الصحيح من سيرة النبى الاعظم(ص)
369
چوتھى فصل: جنگ بدر كا اختتام


371
اہل بدر بخشے ہوئے ہيں
مؤرخين كہتے ہيں كہ جب آنحضرت(ص) فتح مكہ كے لئے تياريوں ميں مصروف تھے تو حاطب ابن ابى بلتعہ نے ايك خط ميں مكہ والوں كو اس بات سے خبردار كرنا چاہا_ اس نے وہ خط ايك عورت كو ديا تا كہ وہ اسے ان تك پہنچادے_ ليكن جبرائيل (ع) نے آنحضرت(ص) كو يہ بات بتادى اور آپ(ص) نے حضرت على (ع) كو ايك اور آدمى كے ساتھ مكہ اور مدينہ كے درميان '' روضہ خاخ ( باغ خاخ)نامى ايك جگہ بھيجا تا كہ وہ اس عورت سے وہ خط لے آئيں _ انہوں اسى جگہ پر اس عورت كو جاليا اور اس كے سامان كى تلاشى لى تو اس كے سامان سے كچھ بھى برآمد نہ ہوا جس كى وجہ سے وہ واپس جانے لگے تو حضرت على (ع) نے كہا: '' بخدا ہم لوگوں نے كبھى جھوٹ بولا ہے نہ ہميں كبھى كوئي جھوٹى بات بتائي گئي ہے'' آپ(ع) نے نيام سے تلوار نكال كر لہراتے ہوئے اس عورت سے كہا : '' وہ خط نكالو وگرنہ بخدا ميں تمہارى گردن اڑادوں گا'' جب اس نے آپ (ع) كى از حد سنجيدگى كا مشاہدہ كيا تو اپنى چوٹى سے وہ خط نكال كر آپ (ع) كو دے ديا_
حضرت على (ع) نے وہ خط لے كر آنحضرت(ص) كى خدمت ميں جاكر پيش كيا _ آنحضرت(ص) نے بھى حضرت على (ع) كو حاطب كى طرف بھيجا اور اس سے اس خط كى بابت پوچھا تو اس نے اعتراف كرتے ہوئے كہا : '' ميرے رشتہ دار مكہ ميں رہتے ہيں اور مجھے مشركوں سے ان كى جان كا خطرہ لاحق ہوا تو ميں نے يہ كام كركے مشركوں كو اس كام سے روكنا چاہا تھا'' اور آنحضرت (ص) نے بھى اس كى تصديق كرتے ہوئے اس كا عذر قبول كرليا_
ليكن عمر بن خطاب نے دل ميں سوچا كہ حاطب نے خدا اور رسول(ص) كے ساتھ خيانت كى ہے اس لئے اس نے رسول (ص) خدا سے اس كى گردن مارنے كا مطالبہ كيا _ جسے سن كر آنحضرت نے اس سے فرمايا: '' كيا وہ بدرى

372
صحابى نہيں ہے ؟ شايد ( يا يقينا) خدا بدريوں كے دلى حالات بخوبى جانتاہے '' پھر آپ(ص) نے بدريوں سے مخاطب ہوكر فرمايا : '' جوجى ميں آئے كرو كہ جنت تمہارے اوپر واجب ہوچكى ہے (يا تمہيں بخش ديا گيا ہے)(1) _
حلبى اس بارے ميں كہتاہے: '' اس جملے سے معلوم ہوتاہے كہ اگر اہل بدر سے كوئي كبيرہ گناہ بھى ہو جائے تو انہيں اس كے لئے كسى توبہ كى ضرورت نہيں ہے كيونكہ وہ جب بھى مريں گے بخشے ہوئے اس دنيا سے جائيں گے _ اور آنحضرت(ص) كا فعل ماضى ميں يہ خبر دينا اس كے تحقق ميں مبالغہ كى علامت ہے ( يعنى وہ يقينا ہر صورت ميں بخشے ہوئے مريں گے ) البتہ يہ معاملہ صرف ان كے آخرت كى بہ نسبت ہے ، ان كى دنيا كى بہ نسبت ايسا نہيں ہے _ دنيا ميں انہيں سزائيں مليں گى ، اسى لئے جب عہد عمر ميں قدامہ بن مظعون نے شراب پى تو اس پر حد جارى كيا گيا (2)
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو : بخارى مطبوعہ 1309 ج2 ص 110 و ج 3 ص 39 و ص 129 و طبع مشكول كتاب المغازى غزوہ بدر و ج9 ص 23 ،فتح البارى ج6 ص 100 ، ج8 ص 486و ج7 ص 237 از احمد ، ابوداؤد و ابن ابى شيبہ ، البدايہ والنہايہ ج4 ص 284 و ج3 ص 328 از تمام صحاح سوائے ابن ماجہ ، مجمع الزوائد ج 8 ص 303 ، ج9 ص 303 و 304 و ج6 ص 162 و 163 از احمد ، ابويعلى و بزار ، حياة الصحابہ ج2 ص 463 و 364 از گذشتہ بعض ، سيرہ حلبيہ ج2 ص 203 و 192 ، مجمع البيان ج 9 ص 269 و 270 ، تفسير قمى ج 2 ص 361، الارشاد مفيد ص 33 ، 34 و 69، صحيح مسلم ج 4 ص 1941 ، مطبوعہ دار احيا التراث العربي، المغازى ج2 ص 797 و 798 اسباب النزول ص 239 ، تاريخ يعقوبى ج 2 ص 47 ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 6 ص 58 و ج17 ص 266 ، سنن ابوداؤد ج3 ص 44 و 45و 48 ، التبيان شيخ طوسى ج 9 ص 296 ، اسد الغابہ ج1 ص 361 درالمنثور سيوطى ج 6 ص 203، تاريخ اسلام ذہبى (حصہ مغازي) ص 93 ، 439 و 440 السنن الكبرى ج9 ص 146 ، سيرہ نبويہ ابن ہشام ج4 ص 39 وص 41 ، دلائل النبوہ بيہقى ج 2 ص 421 و 422 الجامع الصحيح ج5 ص 409 و ص 410 ، مسند شافعى 316 ، الطبقات الكبرى ج2 ص 97 ، تفسير فرات الكوفى ص 183 ص 184 ، لسان العرب ج4 ص 557 ، المبسوط شيخ طوسى ج2 ص 15 ، تاريخ الامم والملوك ج3 ص 48 و 49، المناقب ابن شہر آشوب ج2 ص 143 و 144، كنز العمال ج 17 ص 59، تہذيب تاريخ دمشق ج6 ص 371 ، بحارالانوار مطبوعہ بيروت ج72 ص 388 و ج21 ص 125 ، 119 ، 120، 136، 137و طبع سنگى ج 8 ص 643 ازالارشاد شيخ مفيد، اعلام الوري، تفسير قمى و تفسير فرات الكوفي، عون المعبود ج7 ص 310 ، 313 الدرجات الرفيعہ ص 336 ، زاد المعاد ابن قيم ج 3ص 115 ، عمدة القارى ج 14 ص 254، تاريخ الخميس ج2 ص 79 ، ترتيب مسند شافعى ج 1 ص 197 ، المحلى ج 7 ص 333 ، الجامع لاحكام القرآن ج18 ص 50 و ص 51 ،احكام القرآن جصاص ج 5 ص325 ، جامع البيان ج 28 ص 38 تا ص 40 ، الكامل فى التاريخ ج2 ص 242 ، كشف الغمہ اربلى ج 1 ص 180 الاصابہ ج 1 ص 300 ، البرہان فى تفسير القرآن ج4 ص 323، الاعتصام بحبل اللہ المتين ج 5 ص 500 و ص 501 ، تفسير الصافى ج 5 ص 161 ، نہج السعادة ج 4 ص 28 ، معجم البلدان ج2 ص 335، المواہب اللدنيہ ج1 ص 149 ، بہجة المحافل ج1 ص 188 و 400 المصنف ابن ابى شيبہ ج 15 ص 69 ، تفسير ثعالبى ج4 ص 298 و منہاج البراعہ ج 5 ص 106(مؤخر الذكر كتاب كا اردو ترجمہ بھى ميرے والد محترم كے قلم سے منظر عام پر آ رہا ہے_مترجم)_
2) حد ايك فقہى اور شرعى اصطلاح ہے جس كا مطلب يہ ہے كہ (قتل كے علاوہ) ايسا جرم جس كى سزا كى حد شريعت ميں مقرر كى گئي ہو مقرر نہ ہو تو تعزيرات جبكہ قتل يا اس جيسے معاملے ميں بدلے كو قصاص اور اس كى قيمت كو ديت كہتے ہيں _

373
حالانكہ وہ بھى بدرى صحابى تھا'' حلبى نے يہ بھى كہا ہے: '' كتاب خصائص الصغرى ميں شرح جمع الجوامع سے منقول ہے كہ دوسروں كے فسق كا موجب بننے والے افعال كے ارتكاب سے كوئي بھى صحابى فاسق نہيں ہوگا '' (1) _
اسى طرح آنحضرت(ص) سے يہ بھى روايت كى گئي ہے كہ جنگ بدر ميں شركت كرنے والا كوئي بھى شخص ہرگز دوزخ ميں نہيں جائے گا (2)_

