الصحيح من سيرة النبى الاعظم(ص)
319
تيسرى فصل: مال غنيمت اور جنگى قيدي


321
مال غنيمت كى تقسيم :
اس جنگ ميں ڈيڑ ھ سو 150 اونٹ ، دس گھوڑے ( جبكہ ابن اثير كے مطابق تيس گھوڑے) اور بہت سا سازو سامان ، اسلحہ اور چمڑے و غيرہ كے بچھونے اور چيزيں مال غنيمت كے طور پر مسلمانوں كے ہاتھ لگے _ ليكن مسلمانوں ميں اس بات پر بحث چھڑ گئي كہ كيا يہ مال غنيمت صرف لڑنے والے جنگجوؤں كو ملنا چاہئے يا پھر ان سب كو بھى ملنا چاہئے جو اس لشكر ميں پيچھے رہ كر ان كے دوسرے كاموں ميں مصروف ہيں ؟ اس اختلاف اور جھگڑے كى وجہ سے مال غنيمت كى تقسيم كا عمل رسول(ص) خدا كے سپرد كرديا گيا _ آپ(ص) نے تمام مال غنيمت اكٹھا كر اكے اسے عبداللہ بن كعب كے ذمہ لگا ديا اور باقى صحابہ كو بھى اس كے اٹھانے اور حفاظت ميں اس كا ساتھ دينے كا حكم ديا _ بقولے مندرجہ ذيل آيت بھى اسى بارے ميں نازل ہوئي :
(يسالونك عن الانفال قل الانفال للہ و للرسول فاتقوا اللہ و اصلحوا ذات بينكم و اطيعو اللہ و رسولہ ان كنتم مؤمنين) (انفال/1)
اے رسول(ص) وہ لوگ آپ(ص) سے انفال ( مال غنيمت) كے متعلق پوچھتے ہيں تو كہہ ديجي ے كہ انفال خدا اور رسول (ص) كا ہے اور اگر تم مؤمن ہو تو خدا سے ڈرو اور آپس ميں صلح صفائي كرلو او ر خدا اور اس كے رسول (ص) كى اطاعت كرو _
آپ (ص) نے وہ مال غنيمت وہاں نہيں بلكہ مدينہ واپس آتے ہوئے راستے ميں تقسيم كيا تھا اور اس كى وجہ يہ تھى كہ آپ (ص) اپنے اصحاب كے درميان اختلاف كى شدت كو ختم كركے انہيں طبيعى حالت ميں واپس لے آنا

322
چاہتے تھے تا كہ وہ اپنى دنياوى خواہشات سے ہٹ كر اس بارے ميں كچھ سوچيں_ تب آپ(ص) نے وہ سارامال ان كے درميان تقسيم كرديا اور اس سے خمس بھى نہيں نكالا _

رسول خدا (ص) نے خمس كيوں نہيں ليا ؟
بہر حال رہا يہ سوال كہ رسول(ص) خدا نے جنگ بدر كے مال غنيمت ميں سے خمس كا حصہ كيوں نہيں ليا ؟ تو اس كے جواب ميں يہ كہا جا سكتا ہے كہ شايد آپ (ص) خداكے اذن سے اپنے اور ذوى القربى كے حقوق سے گذر تے ہوئے جنگجوؤں كا حوصلہ بڑ ھانے اور ان كا دل جيتنے كے لئے انہيں زيادہ حصہ دنيا چاہتے ہوں گے خاص كراس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ يہ مشركين كے خلاف ان لوگوں كى پہلى زبر دست لڑائي ہے اور دوسرا آپ(ص) نے اس موقع پر يہ بھى ديكھ ليا تھا كہ انہيں حصول مال كى كتنى شديد خواہش اور لالچ ہے _اس كى مزيد وضاحت قيديوں سے متعلق گفتگو ميں ہوگى _
اس كى مثال اس روايت ميں بھى ملتى ہے كہ حضرات حسنين (حضرت امام حسن اور حضرت امام حسين ) عليہما السلام نے حضرت على عليہ السلام كے ايّام خلافت ميں اپنے والد سے خمس سے اپنا حصہ مانگا تو انہوں نے فرمايا: '' وہ تو تمہارا حق ہے مجھ سے طلب كر سكتے ہو ليكن ميں ابھى معاويہ سے جنگ ميں مصروف ہوں(جس كے لئے مجھے اخراجات كى اشد ضرورت رہتى ہے )اس لئے اگر تم چاہو تو اپنے اس حق سے گذر سكتے ہو ''(1)
البتہ يہ بات بھى ممكن ہے كہ آپ(ص) نے اس وجہ سے وہاں خمس نہ ليا ہو كہ اس وقت تك خمس والى آيت نازل نہ ہوئي ہو_ جس كا مطلب يہ ہوگا كہ خمس كا حكم غزوہ بدر كے بعد آياہوگا ،حتى كہ بعض اقوال يہ بھى ملتے ہيں كہ آپ(ص) نے سب سے پہلا خمس غزوہ بنى قينقاع كے موقع پر نكالاتھا (2)ليكن ہميں اس بات كے صحيح ہونے ميں شك ہے كيونكہ بعض دستاويزات كے مطابق آپ(ص) نے جنگ بدر سے كچھ ما ہ پہلے سريہ عبدالله بن حجش ميں
---------------------------------------------------------
1)السنن الكبرى ج6ص 363)_
2)الثقات ابن حبان ج 1ص 211_

323
سب سے پہلا خمس لياتھا _بلكہ ہم يہاں تك بھى مشاہدہ كرتے ہيں كہ حضرت على (ع) كى حديث مناشدہ(1) ميں ابن عسا كرنے ذكر كيا ہے كہ انہوں نے مشاورتى كو نسل كے افراد كو قسم ديتے ہوئے كہا تھا :''تمہيں خدا كى قسم كيا ميرے اور حضرت فاطمہ (ع) كے علاوہ تم ميں كوئي ايسا شخص ہے جس نے آنحضرت(ص) كے كسى قريبى كے ايمان لانے سے بھى پہلے خمس ليا ہو ؟'' سب نے كہا :'' نہيں بخدا ''(2) _
اس دستاويز كى روسے خمس ،مكہ ميں بعثت كے ابتدائي ايام ميں حتى كہ آپ(ص) كے گھرانے كے كسى فرد كے اسلام لانے سے بھى پہلے فرض ہو اتھا _ البتہ اس دستاويز پر يہ اعتراض ہوتا ہے كہ حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا كى ولادت سے بھى پہلے بعثت كے چوتھے يا پانچويں سال تك حضرت جعفر ،حضرت حمزہ اور جناب ابو طالب مسلمان ہو گئے تھے _ (پھر آپ(ص) كا يہ دعوى كيسا كہ كسى قريبى كے مسلمان ہونے سے پہلے ميں اور فاطمہ (ع) خمس ليتے تھے ؟) _جبكہ اس كا جواب يوں ديا جا سكتا ہے كہ:
ايك :_حضرت ابو طالب (ص) ،رسول (ص) خدااور حضرت خديجہ (ع) كو كسى مال كى كوئي ضرورت ہى نہيں تھى كيونكہ يہ شخصيات شعب ابى طالب جيسے كٹھن حالات ميں بھى اپنا ہى مال خرچ كرتے تھے _ اور يہ بات پہلے ذكر ہو چكى ہے _ اور حضرت جعفر (ع) كے متعلق بھى معلوم نہيں ہے كہ وہ خمس كے مستحق ہوں شايد وہ بھى مالدار آدمى تھے اسى طرح وہ اس وقت ملك حبشہ ميں رہ رہے تھے اسى طرح حضرت حمزہ بھى شايد مالدار آدمى تھے _
دو:يہ بھى ممكن ہے كہ خمس كا حكم بعثت كے ابتدائي دنوں ميں ہى آپ(ص) كے ديگر رشتہ داروں كے مسلمان ہونے سے پہلے آيا ہو اور حضرت خديجہ (ع) نے خمس نكالا ہو اور اس سے حضرت على (ع) كو اپنا حصہ ملاہو ليكن حضرت فاطمہ زہرا(ع) ولادت كے بعد حضرت على (ع) كى حصہ داربن گئي ہوں _ البتہ اس مذكورہ دستاويز كا مطلب يہ نہيں نكلتا كہ حضرت زہرا (ع) بعثت كے اوائل ميں پيدا ہوئيں _
---------------------------------------------------------
1) خليفہ ثانى نے بوقت وفات گذشتہ رہنما ؤں كى مخالفت كرتے ہوئے نئے خليفہ كى تعيين كے لئے ايك چھ ركنى كو نسل يا كميٹى تشكيل دى تھى _تعيين خليفہ كے وقت دھاندلى ہونے لگى تو حضرت على عليہ السلام نے اس كميٹى كے افراد كو قسميں دے دے كران سے اپنے فضائل اور صفات منو ائے ليكن دھاند لى ہو كر رہى اور حضرت على (ع) كا حق غصب ہو گيا _ اس حديث كو حديث منا شدہ كہتے ہيں _مترجم
2)زندگانى امام على (ع) از تاريخ ابن عسا كر با تحقيق محمودى ج 3ص 90وص 95،المناقب خوازرمى ص225،فرائد السمطين ج1 ص322نيز زندگانى امام على (ع) ج3ص 88و ص 89كے حاشيہ ميں حديث منا شدہ كے كثير منابع و مآخذ بھى مذكور ہيں نيز ملاحظہ ہو: الضعفاء الكبير ج 1 ص 211_(البتہ اس ميں ''آپ(ص) كے ديگر رشتہ داروں كے ايمان لانے سے پہلے ''والا جملہ مذكور نہيں ہے ، ولئالى المصنوعہ ج 1ص 362)_
324
رسول خدا ايك بار پھر خمس اپنے اصحاب ميں بانٹ ديتے ہيں
جس طرح آپ (ص) نے جنگ بدر ميں خمس نہيں ليا ،اسى طرح آپ (ص) نے بعض ديگر مقاما ت پر بھى خمس نہيں ليا_مروى ہے كہ جنگ حنين كے واقعہ ميں آپ(ص) نے اپنے حق يعنى خمس كو اپنے صحابيوں ميں تقسيم كر دياتھا _ حديث ميں آيا ہے كہ آنحضرت (ص) كو كچھ زمين اور ايك موٹا تازہ جوان اونٹ يا كوئي اور چيزملى تو آپ(ص) نے فرمايا : ''مجھے پروردگار كى قسمخدا نے تمہيں جو بھى مال غنيمت يا جو رزق ديا ہے اس ميں سے صرف خمس ہى ميرا حق بنتا ہے اور وہ بھى ميں تمہيں لوٹا ئے ديتا ہوں ''(1)
يہ تو ان لوگو ں كے ساتھ نبى (ص) كريم كا سلوك تھا ليكن دوسروں كا سلوك كيسا تھا ؟ انہوں نے آنحضرت (ص) كے خاص حق ''فئے''پر بھى قبضہ كر ليا اور آپ(ص) كے اہل بيت(ع) تك كو بھى اس سے محروم ركھا ،بلكہ آنحضرت (ص) كے تمام وارثوں كو آپ(ص) كے تمام تركہ سے ہى محروم كرديا اور يہ بات كسى بيان كى محتاج نہيں ہے_ البتہ ہم بھى '' سيرت سے متعلق چند باتيں'' كى فصل ميں نفع اور تمام مال ميں خمس كے فريضے پر گفتگو كريں كے_

حضرت على (ع) كے دور حك3مت ميں غربت كا خاتمہ :
ابو عبيدہ و غيرہ نے بيان كيا ہے كہ حضرت على عليہ السلام سال ميں تين مرتبہ لوگوں ميں مال تقسيم كيا كرتے تھے ايك مرتبہ تين دفعہ بانٹنے كے بعد اصفہان سے كچھ مال آيا تو آپ(ص) نے حكم ديا كہ چو تھى مرتبہ تقسيم كا بھى جلدى جلدى بند و بست كرو ، ميں تمہارا كوئي خزانچى نہيں ہوں _ تو آپ(ع) نے وہ طبق لوگوں ميں تقسيم كراديئےسے بعض نے تو لے ليا ليكن بعض نے واپس كرديا ليكن آپ(ص) نے انہيں اپنا حصہ لينے پر مجبور كرديا (2) جس كا مطلب يہ ہے كہ حضرت على (ع) كے دور حكومت ميں تمام لوگ اس حد تك خود كفيل اور بے نياز ہو گئے تھے كہ حكومتي
---------------------------------------------------------
1)الموطاء ج 2ص 14مطبوعہ با تنوير الحوالك ،الا موال ابو عبيد ص 444و 447،الفتوح ابن اعثم ج 2 ص 122،مسند احمد ج5 ص 316 ص 319 ، 326 و الثقات ج 2 ص 48)_
2)الاموال ابو عبيد ص 384،كنز العمال ج 4ص 378وص318،حياة الصحابہ ج 2ص 236،زندگانى امام على (ع) از تاريخ ابن عسا كر با تحقيق محمودى ج 3 ص 181و انساب الاشراف با تحقيق محمودى ج 2 ص 132_

325
تقسيم كو بھى واپس كرنے لگے تھے _ اور ايسا كيوںنہ ہو جبكہ حضرت على (ع) يہ فرمايا كرتے تھے كہ ميں دنيا كو ہيچ سمجھتا ہوں (1) اور بيت المال كے متعلق حضرت على (ع) كى سيرت كسى تعارف كى محتاج نہيں ہے_(2)
جبكہ دوسروں كے دور حكومت ميں ہم ديكھتے ہيں كہ بعض افراد كے پاس تن كو ڈھانپنے كے لئے صرف دوہى ٹكڑے ہوتے تھے جس سے وہ صرف اپنا آگا اور پيچھا ہى چھپا سكتے تھے _ اور كچھ بھى نہيں تھا ، اس لئے انہيں '' ذو الرقعتين'' كہتے تھے(3)

اہم نوٹ : خمس اور اقربا پروري؟
يہاں ايك سوال پيدا ہوتا ہے اور وہ يہ ہے كہ كيا يہ صحيح ہے كہ اہل بيت رسول (ص) كے لئے خمس كا مخصوص حكم ايك خاندان كو برترى دينے كے مترادف اور باعث ہے ؟ اور كيا يہ ذات پات كے فرق پر مبنى ہے ، جيسا كہ بعض لوگوں كو ايسى باتيں كرنا اچھا بھى لگتا ہے _ اور اس كا جواب يہ ہے كہ:
1_ روايتوں سے معلوم ہوتا ہے كہ خمس اللہ ، رسول (ص) اور امام(ع) كى ملكيت ہے _ اور آيت خمس ميں مذكور باقى افراد خمس كے استعمال اور خرچ كرنے كے موارد ہيں _ اور در حقيقت خدا نے عترت رسول (ص) كے فقيروں كو امام(ع) كى زير سرپرستى قرار ديا ہے _ اگر ان كا اپنا حصہ ان كے لئے كفايت نہ كرے اور ان كا فقر دور نہ كر سكے تو امام (ع) اپنے حصہ سے اس كى كمى پورى كرتا ہے_ اور اگر ان كے حصہ سے كچھ بچ جائے تو وہ باقى حصہ امام(ع) كا ہوگا_ ہوگا _ اور امام (ع) اپنے اس حصہ كو ان شرعى امور ميں خرچ كرے گا جو دين كى سربلندى ، حفاظت اور مسلمانوں كے حالات سدھرنے كا باعث ہوں _ اور وہ مال جو ان شخصيتوں ( سادات كے فقيروں ، مسكينوں اور مسافروں) كو ديا جائے گا وہ صرف ان كى ضرورتوں كے پورے ہونے كى حد تك ہو گا_ كيونكہ زكات ان پر حرام ہوچكى ہے _ اسى طرح زكات غير سادات كى ضرورتوں كو پورا كرنے كے لئے فرض ہوئي ہے _ البتہ غير
---------------------------------------------------------
1)البدايہ و النہايہ ج 8ص 5از بغوى و حياةالصحابہ ج 2 ص 310_
2)اور قائم آل محمد(ص) حضرت امام مہدى عليہ السلام كے دور حكومت كے متعلق بھى ملتا ہے كہ وہ دور ايسا خوشحال ہوگا كہ صدقہ دينے والے صدقہ دينے كے لئے ہر طرف پھر رہے ہوں گے ليكن لينے والا كہيں نہيں ملے گا_
3)المصنف عبدالرزاق ج 6 ص 267 نيز ص 268 و سنن بيہقى ج 7 ص 209 _

