھا كہ يہى دن تاريخ (ہجري) كا پہلا دن قرار پائے گااس لئے اس دن كو '' اول يوم ارخ فيہ'' (يعنى جس ميں تاريخ لكھى گئي ) كے نام سے موسوم كيا گيا يہ بعض فضلاء كا قول ہے_ اور بعض قائل ہيں كہ يہاں پر مضاف مقدر ہے اور اصل عبارت يوں ہے''تاسيس اول يوم''ليكن پہلى بات بہتر ہے''(3) علاوہ ازيں مذكورہ آيت كى تفسير ميں ابن عباس سے وہى كچھ نقل كيا گيا ہے جو پہلے سہيلى سے نقل كيا جاچكاہے(4)_
اگر ان كى بات صحيح ہے تو مناسب يہى لگتا ہے كہ خود نبى اكرم (ص) نے سب سے پہلے آيت كے مقصود پر عمل كرتے ہوئے سبقت فرمائي ہوگى _يہ اب تك كى بحث كا نتيجہ ہے اور اگر يہ كہا جائے كہ جو كچھ سھيلى و غيرہ
---------------------------------------------------------
1) فتح البارى ج/7 ص 209_
2) التراتيب الادارية المسمى ، بانظام الحكومة النبوية ج/1 ص 181 ، 182 _
3) معجم البلدان ج/5 ص 124_
4) تنوير المقباس ( حاشيہ در المنثور) ج2 ص224_

54
نے ذكر كيا ہے و ہ بادى النظر ميں بعيد ہے تو ہم جواب ديں گے كہ كم سے كم آيت شريفہ كے معنى ميں ديئے جانے والے احتمالات ميں سے ايك احتمال يہ بھى ہے اگر چہ متعين نہ ہو اور ہم نے اسے بطور تائيد ذكر كيا ہے نہ بطور استدلال _
ہمارا نظريہ يہ ہے كہ نبى اكرم(ص) نے سب سے پہلے ہجرت كے ساتھ تاريخ لكھى اسكے دلائل مندرجہ ذيل ہيں_
1_ زہرى سے روايت ہے كہ جب ہجرت كركے نبى اكرم (ص) مدينہ ميں تشريف لائے تو تاريخ لكھنے كا حكم ديا پس ربيع الاول ميں تاريخ لكھى گئي (1)_
اور زہرى سے ايك اور روايت ميں ہے كہ تاريخ (ہجري) كى ابتداء نبى اكرم (ص) كے ہجرت كركے آنے كے دن سے ہے(2)_
قلقشندى كہتاہے كہ'' اس بناء پرتاريخ كى ابتداء عام الھجرة(ہجرت كے سال) سے ہوئي ہے'' (3) _ اور اس كے علاوہ دوسرے حضرات كا كلام پہلے گزر چكا ہے اور كچھ كے كلام كو بعد ميں ذكر كريںگے_
ليكن الفتح و غيرہ ميں عسقلانى و غيرہ نے اس حديث كو خبرمعضل (پيچيدہ اور مشكل) قرار دياہے اور كہا ہے كہ قول مشہور اس كے برخلاف ہے (4)_
اورجہشيارى نے شايد اسى بناپر اسے خبر شاذ قرار ديا ہے (5)_
---------------------------------------------------------
1) فتح البارى ج/7 ص 208،ارشادالسارى ج/6ص233،التنبيہ والاشراف ص252، تاريخ الطبرى مطبوعہ دارالمعارف ج/2 ص 388 ، نزھة الجليس ج/1 ، ص 21 ، مناقب آل ابى طالب ج/2 ص 142، البحار ج/40 ص 218 عنہ، على والخلفاء ص 241 ، عن البحار،صبح ا لاعشى ج/6ص 240، التراتيب الادارية ج/1 ص 180 ، آخرى دونوں نے اس كو نحاس سے صناعت الكتاب ميںسے نقل كيا ہے تاريخ الخميس ج/1 ص 338 ، الشماريخ فى علم التاريخ ص 10، ط 1971، عن ابن عساكر عن يعقوب بن سفيان وفاء الوفاء للسمھودى ج/1 ، ص 248 ، المواھب اور زرقانى وغيرہ نے حاكم كى كتاب (الاكليل سے) مفصلاً نقل كيا ہے،الكامل ابن الاثير ج/1 ، ص 10مطبوعہ صادر ،المواھب اللدنيہ ج/1 ص 67 ميںاس كو ذكر كيا ہے ليكن زہرى كى طرف نسبت نہيں دى نيز ملاحظہ ہو الاعلان بالتوبيخ ص 78_
2) الشماريخ فى علم التاريخ ص 10_
3) صبح الاعشى ج/ 6 ص 240_
4) فتح البارى ج/7 ، 208، ارشادالسارى ج/6ص 233 از فتح الباري،وفاء الوفاء ج/1ص 248_
5) الوزراء والكتاب ص 20_

55
اور سخاوى اور الديار بكرى و غيرہ كا كلام بھى تقريباً ان جيساہے(1)_
مسعودى نے اس روايت پر يہ اعتراض كيا ہے كہ اس پر عمل نہيں كيا گيا چونكہ خبر واحد ہے اور جو شخص مراسيل پراعتماد نہيں كرتا وہ اس پر عمل نہيں كرسكتا چونكہ يہ مرسل ہے او ريہ جو پہلے بيان ہوا ہے كہ حضرت على (ع) كے مشورہ سے حضرت عمر (ص) نے ہجرت كے ساتھ تاريخ لكھى يہ متفق عليہ ہے چونكہ اس خبر ميں كوئي معّين وقت ذكر نہيں كيا گيا كہ جس ميں تاريخ لكھى گئي ہوا ور اس كى كيفيت كو بھى نقل نہيں كيا گيا (2)_
ليكن مسعودى اور ووسرے حضرات كا اعتراض زہرى كى روايت پر وارد نہيں چونكہ اس كا ارسال (اگر اسے مرسل مان بھى ليا جائے ) اور خبر واحد ہونا اس سے اجتناب كرنے كا جواز نہيں بن سكتے بلكہ اس كو اخذ كرنا ضرورى ہے حتى كہ اس شخص كے لئے بھى جومرا سيل كو قبول نہيں كرتا چونكہ يہاں پر اور ادلہ و روايات بھى پائي جاتيں ہيں جو اس پر دلالت اور اس كى تائيد كرتى ہيں ذيل ميں ان تمام كو ذكر كرتے ہيں (3)_
2_ حاكم نے عبداللہ بن عباس سے روايت كى ہے (اور اسے صحيح بھى قرار ديا ہے )كہ اس نے كہا ہے كہ تاريخ اس سال ميں تھى كہ جس ميں نبى اكرم (ص) مدينہ ميں وارد ہوئے اور اسى سال عبداللہ بن زبير پيدا ہوا(4)
---------------------------------------------------------
1) الاعلان با لتوبيخ ص 78 ، تاريخ الخميس ج/1 ص 338_
2) التنبيہ والاشراف ص 252_
3)زھرى سے ايك اور روايت ہے جو اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ تاريخ نبى اكرم (ص) كے زمانہ سے تھي، تہذيب تاريخ ابن عساكر ج/1 ص 21 ميں ہے كہ زھرى نے كہا ہے '' قريش ، فيل اور فجار كے درميان چاليس سال كى مدّت شمار كرتے تھے اور فجار اور ھشام بن مغيرہ كى وفات كے درميان چھ سال كى مدّت شمار كرتے تھے اور اس كى وفات اور كعبہ كى تعمير كے در ميان نو سال اور بناء كعبہ اور مدينہ كيطرف رسول كريم (ص) كے خارج ہونے كى درميانى مدّت كو پندرہ برس گنتے تھے كہ جن ميں سے پانچ سال آپ (ص) كى طرف وحى نازل ہونے سے پہلے كے تھے پھر عدد تھا يعنى تاريخ كو گننا'' اس آخرى عبارت سے ظاہر ہوتاہے كہ عربوں نے گذشتہ روش سے اعراض كرليا تھا اور ہجرت كے ساتھ تاريخ معّين كرنا شروع كردى تھى ليكن اس روايت ميں ايك يہ اعتراض باقى رہ جاتاہے كہ مشہور يہ ہے كہ فيل اور فجار كے درميان بيس برس كا فاصلہ تھا نہ چاليس برس كا جيسا كہ طبرى ج/2 اور البداية والنھاية ج/2 ص 261 اورتاريخ الخميس ج/1 ص 196 اور ابن الاثير اور مسعودى نے اس كى تصريح كى ہے ليكن زھرى كا يہ قول كہ نبى اكرم (ص) عام الفيل كے تيس سال بعد ميں پيدا ہوئے ہيں ( جيسا كہ البداية والنھاية ج/2 ص 264 ميں اس سے نقل كيا گيا ہے ) دلالت كرتاہے كہ زھرى كا يہ قول منفرد ہے كہ فجار اور فيل كے در ميان چاليس برس كا فاصلہ ہے جبكہ يہ بات مشہور قول كے مخالف ہے ليكن يہ تمام اعتراضات اور نقائص ہمارے مدعا پر اس كے كلام كى دلالت ميں مضر نہيں ہيں_
4) مستدرك الحاكم ج/3 ، ص 13 ، 14 اور اس روايت كو مسلم كے معيار پر صحيح قرار ديا ہے، تلخيص المستدرك للذھبي(اس صفحہ كے حاشيہ پر) مجمع الزوائد ج/1 ص 196، عن الطبرانى فى الكبير، الاعلان بالتوبيخ ص 80 ،81، الطبرى ج/2 ص 389 ، 390 ، اور ج/3 ص144 ، التاريخ الكبير للبخارى ج/1 ص9 ، الشماريخ ص 10 ، عن البخارى فى التاريخ الصغير والخطط للمقريزى ج/1 ص 284_

56
3_ سخاوى كہتاہے كہ '' كس نے سب سے پہلے تاريخ لكھى اس ميں اختلاف ہے، ابن عسا كرنے تاريخ دمشق ميں انس سے روايت كى ہے كہ تاريخ كى ابتداء رسول اللہ (ص) كے مدينہ ميں داخل ہونے سے ہوئي تھي'' _
اور اسى طرح اسمعى نے كہا ہے كہ انہوں نے ہجرت كے مہينہ ربيع الاول سے تاريخ لكھى (1) پھر اس كے بعد زھرى كى سابقہ روايت كو ذكر كياہے جس سے معلوم ہوتاہے كہ تاريخ كو وضع كرنے والے جناب عمر نہيں تھے، كيونكہ عمر نے محرم سے تاريخ گذارى كى تھي_
پھر اس پر يہ اعتراض كيا ہے كہ يہ صحيح اور مشہور كے خلاف ہے (چونكہ مشہور يہ ہے) كہ يہ كام عہد عمر ميں ہواتھا اور سال كى ابتداء ربيع الاّول سے نہيں بلكہ ماہ محرم سے ہوئي ليكن يہ اعتراض بھى مسعودى كے اعتراض كى طرح وارد نہيں ہے چونكہ صرف اس كا مشہور كے خلاف ہونا اس كے باطل و فاسدہونے كا موجب نہيں بنتا بلكہ جب قطعى دليل مشہور كے خلاف قائم ہوجائے تو اس كو اخذ كرنا اور مشہور سے عدول كرنا ضرورى ہے _
اور جلد ہى واضح ہوجائيگا كہ پہلے ذكر شدہ ادلہ كے علاوہ ہمارے پاس اور بھى ادلہ موجود ہيں جو ہر قسم كے شك و شبہہ كو زائل كرديتے ہيں_
4_ مورخين كہتے ہيں كہ رسول اكرم(ص) نے ربيع الاول ميں مدينہ كى طرف ہجرت كى _زھرى و غيرہ كى رائے يہ ہے كہ آپ (ص) ربيع الاول كى پہلى تاريخ كو مدينہ ميں پہنچے ابن اسحاق اور كلبى كو يقين ہے كہ آپ (ص) ربيع الاوّل كى پہلى تاريخ كو مكہ سے خارج ہوئے اور بعض كہتے ہيں كہ آپ(ص) ربيع الاوّل كى پہلى تاريخ كو غار سے خارج ہوئے (2)_
ربيع الاول كى پہلى تاريخ كو آپ (ص) كے مدينہ ميں وارد ہونے والے قول كى تائيد حضرت على (ع) كى اس تحرير ''منذ و لج رسول(ص) اللہ المدينة'' سے بھى ہوسكتى ہے مگر اس كے مقابلہ ميں دوسرے قول كى تائيدبھى موجود ہے وہ يہ كہ آپ(ع) نے مشورہ ديا تھا كہ تاريخ ہجرى كى ابتداء رسول اللہ (ص) كے شرك كى زمين كو چھوڑنے سے
---------------------------------------------------------
1) الاعلان با لتوبيخ لمن يذم التاريخ ص 78_
2) تاريخ الخميس ج/1 ص 324 اور 325 الاستيعاب (حاشيہ الاصابة پر)ج/1 ص29 الروض الانف ج / 2 ص 245 ، اسى طرح دلائل النبوة ج/2، ص 226، المواہب ج/1 ص 67 _

57
قرار دى جائے يا آپ (ص) كى ہجرت كو قرار ديا جائے _مگر يہاں يہ دعوى كيا جائے كہ چونكہ وہ كلى طور پر اس سال كو معين كرنے كے درپے تھے كہ جس سے ابتداء كى جائے ، اس لئے اس فقرہ ميں اجمال پايا جاتاہے (جس كى تفصيل گذشتہ تحرير ميں ہے) تو اس صورت ميں پہلا فقرہ ہمارى بات كے مخالف نہيں رہے گا _يہاں پر اہم بات يہ ہے كہ ہجرت ربيع الاول كى ابتداء ميں تھى اور جب ہم اس پر ان اقوال كا اضافہ كريں جوپہلے مالك اور اصمعى سے بيان ہوچكے ہيں ساتھ ہى زھرى كى روايت اور حضرت على (ع) كى تحرير سے ظاہر ہونے والى اس بات كوكہ اسلامى سال كى ابتداء ربيع الاول تھى ملاكر ديكھيں تو ہميں يہ اطمينان حاصل ہوجائے گا كہ عہد عمر سے پہلے ہى تاريخ مقرر كى جاچكى تھى _حضرت عمر نے صرف ربيع الاول كى بجائے ماہ محرم كو سال كى ابتداء قرار ديا اور يہ چيز اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ عمر ہجرى تاريخ كو وضع كرنے والا پہلا شخص نہيں تھا _ اور يہ بات بھى اس مدعا كى تائيد كرتى ہے كہ بعض صحابہ پانچويں سال كے وسط تك ہجرت والے مہينہ ( ربيع الاول) سے مہينوں كو شمار كرتے تھے_
ابوسعيد خدرى كہتاہے كہ '' رمضان ( كے روزوں ) كافريضہ ماہ شعبان ميں قبلہ تبديل ہونے كے بعد تھا كہ ابھى اٹھارہ (18) مہينے مكمل ہونے سے ايك مہينہ باقى تھا''(1)_
عبداللہ بن انيس سفيان بن خالد كى طرف اپنا فوجى دستہ لے جانے كے متعلق كہتاہے كہ ميں پانچ محرم كوبروز سوموار مدينہ سے خارج ہوا جب كہ ٹھيك چوّن (54) ماہ مكمل ہوچكے تھے(2)_
اسى طرح محمد بن سلمہ جنگ قرطاء كے متعلق كہتاہے كہ '' ميں محرم كى دس تاريخ كو خارج ہوا اور انيس دن غائب رہا اور محرم كى باقى ماندہ رات ميں واپس آيا كہ پچپن(55) مہينے پورے ہوچكے تھے_''(3) _
اور اسى كے بعد سالوں كا حساب كتاب شروع ہوتاہے جيسا كہ سلمة بن الاكوع اور خالد بن وليد و غيرہ كے قول سے ظاہر ہوتاہے(4)_
يہى صحابہ كا طريقہ تھامورخين نے بھى صحابہ كى پيروى كى ہے پس انہوں نے پانچويں سال كے وسط بلكہ
---------------------------------------------------------
1) تاريخ الخميس ج/1 ص 368 _
2،3) مغازى الواقدى ج/2 ص 531 ، 534 على الترتيب_
4) مغازى الواقدى ج/2 ص 537 ، صفة الصفوة ج/1 ص 652_

58
آخر تك مہينوں كے ساتھ تاريخ لكھى اور پانچويں سال سے سالوں كا ذكر كرنا شروع كيا (1) اور يہ چيز اگر كسى چيز پر دلالت كرتى ہے تو وہ يہ ہے كہ ہجرت كے ابتدائي برسوں سے يہى تاريخ مقرر كى جا چكى تھى وگرنہ يہ بات كوئي معنى نہيں ركھتى كہ كسى صحابى سے پانچويں سال ميں پيش آنے والے واقعہ كے متعلق سوال كيا جائے ليكن وہ سال كا ذكرنہ كرے اور گننے كے عمل ميں مصروف ہوجائے جو فكر و تامل كا باعث ہے اور كچھ دير سوچنے كے بعد جو اب دے مگر اس صورت ميںكہ يہ چيز مرسوم اور ذہنوں ميں راسخ ہو _اس سے و اضح ہوجاتاہے كہ صحابہ كس قدر اس بات كى اہميت كے قائل تھے كہ ربيع الاول ہى كو تاريخ ہجرى كى ابتداء قرارديا جائے اگر چہ بعد ميںبھى غالباً يہى سلسلہ رہا _
5_ سلمان فارسى كے لئے نبى اكرم (ص) كى تحرير ہمار ے پاس ہے جس پر ہجرت كے نويں سال كى تاريخ لكھى ہوئي تھي_
ابونعيم كہتاہے كہ حسن بن ابراھيم بن اسحاق البرجى المستملى نے روايت كى ہے كہ مجھے محمد بن عبدالرحمن نے بتاياہے كہ ميں نے ابوعلى حسين بن محمدبن عمرو و ثابى كوكہتے ہوئے سنا كہ ميں نے يہ تحرير شيراز ميں جناب سلمان كے بھائي ماہ بنداذ كى اولاد غسان بن زاذان بن شاذويہ كے نو اسے كے ہاتھ ميں ديكھى _ يہ وصيّت على (ع) بن ابى طالب كى تحرير تھى اورنبى اكرم (ص) كى مہر اس پر لگى ہوئي تھى ہم يہاں پر اس تحرير كے متن كو درج كرتے ہيں_
بسم اللہ الرحمن الرحيم : يہ خط محمدرسول اللہ (ص) (ص) كى طرف سے سلمان كے بھائي ماہ بنداذ اور اس كے اہل و عيال اور نسل كے متعلق وصيت لكھنے كى سلمان كى درخواست پر لكھا جارہا ہے_( ابونعيم اس كو لكھنے كے بعد آخر ميں كہتاہے): على (ع) بن ابى طالب نے بحكم رسول (ص) ہجرت كے نويں سال ماہ رجب ميں يہ خط تحرير كيا اور ابوبكر، عمر، عثمان ، طلحہ، زبير،عبدالرحمن ، سعد، سعيد، سلمان، ابوذر، عمار،عيينہ ، صہيب، بلال، مقداد، اور مؤمنين كى ايك جماعت وہاں پر حاضر تھى _ اسى طرح ابومحمدبن حيان نے بعض مورد اعتماد اشخاص سے ذكر كيا ہے كہ
---------------------------------------------------------
1) طبقات ابن سعد ج /2 حصہ اول فى غزواتہ (ص) خصوصاً غزوہ بواط ميں اس كا صفحہ 56 ، مغازى الواقدى ج2 ص 9،11،363 ، الوفاء باخبار المصطفى ج/2 ص 673،674،675،البداية و النھاية ج/4 ص61 اور تاريخ الخميس و غيرہ_

