23
دوسرى فصل :
غير جنگى حوادث و واقعات
25
حبشہ كى طرف ہجرت كرنے والے بعض مہاجرين كى واپسى :
جب حبشہ ميں موجود مسلمانوں كو نبى اكرم(ص) اور مسلمانوں كى مدينہ كى طرف ہجرت كى خبر پہنچى تو ان ميں سے (33) مرد اور آٹھ عورتيں واپس آئيں_ جن ميں سے دو مرد مكہ ميں فوت ہوگئے اور سات آدميوں كو قيد كر ليا گيا ليكن باقى مدينہ ميں رسول اللہ (ص) كى خدمت ميں پہنچے جن ميں سے چوبيس افراد جنگ بدر ميںبھى موجود تھے(1) _
اور(حبشہ سے) مدينہ كى طرف ہجرت كا يہ سلسلہ جارى رہا (2) يہاں تك كہ حضرت جعفر (ع) ہجرت كے ساتويں سال فتح خيبر كے موقع پر باقى ماندہ افراد كو لے كر پہنچے _ جسكا ذكر انشاء اللہ بعد ميں آئے گا_
مذكورہ بالا تيس اشخاص ان افرادكے علاوہ ہيں جو بعض كے بقول بعثت كے پانچويں برس اور ہجرت مدينہ سے آٹھ سال پہلے مكہ ميں واپس آئے تھے_ ليكن ان كا مكہ سے گزرنے كا سبب(حالانكہ وہ اسى شہر سے ہى بھاگ كرگئے تھے) بظاہر يہ ہے كہ چونكہ مدينہ كى طرف جانے والا راستہ مكہ كے قريب سے گزر تا تھا(3) تو شايد وہ مكہ ميں موجود ا پنے اموال كو لينے، اقربااور رشتہ داروں سے ملنے اور بيت اللہ كى زيارت سے مشرف ہونے كے بعد پھر مدينہ جانے كے ارادے سے مخفيانہ يا علانيہ طور پر مكہ ميں داخل ہوئے_
ليكن قريش ان كے ساتھ قساوت قلبى اور سنگدلى كے ساتھ پيش آئے، ان كے لئے كسى قسم كے
---------------------------------------------------------
1) طبقات ابن سعد ج/ حصہ1ص 139_
2) طبقات ابن سعد ج/1حصہ1 ص 139،زاد المعاد ج/ 1 ص 25 و ج/ 2 ص 24 ، 45 ، البدء والتاريخ ج/ 4 ص 152 و فتح البارى ج/7 ص 145_
3) اور اس پر المصنف ج/5 ص 367 كى يہ عبارت دلالت كرتى ہے كہ ''جب رسول اللہ (ص) كفار قريش سے برسرپيكارہوئے تو وہ مہاجرين حبشہ كے رسول (ص) خدا كے پاس پہنچنے سے مانع ہوئے_يہاں تك كہ وہ لوگ جنگ خندق كے موقع پر مدينہ ميں آپ(ص) سے آملے''_ البتہ ان كا '' جنگ خندق كے مو قع پر '' كہنا ، ناقابل تائيد ہے اور شايد خندق ، خيبر كى جگہ لكھا گيا ہے_
26
احترام ، غريب الوطنى اور رشتہ دارى كا لحاظ بھى نہيں كيا اور يہ بات واضح ہے كہ حبشہ كے مہاجرين كے اس گروہ كا مدينہ ميں پہنچنا نبى اكرم(ص) كے مدينہ پہنچنے كے چند مہينے بعد تھا كيونكہ نبى اكرم(ص) كى ہجرت كى خبر كاان تك پہنچنا پھر ان كا مكہ كى طرف آنا اور وہاں پر رشتہ داروں سے ملاقات كرنا اور قريش كا وہ سلوك كرنا اور پھر ان كا مدينہ كى طرف ہجرت كرنا يہ سب چيزيں ايك طولانى مدت كے گزرنے كى متقاضى ہيں، يہاں تك كہ عسقلانى كہتا ہے :'' ابن مسعود مكہ كى طرف اور پھر مدينہ كى طرف ہجرت كرنے والے تيس آدميوں ميں سے تھے اور وہ مدينہ ميں اس وقت پہنچے جب نبى اكرم(ص) جنگ بدر كى تياريوں ميں مصروف تھے''(1)_
حضرت عائشہ نبى اكرم (ص) كے گھر ميں :
ہجرت كے پہلے سال (اور كہا گيا ہے كہ دوسرے سال )حضرت عائشہ نبى اكرم(ص) كے بيت الشرف ميں آئيں اور يہ ماہ شوال كى بات ہے، مورخين نے كہا ہے كہ نبى اكرم(ص) نے اس كے علاوہ كسى دوسرى كنوارى عورت سے شادى نہيں كى ليكن ہم اس بات كے صحيح ہونے پر اطمينان نہيں ركھتے اور اس كى وجہ نبى اكرم(ص) كے حضرت خديجہ (ع) كے ساتھ ازدواج كى بحث ميں گزر چكى ہے كہ حضرت خديجہ (ع) كى رسول (ص) خدا كے علاوہ كسى دوسرے آدمى سے شادى كا مسئلہ نہايت مشكوك ہے_ ہو سكا تو انشاء اللہ ہم آئندہ بھى اس كى طرف اشارہ كريںگے_
رخصتى كى رسم
اور ہميں معلوم نہيں ہوسكا كہ كس وجہ سے حضرت عائشہ كى رخصتى كى رسم نبى اكرم(ص) كے نزديك اہميت نہيں ركھتى تھى كيونكہ روايت كى گئي ہے كہ آپ(ص) نے اس كے لئے وليمہ نہيں كيا حالانكہ اس دور ميں لوگوں كو آپ(ص) سے وليمہ كھانے كى توقع بھى تھى اور آپ(ص) اس كى طاقت بھى ركھتے تھے_ صر ف يہى كچھ نقل كيا گيا ہے كہ دودھ كاايك پيالہ سعد بن عبادہ كے گھر سے آيا اور اس ميں سے كچھ آپ(ص) نے پيا اور باقى حضرت عائشہ (2)
---------------------------------------------------------
1) فتح البارى ج/7 ص 145 _