326
سادات ميں سے كسى ايك كو دوسروں پر كوئي برترى اور امتياز حاصل نہيں ہوگا _ جبكہ سادات كے فقيروں كو خمس دينا رسول (ص) كريم كى تعظيم اور لوگوں كے دلوں ميں آپ(ص) كى شان اور منزلت كے اعتراف كے برابر ہے_ جبكہ اس سے كسى دوسرے كى حق تلفى يا كسرشان بھى نہيں ہوتى _ اور اس بات سے امت اسلاميہ عقيدے كے لحاظ سے بھى اور عملى طور پر بھى مضبوط اور با صلابت ہو جاتى ہے اور امت اسلاميہ كو اسى صلابت ہى كى اشد ضرورت ہے _
خداوند عالم نے قرآن مجيد ميں مذكورہ صورت كے علاوہ بھى نبى (ص) كريم كے احترام اور تكريم كو بہت اہميت دى ہے اور اس كے لئے بہت زيادہ اہتمام كيا ہے _ ارشاد خداوندى ہے
(يا ايھا الذين آمنوا لا ترفعوا اصواتكم فوق صوت النبى و لا تجہروا لہ بالقول كجہر بعضكم بعضا) (1)
اے مؤمنواتم نبى (ص) كى آواز سے اپنى آواز زيادہ اونچى نہ كيا كرو بلكہ تمہارى آواز ان سے نيچى اور دھيمى ہونى چاہئے اور ان كو اونچى آواز سے اس طرح بھى مت پكارو جس طرح تم ايك دوسرے كو پكارتے ہو_
اسى طرح خدا نے آنحضرت (ص) پر درود و سلام بھيجنے كا بھى حكم ديا ہے اور يہ سب صرف اس لئے ہے كہ خدا ان باتوںسے دين ، انسان اور انسانيت كى بھلائي چاہتا ہے _
اس كے ساتھ يہ بھى بتاتے چليں كہ خمس كى يہ عطا اتنى بلا قيد و شرط بھى نہيں ہے كہ سب مال كسى خاص قوم يا خاندان كے پاس جمع ہو جائے جبكہ دوسروں كو اس كى اشد ضرورت رہے _ بلكہ شرط يہ ہے كہ ہر سيد كو اس كے سال بھر كے خرچہ كى مقدار جتنا ديا جائے گا جس سے اس كى ضروريات پورى ہوتى رہيں _ روايات اور مجتہدين كے فتو ے بھى اسى بات كى تائيد كرتے ہيں _ اسى طرح سہم امام بلكہ بعض فتاوى كى بنا پر سہم سادات بھى امام (ع) يا پھر مجتہد كے اختيار ميں ہوتا ہے _
---------------------------------------------------------
1)حجرات /22

327
ليكن زكات كے متعلق ايسا نہيں ہے بلكہ كوئي بھى كسى فقير كو اتنى بہت زيادہ زكات بھى دے سكتا ہے كہ اس كى كا يا اچانك پلٹ جائے اور وہ فقير سے امير ہو جائے _
2_ خمس نے تاريخ كے دورانيے ميں دين كى حفاظت ميں بہت بڑا كردار ادا كيا ہے _ اسى خمس نے مرجعيت كے ساتھ لوگوں كے تعلقات مضبوط ركھے اور دونوں كے اندر ايك دوسرے پر اعتماد پيدا كرنے ميں بہت بڑا كردار ادا كيا _ ظالم و جابر حكام كے ظلم و زيادتيوں نيز محروميوں كے اثرات پر غلبہ پانے ميں لوگوں كى مدد كى اور ان كى بہت سى ضروريات كو پورا كيا _ معاشر ے كى خدمت كرنے والے علمى اور رفاہى اداروں كى تشكيل ميں بھى بہت زيادہ اور عظيم كردار ادا كيا اور معاشرے كى روحى ، مادى اور ذہنى سطح بلند كى _ اسى طرح خمس كے ساتھ ساتھ اس مذہبى موقف نے بھى مذہبى معاشرے كى روحى اور ذہنى سطح كے بلند كرنے ميں اپنا كردار ادا كيا كہ كسى ظالم و جابر حاكم كے ساتھ كسى قسم كے تعلق كے بغير يا اس كے سامنے جھكے بغير انسان كو اپنے عقيدے اور عمل ميں آزاد ہونا چاہئے_ اور اس ظالم حاكم كو اپنے اوپر ايسے كسى قسم كے دباؤ ڈالنے كا موقع نہ ديں كہ جس سے وہ انہيں غير دينى راستوں پرلے جائے اور وہ انہيں اپنے اغراض و مقاصد كے حصول اور اہداف تك رسائي كا ذريعہ بنائے _پس ان كى شان ، عظمت ، سر بلندى اور اعتبار اس ظالم حاكم كے مرہون منت نہيںہے كہ جس كى وجہ سے ان پر اس ظالم حاكم كے ساتھ دينى اور عقائدى حدود كے باہر كسى قسم كا تعلق اور واسطہ ركھنا ضرور ى ہو_ اسى بات سے ہميں آيت اللہ سيد روح اللہ موسوى خمينى كى دينى قيادت اور رہبرى ميں ايران كے اسلامى انقلاب كى كاميابى ميں ديگر عوامل كے علاوہ خمس كے عظيم كردار كا بھى علم ہوتا ہے
3_ چونكہ بعض لوگوں ميں دين سے دفاع اور اس كى حفاظت كا ذاتى احساس اجاگر كرنے كے لئے خمس بھى اپنا حصہ ادا كرتا ہے اس لئے دين كو ہميشہ خمس كى ضرورت رہتى ہے _ اور يہ طبيعى بات ہے كہ اس خطير ذمہ دارى كا ذاتى احساس اور جذبہ آنحضرت(ص) كے اہل بيت (ع) ميں يعنى سادات ميںسب سے زيادہ ہے _ اور خمس كو ان كے اور ان كے اہل و عيال كے لئے بطور ضمانت اور ضروريات زندگى فراہم كرنے كا ذريعہ قرار دينے

328
سے ان ميں دين سے دفاع كا مذكورہ جذبہ مزيد اجاگر ہوگا اور نكھرے گا نيز دين كى راہ ميں جان دينے پر بھى زيادہ آمادہ كرے گا(1)
يہيں سے ہميں معلوم ہوتا ہے كہ فاسد عقيدوں اور مشكوك فرقوں حتى كہ وہابيت جيسے باطل اور گمراہ فرقے نے كس طرح اس جيسے تعصب اور اقربا پرورى سے كام لے كر اپنے آپ كو زندہ ركھا ہوا ہے _ چونكہ آل سعود جيسے كچھ لوگ اپنا وجود وہابيت كے مرہون منت جانتے ہيں اس لئے وہ اس كى حفاظت ، پابندى اور ترويج كو اپنى ذات ، حكومت اور سلطنت كى بقاء كے لئے ضرورى جانتے ہيں _اور ان تمام باتوں سے يہ چيز واضح ہو جاتى ہے كہ مذہب حقہ بھلائي اور حق كى حفاظت اور ترويج كے لئے اس عنصر سے استفادہ كرنے كاسب سے زيادہ حق دار ہے _
ہم يہ بھى مشاہدہ كرتے ہيں كہ حكام جس مذہب سے بھى ناراض ہو جاتے اور اس پر اپنا غصہ نكالنا چاہتے تو وہ مذہب تھوڑى سى كوشش كے ساتھ ہى نيست و نابود ہوجاتا تھا _ كيونكہ اس كے بقاء اور اس پر پابند رہنے والے شخص كى حفاظت كى كوئي ضمانت موجود نہيں ہوتى تھى _ ليكن خالص خدائي تعليمات پر مشتمل مذہب اہل بيت (ع) ميں چونكہ بڑى بڑى كينہ پرور اور ظالم طاقتوں كے مقابلے ميں بھى استمراراور بقاء كى بہت سى شرعي، عقلى اور عملى ضمانتيں موجود ہيں اور ان ضمانتوں كے سائے ميں وہ كئي كئي صد يوں تك بھى اپنے اور اپنے پيروكاروں پر دباؤ نہ صرف برداشت كر سكتى ہے بلكہ كر بھى چكى ہے اور كربھى رہى ہے اس لئے وہ پائندہ اور تابندہ ہے _ البتہ يہ بات دين اسلام كى عظمت ، وسعت اور پاكيزگى كى صرف ايك دليل ہے ، باقى بھى ہيں جو اپنے مقام پر ذكر ہو چكى ہيں اور ہوں گى _
---------------------------------------------------------
1) البتہ اسلام نے ان سادات كے لئے يہ شرط بھى ركھى ہے كہ وہ خمس و غيرہ كو گناہ كے كاموں ميں خرچ نہ كرتا ہو_ بلكہ اس سيد كو محتاج ہونے كے ساتھ ساتھ نہايت نيك اور پرہيزگار ہونا چاہئے _ اور وہ جتنا نيك ہوگا اتنا ہى مستحق خمس ہوگا_

329
جنگ بدر ميں شركت نہ كرنے ولے بعض افراد كا مال غنيمت سے حصہ :
الف : طلحہ اور سعيد بن زيد:
مورخين يہاں كہتے ہيں كہ طلحہ اور سعيد بن زيد نے جنگ بدر ميں شركت نہيں كى تھى _ اور اس كى وجہ يہ تھى كہ آنحضرت (ص) نے انہيں تجارتى قافلے كى تازہ ترين صورتحال معلوم كرنے كے لئے بھيجا تھا تو وہ بدر كى طرف آپ(ص) كى روانگى كے بعد مدينہ واپس لوٹے تھے _ وہ جنگ ميں شركت كے لئے گھر سے نكلے بھى ليكن راستے ميں ديكھا كہ آپ(ص) جنگ سے فارغ ہو كر واپس تشريف بھى لارہے ہيں _ يہ صورتحال ديكھ كر آپ(ص) نے جنگ بدر كے مال غنيمت سے ان دونوں كو بھى ان كا حصہ ديا (1)_
ليكن يہ بات مندرجہ ذيل وجوہات كى بنا پر صحيح نہيں ہے :
1_ ہميں ايك اور دستاويز ميں ملتا ہے كہ وہ شام تجارت كے لئے گئے ہوئے تھے اور وہ آپ(ص) كى جنگ بدر سے واپسى كے بعد لوٹے تو آپ(ص) نے ان كى آمد پر ان دونوں كا حصہ نكال كر انہيں ديا (2)_
البتہ اس دستاويز كى آخرى شق صحيح نہيں ہے_ كيونكہ يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ آپ (ص) نے پيچھے رہ جانے والے دوسرے لوگوں كو چھوڑ كر صرف ان دونوں كوہى مال غنيمت كا حصہ كيوںديا ؟ اور كياجنگ نہ كرنے والوں كا جنگ كرنے والوں كے مال غنيمت سے شرعى طور پر كوئي حق بنتا ہے ؟ پھر كسى مجبورى و غيرہ كے تحت جنگ سے پيچھے رہ جانے والے ديگر لوگوں كى بجائے صرف ان دونوں كو حصہ دينے پر وہ لوگ راضى كيسے ہو گئے؟ اور نبى (ص) كريم اگر ديگر مسلمانوں كو مال عطا كرنا بھى چاہتے تھے تو انہيں اپنے حصہ سے عطا كرنا چاہئے تھا دوسروں كے مال سے نہيں ، جس طرح آپ(ص) نے جنگ ميں شريك افراد كے ساتھ يہ كام كيا تھا_
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو: سيرہ حلبيہ ج 2 ص 147 و ص 185 و غيرہ_
2)سيرہ ابن ہشام ج2 ص 339 و 340 ، التنبيہ و الاشراف ص 205 ليكن اس ميں لفظ '' قيل'' ( منقول ہے) كے ساتھ ذكر ہوا ہے ، الاصابہ ج2 ص 229 و الاستيعاب بر حاشيہ الاصابہ ج 2 ص 219_

330
2_ ديگر مورخين كى پيروى ميں سيوطى نے بھى مذكورہ دونوں افراد كى اس فضيلت سے انكار كيا ہے بلكہ عثمان كے علاوہ اس نے ہر كسى كى اس فضيلت سے انكار كيا ہے _ وہ كہتا ہے : '' جنگ بدر كے موقع پر حضرت عثمان كا حصہ عليحدہ كر ليا گيا جبكہ اس كے علاوہ جنگ بدر سے غير حاضر رہنے والے كسى شخص كے لئے بھى كوئي حصہ نہيں ركھا گيا_ اس روايت كو ابو داؤد نے ابن عمر سے نقل كيا ہے _ خطابى كہتا ہے كہ يہ فضيلت صرف حضرت عثمان كے ساتھ خاص ہے كيونكہ وہ رسول (ص) خدا كى ( لے پالك) دختر كى تيمار دارى ميں مصروف تھا''(1)البتہ ہم حضرت عثمان كے لئے بھى اس تخصيص كے قائل نہيں ہيں جسے انشاء اللہ آگے جا كر ثابت كريں گے _
3_ شورا والوں سے ( جن ميں طلحہ اور عثمان بھى شامل اور موجود تھے ) حضرت على عليہ السلام كى حديث مناشدہ ميں آيا ہے كہ آپ(ص) نے ان سے پوچھا : '' كيا تم لوگوں ميں سے كوئي ايسا ہے جسے جنگ ميں شركت كرنے پر بھى حصہ ملاہو اور شركت نہ كرنے پر بھى حصہ ملا ہو؟'' تو سب نے نفى ميں جواب ديا (2)
البتہ ہو سكتا ہے كہ جنگ ميں شركت نہ كرنے پر آپ(ع) كو حصہ اس لئے ديا گيا ہو كہ آپ(ع) بھى اس وقت كسى جنگى مہم ميں مصروف ہوں يا آنحضرت (ص) نے اپنے حصہ سے جس طرح ديگر جنگجوؤں كو ديا تھا اسى طرح آپ(ع) كو بھى ديا ہو _ البتہ يہ بات بھى واضح كرتے چليں كہ آنحضرت(ص) كى حيات طيبہ ميں حضرت علي(ع) صرف جنگ تبوك سے ہى پيچھے رہے تھے اور شركت نہ كر سكے تھے باقى تمام جنگوں ميں آپ (ع) آنحضرت(ص) كے شانہ بشانہ رہے _
زمخشرى نے فضائل العشرہ ميں كہا ہے كہ آنحضرت (ص) مسجد نبوى ميں بيٹھے جنگ تبوك كا مال غنيمت تقسيم كررہے تھے _ آپ(ص) ہر كسى كو ايك ايك حصہ ديتے جارہے تھے ليكن حضرت على (ع) كو دو حصے ديئے _ اس پر زائدہ بن اكوع نے اعتراض كيا تو نبى (ص) كريم نے اسے يہ جواب ديا كہ (حضرت) على (ع) كى جگہ جبرائيل جنگ تبوك ميں جنگ كررہا تھا اور اسى نے (حضرت)على (ع) كو دو حصے دينے كا حكم ديا ہے (3)
نوٹ: حضرت على عليہ السلام كى طرح آپ(ص) كے بھائي حضرت جعفر (ع) كو بھى شركت كرنے پر ايك حصہ اور نہ
---------------------------------------------------------
1)سيرہ حلبيہ ج2 ص 185_
2)زندگانى امام على (ع) از تاريخ ابن عساكر با تحقيق محمودى ج 3 ص 93 ، اللئالى المصنوعہ ج1 ص 362 و الضعفاء الكبير ج1 ص 211 و ص 212_
3)ملاحظہ ہو:سيرہ حلبيہ ج 3 ص 142_

331
كرنے پر بھى ايك حصہ ملاتھا _ كيونكہ حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے مردى ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا: ''جنگ بدر كے موقع پر آنحضرت (ص) نے جناب جعفر (ع) كا بھى حصہ عليحدہ كيا تھا (1)ليكن يہ بات حضرت على (ع) كے مذكور ہ دعوے كے منافى نہيں ہے كيونكہ حضرت على (ع) نے جن لوگوں كو قسميں دى تھيں ان ميں حضرت على عليہ السلام كے علاوہ كوئي اور اس خصوصيت كا حامل تھاہى نہيں _ اور يہ بات حضرت جعفر (ع) كے مذكورہ خصوصيت كے حامل ہونے سے مانع نہيں ہے كيونكہ وہ جنگ مؤتہ ميں شہيد ہو چكے تھے اور اس موقع پر موجودہى نہيں تھے_