59
شيراز ميں سلمان كے بھائي كى نسل سے ايك قبيلہ ہے جن كے رئيس و سردار كو غسان بن زاذان كہتے ہيں اور ان كے پاس يہ خط موجود ہے يہ على (ع) ابن ابى طالب كى تحرير ہے اور سفيد رنگ كے چمڑے پر لكھا گيا ہے نبى اكرم (ص) كى مہر ابوبكر كى مہر اور على (ع) كى مہر اس پر درج ہے يہ حرف بحر ف ابونعيم كى تحرير ہے ليكن اس نے جماعت ميں عيينہ كا ذكر نہيں كيا(1)_
6_ بلاذرى نے اس معاہدہ كے متن كو ذكر كيا ہے كہ جس كونبى اكرم (ص) نے مقنا كے يہوديوں اوربنى حبيبہ كے لئے لكھا تھا اس ميں نبى اكرم(ص) نے ان كے ساتھ مچھلى شكار كرنے كى چھڑيوں، ان كى كاتى ہوئي روئي اور ان كى بھيڑ بكريوں ،مويشيوں اور پھلوں كے ايك چوتھائي حصہ پر مصالحت كى تھي_
بلاذرى كہتاہے كہ مصر كے رہنے والے ايك شخص نے مجھے بتاياہے كہ اس نے خود اس تحرير كو ايك سرخ رنگ كے چمڑے ميں ديكھا البتہ اس كے خطوط مٹے ہوئے تھے لہذا اس نے مجھے لكھوايا تو ميں نے نسخہ بردارى كى _
بسم اللہ الرحمن الرحيم: من محمد رسول اللہ (ص) ، الى بنى حبيبةواہل مقنا: سلم انتم فانہ انزل علي، انكم راجعون الى قريتكم، فاذا جاء كم كتابى ھذا، فانكم آمنون و لكم ذمة اللہ و ذمة رسولہ ...( بلاذرى نے پورى تحرير كو درج كيا ہے حتى كہ آپ (ص) نے آخر ميں فرمايا) '' كہ تم پر امير و حكمران صرف تم ميں سے ہوگايا رسول اللہ (ص) (ص) كے اہل بيت ميں سے_ على (ع) بن ابو طالب نے اس تحرير كو 9 ہجرى ميں لكھا ''(2)_
فتوح البلدان پر حاشيہ لكھنے والے محمدبن احمد بن عساكر نے اس عہد نامہ پر دو اعتراض كئے ہيں _
---------------------------------------------------------
1) ذكر اخبار اصفہان لابى نعيم ج/1ص52 ، 53، الدرجات الرفيعہ ص 206 و 207 ، طبقات المحدثين باصبہان ج1 ص 231 و 234 نيز نفس الرحمان از تاريخ گزيدہ_
2) فتوح البلدان للبلاذرى ص 67 ، ط 1318 ہجرى نبى اكرم (ص) كے ولايت و حكمرانى كو اپنے اہل بيت (ع) كے ساتھ مخصوص كرنے ميں غور فرمائيں يہ ايك واضح دليل ہے كہ اس شہركاخراج (كہ جس كو بغير لشكركشى كے صرف مصالحت كےساتھ حاصل كياگيا ہے اور اصطلاحاً فے كہا جاتاہے اور فَے ،اللہ اور اس كے رسول(ص) كے لئے ہے اور )نبى اكرم(ص) نے اسے اپنے اہل بيت (ع) كو عطا كيا ہے اور يہ دلالت كرتاہے كہ آل رسول (ع) جس طرح مسلمانوں كے لئے اولوا الامر ہيں اس طرح اہل ذمہ كے لئے بھى اولوا الامر ہيں_

60
اول : كہ على (ع) وہ شخصيت ہيں كہ جنہوں نے علم نحو كو اختراع كيا تا كہ عجميوں كے كلام كے ساتھ مخلوط نہ ہو ايسے شخص سے اعرابى غلطى كا صادر ہونا ممكن نہيں اور يہاں پرعلى (ع) ابن ابوطالب درج ہے يعنى ابو كو رفع كے ساتھ لكھاگيا ہے( جبكہ نحوى قواعد كى بناء پر ابى لكھا جانا چاہيے) _
دوم: اہل مقنا كے ساتھ نبى اكرم (ص) كى صلح غزوہ تبوك ميں ہوئي (جيسا كہ بلاذرى كى كتاب ميں مذكور ہے ) اور واضح ہے كہ على (ع) اس غزوہ ميں شريك نہيں تھے پس يہ كيسے ہوسكتاہے كہ اس صلح نامہ كو لكھنے والے على (ع) ہوں(1)_
اور ہم يہاں پر ان اعتراضات كے جواب ميں صرف علامہ محقق الشيخ على احمدى كے كلام كو(البتہ موقع محل كى مناسبت اپنى طرف سے كچھ كمى بيشى كے ساتھ) ذكر كرنے پر اكتفا كرتے ہيں وہ كہتے ہيں كہ :
پہلے اعتراض كا جواب : يہ ہے كہ ملاعلى قارى ، قاضى عياض كى كتاب '' شفائ'' كى شرح ميں ابوزيد اصمعى كى نوادر سے نقل كرتے ہيں كہ يحيى بن عمر سے روايت ہے كہ قريش كنيت ميں لفظ'' ابّ'' ميں كوئي تبديلى نہيں كرتے تھے بلكہ اسے ہميشہ مرفوع پڑھتے تھے ، چاہے رفعى حالت ميں ہوتا يا نصبى يا جرّى حالت ميں_
نہاية ابن الاثير ميں لفظ ''ابي''كے ذيل ميں اور قاضى عياض كى كتاب '' شفائ'' پر لكھى جانے والى ملا على قارى كى شرح ميں ہے كہ نبى اكرم (ص) نے مہاجر بن اميہ (مہاجربن ابواميہ) كو خط ميں (المہاجر ابوامية ) لكھا اس كے بعد دونوں نے كہا ہے كہ چونكہ ابواميہ كنيت كے ساتھ مشہور تھا اور وہ صرف اسى نام سے ہى معروف تھااس لئے نبى اكرم (ص) نے بھى اسے ا يسے ہى رہنے ديا اور ملاعلى قارى اس كے لئے مثال ذكر كرتے ہوئے كہتاہے :'' جيسا كہ كہا جاتاہے على (ع) بن ابوطالب '' _ ہم يہاں زمخشرى كے اس قول كا بھى اضافہ كرتے چليں كہ ''وائل بن حجر نے لكھا ہے : اللہ كے رسول محمد(ص) كى طرف سے مہاجربن ابواميہ كے نام _بے شك وائل ...'' يہاں تك كہ زمخشرى كہتاہے لفظ ابواميہ كو جر والى حالت ميں بھى رفعى حالت كے مطابق لكھا گيا ہے ، كيونكہ وہ اسى نام سے مشہور ہوگيا تھا اور ضرب المثل كى طرح ناقابل تبديلى ہوگيا تھا يہ عربوں كے اس قول :
---------------------------------------------------------
1)حاشيہ فتوح البلدان بلاذرى ص 67_

61
''على بن ابوطالب اور معاوية بن ابوسفيان'' كى مانند ہے (1) اسى طرح شيخ على احمدى كا بيان ہے كہ مجموعة الوثائق السياسيہ ميں صفدى سے منقول ہے كہ بعض عرب لكھتے تو ''على (ع) بن ابوطالب ''واو كے ساتھ ہيں ليكن پڑھتے ياء كے ساتھ ( ابى طالب) ہيں _ اورمجموعہ ميں التراتيب الادارية سے منقول گذشتہ كلام كونقل كرنے كے بعد كہتاہے كہ اس سے بڑھ كر يہ كہ ميں جب ماہ محرم 1358 ھ ميں مدينہ ميں تھا توسلع كے جنوب ميں ايك قديمى تحرير ميں ( انا على (ع) بن ابوطالب ) لكھا ہوا ديكھا اور متوقع ہے كہ يہ تحرير خود على (ع) كى ہو_ اسى طرح مجموعةالوثائق ميں ہے كہ شيو خ (اپنے اساتذہ) سے پڑھى گئي كتابوں ميں چار مقامات پر ( على (ع) بن ابوطالب) واو كے ساتھ لكھا ہوا ديكھا ہے_ اور ہم اضافہ كرتے ہيں كہ عسقلانى كا كہناہے كہ حاكم كہتاہے : '' اكثر بزرگان اس بات كے قائل ہيں كہ ان (يعنى ابوطالب) كى كنيت ہى ان كا نام تھا'' (2) _ نيز مغلطائي نے كہاہے '' ايك قول (جسے حاكم نے ذكر كيا )ہے كہ اس كى كنيت ہى اس كا اسم ہے ليكن ہميں اس پر اعتراض ہے ''(3) مروج الذھب ج/2ص 109 طبع بيروت ميں مذكور ہے كہ '' ابوطالب كے اسم ميں اختلاف ہے كچھ لوگ قائل ہيں كہ ان كى كنيت ہى ان كااسم ہے اور نبى (ص) اكرم كى املاء سے على (ع) نے خيبر كے يہود كے لئے لكھا تھا ( و كتب على (ع) بن ابى طالب) لفظ ابن سے الف كو گرا دينا اس بات پردلالت كرتاہے كہ يہ لفظ دونا موں كے درميان ميں واقع ہواہے نہ كہ نام او ركنيت كے درميان '' _ بلاذرى لكھتاہے كہ يحيى بن آدم نے كہا ہے كہ ميں نے نجرانيوں كے پاس ايك تحرير ديكھى كہ جس كا نسخہ اس نسخہ كى طرح تھا اور اس كے آخر ميں يہ عبارت درج تھى (-و كتب على (ع) بن ابوطالب) ليكن ميرى سمجھ ميں نہيں آتا كہ اس كے متعلق كيا كہوں(4) _ اور يہ مشہور روايت بھى ہے كہ ربيعہ اور يمن كے درميان آپ (ع) اپنى تحرير كے آخر ميں لكھتے ہيں (كتب على (ع) بن ابوطالب ) (5) _عمدة الطالب ص20 ، 21 طبع نجف ميں محمدبن ابراہيم نسابہ سے منقول ہے كہ
---------------------------------------------------------
1) الفائق ج1 ص 14_
2) الاصابہ ج4 ص 115_
3)سيرہ مغلطائي ص10_
4)فتوح البلدان ص 72_
5)شرح نہج البلاغہ ابن ميثم بحرانى ج5 ص 231_

62
اس نے امير المؤمنين (ع) كى تحرير كے آخر ميں يہ عبارت( و كتب على (ع) بن ابوطالب) لكھى ہوئي ديكھى اور كہتاہے كہ ميرے دادا اور ديگر افراد كے بقول حرم امير المؤمنين (ع) ميں حضرت على (ع) كے ہاتھوں كا لكھا ہوا قرآن كريم كا ايك نسخہ موجود تھا جو 755 ميں حرم ميں آگ لگنے كى وجہ سے جل گيا كہا جاتاہے كہ اس كے آخر ميں يہ عبارت درج تھى ( و كتب على (ع) بن ابوطالب) پھر كہتاہے كہ واو ياء كے مشابہ ہے چونكہ خط كوفى ميں يہ دونوں ايك دوسرے سے ملتے جلتے ہيں اگر چہ صحيح (على (ع) ابن ابى طالب) ہے علاوہ ازيں ديگر شواھد بھى ہيں جنہيں يہاں پر ذكر كرنے كى گنجائشے نہيں_
پس ہم گذشتہ امور سے يہ نتيجہ نكال سكتے ہيں كہ لفظ ( ابو) كا ہونا ضرر رساں نہيں اور روايت پر اعتراض كا موجب نہيں بنتا خصوصاً اگر قريش كے لغت كو مدّ نظر ركھا جائے _ اس بناپر ہميں عمدة الطالب و غيرہ كى تاويل كى بھى كوئي ضرورت نہيں_
دوسرے اعتراض كا جواب: علامہ احمدى ميانجى كہتے ہيں كہ بلاذرى كے كلام ميں ايسى كوئي صراحت و دلالت نہيں پائي جاتى جس سے يہ معلوم ہوكہ يہ تحرير تبوك ميںلكھى گئي ہے جيسا كہ خود تحرير ميں بھى اس قسم كا كوئي اشارہ تك بھى موجود نہيں بلكہ تحرير كى عبارت سے معلوم ہوتاہے كہ اہل تبوك ميں سے ايك گروہ بطور وفد نبى اكرم(ص) كے پاس آيا اور جلد ہى اپنے شہر واپس جانا چاہتا تھا شايد ان كا آپ (ص) كے پاس مدينہ آنا تجارتى غرض كى وجہ سے تھا يا صلح نامہ لينے كى غرض سے آئے تھے، يا اس كے علاوہ كسى اور غرض سے آئے تو نبى اكرم(ص) نے ان كے لئے يہ صلح نامہ تحرير فرماديا يہاں پر قابل ملاحظہ بات يہ ہے كہ كچھ منابع ميں فقط اسى بات پر اكتفاء كيا گيا ہے كہ آپ نے 9 ھ ميں اہل مقنا كےلئے صلح نامہ لكھا (1)_
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ فرمائيں،مكاتيب الرسول(ص) ج/1ص 288 ، 289 ، 290 اہل مقنا كے ساتھ معاہدہ كے سلسلہ ميں ايك اور روايت بھى پائي جاتى ہے_ كہ يہ معاہدہ ہجرت كے پانچويں برس علي(ع) كے ہاتھوںسے لكھاگيا ليكن كچھ تاريخى اعتراضات سے خالى نہيں اگر چہ ان ميں بعض يا تمام كاجواب دينا ممكن ہے، ملاحظہ فرمائيں، مكاتيب الرسول(ص) ج/1 ص 293 ، 294_نيز نصرانيوں كے ساتھ ايك اور معاہدہ بھى موجود ہے جو علي(ع) كے خط مبارك سے ہجرت كے دوسرے سال ميں لكھا گيا اور نصرانيوں كے ساتھ ايك اور معاہدہ بھى موجود ہے جس پرہجرت كے چوتھے سال كى تاريخ ہے جس پر معاويہ كى تحرير ہے_ ليكن يہ دونوں معاہدے قابل اعتراض ہيں خاص كر دوسرا معاہدہ كيونكہ معاويہ فتح مكہ كے موقع پر مسلمان ہوا تھا ( جو ہجرت كے كئي سال بعد آپ (ص) كے آخرى دور ميں فتح ہوا تھا) چنانچہ ملاحظہ فرمائيں: مكاتيب الرسول ج2 ص 637 و 634 و غيرہ_

63
ان تمام مذكورہ كلمات كو علامہ احمدى نے ذكر فرمايا ہے البتہ ہم نے بھى كچھ كمي، بيشى اور تلخيص كى ہے اور مذكورہ خط پر كئے گئے اعتراضات كے جواب كے لئے يہى بات ہى كافى ہے پس اس روايت پر اعتراض كرنے اور اس كے صحيح ہونے ميں شك كرنے كى گنجائشے نہيں رہتى _
7_اہل دمشق سے خالدبن وليد كا صلح نامہ_ ابن سلام كہتاہے كہ '' محمد بن كثير نے ہمارے لئے اوزاعى سے اور اس نے ابن سراقة سے روايت كى ہے كہ خالدبن وليد نے اہل دمشق كو لكھا '' يہ خالد بن وليد كى طرف سے اہل دمشق كے لئے (صلح) نامہ ہے ميں نے ان كے خون اور اموال اور عبادت گاہوںكے متعلق انہيں امان دى ''_''ابوعبيد كہتاہے كہ اس ميںاس نے كوئي ايسى بات ذكر كى تھى جو مجھے ياد نہيں رہى ہے اور اس كے آخر ميں يہ عبارت ہے '' ابوعبيدہ جراح، شرحبيل بن حسنة اور قضاعى بن عامر گواہ ہيں اور يہ تحرير 13 ھ ميں لكھى گئي ...''(1)_
جبكہ يہ بات واضح ہے كہ مورخين كے بقول حضرت عمرنے 16 ھ يا 17 ھ ميں تاريخ وضع كى اور كوئي بھى شخص يہ دعوى نہيں كرتاكہ اس تاريخ سے پہلے عمر نے تاريخ وضع كى خصوصاً اس حقيقت كو مدّ نظر ركھتے ہوئے كہ دمشق كى فتح حضرت عمر كى خلافت كے ابتدائي دنوں ميں تھى بلكہ حضرت ابوبكر كى وفات اور عمر كى خلافت كى خبر شام ميں مسلمانوں كے لشكر تك پہنچنے سے پہلے ہى دمشق فتح ہوچكا تھا_
صاحبان مغازى (كيفيت غزوات كو حيطہ تحرير ميں لانے والے حضرات) كے اس اختلاف كے باوجود كہ فتح دمشق 13 ھ كو ہوئي تھى يا 4 1 ھ كو، مصالحت كرنے والے ابوعبيدہ جراح تھے يا خالد بن وليد اور ان ميں سے كون اس لشكر كا امير تھا؟ ہم مذكورہ بات كے قائل ہيں كيونكہ ہمارے پاس ايسى تقريبا يقينى
---------------------------------------------------------
1) الاموال ص 297 اور بلاذرى نے اس كو فتوح البلدان ص 128 ميں تھوڑے سے اختلاف كے ساتھ بغير تاريخ كے ذكر كيا ہے اور اسى طرح فتوح البلدان ص 130 ميں واقدى سے منقول ہے كہ خالد نے اس پر تاريخ نہيں لكھى تھى ليكن جب مسلمانوں نے يرموك پر چڑھائي كا ارادہ كيا تو خالد نے نصرانيوں كے ليے صلح نامہ كى تجديد كى اور اس ميں ابو عبيدہ ، شرحبيل اور يزيد بن سفيان كى گواہى ثبت كى اور اس پر ربيع الثانى 15 ھ كى تاريخ درج كى اور ابن كثير نے گواہوں ميںعمرو بن عاص كا اضافہ كيا ہے_البتہ اس ميں بھى كوئي مانع نہيں ہے كہ يہ تحرير ايك اور خط ہوجسے اس نے يرموك پر چڑھائي كے وقت نصرانيوں كو ان كے كليساؤں كے تحفظ كے لئے لكھا ہو_ جيسا كہ ابن كثير كى البدايہ والنہايہ ج 7 ص 21 كے الفاظ سے بھى يہى ظاہر ہوتاہے_