2) تاريخ الخميس ج/1 ص 358 ، السيرة الحلبية ج/2 ص 121 _
27
نے_اسى كو آپ(ص) كى اس شادى كا وليمہ قرار دينا بھى صحيح نہيں كيونكہ يہ طبعى بات ہے كہ آپ (ص) تو اپنے پاس بيٹھنے والے كو كھانا پيش كرنے سے غفلت نہيں فرماسكتے تھے آپ(ص) كى زوجہ كى تو بات ہى اور ہے_
انوكھا استدلال :
حضرت عائشہ نبى اكرم(ص) كے نزديك اپنى منزلت اورشان پر اس طرح استدلال فرماتى تھيں كہ آپ (ص) نے ان كے ساتھ ماہ شوال ميں ازدواج كيا تھا _ وہ كہتى تھيںكہ :
رسول اللہ (ص) نے ماہ شوال ميں مجھے شرف زوجيت بخشا پس رسول اللہ (ص) (ص) كى ازواج ميں سے كون سى زوجہ آپ(ص) كے نزديك مجھ سے زيادہ منزلت ركھتى ہے؟(1)_
حقيقتاً يہ انوكھا استدلال ہے _ اس لئے كہ كب ماہ شوال كى اتنى عظيم فضيلت تھى جو حضرت عائشہ كى منزلت و فضيلت پر دلالت كرتى ؟_
جبكہ بلاشك و شبہہ حضرت خديجہ اور حضرت ام سلمہ اورديگر ازواج ،نبى اكرم (ص) كے نزديك ان كى نسبت زيادہ منزلت و عظمت ركھتى تھيں اسى وجہ سے تو يہ ان سے حسد كرتيں، ان كو اذيت ديتيں اور اكثر خودنبى اكرم(ص) كے سامنے بھى ان كے ساتھ بد اخلاقى كا مظاہرہ كرتى تھيں ہمارے اس دعوے كے بعض دلائل ہجرت سے پہلے حضرت عائشہ كے عقد سے بحث كے دوران ذكر ہو چكے ہيں_
اور اس سے بھى عجيب تربات يہ ہے كہ بعض حضرات نے ماہ شوال ميں عقد كے استحباب كا حكم صادر كيا ہے(2) _
لگتا يہى ہے كہ رسول (ص) كريم كى رحلت كے بعد آنے والى حكومت وقت كى دست راست اور حكومت وقت اور ان كے حاميوں كى آنكھوں كے كانٹے حضرت على (ع) كى اچھائي كے ساتھ نام تك نہ لے سكنے والى (3)
---------------------------------------------------------
1) تاريخ طبرى مطبوعہ الاستقامة ج 2 ص 118 ، السيرة الحلبيہ ج 2 ص 120، تاريخ الخميس ج 1 ص 358_
2) نزھة المجالس صفورى الشافعى ج/2 ص 137_
3)فتح البارى ج 2 ص 131، مسند احمد ج 6 ص 228 ،و الغدير ج 9 ص 324_
28
حضرت عائشہ سے كچھ لوگوں كى محبت و عقيدت ، اور ان كى خواہشات كو اہميت دينا ہى ان لوگوں كى اس طرح كى شريعت سازى كا موجب بنا_حالانكہ خود ہى روايت كرتے ہيں كہ نبى اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے حضرت جويريہ اورحضرت حفصہ كے ساتھ ماہ شعبان ميں اور زينب بنت خزيمہ كے ساتھ ماہ مبارك رمضان ميں اور زينب بنت جحش كے ساتھ ذى القعدہ ميں رشتہ ازدواج استوار فرمايا_ پس اس صورت ميں نبى اكرم (ص) نے اس مستحب كو ترك كيا ہے اور اس پر صرف اور صرف اكيلى حضرت عائشہ كے لئے عمل كيا ہے_ يہ بات حقيقتاًتعجب آور ہے اور نہايت ہى عجيب ہے
ايك نئے دور كى ابتداء
بہر حال ... نبى اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے بيت الشرف ميں حضرت عائشہ كے آنے سے امن و آشتى اور عظمت و وقار كے نمونہ اس گھر ميں خاص قسم كى تبديلياں رونما ہونا شروع ہوگئيں اوريہ گھر بہت سے ايسے اختلافات اور جھگڑوں كى جولانگاہ بن گيا جو اكثر اوقات نبى اكرم(ص) كے لئے غم و غصّہ كے موجب بنتے تھے اوراكثر جھگڑوں ميں حضرت عائشہ كا كردار بنيادى ہوتا تھا_
ہمارے اس مدعا پر تاريخ اور متواتر احاديث گواہ ہيں بلكہ بعض منابع كے مطابق خود حضرت عائشہ نے تصريح كى ہے كہ : ''نبى اكرم(ص) كے بيت الشرف ميں رونما ہونے والے تما م اختلافات كا سبب ميں ہى تھي''_
مومنين كے درميان صلح والى آيت:
بعض مورخين نے غزوہ بدر سے پہلے كے حالات ميں لكھا ہے(1) كہ رسول اسلام (ص) ايك مرتبہ خزرج كے قبيلہ بنى حرث ميں سعدبن عبادہ كى عيادت كے لئے تشريف لے گئے _ يہ واقعہ عبداللہ بن ابى بن سلول كے اسلام لانے سے پہلے كاہے_
---------------------------------------------------------
1)سيرہ حلبيہ ج2 ص 64_
29