ب:عثمان بن عفان
مؤرخين يہ بھى كہتے ہيں كہ رسول (ص) خدانے جنگ بدر كے مال غنيمت سے عثمان بن عفان كا حصہ بھى عليحدہ كر ليا تھا كيونكہ آنحضرت (ص) نے ہى اسے اپنى زوجہ جناب رقيہ كى تيمار دارى كے لئے وہيں رہنے كا حكم ديا تھا اس لئے آپ(ص) نے اس كا حصہ عليحدہ كر لياتھا _ اسى وجہ سے مؤرخين نے جناب عثمان كو بدرى صحابيوں سے شمار كيا ہے (2)ليكن ہم مندرجہ ذيل وجوہات كى بنا پر اسے صحيح نہيںسمجھتے :
1_ حديث منا شدہ ميں شورا والوں كے سامنے حضرت على عليہ السلام كا دعوى ذكر ہو چكا ہے اور اس ميں خود عثمان بھى موجود تھا اور اس نے بھى اعتراف كيا تھا _
2_كچھ ديگر روايتيں كہتى ہيں كہ وہ خود چيچك كى بيمارى ميں مبتلا ہونے كى وجہ سے جنگ بدر ميں شركت نہ كر سكا تھا (3)
تو پھر ہم كس روايت كى تصديق كريں ؟ اس كى يا اُس كى ؟
3_ كسى مجبورى كى وجہ سے جنگ سے پيچھے رہ جانے والے دوسرے افراد كى بجائے صرف جناب عثمان كا حصہ كيوں عليحدہ كيا گيا؟اور اس بات پر پيچھے رہ جانے والے مسلمانوں نے اعتراض كركے اپنے حق كا
---------------------------------------------------------
1)سير اعلام النبلاء ج1 ص 216_
2)ملاحظہ ہو: سيرہ حلبيہ ج 2ص 146،ص147و 185اور تاريخ كى كوئي بھى دوسرى كتاب _
3)سيرہ حلبيہ ج 2 ص 146 و ص 185_

332
مطالبہ كيوں نہيں كيا؟ پھراس بات پر جنگجو مسلمانوں نے بھى اعتراض كيوں نہيں كيا ؟ اور كيا كسى بيمارى كى وجہ سے پيچھے رہ جانے والے شخص كو يہ حق حاصل ہو جاتاہے كہ وہ جس جنگ ميں شريك نہيں ہوا اس جنگ سے حاصل ہونے والے مال غنيمت ميں حصہ دار بن جائے ؟
4_عثمان والى بعض روايات يہ كہتى ہيں كہ آنحضرت(ص) نے جناب رقيہ كى تيمار دارى كے لئے عثمان كے ساتھ اسامہ بن زيد كو بھى ٹھہراياتھا اور جنگ بدر ميں مسلمانوں كى كاميابى كى خبر پہنچے كے بعد اس بارے ميں اس كا بھى يك گونہ كرداررہا تھا حالانكہ اس وقت اس كى عمر دس سال سے بھى كم تھى _ليكن اس كے با وجود عثمان كے حصہ كى طرح آنحضرت(ص) نے اس كا حصہ عليحدہ نہيں كيا ؟؟
5_ تاريخ ميں ملتا ہے كہ عبد الرحمن بن عوف ،عثمان كو جنگ بدر ميں شركت نہ كرنے كے طعنے ديا كرتا تھا ايك مرتبہ اس كى ملاقات وليد بن عقبہ سے ہوئي تو وليد نے اس سے كہا :''تم امير المؤمنين عثمان كے حق ميں جفا كيوں كرتے ہو ؟''_تو عبد الرحمن نے اس سے كہا :''اس سے كہہ دينا كہ ميں نہ جنگ عينين (جبكہ بقول عاصم اس كى مراد جنگ احد ہے )سے بھا گاہوں اور نہ جنگ بدر سے پيچھے ہٹاہوں اور ہاں حضرت عمر كى سنت بھى ميں نے نہيں چھوڑى ہے ''_ اور وليد نے جاكر عثمان كو عبد الرحمان كا يہ پيغام پہنچايا _يہاں مؤرخين كہتے ہيں كہ اس نے جنگ بدر ميں شركت نہ كرنے كى وجہ جناب رقيہ كى تيمار دارى بتائي (1) نيز بقول مؤرخين ابن عمر نے بھى جناب عثمان پر اعتراض كرنے والے ايك شخص كے جواب ميں يہى عذر پيش كيا تھا (2)_
ليكن ان كا يہ عذر صحيح نہيں ہے بلكہ صرف ايك بہانہ ہے _كيونكہ اس كى يہ مجبورى عبدالرحمن بن عوف جيسے بزرگ صحابى اور اس اعتراض كرنے والے شخص سے كيسے پوشيدہ تھي؟ حالانكہ اس وقت كوئي بات ڈھكى چھپى نہيں رہ سكتى تھى _ اور اگر جناب عثمان كا اس سے كوئي حصہ عليحدہ كيا گيا تھا تو يہ اس كے لئے بہت بڑى فضيلت
---------------------------------------------------------
1)مسنداحمد ج1 ص 68وص75،الا وائل ج1ص305وص 306،محاضرات الادباء راغب اصفہانى ج 2 ص 184،الدر المنثور ج2ص 89از احمد و ابن منذر ،البدايہ و النہايہ ج 7ص207،شرح نہج البلا غہ ابن ابى الحديد ج 5 ص 21تا ص22،المغازى واقدى ج1ص 278،الغدير ج 9 ص 327و ج 10ص 72از احمد و ابن كثير و از رياض النضرہ ج 2 ص 97_
2)مستدرك حاكم ج 3 ص 98،الجامع الصحيح ترمذى ج 5 ص 625،مسند احمد بن حنبل ج 2 ص 101،البدايہ و النہايہ ج 7ص 207از بخارى و الغدير ج 10ص 71از حاكم و ص70از احمد و از صحيح بخارى ج 6ص122)_

333
كى بات تھى اور يہ بات جنگ بدر اور احد ميں شركت كرنے والے ،مؤاخات كے دن عثمان كا بھائي بننے والے ،اس كے لئے خلافت كى سيج تيار كرنے والے اور نبى (ص) كريم كے بعد كائنات كى سب سے بہتر اور افضل شخصيت امير المؤمنين حضرت على عليہ السلام پر اسے ترجيح دينے والے عبدالرحمن بن عوف سے ڈھكى چھپى نہيں رہ سكتى تھى _تو پھر عبد الرحمن بن عوف اسے فضيلت كى بات پر كيوں طعنے ديتا تھا ؟ يا پھر ايسى بات نہيں تھى وہ لوگ عثمان پر جھوٹا الزام لگاتے ہوئے اس كى قابل تعريف باتوں پر تعريف كى بجائے اس كى برائي كرتے تھے ؟
6_ جب بن مسعود كوفہ سے مدينہ آيا تو وہ مدينہ ميں ايسے وقت داخل ہواجس وقت عثمان بن عفان رسول (ص) خدا كے منبر پر بيٹھ كرتقرير كررہا تھا _ جب اس كى نظر اس نو وارد پر پڑى تو اس نے دوران تقرير ہى كہہ ديا :''لوگوا تمہارے پاس ابھى ايك ايسا حقير اور برا جانور آيا ہے جس كا كام صرف كھانے ،اگلنے اور نكالنے ميں مصروف رہناہے ''_ اس پر ابن مسعود نے كہا : ''ميں ايسا نہيں ہوں بلكہ ميں تو جنگ بدر اور بيعت رضوان كے موقع پر رسول (ص) خدا كا ساتھى ہوں '' (1) اور اس بات سے وہ دونوں مقامات پر عثمان كى عدم موجود گى كى وجہ سے اسے طعنہ دے رہا تھا _
7_ اسى طرح سالم بن عبدالله كے پاس بھى ايك آدمى نے آكر گذشتہ دوآميوں كى طرح عثمان پر اعتراض كيا تھا(2) پس يہ مزعومہ فضيلت ان سب لوگوں سے كيسے مخفى رہى ؟
8_ آخر ميں ہم جناب رقيہ كى تيمار دارى كے لئے رسول (ص) خدا كے عثمان كو مدينہ ميں رہ جانے كى رخصت دينے كو بھى بعيد سمجھتے ہيں _ كيونكہ عثمان كے كردار سے ظاہر ہوتا ہے كہ اسے جناب رقيّہ كى حالت كى كچھ پروا نہيں تھى اور نہ ہى اسے اس كى بيمارى سے كوئي غرض تھى كيونكہ ہم انشاء الله جناب رقيہ كى وفات كے متعلق گفتگو ميں تفصيل سے بتائيں گے كہ اس نے جناب رقيہ كى وفات كى رات بھى اپنى كسى بيوى سے ہم بستري
---------------------------------------------------------
1)انساب الا شرف ج 5 ص 36،الغدير ج9ص3از انساب الاشرف و ص 4 از واقدى _
2) الغدير ج10ص 70از رياض النضرہ ج2ص 94_

334
كى تھى جس كا مطلب ہے كہ اسے رسول(ص) خدا كى دامادى كے شرف سے محروم ہونے كا كوئي دكھ نہيں تھا اور رسول (ص) خدا نے بھى اسے جناب رقيہ كى قبر ميں اترنے اور اسے دفنانے سے منع كرديا تھا _ ہم اس بات كو ترجيح ديتے ہيں كہ بعض ديگر لوگوں كى طرح اسے بھى جنگ بدر پر جانا گوارا نہيں تھا اس لئے وہ مدينہ ميں ركارہا_(1)

دوسروں كے فضائل پرڈاكہ
بعض روايتيں كہتى ہيں كہ ابو امامہ بن ثعلبہ نے ماں كے سخت بيمار ہونے كے با وجود بھى جنگ بدر پر جانے كى مكمل تيارى كرلى تھى ليكن رسول (ص) خدا نے اسے اپنى ما ں كى خدمت اور تيمار دارى كے لئے اسے وہيں رہنے كا حكم ديا اور آنحضرت (ص) نے جنگ بدر كے مال غنيمت سے اس كا حصہ بھى عليحدہ كرليا البتہ جب آپ(ص) جنگ بدر سے واپس تشريف لائے تو اس كى ماں اس سے پہلے وفات پاچكى تھى اور آپ(ص) نے اس كى قبر پر جاكر نماز پڑھى تھى (2)
يہاں ہم يہ مشاہدہ كرتے ہيں كہ اس روايت اور عثمان والى روايت ميں كوئي فرق نہيں ہے (صرف شخصيات كا فرق ہے ) _ پس آپ ہى بتائيں كہ كس روايت كى دوسرى روايت كے حق ميں تحريف كى گئي اور كن شخصيات كو دوسرى شخصيات كے حق ميں بدل ديا گيا ہے ؟
اور چونكہ ہم عثمان والى روايت پر اپنے اعتراضات بيان كر چكے ہيں اور يہ بھى جانتے ہيں كہ بنى اميہ كے اس بزرگ كے لئے پورى مشينرى فضيلتيں گھڑنے ميں مصروف تھى حتى كہ معاويہ نے اسلامى مملكت كے كونے كونے ميں فضائل گھڑنے كا حكم نامہ بھجوا ديا تھا اس لئے ہمارى نگاہ ميں جعلسازوں نے ابو امامہ والى روايت كو نشانہ بنا كر اس پر تحريف اور جعلسازى كا ڈاكہ ڈالا تا كہ عثمان كى جنگ بدر ميں شركت والى فضيلت سے محرومى كا
---------------------------------------------------------
1)جناب عثمان كے ناز نخرے ،تعمير مسجد كے وقت اس كے انداز نيز عادات و اطوار اور وقت سلطنت كردار سے يہ بات قرين قياس لگتى ہے _
2)سيرہ حلبيہ ج2ص 147،الا صابہ ج 4ص 9از ابو احمد الحاكم ، الا ستيعاب بر حاشيہ الا صابہ ج 4 ص 4 و اسد الغابہ ج5ص 139_

335
جبران كركے اس كے بدلے ميں اس كے لئے ايك اورفضيلت ثابت كرسكيں _نيز جناب رقيہ والے واقعہ ميں اس كى بدنامى كا داغ بھى مٹا سكيںكيونكہ وہ عثمان كى طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم كى شدت سے چل بسى تھيں ليكن اسى رات اس نے رنگ رلياں منائيں اور نہ اس مرحومہ كا اور نہ اس كے پالنے اور پرورش كرنے والے ( حضرت رسول (ص) خدا)كے احترام كا كوئي لحاظ كيا _يوں انہوں نے ايك تير سے دو بلكہ تين شكار كھيلے _
ليكن يہاں حضرت على عليہ السلام كے اس دعوے والا اعتراض باقى رہتا ہے جس ميں آپ(ص) نے دعوى كيا تھا كہ اس فضيلت ميں آپ(ع) ہى يكتا ئے روزگار ہيں _البتہ اس كا جواب يوں ديا جا سكتا ہے كہ شايد آنحضرت (ص) نے جس طرح دوسروں كو اپنے خمس سے نوازاتھا ، اسى طرح اپنے حصہ سے اس كا حصہ بھى ركھا ہو_ يا يہ بھى كہا جا سكتا ہے كہ حضرت على عليہ السلام نے حاضرين كو (جن ميں عثمان بھى موجود تھا) قسم دے كر ان سے مذكور ہ بات اگلوائي ہويوں حاضرين كى بہ نسبت توآپ(ع) كى بات بالكل درست تھى ليكن حضرت جعفر (ع) جيسے دوسرے لوگوں كى بہ نسبت آپ(ع) كے كلام ميں كوئي مثبت يا منفى بات نہيں پائي جاتى (1)

دوقيديوں كا قتل :
پہلے بھى بتاچكے ہيں كہ مشركين كے ستر آدمى گرفتار كرلئے گئے تھے البتہ اكہتر آدمى بھى كہا گيا ہے (2)انہيں قيد كركے مدينہ كى طرف واپسى شروع ہوگئي _ جب صفرا كے مقام پر پہنچے تو آنحضرت(ص) نے امير المؤمنين حضرت على (ع) كو دو قيديوں كا سر قلم كرنے كا حكم ديا _ان ميںسے ايك عقبہ بن ابى معيط تھا جس كا مكّہ ميں مسلمانوں اور خود نبي(ص) كريم كے ساتھ برا سلوك معروف ہے اور دوسرا نضربن حارث تھا(3) جو مكّہ ميں مسلمانوں پر حد سے زيادہ ظلم كرتا تھا اور انہيں شكنجہ كيا كرتا تھا _ بلكہ يہ بھى كہا گيا ہے كہ آنحضرت(ص) نے
---------------------------------------------------------
1)حديث منا شدہ ميں حضرت على (ع) كے الفاظ بھى اسى بات پر دلالت كرتے ہيں اس لئے ديگر احتمالات صرف تكلفات ہيں _
2)العلل و معرفة الحديث ج 1ص 4_
3)سيرہ ابن ھشام ج2ص 298ميں زہرى و غيرہ كى روايتوں ميں يہ تصريح كى گئي ہے كہ حضرت على (ع) نے ہى نضربن حارث كى گردن اڑائي تھى _ نيز ملاحظہ ہو الا غانى مطبوعہ ساسى ج1ص 10_