64
دستاويزات موجود ہيں جو يہ بتاتى ہيں كہ 3 1 ھ كو جناب ابوبكر كى وفات كى خبر لشكر تك پہنچنے سے پہلے يا كم از كم ابوعبيدہ جراح كے اس خبر كو ظاہر كرنے سے پہلے دمشق فتح ہوگيا تھا_ اور اہل دمشق كے ساتھ مصالحت كرنے والے بھى اس وقت كے سردار لشكر خالد بن وليد ہى تھے_
حتى كہ اگر اس تحرير كى تاريخ 15 ہجرى بھى مان لى جائے تب بھى ہمارى مدعا كے لئے نقصان دہ نہيں ہے_ تمام مورخين كا اتفاق ہے كہ حضرت عمر كى حكومت كا واقعہ اس كے بعد يعنى 16 ھ يا 17 ھ ميں تھا_
ابوعبيدہ، ابن قتيبہ ، واقدى ، بلاذرى (1) اور دوسرے بہت سے حضرات نے تصريح كى ہے كہ صلح خالد كے ہاتھ پر ہوئي اور اس سے واضح ہے كہ صلح كے وقت لشكر كا امير وہى تھا_
بلكہ واقدى كا كہناہے كہ ان كے ساتھ خالد كے صلح كرنے كى وجہ سے ابو عبيدہ اور خالد كے درميان سخت تكرار اور مقابلہ بازى پيش آئي _اس سے ہمارے لئے واضح ہوجاتاہے كہ خالد اپنے موقف ميں كس قدر سرسخت تھا اور ابوعبيدہ اس كے مقابلہ ميں كس قدر كمزور (2) _يہى چيز ہمارے اس نظريئےے ساتھ بہت زيادہ ہماہنگى ركھتى ہے كہ لشكر كى قيادت اس وقت خالد كے پاس تھي_
بلكہ بلاذرى و غيرہ نے ذكر كيا ہے كہ ابوعبيدہ مشرقى دروازے پر تھا اور قہر و غلبہ سے شہر ميں داخل ہوا تو شہر والے خالدكے پاس آئے اور اس سے صلح كرلي_ اس نے ان كے لئے تحرير لكھى اور انھوں نے اس كے لئے دروازہ كھول ديا پھر بلاذرى نے ابى مخنف كے قول كو بھى نقل كيا ہے جو مذكورہ واقعہ كے بالكل برعكس ہے_ پھر اس كے بعد كہتاہے كہ پہلا قول نہايت مناسب ہے(3)_
ہم بھى كہتے ہيں : كہ ہاں يہى قول درست ہے كيونكہ اكثر مورخين بھى اسى كے قائل ہيں، اس بحث كى ابتداء ميں مذكور صلح نامہ كى عبارت اور ديگر دستاويزات بھى اس بات پر قطعى دلالت كرتى ہيں كہ اہل دمشق سے صلح كرنے والا خالد ہى تھا اور وہى امير لشكر تھا_
---------------------------------------------------------
1) المعارف لابن قتيبة ص 79 ط 1390 بيروت ، فتوح الشام ج/1 ص 58 ، 59 ، فتوح البلدان ازص 128 تا ص 131 و ديگر كتب_
2) فتوح الشام ج1 ص 58 ، 60_
3) فتوح البلدان ص 129 ، البداية والنھاية ج/7 ص 21_

65
البتہ خالد كى معزولى كا حكم مسلمانوں كو اس وقت پہنچا تھاجب وہ دمشق كا محاصرہ كئے ہوئے تھے تو ابوعبيدہ نے تقريباً بيس دن تك اسے مخفى ركھا يہاں تك كہ دمشق كو فتح كرليا گيا تا كہ دشمن كے مقابلے پر ڈٹے رہنے والے مسلمانوں كو خالد كا مسئلہ كمزور نہ كردے (1)
البتہ واقدى كہتاہے كہ دمشق كى فتح حضرت ابوبكر كى وفات والى رات ہوئي (2)_
اور زينى دحلان كہتاہے : '' كہا گيا ہے كہ حضرت ابوبكر كى وفات كى خبر دمشق كى فتح كے بعد 13 ھ ميں آئي اورحضرت ابوبكر كى وفات اسى رات ہوئي جس رات مسلمان دمشق ميں داخل ہوئے اور يہ 22جمادى الثانى 13 ھ كا واقعہ ہے _ اور جو قائل ہيں كہ وفات كى خبر دمشق كى فتح كے بعد آئي وہى افراد اس بات كے قائل ہيں كہ يرموك كا واقعہ فتح دمشق كے بعد پيش آيا (3)_
اور ابن كثير كہتاہے كہ '' سيف بن عمر كى عبارت كے سياق سے ظاہر ہوتاہے كہ 13 ھ ميں دمشق فتح ہوا ليكن خود سيف عمومى نظريئے كے مطابق تصريح كرتے ہيں كہ 15 رجب 14 ھ كو دمشق فتح ہوا ''(4)_
اورعبدالرحمن بن جبير سے منقول ہے كہ ابوعبيدہ خود حضرت ابوبكر كو فتح دمشق كى خوشخبرى دينے كے لئے گيا تھا ليكن حضرت ابوبكر پہلے ہى وفات پاچكے تھا او ر حضرت عمر نے اسے لشكر كا امير بناديا پھر جب وہ دمشق واپس آيا تو مسلمانوں نے يہ كہتے ہوئے اس كا استقبال كيا : '' ايسے شخص كو خوش آمديد جسے ہم نے قاصد بنا كر بھيجا تھا اور وہ ہم پر امير بن كر واپس آيا ہے'' (5)_
بہرحال يہ صلح نامہ اور تمام گذشتہ دستاويزات گواہ ہيں كہ اكثر مؤرخين كے مطابق خالد نے ہى اہل شام سے صلح كى تھى اور ہم يہ بھى كہہ چكے ہيں كہ اگر فرض كريں كہ يہ تحرير 15 ھ ميں بھى لكھى گئي ہو يا يہ دوسرى تحرير ہو تب بھى واضح طور پر دلالت كرتى ہے كہ تاريخ حضرت عمر كى خلافت سے پہلے مقرّر كى جاچكى تھي_
---------------------------------------------------------
1)البدايہ والنہايہ ج7 ص 23 و فتوح البلدان ص 127 و 129_
2) فتوح الشام ج/1 ص 58 ، ص 59_
3) الفتوحات الاسلامية ج/1 ص 47_
4) البداية والنھاية ج/7 ص 22_
5) البداية والنھاية ج/1 ص 24_

66
رہى يہ بات كہ مؤرخين اور راويوں نے اس حقيقت سے روگردانى كيوں كى ؟شايد واقعات و حوادث كاپے درپے واقع ہونا اور ايك دوسرے كے نزديك ہونا ان كے اشتباہ كا موجب بناہواور ان پر اچھا گما ن كرتے ہوئے (كيونكہ ان كے متعلق اچھا گمان ہى كيا جاسكتاہے) يہى كہہ سكتے ہيں كہ شايد وہ يہ ظاہر كرنا چاہتے تھے كہ حضرت عمر كا دور حكومت عظيم فتوحات ا ور كشور كشائي كادور تھا اور فتح شام بھى چونكہ نہايت اہم معركہ تھا اس لئے اسے بھى عمر كے دور حكومت ميں ہونا چاہئے ، حضرت ابوبكر كے عہد ميں نہيں_اور اسى طرح خالد كى شجاعت اور مختلف مواقع ميں اس كى قوت و بہادرى ثابت اور ظاہر كرناچاہتے تھے اور يہ بتانا چاہتے تھے كہ وہ بلا شركت غيرے تلوار كا دھنى ہے _ پس اس كا شام پر غلبہ حاصل كرنا ضرورى ہے اور يہ بھى ضرورى ہے كہ شاميوں سے مصالحت كرنے والا كوئي اور ہو چاہے يہ معاملہ جھوٹ اور مكرو فريب سے ہى حل ہوا ہو _ ليكن كيا يہ مذكورہ باتيں ہى ان لوگوں كى حقيقت سے روگردانى كا حقيقى سبب ہيں _ مجھے تو نہيں معلوم ليكن شايد ذہين و فطين قارئين كو اس كا علم ہوگا_
8_ سيوطى نے ابن القماح كے ہاتھ سے تحرير شدہ مجموعہ سے ايك بات نقل كى ہے جس ميں مذكور ہے كہ ابن الصلاح نے كہا ہے : ''ابوطاہر محمد بن محمش الزيادى نے تاريخ الشروط ميں ذكر كيا ہے كہ رسول اللہ (ص) (ص) نے جب نجران كے نصارى كے لئے تحرير لكھى اس ميں ہجرت كى تاريخ قلمبند فرمائي اور على (ع) كو حكم ديا كہ يہ عبارت لكھيں '' انہ كتب لخمس من الھجرة'' كہ ہجرت كے پانچويں سال ميں لكھى گئي ہے''_ (پھر ) كہتاہے ''ہجرت كے ساتھ تاريخ آپ (ص) كى اجازت سے لكھى گئي اور تاريخ لكھنے ميں حضرت عمر نے آپ (ص) كى پيروى كى ہے''(1)
اسى طرح سيوطى كہتاہے '' كہا جاتاہے يہ بات صداقت ركھتى ہے كہ آپ (ص) نے ہجرت كے پانچويں برس تاريخ لكھى اور پہلى حديث ( زھرى كى گذشتہ روايت) ميں تھا كہ ''آپ (ص) نے مدينہ پہنچنے كے دن تاريخ لكھى '' اس كا جواب يہ ديا گيا ہے كہ ان دونوں ميں كوئي منافات نہيں چونكہ ظرف ( يوم قدم المدينة) فعل (امر)
---------------------------------------------------------
1)الشماريخ فى علم التاريخ، سيوطى ص 10 نيز التراتيب الاداريہ ج 1 ص 181_

67
سے متعلق نہيں بلكہ مصدر ( التاريخ) سے متعلق ہے تو اصل عبارت اس طرح ہوگى _امربان يورخ بذلك اليوم لا ان الامر كان فى ذلك اليوم يعنى آپ (ص) نے حكم ديا كہ اس دن سے تاريخ لكھى جائے نہ يہ كہ يہ فرمان اس دن جارى ہوا'' (يعنى ہوسكتاہے كہ پانچ ہجرى كو حكم ديا ہو كہ مدينہ تشريف آورى سے تاريخ شمار كى جائے _از مترجم) (1) يہ سيوطى كا كلام ہے_
ليكن اس سے واضح تر جواب يہ ہے كہ آپ نے مدينہ پہنچتے ہى تاريخ لكھنے كا حكم ديا اور ربيع الاول كو مبداء قرار ديا اور خودنبى اكرم (ص) نے جب 5 ميں نجران كے نصرانيوں كے لئے تحرير لكھى تو اس وقت اسى تاريخ سے استفادہ كيا_
بہر حال سخاوى كہتاہے كہ '' اگر يہ بات ثابت ہوجائے تو عمر پيروى كرنے والا ہوگا پہل كرنے والا نہيں''(2)_
اور عباس مكى كہتاہے كہ '' تاريخ ايك گذشتہ سنت اور پسنديدہ طريقہ ہے كہ جس كا حكم رسول اللہ (ص) نے نجران كے نصارى كى طرف نامہ لكھتے ہوئے ديا تھا _آپ (ص) نے على (ع) كو حكم ديا كہ اس ميں لكھيں (كتب لخمس من الہجرة) (3)_پھر ابن شہاب كى گذشتہ روايت نقل كى ہے_
9_ صحيفہ سجاديہ كى خبر سے ظاہر ہوتاہے كہ رسول اكرم (ص) كى ہجرت كو تاريخ كا مبدا قرار دينااللہ جلّ شانہ كى منشاء كے مطابق تھاكيونكہ حديث ميں آياہے كہ جبرائيل (ع) نے نبى اكرم (ص) سے كہا كہ '' آپ (ص) كى ہجرت سے اسلام كى چكى چلے گى اور دس سال تك چلتى رہے گى اور ہجرت سے پينتيس (35) برس بعد پھراسلام كى چكى چلے گى اور پانچ سال تك چلتى رہے گي'' (4)_
---------------------------------------------------------
1)الشماريخ فى علم التاريخ ص 10 ، التراتيب الادارية ج1 ، ص 181_
2) التراتيب الادارية ج/1 ص 181_
3) نرھة الجليس ج/1ص 21_
4) البحار ج/58 ص 351 (البتہ صفحات كى تصحيح كرنے كے بعد) سفينة البحار ج/2 ص 641 ، الصحيفة السجادية ص 10 ، البتہ يہ روايت كئي اور اسناد سے نبى (ص) كريم سے بھى وارد ہوئي ہے جنہيں البداية والنھاية ج6 ص206 ، 207 ، ج/7 ص 219 ، 275 ، ص 276 ، ميں ذكر كيا گيا ہے نيز ملاحظہ ہو سنن ابى داؤد مطبوعہ دار الكتاب العربى ج4 ص 159 ، ص 160_ و ديگر كتب

68
10 _ ام سلمہ سے روايت ہے كہ رسول اللہ (ص) نے فرمايا :''ميرى ہجرت كے ساٹھ (سال) پورے ہونے پر حسين (ع) بن على (ع) كو شہيد كيا جائے گا''(1)_
11 _ انس سے ايك روايت منقول ہے كہ اس نے كہا :' ' نبى اكرم (ص) كے اصحاب نے ہمارے لئے روايت بيان كى ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا كہ ہجرت كے (100) سال پورے ہونے تك تم ميں سے كوئي بھى باقى نہيں رہے گا''_(2)
12_ ڈاكٹر سعاد ماہر محمد نے اپنے رسالے (مشہدالامام على (ع) فى النجف الاشرف) ص 104، ص 105 ميں اہل حيرہ كے لئے خالد بن وليد كى لكھى ہوئي تحرير كا متن درج كيا ہے اور اس كے آخر ميں يہ عبارت ہے ( اور اگر انہوں نے فعل يا قول كے ساتھ بدعہدى اور خيانت كى تو ہم ان سے برى الذمہ ہوں گے اور ( يہ تحرير) 12 ھ ماہ ربيع الاول ميں لكھى گئي) _
اور يہ بات واضح ہے حيرہ كى فتح خالد كے ہاتھوں حضرت ابوبكر كے دور ميں ہوئي تھى اس كا معنى يہ ہے كہ تاريخ حضرت عمر كى خلافت سے بھى پہلے وضع كى جاچكى تھى اور اس سے پہلے سے ہى استعمال بھى ہورہى تھى پس كس طرح حضرت عمر نے 16 ھ ميں تاريخ معيّن كى ؟اور سھيلى و ابن عباس و غيرہ كے كلام سے مذكورہ بات كى تائيد ممكن ہے_
13_ حافظ عبدالرزاق نے ابوھريرہ سے روايت كى ہے كہ اس نے كہا: ''ہلاكت ہے عربوں كے لئے اس بدبختى سے جو ساٹھ سال پورے ہونے پر آئے گى _جب امانت كو غنيمت سمجھا جائے گا ...'' (3)_
14_ اسى طرح عبدالرزاق نے ہى ابن مسعود سے روايت كى ہے كہ اس نے كہا :''جب پينتيس برس
---------------------------------------------------------
1) مجمع الزوائد ج9 ص190عن الطبرى اوراس كى سند ميں كوئي اعتراض نہيں مگر سعد بن طريف ميں اور وہ بھى خود ان كى تصريح كے مطابق اس كے شيعہ ہونے كى وجہ سے ہے تاريخ بغدادج/1ص142، الالمام ج/5ص 299، كنزالعمال ج/13ص113ط حيدرآباد،ميزان الاعتدال ج/1ص212عن الطبرانى وا لخطيب و ابن عساكر ،منتخب كنز العمال (حاشيہ مسنداحمد)ج/5 ص111، مقتل الحسين خوارزمى ج/1 ص 161 ، احقاق الحق ج/11 ص 354 از گذشتہ بعض و از مفتاح النجا ص 136 قلمى نيز از امعجم الكبير طبراني، زندگينامہ امام حسين (ع) از تاريخ دمشق با تحقيق محمودى ص 185_
2) مجمع الزوائدج/1ص 197 ، عن ابى يعلى ، يہ روايت مختلف الفاظ اور مختلف اسناد سے نقل كى گئي ہے ، ليكن ان ميں لفظ ( من الہجرة) نہيں ہے_
3)مصنف عبدالرزاق ج/11 ص 373 و 375_

69
پورے ہوں گے تو ايك امر عظيم حادث ہوگا پس اگر تم ہلاك ہوگئے تو اس كے لائق ہو گے اور اگر نجات پاگئے تو اس كى اميد ہے اور جب ستر برس پورے ہوں گے تو تم انوكھى چيزيں ديكھوگے (1)_
ابن مسعوداور ابوہريرہ نے اس كا علم نبى اكرم (ص) سے حاصل كيا ہے كيونكہ يہ غيب گوئي ہے اور يہ چيز دلالت كرتى ہے كہ خود نبى اكرم (ص) نے ہجرى تاريخ مقر ر فرمائي _
15_ ايك حديث جس كے راوى موثق ہيں يہ ہے كہ : ہم ساٹھ ہجرى سال كے پورے ہونے سے خدا كى پناہ مانگتے ہيں ايك اور روايت ميں ہے كہ 60 ھ اور بچوں كى فرمانروائي سے (2)_
ابوہريرہ سے مروى ہے : '' خدايا مجھے 60 ھ اور بچوں كى حكومت ديكھنا نصيب نہ كر'' (3)_
16_ مالك نے نافع سے اور اس نے ابن عمر سے روايت كى ہے كہ جب ايك سوستر سال پورے ہوجائيں تو جدّہ ميں رہائشے پذير ہونا بہترين اقامت اختيار كرنے ميں سے ہوگا (4)_

خلاصہ بحث:
گذشتہ امور سے واضح ہوجاتاہے كہ لوگوں كے درميان مشہور يہ بات كہ حضرت عمر نے اسلامى ہجرى تاريخ كى بنياد ركھي، ناقابل قبول ، بلا دليل اور بے بنياد ہے_ البتہ حضرت عمر كے دور ميں صرف يہ ہوا كہ ربيع الاّول كى بجائے محرم كو ہجرى سال كا مبدا قرار ديا گيا اورايسا انہوں نے يا توخود كيا تھا يا حضرت عثمان كے مشورہ سے _ جبكہ محرم ( جيسا كہ سب كو معلوم ہے) زمانہ جاہليت ميں سال كا مبداء شمار ہوتا تھا(5)_ بعيد نہيں كہ ہجرى تاريخ جسے نبى اكرم (ص) نے مقرر فرمائي تھى اور كئي بار لكھى بھى تھي،اس زمانہ ميں تاريخ كى ضرورت كم ہونے كى وجہ سے لوگوں ميں مشہور نہ ہوسكى ہو اور پھر حضرت عمر نے صحابہ كو اكٹھا كيا ہو تا كہ تاريخ
---------------------------------------------------------
1)مصنف عبدالرزاق ج/11 ص 373 و 375_
2) تطہير الجنان واللسان ص 66 1370 نيز كنز العمال ج11 ص 113_
3)الاتحاف بحبّ الاشراف ص 65 از ابن ابى شيبہ و غيرہ _
4) لسان الميزان ج/2 ص 79_
5)البداية والنہايہ ج3 ص 206 و ص 207 نيز السيرة النبوية ابن كثير ج2 ص 288 و 289_