آپ(ص) اپنى سوارى پرسوارعبدالله بن ابى كى ايك محفل كے قريب سے گذرے جس ميں مسلمان، مشركين، اور يہودى ملے جلے بيٹھے تھے _ ان ميں عبداللہ بن رواحہ بھى موجود تھا_ آپ (ص) كى سوارى كى ٹاپوں سے گرد و غبار اڑا تو ابن ابى نے اپنى چادر سے ناك ڈھاپنتے ہوئے كہا:'' ہم پر گرد و غبار نہ اڑاؤ''_ آپ(ص) سوارى سے نيچے اترے اور اسے مسلمان ہونے كى دعوت دى تو ابن ابى كہنے لگا : '' بھلے مانس اگر تيرى باتيں سچ ہيں تو يہ سب سے بہترين باتيں ہيں ليكن تيرے كہنے كا انداز بالكل بھى صحيح نہيں ہميں محفل ميں آكر پريشان مت كرو ،جاؤ اپنى سوار ى كا رخ كرواور جو تمہارے پاس آئے تم اسے يہ باتيں سنانا''_ ابن رواحہ نے كہا:'' جى ہاں يا رسول اللہ آپ ہمارے پاس آكر ہميں اطمينان سے يہ باتيں سنائيں كيونكہ ہميں آپ(ص) كى يہ فرمائشےات پسند ہيں '' _ پھر تو مسلمانوں اور مشركوںكے درميان ايسى گالى گلوچ شروع ہوگئي كہ ماركٹائي تك نوبت پہنچنے والى تھى _ ليكن رسول (ص) خدا انہيں خاموش رہنے كى برابر تلقين كرتے رہے ، يہاں تك كہ وہ خاموش ہوگئے_
اس كے بعد آپ(ص) سعد بن عبادہ كے پاس تشريف لے گئے اور سارا ماجرا اسے سنايا_ سعد نے عرض كى كہ آپ (ص) ابن ابى كو چھوڑ ديں كيونكہ جلد ہى ہم اس پر ہلہ بوليں گے _ ليكن جب وہ ان كے حملے سے پہلے اسلام لے آيا تو سعد بن عبادہ كے قبيلہ والے اس پر چڑھائي سے باز رہے _
دوسرى روايت يہ كہتى ہے كہ رسول كريم (ص) اور كچھ مسلمان آپ (ص) كے ہمراہ ابن ابى كى طرف تشريف لے گئے تا كہ ا س كے قبيلے سے روابط برقرار كريں _جب آپ(ص) اس كے پاس پہنچے تو اس نے كہا: ''دور ہو جاؤ مجھ سے بخدا تمہارى سوارى كى بد بو سے مجھے بہت تكليف ہوئي ہے ''_ اس پرايك انصارى صحابى بولے:'' اللہ كى قسم تيرے وجود كى بوسے رسول اللہ كى سوارى كى بو كہيں زيادہ پاكيزہ ہے''_ ابن ابى كے قبيلے كے آدمى كو غصہ آيا اس نے اسے گا لياں ديں_ اب طرفين غضبناك ہوگئے اور پھر دونوں ميں چھڑيوں اورجوتوں سے لڑائي ہوئي _
30
اس موقع پر يہ آيت نازل ہوئي:
( و ان طائفتان من المومنين اقتتلوا فاصلحوا بينھما ...)(حجرات _9)
اگر مومنين كے دو گروہوں ميں لڑائي ہوجائے تو ان ميں صلح كرادو_(1)
تفسير مجمع البيان ميں مذكورہے كہ جس نے ابن ابى سے مذكورہ بات كى وہ عبداللہ بن رواحہ تھے اور لڑائي ابن رواحہ كے قبيلے اوس اور ابن ابى كے قبيلے خزرج كے درميان ہوئي_
البتہ دونوں روايات قابل اعتراض ہيں _كيونكہ:
اولاً: آيت صلح پہلى روايت پہ منطبق نہيں ہوتى كيونكہ اس روايت كى روسے جھگڑا مشركوں اور مسلمانوں كے درميان تھادو مسلمان گروہوں كے درميان نہيں _بلكہ دوسرى روايت سے بھى ظاہر نہيں ہوتا كہ يہ جھگڑا مومنين كے دوگروہوں ميں تھا _اگر دونوں روايات كو ايك روايت قرار ديں كيونكہ دونوں كا سياق و سباق اور مضمون ايك ہى ہے تو پھر بھى يہ اطمينان حاصل نہيں ہوتا كہ يہ آيہ مجيدہ اسى مناسبت سے نازل ہوئي ہو_
ثانياً : آيہ مجيدہ سورہ مباركہ حجرات ميں ہے جو ہجرت كے چند سال بعد نازل ہوئي _كيونكہ اس سورت كا نزول سورہ مجادلہ ، اور جنگ خندق كى مناسبت سے نازل ہونے والى سورت احزاب اور ديگر سورتوں كے نزول كے بعد ہوا_ جبكہ يہ بات گزر چكى ہے كہ مذكورہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے كاہے_ ان سارى باتوں كے علاوہ روايات كے مضامين ميں بھى اختلاف و تناقض پايا جاتاہے جو واضح ہے_
البتہ ايسا بھى نہيں كہ روايت سرے سے ہى ناقابل قبول اور جعلى ہو_ تا ہم ہو سكتا ہے يہ واقعہ ہجرت كے چند سال بعد سورہ حجرات كے نزو ل اور ابن ابى كے اسلام لانے كے بعد رونما ہوا ہو اور جھگڑا مومنين كے دو گروہوں كے درميان ہو_ اس اعتبار سے دوسرى روايت مضمون كے زيادہ قريب اور مناسب ہے_
---------------------------------------------------------
1)السيرة الحلبيہ ج/2 ص63و64،درمنثورج/6ص90از مسلم، بخاري، احمد، بيہقى كى سنن ، ابن مردويہ ، ابن جرير اور ابن منذر ، حياة الصحابہ ج/2 ص 578 ،579 ، 560از البخارى ج/1ص 370 ، ج/3 ص 845_
31
سلمان محمدي(ص) كاقبول اسلام :
پہلى ہجرى ميں اوربقولے اسى سال كے ماہ جمادى الاولى (1) ميں سلمان محمدي(ص) المعروف سلمان فارسى (حشر نا اللہ معہ و فى زمرتہ )نے اسلام قبول كيا_ يہى وہ شخصيت ہيں جن كے بارے نبى اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اور ائمہ اہل بيت عليھم السلام نے فرمايا: ''سلمان منا اھل البيت'' (2)_