ليكن ہم كہتے ہيں كہ :
اس صورت ميں تو اگر كوئي بدرى (بلكہ كوئي بھى )صحابى شراب پيتا رہے ، كسى سے بلكہ محارم سے زنا بھى كرتارہے نماز ترك كردے، كسى بھى واجب پر عمل نہ كرے اور كسى بے گناہ كو قتل كردے ( جيسا كہ جنگ جمل اور جنگ صفين ميں انہوں نے ہزاروں بے گناہوں كو قتل كيا تھا نيز دسيوں بے گناہوں كو چورى چھپے، دن ديہاڑے، دھوكے سے يا قيد كركے قتل كيا گيا تھا)_ غرض كوئي بھى كبيرہ گناہ ان سے نہ چھوٹنے پائے تب بھى انہيں كوئي نقصان نہيں ہوگا _ وہ ان كے فاسق ہونے كا باعث نہيں ہوں گے_ وہ نہ تو كسى سزا كے مستحق ہوسكتے ہيں اور نہ انہيں ان كبيرہ گناہوں سے توبہ كرنے كى كوئي ضرورت ہے _
يہ بھى كہتے چليں كہ اس صورت ميں عبداللہ بن ابى كو بھى بخشا ہوا ہونا چاہئے _ كيونكہ بعض روايتوں كے مطابق اس نے جنگ بدر ميں حصہ ليا تھا(3)_
اور اگر اہل بدر كے بارے ميں يہ باتيں صحيح ہوں تو پھر بدريوں پر كسى فريضے كى پابندى اور احكام شريعت كے وجوب كا پھر كوئي معنى نہيں رہتا _ تو پھر وہ اپنے آپ كو مشقتوں ميں ڈال كر كيوں تھكائيں ؟ جبكہ انہيںجنت كى ضمانت دى گئي ہے بلكہ وہ حاصل ہوچكى ہے _ اب انہيں دنياوى زندگى اور اس كى لذتوں سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے چاہے وہ حلال ہوں يا حرام پھر اس ميں كوئي فرق نہيں رہے گا_
---------------------------------------------------------
1)سيرہ حلبيہ ج 2 ص 203 و 204 نيز ملاحظہ : ہو فتح البارى ج 7 ص 237 و 238_
2) فتح البارى ج7ص 237 اور اس كى سند مسلم كے معيار كے مطابق صحيح ہے _
3)سيرہ حلبيہ ج1 ص 335 _

374
ليكن حق سے دفاع ميں ناكثين ، قاسطين اور مارقين كے باطل اور گمراہ فرقوں سے حضرت على (ع) كى جنگ كے متعلق رسول (ص) خدا كے برحق فرامين اور پيشين گوئيوں كو ان لوگوں نے جان بوجھ كر طاق نسيان كے سپرد كرديا اور يہ كہنے لگے كہ حضرت على (ع) كى ان سے جنگ اور ان كا قتل ، خونريزى ميں ان كى جرات ، بے باكى اور جسارت كى وجہ سے تھا اور اس كا اصلى سبب يہ تھا كہ انہوں نے يہ سن ركھا تھا كہ خدا نے اہل بدر كو كھلى چھوٹ دے دى ہے كہ وہ جو چاہيں كريں انہيں كوئي سزا نہيں ملے گى (1)؟
ليكن پھر ہمارى سمجھ ميں يہ نہيں آتا كہ بدريوں كو دنيا ميں كيوں سزا ملے گى ؟ جبكہ خود رسول(ص) خدا نے عمر بن خطاب كو مشركوں پر مسلمانوں كا راز برملا كرنے كى كوشش كركے خدا اور رسول (ص) سے خيانت كے مرتكب ہونے والے حاطب كو يہ كہہ كر سزا دينے سے منع كرديا تھا كہ يہ اہل بدر سے ہے ؟_ جب خدا نے بدريوں كو ہر چيز سے معاف كرركھا ہے تو انہيں دنيا ميں كيوں سزا ملے گى ؟ كيا اس صورت ميں انہيں سزا دينا بلا سبب نہيں ہوگا؟ جب وہ كسى گناہ يا غلطى كے مرتكب ہوتے ہى نہيں تو پھر انہيں سزا كيسي؟
ليكن حقيقت يہ ہے كہ جب حلبى نے ديكھا كہ عمر ، قدامہ پر حد جارى كررہے ہيں تو وہ يہ كہنے پر مجبور ہوا كہ بدريوں كو دنياوى سزا معاف نہيں ہوئي _ اور اگر عمركا يہ واقعہ نہ ہوتا تو ہم يہ بھى مشاہدہ كرتے كہ رسول (ص) خدا كے حاطب كى سزا معاف كرنے كو دليل بناكر ان كى دنياوى سزا بھى معاف كردى جاتى اور چونكہ انكى فقہ اور شريعت كے احكام كا دارومدار جناب عمر كى ذات ہے اس لئے ضرورى تھا كہ رسول (ص) خدا كے قول ، فعل اور تقرير (2) يعنى سنت رسول (ص) كو نظر انداز كركے جناب عمر كے افعال و اقوال پر احكام شريعت كى بنياد ركھى جاتى ( اور اس كے مطابق سنت رسول (ص) كى توجيہ كى جاتي) حلبى نے يہ سارے احكام آپ(ص) كى اس حديث شريف سے اخذ كئے ہيں جس ميں '' شايد'' كا لفظ آيا ہے _ كاش كسى طريقے سے مجھے يہ معلوم ہوجاتا كہ اگر اسے ايسى حديث مل جاتى جس ميں قطعيت كے ساتھ ان كى مغفرت كا ذكر ہوا ہے تووہ اس سے كتنے احكام استنباط كرتا؟
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو : صحيح بخارى ج9 ص 23 طبع مشكول ، فتح البارى ج7 ص 238، الغارات ج2 ص 568 و 569 و شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج4 ص 100_ اور چاہے وہ رسول(ص) كى اپنى دختر كو اذيت بھى كرتے رہيں انہيں كچھ نہيں ہوگا_
2)تقرير كا مطلب يہ ہے كہ كوئي شخص آنحضرت(ص) كے سامنے كوئي فعل انجام د ے يا كوئي بات كرے اور آپ (ص) كے سامنے اور كوئي ركاوٹيں بھى نہ ہوں اور آپ(ص) اسے منع نہ فرمائيں تو اس سے يہ نتيجہ اخذ ہوتاہے كہ آپ(ص) اس عمل پر راضى ہيں اور يوں وہ عمل ايك شرعى حكم كى حيثيت حاصل كرجاتاہے_

375
ليكن حقيقت يہ ہے كہ اہل بدر كے لئے مغفرت والى حديث ميں( اگر صحيح بھى مان ليں تو) يقينا ''اعملوا ماشئتم '' (جو جى ميں آئے كرو) كا جملہ ہرگز نہيں ہے _ بلكہ ان كى بخشش ان كے سابقہ گناہوں كى بہ نسبت ہوگى _ اور اگر اس ميں يہ فقرہ ہوگا بھى تو اس كا مطلب يہى ہوگا كہ '' اپنے اعمال كا از سر نوجائزہ لو كہ تمہارى سزا و جزا كا دارومدار تمہارے آئندہ كے اعمال ہوں گے'' يہ مطلب نہيں ہوگا كہ ان كے آئندہ كے بھى تمام گناہ بخش ديئے گئے ہيں_ ليكن اگر اس حديث ميں '' اعملوا ما شئتم'' كا فقرہ موجود ہوتا اور اس كا مطلب يہ ہوتا كہ تمہارے آئندہ كے بھى تمام گناہ بخش ديئے گئے ہيں تو اس حديث اور اس بات كو دليل بناكر قدامہ عمر پر اعتراض كرسكتا تھا تا كہ اس حد سے چھٹكارا پاسكے _ نيز وہ حاطب كے ساتھ رسول (ص) خدا كے موقف كو بھى بطور دليل پيش كرسكتا تھا_ بلكہ خود عمر پر بھى اتنے واضح اور مشہور نبوي(ص) حكم كى مخالفت بھى نہايت دشوار ہوتى (1)اس كے علاوہ نبى (ص) كريم سے مذكورہ فقرہ منسوب كركے اس كى نشر و اشاعت زيادہ تر سياسى مفادات كے پيش نظر كى گئي _ اس لئے پختہ احتمال يہى ہے كہ اس حديث كو مذكورہ معنى ميں پھيلانے ميں سياست كا ہاتھ تھا_

اہل بدر سے بھى افضل لوگ ؟
تاريخ ميں ملتاہے كہ سعد بن ابى وقاص جنگ مدائن ميں اپنے لشكر كو اہل بدر سے افضل قرار ديتے ہوئے كہتاہے: '' بخدا يہ لشكر امين ہے _ اور اگر اہل بدر كے متعلق انتہائي باتيں نہ ہوچكى ہوتيں تو خدا كى قسم ميں يہ كہتا كہ يہ لشكر اہل بدر سے بھى بافضيلت ہے كيونكہ بدريوں سے ناقابل بيان كرتوت سرزد ہوئے ليكن ميں نے اس لشكر سے كوئي ايسى ويسى بات نہيں سنى اور نہ ہى ميرے خيال ميں آئندہ كوئي بات ہوگى '' (2) _ بلكہ كعب بن مالك تو بيعت عقبہ كى رات كو جنگ بدر اور بدريوں سے زيادہ بافضيلت قرار ديتاہے گرچہ واقعہ بدر لوگوں ميں بيعت عقبہ سے زيادہ مشہور ہے (3)
---------------------------------------------------------
1) عدالت صحابہ كے نظريئےے متعلق ملاحظہ ہو ہمارى كتاب ''دراسات و بحوث فى التاريخ والاسلام '' ج2_
2)حياة الصحابہ ج3 ص 758 از تاريخ طبرى ج3 ص 138_
3)البدايہ والنہايہ ج5 ص 23 از بخارى ، ابوداؤد نسائي و غيرہ ، ٹكڑے ٹكڑے اور اختصار كے ساتھ ، ترمذى نے اس كا كچھ حصہ نقل كيا ہے ، بيہقى ج9 ص 33 ، حياة الصحابہ ج1 ص 475 از گذشتہ منابع واز الترغيب والترہيب ج4 ص 366_

376
يہ تو ان كے نزديك جنگ بدر كى شان اور وقعت ہے ليكن اس كے باوجود انہوں نے بدريوں كے علاوہ كسى اور كے لئے جنت واجب نہيں كى ہے _ كيونكہ دوسرے لوگوں ميں كوئي بھى ايسا نہيں ہے جسے بخشوانے اور جنت پہنچانے كى وہ كوشش كرتے يا اس دور كى سياست اس كے اسلام ، قرآن اور انسانيت مخالف اعمال اور كردار كى توجيہ اور پردہ پوشى كرنے كى كوشش كرتي_ حالانكہ سعد بن ابى وقاص كى مذكورہ روايت كے مطابق اہل بدر ميں سے بعض ايسے بھى تھے جن سے ايسے ايسے ناقابل بيان برے كرتوت سرزد ہوئے جن كى وجہ سے ان كى شان اور قدر گھٹ گئي تھى اور اعمال كا پلڑا ہلكا ہوگياتھا_ اور سعد بن ابى وقاص اس بات ميں سچا بھى ہے كيونكہ اكثر بدريوں سے ايسے ايسے عجيب و غريب كرتوت سرزد ہوئے جو ناقابل بيان بھى ہيں اور يہاں ان كے بيان كى گنجائشے بھى نہيں ہے_