70
پر اتفاق حاصل ہوجائے (1) ليكن ہم ديكھتے ہيں كہ معاشرے ميں كچھ لوگ ايسے بھى تھے كہ جن كى غرض يہ تھى كہ جس تاريخ كا نبى اكرم (ص) نے حكم ديا تھا اور جس تاريخ كو آپ (ص) نے مقرر فرمايا تھا اس كو طاق نسيان ميں ركھ ديا جائے _ اس لئے كہ فلاں آدمى رومى تاريخ كا مشورہ دے رہا تھا، يہود يت سے اسلام لانے والے كچھ مسلمان ايسى تاريخ كا مشورہ ديتے ہيں جو سكندر اورہر مزان كے دوركى طرف لوٹتى ہے اور ان لوگوںسے حضرت عمر يہ مشورے لے رہے تھے حالانكہ حضرت عمر ايرانيوں سے شديد نفرت كرتے تھے ليكن پھر بھى وہ لوگ اسے ايرانى تاريخ كا مشورہ ديتے ہيں كہ جب كوئي بادشاہ ہلاك ہوجاتا تو وہ نئے بادشاہ كى تاج پوشى كے دن سے تاريخ كى ابتدا كرتے تھے_ (يعنى ...؟) كوئي مولد النبى (ص) يعنى عام الفيل كو تاريخ كا مبداء قرار دينے كا مشورہ ديتاہے واضح رہے كہ زمانہ جاہليت كے آخرى سالوں ميں عرب عام الفيل سے تاريخ لكھتے تھے_ اور مسعودى كے الفاظ كے مطابق:
(و كثر منھم القول و طال الخطب فى تواريخ الاعاجم و غيرھا)(2)
عجميوں و غيرہ كى تاريخوں ميں ان كے درميان اقوال زيادہ ہوگئے اور بحث لمبى ہوگئي_
يعنى جتنے منہ اتنى باتيں ہوئيں تو محافظ دين اورحق كے علمبردار حضرت على (ع) نے مناسب وقت ميں اس ہجرى تاريخ كا اعلان كيا جسے خود رسول اكرم (ص) نے مقرّر فرمايا تھا اور خود انہوں نے نبى (ص) اكرم كى حيات طيبہ ميں متعدد خطوط اور معاہدوں ميں لكھا تھا_
آپ(ع) كى رائے اور نظريہ كو قبول كرنے اور آپ(ع) كے مشورہ كو دل و جان سے مان لينے كے علاوہ اور كوئي چارہ نہيں كيونكہ يہ حق ہے ''والحق يعلو ولا يعلى عليہ '' _نبى اكرم (ص) كے يوم ولادت و رحلت كى بجائے آپ(ص) كى ہجرت كو تاريخ كا مبداء قرار دينے كى وجہ ارض شرك سے (جہاں ذلت، گمراہى اور پستى تھي) ارض
---------------------------------------------------------
1) علامہ محقق سيد مہدى روحانى نے اپنے مقالہ ميں يہ احتمال ديا ہے اور يہ مقالہ ما ہنامہ '' الھادي'' سال اول شمارہ نمبر 4 ص 48 ميں شائع ہوا ہے_
2) التنبيہ الاشراف ص 252_

71
اسلام كى طرف (جہاں عزت ، شرافت اور سربلندى تھي) ہجرت كى اہميت تھى اور انسانيت اور تاريخ كى تشكيل كے اعتبار سے يہ چيز نہايت اہميت كى حامل ہے_ اسى طرح آپ(ع) نے اس عمل سے ہرذلت آميز رائے اور ظالم و جابر اور طاغوتى حكمرانوں سے وابستہ واقعات كو تاريخ كا مبداء قرار دينے سے اجتناب كيا _ اور بہتى گنگا كى لہروں كا دھارا بننے سے بھى پرہيز كيا جبكہ عام لوگوں ميں يہ چيز عام ہوتى ہے اور ان كى رگ و پے ميں خون اور زندگى كى طرح گردش كررہى ہوتى ہے_

پھر عيسوى تاريخ ... كيوں؟
اس كے بعد ... ہم يہاں نہايت افسوس اور گہرے ملال سے يہ لكھنے پر مجبور ہيں كہ اہل مغرب اور غير مسلم تواپنى تاريخ، تمدن اور واقعات كى حفاظت كرتے ہيں _ اور خواہ وہ كتنے ہى حقير اور بے اہميّت ہوں كسى طر ح بھى ان سے دستبردار نہيں ہوتے بلكہ انہيں پھيلانے اور دوسرى قوموں ميں انہيں ترويج دينے اور راسخ كرنے كے درپے ہوتے ہيں _ حتى كہ اسلامى واقعات اور تاريخ كو لكھنا چاہتے ہيں تو ہجرى تاريخ كو عيسوى تاريخ سے بدل كر لكھنے پر اصرار كرتے ہيں خواہ ايسا كرنے سے كتنے ہى حقائق مسخ ہوجائيں اور ان ميں اشتباہ و غلطى ہوجائے_
ليكن دوسرى طرف ہم ترقى ، ترقى يافتہ اور تہذيب و ثقافت و غيرہ جيسے بے وزن اور خوشنما الفاظ اور نعروں كا فريب كھاكے اپنى بہت سى بنيادى اور اساسى چيزوں سے بآسانى دستبردار ہوجاتے ہيں حالانكہ ان نعروں كے پس پردہ ہزاروں خطرات اور بربادياں چھپى ہوئي ہوتى ہيں _ حتى كہ بعض اسلامى ممالك نے تو عربى رسم الخط كو چھوڑ كر لاطينى اور انگريزى رسم الخط كو اپنا ليا ہے _ بلكہ اپنے رنگ ڈھنگ اور لباس جيسے حياتى اور ضرورى امور كو چھوڑ كر غيروں كے اقدار اپنالئے ہيں_ بالكل يہى صورتحال ہجرى تاريخ كے متعلق بھى ہے_
ہم نے كس سہولت سے ہجرى تاريخ كو چھوڑ ديا ہے جب كہ يہ ہمارى عزت و سربلندى كا سرچشمہ تھى

72
اس سے ہمارى تاريخ اور ثقافت قائم تھى ہم نے اس كى جگہ عيسوى تاريخ كو اپنا ليا جو تقريباً چوتھى صدى ہجرى ميںيعنى اسلامى ہجرى تاريخ كے وضع ہونے كے بہت عرصہ بعد ظاہر ہوئي عيسائي حضرت عيسي(ع) كى ولادت كے دن سے نہيں بلكہ ان كے آسمان كى طرف اٹھائے جانے كے دن سے اپنى تاريخ لكھتے ہيں _ (1) بلكہ ايك اور دستاويز كے مطابق جناب سكندر ذوالقرنين كے دور سے اپنى تاريخ لكھتے ہيں (2) حتى كہ ابن العبرى نے بھى ( جو عيسائيوں كے بہت بڑے پادرى شمار ہوتے تھے اور كارڈينال كے درجہ كے برابر ان كا رتبہ تھا اور 685 ہجرى كو فوت ہوئے انہوں نے بھي) اپنى كتاب ميں عيسوى تاريخ كبھى نہيں لكھى بلكہ كئي مقامات پر تاريخ سكندرى سے كتاب كو مزين كيا _ پس اگر اس وقت عيسوى تاريخ عام اور معروف ہوتى تو وہ اس سے ہرگز روگردانى نہ كرتے_ اسى طرح 902 ہجرى كو وفات پانے والے سخاوى كے كلام سے بھى ظاہر ہوتاہے كہ دسويں صدى ہجرى كے اوائل تك بھى ميلاد مسيح كى تاريخ رائج نہيں تھي_
ليكن بہت سى ايسى حكومتيں ہمارے سامنے ہيں جو اپنے آپ كو اسلامى حكومت كے نام سے ياد كرتى ہيں اور بہت سى قوميں جو خود كو اسلام سے منسوب كرتى ہيں انہوں نے صرف عيسوى تاريخ كو اپنا ركھاہے فارسى اور رومى تاريخ كو بھى نہيں اپنايا ہاں ... انہوں نے صرف تمدن و ترقى كے نام پر اور اس قسم كے دلكش اور پرفريب نعروں كى وجہ سے عيسوى تايخ كو محور نظام بنايا جبكہ اپنى عظمت و سربلندى كى اساس ،تاريخ اور ثقافت كو چھوڑ ديا ہے اس طرح بہت سے عظيم اور اہم امور سے دستبردار ہوچكے ہيں جب كہ ان سے پيچھے ہٹنا نہايت دشوار اور خطرناك ہے_

نكتہ:
ايك روايت كے مطابق حضرت امام جعفر صادق (ع) سے پوچھا گيا كہ عيسائي كہتے ہيں كہ حضرت عيسى (ع) كى ولادت كانون (رومى مہينہ) كى چوبيس تاريخ كو ہے (آپ(ع) كيا فرماتے ہيں ؟) جس پر آپ(ع) نے فرمايا: '' وہ
---------------------------------------------------------
1)الاعلان بالتوبيخ لمن يذم التاريخ ص 83 _
2)نزہة الجليس ج1 ص 22 نيز ملاحظہ ہو كنز العمال ج 10 ص 195 از مستدرك و از كتاب الادب صحيح بخاري_

73
جھوٹ كہتے ہيں بلكہ آپ(ص) كى ولادت حزيران (رومى مہينہ) كے نصف ميں ہوئي جو گردش ايام كے حساب سے آذر (فارسى مہينہ) كا بھى نصف بنتاہے'' (1) ( جس سے معلوم ہوتاہے كہ فارسى اور رومى مہينے، عيسوى مہينوں سے پہلے اور معروف تھے كہ عيسائي حضرت عيسى (ع) كى پيدائشے كو ان تاريخوں سے مطابقت دے رہے ہيں _ اور يہ بھى معلوم ہوتاہے كہ وہ صحيح مطابقت نہيں دے پائے_ از مترجم)

مخلصانہ اپيل
ہم امت مسلمہ كو دعوت ديتے ہيں كہ وہ اپنے امور اور تقويم ( كيلنڈروں ) ميںہجرى تاريخ كو اپنائيں چونكہ اس طرح ان كا ماضى ان كے حال سے متصل ہوجائے گا اور يہى چيز انہيں ان كى عزت و سربلندى كا راز ياد دلائے گى اور يہى وہ دين ہے جسے اللہ تعالى نے ان كے لئے اور تمام انسانيت كے لئے اختيار فرمايا ہے_ علاوہ ازيں اگر فرض كريں كہ تاريخ كا مبداء بڑے اور عظيم واقعات ہونے چاہئيں تو پھر كونسا واقعہ نبى اسلام صلى اللہ عليہ وآلہ و سلم كے ظہور سے عظيم تر ہے اور كونسا بڑا واقعہ اس عظيم واقعہ كى برابرى كرسكتاہے_
علامہ مجلسى (رہ) كا كہنا ہے : (ہجرى تاريخ كو اپنانے كي) اصلى وجہ يہ ہوسكتى ہے كہ يہ (ہجرت) اسلام اور مسلمانوں كے غلبہ كا ابتدائيہ، دينى احكام كے ظہور كا افتتاحيہ، مشركوں كى قيد سے مسلمانوں كى رہائي كى شروعات اور ہجرت كے بعد دين مبين كے قواعد كى تاسيس جيسے دوسرے اہم كاموں كا ابتدائيہ تھي''(2)_
ميں امت اسلامى خصوصاً عربوں سے گزارش كرتاہوں اگر ہم دينى لحاظ سے بھى اس سے صرف نظر كرليں تب بھى عرب ہونے كے ناطے اس كو اہميت دينى چاہئے اور اس مقام پر انہيں سيد الشہداء امام حسين (ع)
---------------------------------------------------------
1)بحارالانوار ج75 ص 36 ، تحف العقول ، مختصر التاريخ ابن كازروفى ص 67 اور مروج الذہب ج2 ص179 و ص 180_
2)بحارالانوار ج85 ص 351_

74
كا بہترين قول ياد دلاتاہوں كہ آپ(ع) نے فرمايا:
( ان لم يكن لكم دين و كنتم لا تخافون المعاد فكونوا احراراً فى دنياكم ہذہ و ارجعوا الى احسابكم ان كنتم عرباً كما تزعمون) (1)
اگر تم كسى دين كے قائل نہيں اور قيامت كا خوف نہيں ركھتے تو كم از كم اپنى اس دنيا كے معاملے ميں تو آزاد رہو اور اپنے آبا ء و اجداد كے محاسن ومفاخر كو مدّنظر ركھو اگر تم اپنے آپ كوعرب سمجھتے ہو_
بارگاہ رب العزت ميں دعا ہے كہ وہ انہيں ان كا بہترين منشور عطا فرمائے او ر اپنى عقول و ضمائرسے راہنمائي حاصل كرنے والوں ميںقرار دے_
اگروہ ہر چيز ميں دوسروں كى تقليد كرنا چاہتے ہيں تو اس معاملے ميں بھى ان كى تقليد كريں يعنى دوسروں كى تقليد اس طرح كريں كہ ہم اپنے عظيم تمدن اور اعلى روايات سے دستبردار نہ ہونے پائيں تا كہ دوسروں كے دست نگر نہ ہوں اور ايسى چيزيں اخذ نہ كريں جن كا نقصان ان كے فائدے سے زيادہ ہو_
''قل ھذا سبيلى ادعوا الى اللہ على بصيرة اناومن اتبعني''

2_ مدينہ ميں مسجد كى تعمير :
مسجد والى جگہ يا تو رسول اكرم (ص) نے خريدى تھى يا آپ (ص) كو ہديہ كى گئي تھى ، اس بارے ميں كہا جاتاہے كہ اس جگہ قبيلہ خزرج كے دو يتيم بچوں كے اونٹوں كا باڑہ تھا اور وہ بچے اسعد بن زرارہ يا كسى اور شخص كے زير كفالت تھے، ايك قول كے مطابق آپ (ص) نے يہ جگہ دس دينار ميں خريدى _
وہاں آنحضرت (ص) نے مسجد كى بنياد ركھي، آپ (ص) بہ نفس نفيس اپنے اصحاب كے ساتھ مل كر(مدينہ كے
---------------------------------------------------------
1)اللہوف ص50 نيز مقتل الحسين مقرم ص 335 ازلہوف_

75
مضافات ميں) سياہ پتھروں پر مشتمل ''حرّہ'' نامى زمين سے پتھر اٹھاكر لاتے تھے، اس كام ميں آپ (ص) كى شركت كى وجہ سے اصحاب اور زيادہ كوشش اورتگ و دو سے كام كرتے تھے، يہاں تك كہ ان ميں سے ايك نے يہ شعر پڑھا_

لئن قعدنا و النبى يعمل
لذاك منا العمل المضلل

(اگر ہم آرام سے بيٹھ جائيں اور رسول اكرم (ص) كام ميں مشغول رہيں ( تو يہ درست نہيں) لہذا ہم اسى وجہ سے سخت طاقت فرسا كام ميں مصروف ہيں)_
مسجد كى تعمير كے وقت مسلمين يہ رجز پڑھ رہے تھے_

لا عيش الا عيش الآخرة
اللّھم ارحم الانصار والمھاجرة
(زندگى تو صرف آخرت اور جنت كى ہى زندگى ہے، خدايا انصار و مہاجرين پر رحم فرما)
اور اسطرح كے ديگر اشعار(1)آنحضرت(ص) نے مسجد كا طول و عرض تقريباً سوسو ذراع (ہاتھ)قرار ديا (2) ايك اور قول كے مطابق طول ستر ذراع (ہاتھ)(3) اور عرض ساٹھ ذراع قرار ديا(4) ، احتمال ہے كہ يہ دونوں قول صحيح ہوں اور وہ اس طرح كہ پہلى دفعہ تعمير كرتے وقت آپ نے لمبائي ميں ستر اور چوڑائي ميں ساٹھ ذراع پر بنياديں ركھى ہوں جبكہ تعمير نو كے وقت اس ميں توسيع كردى ہو(5)_
رسول اكرم (ص) نے مسجد كے اطراف ميں اپنے اور اپنے اصحاب كے گھر بنائے شروع ميں ہر گھر كا دروازہ مسجد كے صحن كى طرف كھلتا تھا ليكن بعد ميں امير المؤمنين على (ع) كے گھر كے علاوہ باقى تمام دروازے بند كرديئے گئے ، انشاء الله بعد ميں ہم اس بات كى زيادہ وضاحت كريں گے _
آگے بڑھنے سے پہلے ضرورى ہے كہ ہم يہاں مؤرخين كے بعض اقوال كا جائزہ ليں_
---------------------------------------------------------
1) السيرة الحلبية ج2ص 65 ص 64 و 67 و 71_
2)يعنى تقريباً 91 ميٹر سے كچھ زيادہ طول اور اتنا ہى عرض (مترجم)
3)يعنى تقريباً 67 ميٹر كے لگ بھگ (مترجم)
4)يعنى تقريباً 49 ميٹر سے كچھ كم (مترجم)
5)وفاء الوفاء ج1 ص 340 اور اس كے بعد _ نيز ملاحظہ ہو: تاريخ الخميس ج1 ص 365 و 366 اور التراتيب الاداريہ ج2 ص 77_

76
الف: حضرت ابوبكر اوردس دينار:
اہل سنت مؤرخين نے لكھا ہے كہ مسجد كى جگہ كو خريدنے كيلئے حضرت ابوبكر نے دس دينار ادا كئے(1)_
ليكن ہمارى نظر ميں يہ بات مشكوك ہے اس لئے كہ :
اولاً: حضرت ابوبكر كى مالى حالت اس قدر مستحكم نہ تھى كہ وہ يہ رقم ادا كرسكتے، اگر فرض كريں كہ ان كى مالى حالت بہتر تھى تب بھى ہميں شك ہے كہ انہوں نے يہ قدم اٹھايا ہو اور اس كى دليل ہم واقعہ غار ميں ذكر كرچكے ہيں_
ثانياً:اگر يہ بات مان بھى لى جائے تو بھى اس كے برعكس كچھ اور روايات بھى موجود ہيں _ جن ميں سے ايك روايت كے مطابق اسعد بن زرارہ نے اس زمين كے بدلے ميںبنى بياضہ ميں اپنا كھجور كا ايك درخت ان يتيموںكو ديا تھا، جبكہ دوسرى روايت ميں آياہے كہ ابوايوب نے كسى طرح انہيں راضى كيا تھا اور تيسرى روايت كے بقول معاذ بن عفراء نے يہ كام انجام ديا تھا (2)_
بعض مؤرخين نے احتمال ديا ہے كہ ممكن ہے حضرت ابوبكر نے زمين كى قيمت ادا كى ہو جبكہ بعض ديگر صحابہ نے محض اجر و ثواب اور نيكى كے طور پر زمين كى اصل قيمت كے علاوہ ان يتيموں كو يہ سب كچھ ديا ہو(3)_
ليكن يہ احتمال بھى ديا جاسكتاہے كہ ديگر صحابہ نے زمين كى اصل قيمت ادا كى ہو اور حضرت ابوبكر نے صلہ و نيكى كے طور پر كچھ رقم ادا كى ہو، اس طرح پہلے احتمال كو اس دوسرے احتمال پر ترجيح نہيں دى جاسكتى ، علاوہ ازيں يہ احتمال روايت ميں موجود كلمہ ''عوضھما'' كے ساتھ مناسبت نہيں ركھتا اس لئے كہ اس كلمے سے واضح ہوتاہے كہ ايك تو يہ چيز زمين كى قيمت تھى اور دوسرا وہ رقم اس زمين كے بدلے ميں تھى نيكى اور صدقہ كے طور پر نہيں تھي_
ثالثاً : صحيح بخارى و غيرہ ميں لكھا ہے كہ رسول اكرم (ص) نے ايك شخص كو بنى نجار كے پاس يہ پيغام دے كر بھيجا
---------------------------------------------------------
1)سيرہ حلبيہ ج2 ص 65_
2) البداية و النہايةج 3ص315 ، وفاء الوفاء ج1ص323 و ص 324، (روايت ابن حجر) ، السيرة الحلبية ج 2ص 65_
3) السيرة الحلبية ج2ص 65 ، وفاء الوفاء ج1ص 323 ، 324_

77
كہ وہ آپ (ص) كے ساتھ اس زمين كے محدودے كى قيمت طے كريں_ تو انہوں نے جواب ديا :'' قسم بخدا ہم خدا كے علاوہ كسى اور سے اس زمين كى قيمت وصول نہيں كريں گے'' (1)_