يہى وہ سلمان ہيں جنہوں نے دين حق كى تلاش ميں اپنے علاقے سے ہجرت كى اور اس را ہ ميں انہوں نے بہت سارى مصيبتيں اور مشكلات برداشت كيں _ يہاں تك كہ غلام ہوئے اور پھر نبى اكرم(ص) كے ہاتھوں آزاد ہوئے (3)_
كہتے ہيں كہ مدينہ ميں ''قبا'' كے مقام پر حضرت سلمان فارسى نے نبى اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں حاضرى دى اور آپ (ص) كے سامنے يہ كہہ كہ كھجوريں پيش كيں كہ يہ صدقہ ہے _ آپ (ص) نے خودتو كھانے سے انكار فرماياليكن اصحاب سے امر فرمايا كہ كھاليں تو انہوں نے يہ كھجوريں كھاليں_ حضرت سلمان نے اسے پہلى نشانى شمار كيا _
اگلى مرتبہ پھر جناب سلمان كى ملاقات آنحضرت(ص) سے مدينہ ميں ہوئي_ اس نے آپ (ص) كى خدمت ميں كھجوريں يہ كہہ كر پيش كيں كہ يہ تحفہ ہے _آپ (ص) نے قبول فرمايا اور كھجوريں كھاليں پس حضرت سلمان نے اسے دوسرى نشانى شمار كيا _
---------------------------------------------------------
1)تاريخ الخميس ج/ 1 ص 351_
2)قاموس الرجال ج/4 ترجمہ سلمان_
3) المصنف ج / 8 ص 418 ميںان كے اسلام لانے كا واقعہ مذكور ہے جس كا خلاصہ يہ ہے كہ سلمان فارسى كے علاقے ميں ايك راہب تھا _ آپ نے بعض خاص قسم كى تعليمات اس سے سيكھيں اور علاقے كے لوگوں كو بتائيں تو انہوں نے راہب كو اپنے علاقے سے نكال باہر كيا_ آپ اپنے اہل و عيال سے چھپ كر اس كے ساتھ وہاں سے نكلے اور موصل پہنچ گئے _ وہاں انكى ملاقات چاليس40راہبوں سے ہوئي _ چند ماہ بعد ايك راہب كے ہمراہ آپ بيت المقدس گئے وہاں ايك راہب كى سخت عبادت و رياضت اور انكى بے چينى كو ديكھا ليكن پھر جلد ہى اس كا دل اس سے بھر گيا _ وہاں انصار كے سواروں كے ايك دستے نے ان راہبوںسے حضرت سلمان كے بارے سوال كيا توانہوںنے جواب ديا كہ يہ ايك بھگوڑا غلام ہے _پس انہوں نے اسے مدينے لے جاكر ايك باغ ميں كام پر لگاديا_ اس راہب نے جناب سلمان كو بتايا تھا كہ عرب سے ايك نبى (ص) نے عنقريب ظہور كرناہے جو صدقہ نہيں كھائے گا، ہديہ قبول كرے گا اور اسكے شانوں پر نبوت كى مہر ہوگى _ اس راہب نے آپ سے كہا تھا كہ اسكى اتباع كرنا_
32
اسكے بعد حضرت سلمان كى ملاقات آپ(ص) سے بقيع كے ايك نشيب ميں ہوئي جہاں آپ(ص) اپنے بعض اصحاب كى تشيع جنازہ ميں شريك تھے پس قريب آئے ، آپ (ص) پر سلام كيا اور پيچھے پيچھے چل ديئے_ آپ (ص) نے اپنى پشت مبارك سے چادر ہٹائي تو ديكھا كہ شانوں پر نبوت كى مہر موجود ہے_ پس اب وہ آپ (ص) كى طرف جھكے ،شانوں پر بوسہ ديا اور گريہ كرنا شروع كيا_ اس كے بعد اسلام قبول كيا اور آپ (ص) كى خدمت ميں اپنا سارا واقعہ بيان كيا _ اسكے بعد حضرت سلمان نے اپنے مالك سے اپنى آزادى كا معاہدہ كيا اور اپنى آزادى كى رقم ادا كرنے كے لئے محنت مزدورى كرنے لگا اور آنحضرت(ص) نے بھى اس كى مالى امداد فرمائي _ اور پھر حضرت سلمان نے نبى اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى غلامى ميں اپنى سارى زندگى گذاردى تا كہ اس آزادى كا حق ادا كرسكيں_
اس نے پہلى مرتبہ جنگ خندق ميںحصہ ليا اور پھر اس كے بعد كئي جنگوں ميں حصہ ليا_ ابن عبدالبر كا كہنا ہے كہ انہوں نے پہلے پہل جنگ بدر ميں حصہ ليا اور يہ نظريہ رسول(ص) خدا كى مالى امداد كے تناظر ميں زيادہ مناسب ہے _ اسكے لئے حديث و تاريخ كى كتابوں كى طرف رجوع كيا جائے _ (1)نيز ہمارى كتاب ''سلمان الفارسى فى مواجہة التحدي'' ( سلمان فارسى چيلنجوںكے مقابلے ميں) بھى ملاحظہ فرماسكتے ہيں_
ايك اہم بات :
يہاں قابل ملاحظہ ايك اہم نكتہ يہ ہے كہ حضرت سلمان نے ذاتى احساسات يا مفادات كى بناء پر اسلام قبول نہيں كيا اور نہ ہى كسى مجبورى يا كسى كے دباؤ يا كسى سے متاثر ہونے كى بنا پر اسلام قبول كيا بلكہ خالصتاً اپنى عقل و فكر اور سوچ و بچار كے ساتھ دائرہ اسلام ميں داخل ہوئے_ دين حق تك پہنچنے كے لئے انہوں نے بہت سعى و كوشش كى اور اس راہ ميں بہت سى ركاوٹوں، مشكلات اور پريشانيوں كا سامنا كيا _ اور يہ بات اس دين كے فطرى ہونے نيز عقل كے احكامات اور سالم فطرت كے تقاضوں كے مطابق ہونے كى تائيد كرتي