336
آپ(ع) كو تين قيديوں ،عقبہ، نضر اور مطعم بن عدى كو قتل كرنے كا حكم ديا تھا (1) اس پر عقبہ نے آنحضرت(ص) سے كہا :''يا محمد(ص) تجھے خدا اور رشتہ دارى كا واسطہ مجھے قتل مت كرو''_ اس پر آنحضرت(ص) نے عقبہ سے فرمايا:''تم تو صفوريہ كے علاقے كے عجمى كافر ہو( تمہارے ساتھ ميرا كيسا رشتہ اور واسطہ؟)''البتہ ايك اور دستاويز ميں ہے كہ آپ(ص) نے اس سے فرمايا:''كيا تو قريشى ہے ؟ تم تو صفوريہ كے علاقے كے عجمى (يا يہودى ) كافر ہو_ عمر كے لحاظ سے تو تم اپنے اس باپ سے بڑے ہو جس كے تم بيٹے ہونے كا دعوى كرتے ہو_ جس كے نہيں ہو اس سے منسوب ہو_ على (ع) جاؤ اس كى گردن اڑادو ''_اور حضرت على (ع) نے جا كر اس كا سر قلم كرديا(2) ايك اور روايت ميں يہ بھى آيا ہے كہ عقبہ نے پھر آنحضرت(ص) سے كہا :''محمد (ص) ميرے پسماندگان كى كفالت كون كرے گا ؟''آپ(ص) نے فرمايا :''آگ ان كى كفالت كرے گى ''(3)
البتہ سہيلى كہتاہے كہ ''جس كے نہيں ہواس سے منسوب ہو''والا جملہ عمربن خطاب نے كہا تھا (4)
يہ بھى بتاتے چليں كہ ہجرت سے قبل اسى عقبہ نے آنحضرت(ص) كو بہت اذيتيں دى تھيں اور آپ(ص) كے خلاف نہايت سخت موقف اپنا يا تھا _ جس كے نتيجے ميں آنحضرت(ص) نے بھى اسے دھمكى دى تھى كہ اگر تو مجھے مكّہ كى حدود سے باہر ملا تو تجھے قيد كركے تيرى گردن ہى اڑادوں گا (5) اور آپ(ص) نے ايسا ہى كيا _
البتہ يہاں چند نكات قابل ذكر ہيں :
---------------------------------------------------------
1)العلل و معرفة الحديث ج1 ص 3_
2)ملاحظہ ہو : الروض الانف ج 3 ص 65،سيرہ حلبيہ ج 2ص 187و ص 186 ، بحار الانوار ج 19ص 260وص347،المصنف عبد الرزاق ج 5ص 205،تفسير قمى ج 1ص 269،و واقدى البتہ سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 298ميں حضرت على (ع) كے اس كو قتل كرنے كى بات لفظ ''قيل''كے ساتھ ذكر گئي ہے جس كا مطلب ہے كہ اس نے اسے كمزور اور ضعيف قول مانا ہے_
3)المصنف عبد الرزاق ج5ص205وص352وص 356،ربيع الا برار ج 1 ص 187،الكامل ابن اثير ج 2 ص 131،سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 298و الا غانى مطبوعہ ساسى ج 1 ص 10و ص 11_
4)الروض الا نف ج 3 ص 65_
5)ملاحظہ ہو: الغدير ج 8 ص 273و ص 274از ابن مردويہ و ابو نعيم در الدلائل ان اسناد كے ساتھ جسے سيوطى نے صحيح جانا ہے _

337
الف: عقبہ كا نسب:
مؤرخين كے مطابق آنحضرت(ص) كے عقبہ كو ''صفوريہ كے علاقے كے عجمى كافر '' كہنے كا سبب يہ ہے كہ اس كا پردادا ''اميہ'' جب صفوريہ ميں تھاتو وہاں اس نے ايك شوہر دار يہودى لونڈى سے زنا كيا جس كے بعد ابو عمرو (يعنى ذكوان) اس يہودى كے گھر پيدا ہوا ليكن اميہ نے زمانہ جاہليت كى رسومات كے مطابق اسے اپنا بيٹا مان ليا_يہ قول بھى ملتا ہے كہ ذكوان ،اميہ كا غلام تھا جسے اس نے اپنا بيٹا بنا يا ہوا تھا ليكن اميہ كے مرنے كے بعد ذكوان اس كى بيوى كا شوہربن گيا_جبكہ سہيلى كہتا ہے كہ اميہ نے كسى لونڈى كے ساتھ زبردستى يا اس كى مرضى سے زنا كيا تو وہ ابو عمرو سے حاملہ ہوئي جسے اميہ نے جاہليت كى رسومات كے تحت اپنا بيٹا بنا ليا (1) اسى طرح فضل بن عباس نے وليد بن عقبہ بن ابى معيط كے اشعار كے جواب ميں يہ اشعار كہے :

اتطلب ثاراً لست منہ ولالہ
و اين ابن ذكوان الصفورى من عمرو
كما اتصلت بنت الحمار بامھا
و تنسى اباھا اذ تسامى اولى الفخر (2)

كيا تو اس شخص كا بدلہ لے گا جس كا تجھ سے اور تير ا اس سے كوئي تعلق واسطہ نہيں ہے _اور ابن ذكوان صفورى كا عمرو سے كيا واسطہ؟ يہ تو ايسے ہو گيا ہے جيسے كوئي كھوتى اپنے باپ كو بھول كر اپنى ماں سے منسوب ہو جاتى ہے تب جاكر كہيں وہ با عزت سوسا ئٹى ميں اترا سكتى ہے_
اور معاويہ نے بوڑھے نسب شناس دغفل سے اپنے دادا اميہ كے نسب كے بارے ميں پوچھا تو اس نے كہا :''ہاں ميں نے اسے ديكھا ہے وہ كمزور ،ناتوان ،بھينگا،بد صورت اور پستہ قد تھا جسے اس كا غلام ذكوان
---------------------------------------------------------
1) سيرہ حلبيہ ج 2 ص 87نيز ملاحظہ ہو: الروض الا نف ج 3ص 65_
2)الغدير ج 9 ص 155از طبرى ج 5ص 151_

338
پكڑ كر كہيں لے جاتا تھا ''_معاويہ نے كہا :''نامراد بس كرو _ تم غلط كہہ رہے ہو وہ تو اس كا بيٹا تھا ''اس پراس نے كہا :''يہ بات تو تمہارى مشہور كى ہوئي ہے ''(1)
ليكن تفسير قمى ميں آنحضرت(ص) كے عقبہ سے كہے جانے والے اس قول ''عمر كے لحاظ سے توتم اپنے اس باپ سے بڑے لگتے ہو جس كے بيٹے ہونے كا تم دعوى كرتے ہو''كے ذيل ميں ذكر ہونے والى باتوں سے معلوم ہوتا ہے كہ عقبہ ،صفوريہ كے علاقے كے رہنے والے كسى اور شخص كا بيج اور نطفہ تھا ،ليكن زبر دستى ابو معيط سے منسوب ہو گيا تھا _
حضرت امام حسن عليہ السلام نے بھى وليد بن عقبہ سے وہى الفاظ كہے تھے جيسے آنحضرت(ص) نے اس كے باپ عقبہ بن ابو معيط سے كہے تھے (2)
زمخشرى كہتا ہے كہ خود ابو معيط اردن كے علاقے صفوريہ كارہا ئشےى تھا _جسے ابو عمر بن اميہ بن عبد شمس نے آكر بيٹا بنانے كا دعوى كيا تھا (3)
عثمان كے دور حكومت ميں جب حضرت على عليہ السلام نے وليد كو شراب كى حد ميںكوڑے مارنے چاہے تو وليد نے آپ(ع) كو گالياں دينى شروع كرديں ،جس پرآپ(ع) كے بھائي جناب عقيل (ع) نے اس سے كہا: ''اوفاسق تو خود جانتا بھى ہے كہ تو كون ہے ؟ كيا تو اردن ميں عكااور لجون كے درميان والى بستى صفوريہ كا عجمى كافر نہيں ہے؟ تيرا باپ وہاں كا ايك يہودى تھا ''(4)

ب: پسماندگان كے لئے دوزخ كى بشارت
گذشتہ واقعہ ميں ہم نے يہ مشاہدہ بھى كيا كہ آنحضرت(ص) نے اس كے پسماندگان كو دوزخ كى پيشين گوئي كى تھى جن ميںسے ايك فاسق وليد بن عقبہ بھى تھا جو عثمان كى طرف سے كوفہ كا گور نر تھا _ اس نے شراب پى كر
---------------------------------------------------------
1) الروض الا نف ج 3 ص 65و سيرہ حلبيہ ج 2 ص 187_
2)شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 6ص 293از زبير بن بكار در كتاب المفاخرات و مقتل الحسين خوازمى ج 1 ص 119_
3)ربيع الابرار ج 1 ص 148_
4)تذكرہ الخواص ص 206_

339
لوگوں كو صبح كى نماز پڑھائي تو نشے ميں ٹن وہ زيادہ پڑھ گيا ،حالانكہ اس كا شمار صحابيوں ميں ہوتا ہےاب تو بعض لوگوں كو تمام صحابيوں كے عادل ہونے والے اپنے نظريئےيںنظر ثانى كرنا چاہئے _البتہ اس موضوع پر ہم نے اپنى كتاب'' دراسات و بحوث فى التايخ و الا سلام ج 2 ''ميں مختصر گفتگو كى ہے وہاں ملاحظہ فرمائيں_
اور اس كے پسماندگان كے متعلق آپ(ص) كى مذكورہ بات غيب كى خبر اور پيشين گوئي شمار ہوتى ہے جس پر خدا نے آپ(ص) كو مطلع كرديا تھا كيونكہ خدا جانتا تھا كہ اس كے پسماندگان ميں كوئي بھى اس لائق ہے ہى نہيں جو رحمت اور نعمت كا مستحق ہو ليكن سياست،نسلى تعصب اور رشتہ دارى كے بل بوتے پراس دوزخى اولاد كو لوگوں كى جان ،مال اور عزت و آبرو پر مسلط كرديا گيا اور خلافت كے اصلى اور شرعى حق داروں سے چھينى جانے والى خلافت كا ايك حاكم اور سياسى راہنما بناديا گيا_ پھر تو ان لوگوںنے لوگوں كے عقائد ميں اتنى جگہ بنالى كہ لوگوں پر ان جيسے نا پاكوں كو( چاہے وہ جتنے اور جس قسم كى بھى برائيوں كے مرتكب ہوں) عادل سمجھنا ضرورى ہوگيا _

ج: عقبہ كو نسب كا طعنہ :
آنحضرت(ص) نے عقبہ كو كہا كہ تو صفوريہ كا ايك عجمى كا فرہے يا اس جيسے ديگر جملے كہے _حالانكہ آنحضرت(ص) كى يہ عادت تھى نہيں ،كيونكہ آنحضرت(ص) نہ تو (نعوذ بالله )گالياں بكنے والے تھے اور نہ ہى بد خلق اور بد كلام تھے _ ليكن آنحضرت(ص) نے اسے يہ طعنے اس لئے ديئےہ لوگ جان ليں كہ ان كے بعد والے اسلام كے دعوے صحيح نہيں ہيں اور حكومتى مشينرى كا اس كے بيٹوں كو اپنے ساتھ ملانا صرف ان كى ادعائي قرابت دارى كى وجہ سے ہے و گرنہ ان لوگوں كا حكومت ميں آنا كسى بھى لحاظ سے صحيح نہيں ہے اور يہ حكومت كے اہل ہى نہيں ہيں كيونكہ يہ لوگ خدا كے مال كو اپنا ذاتى اور وراثتى مال اور خدا كے بندوں كو اپنا غلام سمجھ ليں گے اور يہ لوگ بدبختيوں اور سازشوں كى آماجگاہ بن جائيں گے _جس طرح فاسق وليد اور حكومت كے ديگر قريبيوں اور گورنروں كى

340
حالت زار تھى جو دين اور اسلام كے نام پر حكومتى عہدوں پر فائز ہوئے تھے اور ان كے احكام كو اسلامى احكام سمجھا جاتا تھا حالانكہ ان كے احكام صرف قبائلى اور خاندانى تعصبات پر مبنى تھے بلكہ دقيق اور صحيح الفاظ ميںيہ كہنا بہتر ہے كہ ان كے احكام زمانہ جاہليت كے احكام تھے_

د:واقعہ بدر ميںنضربن حارث كے قتل كا انكار :
ابن سلام كہتا ہے كہ ابن جعد بہ (جس نے ابو عزت جمحى كے حالت اسيرى ميںقتل كا انكار كيا ہے وہ بدر كے واقعہ ميں حالت اسيرى ميں نضربن حارث كے قتل كا بھى منكر ہے )_وہ كہتا ہے :''وہ اس جنگ ميںشديد زخمى ہو گيا تھا جس سے وہ لنگڑاكر چلتا تھا_ اور اسے علاج كى اشد ضرورت تھى ليكن اس نے كہا كہ جب تك ميں ان لوگوںكے ہاتھ ميں ہوں نہ كچھ كھاؤں گا اور نہ كچھ پئوں گا _اور وہ اپنى اس ضدر پر قائم رہا يہانتك كہ مرگيا''جب ابو سلام كو ابو عزت كے بارے ميں ابن جعد بہ كا نظريہ بتايا گيا تو اس نے كہا:''يہ نظريہ بھى ہے كہ آنحضرت(ص) نے عقبہ بن ابو معيط كو جنگ بدر كے واقعہ ميں قيد كى حالت ميں قتل كرنے كے علاوہ اور كسى كو حالت اسيرى ميں قتل نہيں كيا''(1) ليكن يہ نظريہ مؤرخين كے متفقہ قول كے مخالف ہے اور اس ميں ہميں جعلسازى كى كوئي وجوہات بھى نظر نہيں آتيں اس لئے ہم پختہ تاريخى دستاويزات كى بلاوجہ كوئي مخالفت نہيں كر سكتے البتہ نضر بن حارث كى بہن كا اپنے بھائي كے قتل كى مناسبت سے ايك مرثيہ بھى نقل ہوا ہے جس ميں اس نے آنحضرت(ص) كو مخاطب ہو كر كہا:

ما كان ضرك لو مننت و ربما
منّ الفتى و ہوالمغيظ المحنق
اگر آپ(ص) منت لگاكر اسے چھوڑ ديتے تو آپ(ص) كو كوئي بھى نقصان نہ ہوتا كيونكہ بسا اوقات شريف آدمى غصہ اور ناراضگى كى حالت ميں بھى دوسروں پر احسان كيا كرتے ہيں_
---------------------------------------------------------
1)طبقات الشعراء ابن سلام ص 64وص65_

341
اس كى يہ باتيں سن كر آنحضرت(ص) كو اس پر ترس آگيا ،آپ(ص) كى آنكھيں بھر آئيںاور آپ(ص) نے جناب ابوبكر سے فرمايا:''اگر تو اس كے اشعار سن ليتا تو اسے كبھى قتل نہ كرتا''_ليكن اس كے بارے ميں زبير بن بكا ركہتا ہے كہ ميں نے سنا ہے كہ بعض علماء اس روايت كو تنقيد كا نشانہ بناتے ہوئے كہتے ہيں كہ يہ روايت جعلى ہے(1) يہ بھى كہتے چليں كہ اس روايت ميں آنحضرت (ص) سے ايك نا معقول بات منسوب كى گئي ہے _ كيونكہ يہ ہوہى نہيں سكتا كہ چند ايك اشعار آپ(ص) كے فيصلے كو بدل ديں اس لئے كہ آپ(ص) ہر حال ميں فقط احكام خداوندى پر عمل درآمد كيا كرتے اور صرف اپنے فريضے پر عمل كيا كرتے تھے_ البتہ اس بات كا مقصد شايدعقبہ كے قريبيوں كے ما حول ميں كشيدگى اور تناؤ كو كم كرنا اور اس طريقے سے ان كى دلجوئي ہو سكتى ہے _

باقى قيديوں كى صورتحال :
مؤرخين كے بقول جب انصار نے نضر اور عقبہ كا حال ديكھا تو انہيں تمام قيديوں كے قتل ہونے كا خوف لا حق ہو گيا اور انہوں نے آنحضرت (ص) سے كہا : '' يا رسول (ص) اللہ ہم نے آپ(ص) ہى كے قبيلہ اور خاندان والوں كے ستر آدمى تہہ تيغ كئے ہيں، آپ(ص) ان كى جڑيں ہى كاٹناچاہتے ہيں كيا ؟ يا رسول (ص) اللہ آپ(ص) انہيں ہميں بخش ديں اور ان سے فديہ لے كر انہيں چھوڑ ديں '' _ ابوبكر بھى فديہ لينے پر زور دے كر كہہ رہا تھا : '' يہ آپ(ص) كا خاندان اور قبيلہ ہے _ انہيں ايك مہلت اور ديں اور فديہ لے كر انہيں چھوڑ ديں _ جس سے كفار كے مقابلے ميں ہمارى طاقت زيادہ ہو جائے گى '' _ يا يہ كہا : ''يہ لوگ ہمارے چچا زاد ، قبيلہ ، خاندان والے اور بھائي ہيں ''_ ليكن آنحضرت (ص) نے فديہ والى بات كو اتنا سخت نا پسند كيا كہ سعد بن معاذ نے آپ(ص) كے چہرے پر ناپسنديدگى كے آثار ديكھے جس پر اس نے كہا : '' يا رسول (ص) اللہ مشركين سے ابھى ہمارى پہلى جنگ ہے اور مشركين كى خونريزى ہميں ان كے چھوڑ دينے سے زيادہ پسند ہے '' _ اور عمر نے كہا : '' يا رسول اللہ انہوں نے آپ(ص) كو جھٹلايا اور در بدر كيا ، آپ(ص) حكم فرمائيں تو ان كا سر قلم كرديں _ حضرت على (ع) كو عقيل كا ، مجھے فلاں كا اور حمزہ كو عباس
---------------------------------------------------------
1)زہرالآداب ج 1ص 66_