ب: پتھراور خلافت
حاكم نے حضرت عائشہ سے روايت كى ہے كہ مسجد كيلئے سب سے پہلا پتھر خود رسول اكرم(ص) اٹھاكر لائے تھے پھر دوسرا پتھر حضرت ابوبكر (تيسرا حضرت عمر (2) )اور چوتھا حضرت عثمان اٹھاكر لائے ، حضرت عائشہ كہتى ہيں كہ يہ ديكھ كر ميں نے رسول اكرم (ص) سے عرض كى : ''كيا آپ(ص) ان كى طر ف نہيں ديكھتے كہ يہ كس طرح آپ (ص) كى مدد كررہے ہيں ''؟ تو آپ (ص) نے فرمايا : ''اے عائشہ ، ميرے بعد يہ ميرے خليفہ ہوں گے ... ''يہ حديث شيخين كے معيار كے مطابق صحيح ہے ليكن خود انہوں نے اسے ذكر نہيں كيا (3)_
اس روايت كے الفاظ ميں موجود تضاد و تناقض كے علاوہ درج ذيل امور كى بنا پر اس حديث كا صحيح ہونا ہرگز ممكن نہيں_
اولاً : ذہبى اس حديث كى سند كو ضعيف قرار ديتے ہوئے لكھتے ہيں : اگر يہ حديث صحيح ہوتى تو يہ تينوں خلفاء كى خلافت پر نصّ ہوتى جبكہ يہ كسى طرح بھى صحيح نہيں ، اس لئے كہ حضرت عائشہ اس وقت ايك كم سن پردہ نشين بچى تھيں اور ابھى رسول اكرم (ص) كے ساتھ رشتہ ازدواج ميں منسلك ہى نہيں ہوئي تھيں ، پس ان سے اس حديث كو منسوب كرنا، اس حديث كے جھوٹے ہونے پر دلالت كرتاہے (4)_البتہ ہم ان كے كم سن ہونے والى بات پر اپنى رائے محفوظ ركھتے ہيں_
ابن كثير كہتے ہيں : ''اس سياق و سباق كے ساتھ يہ حديث بالكل عجيب وغريب ہے''(5)_
---------------------------------------------------------
1) صحيح البخارى ج1ص 57 ، تاريخ الطبرى ج2ص 116 ، الكامل لابن اثيرج 2 ص110 وفاء الوفاء ج 1ص 323 _ نيز التراتيب الاداريہ ج2 ص 77_
2) حضرت عمر كا ذكر صرف تلخيص المستدرك كى روايت ميں ہوا ہے_
3) مستدرك الحاكم ج3ص96 ، 97 ، وفاء الوفاج 1ص332 ، 333 ، 351 ، البداية والنہاية ج3 ص 218 ، اورج 6ص 204 ( انہوں نے وضاحت كى ہے كہ يہ واقعہ مسجدمدينہ كى تعمير كے وقت پيش آيا) السيرة الحلبيةج 2ص 56 ، 66 ، تاريخ الخميس ج1ص 344 ، 343 نيز دلائل النبوة بيہقى ج2 ص 272_
4) تلخيص المستدرك ذہبى ج 3ص 97 ( مستدرك الحاكم ج3 ص 97كے حاشيے پرمطبوع )_
5) البداية والنہاية ج3ص 218 _

78
ثانياً:حديث سفينہ پر اشكال و اعتراض كرتے ہوئے بخارى نے '' خلافت اور پتھر'' كى حديث (1)كے بارے اپنى تاريخ ميںلكھا ہے :_
ابن حبان نے اس حديث كو قبول نہيں كيا كيونكہ حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت على (ع) ( البتہ يہ انہى لوگوں كے الفاظ ہيں)كہا كرتے تھے : '' نبى اكرم (ص) نے كسى شخص كو اپنا خليفہ مقرر نہيں كيا ''(2)_
يہاں بخارى يہ كہنا چاہتے ہيں كہ اس لحاظ سے يہ حديث خود اہل سنت كے اس عقيدے سے بھى تضاد ركھتى ہے كہ جس كے مطابق رسول اكرم(ص) نے نہ تو كسى شخص كو اپنے بعد خليفہ مقرر كيا تھا اور نہ ہى خلافت كے بارے ميں كوئي وضاحت فرمائي تھى ، اور اسى بناپر اہل سنت حضرت ابوبكر كے ہاتھ آنے والى خلافت كو درست قرار ديتے ہيں_ بلكہ حضرت عائشہ سے يہ روايت بھى منقول ہے : '' اگر رسول اكرم (ص) كسى شخص كو اپنا خليفہ مقرر فرماتے تو (ميرے خيال ميں) ضرورحضرت ابوبكر و حضرت عمركوہى خليفہ مقرر فرماتے'' اس حديث كو ذہبى اور حاكم نے صحيح قرار ديا ہے(3)_
علامہ امينى عليہ الرحمہ نے اپنى گراں قدر تصنيف '' الغدير'' (ج/5 ص 357 تا 375) ميں علمائے اہل سنت كے بہت سے اقوال نقل كئے ہيں جو اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ خلافت ايك انتخابى امر ہے (يعنى معاملہ لوگوں كے انتخاب پر چھوڑ ديا گيا ہے) پس يہ حديث ان كے مذہب كے مطابق بھى جھوٹى ہے اور حقيقت ميں بھى جھوٹى ہے اس لئے كہ رسول اكرم (ص) نے حضرت على (ع) كو اپنے بعد خليفہ مقرر كرنے كا واضح اعلان فرمايا اور اس بارے ميں بے شمار روايات منقول ہيں انہى روايات كے ذريعے اميرالمؤمنين(ع) ، آپ (ع) كے اصحاب ، اہل بيت ، آپكى اولاد اور آپ (ع) كے شيعہ ، اس وقت سے آج تك آپ (ع) كى خلافت پر استدلال كرتے چلے آرہے ہيں، شايد ہى كوئي كتاب ايسى ہوكہ جس ميں ان بے شمار متواتر روايات يا خبر واحدميں سے كوئي روايت نقل نہ كى گئي ہو(4)_
---------------------------------------------------------
1) مستدرك الحاكم ج3 ص 13_
2) السيرة الحلبيہ ج 2ص66_
3) مستدرك الحاكم ج3 ص 78_
4)بطور مثال ملاحظہ ہو: الغدير ج1 ص 195 ا ص 213_

79
ثالثاً : اس روايت كے مطابق مسجد كى تعمير ميں سب سے پہلے پتھر ركھنے والوں ميں حضرت عثمان بھى شامل تھے ليكن خود اہل سنت كے مؤرخين كے بقول حضرت عثمان اس وقت حبشہ ميںتھے اور مدينہ ميں موجود نہ تھے جيسا كہ سمہودى نے اس طرف اشارہ كيا ہے اسى وجہ سے سہيلى نے اس روايت كو نقل كرتے ہوئے حضرت عثمان كو حذف كرتے ہوئے اس كے نام كو ذكر نہيں كيا (1)_
اور جب حاكم كى كتاب طبع ہوئي تو اس روايت ميں سے حضرت عثمان كا نام حذف كرديا گيا اس كے پيچھے بھى شايد يہى راز پوشيدہ تھا ، حالانكہ ذہبى نے اپنى تلخيص ميں اس روايت كو ذكر كيا ہے _اور اسے تحريف كہا جاتاہے جو دين، امت اور كسى فرقے كے حقائق كے ساتھ خيانت ميں شمار ہوتى ہے_
كيونكہ بطور خلاصہ واقعہ يوں ہے كہ حضرت عثمان اگر چہ اہل مكہ كے اسلام لانے كى خبر سن كر مكہ پلٹ آئے تھے ليكن حقيقت حال كا پتہ چلنے پردوبارہ واپس حبشہ چلے گئے تھے ، جيسا كہ خود اہل سنت مؤرخين كہتے ہيں كہ حضرت عثمان نے دو دفعہ حبشہ كى طرف ہجرت كى (2) عسقلانى كہتے ہيں :'' جب حبشہ ميں موجود مسلمانوں كو آنحضرت(ص) كى ہجرت كا علم ہوا تو ان ميں سے تيس آدمى واپس مكہ لوٹ آئے ، ان ميں ابن مسعود بھى تھے ، جو اس وقت مكہ پہنچے جب نبى اكرم (ص) جنگ بدر كى تياريوں ميں مصروف تھے (3) (تو پھر عثمان كہاں سے شريك ہوسكتے ہيں؟)_

ج: حضرت عثمان اور حضرت عمار:
مؤرخين لكھتے ہيں : حضرت عثمان بہت صفائي پسند اور صاف ستھرے رہنے والے آدمى تھے، جب مسجد كى تعمير كيلئے اينٹيں اٹھاتے تو انہيں اپنے كپڑوں سے دور ركھتے تھے اور جب اينٹوں كو مسجد كے پاس ركھتے تو
---------------------------------------------------------
1) وفاء الوفاء ج1 ص 252 _
2) طبقات ابن سعد ج 1حصہ اول ص138 ، الكامل لابن اثيرج3ص185،البدء والتاريخ ج1ص22،اس كتاب كى روايت كے مطابق حبشہ كى طرف پہلى ہجرت كے وقت كشتى ميںحضرت عثمان كى زوجہ حضرت رقيہ كا حمل گر گيا تھا _
3) فتح البارى ج7ص145_

80
اپنى آستينوں كو جھاڑتے اور اپنے كپڑوں كو ديكھتے كہ كہيں ان پر مٹى تو نہيں لگى ، اگر مٹى لگى ديكھتے تو اسے جھاڑ ديتے تھے، حضرت على (ع) ابن ابيطالب نے انہيں ديكھ كر يہ اشعار پڑھے_

لا يستوى من يعمر المساجدا
يدأب فيہا قائما ً و قاعداً
و من يرى عن التراب حائداً
( وہ شخص جو مساجد كى تعمير ميں كھڑے ہوكر يا بيٹھ كر نہايت كوشش و مشقت سے كام كرتاہے اس شخص كے برابرنہيں ہوسكتا جو مٹى سے دور رہنے كى كوشش كرتاہے)_
جب حضرت عمار ياسر نے يہ اشعار سنے تو انہوں نے ان اشعار كو دہرانا شروع كرديا ، اگر چہ انہيں معلوم نہ تھا كہ ان اشعار سے مراد كون ہے؟ اسى اثناء ميں جب وہ حضرت عثمان كے پاس سے گزرے تو حضرت عثمان( جن كے ہاتھ ميں اس وقت ايك چھڑى تھي) نے ان سے كہا : ''اے سميہ كے بيٹے يہ كس كى عيب جوئي كررہے ہو؟'' پھر كہا :'' چپ ہوجاؤ ورنہ (يہى چھڑي) تيرے چہرے پر ماروںگا''_ يہ بات نبى اكرم (ص) نے سن لى ، اس وقت آ پ(ص) حجرہ ام سلمہ كے سائے ميں تشريف فرماتھے، يا ايك اور روايت كے مطابق اپنے حجرہ كے سائے ميں آرام كررہے تھے، يہ سن كر آنحضرت (ص) سخت غضبناك ہوئے اور فرمايا: ''بے شك عمار بن ياسر ميرى ناك اور آنكھوں كے درميان موجود جلد (پيشاني) كى مانند ہيں''_ آپ (ص) نے اپنى دو آنكھوں كے درميان اپنا دست مبارك ركھا اور فرمايا: ''جب كوئي شخص اس مقام تك پہنچ جائے تو يہ قربت كى انتہا ہے''_
يوں آپ (ص) نے لوگوں كو انہيں آزار و اذيت پہنچانے سے باز ركھا، پھر لوگوں نے حضرت عمار سے كہا : ''رسول اكرم (ص) آپ كى وجہ سے ہمارے ساتھ ناراض اور غضبناك ہوئے ہيں، ہميں ڈر ہے كہيں ہمارے بارے ميں كوئي قرآنى آيت نازل نہ ہوجائے'' حضرت عمار نے كہا : ''جس طرح آنحضرت(ص) ناراض و غضبناك ہوئے ہيں ميں ابھى اسى طرح آپ (ص) كو راضى كرتاہوں''_
پھر حضرت عمار نے آنحضرت(ص) كى خدمت ميں عرض كى : ''يا رسول اللہ (ص) آپ (ص) كے اصحاب كو مجھ سے كيا
81 دشمنى ہے؟ ''_ آپ (ص) نے فرمايا :'' ان كى طرف سے تمہيں كيا تكليف پہنچى ہے؟ ''عرض كى :'' وہ ميرے قتل كا ارادہ ركھتے ہيں ، خود تو ايك ايك اينٹ اٹھاتے ہيں جبكہ ميرے اوپر دو دو تين تين اينٹيں لاد ديتے ہيں''_
آنحضرت(ص) نے حضرت عمار كا ہاتھ پكڑا اور مسجد كے اندر چكر لگايا آپ (ص) نے ان كے بالوں سے خاك جھاڑتے ہوئے فرمايا : ''اے ابن سميہ تمہيں ميرے اصحاب قتل نہيں كريں گے بلكہ تم ايك باغى گروہ كے ہاتھوں قتل ہوگے (1) ...''_

كيا حضرت عثمان حبشہ ميں نہ تھے؟
ہم پہلے ذكر كرچكے ہيں كہ حضرت عثمان مسجد كى تعمير كے وقت وہاں موجود نہ تھے اور اس وقت وہ حبشہ ميں تھے_
شايد يہى وجہ ہے كہ عسقلانى اور حلبى نے حضرت عثمان بن عفان كى جگہ اس روايت ميں عثمان بن مظعون كا نام ذكر كيا ہے (2)_
ہم اس سوال اور اعتراض كا جواب دينے سے پہلے گذشتہ اس امر كى طرف بھى اشارہ كرتے چليں كہ اس كى يہ توجيہ كرنا بھى نامناسب ہے كہ '' رسول اكرم (ص) ايك سال يا سات ماہ تك ابوايوب كے ہاں قيام پذير رہے اور اسى دوران آپ اپنے گھر اور مسجد كى تعمير ميں مصروف رہے، ممكن ہے كہ اس وقت يہ خبر حبشہ ميں مہاجرين تك پہنچى ہو اور اس دوران وہ مدينہ آتے رہے ہوں اور شايد حضرت عثمان بھى ان ميں سے ايك ہوں وہاں انہوں نے مسجد كى تعمير ميں حصہ ليا اور مذكورہ واقعہ پيش آيا ہو، اگر چہ مسجد كى بنياد ركھتے وقت اور خلافت كے پتھر ركھنے ميں وہ شريك نہ ہوسكے ہوں''_
بہر حال ہمارے نزديك يہ بعيد ہے كہ مسلمان اتنے طويل عرصہ تك مسجد كى تعمير ميں مصروف رہے ہوں
---------------------------------------------------------
1) سيرة ابن ھشام ج2ص142، تاريخ الخميس ج1ص 345 ، اعلاق النفيسة ، وفاء الوفاء ج1ص 329 ، السيرة الحلبية ج2ص72 ، علامہ امينى نے '' الغدير'' كى نويں جلد ميں (ص 21 سے 27 تك) اس واقعہ كے بہت زيادہ مصادر و منابع ذكر كئے ہيں، ہم نے صرف چند ايك ذكر كئے ہيں ، مزيد تحقيق كيلئے '' الغدير'' ج9 كى طرف رجوع فرمائيں_
2) السيرة الحلبية ج 2ص71 ، حاشيہ سيرت النبى (ص) ابن ھشام ج 2ص142_ از مواہب اللدنيہ_

82
اس لئے كہ وہ دسيوں كى تعداد ميں تھے اور اہل مدينہ ميں سے اسى (80)سے زيادہ افرادتو مقام عقبہ پر آنحضرت (ص) سے بيعت كرچكے تھے_
صحيح بات يہ ہے كہ ظاہراً حضرت عمار اور حضرت عثمان كا مذكورہ واقعہ مسجد كى دوبارہ تعمير كے وقت پيش آيا اور يہ جنگ خيبر كے بعد كى بات ہے يعنى ہجرت كے ساتويں سال(1) اور درج ذيل امور اسى بات كے صحيح ہونے پر دلالت كرتے ہيں:
اولاً: بيہقى نے اپنى كتاب'' الدلائل'' ميں روايت كى ہے كہ جب حضرت عمار قتل كرديئے گئے تو عبداللہ بن عمرو بن العاص نے اپنے والد(عمرو بن العاص) سے كہا: ''اس شخص (حضرت عمار) كو ہم نے قتل كيا ہے جبكہ رسول اكرم (ص) نے اس كے بارے ميں جو كچھ فرمايا تھا وہ بھى پتاہے''_ اس كے والد نے پوچھا:'' تم كس شخص كى بات كررہے ہو؟ ''تو اس نے جواب ديا : ''عمار ياسر كي'' پھر كہا : ''كيا تمہيں ياد نہيں جب رسول اكرم (ص) مسجد تعمير كررہے تھے تو اس وقت ہم ايك ايك اينٹ اٹھاكر لارہے تھے جبكہ عمار ياسر دو دو ا ينٹيں اٹھالاتا تھا چنانچہ اسى دوران جب وہ آنحضرت(ص) كے پاس سے گزرا تو آپ (ص) نے فرمايا كہ تم دو دو اينٹيں اٹھاكر لارہے ہو حالانكہ تمہارے لئے يہ ضرورى نہيں ہے جان لو كہ تمہيں ايك باغى گروہ قتل كرے گا اور تم اہل جنت ميں سے ہو''_ پھر عمرو معاويہ كے پاس گيا ... الخ_(2)
سمہودى نے اس روايت كو ذكر كرنے كے بعد كہا ہے:'' اس بات سے پتہ چلتاہے كہ دوسرى بار مسجد كى تعميركے وقت رسول اكرم (ص) نے حضرت عمار كے بارے ميں يہ ارشاد فرمايا تھا، اس لئے كہ عمرو نے ہجرت كے پانچويں برس اسلام قبول كيا تھا ''(3)_
عبدالرزاق و غيرہ سے مروى ہے كہ عمرو بن عاص معاويہ كے پاس گيا اور اس نے معاويہ سے كہا كہ ہم
---------------------------------------------------------
1) وفاء الوفاء ج 1ص338_
2)تذكرة الخواص ص 93 از طبقات ابن سعد، الفتوح ابن اعثم ج3 ص 119 و 130 ، الثقات ابن حبان ج2 ص 291 ، انساب الاشراف ; با تحقيق محمودى ج 2 ص 313و ص 317 ، طبقات ابن سعد ج3 حصہ اول ص 180 و 181 المصنف ابن ابى شيبہ ، مسند احمد بن حنبل ج 2 ص 164 ، حاشيہ انساب الاشراف ج 2 ص 313 ; تحقيق محمودي،المناقب خوارزمى ص 160 ، وفاء الوفاء ج1 ص 331و 332_
3) وفاء الوفاء ج1 ص 331 و 332_

83
نے سنا كہ رسول اكرم (ص) عمار كے بارے ہيں فرمارہے تھے: ''اسے (عمار كو) ايك باغى گروہ قتل كرےگا''(1)_
اور معاويہ كے پاس دو آدمى آئے جو حضرت عمار كے سركے بارے ميں آپس ميں جھگڑ رہے تھے ، عبداللہ بن عمرو بن العاص نے انہيں ديكھ كر كہا :'' عمار كے سر كى بابت تمہيں اپنے ساتھى كے لئے راضى ہو جانا چاہئے ، كيونكہ ميں نے عمار كے بارے ميں رسول اكرم(ص) كو يہ فرماتے ہوئے سنا : '' عمار كو ايك باغى گروہ قتل كرے گا _'' اس پر معاويہ نے عمرو سے كہا: ''تو اپنے اس پاگل كو ہم سے دور كيوں نہيں كرليتا ''(2)_
اور يہ واضح ہے كہ حضرت عمار كا واقعہ ايك ہى دفعہ اور ايك ہى مناسبت سے پيش آياہے_
ثانياً: خود روايت ميں قرينہ موجود ہے جس سے واضح ہوتاہے كہ يہ واقعہ مسجد كى دوبارہ تعمير كے دوران پيش آيا تھا، كيونكہ روايت ميں ہے كہ رسول اكرم (ص) اس وقت حضرت ام سلمہ كے حجرے كے سائے ميں تشريف فرماتھے اور يہ بات واضح ہے كہ آنحضرت(ص) نے سب سے پہلے مسجد تعمير فرمائي تھى اور اس كے بعد اپنے حجرے تعمير كئے تھے(3) نيز آپ (ص) نے يہ گھر اكٹھے تعمير نہيں كئے تھے بلكہ ضرورت كے ساتھ ساتھ انہيں تدريجى طور پر تعمير كيا تھا، چنانچہ سب سے پہلے حضرت سودہ اور حضرت عائشہ كا حجرہ تعمير كيا گيا (4) اور اس ميں كسى شك و شبہہ كى گنجائشے نہيں كہ مسجد نبوى كى تعمير مكمل ہونے كے كافى دير بعد آنحضرت(ص) نے حضرت ام سلمہ كيلئے حجرہ تعمير كيا تھا_
---------------------------------------------------------
1) المصنف ج11ص240 ، مجمع الزوائدج 9ص 297 ،ج 7ص242 ، ( امام احمد كى مسند اور طبرانى سے روايت نقل ہوئي ہے)_
2) انساب الاشراف ج2ص313، مسند احمد،مسند عبداللہ بن عمرو، مصنف ابن ابى شيبہ اور فتح البارى كے علاوہ ديگر بہت سے مصادر و منابع ميں يہ روايت نقل ہوئي ہے_
3) زاد المعاد ج1ص25 ، السيرة الحلبية ج2 ص87 _
4) تاريخ الخميس ج1ص346 ، وفاء الوفا ج 2ص 458 وفاء الوفاء كے صفحہ 462 پر ذھبى سے نقل ہواہے كہ آنحضرت(ص) نے سب سے پہلے حضرت سودہ كا گھرتعمير كيا ، پھر جب حضرت عائشہ كيلئے گھر كى ضرورت پڑى تو ان كے لئے گھر تعمير كردايا، اسى طرح مختلف مواقع پر آپ (ص) نے باقى گھر تعمير كروائے_

84

آنحضرت (ص) كى طرف سے عمار كى نصرت و تائيد كا راز:
اس قصے سے ظاہر ہوتاہے كہ اس وقت مسلمان شعور و ادراك كے اس درجہ پر فائز تھے كہ وہ اپنے اس عمل كو اپنى دنيا كيلئے نہيں بلكہ ذخيرہ آخرت سمجھتے ہوئے انجام ديتے تھے اور ان كے اعمال اور افكار و نظريات ميں آخرت ہى كو اولين و آخرين مقام حاصل ہونا چاہئے تھا، اس لئے كہ حقيقى زندگى تو آخرت كى زندگى ہے اور اس كے علاوہ اصلاً زندگى كا تصور ہى نہيں كيا جاسكتا، اور وہاں كى ناكامى ہى حقيقى ناكامى اور خسارہ ہے ...''