ابن جوزى اور بدريوں كے مغفرت والى حديث
بدريوں كے مغفرت والى حديث پر ابن جوزى نے جو حاشيہ لكھا ہے وہ بھى نہايت تعجب خيز ہے _ وہ لكھتاہے : '' اس غلط فہمى سے اور وہ بھى علم كا دعوى كرنے والے افراد كى طرف سے خدا كى پناہ مانگتے ہيں _ احمد نے اپنى كتاب مسند ميں روايت كى ہے كہ ابوعبدالرحمن سلمى اور حيان بن عبداللہ كا آپس ميں جھگڑا ہوگيا تو ابوعبدالرحمن نے حيان سے كہا كہ مجھے معلوم ہے كہ كس بات نے تمہارے بزرگ ( يعنى حضرت علي(ع) ) كو اس جنگ پر تيار كيا ہے _حيان نے پوچھا كہ وہ كونسى بات ہے ؟ تو اس نے جواب ديا كہ وہ رسول(ص) خدا كا يہ فرمان ہے كہ '' شايد خدا اہل بدر ( كے دلوں كے حال ) سے واقف ہے _ جو جى ميں آئے كرو كہ تمہيں بخش ديا گيا ہے'' _ اور يہ غلط فہمى ابوعبدالرحمن كى تھى كيونكہ وہ يہ سمجھ رہا تھا كہ حضرت على (ع) صرف اس لئے لڑرہے تھے اور لوگوں كو قتل كررہے تھے كہ اس مذكورہ حديث كى وجہ سے انہيں اپنے بخشے جانے كا يقين تھا_ سب سے پہلے تو يہ جاننا چاہئے كہ حديث كا اصل معنى يہ ہے كہ '' تمہارے گذشتہ اعمال جو بھى تھے ، اب انہيں بخش ديا گيا ہے '' ليكن آئندہ كے اعمال كى بخشش كا اس حديث ميں كوئي تذكرہ نہيں ہے_ بہر حال بدرى اصحاب معصوم تو پھر

377
بھى نہيں ہيں _ بالفرض نعوذ باللہ اگر كوئي بدرى مشرك ہوجائے تو كيا اس كا مؤاخذہ (پكڑ) نہيں ہوگا؟ دوسرے گناہ بھى اسى طرح ہيں ، ان كى بھى پكڑ ہوگى _ پھر اگر يہ كہيں كہ اس حديث ميں آئندہ كے گناہوں كى بخشش بھى شامل ہے تو اس كا يہ مطلب ہوگا كہ آخر كار ان كا انجام بخشش كے ساتھ ہوگا ( يعنى انہيں توبہ كى توفيق نصيب ہوگي)_
پھر اگر حديث كے معنى كو چھوڑ كر اس واقعہ كا جائزہ ليا جائے تو يہ كہنا پڑے گا كہ كوئي مسلمان حضرت على (ع) كے حق ميں يہ كيسے سوچ سكتاہے كہ وہ اس يقين كے ساتھ كوئي ناجائز كام كريں گے كہ وہ بخش ديئے جائيں گے ؟ معاذاللہ_ بلكہ حضرت على (ع) نے دلائل كے ساتھ مجبورا جنگ كى تھي_ پس حضرت على (ع) حق پر تھے _ اور سب علماء كا اس بات پر اتفاق ہے كہ حضرت على (ع) نے جس شخص كے ساتھ بھى جنگ كى ہے حق كى بنياد پر كى ہے اور حق حضرت على (ع) كے ساتھ تھا_ مذكورہ بات حضرت على (ع) سے كيسے منسوب كى جاسكتى ہے جبكہ رسول (ص) خدا نے ان كے متعلق فرمايا تھا: '' خدايا حق كو بھى ادھر ہى لے جا جہاں جہاں على (ع) جائے''_
ابوعبدالرحمن نے نہايت غلط او ربرى بات كہى ہے _ اور اس نے يہ بات حضرت على (ع) كے دشمن اور عثمانى مذہب ہونے كى وجہ سے بھڑك كركہى ہے'' (1)

ناكام واپسي
بہر حال ، مشركوں كا لشكر لٹاپٹا اور نہايت برى حالت ميں مكہ واپس پہنچا _ وہ غيظ و غضب كى وجہ سے سخت بپھرے ہوئے تھے ليكن ابوسفيان نے انہيں اپنے مقتولين پر گريہ و زارى كرنے اور شاعروں كو بھى مرثيہ كہنے سے روك ديا تا كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ ان كا غصہ ٹھنڈا ہوكر جھاگ كى طرح بيٹھ جائے،مسلمانوں كے خلاف ان كا كينہ كم ہوجائے اور ان كے غم و اندوہ كى خبر مسلمانوں تك پہنچ جائے جس كى وجہ سے وہ انہيں برا بھلا كہہ سكيں اور ان پر ہنس سكيں_ اور ابوسفيان نے اپنے اوپر رسول(ص) خدا حضرت محمد(ص) سے دوبارہ بھرپور جنگ كرنے
---------------------------------------------------------
1)صيد الخاطر ص 385_

378
تك خوشبو اور عورتوں كے ساتھ قربت حرام كرركھى تھي_ اور اس كى بيوى ہندہ نے بھى يہى كام كيا _ اس نے بھى اپنا بستر عليحدہ كرليا تھا اور خوشبوؤں سے دورى اختيار كرلى تھي_ اور جب مشركين اس جنگ سے بے نيل و مرام لوٹے تو انہوں نے قافلہ والوں سے يہ مطالبہ كيا كہ انہيں بھى اس مال ميں حصہ دار كيا جائے اور اس سے ان كى مدد كى جائے _ جس پر يہ آيت نازل ہوئي:
( ان الذين كفروا ينفقون اموالہم ليصدوا عن سبيل اللہ فسينفقونہا ثم تكون عليہم حسرة)
كافر لوگ خدا كے راستے (دين) سے لوگوں كو روكنے كے لئے مال خر چ كرتے ہيں _ وہ عنقريب پھر بھى مال خرچ كريں گے ليكن انہيں پھر بھى حسرت كا سامنا كرنا پڑے گا _
البتہ يہ بھى كہا گيا ہے كہ يہ آيت جنگ بدر ميں لشكريوں كو كھانا كھلانے والوں كے بارے ميں نازل ہوئي جو اونٹ نحر كيا كرتے تھے جن كاتذكرہ پہلے گذر چكاہے _ اور شايد يہ بات آيت كے مفہوم كے زيادہ مناسب ہو_

كامياب واپسي
ادھر رسول (ص) - خدا نے اپنى واپسى سے پہلے آگے آگے ايك شخص كو مدينہ بھيجا تا كہ وہ مدينہ والوں كو مسلمانوں كى واضح كاميابى كى خوشخبرى سنائے _ پہلے پہل تو كچھ لوگوں نے اس پر يقين نہ كيا ليكن جب ان كے لئے بھى ثابت ہوگيا كہ يہ بات بالكل سچى ہے تو مؤمنين بہت خوش ہوئے اور خوش دلى اور خوشحالى سے رسول (ص) خدا كا استقبال كيا _ مورخين كہتے ہيں كہ وہ خوشخبرى دينے والا زيد بن حارثہ تھا_ ليكن لوگوں نے اس كى باتوں پريقين نہيں كيا بلكہ اس كے بيٹے اسامہ سے عليحدگى ميں پوچھا تو تب انہيں اس بات كا يقين ہوا_ليكن يہ بات صحيح نہيں ہے كيونكہ اس وقت اسامہ ايك بچہ تھا جس كى عمر اس وقت دس برس سے زيادہ نہيں تھي_
مدينہ كے رستے ميں رسول (ص) خدا كہيں مسلمانوں كى آنكھوں سے اوجھل ہوگئے تو مسلمان وہيں رك گئے ، تھوڑى دير بعد آنحضرت(ص) حضرت على (ع) كے ساتھ وہيں تشريف لائے _ مسلمانوں نے آپ(ص) سے پوچھا: '' يا رسول اللہ(ص) كہيں تشريف لے گئے تھے؟'' تو آپ (ص) نے فرمايا : '' راستے ميں على (ع) كے پيٹ ميں درد ہوگيا تھا، اس

379
كى وجہ سے ميں پيچھے رہ گيا تھا'' (1)_ يہ بھى كہا جاتاہے كہ آپ(ص) مدينہ اس وقت پہنچنے جب لوگ جناب عثمان كى زوجہ كى تدفين ميں مصروف تھے البتہ اس بارے ميں گفتگو انشاء اللہ بعد ميں '' بدر اور احد كے درميانى زمانے ميں واقعات '' كى فصل ميں ہو گي_
اور آپ(ص) كے مدينہ پہنچنے كے ايك دن بعد قيدى بھى مدينہ پہنچے جنہيں آپ(ص) نے مسلمانوں كے درميان تقسيم كرديا اور انہيں يہ سفارش كى كہ ان كے ساتھ اچھا سلوك كرو يہانتك كہ مكہ والے ان كا فديہ دے كر انہيں اپنے ساتھ لے جائيں _ پھر آپ(ص) نے نجد كى طرف والے مدينہ كے بالائي حصے كى طرف عبداللہ بن رواحہ كو اور تہامہ كى طرف والے زيريں حصے والوں كى طرف زيد بن حارثہ كو بھيجا جو انہيں جاكر واضح كاميابى كى خوشخبرى سنائيں _ مدينہ كے بالائي حصے ميں بنى عمرو بن عوف ، خطمہ اور وائل و غيرہ كے قبيلے بستے تھے(1)_