342
كا سرقلم كرنے كا حكم ديں كيونكہ يہ كافروں كے راہنما ہيں ''_ اسى مناسبت سے يہ آيت اترى :
( ما كان لنبى ان يكون لہ اسرى حتى يثخن فى الارض تريدون عرض الدنيا و اللہ يريد الآخرة و اللہ عزيز حكيم لو لا كتاب من اللہ سبق لمسكم فيما اخذتم عذاب عظيم )
نبى (ص) كے لئے مشركوں كا اچھى طرح قلع قمع كئے بغير انہيں قيدى ركھنا مناسب نہيں ہے_ تم لوگ تو عارضى دنيا چاہتے ہو ليكن خدا تمہارى آخرت اور عاقبت چاہتا ہے _ اورخدا با عزت اور دانا ہے _ اور اگر خدا پہلے تمہيں عذاب نہ كرنے كا وعدہ نہ كر چكا ہوتا تو تمہارے فديہ لينے پر ضرور تمہيں بہت بڑے عذاب كا مزہ چكھا تا _
جب آنحضرت(ص) نے فديہ لينے پر ان كا اصرار ديكھا تو انہيں يہ پيشين گوئي كى كہ فديہ لينے كا انجام يہ ہوگا كہ جلد ہى ان قيديوں كى مقدار ميں مسلمان مار ديئےجائيں گے _ انہوں نے اس بات كو منظور كرليا اور جنگ احد ميں يہ پيشين گوئي سچ ثابت ہوئي جس كا ہم بھى بعد ميں جائزہ ليں گے _
ان دستاويزات كے متعلق مندرجہ ذيل مآخذ ملاحظہ فرمائيں _ اگر چہ كہ ان ميں سے اكثر منابع يہ دعوى كرتے ہيں كہ آنحضرت(ص) ابوبكر والى بات كى طرف مائل ہوگئے تھے ليكن بعض منابع كہتے ہيں كہ آنحضرت (ص) ان كے قتل پر مصر رہے (1)_
بہر حال معاملہ فديہ لينے پر ٹھہرا اور ہر قيدى كے بدلے ميں ايك سے چار ہزار دينار كا مطالبہ ہوا جسے قريش نے فورا يكے بعد ديگرے ادا كر كے اپنے قيدى چھڑا لئے _ آپ(ص) نے ہر قيدى كو اس كو قيد كرنے والے كے سپرد كرديا تھا_ اور وہ بذات خود فديہ لے ليتا تھا (2)البتہ بعض دستاويزات ميں آيا ہے كہ سہيل بن عمرو
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو : تاريخ طبرى ج1 ص 169 ، سيرہ حلبيہ ج2 ص 190 صحيح مسلم ج5 ص 157 ، بحارالانوار ج 19 ، اسباب النزول واحدى ص 137 ، حياة الصحابہ ج2 ص 42 ، كنز العمال ج 5ص 265 از احمد ، مسلم ، ترمذى ، ابوداؤد ، ابن ابى شيبہ ، ابو عوانہ ، ابن جرير ، ابن منذر، ابن ابى حاتم ، ابن حبان ، ابو شيخ ، ابن مردويہ، ابو نعيم و بيہقى ، در منثور ج 3 ص 201 تا ص 203 ، مشكل الآثار ج 4 ص 291 و ص 292 ، المغازى واقدى ج1 ص 107 و ص 108 و الكامل ابن اثير ج2 ص 136 _
2) المصنف ج 5 ص 211 _

343
بدر كے قيديوں كا فديہ لے آيا تو آپ(ص) نے اس سے پوچھا كہ قريش كاہم سے جنگ كا پھر كيا ارادہ ہے؟(1)
ہمارے نزديك صرف يہى قابل اطمينان تاريخى دستاويزات تھيں_

عذاب كے نزول كى صورت ميں صرف عمر كى ہى جان بچتى ؟
ليكن ہميں بعض ايسى روايات بھى ملتى ہيں جو مذكورہ بات كے بالكل ہى برعكس ہيں _ ان روايات ميں آيا ہے كہ آنحضرت(ص) ، ابوبكر كے ہم خيال ہو گئے بلكہ آپ(ص) نے عمر كے مشورے كو سخت نا پسند كيا _ جس پر آپ(ص) كى مخالفت اور عمر كى موافقت ميں قرآن كى آيت نازل ہوئي_ دوسرے دن عمر جب صبح سويرے رسول (ص) خدا كے پاس آيا تو ديكھا كہ آپ(ص) اور ابوبكر دونوں رورہے ہيں _ اس نے رونے كا سبب پوچھا تو رسول (ص) خدا نے فرمايا: ''خطاب كے بيٹے كى مخالفت ميں ہم پر بہت بڑا عذاب نازل ہونے والا تھا _ اگر عذاب نازل ہو بھى جاتا تو عمر كے سوا كوئي بھى نہ بچ پا تا''_نيز عبداللہ بن عمر كے ذريعہ ابن عباس سے مروى ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا: ''ميں اس لئے رورہا ہوں كہ تمہارے ساتھيوں نے فديہ لے كر مجھے بہت بڑى مصيبت ميں مبتلا كرديا ہے _ ان كے عذاب كا مجھ پر نزول اس درخت سے بھى زيادہ قريب تھا _ كيونكہ خدا نے ( ما كا لنبى ان يكون لہ اسرى حتى يثخن فى الارض ) والى آيت نازل كى ہے '' (2)_
ليكن ہم مذكورہ باتوں كو صحيح نہيں سمجھتے اور ہمارے پاس اس كے بطلان كے لئے كافى سے زيادہ دلائل موجود ہيں _ اور يہ ہو سكتا ہے كہ اسلام كا اظہار كرنے والے بعض جا ہلوں ، الزام تراشوں، دھوكہ بازوں اور جھوٹوں نے يہ روايتيں اس لئے گھڑى ہوں كہ وہ يہ بتا سكيں كہ اس بارے ميں رسول (ص) خدا نے اپنے مؤقف ميں غلطى كى ہے اور مذكورہ آيت آپ(ص) كى غلطى كى نشاندہى اور اس كى درستگى كے لئے نازل ہوئي ہے(3)
---------------------------------------------------------
1) ايضا_
2)ملاحظہ ہو: گذشتہ تمام منابع نيز فواتح الرحموت بر حاشيہ المستصفى غزالى ج2 ص 267 ، تاريخ الخميس ج1ص 393 ، المستصفى غزالى ج 2 ص 356 و تاريخ الامم و الملوك ج 2 ص 169 )_
3)قضايا فى التاريخ الاسلامى محمود اسماعيل ص 20_

344
بہر حال مذكورہ نظريئےے جھوٹے ہونے پر ہمارے پاس مندرجہ ذيل دلائل ہيں :
1_يہاں سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ مذكورہ عذاب سے صرف عمر ہى كيوں نجات پائے گا ؟ پھر عمر كى موافقت كرنے والے سعد بن معاذكا كيا قصور تھا كہ اس پر بھى عذا ب نازل ہوتا؟ كيا اكثر لوگوں كے بقول وہ عمر كے موافقين ميں سے نہيں تھا؟ بلكہ معتزلى كے مطابق تو سب سے پہلے ايسا مشورہ دينے والا يہى شخص تھا (1) نيز ابن رواحہ كا كيا قصور تھا ؟ آخر وہ بھى تو عمر كے نظر يہ كا موافق تھا ؟ (2) نيز يہ بھى معقول نہيں ہے كہ آيت ميں (تريدون عرض الدنيا) نيز ( لمسكم فيما اخذتم عذاب عظيم) جيسے الفاظ كے مخاطب بھى آنحضرت(ص) ہوں_ كيونكہ آپ(ص) نہ تو دنيا طلب تھے اور نہ ہى اس عذاب عظيم كے مستحق تھے_ اس لئے كہ اس كا مطلب يہ ہوگا كہ اللہ تعالى نے آپ(ص) كو حكم كوئي ديا اور اس كى وضاحت بھى كردى ليكن اس كے باوجود آپ(ص) نے (نعوذ باللہ) احكام خداوندى كى مخالفت كى _ اور ايسا عقيدہ ركھنا بہت بڑا گناہ اور اس كى سزا بھى بہت سخت سزا ہوگى (3) _
اور اس بات پر دليل كہ خدا نے آپ(ص) كو قيديوں كے قتل كا واضح حكم ديا تھا يہ ہے كہ فديہ كے حلال ہونے كے حكم كا علم عبداللہ بن جحش والے واقعہ ميں ہو چكا تھا جس ميں ابن حضرمى ما را گيا _ كيونكہ اس ميں عثمان بن مغيرہ اور حكم بن كيسان بھى قيد كر لئے گئے تھے اور فديہ لے كر انہيں آزاد كرديا گيا تھا اور خدا نے اس كى نفى اور ترديد نہيں كى تھى _ اور يہ واقعہ جنگ بدر سے بھى ايك سال بلكہ اس سے بھى پہلے كا ہے (4)جس كا مطلب يہ ہے كہ جنگ بدر كے قيديوں كا كوئي خاص معاملہ اور ان كے لئے كچھ خصوصى احكام تھے جنہيں نبي(ص) كريم نے اپنے اصحاب كو وضاحت كے ساتھ سمجھا بھى ديا تھا ليكن اصحاب اس حكم كى خلاف ورزى پر اصرار كرتے رہے جس كى وجہ سے وہ عذاب عظيم كے مستحق ٹھہرے ليكن پھر خدا نے لطف و كرم كرتے ہوئے انہيں معاف كرديا تھا_
---------------------------------------------------------
1) شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 14 ص 175 و ص 176 ، الكامل ابن اثير ج 2 ص 126 ، سيرہ حلبيہ ج2 ص 192 ، سيرہ ابن ہشام ج2 ص 281 ، تاريخ الخميس ج1 ص 381 و المغازى واقدى ج1 ص 110 و ص 106 _
2)البدايہ و النہايہ ج 2 ص 297 ، تاريخ الطبرى ج2 ص 170 ، الروض الانف ج 3 ص 83 ، اسباب النزول واحدى ص 137 ، تاريخ الخميس ج1 ص 393 ، سيرہ حلبيہ ج2 ص 192 و حياة الصحابہ ج 2 ص 53 از حاكم جس نے اسے صحيح قرار ديا ہے ، ابن مردويہ ، ترمذى و احمد_
3)ملاحظہ ہو : دلائل الصدق ج 3 حصہ 1 ص 59_
4)سيرہ حلبيہ ج2 ص 192_

345
ہمارى مذكورہ بات پر ايك اور دليل بعض روايتوں ميں مذكور يہ بات بھى ہے كہ واقعہ بدر ميں حضرت جبرائيل(ع) نازل ہوئے اور آنحضرت (ص) سے كہا :'' آپ(ص) كى امت كے قيديوں كا فديہ لينے كے اس كام كو خدا نے سخت ناپسند كيا ہے اور آپ(ص) كو حكم ديا ہے كہ آپ(ص) انہيں يہ اختيار دے ديں كہ يا وہ سب قيديوں كو تہہ تيغ كرديں يا پھر اس شرط پر ان سے فديہ ليں كہ ان قيديوں كى تعداد ميں يہ لوگ بعد ميں مارے جائيں گے'' _ جب آپ(ص) نے اپنے اصحاب كو يہ بات بتائي تو انہوں نے كہا : '' يا رسول (ص) اللہ يہ ہمارا قوم و قبيلہ ہيں(1) _ بلكہ ہم توان سے فديہ ليں گے تا كہ اس طريقے سے ہميں اپنے دشمنوں پر برترى حاصل ہو _ اور اس كے بدلے ميں ہم اتنى تعداد ميں اپنے آدميوں كا شہيد ہونا گوارا كرليں گے'' (2)
اس روايت سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ لوگ خود ہى فديہ لينے پر مائل تھے اور اس پر بہت تاكيد اور اصرار بھى كيا جس كے بعد جا كر انہيں فديہ لينے كى اجازت ملى _ ان معروضات كے ساتھ ہم يہ بھى عرض كرتے چليں كہ بعض مورخين نے ذكر كيا ہے كہ خود رسو ل (ص) خدا انہيں قتل كرنا چاہتے تھے(3)
نيز واقدى كہتا ہے كہ اس دن قيديوں نے كہا : '' ہميں ابوبكر كے حوالے كيا جائے كيونكہ قريش ميں وہ ہمارا سب سے قريبى رشتہ دار اور صلہ رحمى كرنے والاہے اور (حضرت) محمد(ص) كے نزديك بھى سب سے زيادہ اثر ور سوخ والا ہے '' _ ( يعنى آنحضرت(ص) اس كى بات ٹال نہيں سكيں گے)_مسلمانوں نے ابوبكر كو ان كے پاس بھيجا ، وہ ان كے پاس آيا اور كچھ گفتگو ہوئي جس كے بعد اس نے ان سے وعدہ كيا كہ وہ ان كى بہترى اور مناسب راہ حل كے لئے كسى قسم كى كوتاہى نہيں كرے گا بلكہ ہر ممكن كوشش كرے گا _ اس كے بعد وہ نبى كريم (ص) كے پاس آكر آنحضرت (ص) كاجوش اور غصہ ٹھنڈا كرنے لگا اور آپ(ص) كو نرم ہونے كى تلقين كرنے كے ساتھ ساتھ قيديوں كو فديہ لےكر چھوڑ دينے كا كہتا رہا _ اس نے تين بار يہ عمل دہرا يا ليكن ہر مرتبہ آنحضرت (ص) نے
---------------------------------------------------------
1)يہ لفظ اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ مذكورہ بات كرنے والے مہاجرين تھے_
2)تاريخ الخميس ج1 ص 393 از فتح البارى از ترمذى ، نسائي ، ابن حبان و حاكم با روايت صحيح الاسناد ، المصنف عبدالرزاق ج 5 ص 210 ، البدايہ و النہايہ ابن كثير ج 3 ص 298 و طبقات ابن سعد ج 2 ص 14 حصہ 1_
3)بطول مثال ملاحضہ ہو : الكامل ابن اثير ج2 ص 136_

346
اس كو كوئي مثبت جواب نہيں ديا (1)
گذشتہ معروضات كى روشنى ميں كيا ان كا يہ كہنا پھر بھى صحيح مان ليا جائے گا كہ آنحضرت (ص) ابوبكر كے ساتھ بيٹھ كر ( نعوذ باللہ ) اپنے آپ پرور رہے تھے اور اگر عذاب نازل ہو جاتا تو عمر كے سوا سب ہلاك ہو جاتے (حتى كہ نعوذ باللہ رسول (ص) خدا بھي)؟
2_ اگر يہ بات تسليم كرلى جائے كہ آنحضرت (ص) شروع سے ہى ابوبكر كے نظريئےے موافق تھے اور خود ان كے بقول آپ(ص) ابوبكر كے ساتھ بيٹھے اپنے اوپر رورہے تھے ، تو آپ(ص) نے عمر سے يہ كيوں كہا كہ '' ان لوگوں كے عذاب كا مجھ پر نزول اس درخت سے بھى زيادہ قريب تھا''؟ كيونكہ اگر آپ(ص) كا نظريہ وہى ابوبكر والا تھا تو آپ(ص) نے (نعوذ باللہ) مستحقين عذا ب سے اپنے آپ(ص) كو عليحدہ كيوں كيا؟ پھر (اس صورت ميں)يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ آپ(ص) (نعوذ باللہ) ان لوگوں كى طرح مستحق عذاب نہ ہوں ؟ حالانكہ آپ(ص) بھى تو ان كے ہم نوا تھے اور ان كے اور آپ(ص) كے خيالات ايك ہى تھے؟؟_
3_ ان مذكورہ باتوں كو ما ن لينے كا مطلب يہ ہوگا كہ ہم عملى طور پر :
( و ما ينطق عن الہوى ان ہو الا وحى يوحي) (2)
آپ(ص) اپنى مرضى سے كچھ بھى نہيں بولتے اور جو كچھ بھى بولتے ہيں وہ وحى ہى ہوتى ہے _
جيسى آيات كو جھٹلانے كے مرتكب ہوں _ اس صورتحال ميں پھر تو اللہ تعالى كا(اطيعوالله و اطيعو الرسول) (3) كہہ كر رسول (ص) كى اطاعت كا حكم دينے كا كوئي معنى ہى نہيں رہتا كہ مسلمان تو خدا كا حكم بجا لاتے ہوئے اس كے رسول (ص) كى پيروى كريں ليكن خدا اس كے بدلے ميں انہيں جھڑك دے اور انہيں عذاب كى دھمكى دے _ اس صورت ميں تو(نعوذ بالله )خدا كو اپنے رسول (ص) كو جھڑك كر دھمكى دينى چاہئے تھى ليكن مسلمانوں كى تعريف و تمجيد كرنى چاہئے تھى كيونكہ مسلمانوں نے تو رسول(ص) خدا كى اطاعت كركے اپنے فريضے پر عمل كيا تھا _
---------------------------------------------------------
1) المغازى واقدى ج1 ص 107 و ص108 _
2)نجم /3و4_
3)نساء /59_