اللّھم لا عيش الا عيش الآخرة
فارحم الانصار و المھاجرة
(حقيقى زندگى تو آخرت كى زندگى ہے اے اللہ مہاجرين و انصار پر اپنى رحمتيں نازل فرما)_
آنحضرت(ص) كى ايك حديث(1) كے مطابق حضرت عمار كا پورا وجود نور ايمان سے منور تھا، راہ خدا ميں انہوں نے بہت سى مشكلات اور تكاليف كو خندہ پيشانى سے برداشت كيا اور اپنے دين و عقيدے كى خاطر خلوص دل سے مصروف عمل رہے ، چنانچہ جب بعض افراد كى طرف سے حضرت عمار كو دھمكياں دى گئيں تو ايسے ميں آنحضرت(ص) كى طرف سے ان كى حمايت و نصرت ،ان كے اعمال و افكار كى تائيد تھى اور دھمكياں دينے والے نيز تعمير مسجد كے وقت اپنے آپ كو مٹى اور گرد و غبار سے بچانے والے كا عمل بتارہا تھا كہ وہ ايمان كے لحاظ سے مطلوبہ سطح فكر كا حامل نہيں تھا اور دنيا ہى اس كيلئے سب كچھ تھى جيسا كہ اس شخصيت كے بعد كے اعمال و كردار نے اس بات كو روز روشن كى طرح عياں كرديا_
ان حالات ميں رسول اكرم(ص) كى طرف سے حضرت عمار كى نصرت و حمايت اس بات پر دلالت كررہى تھى كہ حضرت عمار اپنے دين اور عقيدے كى راہ ميں خلوص دل سے جہاد و كوشش ميں مصروف تھے_
يہاں ايك اور بات كى وضاحت بھى ضرورى ہے اور وہ يہ كہ حضرت عثمان نے حضرت عمار كى تحقير و توہين كے ارادے سے انہيں ان كى ماں كى نسبت سے خطاب كرتے ہوئے كہا تھا : '' اے سميہ كے بيٹے يہ كس كى عيب جوئي كررہے ہو'' حالانكہ حضرت عمار كى والدہ محترمہ وہ پہلى مسلمان خاتون ہيں جو شہادت كے عظيم
---------------------------------------------------------
1)البدايہ والنہايہ ج7 ص 312 ، سنن نسائي ج8 ص111 ، الاصابہ ج2 ص 512 ، تہذيب التہذيب ج7 ص 409 ، حلية الاولياء ج1 ص 139 ، سنن ابن ماجہ ج1 ص 52 والاستيعاب ( بر حاشيہ الاصابہ) ج2 ص 478_

85
منصب پر فائز ہوئيں اور جنہيں ان كے دين و عقيدے كى بناپر ظلم و تشدد كے ذريعہ شہيد كرديا گيا _
دوسرى طرف ہم ديكھتے ہيں كہ حضرت عمار كے حامى و ناصر حضرت رسول اكرم (ص) جب ان سے مخاطب ہوتے ہيں تو آپ (ص) بھى ان كى صابرہ اور مجاہدہ ماں كى عظيم شان و منزلت كا اعتراف كرتے ہوئے انہيں والدہ سے نسبت ديتے ہوئے فرماتے ہيں : ''يابن سمية لا يقتلك اصحابى ... الخ''_

پہلے مسجد كى تعمير كيوں؟
غور طلب بات يہ ہے كہ رسول اكرم (ص) نے مدينہ ميں سب سے پہلے جس كام كو شروع كيا وہ مسجد كى تعمير تھى اور اس كام كى بڑى اہميت اور خاص وجہ تھى اوراس كى وجہ يہ تھى كہ :
اس وقت مسلمانوں كے دو گروہ تھے ، مہاجرين اور انصار_ يہ دو گروہ فكرى ، روحاني، اقتصادي، اور عادات و اطوار كے لحاظ سے ايك دوسرے سے مختلف تھے، خود مہاجرين بھى مختلف قبائل سے تعلق ركھتے تھے جو آپس ميں فكري، معاشرتى ، مادى اور روحانى لحاظ سے الگ الگ صفات و خصوصيات كے حامل تھے،نيز انہوں نے اپنا گھر با ر چھوڑ كر وہاں سے ہجرت كرلى تھى اور اب وہ بے وطن اور بے گھر ہوچكے تھے_ اسى طرح انصار بھى ايك دوسرے پر غلبہ و تسلط كے متمنى دو گروہوں ميں بٹے ہوئے تھے اور ماضى قريب ميں كئي دفعہ ان كے درميان تباہ كن جنگيں بھى ہوچكى تھيں_
اس بات كى اہميت كا اندازہ اس امر سے لگايا جاسكتاہے كہ منزل و مقصود كے حصول ميں اہداف، رسومات اور محسوسات و غيرہ كا اثر بہت ہى بنيادى ہے لہذا ان امور ميں نظم و انسجام بہت ضرورى ہے_
اور اسلام تمام لوگوں كے عقائد و نظريات كو اسلامى قالب ميں ڈھالنا چاہتا ہے تا كہ وہ سب ايك ہى جسم كى مانند ہوجائيں اور ہر قسم كى مشكل گھڑى ميں ايك دوسرے كے كام آئيں_ نيز ان كى كوششيں ، اہداف ، اغراض و مقاصد ، موقف اور حركات و سكنات سب يك سو ہوجائيں_ اور يہ چيز ايك دوسرے كے ساتھ رہن سہن كو ممكن بنانے كے لئے ان لوگوں كى نفسياتى ، اخلاقى اور فكرى تربيت كى ضرورت كو مزيد واضح كرديتى

86
ہے_ تا كہ وہ لوگ ايك پروردگار ، ايك ہدف اور ايك مقصد ركھنے والى امت كے بنيادى عنصر يعنى معاشرے كو خود كفيل اور ہم نوا بنانے كے لئے اپنا بھر پور كردار ادا كرسكيں_ اور يہ معاشرہ مدينہ كے يہوديوں ، عربوں اور مشركوں بلكہ پورى دنيا سے در پيش خطرات كے مقابلے ميں رسول(ص) اور رسالت كى حمايت ،حفاظت اور دفاع كر سكے_ اس لئے اس معاشرے كے فكرى اور مادى وسائل اور طاقتوں كو ايك ہى ہدف يعنى رسالت كى خدمت كے لئے ڈھالنا ضرورى تھا_
اور مسجد ہى وہ جگہ ہے جہاں يہ سب اہداف حاصل ہوسكتے ہيں كيونكہ مسجد صرف عبادت ہى كى جگہ نہيں ہے ، بلكہ وہ فكرى اور ذہنى تربيت اور تہذيب كا ايك بہترين اور اعلى مقام ہے_ بلكہ ہمارا مدّعا تو يہ ہے كہ وہ آج بھى ثقافتى ، فكرى اور نظرياتى اتحاد اور انسجام كا بہترين ذريعہ ہے_ كيونكہ جب فرض يہ ہے كہ يہ تعليمات ايك ہى سرچشمہ سے بيان ہوئي ہيں اور زندگى كے تمام مراحل ميں ان كا صرف ايك ہى مقصد ہے ساتھ ہى ذہنوں ميں اللہ تعالى كا تقدس اور اس سے رابطہ كا تصور ہو، تو اس سے مسلم معاشرہ اس فكرى تصادم سے بچ سكتا ہے جو ہر كسى كى اپنى ثقافت كى وجہ سے پيش آنے والى ثقافتى عدم ہم آہنگى سے پيدا ہوتے ہيں، جس كى وجہ سے پھر مفاہيم، افكار اور ذہنى اور ديگر سطح كى جنگ چھڑ جاتى ہے اور اس كے نتيجہ ميں رفتہ رفتہ خلا اور دورياں بڑھتى رہتى ہيں پھر تو واضح طور پر ان اہداف اور ان علامات و غيرہ ميں عدم ہم آہنگى نظر آتى ہے جن كا ہدف تك پہنچنے ميں بہت بڑا كردار ہوتا ہے_
پس مسجد انسانوں كى ذہنى ، فكرى اور نظرياتى تربيت اور معاشرے كے ثقافتى ، نظرياتى اور فكرى اتحاد و انسجام كا بہترين مقام ہے_
ليكن اس زمانے ميں معروف ا سكول فقط بے جان مفاہيم اور انسانى حقيقت سے دور افكار عنايت كر تے ہيں جنكا انسان كى بنيادى ضرورتوں اور روحانى و فكرى تربيت سے دور كا بھى واسطہ نہيں، علاوہ برايں ان افكار ميں اللہ سبحانہ تعالى اور اسكى ذات كے سامنے خشوع و خضوع كا شعور تو بالكل بھى شامل نہيں ہے_
اسى طرح ان اسكولوں ميں عقيدہ و فكر كى تو كوئي گنجائشے ہى نہيں ، صرف تكبر و ہوائے نفس ہى رہ جاتاہے

87
جسے ہمارى خدمت ميں پيش كيا جاتاہے، ہميں دنيا كے ان تاجروں كے ہاتھوں ميں پہنچا ديتے ہيں جو قوموں كو جديد ميڈيا كى قوت سے نابود كررہے ہيں جبكہ آمادگى يا انسانى تربيت كے لئے جن و سائل كا استعمال كر رہے ہيں ان كے ذريعے انسان كو بھوك اور افلاس كى طرف دھكيلا جارہاہے جسكا نتيجہ يہ ہے كہ انسان اپنى ذاتى معاش ہى كى فكر ميں رہتاہے اور اس ميں دوسروں كى ضرورتوں كا احساس ختم ہوكے رہ جاتاہے، ان كے اندر باہمى رابطہ اور محبت و مودت نہ ہونے كے برابر رہ جاتى ہے اور تنگ نظرى پيدا ہوجاتى ہے_
پس اس صورت حال ميں ان تمام گروہوں كى فكرى ، اخلاقى اور روحانى تربيت كا اہتمام بہت ضرورى تھا تا كہ وہ لوگ ايك دوسرے كے ساتھ زندگى بسر كرسكيں اور ان ميں احساس ذمہ دارى پيدا ہو اور ايك دوسرے كى نسبت اسى احساس ذمہ دارى كے ساتھ ايك ايسے معاشرے كو تشكيل ديں جو ايك جسم واحد كى مانند ہو كہ جب اس كے اعضاء ميں سے كوئي عضو درد و الم ميں مبتلا ہو تو جسم كے باقى اعضاء بيدار رہ كر اس مصيبت ميں اس كے ساتھ شريك ہوں_
اور اس طرح يہ معاشرہ رسالت كے دفاع اور اس كى حمايت جيسى عظيم ذمہ دارى سے عہدہ برآہونے كے قابل ہوجائے تا كہ جب مدينہ كے يہودي، دوسرے عرب مشركين بلكہ پورى دنيا ان كى مخالفت پر اتر آئے تو وہ اس كا مقابلہ كرسكيں اور ايك ايسا معاشرہ تشكيل پائے كہ جس كى تمام فكري، مادى اور ديگر قوتيں ايك مشتركہ ہدف يعنى رسالت و نبوت كى راہ ميں صرف ہوں_
ايك ہوں مسلم حرم كى پاسبانى كے لئے
نيل كے ساحل سے لے كر تابخاك كا شغر
خلاصہ يہ كہ سوشل معاشرتى اور اجتماعى كام بھى عبادت ہيں ، جہاد بھى عبادت ہے ، سياسى كام بھى عبادت ہے يہانتك كہ مندوبين كا استقبال بھى عبادت ہے ، مسلمانوں كے امور كى تدبير بھى عبادت ہے ( البتہ اس صورت ميں يہ تمام امور عبادت ميں شمار ہوں گے جب يہ اسلام كے اعلى مقاصد كى ترجماني، تبليغ اور اجراء كے لئے كئے جائيں) اسى طرح مؤمنوں كا باہمى رابطہ، آپس كى ميل ملاقات اور رسول (ص) كريم كى محفل ميں

88
ان كى حاضرى اور احكام دين سيكھنا يہ سب بھى عبادت ہى ہيں_
اور مسجد ہى ايك ايسى جگہ ہے جہاں ان افكار و اہداف كو عملى جامہ پہنايا جاسكتا ہے ، اس لئے كہ مسجد صرف عبادت كى جگہ نہيں بلكہ فكرى تہذيب و تربيت كا بہترين مقام اور وسيلہ ہے ، اگر ہم يہ كہيں كہ مسجد ايك مشتركہ تمدن اور وحدت آراء كى تشكيل كا ايسا بہترين مقام ہے جہاں انسانى زندگى كے تمام پہلوؤں كے لئے ايك ايسا ہدف ميسر آتاہے جس ميں اللہ تعالى كى قدوسيت اور ارتباط كا شعور شامل ہوتاہے تو بے جانہ ہوگا_ اس كے علاوہ مسجد معاشرے كو ايسے فكرى جھگڑوں سے دور ركھتى ہے جو تہذيب و ثقافت كے اختلاف سے جنم ليتے ہيں _ خلاصہ كلام يہ كہ عقائد ، اخلاق اور روحانى تربيت اور بلند مرتبہ تہذيب و ثقافت كے ليے مسجد ايك بہترين وسيلہ ہے، اس كے علاوہ مسلمانوں كے درميان محبت و مودت اور دوستى كو عام كرنے كا ذريعہ بھى ہے ، كيونكہ جب ہر روز چند مرتبہ مسلمان ايك دوسرے سے مليں، ايك ہى صف ميں خدا كے حضور كھڑے ہوں، عملاً عدل و مساوات شعور پر حاكم ہو، جاہ و مال كى تفريق اور فاصلے آڑے نہ آئيں، انسان كى ذات سے غرور و تكبر اور انانيت كے بت پاش پاش ہوچكے ہوں تو ايسى فضاؤں ميں حتمى طورپر محبت و الفت اور برادرى كے عہد و پيمان مضبوط ہوجاتے ہيں ايسے ميں ہرشخص اپنے آپ كو ايسے معاشرے ميں پاتاہے كہ جو محبت و غمخوارى ركھتاہے، وہ سمجھتاہے كہ اس كے دوسرے مسلمان بھائي اس كو اہميت ديتے ہيں، اس پر اعتماد كرتے ہيں اور اس كى مشكلات و مصائب ميں برابر كے شريك ہيں،يہ بات اسے اپنے دين ،ذات ، معاشرے ، اور امت پر اور زيادہ اعتماد كرنے كا شعور بخشتى ہے اس طرح ايك سچا، معتمد مؤمن وجود ميں آتاہے اور ايسے مومنين سے مل كر اسلامى معاشرہ اور بہترين امت وجود ميں آتى ہے جن كے بارے ميں قرآن فرماتاہے ''كنتم خير امة اخرجت للناس''تم بہترين امت ہو جسے انسانوں كےلئے بھيجا گياہے_
مسجد معاشرے كے افراد كے درميان روابط كو عموميت اور تقويت ديتى ہے اور ايسے رسمى ميل جول اور تكلفات كى مشكلات كو كم كرتى ہے جو اختلافات اور طبقہ بندى كى غماز ہوتى ہيں، اسلام كا مسجد كو اس حد تك اہميت دينا كہ پيامبر اكرم (ص) نے قبا اور مدينہ ميں سب سے پہلے مسجد كى تعمير كى ،اس بات كى واضح دليل ہے كہ

89
اسلام چاہتاہے كہ دنيا اور اس كے اسباب كو دينى شعور اور تصور كے زير سايہ استفادہ كيا جائے اور دنيا كو آخرت كى كھيتى سمجھا جائے_
اس كے علاوہ ہم ديكھتے ہيں كہ نبى اكرم (ص) نے مسجد اس لئے بنائي كہ يہ قيادت و امارت كا مركز بھى ہو مسجد ميں پيامبر اكرم(ص) مختلف وفود سے ملاقاتيں كرتے تھے، صلح و جنگ كے احكامات مسجد سے صادر ہوتے تھے، جھگڑوں كے فيصلے مسجد ميں ہوتے، انسانى معاملات و روابط پر غور و خوض كيا جاتا، ان تمامتر امور پر بحث ہوتى جنكا اسلامى حكومت اور اسكے مختلف شعبوں سے كوئي تعلق ہے _يہ مسجد ہى ہے جہاں خدا سے بھى رابطہ ہوتاہے اور خدا كے بندوں سے بھى رابطہ رہتاہے ، مسجد ميں ہى كمزور كو اپنى قوت اور غمزدہ كو صبر و تسلى ملتى ہے اور جو قبيلہ و خاندان نہ ركھتا ہو وہ اس چيز كو بھول كر مسجد ميں اپنا خاندان اور قبيلہ پاليتاہے، محبت و غمخوارى سے محروم شخص مسجد ميں اپنى مراد پاتاہے_
اسى طرح مسجد عبادت او رتعليم فقہ كى بھى جگہ ہے جہاں سے دين و دنيا كے امور ميں رہنمائي ملتى ہے_مسجد اخلاقى و روحانى تربيت گاہ اور اجتماعى و فردى مشكلات كو حل كرنے كى جگہ بھى ہے_