جنگ بدر كے بعض نتائج
اتنى ڈھير سارى باتوں ميں جنگ كے كچھ نتائج بيان ہوچكے ہيں _ اس لئے ہم يہاں كسى طويل گفتگو كے خواہاں نہيں ہيں_ صرف مندرجہ ذيل چندنكات كى صورت ميں ايك سرسرى نگاہ پر اكتفا كرتے ہيں :
1 _ زندگى سے پيار كرنے والے مشركوں پر جنگ بدر ميں روحانى لحاظ سے حقيقتا كارى ضرب لگى _ اور وہ حد سے زيادہ ڈرپوك ہوگئے _ اب مشركين يہ ديكھ رہے تھے كہ ان مسلمانوں كے ساتھ ان كى زندگى بالكل خطرے ميں پڑچكى ہے_ اور مسلمانوں كے ساتھ ان كى بعد والى جنگوں پر اس خوف اور ڈر كا ايك ناقابل انكار اثر پڑا_ كيونكہ طبيعتاً ہٹ دھرم بزدل آدمى اپنى جان كى حفاظت كے ساتھ ساتھ اپنى كاميابى كو يقينى بنانے كے لئے حد سے زيادہ احتياط كا قائل ہوتاہے_ اسى بناپر قريش اپنى بعد والى جنگوں ميں بہت زيادہ احتياط، دقت ، تمركز، تعداد اور تيارى كے ساتھ ميدان ميں اترتے تھے تا كہ وہ اس تحريك كو ہى نيست و نابود كركے
---------------------------------------------------------
1) سيرہ حلبيہ ج2 ص 188_
2)ملاحظہ ہو: التراتيب الاداريہ ج1 ص 382_

380
ركھ ديں جو ان كے مفادات اور علاقے ميں ان كے معاشرتى ، اجتماعي، سياسي، اقتصادى اور ديگر امتيازات كے لئے خطرہ بنى ہوئي تھي_
2_ دوسرى طرف اس جنگ سے مسلمان ذہنى لحاظ سے طاقتور ہوگئے _ اور ان كى ظاہرى خود اعتمادى دوبارہ لوٹ آئي اور اس غير متوقع كاميابى نے اس چيز (يعنى جنگ ) كا سامنا كرنے كے لئے ان كى حوصلہ افزائي كى جس كے خيال اور تصور سے بھى كل تك وہ لوگ كانپتے تھے يہ كاميابى تو اتنى بڑى تھى كہ بعض انصاريوں كے لئے اس كى تصديق تك بھى بہت مشكل تھى _ ہاں اس كاميابى نے مسلمانوں كے ايمان ، يقين اپنے دين اور نبى پر اعتماد ميں اضافہ كيا ، خاص طور پر جب مسلمانوں نے مشركوں كو پہنچنے والے خسارے كا مشاہدہ كيا تو ان كا يقين اور اعتماد مزيد بڑھ گيا _
3 _ اس جنگ سے ملنے والے مال غنيمت نے ان كے بہت سے گہرے مالى مشكلات حل كرديئے اس كے ساتھ ساتھ بہت سے لالچيوںكو بھى جنگوں ميں حصہ لينے پر اكسايا بلكہ اب تو وہ اس طرح كے دوسرے موقع كے انتظار ميں رہنے لگے تھے تا كہ زيادہ سے زيادہ مال غنيمت ہتھياسكيں_
4_ اس جنگ نے دوسروں كى نگاہ ميں مسلمانوں كى ايسى دھاك بٹھادى كہ ان كے ذہنوں ميں يہ بات نقش ہوگئي كہ مسلمان ايك پر اثر اور فعال كردار ادا كرنے والى طاقت ہيں جن كا لحاظ كرنا ضرورى تھا_ دوسرے قبيلے مسلمانوں سے ڈرنے لگے تھے اور ان كى دوستى كے خواہشمند نظر آنے لگے تھے_ اب ان كے لئے مسلمانوں كے ساتھ كئے گئے معاہدوں كا توڑنا نہايت مشكل نظر آرہا تھا_ بلكہ يہ كاميابى تو ان كے لئے دوسرى كاميابيوں كى توقعات بھى ساتھ لائي تھى _ حتى كہ يعقوبى جنگ بدر كے صرف چار ماہ بعد پيش آنے والے جنگ ذى قار كے بارے ميں لكھتاہے:
'' اور خدا نے اپنے نبى (ص) كو عزت بخشى اور قريش كے كئي آدمى مارے گئے اور عربوں نے آنحضرت(ص) كى طرف اپنے وفود بھيجے اور كسرى كى فوج كے ساتھ بھى ان كى ٹكر ہوگئي اور يہ واقعہ ذى قارميں پيش آيا تو انہوں نے كہا كہ تمہيں تہامى (انصاريوں) كا نعرہ لگانا چاہئے جس پر انہوں نے '' يا محمد (ص) ، يا محمد(ص) '' پكارنا شروع كرديا اور

381
كسرى كى فوج كو شكست دے دي'' (1) جس كے بعد طبيعى تھا كہ يہ بات قريش كى مسلمانوں كے خلاف دوسرے قبيلوں كو اپنے ساتھ ملانے كى كوششوں پر اپنا اثر دكھاتى _ اور اس سے بہت سے قبيلوں كو مسلمانوں كے خلا ف اپنا ہم نوا بنانا اب تقريبا ناممكن ہوگيا تھا_

جنگ بدر كے نتائج سے نجاشى كى خوشي
جب جنگ بدر ميں خدا نے مشركوں كو شكست دى اور ان كے بڑوں اور سرداروں كو موت كے گھاٹ اتارا تو نجاشى كو بھى اپنے جاسوس كے ذريعے اس كا علم ہوگيا اور يہ خبر سننے كے بعد نجاشى بہت زيادہ خوش ہوگيا اور خدا كے اس شكرانے كى ادائيگى كے لئے وہ نيچے خاك پر بيٹھا اور بوسيدہ كپڑے پہنے اور مسلمانوں كو بھى اس كا ميابى پر مبارك باد دى (2)

آخرى بات:
يہاں ہم يہ اشارہ بھى كرتے چليں كہ يہ بھى اسلام كا ايك معجزہ ہے كہ آنحضرت(ص) نے ملے جلے اور ناتجربہ كار لوگوں كى ايك جماعت كے ساتھ سب سے بڑى اور سركش طاقت سے ٹكرلے كر اس پر كاميابى حاصل كى تھي_ اور ان لوگوں كو دينى رابطے كے علاوہ اور كوئي رابطہ اور تعلق يكجا نہيں كرسكتا تھا جبكہ ان كے سامنے ايك ايسى منسجم طاقت تھى جسے رشتہ داري، تعلق داري، مختلف معاہدوں اور مشتركہ مفادات نے اكٹھا كيا ہوا تھا_ اور يہ بات غير طبيعى ہوتى ہے كہ چند مختلف اناڑى لوگوں كى ايك جماعت اس طاقت پر غلبہ پالے اور كامياب ہوجائے جس كى حالت ان لوگوں كے بالكل برعكس ہو_ اسى لئے صلح حديبيہ كے موقع پر عروہ بن مسعود ثقفى نے آنحضرت(ص) سے كہا : '' اگر دوسرى صورت ( يعنى جنگ) كى خواہش كرتے تو ميں ايسے چہرے اور چند اناڑى اور ناتجربہ كار لوگ ديكھ رہا ہوں كہ جو تمہيں چھوڑ كر بھا گ نكلتے (3) ا ور ان جيسے لوگوں كے
---------------------------------------------------------
1)تاريخ يعقوبى مطبوعہ صادر ج2 ص 46_
1)سيرہ نبويہ ابن كثير ج2 ص 476 و 477_
2)المصنف ج5 ص 335_

382
متعلق ہى حضرت على (ع) نے فرمايا تھا كہ يہ لوگ شور شرابا كرنے والے اور فسادى ہوتے ہيں ، يہ لوگ جب اكٹھے ہوتے ہيں تو نقصان پہنچاتے ہيں اور جب الگ ہوجائيں تب نفع پہنچاتے ہيں (1)
اور آپ(ص) كى ان چند اناڑى اور عام لوگوں كے ساتھ بہت بڑى طاقت سے جنگ صرف ايك دفعہ نہيں ہوئي تھى كہ يہ كہا جاتا كہ يہ محض اتفاقيہ كاميابى تھى جو بعض استثنائي حالات اور عوامل كے تحت حاصل ہوئي تھى بلكہ يہ صورت حال تو كئي سال تك رہى تھى اور شايد مندرجہ ذيل آيت بھى اسى بات كى طرف اشارہ كررہى ہے_
( و الف بين قلوبہم لو انفقت ما فى الارض جميعا ما الفت بين قلوبہم و لكن اللہ الف بينہم)(2)
اور خدا نے ان كے دلوں ميںا لفت ڈال دى اگر آپ(ص) دنيا كا سارا مال بھى خرچ كرديتے تب بھى ان كے دلوں كو نہيں جوڑ سكتے تھے ليكن خدا نے ان ميں محبت پيدا كردى _

اہل بدر كے بارے ميں معاويہ كا موقف
آخر ميں يہ بھى كہتے چليں كہ ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ اہل بدر كے بارے ميں معاويہ نے سياسى موقف اپنايا تھا_ اور يہ جنگ صفين ميں واقعہ تحكيم كے وقت ہوا تھا_ جب اس نے ايك بدرى صحابى كو حكم ( تام الاختيار نمائندہ) ماننے سے انكار كرتے ہوئے كہا تھا: '' ميں اہل بدر كے كسى شخص كو حكم نہيں مانتا'' (3) اور شايد يہ انكار اس وجہ سے ہوكہ وہ يہ جانتا تھا كہ اہل بدر كى اكثريت شرعى احكام كى پابند ہے ، وہ خدا كى راہ ميں پختہ ہيں اور دين ميں كسى معاملے اور دھوكہ بازى كو قبول نہيں كريں گے _
اور بدر اور احد كے درميانى زمانے كے واقعات پر گفتگو سے پہلے ان بعض موضوعات كے تذكرہ ميں بھى كوئي حرج نہيں ہے جو كسى نہ كسى لحاظ سے گذشتہ باتوں سے متعلق ہيں _ اور يہ گفتگو اگلى فصل ميں ہوگي_
---------------------------------------------------------
1)نہج البلاغہ حصہ حكمت ص 199_
2)انفال / 63_
3)-انساب الاشراف ج3 ص 23_