---------------------------------------------------------
1)بطور مثال قاموس الرجال ج/4 ، الاصابہ ج/ 2 ص 62 ، الاستيعاب اور ديگر كتابيں_
33
ہے_ اسى طرح كى باتيں ہم حضرت ابوذركے اسلام قبول كرنے كے واقعات ميں بيان كرچكے ہيں، وہاں ملاحظہ فرماسكتے ہيں_
رومہ كا كنواں حضرت عثمان كے صدقات ميں :
بعض نے حضرت عثمان كے فضائل ميں لكھاہے كہ جب رسول اللہ (ص) مدينہ تشريف لائے تو سوائے رومہ كے كنويں كے كوئي اور ايسا كنواں نہ تھا جس سے صاف اور ميٹھا پانى پيا جاتا_ آنحضرت (ص) نے فرمايا:'' كون ہے جو اپنے ذاتى مال سے اس كنويں كو خريدے اور اپنى بالٹى اور ديگر مسلمانوںكى بالٹياں اس ميں قرار دے (يعنى سب مسلمانوں كے لئے وقف كردے ) تو اسے جنت ميں اپنى پسند كا اس سے بھى اچھا كنواں ملے گا؟ ''پس حضرت عثمان نے اپنے خالص مال سے اس كنويں كو خريدا اور اس كنويں ميں اپنى اور مسلمانوں كى بالٹياں ڈال ديں_ ليكن جب حضرت عثمان كا محاصرہ ہو اتو لوگوں نے انہيں اس كنويں سے سخت پياس كى صورت ميں بھى پانى نہيں پينے ديا تھا حتى كہ وہ مجبور ہوكر سمندر كا پانى پينے لگے تھے _
ليكن ان روايات ميں شديد اختلاف پايا جاتاہے_ہم بعدميں مدارك و مصادر كى طرف اشارہ كريں گے_ انہى اختلافات كى وجہ سے ہميں ان كے صحيح ہونے كے بارے شك ہے_يہ اختلافات مندرجہ ذيل ہيں:_
اولاً : روايات ميں اتنا تناقض و اختلاف ہے كہ كوئي ايك روايت بھى دوسرى سے نہيں ملتى _مثلاً كہتے ہيں كہ جب حضرت عثمان كے خلاف بغاوت ہوئي توانہوں نے باغيوں كو رومہ كے كنويں والے واقعہ كا واسطہ ديا ليكن يہاں روايتوں ميں اختلاف پيدا ہوجاتا ہے _ ايك روايت تو يہ كہتى ہے كہ جب وہ اپنے گھر ميں محاصرے ميں تھے تو تب انہوں نے لوگوں كے سامنے آكر يہ بات كى تھى جبكہ ايك اور روايت كہتى ہے كہ اس وقت وہ مسجد ميں تھے _ ايك روايت ميں ہے كہ انہوں نے آدھا كنواں سو اونٹنيوں كے عوض اور باقى آدھا ايك آسان نرخ پہ خريدا_دوسرى روايت كہتى ہے كہ چاليس ہزار كا كنواں خريدا ايك اور روايت ميں
34
ہے كہ 35 اونٹينوں كے عوض خريدا_ چوتھى روايت ہے كہ آدھا كنواں بارہ ہزار درہم ميںاور باقى آدھا آٹھ ہزار ميں خريدا_
ايك اور روايت اس بارے ميں يہ ہے كہ يہ كنواں ايك يہودى كا تھا_ كوئي بھى قيمت ادا كئے بغير اس سے پانى كا ايك قطرہ تك نہيں پى سكتا تھا_ايك اور روايت كہتى ہے كہ يہ كنواں قبيلہ مزينہ كے ايك شخص كا تھا_ تيسرى روايت كہتى ہے كہ يہ كنواں بنى غفار كے ايك شخص كى ملكيت تھا_ يہاں ايك روايت يہ كہتى ہے كہ حضرت عثمان نے كنواں خريداجبكہ دوسرى يہ كہتى ہے كہ انہوں نے كنواں كھودا _ لوگ دونوں روايتوں كو جمع كرتے ہوئے كہتے ہيں كہ انہوں نے پہلے كنواں خريدا ليكن اسكے بعداسے دوبارہ كھودنے كى ضرورت پڑ گئي_(1) ليكن يہ بات صحيح نہيں ہے كيونكہ وہ خود كہتے ہيں كہ اس كا ذكر حضرت عثمان نے اس وقت كيا تھا جب اصحاب كو اس كى قسم دى تھى اور يہ واقعہ صرف ايك ہى مرتبہ ہواتھا_
ايك روايت يہ كہتى ہے كہ يہ چشمہ تھا جو زمين پر جارى تھا جبكہ دوسرى كہتى ہے كنواں تھا_ ايك روايت كہتى ہے كہ حضرت عثمان نے نبى صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں كے مدينہ پہنچنے پر كنواں خريدا _ ليكن دوسرى روايت كى حكايت يہ ہے كہ جب خليفہ تھے تب يہ كنواں خريدا تھا_
ايك روايت ميں ہے كہ خود آنحضرت(ص) نے ان سے كنواں خريدنے كو فرمايا _دوسرى روايت يہ كہتى ہے كہ آنحضرت (ص) نے مسلمانوں ميں اعلان كرايا كہ كوئي ہے جو كنواں خريدے_ تيسرى روايت كا كہناہے كہ اس غفارى (كنويں كے مالك ) نے جنت ميں دو چشموں كے بدلے بھى پاك پيغمبر(ص) كے ہاتھوں اسے بيچنا گوارا نہ كيا _جب يہ بات حضرت عثمان كو معلوم ہوئي تو انہوں نے اسے 35 ہزار ميں خريدا (2)_
---------------------------------------------------------