347
4_رسول(ص) خدا كو فديہ لينے كا صرف مشورہ دينے پر وہ لوگ عذاب اور سزاكے مستحق نہيںہو سكتے تھے كيونكہ اس سے زيادہ سے زيادہ يہ ہوتا كہ مسلمانوں نے اپنے لئے ايك نامناسب چيز كا انتخاب كيا تھا (اور ابھى فديہ ليا تونہيںتھانہ ہى فى الحال كوئي بات پكى ہوئي تھى اور اظہار رائے كى تو ہر كسى كو آزادى ہونى چاہئے)يہيں سے معلوم ہوتا ہے كہ يہاںضرور كوئي اور بات تھى كہ جس كى مخالفت پروہ مستحق عذاب ٹھہرے تھے _اور وہ بات يقيناًيہ تھى كہ انہوں نے فديہ لينے پر اصرار كركے رسول (ص) خدا كى تمام تر تصريحات اور واضح بيانات كے باوجود وہ رسول(ص) خدا كى مخالفت اور ارادہ الہى كے برخلاف دنياوى چيزوں كے حصول پر اصرار كے مرتكب ہوئے تھے_ كيونكہ ارشاد خداوند ى ہے: (تريدون عرض الدنيا و الله يريد الآخرة) نيز كسى چيز كو اچھے طريقے سے بيان كرنے سے پہلے اس كى مخالفت بھى موجب عذاب اور سزا نہيں ہوتى _
بہرحال خدانے ان پر لطف و كرم كرتے ہوئے ان كى اس مخالفت كو معاف فرما ديا اور ان كى دلجوئي كے لئے ان كے لئے فديہ لينا جائز قرار دے ديا _حالانكہ اس كے نتائج بھى نہايت بھيانك ركھے ليكن وہ دنيا كى محبت ميںاندھے ہوگئے اور اس كے بھيانك نتائج كو بھى ساتھ ہى قبول كرليا_البتہ يہ بھى عين ممكن ہے كہ بعض مہاجرين كا فديہ لينے پر اصرار صرف دنيا پرستى كى وجہ سے نہيں بلكہ اس وجہ سے ہو كہ ان پر ''صناديد قريش''(قريش كے سرداروں)كا قتل نہايت شاق تھا _ كيونكہ قريش كے ساتھ ان كے دوستانہ ،مفاد پرستانہ اور رشتہ دار انہ تعلقات تھے اور ان كے اس موقف كو وہاںموجود مسلمانوں كى ايك سادہ لوح جماعت نے بھى بلاسوچے سمجھے اپنا ليا تھا _پس بعض لوگوں كى مشركوںكے ساتھ مہربانى اور مال كمانے كے شوق نے رسول (ص) خدا كى مخالفت پرا كسانے كے ساتھ ساتھ انہيں عذاب خداوندى كا مستحق بھى ٹھہرايا_ اور يہ لوگ اپنى نيت ميں فتور ،رسول (ص) خدا كى مخالفت پر اصرار اور نظريات ،اقوال اور افعال ميں منافقت كى وجہ سے عذاب خداوندى كے مستحق ٹھہرے_خاص كرجب يہ مشاہدہ كرتے ہيں كہ كچھ منافقين بنى ہاشم كے افراد كو قتل كرنے كا مشورہ دے رہے تھے جنہيں مشركين زبر دستى اپنے ساتھ جنگ ميں گھسيٹ لائے تھے اور رسول(ص) خدا پہلے

348
ہى انہيں قتل نہ كرنے كا حكم دے چكے تھے _نيز يہ بھى مشاہدہ كرتے ہيں كہ ايسا مشورہ دينے والے شخص كے قبيلے كا كوئي بھى فرد جنگ بدر ميں شريك نہيں ہواتھا جس سے ہميں ان كے دلى حالات كا بخوبى اندازہ ہوجاتا ہے ،ليكن اگر اظہار رائے ميں صرف غلطى پائي جائے اور اس ميں يہ مذكورہ خامياں نہ ہوں تو يہ چيز انہيں عذاب كا مستحق نہيںٹھہراتى _يہاںاس بات كى تشريح ميں كچھ اور باتيںبھى ذكر ہوئي ہيں (1)جن كے پختہ نہ ہونے كى وجہ سے ہم نے ان كو ذكر نہيں كيا_
5_روايات ميں ملتا ہے كہ جنگ بدر كے ختم ہونے كے بعد مسلمان جلدى جلدى مال غنيمت لوٹنے ميں لگ گئے _جس پر آنحضرت (ص) نے فرمايا:''تم سے پہلے جس امت نے بھى سرداروں كو قتل كيا ہے اس كے لئے مال غنيمت لينا حرام تھا _ماضى ميں ہرنبى اور اس كے ساتھيوںكو جو بھى مال غنيمت ملتا وہ اس كو اكٹھا كركے ايك جگہ ركھ ديتے جس كے بعد آسمان سے اس پر آگ نازل ہوتى تھى اور سارے مال غنيمت كو جلا كر راكھ كرديتى تھي''_ جس پر خدا نے يہ آيت نازل كى :
( لولا كتاب من الله سبق لمسكم فيما اخذتكم عذاب عظيم فكلوا مما غنمتم حلالاً طيبا)(2)
اگر خدا پہلے (عذاب نہ كرنے كا ) وعدہ نہ كر چكا ہوتا تو تمہيں بہت بڑا عذاب جكڑ ليتا _ ليكن اب تم مال غنيمت كھا سكتے ہو تمہارے لئے حلال اور پاكيزہ ہے ''اور طحاوى نے اسى آيت كے شان نزول ميں مذكورہ روايت كو زيادہ مناسب جانا ہے_

رسول (ص) كريم اپنے اجتہاد ميں غلطى كر سكتے ہيں ؟
رسول كريم (ص) سے منسوب گذشتہ باتوں نيز اس دعوے كے بطلان كے بعد كہ گذشتہ آيت آپ(ص) كو سرزنش
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو: دلائل الصدق ج3حصہ 1ص 55و60_
2)مشكل الآثار ج4ص292وص293_

349
كرنے كے لئے اترى ہے ،يہ بھى معلوم ہو جاتاہے كى نبى (ص) كريم پر اجتہاد اور اس ميں غلطى كے جواز كا بعض لوگوں كا دعوى اور اس دعوے پر مذكورہ آيت سے استدلال بھى صحيح نہيں ہے _كيونكہ نبى (ص) كريم اپنى مرضى سے كچھ نہيں بولتے اور وحى كے نازل ہونے پر ہى بولتے ہيں_اس لئے نبى (ص) كريم سے منسوب گذشتہ باتيں بے بنياد اور باطل ہيں_اس كے علاوہ ايسے قطعى دلائل بھى پائے جاتے ہيں جو اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ آنحضرت(ص) كا ہر قول و فعل حق ہوتا ہے اور حقيقت ،شريعت اور خدا كے قطعى احكام كے عين مطابق ہوتا ہے _

سعد بن معاذ يا عمربن خطاب ؟
طبرى نے محمد بن اسحاق كے ذريعہ روايت كى ہے كہ جب آيت (ما كان لنبى ان يكون لہ اسري) اترى تو رسول (ص) خدا نے فرمايا:''اگر آسمان سے كوئي عذاب نازل ہو جاتا تو (اصحاب سے)صرف سعد بن معاذ ہى بچ سكتا تھا كيونكہ اس نے كہا تھا كہ يا رسول (ص) الله ان لوگوں كو زندہ ركھنے سے مجھے ان كى خونريزى زيادہ پسند ہے'' _ (1) شايد يہى روايت ہى صحيح ہے ليكن كئي ايسے وجوہات كى بنا پر اسے خليفہ ثانى كے حق ميں بدل ديا گيا ہے جو كسى سے پوشيدہ نہيں ہيں اور اسے بھى ہم نے صحيح اس لئے كہا ہے كہ يہ بہترين اور پختہ مشورہ اور آنحضرت(ص) كى مرضى كے بھى مطابق تھا _ليكن عمر اور دوسروں كے مشوروںپر گہرى دقت اور بحث كى ضرورت ہے جس كے متعلق ہم بعد ميں گفتگو كريں گے _كيونكہ يہ مشورے اچھى نيت سے نہيں ديئےئے تھے اور ہو سكتا ہے سب يا كچھ مشورے خود مشركوں كے ايماء پر ديئےئے ہوں_جس طرح و اقدى نے اس بات كا تذكرہ كيا بھى ہے _اور ابوبكر اور دوسرے انصاريوںكے بارے ميں بھى گذر چكا ہے كہ وہ حصول مال اور قريش كى دشمنى كى شدت كم كرنے كى خواہش ميں فديہ لينے پر اصرار كررہے تھے _نيز ان كا مدعا يہ بھى تھا كہ ان ميں ہمارے بھائي ،رشتہ داراور خاندان والے بھى ہيں _ نيز ابو بكر نے مشرك قيديوں سے يہ وعدہ كر ركھاتھا كہ وہ ان كے لئے اپنى سى كوشش ضرور كرے گا_ يہ بات بھى واقدى نے ہى بتائي ہے_
---------------------------------------------------------
1) تاريخ طبرى ج2 ص 171و الثقات ج1ص 169_

350
يہ سب لوگ آنحضرت(ص) كو ہر ممكن طريقے سے اپنى بات كا قائل كرنے لگے اور اس كے لئے وہ جذباتى ہتھكنڈے استعمال كرنے پر بھى تل گئے اور يہ كہنا شروع كرديا كہ ''يا رسول (ص) الله وہ آپ(ص) كے خاندان ،رشتہ دار قوم اور قبيلہ ہيں كيا آپ(ص) ان كى جڑيں كاٹنا چاہتے ہيں ؟''_اورابو بكر نے تو اس بات كے لئے مصلحت پسندانہ دليل قائم كرتے ہوئے كہا تھا كہ مسلمان فديہ ليں گے تو مشركوں كے مقابلے ميںطاقتور ہو جائيں گے _ليكن نبى (ص) كريم ان كى باتيں ماننے سے انكار كرتے رہے كيونكہ ان كى باتيں آپ(ص) كو قانع نہ كر سكيں _اس لئے كہ آپ(ص) سعد بن معاذ كى رائے كو مناسب جانتے تھے البتہ اس بات كے لئے آپ(ص) كے مد نظر اور بھى باتيں تھيں جو آپ(ص) كے لئے بالكل عياں تھيں_اس لئے مذكورہ آيت آپ(ص) كے موقف كى تائيد ميں نازل ہوئي ليكن انہيں بھى اس بھيانك نتيجے كے ساتھ فديہ لينے كى اجازت دى گئي كہ ان قيديوں كے بدلے ميںاتنى تعداد ميں مسلمان قتل ہوں گے _

قيديوں كا قتل ہى زيادہ مناسب تھا:
اس بات ميں تو كوئي شك ہى نہيں كہ مشرك قيديوں كا قتل ہى زيادہ مناسب اور صحيح تھا _ اور اس دعوى كے ہمارے پاس مندرجہ ذيل دلائل ہيں:
1_ قيديوں ميں قريش كے كئي بڑے بڑے سردار بھى تھے اور بعض ايسے بھى تھے جو بالكل ہى خبيث افراد تھے انہوں نے رسول(ص) اور مسلمانوں كے ساتھ جنگ كے شعلے بھڑكائے تھے ،انہيں دربدر اور جلا وطن كيا تھا ، ان كى ہر طرح سے توہين كى تھى اور انہيں مختلف قسم كى اذيتيں اور تكليفيں دى تھيں_ يہ ايسے متكبر لوگ تھے جو نہ تو اپنى زيادتيوں سے باز آنے والے تھے اور نہ اس دين كو قبول كرنے والے تھے _بلكہ وہ تو اسلام كى جڑيںكاٹنے كے درپے تھے اور كسى منطقى اور معقول پيشكش كو قبول كرنے پر تيار نہيں تھے _اور شكست اور قيد كى ذلت اٹھانے كے بعد تو اسلام اور مسلمانوں كے خلاف ان كے دلوں ميں كينہ مزيد بڑھ گيا تھا_اور مسلمان (اگر زندہ رہتے تو) صرف دو طريقوں سے ہى ان سے چھٹكارا پا سكتے تھے جس كى طرف آپ(ص) نے اشارہ فرما

351
ديا تھا _جہاں آپ(ص) نے مسلمانوں كو يہ بتا ديا تھا كا اگر وہ فديہ ليں گے تو انہيں ان كى تعداد كے برابر قتل ہونا پڑے گا _
2_ اور گذستہ بات سچى بھى ثابت ہو گئي كيونكہ بعد ميں جنگ احد و غيرہ ميں نيز مختلف مراحل ميں مسلمانوں كو مسلسل اذيتوں ميں مبتلا كرنے ميں انہى افراد كا زيادہ ہاتھ اور موثر كردار تھا_ اسى لئے تو سعد بن معاذ كى يہ بات نہايت ہى مناسب اور بہترين تھى كہ ''مشركوں سے ہمارى يہ پہلى جنگ ہے اور ان آدميوں كو زندہ ركھنے سے زيادہ مجھے ان كى خونريزى پسند ہے '' _اور بعض كا نظريہ تو يہ ہے كہ خدانے تا كيد كے ساتھ مشركوں كو قتل كرنے كا حكم اس لئے ديا ہے كہ مسلمانوں كو يہ باور ہوجائے كہ حالات جيسے بھى ہوں ،مال كى طرف ديكھنا اور اس كى خواہش كرنا نہايت ناپسندہ عمل ہے _مگر يہ كہ وہ بہت بڑے ہدف يعنى دين كى خدمت كے لئے ہو_
3_ اگر وہ اسلام قبول نہ كرتے تو ان كے كر توتوں كى سزاميں ان كا قتل بھى قريش پر ايك كاميابى اور ايك كارى فوجى اور روحى وار ہوتا اور اس سے عمومى لحاظ سے مشركوں كا دبدبہ اور شان و شوكت بھى كم ہو جاتى اور ان كے حمايت كرنے والے يہوديوںاور غطفان ،ہوازن اور ثقيف و غيرہ كے عرب مشركوں كو ايك دھمكى اور الٹى ميٹم ہوتا جس سے وہ انہيں چھوڑ كر بھاگ جاتے _اس صورت ميں مجموعى طور پر يہ نتيجہ نكلتا كہ وہ لوگ يہ سمجھ ليتے كہ آنحضرت(ص) نے جب اپنے عقيدے اور دين كى خاطر اپنے قبيلے اور قوم كا لحاظ نہيں كيا اور رسالت كى ادائيگى ميں ركاوٹ ڈالنے اور نور الہى كو بجھانے كى كوشش كرنے پر ان سب كوتہہ تيغ كرديا تو آپ(ص) نور خدا كو بجھانے اور اپنے دين اور دين كى تبليغ كى راہ ميں ركاوٹ كھڑى كرنے والے دوسرے لوگوں كا بھى كوئي لحاظ نہيں كريں گے_ اور يہ بات پورے جزيرة العرب كے مشركوں ،يہوديوں اور قريشيوں كے دلوں ميں نااميدى پيدا كرنے اور آپ(ص) كى دھاك بٹھانے ميں نہايت مؤثر ہوتى اور پھر دوسروں كو يہ كہنے ميں آپ(ص) كے لئے نہايت آسانى ہوتى كہ ''تمہارے لئے بہتر يہى ہے كہ تم اسلام سے دشمنى اور مخاصمت ترك كردو كيونكہ اس دين كے مقابلے ميں آنے كا نتيجے صرف تمہارى تباہى اور بربادى كى صورت ميں ہى نكلے گا ''_
352
4_ ان لوگوں كے قتل سے انصار كو يہ اطمينان ہو جاتا كہ آپ(ص) كے قبيلے والے جب تك اپنے شرك پر ڈٹے ہوئے ہيںآپ(ص) كبھى بھى ان سے صلح نہيں كريں گے اور ان كا ساتھ نہيںديں گے _ظاہر ہے اس كے نتيجے ميں آپ(ص) انصار كو كبھى بھى تنہا نہيں چھوڑيں گے كيونكہ آپ(ص) اپنے دينى تعليمات كى بنا پر دينى رابطوں كوسب تعلقات سے زيادہ محكم سمجھتے ہيں ، عقيدے كى قرابت دارى كو ہى اصل قرابت سمجھتے ہيں اور اسلامى اور دينى رشتہ دارى كو ہى اصل رشتہ دارى جاننے ہيں اس بنا پر انصار كے دلوں ميں كبھى بھى كسى قسم كے خدشے اور وسوسے جنم نہ ليتے _ جبكہ انہوں نے اسى بات كا اظہار بيت عقبہ اور پھر فتح مكّہ كے موقع پر بھى كيا تھا كہ آپ(ص) شايد اپنى قوم سے مصالحت كرليں گے يا اپنے رشتہ داروں كے بارے ميں نرم گوشہ ركھتے ہيں _