383
پانچويں فصل: سيرت سے متعلق چند باتيں


385
تمہيد:
ہم نے قارئين سے پہلے وعدہ كيا تھا كہ گذشتہ واقعات سے كسى نہ كسى لحاظ سے متعلق بعض ابحاث كا بعد ميں ذكر كريں گے _ اور اب ايفائے عہد كا وقت آگيا ہے _ البتہ يہ ابحاث قارئين كى سرگرمى كے لئے پيش خدمت ہيں اور چاہے تھوڑا سا ہى سہى قارئين كو سيرت كى فضا اور سيرت كے بعد والے مختلف قسم كے واقعات سے دور لے جائيں گے تا كہ وہ ان ابحاث كا دقت سے مطالعہ كرے اور بسا اوقات يہ بھى ہوتاہے كہ كوئي قارى ان ابحاث كا تفصيلى مطالعہ كرنا چاہتاہے اس لئے ہم يہاں مندرجہ ذيل چار عناوين كا تفصيلى جائزہ ليںگے _
1 _ شيعوں كى بعض خصوصيات_
2 _ جناب ابوبكر كى شجاعت_
3 _ ذو الشمالين كا قصہ اور نبى (ص) كريم كے سہو، خطا، نسيان اور گناہ سے اختيارى طور پر معصوم ہونے پر
دلائل_
4 _ خمس كے شرعى حكم كا سياست سے تعلق_

387
پہلا عنوان
شيعيان على (ع) كى بعض خصوصيات
غزوہ بدر ميں ہم نے كہا تھا كہ آنحضرت(ص) نے اپنے صحابيوں سے فرمايا تھا كہ مشركين سے جنگ ميں پہل نہ كريں _ اور ہم نے وہاں يہ بھى كہا تھا كہ امير المؤمنين حضرت على (ع) بھى اپنے اصحاب كو كسى جنگ ميں پہل نہ كرنے كى تاكيد كيا كرتے تھے_ مروى ہے كہ جنگ جمل كے دن حضرت على (ع) نے اپنے صحابيوں ميں يہ اعلان كيا تھا كہ كوئي شخص ابھى نہ تير پھينكے گا ، نہ نيزے سے وار كرے گا اور نہ تلوار چلائے گا _ ان لوگوں سے جنگ كى ابتدا نہيں كرو بلكہ ان كے ساتھ نہايت نرمى كے ساتھ بات چيت كرو _ سعيد كہتاہے : '' دوپہر تك يہى صورتحال رہى _ يہانتك كہ دشمنوں نے يكبارگى '' يا ثارات عثمان'' كا نعرہ لگاكر يلغار كردى ...'' اور حضرت على (ع) نے جنگ صفين ميں بھى يہى سفارش كى تھى (1)
جى ہاں يہ حقيقت ہے كہ :
1 _ يہ بات شيعوں كى علامت بن گئي _ كيونكہ وہ بھى كبھى دشمنوں سے جنگ كى ابتدا ء نہيں كرتے تھے _ جاحظ بائيں ہتھ كٹے كردو يہ كے متعلق ( جو ايك بہادر اورماہر لوہا ر تھا اور جس پر بھى كوئي وار كرتا تھا اس كا كام ہى تمام كرديتا تھا)كہتاہے: '' كردويہ اپنى معذورى اور دليرى كے باوجود شيعوں والا كام كيا كرتا تھا_ كيونكہ وہ
---------------------------------------------------------
1)سنن بيہقى ج8 ص 80 1 ، حياة الصحابہ ج2 ص 503 از سنن بيہقى ، تذكرہ الخواص ص 72 و ص 91 ، الفتوح ابن اعثم ج3 ص 45 و ج 2 ص 490، انساب الاشراف با تحقيق محمودى ج2 ص 240 والمناقب خوارزمى ص 183_

388
خودكبھى بھى لڑائي شروع نہيں كرتا تھا بلكہ پہلے اس پروار كيا جاتا تھا'' (1)
2 _ نبى (ص) كريم نے جنگ بدر ميں ابوعزت جحمى كو قيد كيا ليكن پھر اس كى بيٹيوں كى وجہ سے اس پر احسان كرتے ہوئے اسے خمس ديا اور اس سے يہ وعدہ لے كر اسے آزاد كرديا كہ وہ نہ تو دوبارہ مسلمانوں سے جنگ كرے گا اور نہ ہى مسلمانوں كے خلاف كسى كى مدد اور حمايت كرے گا_ ليكن اس نے وہ عہد توڑ كر جنگ احد كے لئے دوسرے قبيلوں كو بھى اكٹھا كيا اور خود بھى شريك ہوا _ آخر كا رجب وہ گرفتار ہو اور معافى كا خواستگار ہوا تو آنحضرت(ص) نے اس كى بات سنى ان سنى كردى اور كوئي توجہ نہيں دى تا كہ كل مكہ ميں وہ يہ كہتے ہوئے فخر اور غرور سے اچھل كود نہ كرے كہ اس نے (نعوذ باللہ) محمد (ص) كو دو مرتبہ دھوكا ديا اور مسخرہ كيا _ اس كى تفصيل غزوہ حمراء الاسد ميں بيان ہوگى _ انشاء ا
بہر حال اس بات سے آپ(ص) نے بيدار اور چالاك مؤمن كے ليے ايك بہترين مثال پيش كى كہ وہ نہ تو دھوكا كھائيں، نہ فريب اور نہ ہى ان كا كبھى مذاق اڑايا جائے_ آپ(ص) كا ايك مشہور و معروف فرمان ہے كہ ''مؤمن ايك سوراخ سے دوبار نہيں ڈسا جاتا'' (2)
اسى طرح معاويہ نے حضرت امام حسين (ع) اور ان كے محترم والدكے بارے ميں بھى يہ گواہى دى ہے كہ يہ دونوں دھوكا نہيں كھاتے _ اس نے اس بات كا اعتراف عبيد اللہ بن عمر كے سامنے ان الفاظ ميں كيا تھا: ''(حضرت) حسين (ع) بن على (ع) ہرگز دھوكا نہيں كھاتے اور وہ اپنے باپ كے سپوت ہيں ( يعنى بالكل اپنے باپ پر گئے ہيں )'' (3) اور شيعيان على (ع) (4) نے اس خصوصيت اور صفت كو اپنے آقا و مولا سے وراثت ميں پائي ہے اور انہوں نے بھى اپنے سرپرست اور مربى حضرت ختمى مرتبت رسول (ص) خدا حضرت محمد مصطفى سے
---------------------------------------------------------
1)البرصان والعرجان والعميان والحولان جاحظ ص 333_
2)مسند احمد ج2 ص115 و 373 و فيض البارى ج4 ص 396_
3)ملاحظہ ہو: الفتوح ابن اعثم ج3 ص 57_
4) اس بات سے معلوم ہوتاہے كہ شيعيان على (ع) يا شيعيان حيدر (ع) كرار كى اصطلاح صدر اسلام سى ہى معروف تھى بلكہ شيعہ على كے ساتھ ساتھ شيعہ معاويہ اور شيعہ عثمان و غيرہ كى اصطلاحيں بھى مشہور تھيں ليكن رفتہ رفتہ وہ اصطلاحيں معدوم ہوتى گئيں ليكن شيعيان حيدر كرار نے اپنے امام سے دلى لگاؤ كى وجہ سے اس نام كو محفوظ ركھا _ اس بناپر مولانا شرف الدين موسوى جيسے بعض لوگوں كا شيعوں كى حيدر (ع) كرار اور اثنا عشرى يا دوازدہ امامى ميں تقسيم اور ان كى اچھى برى صفات سب غلط ہيں اس كى تفصيل كسى اور مقام پر آئے گي_

389
وراثت ميں پائي تھى _ اس لئے انہيں دوسرى نادر اور بلند صفات كے ساتھ ساتھ دور انديشى اور ذہنى بيدارى كے ساتھ بھى پہچانا جاتا تھا_ اپنى اس بات پر دليل كے لئے ہم تنوخى كى يہ بات ذكر كرتے ہيں كہ كوئي شخص حسن بن لو لو كو دھوكہ دينا چاہتا تھا اور اس كے ساتھ مكارى كرنا چاہتا تھا تو اس نے اس سے كہا : ''كيا مجھ بغدادى ، باب طاقي، پڑھے لكھے، صاحب حديث ، شيعي، چالاك اور سخت دشمن كو دھوكہ دينا چاہتاہے ؟'' (1)
3_ شيعہ اپنے دينى امور ميں باريك بينى اور پابندى ميں بھى بہت مشہور ہيں _ اسد بن عمرو '' واسط'' كا قاضى (جج) تھا _ وہ كہتاہے: '' مجھے واسط كا قبلہ بہت ٹيٹرھا محسوس ہوا اور تحقيقات سے مجھ پر واضح بھى ہوگيا تو ميں نے اسے موڑ ديا اور صحيح كرديا _ تو كچھ لوگوں نے كہا كہ يہ رافضى ہے _ ليكن ان سے كسى نے كہا كہ نامرادو يہ تو ابوحنيفہ كا پيروكار ہے ، يہ رافضى كيسے ہوگيا ؟ '' (2)_
اسى كتاب كى پہلى جلد ميں بتاچكے ہيں كہ جاحظ نے كہا تھا كہ بنى اميہ نے واسط كا قبلہ تبديل كرديا تھا اور يہ بھى كہا تھا كہ ميرے خيال ميں قبلہ كى تبديلى ان كى بہت بڑى غلطى تھى (3)_
اور ہم نے وہاں يہ بھى كہا تھا كہ بنى اميہ نے بظاہر قبلہ كا رخ بيت المقدس كى طرف موڑديا تھا_ كيونكہ عبدالملك نے ''صخرہ'' پر ايك قبہ (گنبد) تعمير كيا تھا اور لوگوں كو اس كے حج كا حكم ديا تھا نيز اس كے گرد طواف ، سعى ، نحر اور حج كے ديگر مناسك كا بھى حكم ديا تھا_ اور ہم نے وہاں يہ بھى كہا تھا كہ صرف عراقيوں كے لئے قبلہ (خانہ كعبہ) سے تھوڑا سا بائيں موڑنے كا استحباب بھى اسى وجہ سے ہونا اور اس حكم كا وقتى ہونا زيادہ قرين قياس لگتاہے _ تا كہ اس ظالم و جابر اور غاصب حكومت كے مقابلے ميں مومنين زيادہ تكليف ميں مبتلا نہ ہوں_
4 _ شيعہ اپنى عورتوں كے معاملے ميں بہت زيادہ غيرت (4)كے لحاظ سے بھى مشہور تھے_
اسى لئے زكريا قزوينى مدائن والوں كے بارے ميں يہ كہتاہوا نظر آتاہے : '' مدائن كے لوگ كاشتكار اور
---------------------------------------------------------
1) نشوار المحاظرات ج 5ص 13 و ص 14 والمنتظم ابن جوزى ج7 ص 140_
2)تاريخ بغداد ج 7 ص 16 و نشوار المحاضرات ج 6 ص 36_
3)رسائل الجاحظ ج 2 ص 16 نيز ملاحظہ ہو اسى كتاب كى پہلى جلد_
4)البتہ اس غيرت ميں طالبانى تشدد كا عنصر نہيں ہوتا تھا، بلكہ صحيح مذہبى شيعہ عورتوں كى ذہنيت ہى يہى ہوتى ہے_