1)اس توجيہ كو سمہودى نے وفاء الوفاء ج/ 3 ص 970 ميں ذكر كيا ہے_
2)ان روايات كا مطالعہ فرمائيں اور ان كا آپس ميں تقابل كريں_وفاء الوفاء للسمھودى ج / 3 ص 967 _ 971 ، سنن نسائي ج/6 ص 234، 235 ، 236 ، منتخب كنز العمال ج/5 ص11 ، حيات الصحابہ ج/2 ص 89 از طبرانى وابن عساكر ، مسند احمد ج /1 ص70 ، 75 ، السيرة الحلبيہ ج/2 ص75 ، اسى طرح بغوي، ابن زبالہ، ابن شبة، ابن عبدالبر، الحازمي، ابن حبان، ابن خزيمہ سے بھيروايت كى گئي ہے ، الترمذى ص 627 ، حلية الاولياء ج/1 ص 58 ، البخارى حاشيہ فتح البارى ج/5 ص 305 ، فتح البارى ج 5 ص 305 ، 306 ، سنن بيہقى ج/ 6 ص 167 ، 168نيز التراتيب الاداريہ _
35
اختلافات اور تناقضات كى فہرست طولانى ہے جن كے ذكر كا موقع نہيں _اگر كوئي چاہے تو ان كتابوں كى طرف رجوع كرسكتاہے جن كے ہم نے حوالے ديئے ہيں_
ثانياً : نسائي، مسند احمد اور ترمذى جيسى كتب ميں ايك روايت مذكور ہے كہ آپ(ص) جب مدينہ تشريف لائے تووہاں ميٹھا اور پينے كے قابل پانى نہ تھا_ يہ بات كسى طرح بھى درست نہيں ہے كيوں كہ جب آپ(ص) مدينہ تشريف لائے تو ميٹھے پانى كے كافى سارے كنويں تھے_ جن كنوؤں سے حضرت (ص) نے زندگى بھر پانى استعمال فرمايا_ ان كنوؤں ميں سے اسقيا، بضاعہ، جاسوم اور دار ا نس كے كنويں تھے جن ميں آنحضرت(ص) نے اپنا لعاب دين پھينكا تو اسكے بعد مدينے ميں ان سے زيادہ ميٹھے پانى كا كوئي اور كنواں نہ تھا(1) اس كے علاوہ بہت سارے كنويں تھے اس سلسلے ميں وفاء الوفاء كے باب '' آبار المدينہ'' كا مطالعہ كرسكتے ہيں _
ثالثاً : اگر رومہ كے كنويں والى حديث صحيح مان لى جائے تو پھر مندرجہ ذيل جواب طلب سؤالات سامنے آتے ہيں_
1_حضرت عثمان جو حبشہ سے تازہ آئے تھے اور انكے پاس كوئي مال و متاع بھى نہ تھا تو پھر چاليس ، پينتيس يا بيس ہزار درہم اور سو اونٹنياں كہاں سے آگئيں _ انہوں نے كب اور كس طرح يہ مال كمايا؟_
2 _ حضرت عثمان نے جنگ بدر كے موقع پر اتنى بڑى رقم كے ہوتے ہوئے مدد كيوں نہ كى ؟ يا ان اونٹيوں ميں كوئي چيز كيوں خرچ نہ كى جو روايات كے بقول يہ ان كا خالص ذاتى مال تھا؟ حالانكہ اس وقت مسلمانوں كو چھوٹى سے چھوٹى چيز كى بھى اشد ضرورت تھى _كيونكہ دو يا تين افراد ايك ہى اونٹ پر بيٹھتے تھے اوران كے پاس صرف ايك ہى گھوڑا تھا _ مسلمانوں كے پاس صرف چھ عدد زر ہيں اور آٹھ عدد تلواريں تھيں جبكہ باقيوں نے ڈنڈوں اور كھجور كى چھڑيوں كے ساتھ جنگ كى _ اسكا اور اس كے منابع كا ذكر آئے گا_
حضرت عثمان نے اپنے اموال سے بالكل بھى مدد نہ كى ؟ كيا پھر بھى يہ بات درست اور معقول ہے كہ انہوں نے اپنے پاس موجود سب كچھ لٹا ديا اور خالى ہاتھ ہوگئے؟
---------------------------------------------------------
1) وفاء الوفاء للسمھودى ج/ 3 ص 951 ، 956 ، 958 ، 959 ، 972_
36
حضرت عثمان نے كيونكر غريب مسلمانوں كو كھانا نہ كھلايا ، انكى ضروريات كو پورا نہ كيا اور انصار كى مدد نہ كى ؟ خود پيامبر اسلام (ص) كى مدد كيوں نہ كى _ جبكہ آپ (ص) شديد اقتصادى بحران كا شكار تھے اور آپ (ص) اور مسلمانوں كى معاشى حالت ہجرت كے چند سال بعدجاكے كہيں ٹھيك ہوئي؟
3_ بعض روايات كہتى ہيں كہ حضرت عثمان كو اس كنويں كا پانى پينے سے منع كرديا گيا جس سے وہ سمندر كا پانى پينے پر مجبور ہوگئے_ يہ بات واقعاً بہت عجيب ہے پس اگر حضرت عثمان پانى حاصل كرسكتے تھے تو انہوں نے مدينہ ميں دسيوں كى تعدا ميں موجود ديگر كنوؤں كا ميٹھا پانى كيوں استعمال نہيں كيا ؟_
كيونكہ جس شخص نے پانى پينے سے منع كيا تھا وہ تو چاہتا تھا كہ ان تك كسى طرح كا كوئي پانى ، كہيںسے بھى نہ پہنچے_ كيونكہ بقول ان كے حضرت عمار ياسر اس تك پانى پہنچانے لگے تو طلحہ نے انہيں منع كرديا _(1)
پس جب تك حضرت على (ع) نے اپنے بچوں كے ہمراہ پانى نہيں پہنچايا تب تك انہيں پانى ميسر نہيں آيا اور واضح ہے كہ آپ(ع) نے اس كام سے اپنے خاندان كو خطرات ميں جھونك ديا_ كيا يہ درست ہے كہ انہوں نے واقعا سمندر كا پانى پيا تھا؟_ جبكہ سمندر كا فاصلہ مدينہ سے بہت زيادہ دور ہے _ يا يہ نمكين اور كھارا پانى استعمال كرنے سے كنايہ ہے ؟ ؟