قيديوں كے بارے ميں عمر كا موقف:
اس واقعہ ميں ہم يہ مشاہدہ كرتے ہيں كہ :
1_عمربن خطاب نے رسول (ص) خدا سے يہ خواہش كى تھى كہ آپ(ص) حكم فرمائيں كہ على (ع) اپنے بھائي عقيل كى گردن اڑادے اورحمزہ اپنے بھائي عباس كاسر قلم كرے اور وہ ان لوگوں كو كافروں كا سردار بتارہا تھا _اور يہ نہايت ہى عجيب و غريب خواہش ہے البتہ قريش كے فرعونوں،متكبروںاور بڑے بڑے سرداروں كے متعلق اس كى خاموشى اس سے بھى زيادہ عجيب و غريب اور معنى خيز ہے ؟_خاص كر جب يہ مشاہدہ كيا جائے كہ اس نے آنحضرت(ص) سے سناتھا كہ آپ(ص) نے اپنے لشكر كو (اور يہ بھى تو اسى فوج ميں شامل تھا ) بنى ہاشم خاص كر مذكورہ دونوں شخصيات اور چند دوسرے افراد كو قتل نہ كرنے كا حكم ديا تھا ،كيونكہ انہيں اس جنگ ميں زبر دستى گھسيٹا گيا تھا_ اس كے علاوہ وہ يہ بھى جانتا تھا كہ انہوں نے مكّہ ميںآنحضرت(ص) كا بھر پور دفاع كيا تھا ،شعب ابى طالب ميں آپ(ص) كے ہمراہ داخل ہوئے تھے اور آپ(ص) كى خاطر بہت تكليفيں اور مشقتيں برداشت كى تھيں _
2_ جناب عمر كے قبيلے يعنى قبيلہ بنى عدى نے اس جنگ ميں حصہ نہيں لياتھا (1)
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو : تاريخ طبرى ج 2 ص 143، سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 271،المغازى واقدى ج 1 ص 45 ، الكامل ابن اثير ج 2 ص 121 تفسير ابن كثير ج 2 ص 314 و تاريخ الخميس ج 1 ص 375 اور تاريخ كى كوئي بھى كتاب جہاں جنگ بدر كے چھڑنے سے پہلے كچھ لوگوں كے پلٹنے كا ذكر ہوتا ہے_

353
پس اسے اس كى كيا پروا تھي؟ چاہے جس كے جگر پر بھى ضربت لگے _جب تك اس آدمى كے قوم ،قبيلہ اور رشتہ داروں كو كوئي گزند نہيں پہنچتى تب تك چاہے سارى دنياہى قتل ہو جائے اس كے لئے كوئي اہميت كى بات ہى نہيں ہے _يہاں سے معلوم ہوتا ہے كہ عمر كى ''فلاںكو ميرے حوالے كرديں'' والى بات كو ذكر كرتے وقت بعض لوگوں كا ''وہ عمر كے قريب تھا ''كے الفاظ كا اضافہ مضحكہ خيز اور نادرست ہے حالانكہ عمر كى بات تبانے والى صرف بعض روايتوں ميں يہ الفاظ ذكر ہوئے ہيں _اس لئے كہ جنگ بدر ميں عمر كا كوئي رشتہ دار تھاہى نہيں البتہ شايد اس كا كوئي سسرالى رشتہ دار موجود ہو ليكن اگر كوئي تھا بھى تو ان كے نزديك يہ سسر الى رشتہ دارى كوئي اہميت نہيں ركھتى تھى _ بہر حال ان پہلوؤں پرہم سے پہلے جناب عباس بن عبد المطلب نے عمر پر ايسا برا گمان كيا ہے _
اور وہ يوں كہ فتح مكہ كے موقع پر جب جناب عمر ابوسفيان كے خلاف بڑھ چڑھ كر باتيں كررہا تھا اور اس كے قتل پر بار بار اصرار كررہا تھا تو عباس نے اس سے كہا : '' نہيں عمر ٹھہرو اگر وہ بنى عدى بن كعب كا آدمى ہوتا تو تم ايسا كبھى نہ كہتے _ ليكن تمہيں پتاہے كہ يہ بنى عبد مناف كا آدمى ہے'' (1)
3_ اپنے قريبوں اور رشتہ داروں كا اپنے ہاتھوں سے قتل ايك ايسا قبيح فعل ہے جس سے ذہن متنفر ہوتاہے اور بسا اوقات لوگوں كى اسلام سے دورى كا باعث بھى بن سكتاہے بلكہ انہيں اس دين ميں داخل ہونے كے متعلق سوچنے سے بھى منع كرديتاہے جس ميں انہيں اپنے بھائيوں كو قتل كرنا پڑے _ بلكہ ضعيف الاعتقاد مسلمانوں كو مرتد ہونے پر بھى تيار كرسكتاہے، جب وہ يہ ديكھيں گے كہ دوسروں كے ہوتے ہوئے بھى انہيں ہى اپنے دوستوں ، بھائيوں ، پياروں اور رشتہ داروں كو اپنے ہاتھوں سے قتل كرنے پر مجبور كيا جارہا ہے _

نبى (ص) كريم بھا گ جانے والے قيدى كو قتل نہيں كرتے
واقدى كہتاہے كہ جب رسول (ص) خدا جنگ بدر سے واپس ہوئے اور آپ(ص) كے پاس مشركين كے قيدى بھي
---------------------------------------------------------
1)مجمع الزوائد ج6 ص 67از طبرانى اور اس كى سند كے سب راوى صحيح بخارى كے افراد ہيں و حياة الصحابہ ج1 ص 154 _

354
تھے تو ان ميں سہيل بن عمرو بھى آنحضرت(ص) كى اونٹنى كے ساتھ بندھا ہوا تھا_ مدينہ سے كچھ ميل پہلے اس نے اپنے آپ كو كسى طرح كھينچا تو وہ آزاد ہوكر بھاگ نكلا_ جس پر آپ(ص) نے فرمايا: '' سہيل بن عمرو كو ڈھونڈ كر اسے قتل كردو'' لوگ اس كى تلاش ميں بكھر گئے ليكن آنحضرت(ص) نے ہى اسے ڈھونڈكر دو بارہ باندھ ديا ليكن اسے قتل نہيں كيا _
سيد شريف رضى نے اس كى وجہ يہ بيان كى ہے كہ كوئي حكم، حكم دينے والے كو شامل نہيں ہوتا _ كيونكہ رتبہ كے لحاظ سے حكم دينے والا، حكم بجالانے والے سے اونچا ہوتاہے اس لئے وہ اپنے سے تو بلند مرتبہ نہيں ہوسكتا(1) _
ليكن ہم كہتے ہيں كہ انشاء (2)كى حد تك تو سيد رضى كى مذكورہ بات صحيح ہے ليكن يہاں ايك سوال باقى رہتا ہے كہ اگر قتل كا محرك اور وجوہات باقى تھيں تو پھر آپ(ص) نے اسے قتل كيوں نہيں كيا؟ چاہے آپ(ص) اپنے كسى صحابى كو ہى اس كے قتل كا حكم دے ديتے اور خود قتل نہ كرتے_ كيونكہ آنحضرت(ص) اپنے دست مبارك سے كسى كو قتل نہيں كيا كرتے تھے_ اس كى طرف اسى كتاب كى اگلى جلد ميں اشارہ ہوگا_ پس يہاں يہ كہنا پڑے كہ چونكہ آنحضرت(ص) نے خود ہى اسے ڈھونڈ نكالا تھا اس لئے اس آدمى كو قتل كرنا مناسب نہيں سمجھا_

قيد ميں عباس كے نالے
بہرحال ، ان قيديوں ميں عباس اور عقيل بھى شامل تھے_ ايك رات آنحضرت(ص) نے جاگ كر گذاري_ ايك صحابى نے آپ(ص) سے پوچھا: '' يا رسول (ص) اللہ آپ (ص) سارى رات كيوں جاگتے رہے ؟'' آپ(ص) نے فرمايا: '' عباس كى آہ و فرياد نے مجھے سونے نہيں ديا'' _ يہ بات سن كر ايك صحابى نے اٹھ كر اس كى رسياں ڈھيلى كرديں جس كى وجہ سے اس كى كراہيں بھى رك گئيں ، ليكن آپ (ص) صحابى كے اس عمل كو نہ ديكھ سكے ، جس كى وجہ سے آپ (ص)
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ: ہو حقائق التاويل ج5 ص11_

2) انشاء خبر كے مقابلے ميں ہے جہاں سچ يا جھوٹ كا شائبہ نہ ہو _ زيادہ تر جارى كرنے كا معنى ديتاہے مثلا ً حكم جارى كرنا _ تفصيل ديگر كتابوں ميں_
355
نے پوچھا : '' اب عباس كى آواز كيوں نہيں آرہى ؟ '' تو اس صحابى نے كہا : '' ميں نے اس كى رسياں ڈھيلى كردى ہيں '' _ اس پر آپ(ص) نے فرمايا : '' پھر سب قيديوں كى رسياں كچھ ڈھيلى كردو'' (1)
اور يہ روايت ايك معقول روايت ہے جس ميں نبى (ص) كريم كى عدالت، احكام الہى كى بجا آورى ميں دقت نظر اور دين ميں صلابت كا ايك نمونہ پيش كيا گيا ہے اور يہ آنحضرت (ص) كى شان كے مناسب بھى ہے اور آپ(ص) كى اس مشہور بات كے مناسب بھى ہے كہ كسى ملامت كرنے والے كى ملامت آپ(ص) كو راہ خدا سے نہيں ہٹاسكتى تھى _ نہ وہ روايتيں جن ميں آپ(ص) كو اپنے قريبوں كا دم بھرتے ہوئے دكھا يا گيا ہے اور كہا گيا ہے كہ آپ(ص) نے ہى عباس كى رسياں ڈھيلى كرنے كا حكم ديا تھا_ كيونكہ آنحضرت(ص) كبھى ايسے نہيں تھے كہ اپنے قريبوں اور رشتہ داروں پر تو رعايت كريں ليكن دشمنوں پر سختى كريں_ اور ايسى روايتيں مكمل اور صحيح طور پر بيان نہيں ہوئيں_ مگر يہ كہا جائے كہ نبى (ص) كريم جانتے تھے كہ اسے زبردستى لايا گيا ہے اس لئے اس كا گناہ دوسروں كے گناہ سے قدر ے چھوٹا اور ہلكا ہے اور اس كے ساتھ ايسا سلوك كرنے كى بھى يہى وجہ تھى _ ليكن ہم كہتے ہيں كہ اگر چہ حقيقت يہى ہے كہ وہ بامر مجبورى اس جنگ ميں شريك ہوا تھا_ ليكن نبى (ص) كريم اور آپ(ص) كى عدالت كا يہ تقاضا تھا كہ آپ(ص) اس كے ساتھ بھى دوسرے قيديوں جيسا سلوك كرتے تا كہ كسى تنقيد اور اعتراض كى كوئي گنجائشے ہى نہ رہے _ اسى لئے ہم يہ ديكھتے ہيں كہ جب عباس نے آپ(ص) سے يہ كہا كہ اسے زبردستى يہاں لايا گيا ہے تو آپ(ص) نے اس سے فرمايا : '' ليكن بظاہر تو تم ہمارے خلاف ہى تھے'' _ البتہ اس كى تفصيل آئي چاہتى ہے_
بظاہر عباس كى كراہوں سے آپ(ص) كى بے آرامى اس وجہ سے تھى كہ اس كى جگہ آنحضرت(ص) كى جگہ كے نزديك تھى ، يہ بات نہيں تھى كہ آپ(ص) نے خاص طور پر دوسرے قيديوں كے علاوہ صرف عباس پر رحم كھايا تھا_
---------------------------------------------------------
1)تاريخ الخميس ج1 ص 390 و صفة الصفوة ج1 ص 510 البتہ عبدالرزاق ، المصنف ج 5 ص 353ميں لكھتاہے كہ ايك انصارى نے آپ(ص) سے كہا:''كيا ميں اس كى رسى جاكر كچھ ڈھيلى نہ كردوں؟'' آپ(ص) نے فرمايا : '' اگر اپنى طرف سے يہ كام كرنا چاہتے ہو تو بے شك كرو'' _ تب اس انصارى نے جاكر اس كى رسى ڈھيلى كى جس كے بعد آپ(ص) اطمينان سے سوئے _ نيز ملاحظہ ہو: دلائل النبوة بيہقى ج2 ص 410_

356
عباس كا فديہ اور اس كا قبول اسلام
مسلمانوں نے عباس سے بيس سے چاليس اوقيہ سونا( ہر اوقيہ چاليس مثقال كا ہوتاہے يعنى آٹھ سو سے سولہ سو مثقال سونا) مال غنيمت لوٹا_ اس نے اسى لوٹے ہوئے سونے كو فديہ كے طور پر شمار كرنے كا مطالبہ كيا تو آپ(ص) نے فرمايا : '' تم جو چيز ہمارے خلاف استعمال كرنے لائے تھے ہم اسے تمہيں واپس نہيں كرسكتے''_مؤرخين كہتے ہيں كہ آپ(ص) نے يہ بات اس لئے كى كہ وہ مشركوں كے كھانے پينے كا خرچہ برداشت كرنے كے لئے اپنے ساتھ يہ سونا لايا تھا (1) بہر حال آپ(ص) نے اسے اپنا اور اپنے دو بھتيجوں عقيل اور نوفل كا فديہ ادا كرنے كا بھى حكم ديا _ ليكن اس نے اپنے پاس كسى مال كى موجودگى كا انكار كيا _ جس پر آپ(ص) نے اسے كہا : '' جو مال تم نے ام الفضل كے حوالے كركے اس سے كہا تھا كہ اگر مجھے كچھ ہوگيا تو اس مال كو اپنے اور بچوں پر خرچ كرنا ، وہ تو ہے اب اس مال سے اپنا فديہ دو'' _ تب اس نے پوچھا كہ كس نے آپ(ص) كو يہ بات بتائي ہے اور جب اسے پتا چلا كہ جبرائيل (ع) نے آپ(ص) كو بتايا ہے تو اس نے كہا: '' قسم سے اس بات كا علم تو صرف يا مجھے تھا يا پھر اس كو ، ميں گواہى ديتاہوں كہ آپ(ص) اللہ كے رسول (ص) ہيں ''_
پس عباس - ، عقيل اور نوفل كرم اللہ و جوھہم كے سوا باقى سب قيدى حالت شرك ميں واپس پلٹے ، اور انہى تينوں كے بارے ميں مندرجہ ذيل آيت اتري:
(قل لمن فى ايديكم من الاسرى ان يعلم اللہ فى قلوبكم خيراً يؤتكم خيرا مما اخذ منكم و يغفر لكم و اللہ غفور رحيم) (2)
اور اے رسول (ص) اپنے پاس موجود قيديوں سے كہہ دو كہ اگر خدا جان لے كہ تمہارے دل ميں اچھائي ( يعنى اسلام كى حقيقت) سماگئي ہے تو تم سے لوٹى جانے والى چيزوں سے بہتر چيزتمہيں عطا كرے گا _ اور تمہيں معاف بھى كردے گا كہ خدا معاف كرنے والا اور مہربان ہے _
---------------------------------------------------------
1)اسباب النزول واحدى ص 138 و سيرہ حلبيہ ج2 ص 198_
2)انفال / 70 ، اس كى معتبر روايت تفسير البرہان ج2 ص 94 ميں ہے نيز ملاحظہ ہو تفسير الكشاف ج2 ص 238 و ديگر كتب_