390
شيعہ اماميہ ہيں اور ان لوگوں كى ايك عادت يہ ہے كہ ان كى عورتيں دن ميں كبھى باہر نہيں نكلتيں '' (1)
اور يہ صفت آج بھى ايران كے بعض شہروں ميں موجود ہے _ بعض اہل علم حضرات نے مجھے كہا ہے كہ تبريز شہر كے ذيلى قصبہ خسرو شاہ ميں دن ميں كبھى كوئي عورت نہيں دكھائي دے گى شايد اكاد كا كوئي نظر آجائے تو آجائے وگرنہ نہيں ہے _ اور يہ كام وہ اپنى آقازادى حضرت بى بى فاطمة الزہرا (س) كى پيروى ميں كرتے ہيں _ كيونكہ وہ بھى كسى دينى سياسى معاملے اور حق كے اثبات جيسے كسى نہايت ضرورى كام كے علاوہ دن كو باہر بالكل نكلتى ہى نہيں تھيں_(2)
5 _ حضرت حجر بن عدى اور ان كے ساتھى اس بات ميں مشہور تھے كہ وہ حاكموں اور دولت مندوں پر كڑى تنقيد كيا كرتے تھے اور ان پر چڑھائي كرديا كرتے تھے اور اس بات كو وہ بہت زيادہ اہميت ديتے تھے(3)_ اور يہى تو شيعہ مذہب كى صفت اور شيعوں كا عقيدہ ہے جبكہ دوسرے اس معاملے ميں خاموشى اور اطاعت كو اپنا فريضہ سمجھتے ہيں _
6 _ حضرت حجر بن عدى اور ان كے ساتھيوں كى ايك صفت يہ بھى تھى كہ وہ صحيح معنوں ميں كٹر مذہبى افراد تھے (4) يعنى دين كے معاملے ميں ہ بہت سخت تھے _ حتى كہ يہى بات ان پر تنقيد كا باعث بنتى تھي_
7 _ شيعوں پر حكام كے ظلم و جبر اور استبداد كے باوجود بھى بغداد ميں شيعہ خوشحال تھے (5) _بظاہر ان كى خوشحالى اس وجہ سے تھى كہ وہ حكام كے استبداد اور غصب كے مقابلے ميں ايك دوسرے كى مدد كيا كرتے تھے_ پس وہ ايك دوسرے كى ضرورتيں پورى كيا كرتے تھے، مشكلات حل كيا كرتے تھے اور معاملات نبٹا ديا كرتے تھے_
---------------------------------------------------------
1)آثار البلادو اخبار العباد ص 453_
2)اور آج كل ايران كى صورتحال تو نہيںمعلومليكن بر صغير پاك و ہند كى صحيح معنوں ميں مذہبى اور دين دار خواتين آج بھى كسى ضرورى كام كے بغير گھر سے باہر قدم نہيں ركھتيں_
3)البدايہ والنہايہ ج8 ص 54 از ابن جرير و غيرہ _
4)ايضا_
5)احسن التقاسيم ص 41_

391
8_ اچھى شہرت بھى شيعوں كى ايك خصوصيت تھى (1) جس كا مطلب يہ ہے كہ ان كا سلوك نہايت بہترين نيز كردار اور تعلقات و غيرہ بھى اسلامى تقاضوں كے عين مطابق معتدل تھے_
9_ شيعوں كى ايك خصوصيت نماز كى اول وقت ميں پابندى بھى ہے _ اور اس بات پر مامون كا يحيى بن اكثم كے ساتھ ايك واقعہ بھى دلالت كرتاہے جس كے آخر ميں مامون نے يحيى بن اكثم سے كہا تھا: '' شيعہ تو مرجئہ سے بھى زيادہ نماز كو اول وقت ميں پڑھنے كے پابند ہيں ''(2) ليكن دوسرے لوگوں كے بارے ميں امام مالك ،قاسم بن محمد كا يہ قول روايت كرتاہے كہ ميں نے ان لوگوں كو ہميشہ ظہر كى نماز مغرب كے نزديك نزديك پڑھتے ہوئے ديكھا ہے (3) اور جاحظ كہتاہے: '' او ر بنى ہاشم كو بنى اميہ پر يہ فخر حاصل ہے كہ انہوں نے خانہ كعبہ كو تباہ نہيں كيا قبلہ تبديل نہيں كيا ، رسول(ص) كو خليفہ سے كم تر نہيں سمجھا، اصحاب كو قتل نہيں كيا اور نماز كے اوقات اور تعداد ميں تبديلى بھى نہيں كى '' (4)
10_ علم اور فقہ بھى شيعوں كى خصوصيات ميں سے ہيں_
11_ مہربانى اور سخاوت بھى شيعوں كى ايك خصوصيت ہے _ اس بارے ميں ايك واقعہ ذكر ہوا ہے كہ جن دنوں عبداللہ بن زبير مكہ ميں تھا ان دنوں عبداللہ بن صفوان نے عبداللہ بن زبير كے پاس آكر كہا: '' ميرى حالت اس شعر كى طرح ہورہى ہے :

فان تصبك من الايام جائحة
لا ابك منك على دنياولا دين
اگر كبھى تم پر زمانے كى مصيبتيں ٹوٹ پڑيں تو دين اور دنيا پر تم سے زيادہ رونے والا كوئي اور نہيں ہوگا_
---------------------------------------------------------
1)ايضا _
2)الموفقيات زبير بن بكار ص 134 و ملاحظہ ہو : عصر المامون ج1 ص 445_
3)مؤطا امام مالك (مطبوعہ با تنوير الحوالك) ج1 ص 27_
4)آثار الجاحظ ص 305 ،اس بات سے يہ بھى معلوم ہوجاتاہے كہ لوگ اپنے اموى بادشاہوں سے كتنے متاثر تھے_

392
تو اس نے كہا : '' ہوا كيا ہے لنگڑے بتاؤتو؟ '' اس پر اس نے كہا : '' يہ عبداللہ بن عباس لوگوں كو علم فقہ كى تعليم دے رہا ہے اور اس كا بھائي عبيداللہ بھوكوں كو كھانا كھلارہا ہے_ دونوں كام تو وہ كررہے ہيں _ تمہارے لئے اب كيا رہ گيا ہے ؟ '' _اس نے يہ بات ذہن نشين كرلى اور اپنى پوليس كے ايك سپاہى عبداللہ بن مطيع كو يہ كہہ دونوں بھائيوں كے پاس بھيجا كہ عباس كے دونوں بيٹوں كے پاس جاكر ان سے كہو : '' جس ترابى (شيعيت كے ) جھنڈے كو خدا نے سرنگوں كرديا تھا اسے پھر تم لوگ دوبارہ لہرانے پر لگے ہو؟ اپنا يہ مجمع متفرق كرو اور بوريا بستر سميٹو وگرنہ ميں تمہارے ساتھ ايسا سلوك كروں گا كہ يادگار رہے گا'' اس نے جب يہ پيغام جاكر پہنچايا تو ابن عباس نے كہا : '' تيرى ماں تيرے غم ميں روئے بخدا ہمارے پاس صرف دو قسم كے لوگ آتے ہيں يا تو طالب علم و فقہ ہوتے ہيں يا پھر طالب فضل و بخشش _ تو كسے ہمارے يہاں آنے سے روكنا چاہتا ہے ؟'' تو اس موقع پر ابوطفيل نے كہا :

لا درّ درّ الليالى كيف تضحكنا
منہا خطوب اعاجيب و تبكينا
و مثل ما تحدث الايام من غير
يا ابن الزبير عن الدنيا تسلينا
كنا نجى ابن عباس فيقبسنا
علماً و يكسبنا اجرا و يہدينا
جفانہ مطعما ضيفا و مسكينا
فالبر والدين و الدنيا بدارہما
و لا يزال عبيد الله مترعہ
ننال منہا الذى نبغى اذا شين
ان النبى ہو النور الذى كشفتبہ
عما يات باقينا و ما ضينا
و رہطہ عصمة فى ديننا و لہم
فضل علينا و حق واجب فينا
و لست فاعلمہ اولى منہم رحماً
يا ابن الزبير و لا اولى بہ دينا
ففيم تمنعہم عنا و تمنعنا
عنہم و تؤذيہم فينا و تؤذينا
لن يؤتى اللہ من اخزى ببغضہم
فى الدين عزاوفى الارض تمكينا(1)
---------------------------------------------------------
1) الاغانى طبع ساسى ج 13 ص 168 نيز انساب الاشراف ج 3 ص 32_