4_ اگر حضرت عثمان نے يہ سارا مال صدقہ كياتھا تو كيوں ان كى مدح ميں ايك آيت بھى نازل نہيں ہوئي جو اس عمل كى تعريف كرتى جبكہ حضرت على (ع) نے مختلف اوقات ميں '' جو كى تين روٹياں'' ، '' انگوٹھي'' ، '' چاردرہم'' اسى طرح '' نجوي'' كے واقعہ ميں صدقے ديئے تو مختلف آيات كے نزول سے تعريف كے مستحق بنے ليكن حضرت عثمان كئي ہزار درہم اورايك سو اونٹنياں صدقہ دينے پر بھى كسى تعريف كے مستحق نہيں ٹھہرے بلكہ خدا نے ان كے متعلق ايك كلمہ يا ايك حرف تك بھى ارشاد نہيں فرمايا ؟ اس كے برعكس وہ روايت جو اس عظيم فضيلت كو بيان كرتى ہے اس ميں بہت زيادہ تناقض پايا جاتاہے اور وہ علمى اور آزاد تنقيد كے سامنے بالكل نہيں ٹھہرتى _ اس كے علاوہ انہوںنے بھى دوسرے صحابہ كى طرح ايك درہم كا صدقہ دے كر ''آيت
---------------------------------------------------------
1)وفاء الوفاء ج 3 ص 945_
37
نجوي'' پر عمل كيوں نہيں كيا ؟ يہاں تك كہ اصحاب كى مذمت ميں آيت نازل ہوئي_ اور رسول (ص) سے گفتگو سے قبل صدقہ دينے سے كترانے پر ان كى بھى دوسرے صحابہ سميت مذمت كى ہے _
'' اريس'' كا كنواں
بالا خر ہم يہ نہيں جان سكے كہ صرف '' رومہ'' كے كنويں كو اتنى عزت و عظمت كيسے ملى اور اريس كے كنويں كے ساتھ ايسا كيوں نہ ہوا ؟ _ جبكہ دعوى يہ ہے كہ يہ كنواں بھى حضرت عثمان نے ہى ايك يہودى سے خريدا تھا_ پھر اسے وقف بھى كرديا تھا _(1) اللہ تعالى حضرت عثمان كو كنوؤں كے معاملے ميں بركت دے ليكن يہوديوں كو تو اس غم اور غصہ سے مرجانا چاہئے تھا كيونكہ كنويں تو وہ كھودتے تھے ليكن ان سے حضرت عثمان خريد خريد كر وقف كرديتے تھے اور يہ سب فضيلت ، كرامت اور عظمت حاصل كرتے جاتے تھے _
مسئلے كى حقيقت
ظاہراً صحيح بات وہى ہے جو '' عدى بن ثابت '' كے ذريعہ سے ابن شبہ كى روايت ميں آئي ہے كہ مزينہ قبيلے كے ايك شخص كو '' رومہ '' نامى كنواں ملاتو اس نے اس كا ذكر حضرت عثمان (جو اس وقت خليفہ تھے) سے كياتو انہوں نے يہ كنواں بيت المال سے 30 ہزار درہم كا خريدكر اسے مسلمانوں كے لئے وقف كرديا(2)_
ليكن سمہودى نے اس روايت كى سند كو ضعيف قرار ديا ہے كيونكہ ان كے نزديك يہ روايت متروك ہے اور زبير بن بكار نے اپنى كتاب ''عتيق'' ميں اس روايت كو بيان كيا ہے_ليكن وہ اسے رد كرتے ہوئے كہتاہے:'' يہ درست نہيں كيونكہ ہمارے نزديك ثابت يہ ہے كہ حضرت عثمان نے يہ كنواں رسول اسلام (ص) كے زمانے ميں اپنے مال سے خريدكر اسے وقف كرديا تھا''(3)_
---------------------------------------------------------
1) وفاء الوفاء ج 3 ص 968_
2)وفاء الوفاء ج/ 3 ص 967 از ابن شبة _اس روايت كو زبير بن بكار نے بھى روايت كياہے_
3)گذشتہ حوالہ_
38
جبكہ ہم يہ كہتے ہيں كہ وہ روايات جن كى طرف زبير بن بكار نے اشارہ كيا ہے كسى بھى لحاظ سے صحيح نہيں ہيں _خصوصاً جبكہ ان روايات ميں بہت اختلاف اور تناقض پايا جاتاہے اور ان روايات پہ ايسے اعتراضات بھى گزر گئے ہيں كہ جن كا كوئي جواب نہيں نيز ان روايات كى اسنا د و مدارك ميں بھى بہت سے اعتراضات ہيں _ ايسے حالات ميں روايت مذكور كى سند ميں متروك شخص كے ہونے ميں كوئي حرج نہيں _ اور اسے ماننا ہى پڑے گا كيونكہ يہ روايت اس زمانے كے حالات اور تاريخى واقعات سے مطابقت بھى ركھتى ہے_ اور بقيہ روايات بھى صحيح نہيں ہوسكتيں كيونكہ يہ سارى كى سارى حضرت عثمان كى فضيلت بنانے كے لئے گھڑى گئي ہيں_
البتہ مذكورہ بالا روايت كا يہ جملہ ہم نہيں سمجھ سكے '' انہوں نے بيت المال مسلمين سے 30 ہزار درہم كا كنواں خريدا اور پھر مسلمانوں كے لئے اسے وقف كرديا ...'' _اگر يہ كنواں مسلمانوں كے اموال سے خريدا گيا تھا تو پھر مسلمانوں ہى كے لئے وقف كرنے كا كيا معنى ہے؟ہاں اس صورت ميں يہ كہا جاسكتا ہے كہ وہ در حقيقت بيت المال كو اپنى ذاتى ملكيت سمجھتے تھے اس لئے اسے وقف كہتے تھے _ اور ہم نے ان كے اس نظريئے پر كچھ دلائل اور قرائن بھى بيان كئے ہيں اس لئے آپ ملاحظہ فرماسكتے ہيں (1)