مسجد كو بنانے ميں نبى اكرم(ص) كى شركت:
يقيناً خودمسلمان مسجد بنانے اور اس كے تعميراتى كام كرنے كى قدرت ركھتے تھے اور اكرم (ص) كا بنفس نفيس اس كام ميں شركت فرمانا ضرورى نہيں تھا_ ليكن آپ(ص) نے ان تعميراتى كاموں ميں شركت فرمائي ، اس چيز نے مسلمانوں كے دلوں ميں ولولہ اور جوش پيداكيا اور وہ پورى كوشش اور توانائي كے ساتھ كام ميں مصروف رہے اور كہتے تھے_
لئن قعدنا والنبى يعمل
لذاك منا العمل المضلل
رسول اكرم(ص) كا مسجد كے تعميرى كام ميں شركت كرنا جہاں مسجد كى تعمير كى اہميت كو اجاگر كرتا وہاں ايك اسلامى قائد اور حكمران كى شخصيت كو بھى اجاگر كرتاہے اور يہ عمل رسول (ص) بتاتاہے كہ كام كى اہميت كے پيش نظر

90
اس (قائد و حكمران كى )ذمہ دارى ، حكم صادر كرنے كى حدود سے آگے خود عملى تك ہے ، خصوصاً جب كام ايسا ہو جس ميں مسلمانوں كى مصلحت ، ہدف اصلى اور اسلام كى سربلندى پوشيدہ ہو_

مسجد كى تعمير ميں خواتين كا كردار:
بعض روايتوں ميں آياہے كہ عورتوں نے بھى مسجد كى تعمير ميں بھر پور حصہ ليا_ عورتيں مسجد كى تعمير كے لئے رات كے وقت پتھروں كو اٹھاكر لاتيں اورمرد دن كے وقت يہ كام كرتے(1) اس بارے ميں ہم صرف دو نكات بيان كرتے ہيں:
ايك: جب ہم يہ تصور كرليں كہ اس دور ميں عورتوں كا زندگى كے كسى بھى شعبے ميں كوئي مقام بھى نہيں تھا اور عرب اسے حقارت كى نگاہ سے ديكھتے تھے اور اس كے ساتھ نہايت ہى ظالمانہ اور گھٹيا سلوك روا ركھتے تھے جن كا نمونہ اس كتاب كى دوسرى جلد ميں ذكر ہوچكا ہے _ تو اس سمے ايسے كاموں ميں عورتوں كا حصہ لينا سياسى معاشرتى اور عبادتى لحاظ سے بہت ضرورى اور نہايت ہى اہم كام شمار كيا جاتا تھا_
دو: عورتوں كے معاملہ ميں خاص فضا كے حاكم ہونے كے پيش نظر عورتوں كى اس شركت ميں بھى حفاظتى تدابير اختيار كى گئيں تا كہ وہ دن كے وقت مردوں كى موجودگى ميں كام كرنے كى وجہ سے ان كے ساتھ گھلنے ملنے اور محفوظ نہ رہنے كى صورت ميں معاشرے پر منفى اثرات مرتب كرنے والى فضا سے بھى دور اور محفوظ رہيں_

صرف عورتوں كيلئے نماز جماعت:
كہتے ہيں كہ عورتوں كے ليے عليحدہ نماز جماعت قائم كى جاتى تھى مرد مسجد كے اندر نماز پڑھتے تھے اور خواتين سليمان بن ابى حثمة كى امامت ميں مسجد كے صحن ميں نماز ادا كرتى تھيں ، جب حضرت عثمان خليفہ بنے
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو كشف الاستار عن زوائد البزار ج1 ص 206 و ص 222 و 249 و مجمع الزوائد_

91
تو انہوں نے مردوں اور عورتوں كو اكٹھے نماز پڑھنے كا حكم ديا (1)_
ظاہراً جماعت ميں عورتوں اور مردوں كى جدا ئي نبي(ص) كريم كے بعد عمل ميں آئي اور در اصل يہ جدائي جناب عمر بن خطاب كے دور ميں اس كى ايجاد كردہ بدعت نماز تراويح كى جماعت ميں ہوئي (2) پھر عثمان نے آكر مردوں اور عورتوںكو ايك ہى جماعت ميں كھڑا كيا _
اور جب حضرت على (ع) خليفہ بنے تو حسب سابق مردوں اور عورتوں كى نماز جماعت جدا ہونے لگى اور خواتين '' عرفجہ'' نامى شخص كى امامت ميں نماز پڑھنے لگيں(3)_-
ليكن ان روايات ميں ايك اشكال ہے اور وہ يہ ہے كہ يہ روايات كہتى ہيںكہ حضرت على (ع) نے ماہ رمضان كى نماز ميں ايسا كيا تھا يعنى نماز تراويح ميں_
اور واضح ہے كہ على (ع) اس كو بدعت سمجھتے تھے اور اس سے منع فرماتے تھے(4) پس كسى طرح خود اس كو انجام ديتے تھے، پس صحيح يہ ہے كہ يہ چيز يوميہ نمازوں ميں واقع ہوئي ہے نہ نماز تراويح ميں _
يہ وہ بعض امور تھے كہ جن كو ہم نے مسجد كى تعمير كے حوالے سے بيان كيا ہے اور اس سلسلہ ميں مزيد گفتگو كسى اور موقع پر كريں گے _
انشاء اللہ تعالى
---------------------------------------------------------
1) حياة الصحابہ ج/2 ص 171 از طبقات ابن سعد ج/5 ص 26_
2) ملاحظہ ہو: التراتيب الاداريہ ج1 ص 73 از طبقات_
3) حياة الصحابہ ج/3 ص 171 ، از كنز العمال ج/4 ص 282_
4) دلائل الصدق ج/3 جزء 2 ص 79 ليكن لوگوں نے آپ(ع) كى نہى كى كوئي پروا نہيں كي_

92
3 _ مہاجرين اور انصار كے درميان بھائي چارہ:
آپ صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے مدينہ ميں ورودكے كم و بيش پانچ يا آٹھ ماہ (1)كے بعد آپ (ص) نے اپنے اصحاب يعنى مہاجرين اور انصاركے درميان رشتہ اخوت برقرار كيا _ابن سعد نے يہ بھى اضافہ كيا ہے كہ آپ (ص) نے اسى وقت خود مہاجرين كے درميان بھى مؤاخات برقرار كى (2)_
آپ(ص) نے حقوق اور مساوات پر ان كے درميان مؤاخات برقرار فرمائي _(ايك قول كے مطابق وراثت پر مؤاخات قائم كي)ليكن مؤاخات ركھنے والوں ميں سے كسى كے مرنے سے پہلے ہى سورة انفال نازل ہوئي جس نے وراثت كو رشتہ داروں كے لئے مخصوص كرديا (3)كيونكہ كہتے ہيں كہ مہاجرين ميں سے سب سے پہلے وفات پانے والے شخص عثمان بن مظعون ہيں اور وہ جنگ بدر كے بعد فوت ہوئے (4)_ البتہ ہميں وراثت كے لئے مواخات قائم كرنے ميں شك ہے كيونكہ :
1_ اگر اس حكم كو نسخ ہونا ہى تھا تو عمل كا وقت آنے سے پہلے نسخ معنى نہيں ركھتا كيونكہ اس سے لازم آتاہے كہ مؤاخات كرنے والے اشخاص كے درميان وراثت كا قانون عبث و بے فائدہ ہو ... مگر يہ كہا جائے كہ اس مشكل دور ميں اتنے عرصہ كے لئے بذات خود اس حكم كا جارى ہونا، مسلمانوں كا بھائي چارے كى فضا ميں رہنا اور اتنى گہرى رشتہ دارى نہايت ضرورى تھي_ ليكن ہم اطمينان سے يہ كہہ سكتے ہيں كہ ( يہ حكم نازل نہيں ہوا تھا بلكہ ) خود مسلمانوں يا كچھ مسلمانوں نے يہ گمان كرليا كہ يہ بھائي چارہ ايك دوسرے سے وراثت لينے كى حد تك بھى پہنچ سكتاہے_
2_ خود نبى اكرم (ص) نے مہاجرين اور انصار ميں سے جنگ بدر ميں شہيد ہونے والوں كو ايك دوسرے كا وارث كيوں نہيں ہونے ديا جبكہ يہ واقعہ آيت ''اولوا الارحام بعضہم اولى ببعض'' كے نزول سے پہلے رونما ہوا_
---------------------------------------------------------
1) البحار ج/19 ص 122 ، اور ص 130 كے حواشى از مناقب ابن شہر آشوب ج1 ص 152، المواھب اللدنية ج/2 ص 71 ، تاريخ الخميس ج/1 ص 35 از اسد الغابہ، وفاء الوفاء ج/1 ص 267 ، فتح البارى ج/7 ص 210 ، السيرة الحلبية ج/2 ص 92 _
2) طبقات ابن سعد مطبوعہ ليڈن ج/1 جز ء 2 ص 1_
3)بحارالانوار ج19 حاشيہ ص 130 نيز سيرہ حلبيہ ج2 ص 92 و ص 93_
4)الاصابہ ج2 ص 464 ، الكامل ابن اثير مطبوعہ صادر ج2 ص 141_

93
جبكہ ان كا يہ كہنا كہ''واقعہ بدر كے بعد وفات پانے والے عثمان بن مظعون سے پہلے كوئي مؤمن فوت نہيں ہوا'' بھى صحيح نہيں ہے كيونكہ خود جنگ بدر ميں كئي مسلمانوں نے شہادت پائي _ ہاں يہ ہوسكتاہے كہ عثمان بن مظعون طبيعى طور پر وفات پانے والے پہلے شخص ہوں يا مہاجرين ميں سے وفات پانے والے پہلے مسلمان ہوں_
3 _ يہ بات بھى يقينى نہيں ہے كہ عثمان بن مظعون كى وفات سابقہ حكم كو نسخ كرنے والى آيت كے نزول كے بعد ہوئي ہو_ كيونكہ يہ بات صرف مؤرخين اور مؤلفين كا اپنا اجتہاد اور ان كى ذاتى رائے ہے_

مؤاخات كرنے والوں كى تعداد:
كہتے ہيں كہ مؤاخات كے وقت مسلمانوں كى تعداد نوّے افراد تھى _پينتاليس آدمى انصار ميں سے اور اتنے ہى مہاجرين ميں سے تھے_ ابن الجوزى كا دعوى ہے كہ اس نے انہيں شمار كيا ہے وہ كل چھياسى آدمى تھے_ ايك قول كے مطابق سو آدمى تھے (1) _ البتہ ہوسكتاہے كہ يہ مواخات كل مسلمانوں كى تعداد كے برابر نہيں بلكہ اس واقعہ ميں موجود مہاجرين كى تعداد كے برابر افراد كے درميان ہوئي ہو كيونكہ يہ ايك نادر اتفاق ہى ہوسكتاہے كہ مسلمان مہاجرين كى تعداد بغير كسى كمى بيشى كے اتنى ہى ہوجتنى انصار مسلمانوں كى تھى _ بہر حال پھر نبى اكرم (ص) نے يہ كام جارى ركھا يعنى جو بھى اسلام قبول كرتا يا كوئي مسلمان مدينہ ميں آتا تو حضرت(ص) كسى كے ساتھ اس كى مؤاخات قائم فرماتے(2) _اور اس كى دليل يہ ہے كہ مورخين نے ذكر كيا ہے كہ آپ (ص) نے ابوذر اور منذر بن عمرو كے درميان مؤاخات قائم فرمايا حالانكہ ابوذر جنگ احد كے بعد مدينہ ميں آئے اور اسى طرح آپ (ص) نے زبير اور ابن مسعود كے درميان بھائي چارہ قائم كيا جبكہ آپ (ص) جنگ بدر كى تياريوں ميں مصروف تھے(3) _ليكن اس پر يہ اعتراض كيا جاسكتاہے كہ مسلمانوں كى تعداد اس سے بہت زيادہ تھى
---------------------------------------------------------
1) طبقات ابن سعدج/1جزئ2ص1، المواھب اللدنية ج/1 ص 71، فتح البارى ج/7 ص210،سيرة الحلبية ج/ 2ص 90، البحارج /19، ص130 ،از المنتقى و المقريزي_
2) فتح البارى ج/7 ص 211_
3) فتح البارى ج/7 ص 145_

94
كيونكہ عقبہ ثانيہ ميں اہل مدينہ ميں سے اسي(80) سے زيادہ افراد نے آپ (ص) كى بيعت كى تھى _اسى طرح مدينہ ميں تشريف فرمائي كے صرف دس يا تيرہ مہينے بعد آپ(ص) نے جو سپاہ جنگ بدركے ليے تشكيل دى اس كى تعداد تين سو تيرہ افراد پر مشتمل تھى _
اس كا جواب يہ ديا جاسكتاہے كہ :
اولاً: بعض مورخين نے ذكر كيا ہے كہ آپ(ص) نے مہاجرين كے ڈيڑھ سو افراد كى انصار كے ڈيڑھ سو افراد كے ساتھ مؤاخات برقرار كى تھى (1)_
ثانياً :اگر ہم قائل بھى ہوں كہ يہ قول درست نہيں كيونكہ جنگ بدر كے لئے جانے والے مہاجرين كى تعداد ساٹھ يا اسّى كے درميان تھى ( بناء پر اختلاف اقوال) ، تو ہم يہ جواب ديں گے كہ روايت ميں مؤاخات كرنے والوں كى تعداد ان مہاجرين كى ہے جنہوں نے اپنے انصار بھائيوں كے ساتھ بھائي چارہ كيا تھا_ كيونكہ انصار مہاجرين سے بہت زيادہ تھے جبكہ مہاجرين كى تعداد پينتاليس تھى پس مؤاخات ان كے اور اسى تعداد ميں انصار كے درميان تھى پھر جوں جوں مہاجرين كى تعدادبڑھتى گئي مؤاخات كا يہ عمل بھى جارى رہا يہاں تك كہ ان كى تعداد ايك سو پچاس تك پہنچ گئي جيسا كہ گذشتہ روايت ميں وارد ہوا ہے_ پس مذكورہ تعداد كا يہ مطلب نہيں ہے كہ باقى انصار بھائي چارہ كئے بغير رہ گئے تھے_

ہر ايك كا اس جيسے كے ساتھ بھائي چارہ
نبى اكرم (ص) ہر شخص اور اس جيسے كے درميان مؤاخات برقرار فرماتے جيسا كہ ہجرت سے پہلے اور بعد والى مؤاخات سے ظاہر ہے كيونكہ بظاہر آ پ (ص) نے ہجرت سے پہلے حضرت ابوبكر اورحضرت عمر،طلحہ اور زبير ، عثمان اور عبدالرحمان بن عوف اور اپنے (ص) اور على (ع) كے درميان مؤاخات برقرار فرمائي (2) ليكن ابن حبان
---------------------------------------------------------
1) البحار ج/19 ص 130_
2)مستدرك الحاكم ج/3ص14، وفاء الوفاء ج/1 ص 267 و ص268، السيرةالحلبيةج/2ص20، السيرة النبويہ دحلان ج/1 ص 155 ، فتح البارى ج/7 ص 211 نيز الاستيعاب_

95
كہتاہے كہ يہ مدينہ ميں دوسرى مؤاخات تھى اور اس نے سعد بن ابى وقاص اور عمار بن ياسر كا اضافہ كيا ہے (1)اور يہ سب كے سب مہاجرين ميں سے تھے_
اور مدينہ ميں ابوبكر اور خارجہ بن زھير نيز عمر اور عتبان بن مالك كے درميان رشتہ اخوّت برقرار فرمايا _ پھر على (ع) كا ہاتھ پكڑ كر فرمايا: يہ'' ميرا بھائي ہے ''_ اسى طرح حمزہ اور زيد بن حارثہ كے درميان نيز جعفر بن ابى طالب اور معاذ بن جبل كے درميان بھى مؤاخات برقرار فرمائي اور اسى آخرى مؤاخات پر يہ اعتراض كيا گيا ہے كہ جعفر تو اس وقت حبشہ ميں تھے(2) اور اس كا جواب وہى ہے جو پہلے گزر چكاہے كہ نبى اكرم (ص) نے مسلمانوں كے درميان مؤاخات قائم كرنے كا سلسلہ جارى ركھا يعنى جب بھى كوئي مدينہ ميں آتا تو اسے كسى كا بھائي بناديتے بعض نے يہ جواب بھى ديا ہے كہ آپ (ص) نے جعفر (ع) كى آمد پر معاذ كوجعفر كے ساتھ مؤاخات كے لئے تيار كرركھا تھا(3)_
البتہيہاں پر ايك سوال سامنے آتاہے كہ جعفر كو اس امر كے ساتھ خاص كرنے كى كيا وجہ تھى ؟ يہاںيہ كہا جاسكتاہے كہ شايد جعفر كى شان اور اہميت كا اظہار اور اس كى بيان فضيلت مقصود تھي_

على (ع) كے ساتھ نبى اكرم(ص) كى مؤاخات :
احمد بن حنبل و غيرہ نے روايت كى ہے كہ: آپ (ص) نے لوگوں كے درميان مؤاخات برقرار فرمائي اور على (ع) كو آخر تك چھوڑے ركھا يہاں تك كہ ان كے لئے كوئي بھائي نہ بچا تو على (ع) نے عرض كيا :''يا رسول(ص) اللہ آپ (ص) نے اپنے اصحاب كے درميان تورشتہ اخوت قائم كرديا ليكن مجھے چھوڑ ديا ''؟ تو نبى اكرم(ص) نے فرمايا : ''ميں نے تجھے صرف اپنے لئے ركھاہے _تو ميرا بھائي ہے اور ميں تيرا بھائي ہوں_پس اگر كوئي تجھ سے پوچھے تو كہنا ''انا عبداللہ و اخو رسول اللہ '' ميں اللہ كا بندہ اور اس كے رسول (ص) كا بھائي ہوں _ تيرے بعد
---------------------------------------------------------
1) الثقات ج/1ص 138 ، 142_
2) سيرة ابن ھشام ج/2 ص 151 نيز السيرة الحلبية و غيرہ_
3) البداية النہايةج/3 ص 227 ، السيرة الحلبية ج/2 ص 91_