393
اے ابن زبير تمہارا برا ہوا اور كبھى چين سے رات نہ گذرے تمہارے عجيب و غريب مطالبے ہميں ہنساتے بھى ہيں اور رلاتے بھى ہيں _ كبھى تمہيں بھى يہ دن ديكھنے پڑيں گے جس طرح روزگار نے ہمارے ساتھ ستم كيا ہے اور ہمارى تسلى كا سامان بھى فراہم نہيں كيا _ ہم عبداللہ ابن عباس كے پاس كسب علم كے لئے جايا كرتے تھے اور وہ بھى ہمارے لئے علم كى شمع جلاتے تھے، ہميں ثواب كمانے كا موقع ديتے تھے اور ہمارى ہدايت كرتے تھے_ اور مہمانوں اور مسكينوں كو كھلانے پلانے كے لئے عبيداللہ كے برتن ہر وقت بھرے ہوئے اور تيار رہتے تھے _ اس بناپر احسان، دين اور دنيا سب كچھ ان دونوں كے گھروں ميں جمع ہوگياتھا اور ہم جب بھى جتنا بھى اور جو كچھ چاہتے تھے ہميں يہيں سے مل جايا كرتا تھا _ نبى (ص) كريم ايسا نور ہيں جن كے ذريعہ ہمارے اگلوں پچھلوں كى آنكھيں منور ہوگئيں_ اور اس كا خاندان ہمارے دين كو بچانے والے ہيں اس لئے وہ ہم پر فضيلت ركھتے ہيں اور ہمارى گردن پر ان كا حق ہے _ اے زبير كے بيٹے تو نہ تو رشتہ دارى كے لحاظ سے ان سے بہتر ہے اور نہ دين دارى كے لحاظ سے _ پھر تو كس برتے پر ہميں ان سے اور انہيں ہم سے ملنے سے روك كر انہيں ہمارى بارے ميں اور ہميں ان كے متعلق پريشان كررہاہے_ جو لوگ اپنے بغض اور كينے كى وجہ سے رسوا ہوچكے ہيں خدا انہيں دين ميں عزت اور زمين ميں دلوں پر حكومت اور سكون كبھى نہيں ديتا_
پس عبداللہ بن زبير علم اور سخاوت كے جھنڈوں كو ترابى ( شيعيت كا ) جھنڈا سمجھتا ہے جس كے علمبردار شيعيان ابوتراب حضرت على (ع) ہيں اور انہوں نے يہ فيض آپ(ع) سے ہى حاصل كيا ہے _
12 _ ہر قسم كے تعصبات سے دورى بھى شيعوں كى ايك خصوصيت ہے_ اس لئے كہ جب واقعہ عقر ميں ''آل مھلب'' (خاندان مہلب) كو قتل كيا گيا تو كثيرعزت نے كہا : '' كيا برى صورتحال ہوگئي ہے_ خاندان ابوسفيان نے واقعہ كربلا ميں دين كو ذبح كرديا اور مروان كى اولاد نے واقعہ عقر ميں كرم اور مرد انگى كا خون كرديا''_ پھر يہ كہہ كرو ہ رو پڑا _ جب يہ بات يزيد بن عبدالملك تك پہنچى تو اس نے اسے بلوايا _ جب وہ اس كے پاس آيا تو اس نے كہا: '' خدا كى پھٹكار ہو تم پر كيا ترابى ہوكر بھى تعصب برت رہے ہو؟'' ؟ (1) قبائلى اور ہر قسم كے ديگر تعصبات كے بارے ميں اہل بيت (ع) عصمت و طہارت (ع) كا موقف واضح اور مشہور رہا ہے _
---------------------------------------------------------
1)الاغانى ج8 ص 6_

394
جبكہ دوسروں كاموقف بھى نہايت واضح ہے _ اور يہ ايك لمبى گفتگو ہے _ اس لئے اس پر مزيد گفتگو مجبوراً كسى اور مقام كے لئے چھوڑتے ہيں (1)
13 _ شراب سے دورى بھى شيعوں كى ايك خصوصيت ہے _ مذكور ہے كہ بغداد ميں شاعروں كا ايك گروہ شراب كى ايك محفل پر اكٹھا ہوا _ ان ميں منصور نمرى بھى تھا اور اس نے ان كے ساتھ شراب پينے سے انكار كرديا جس پر انہوں نے اس سے كہا : '' تجھے شراب سے اس لئے چڑ ہے كہ تو رافضى ہے '' (2) اور جاحظ كہتاہے: '' ہر گروہ كى اپنى ايك خاص عادت اور علامت ہوتى ہے خصى كى پہچان روم كى طرف جانا ہے خراسانى كى پہچان حج كو جاناہے ... اور رافضيوں (شيعوں) كى پہچان شراب نہ پينا اور بارگاہوں (ائمہ عليہم السلام كے روضہ ہائے اقدس) كى زيارت ہے '' (3)
14_ زمخشرى كہتاہے: '' شيعوں كے نزديك عيد غدير كى شب نہايت باعظمت ہے _ سارى رات وہ جاگتے اور شب بيدارى كرتے ہيں _ يہ اس دن كى شب ہے جس دن غدير خم كے مقام پر رسول (ص) خدا نے حضرت على (ع) كو پالانوں كے منبر پر بلاكر اپنے خطبہ ميں ان كے بارے ميں فرمايا تھا كہ جس جس كا ميں مولا ہوں على (ع) بھى اس كا مولا ہے '' (4)_
15_ ادب اور شاعرى ميں مہارت بھى شيعوں كى ايك خصوصيت ہے _
16_ امت ميں تبديلى لانے كا جوش، جذبہ، تحرك اور نشاط بھى شيعوں كى ايك خصوصيت ہے اور ان تمام باتوں پر ابوفرج شيبانى كى تعريف ميں كہے گئے ابن ہانى اندلسى كے يہ اشعار بھى دلالت كرتے ہيں :

''شيعى املاك بكران ہم انتسبوا
و لست تلقى اديبا غير شيعي
من انھض المغرب الا قصي بلا ادب
سوى التشيع والدين الحنيفى (5)
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو ہمارى كتاب : ''سلمان الفارسى فى مواجھة التحدي''_
2)الاغانى ج 12 ص 23_
3)محاضرات الراغب ج 4 ص 418_
4)ربيع الابرار ج 1 ص 84 و ص 85_
5)ملاحظہ ہو : ديوان ابن ہانى ايڈيشن اول ليكن 1405 ہجرى قمرى مطبوعہ دار بيروت كے اڈيشن ميں ''سكھائے'' كى جگہ '' اصلاح كرے'' ہے_

395
بكر كے قبيلہ والے اگر اپنا نسب بيان كريں تو ابوفرج شيبانى بھى بكر كے پادشاہ اور شيعہ ہيں_ اور آپ لوگوں كو شيعوں كے سوا كوئي اديب نہيں ملے گا _ اور شيعوں كے علاوہ كون ہے جو بے ادب مغرب بعيد ( ہسپانيہ) كو اپنے پاؤں پر كھڑا ہونا سكھائے اور يہى تو دين حنيف ہے_
17_ فصاحت و بلاغت ، سالم گفتگو اور صحيح لہجہ بھى شيعوں كى ايك خصوصيت ہے _ حتى كہ اگر وہ عربى ضاد كا تلفظ بھى ادا كريں گے تو وہ واضح، مشہور اور الگ ہوگا(1)
18_ كثرت عبادت اور نماز بھى شيعوں كى ايك خصوصيت ہے _ يہاں يہ بات ذكر كرتے چليں كہ جب عبيداللہ بن زياد نے معقل كو حضرت مسلم (ع) بن عقيل كا پتا لگانے كے لئے بھيجا تو وہ چلتے چلتے مسجد اعظم پہنچا ليكن اسے سمجھ نہيں آرہى تھى كہ كس طرح معاملہ آگے بڑھائے _ پھر اس نے ديكھا كہ مسجد كے ايك ستون كے پاس ايك آدمى كثرت سے نماز پڑھنے ميں مصروف تھا_ اس نے اپنے دل ميں كہا : '' يہ شيعہ لوگ كثرت سے نماز پڑھتے ہيں _ مجھے لگتاہے كہ يہ بھى انہى ميں سے ہے '' _پھر اس ميں مذكور ہے كہ اس نے كيسے كيسے حيلے بہانے اور كيسى سازشيں كيں يہاں تك كہ اسے حضرت مسلم (ع) كا پتا چل گيا (2)_
19_ جمع بين الصلاتين ( يعنى ظہر اور عصر كى نمازوں كو اكٹھا پڑھنا اور پھر مغرب اور عشاء كى نمازوں كو اكٹھا پڑھنا _ خود اہل سنت كى بنيادى كتب ميں بھى اس كے دلائل ملتے ہيں) بھى شيعوں كى ايك خصوصيت ہے اور وہ اس طرح كہ عصر كى نماز زوال كے كچھ دير بعد ( البتہ نماز ظہر كے بعد) ادا ہوجاتى ہے (3) _
20_ ابراہيم بن ہانى كہتاہے: '' شيعوں كى ايك پہچان يہ ہے كہ وہ فربہ، بہت بالوں والے اور بازيگند پوش ہوتے ہيں '' (4) _
21_ حضرت امام جعفر صادق (عليہ السلام) فرماتے ہيں : '' ميرے محترم والد صاحب نے مجھے بتايا كہ
---------------------------------------------------------
1)روضات الجنات ج1 ص 244_
1) اخبار الطوال ص 235_
2)مقاتل الطالبيين ص 467_
3)بازيكند ايك قسم كا لباس ہوتاہے_