كھجور كى پيوندكاري
كہتے ہيں كہ نبى صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم جب مدينہ تشريف لائے اور كھجوروں كى پيوند كارى كر نے والے كچھ افراد كے قريب سے گذرے ( يا ان كا شور سنا ) تو آپ (ص) نے ان سے فرمايا اگر تم اس كام كو چھوڑ دو تو بہتر ہوگا _ ان لوگوں نے اس كام كو چھوڑ ديا جس كا نتيجہ يہ نكلا كہ كھجوريں نرم گٹھلى والى اور خراب نكل آئيں _ پھر ايك روز ان كے قريب سے گزرے يا ان سے يہ بات ذكر كى گئي، تو آپ (ص) نے استفسار فرمايا كہ كيا ہوا تمہارى كھجوروں كو ؟ انہوں نے جواب ديا كہ آپ (ص) نے ہى تو ايسا كرنے كو كہاتھا (لہذا اس كا نتيجہ واضح ہے)_آپ (ص)
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو ہمارى كتاب : دراسات و بحوث فى التاريخ و الاسلام ، بحث ''ابوذر ، سوشلسٹ ، كيمونسٹ يا مسلمان ؟''_
39
نے فرمايا:'' تم لوگ دنياوى امور كو مجھ سے بہترجانتے ہو'' _ يا يہ فرمايا : ''اگر مفيد تھا تو انہيں ويساہى كرنا چاہئے تھا ميں نے تو يوں ہى ايك گمان كيا تھا_ لہذا تم لوگ اس گمان كى وجہ سے ميرا مؤاخذہ نہيں كرسكتے _ البتہ ميں جب اللہ تعالى كى كوئي بات تمہيں بتاؤں تو تم اس پر ضرور عمل كرو كيونكہ ميں خدا پر ہرگز جھوٹ نہيں بولتا''_(1)
ہميں اس روايت كے صحيح ہونے ميں شك ہے _كيونكہ اس روايت كى نصوص ميں بھى اختلاف پايا جاتاہے _اس كے علاوہ مندرجہ ذيل چند سوالات كا پوچھنا ضرورى ہے كہ نبى صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم ايسے كاموں ميں مداخلت كيوں كرتے تھے جن سے آپ(ص) كا كوئي واسطہ ہى نہ تھا اور نہ ہى آپ(ص) كو ان ميں كوئي مہارت حاصل تھى ؟
كيا آپ (ص) نہيں جانتے تھے كہ لوگ آپ (ص) كى باتوں كو اہميت ديتے ہيں _ آپ (ص) كى زبان مبارك سے نكلے ہوئے ہرلفظ پر عمل كرتے اور اس سے متاثر ہوتے ہيں ؟ ؟_
لوگ اتنے بڑے نقصان پر كيسے راضى ہوگئے؟ پھرآپ (ص) كے مشور ے كے نتيجہ ميں ہونے والے نقصان كا ذمہ دار كون تھا؟ پھر آپ(ص) كا يہ كہنا كيسا ؟ آپ (ص) تو وہ ہيں جنہوں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص كو حكم ديا كہ وہ آپ (ص) سے جو كچھ بھى سن رہاہے سب تحرير كرے كيونكہ آپ(ص) كى زبان مبارك سے سوائے حق كے كوئي چيز نہيں نكلتى ؟ يہ روايت بہت مشہور و معروف ہے _ يہ روايت اپنے مآخذو مدارك كے ساتھ پہلى جلد ميں بيان ہوچكى ہے ، وہاں ملاحظہ فرمائيں_
اسى طرح آپ(ص) كا سن مبارك اس وقت (33 تينتيس) سال سے زيادہ تھا اور آپ (ص) عرب خطے كے مركزى حصے كے رہنے والے تھے_ كيا ہم اس بات كى تصديق كرسكيں گے كہ آپ (ص) پيوند كارى اور اس كے فوائد كو نہيں جانتے تھے اور يہ كہ كھجور اسكے بغير كوئي نتيجہ نہيں ديتي؟ يہ كيسے ہوسكتا ہے كہ آپ (ص) نے زندگى كا
---------------------------------------------------------
1)صحيح مسلم ج/7 ص 95، سنن ابن ماجہ ج/2 ص 825 كتاب الرھون باب 15، مسنداحمد ج/6 ص123نيز ج 3 ص 152، البر صان والعرجان ص 254، مشكل الآثارج/2ص294، كشف الاستار عن مسند البزار ج 1 ص 112 ، مسند ابويعلى ج 6 ص 198و 238 و صحيح ابن حبان مطبوعہ مؤسسة الرسالہ ج 1 ص 201_
40
ايك بڑا عرصہ اس كے متعلق كچھ بھى نہ سنا ہو حالانكہ آپ(ص) انہى عربوں كے درميان اور ان كے ساتھ رہتے تھے يا كم از كم ان كى ہمسائيگى ميں تو تھے؟
بالآخر ... كيا يہ صحيح ہے كہ دنياوى امور ميں لوگوں پر آپ (ص) كى اطاعت واجب نہ تھي؟ اور يہ كہ آپ (ص) نے اپنى رائے بيان فرمائي تھي؟ كيا يہ درست ہے كہ اسلام، دين اور دنيا ميں فاصلے كا قائل ہو اور اس دين مقدس كا كل ہم و غم دنياوى امور نہ ہوں بلكہ صرف اخروى امور ہوں ؟ كيا يہ اسلام پر بہتان اور تہمت نہيں ہے ؟ كيا يہ سب كچھ اسلام اور قرآن و سنت كى تعليمات كے برخلاف نہيں ؟اور كيا يہ سيكو لرازم كى طرف اشارہ نہيں ؟ اور اسلام كو صرف عبادت گا ہوں ميں منحصر كرنے كى ابتداء نہيں ؟
|