96
صرف بہت بڑا جھوٹا شخص ہى اس چيز كا دعوى كرے گا مجھے حق كے ساتھ مبعوث كرنے والى ذات كى قسم ميں نے تجھے مؤخر نہيں كيا مگر اپنے لئے اور ميرے ساتھ تيرى وہى نسبت ہے جو ہارون (ع) كى موسى (ع) سے تھى مگر يہ كہ ميرے بعد كوئي نبى نہيں آئے گا اور تو ميرا بھائي اورميرا وارث ہے''(1)_
دلچسپ بات يہ ہے كہ يہى جملہ ''انا عبداللہ و اخو رسولہ'' (ميں اللہ كا بندہ اور اس كے رسول (ص) كا بھائي ہوں) حضرت على (ع) نے نبى اكرم (ص) كى وفات كے بعد اس وقت فرمايا جب حادثات زمانہ كے سبب پيامبر اسلام (ص) كے حقيقى جانشين سے خلافت غصب كرلى گئي_ ليكن صحابہ نے آپ كو جھٹلايا اور جواب ميں كہنے لگے : ''خدا كے بندے ہونے والى بات تو ہم تسليم كرتے ہيں ليكن رسول (ص) كا بھائي ہونے والى بات نہيں '' (2)
نبى اكرم (ص) كے فرمان '' تو ميرا بھائي اور ميرا وارث ہے '' سے يہ سوال پيدا ہوتاہے كہ اگر آپ(ص) كى مراد يہ تھى ''كہ على (ع) نبى اكرم (ص) كے علم كے وارث ہيں نہ كوئي اور'' تو پھر آپ (ص) كے مقام و منصب كا على (ع) كے علاوہ اور كون حقدار ہوسكتاہے؟ اور اگر آپ (ص) كى مراد يہ تھى كہ (على (ع) ہر لحاظ سے آپ (ص) كے وارث ہيں حتى كہ مال و جائيداد كے بھي) تو يقيناً مال و جائيداد حضرت فاطمہ عليہا السلام كا ہى حق تھا (3)جبكہ نبى اكرم (ص) كے بعد خلافت كے غاصب ، حضرت فاطمہ (ع) كے اموال پربھى مسلّط ہوگئے اورفدك و غيرہ بھى انہى اموال ميں سے تھا جس كا ذكر انشاء اللہ اسى كتاب ميں غزوہ بنى نضير پر گفتگو كے دوران ہوگا_
بہر حال بات جو بھى ہو، بھائي چارے والے واقعہ ميں غور كرنے سے معلوم ہوگا كہ اس كا م ميں لوگوں كى سنخيت ، مشابہت اور دلى رجحان كو بھى مدنظر ركھا گيا تھا اور اسى بات كى طرف اشارہ كرتے ہوئے مرحوم ازرى نے حضرت على (ع) كو مخاطب ہوتے ہوئے كہا :
---------------------------------------------------------
1) نہج الحق (دلائل الصدق كے متن كے ضمن ميں) ج/2 ص 267 ، ينابيع المودة ص 56 تذكرة الخواص ص 23 ، احمد سے ( اس كى كتاب الفضائل سے ) اور اس نے اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے اور ابن جوزى نے بھى نيزكنز العمال ج/6 ص 390 ، الرياض النضرة ج/ 2 ص 209 ، تاريخ ابن عساكر ج/6 ص 21 ، كفاية الشنقيطى ص 35 ، 44، الثقات ج 1 ص 141 تا ص 142 _
2)الامامة والسياسة ج1 ص 13 ، اعلام النساء ج4 ص 115 نيز تفسير البرہان ج2 ص 93_
3)ملاحظہ ہو: الكافى ج1 ص 458 با تحقيق غفارى ، بحار طبع تختى ج8 ص 231 نيز طبع جديد ج 100 ص 197 ، كشف الغمہ ج2 ص 132 امالى شيخ طوسى ج1 ص 108 ، العوالم ج11 ص 518 ، امالى شيخ مفيد ص 283 مطبوعہ جامعہ مدرسين نيز ملاحظہ ہو: مرآة العقول ج5 ص 331و غيرہ_

97
لك ذات كذاتہ حيث لو لا
انہا مثلہا لما آخاہا
(يا على (ع) ؟) آپ (ع) كى ذات اور شخصيت بھى آنحضور (ص) كى شخصيت كى مانند تھى _ كيونكہ اگر ايسا نہ ہوتا تو آنحضرت(ص) كبھى بھى آپ(ع) كو اپنا بھائي نہ بناتے_

حديث مؤاخات كا تواتر:
بہر حال ... حديث مؤاخات متواتر ہے اور اس كا انكار ممكن نہيںبلكہ اس ميں شك و شبہہ كى بھى كوئي گنجائشے نہيں ہے _ خصوصا ً نبى اكرم(ص) اور على (ع) كے درميان مؤاخات چاہے مكہ ميں ہونے والى پہلى مؤاخات ہو يا مدينہ ميں ہونے والى دوسرى مؤاخات اور يہ حديث دسيوں صحابہ اور تابعين سے مروى ہے جيسا كہ حاشيہ ميں درج منابع (1)سے معلوم ہوتاہے_
اور مروى ہے كہ آنحضرت(ص) نے حضرت على (ع) سے فرمايا: '' جب قيامت كا دن ہوگا تو عرش كے درميان سے مجھے يہ كہا جائے گا كہ بہترين باپ آپ(ص) كے بابا ابراہيم (ع) اور بہترين بھائي آپ(ص) كے بھائي على (ع) بن ابى طالب ہيں '' (2)
---------------------------------------------------------
1) تاريخ الخميس ج/1ص353،وفاء الوفاء ج/1ص 267،و ص268، ينابيع المودة ص 56 ، 57 (مسند احمد سے ) تذكرة الخواص ص 22 ، 24 ميں ترمذى سے نقل ہواہے كہ اس نے اس حديث كو صحيح قرارديا ہے، السيرہ الحلبيةج/2ص 20وص 90 ، مستدرك الحاكم ج/3 ص 14 ، الثقات لابن حبان ج/1 ص 138 ، فرائد السمطين ج / 1، باب 20 ، الفصول المہمة ابن الصباغ ص22، 29، البداية والنھاية ج/3 ص 226، اور ج/7 ص 35 ، تاريخ الخلفاء ص 170، دلائل الصدق ج/2ص 268 ، 270 ، صاحب دلائل الصدق نے يہ حديث كنز العمال، سنن بيہقى اور ضياء كى كتاب المختارة سے، عبداللہ بن احمد بن حنبل كے زيادات المسند سے آٹھ احاديث اور اس كے و الد كى المسند اور الفضائل ،سے ابويعلى ، الطبرانى ، ابن عدى اور الجمع بين الصحاح الستة سے نقل كيا ہے ، خوارزمى نے بارہ احاديث اور ابن مفازلى نے آٹھ حديثيں درج كى ہيں سيرة ابن ھشام ج/2 ص 150 ، الغدير ج/3 ص 112 تا ص 125 ميں بعض مذكورہ كتب اور مندرجہ ذيل كتب سے نقل ہے : جامع الترمذى ج/2 ص 13، مصابيح البغوى ج/2 ص 199 ، الاستيعاب ج/2 ص 460 ، زندگانى امير المؤمنين ، اس نے حديث مؤاخات كو مسلم احاديث ميں سے شماركياہے تيسير الوصول ج/3 ص 271،مشكاةالمصابيح (حاشيہ مرقاة) ج/5 ص 569 ، المرقاة ص 73 تا ص 75 ، الاصابة ج/2 ص 507 ، المواقف ج/3 ص 276 ، شرح المواہب ج/1 ص 373 ، طبقات الشعرانى ج/2 ص 55 ، تاريخ القرماني( حاشيہ الكامل ) ج/1 ص 216 ، سيرة دحلان (حاشيہ حلبيہ پر) ج/1 ص 325 ،كفاية الشنقيطى ص 34، الامام علي( تاليف محمدرضا) ص21 ، الامام علي( تاليف عبدالفتاح عبدالمقصود) ص 73، الفتاوى الحديثيتہ ص42 ، شرح النہج ج / 2 ، 62 ، اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے اور اسے روايات مستفيضہ ميں سے شمار كيا ہے ، كنز العمال ج/6 ص 294 ص 299 ، 390،399، 400 ، 54 _
2)ربيع الابرار ج1 ص 807 و ص 808_

98
اس بناء پريہ دعوى قابل سماعت ہى نہيں كہ نبى اكرم (ص) نے على (ع) اور عثمان كے درميان مؤاخات برقرار فرمائي(1) يا نبى اكرم (ص) اور عثمان كے درميان مؤاخات ہوئي ، كيونكہ يہ بات بلاشك و شبہہ درست نہيں ہے(2)_ اس لئے كہ اس بات سے ان كامقصد عثمان كى شان كو بڑھانا اور على (ع) كى فضيلت كو جھٹلانا ہے بلكہ عثمان اور على (ع) كو ايك ہى مقام پر لاكھڑا كرناہے _يہ كيسے ہوسكتاہے ؟ اور كب ايسا ہوا ہے ؟

حضرت على (ع) كو ابوتراب كى كنيت ملنا :
يہاں پر كچھ حضرات نے ذكر كيا ہے كہ جب على (ع) نے ديكھا كہ نبى اكرم (ص) نے ان كے اور كسى اور شخص كے درميان مؤاخات برقرار نہيں فرمائي تو غمگين اور دل برداشتہ ہوكر مسجد كى طرف گئے اور مٹى پر سوگئے پھر نبى اكرم (ص) آپ(ع) كے پاس آئے اور آپ(ع) كى پشت سے مٹى جھاڑنا شروع كى اور فرمانے لگے ( قم يا اباتراب) يعنى اے ابوتراب كھڑے ہو جاؤ اور پھر ان (ع) كے اور اپنے (ص) درميان مؤاخات برقرار فرمائي(3)_
اور ہم انشاء اللہ عنقريب سرايا كى بحث ميں اس پر گفتگو كريں گے_

على (ع) كے ساتھ نبى اكرم (ص) كى مؤاخات كے منكرين:
اتنے گذشتہ منابع كے باوجود ( جن كى تعداد توبہت زيادہ ہے ليكن ہم نے ان ميں سے بہت كم كا ذكر كيا ہے) ابن حزم اور ابن كثير حديث مواخات كى سند كے صحيح ہونے كا انكار كرتے ہيں (4) اور اسى طرح ابن تيميہنے بھى اس كا انكار كيا ہے اور اس حديث كو اس دليل كے ساتھ باطل اور جعلى قرار دياہے كہ مہاجرين
---------------------------------------------------------
1)تاريخ ابن خلدون ج/2ص 397 اور الغدير ج/9 ص94 ، 95 اور 318 ميں الرياض النضرة ج/1 ص 17، طبرى ج/6 ص 154 ، كامل ابن اثير ج/3 ص 70 اور معتزلى ج/ 1 ص 165 سے نقل كى ہے ليكن خود اس نے ج/2 ص 506 ميں اس حديث كونقل كيا ہے اور مؤاخات ميں اس كا ذكر نہيں كيا _
2) طبقات ابن سعد مطبوعہ ليڈن ج/3 ص 47 ، الغدير ج/9 ص 16 طبقات سے_
3) الفصول المہمة لا بن الصباغ ص 22، مجمع الزوائد ج/9 ص 111طبرانى كى الكبير اور الاوسط سے، مناقب الخوارزمى ص 7، كفاية الطالب ص 193 ،از ابن عساكر _
4) البداية والنھاية ج/7 ص 223 ، 336_

99
اور انصار كے درميان مؤاخات برقرار كرنے كى غرض يہ تھى كہ وہ آپس ميں ايك دوسرے كے ساتھ نرمى كا سلوك كريں ان كے دلوں ميں ايك دوسرے سے الفت و محبت پيدا ہو پس نبى اكرم (ص) كا اپنوں ميں سے كسى ايك كے ساتھ اور مہاجرين كے درميان ايك دوسرے كے ساتھ مؤاخات قائم كرنا كوئي معنى نہيں ركھتا(1)_

ہم كہتے ہيں كہ :
على (ع) كے ساتھ نبى اكرم (ص) كى مؤاخات والى حديث كى سند كا انكار بے معنى ہے جب كہ محققين اور بزرگان ميں سے بہت سى شخصيات نے اسے صحيح قرار دياہے اوردسيوں صحابہ ،تابعين اور علماء و غيرہ سے مسلمانوں كى كتابوں ميں اور تواتر كے ساتھ يہ حديث نقل كى گئي ہے خصوصاً جب يہ انكار ان تين اشخاص ( ابن حزم ، ابن كثير اور ابن تيميہ) سے ہو جو على (ع) اور اہل بيت طاہرين عليھم السلام كے فضائل كے سلسلہ ميں متعصب اور ان سے دشمنى ميں معروفہيں_ جس چيز كو ابن تيميہ نے اپنے انكار كرنے كى علت كے طور پر ذكر كيا ہے تو اس كا جواب يہ ہے :
1_ بہت سے حضرات نے بھى يہ جواب ديا ہے كہ يہ قياس كے ذريعہنص كى ترديد اور اس مسئلہ ميں حقيقى حكمت سے غفلت ہے _ كيونكہ كچھ مہاجرين دوسروں كى نسبت مال اور قبيلہ كے لحاظ سے مضبوط حيثيت كے مالك تھے _ اس وجہ سے ايكدوسرے كى مدد بھى ممكن تھى پس آپ (ص) نے ان مہاجرين كے درميان مؤاخات قائم كى تا كہ وہ ايك دوسرے كى مدد كريں _ پھر انہوں نے اسى احتمال كو على (ع) اور نبى اكرم (ص) پر بھى منطبق كيا ہے كيونكہ بعثت سے پہلے نبى اكرم(ص) على (ع) كى كفالت كيا كرتےتھے (2) يعنى مہاجرين كے درميان بھى باہمى محبت اور الفت مطلوب تھى كيونكہ يہ لوگ مختلف گروہوں سے تعلّق ركھتے تھے اور مختلف عقيد وں ، ذہنيت اور معاشروں كے مالك تھے_
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو: منھاج السنةج/2ص119،البدايةوالنھاية ج/3ص227،فتح البارى ج/7ص211،السيرةالنبوية لدحلان ج/1ص5 15 ، السيرة الحلبيةج/2ص20،دلائل الصدق ج/2 ص 272_
2)وفا الوفاء ج/1 ص 268، فتح البارى ج/7 ص 211،والسيرة الحلبية ج/2ص 20، السيرة النبوية لدحلان ج/1ص 155، الغدير ج/3 ص 174تا 175 ، عن الفتح عن الزرقانى فى شرح المواھب ج/1 ص 373_

100
بلكہ مواخات كى نصّ ميں يہ تصريح وارد ہوئي ہے كہ يہ مؤاخات حق اور ايك دوسرے كى حمايت پر مبنى تھى اور مہاجرين كو ايك دوسرے كى حمايت كى ضرورت تھى كيونكہ خود ان كے بقول اگر كسى ايك قبيلہ سے ايك آدمى نے ہجرت كى تھى تو دوسرے قبيلہ سے دس آدميوں نے ہجرت كى تھى پس اس ايك كو ان دس افراد كى جانى اور مالى امداد كى ضرورت ہوتى تھي_ اسى طرح بعض حضرات نے يہ دعوى بھى كيا ہے كہ كچھ مہاجرين اپنا مال اپنے ہمراہ لائے تھے پس اگر ان كا يہ دعوى صحيح ہو تو ان كے لئے ايك دوسرے كى مالى امداد ممكن تھي_
ليكن حضرت على (ع) اور نبى اكرم (ص) كى بہ نسبت ہميں ان كے اس قول سے اتفاق نہيں ہے كيونكہ حضرت على (ع) تو اس حد تك پہنچ چكے تھے كہ كام كر كے اپنى كفالت خود كرسكيں اور زراعت يا تجارت بلكہ غنائم سے اپنى ضروريات كو پورا كرسكيں _نبى اكرم(ص) كا آپ سے مواخات برقرار كر نے كا مقصد صرف يہ تھا كہ آپ (ع) كى شان اورمنزلت كى پہچان كروائي جائے اور ووسرے لوگوں پر آپ كى فضيلت كا اظہار كيا جائے كيونكہ نبى اكرم (ص) نے ايك جيسے اشخاص كے درميان رشتہ اخوّت برقرار فرماياتھا_ جيسا كہ مؤرخين نے اس بات كى تصريح كى ہے اور خود مؤاخات كے عمل پر غور كرنے سے بھى يہ واضح ہوجاتا ہے ،كيونكہ يہى چيز باہمى تعاون ميں زيادہ ممّد و معاون اور باہمى محبت و الفت كے لئے زيادہ ضرورى ہے_(1)
2_ حاكم اور ابن عبدالبر نے سند حسن كے ساتھ يہ روايت ذكر كى ہے كہ نبى اكرم (ص) نے زبير اور ابن مسعود كے درميان رشتہ اخوت قائم كيا حالانكہ وہ دونوں مہاجرين ميں سے تھے اور ضياء نے اس روايت كو اپنى كتاب ( المختارة من المعجم الكبيرللطبراني) ميں درج كيا ہے اور خود ابن تيميہ نے تصريح كى ہے كہ المختارة كى احاديث المستدرك سے زيادہ صحيح اور با وثوق ہيں_ (2)
ليكن ضرورى ہے كہ يہ مواخات ابن مسعود كے مدينہ ميں آنے كے بعد واقع ہوئي ہو كيونكہ ابن مسعود حبشہ كى طرف ہجرت كرنے والوں ميں سے تھے اور عمومى مواخات كے واقعہ كے بعد اس وقت مدينہ ميں آئے جب نبى اكرم(ص) بدر كے لئے جنگى تياريوں ميں مصروف تھے_(3)
---------------------------------------------------------
1) دلائل الصدق ج/2 ص 272 / 273_
2) فتح البارى و فاء الوفا ء ج / 1 ، ص 268 _ الغدير ج/3 ص 174 ، 175 ازالفتح و از شرح المواہب للزرقانى ج/1 ص 373 _
2) فتح البارى ج/7 ص 145_

101
اسى طرح ہجرت كے بعد (بعض كے بقول ) آپ (ص) نے حضرت ابوبكر او ر حضرت عمر ، حضرت عثمان اور عبدالرحمان بن عوف ، طلحہ اور زبير ، سعد بن ابى وقاص اور عمار بن ياسر اور اپنے اور حضرت على (ع) كے درميان مؤاخات قائم كى _(1)
اور اسى طرح زيد بن حارثہ كى حضرت حمزہ كے ساتھ مؤاخات بھى ثابت ہے جب كہ وہ دونوں مہاجر تھے_ اس لئے تو كہا جاتاہے كہ حمزہ كى بيٹى كى كفالت كے سلسلہ ميں زيد ، على (ع) اور جعفر كے درميان كشمكش ہوئي تو زيد كى دليل يہ تھى كہ وہ اس كے بھائي كى بيٹى ہے_(2)
البتہ حمزہ كى بيٹى كى كفالت كے سلسلہ ميں واقع ہونے والے اختلاف كے متعلق ہميں شك ہے كيونكہ حضرت حمزہ كى شہادت كے وقت جناب جعفر موجود ہى نہيں تھے جبكہ اس صورت ميں برسوں تك جناب حمزہ كى بيٹى كا كسى سرپرست كے بغير رہنے كا كوئي جواز نہيں ہے _ كيونكہ اگر اتنے عرصے ميں وہ جناب على (ع) كے پاس رہى تو اتنے عرصے تك زيد نے كيوں خاموشى اختيار كئے ركھى اور حضرت على (ع) سے تنازعہ كيوں نہيں كيا_ اور اسى طرح بر عكس ، اگر وہ حضرت على (ع) كے پاس نہيں بلكہ زيد كے پاس تھى تو حضرت على (ع) نے اتنے عرصے تك اس سے بحث كيوں نہيں كيا؟ _ بہر حال جناب حمزہ كى بيٹى كى كفالت كے سلسلے ميں مذكورہ تنازعہ مزيد تحقيق كا محتاج ہے_ بارگاہ رب العزة ميں دعا ہے كہ ہميں كسى مناسب فرصت ميں اس كى تحقيق كرنے كى توفيق عنايت فرمائے_
ان شاء اللہ تعالى ...
---------------------------------------------------------
1) الثقات لابن حبان ج/1ص 138 تا142، اور ملاحظہ فرمائيں الغدير ج/10ص 103تا 107،مستدرك الحاكم ج/3 ص 14 وفاء الوفاء ج/1 ص 268 السيرة الحلبية ج/2 ص20، السيرةالنبويةلدحلان ج /1ص 155،فتح البارى ج/7ص211،نيز الاستيعاب ميں حضرت عثمان كا ذكر ہے جب كہ وہ حبشہ ميں تھے اور اسى طرح عبدالرحمن بن عوف كا ذكر كرنا اس بات كى تائيد ہے كہ يہ مدينہ كى طرف ہجرت كے بعد دوسرى مواخات تھي_
2) صحيح البخارى ج/3ص 37ط الميمنية ،مستدرك الحاكم ج/2ص120 تلخيص المستدرك لذھبى صفحہ مذكور كے حاشيہ پر و ديگر منابع _