396
ہم اہل بيت (ع) كے پيروكار بہت نيك اور بہترين لوگ ہوتے ہيں _ اگر كوئي عالم اور فقيہ ہوگا تو وہ انہى ميں سے ہوگا، اگر كوئي مؤذن ہوگا تو بھى انہى ميں سے ہوگا، رہنما اور قائد ہوگا تو بھى انہى ميں سے ہوگا، ديانت دار ہوگا تو بھى انہى ميں سے ہوگا اور امانت دار ہوگا تو بھى انہيں ميںسے ہوگا_ اور انہيں ايسے ہى ہونا چاہئے_ لوگوں ميں ہميں محبوب بناؤ ، انہيں ہم سے متنفر نہيں كراؤ'' (1) _
22_معتزلى اميرالمؤمنين حضرت على (ع) كى خندہ پيشانى ، حسن اخلاق، تبسم اور كشادہ روئي جيسى صفات حسنہ بيان كرتے ہوئے كہتاہے: '' اور يہ صفات حسنہ آج تك بھى آپ(ع) كے محبوں اور پيروكاروں ميں نسل در نسل منتقل ہوتى چلى آئي ہے _ اسى طرح ان كے دشمنوں ميں بھى ظلم و جفا، تنگ نظري، سنگ دلى اور سختى بھى منتقل ہوتى چلى آئي ہے _ جسے لوگوں كے اخلاق و كردار كے متعلق تھوڑى سى بھى سوجھ بوجھ ہے اسے اس چيز كا بالكل علم ہے '' (2) _
23_ حضرت امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا: '' كسى قبيلہ ميں اگر ايك آدمى بھى شيعہ ہوتا تھا تو وہ اس قبيلہ كى زينت اور ان كے لئے باعث فخر ہوتا تھا ، كيونكہ وہ ان سب سے زيادہ امانت دار، حقوق و فرائض كا پاسدار، سچا اور لوگوں كى سفارشوں اور امانتوں كا مركز ہوتا تھا اور جب بھى اس كے خاندان اور رشتہ داروں سے اس كے متعلق پوچھا جاتا تو وہ جواب ديتے كہ اس جيسا كوئي ہے ہى نہيں لاكھوں ميں چراغ لے كر ڈھونڈو تب بھى نہ ملے _كيونكہ وہ ہم سب لوگوں سے زيادہ امانت دار اور سچا شخص ہے '' (3) _
24 _ حضرت امام صادق (ع) نے ( جس طرح مردمى ہے كہ ) اپنے شيعوں سے فرمايا: '' نماز ميں صرف ايك بار رفع يدين ( ہاتھوں كو كانوں تك اوپر) كيا كرو اور وہ بھى جب تم نماز شروع كرنے لگو اور بس_ كيونكہ لوگوں نے تمہيں اس صفت كے ساتھ پہچاننا شروع كرديا ہے '' (4) _
---------------------------------------------------------
1)بحارالانوار ج 74 ص 162 و 163 و صفات الشيعہ شيخ صدوق ص 28_
2)شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد معتزلى ج1 ص 26_
3)الكافى طبع قديم ج 8 ص 678_
4)بحارالانوار ج75 ص 215 والكافى ج8 ص7_

397
25_ حضرت امام جعفر صادق (ع) ہى فرماتے ہيں : '' شيعيان على (ع) ہر قبيلہ كے منظور نظر افراد ہوتے تھے_ وہ ديانت دار، ہرد لعزيز ، راتوں كو جاگ جاگ كر عبادت كرنے والے اور دن كے بھى چراغ ہوتے تھے '' (1)
26_ اندلس ( ہسپانيہ) كے گورنر منصور بن ابى عامر نے ايك مرتبہ ابومروان الجزيرى اور اس كے علم و ادب كى تعريف كرتے ہوئے خود اسى سے كہا : '' ہم نے تمہارا تقابل عراقيوں سے بھى كيا تو تم ان سے بھى زيادہ بافضيلت نظر آئے اب تمہيں خدا كا واسطہ تم خود ہى بتادو كہ تمہارا تقابل كس سے كريں '' (2) _
27_ شيعوں كى ايك پہچان دائيں ہاتھ ميں انگوٹھى پہننا بھى ہے كيونكہ اسماعيل بروسوى نے عقد الدرر ميں كہا ہے : '' سنت در اصل دائيں ہاتھ ميں انگوٹھى پہنناہى ہے ليكن چونكہ يہ ظالم بدعتيوں ( اس لفظ سے اس ملعون كى مراد شيعہ ہيں) كى پہچان بن گئي ہے تواب ہمارے زمانے ميں بائيں ہاتھ ميں انگوٹھى پہننا سنت بن گيا ہے(3)_
اور راغب يہ كہنے كے بعد كہ رسول (ص) خدا دائيں ہاتھ ميں انگوٹھى پہنا كرتے تھے اور سب سے پہلے معاويہ نے بائيں ہاتھ ميں انگوٹھى پہنى ، يہ اشعار كہتاہے:

قالوا : تختم فى اليمين و انما
مارست ذاك تشبھا بالصادق
و تقرب منى لال محمد
و تباعدا منى لكل منافق
الماسحين فروجہم بخواتم
اسم النبى بھن واسم الخالق '' (4)
وہ لوگ كہتے ہيں كہ دائيں ہاتھ ميں انگوٹھى پہنا كرو_ اور ميں نے يہ كام آنحضرت(ص) سے مشابہت كے لئے كيا ہے ( كيونكہ آپ(ص) ہمارے لئے نمونہ عمل ہيں ) اور اس لئے بھى كہ ميں
---------------------------------------------------------
1)بحارالانوار ج65 ص 180 مطبوعہ مؤسسہ الوفاء نيز اس كے حاشيہ ميں از مشكاة الانوار ص 62 و ص 63_
2) بدائع البدائہ ص 356 و نفخ الطيب ج3 ص 95 يہ ذہن نشين بھى رہے كہ ہسپانيہ كو آجكل سپين بھى كہتے ہيں _ اس ميں بنى اميہ كى حكومت تھي_ ليكن كيا يہ كسى كو معلوم ہے كہ يہ علاقہ مسلمانوں كے ہاتھ سے كيسے نكلا؟ او ر ان ميں غدار كون لوگ تھے اور ان كا مذہب كيا تھا؟_
3 ) الغدير ج 10 ص 211 از روح البيان ج4 ص 142_
4)محاضرات الراغب ج 4 ص 473 و 474_

398
اہل بيت (ع) رسول(ص) كى قربت حاصل كر سكوں اور ان تمام منافقوں سے بھى بيزارى كا اظہار كرسكوں جو بائيں ہاتھ ميں انگوٹھى پہن كر ( كم از كم طہارت كرتے وقت ) اپنى شرمگاہوں سے اسے مس (ٹچ) كرتے ہيں جن پر خدا اور اس كے رسول (ص) كا نامى نامى لكھا ہوتا تھا_
28_ وہ خود ہى كہتے ہيں كہ سنت اصل ميں قبروں كو برابر كرنا ہے ليكن چونكہ يہ عمل رافضيوں كى پہچان بن چكا ہے اس لئے اب سنت يہ ہے كہ قبروں كو كوہان نمابناياجائے (1) _
29_ زرقانى كہتاہے كہ بعض علما عمامے كا شملہ ( تحت الحنك) آگے سے بائيں جانب سے لٹكاتے تھے_ اور ميں نے دائيں جانب سے شملہ لٹكانے كى كوئي حديث نہيں ديكھى _ صرف ايك ضعيف حديث ہے اور وہ بھى طبرانى سے _ ليكن چونكہ يہ شيعہ اماميہ كى پہچان بن چكاہے اس لئے ان سے مشابہت سے بچنے كے لئے بائيں جانب سے تحت الحنك لٹكانے كو ترك كردينا چاہئے (2) _
30_ زمخشرى نے اہل بيت (ع) پر عليحدہ سے درود اور سلام بھيجنے كو مكروہ جانا ہے _ كيونكہ اس سے رافضى ہونے كى تہمت لگ سكتى ہے (3)_
31 _ عسقلانى كہتاہے: '' تمام علماء كا اس بات پر تو اتفاق ہے كہ زندہ لوگوں كو سلام كرنا صحيح ہے ليكن انبياء كے علاوہ ديگر وفات پاجانے والے افراد كے متعلق علماء كا آپس ميں اختلاف ہے _ بعض كہتے ہيں كہ ہر صورت ميں جائز ہے جبكہ بعض كہتے ہيں كہ انبياء پر درود اور سلام كے ذيل ميں صحيح ہے عليحدہ نہيں _ ليكن ہر مردہ پر عليحدہ عليحدہ درود نہيں بھيجا جائے گا _ كيونكہ يہ رافضيوں كى علامت بن چكى ہے (4)
32_ اور حسن ختام كے طور پر ہم يہ كہتے چليں كہ راغب كہتاہے: '' اگر كہيں صرف لفظ ''اميرالمؤمنين ''
---------------------------------------------------------
1)رحمة الامة باختلاف الائمة ( مطبوعہ بر حاشيہ الميزان شعراني) ج1ص 88 ، المغنى ابن قدامہ ج 2 ص 505 ، مقتل الحسين مقرم حاشيہ ص 464 از مذكورہ دونوں كتب و از المہذب ابواسحاق شيرازى ج1 ص137 ، الو جيزغزالى ج 1 ص 47 ، المنہاج نووى ص 25 ، شرح تحفہ المحتاج ابن حجر ج 1 ص 560 ، عمدة القارى ج 4 ص 248 والفروع ابن مفلح ج1 ص 481_
2)مقتل الحسين مقرم حاشيہ ص 265 4ز شرح مواہب ج 5 ص 13_
3)الكشاف ج 3 ص 558_
4)فتح البارى ج11 ص 146_

399
اكيلا بولا جائے تو اس سے مراد امير المؤمنين حضرت على (ع) ہيں '' (1)
اس موضوع سے متعلق ہمارے ذہن ميں ابھى صرف يہى چند باتيں موجود تھيں _ البتہ ہم محترم قارئين سے اس توفيق كے خواہاں ہيں كہ وہ مزيد صفات حسنہ كو خود تلاش كريں گے اور اپنائيں گے_
---------------------------------------------------------
1)محاضرات الادباء ج 3 ص 341_