357
ايك اور روايت ميں ہے كہ آپ(ص) نے عباس سے فرمايا: '' عباس تم نے چونكہ خدا سے جنگ كى ہے اس لئے خدا نے بھى تم سے جنگ كى ہے'' (1) ايك اور روايت ميں ہے كہ جب اس سے فديہ طلب كيا جانے لگا تو اس نے كہا كہ ميں پہلے سے اسلام لاچكا تھا ليكن ان لوگوں نے مجھے زبردستى جنگ ميںدھكيلاہے _جس پر آپ (ص) نے اسے فرمايا: '' خدا تمہارے اسلام سے بخوبى واقف ہے اگر تمہارى بات سچى ہے تو خدا تمہيں اس كا اجر دے گا ، ليكن بظاہر تو تم ہمارے خلاف ہى تھے'' (2) _ اور يہ روايت اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ بعض كا يہ دعوى صحيح نہيں ہے كہ عباس جنگ بدر سے پہلے خفيہ طور پر اسلام لے آئے تھے (3)مگر يہ كہ اس بارے ميں خود عباس كے دعوى كو دليل بنايا جائے جبكہ عباس كے اس دعوى كو خو رسول (ص) خدا نے بھى قبول نہيں كيا _ جنگ بدر كے موقع پر عباس كے مسلمان نہ ہونے پر گذشتہ باتوں كے علاوہ يہ دلائل بھى ہيں كہ جنگ بدر كے موقع پر جب عباس گرفتار ہوا تو مسلمان اسے كافر ہونے اور قطع رحمى كرنے كى بناپر لعنت ملامت كرنے لگے _ اور حضرت على (ع) نے بھى اسے بہت سخت باتيں كہيں_ جس پر عباس نے كہا : '' تم ہمارى برائياں تو گنوارہے ہو ، ہمارى اچھائياں كيوں نہيں بتاتے؟'' _ حضرت على (ع) نے اسے كہا : '' كيا تمہارى اچھائياں بھى ہيں ؟ ''_ اس نے كہا: '' ہاں ہم تو مسجد الحرام (خانہ كعبہ) كو آباد كرتے ہيں ، كعبہ كو زندہ كرتے ہيں ، حاجيوں كو پانى پلاتے ہيں اور قيدى آزاد كرتے ہيں '' جس پر يہ آيت نازل ہوئي:
(ما كان للمشركين ان يعمروا مساجد اللہ شاہدين على انفسہم بالكفر) (4)
مشركوں كو ان كے كفر كى حالت ميں خدا كى مسجدوں كو آباد كرنے كا كوئي حق نہيں پہنچتا
---------------------------------------------------------
1)بحار الانوار ج 19 ص 258 و تفسير قمى ج 1 ص 268 _
2)گذشتہ دونوں منابع و تاريخ الخميس ج1 ص 390 و سيرہ حلبيہ ج 2 ص 198
3) ملاحظہ ہو البدايہ والنہايہ ج 3 ص 308 سيرہ حلبيہ ج2 ص 188 و 198 و طبقات ابن سعد ج4 حصہ 1 ص 20_
4)توبہ /17 و حديث: اسباب النزول واحدى ص 139 درمنثور ج3 ص 219 از ابن جرير وابوشيخ از ضحاك ليكن يہ بات اگلى آيت سقايت الحاج والى آيت ميں مذكور ہے_

358
ايك اور روايت ميں ہے كہ اس نے كہا : '' اگر تم اسلام ، جہاد اور ہجرت ميں ہم سے سبقت لے گئے ہو تو ہم بھى تو مسجد الحرام كو آباد كرتے آئے ہيں اور حاجيوں كو پانى پلاتے آئے ہيں '' اس پر يہ آيت نازل ہوئي :
( اجعلتم سقاية الحاج و عمارة المسجد الحرام كمن آمن باللہ ...) (1)
كيا تم حاجيوں كو پانى پلانے اور مسجد الحرام كو آباد كرنے كا رتبہ خدا ... پر ايمان لانے والے شخص كے رتبہ كے برابر قرار ديتے ہو؟
ليكن مذكورہ دونوں آيتيں سورہ توبہ ميں ہيں جو آپ(ص) كى حيات طيبہ كے تقريبا آخر ميں يعنى جنگ بدر كے كئي سال بعد نازل ہوا _ اس لئے شايد روايت ميں مذكور باتيں جنگ بدر كے موقع پر نہ كہى گئي ہوں بلكہ فتح مكہ كے موقع پر كہى گئي ہوں ليكن بدر سے ان كى تصريح راويوں كى غلطى اور ان كے اشتباہ كى وجہ سے ہو _ ليكن پھر بھى اس پر يہ اعتراض ہوتاہے كہ فتح مكہ كے موقع پر تو عباس اسير ہى نہيں ہوا تھا پھر حضرت على (ع) نے اس سے سخت باتيں كيوں كيں ؟ البتہ اس كا جواب يوں ديا جاسكتاہے كہ يہ واقعہ ہوسكتاہے كہ آنحضرت(ص) كى عام معافى كے اعلان اور كسى كو كچھ كہنے سے منع كرنے سے پہلے پيش آيا ہو(ليكن اس صورت ميں يہ ماننا پڑے گا كہ عباس جنگ بدر كے موقع پر نہيں بلكہ فتح مكہ كے موقع پر اسلام لايا تھا _ مترجم)
ايك اور دستاويز ميں آيا ہے كہ انصاري، عباس كو قتل كرنا چاہتے تھے ليكن آنحضرت(ص) نے اسے ان كے ہاتھ سے لے ليا او رجب وہ آنحضرت(ص) كے پاس آگيا تو عمر نے اس سے كہا : '' مجھے (اپنے باپ ) خطاب كے اسلام لانے سے تيرا اسلام لانا زيادہ پسند ہے كيونكہ ميں نے ديكھا ہے كہ رسول (ص) خدا كو تيرا اسلام لانا زيادہ پسند ہے '' (2) بلكہ روايتوں ميں آيا ہے كہ عباس كا اسلام فتح مكہ كے دن ہى سب پر ظاہر ہوا (3)
---------------------------------------------------------
1)توبہ / 19 و حديث: اسباب النزول واحدى ص 139 ، درمنثورج3 ص 218 از ابن جرير ، ابن منذر ، ابن ابى حاتم ، ابن مردويہ ، عبدالرزاق ، ابن ابى شيبہ و ابوشيخ_
2)البدايہ والنہاية ج3 ص 298 از حاكم و ابن مردويہ، حياة الصحابہ ج2 ص 244 و 245 از كنز العمال ج7 ص 69 از ابن عساكر_
3)سيرہ حلبيہ ج 2 ص 199_

359
اور يہ بات حقيقت كے زيادہ قريب لگتى ہے _ كيونكہ اگر وہ جنگ بدر كے موقع پر اسلام لايا بھى تھا (جس طرح گذشتہ روايتيں خاص كر تفسير البرہان كى معتبر روايت اس بات پر دلالت بھى كرتى ہيں) تو وہ خفيہ طور پر اسلام لايا ہوگا ليكن وہ اپنے مفادات،ا موال اور تعلقات كى حفاظت كے لئے مشركين كے سامنے شرك اور ان كى مرضى كى باتوں كا اظہار كيا كرتا ہو گا _ كيونكہ قريش يہ برداشت نہيں كرسكتے تھے كہ آنحضرت(ص) سے ايسى سخت جنگ ميں بھى مصروف ہوں جس ميں ان كے بھائي اور بيٹے قتل ہوتے رہيں، ان كا تجارتى راستہ بند ہوجائے اور انہيں عربوں ميں ذليل ہونا پڑے ليكن ان كے درميان كئي سال تك ايك مسلمان آرام اور اطمينان سے رہے، خاص كر وہ مسلمان آنحضرت(ص) كا چچا اور قريبى رشتہ دار بھى ہو_ اور ابوسفيان سے اس كى دوستى بھى اس كے مكہ ميں رہنے كى ضمانت نہيں بن سكتى تھى ، كيونكہ قريشيوں نے تو اپنے پيارے رشتہ داروں كو بھى عبرتناك سزائيں دى تھيں پھر وہ اپنے دوستوں كو كيسے برداشت كرسكتے تھے اور صلح حديبيہ ميں رسول (ص) كريم پر قريش كى شرطيں ، مذكورہ بات پر ان كى حساسيت، سختى اور شدت نيز كسى بھى صورت ميں كسى كو كوئي چھوٹ نہ دينے كى بہترين دليل ہيں _ہاں يہ بھى كہا جاتاہے كہ آنحضرت(ص) نے اسے ان كے درميان رہنے كا حكم ديا تھا تا كہ وہ ان كى خبريں آپ(ص) تك پہنچا تارہے اورآپ(ص) كے لئے ان كى جاسوسى كرتاہے_ اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ وہ آپ(ص) كو خط ميں ان كى خبريں پہنچاتا رہتاتھے اور ايك گمان كے مطابق اس نے آپ(ص) كو جنگ احد كے بارے ميں بھى بتاديا تھا_ ليكن يہ سب باتيں اس كے اسلام كى دليل نہيں بن سكتيں_ يہ باتيں صرف آپ(ص) كو خبردار كرنے پر دلالت كرتى ہيں چاہے يہ كام رشتہ دارى اور اس غيرت كى بناپر ہو كہ رسول (ص) كو بھى يہ سب جاننا چاہئے اور ان كى برابرى كرنى چاہئے_

نكتہ :
جب عباس كے متعلق گفتگو كرہى رہے ہيں تو چند اور باتوں كى طرف اشارہ كرنے ميں بھى كوئي مضائقہ نہيں ہے _ كہا جاتاہے كہ جناب عباس مال دنيا كو بہت زيادہ اہميت ديتے تھے اور انہيں مال كے حصول كى

360
بڑى شديد خواہش ہوتى تھي_ ہم يہ بھى ديكھتے ہيں كہ جنگ بدر ميں اپنے اور عقيل كا فديہ دينے كى وجہ سے بعد ميں وہ آنحضرت(ص) سے مال كا مطالبہ كرتا رہتا تھا_ روايتوں ميں آيا ہے كہ ايك مرتبہ آپ(ص) كے پاس بحرين سے كچھ مال آيا اور آپ(ص) اسے تقسيم كرنے لگے تو عباس نے آكر كہا : '' يا رسول (ص) اللہ ميں نے جنگ بدر ميں اپنا اور عقيل كا فديہ ديا تھا اور عقيل نادار آدمى تھا اس لئے يہ مال مجھے ديں ''_ اور آپ (ص) نے بھى اسے وہ مال دے ديا(1) _اور بعض روايات ميں يہ بات بھى ہے كہ آپ(ص) ہميشہ اس كى آنكھيں پڑھ ليا كرتے تھے ( اور مانگنے سے بھى پہلے دے ديا كرتے تھے) اس لئے اس كى يہ لالچ ہم سے پوشيدہ رہتى اور اس پر نہايت تعجب ہوتا تھا(2)_
لوگوں ميں تقسيم كے بعد بچے كھچے مال كے حصول كا اس كا طريقہ بھى قابل ملاحظہ ہے _ ابن سعد كہتاہے كہ عہد عمر ميں لوگوں ميں مال تقسيم كرنے كے بعد بيت المال ميں كچھ مال بچ گيا تو عباس نے عمر اور لوگوں سے كہا: '' مجھے بتاؤ اگر تم ميں حضرت موسى (ع) كے چچا موجود ہوتے تو كيا تم اس كى عزت افزائي كرتے ؟'' سب نے كہا : '' جى ہاں'' تب اس نے كہا : '' پھر تو ميں اس كا زيادہ حق دار ہوں _ ميں تو تمہارے نبى (ص) كا چچاہوں '' يہ بات سن كر عمر نے لوگوں سے بات چيت كى اور ان لوگوں نے وہ سارا بچا كھچا مال اسے عطا كرديا (3)_
بہر حال اس نے اپنى آرزوئيں پاليں_ حتى كہ منقول ہے كہ جب آنحضرت(ص) نے اسے مال عطا كيا تو اس نے كہا : '' خدا نے جن دو چيزوں كا مجھ سے وعدہ كيا تھا ان ميں سے ايك كو تو پورا كرديا ہے دوسرے كا نہيں پتا _ خدا نے اپنے رسول (ص) سے فرمايا تھا كہ اپنے قيديوں سے كہہ دو كہ اگر تمہارے دلوں ميں اچھائي سمانے كا خدا كو پتا چل گيا تو تم سے لى جانے والى چيز سے بہتر چيز تمہيں عطا كرے گااور تمہيں معاف بھى كردے گا_ يہ مال اس مال سے كہيں بہتر اور زيادہ ہے جو مجھ سے ليا گيا تھا، ليكن يہ نہيں پتا كہ مغفرت كاكيا بنے گا ؟ '' (4)
---------------------------------------------------------
1)صحيح بخارى ج1 ص 55 و ص 56 و ج2 ص 130 ، مستدرك حاكم ج3 ص 329 و ص 330 ، تلخيص مستدرك ذہبى اسى صفحہ كے حاشيہ پر اور اس نے اسے صحيح جاناہے ، طبقات ابن سعد ج4 حصہ 1 ص 9 ، سيرہ حلبيہ ج2 ص 200 ، حياة الصحابہ ج2 ص 225و التراتيب الاداريہ ج2 ص 88 و 89_
2)صحيح بخارى ج1 ص 55 و 56 و ج2 ص 130 والتراتيب الاداريہ ج2 ص 89 _
3)طبقات ابن سعد ج4 حصہ اول ص 20 ، حياة الصحابہ ج2 ص 234و تہذيب تاريخ دمشق ج 7 ص 251_
3)مستدرك حاكم ج3 ص 329، تلخيص مستدرك ذہبى ( اس كے مطابق حديث صحيح ہے) ، طبقات ابن سعد ج4 حصہ 1 ص 9 ، سيرہ حلبيہ ج2 ص 220 و حياة الصحابہ ج2 ص 225_

361
نبى كريم كو قتل كرنے كى سازش
اس جنگ ميں عمير بن وہب كا ايك بيٹا بھى گرفتار ہوا_ جس كا بدلہ لينے كے لئے عمير نے صفوان كے ساتھ مل كر خفيہ طور پر يہ سازش كى كہ عمير مدينہ جاكر آنحضرت (ص) كو اغوا كر كے لے آئے گا جس كے بدلے ميں صفوان عمير كے قرض چكائے گا_ اس سازش كو انہوں نے سب سے خفيہ ركھا اور عمير نے اپنى تلوار كى دھار تيز كى اور اسے زہر آلود كيا اور مدينہ پہنچ گيا_ غرض آنحضرت(ص) نے اسے اندر آنے كى اجازت دے دى ليكن عمر كو اس سے خطرہ محسوس ہوا تو اس نے نيام سميت اس سے اس كى تلوار لے لي، پھر اسے رسول (ص) خدا كے پاس لے گيا_ جب آنحضرت(ص) نے اسے ديكھا تو عمر سے كہا كہ اسے چھوڑ دو _ عمر نے اسے چھوڑ ديا تو وہ آپ(ص) كے قريب آيا_ پھر آپ(ص) نے اس سے آنے كى وجہ پوچھى تو اس نے كہا:'' ميں آپ(ص) كے پاس اس قيدى يعنى وہب كى سفارش كرنے آيا ہوں: اس كے ساتھ اچھا سلوك كريں'' _ آپ(ص) نے پوچھا: '' پھر تلوار كيوں ساتھ لائے ہو؟''_ تو اس نے كہا :'' ان تلواروں كا ستياناس ہو، كيا انہوں نے كبھى فائدہ پہنچا يا ہے؟''_
تب آنحضرت (ع) نے بستى ميں ہونے والا اس كا اور صفوان كا ماجرا اسے بتايا تو عمير يہ سن كر مسلمان ہوگيا_ جس پر آنحضرت(ص) نے مسلمانوں سے فرمايا:'' اپنے اس بھائي كو دين كى باتيں سكھاؤ، قرآن پڑھاؤ اور اس كے قيدى كو بھى آزاد كردو'' _ اور مسلمانوں نے بھى آپ(ص) كے احكام كى تعميل ميں ايسا ہى كيا _
پھر آنحضرت(ص) كى اجازت سے عمير مكہ جاكر تبليغ كرنے لگا جس سے مشركين كو تكليف پہنچتى تھى بلكہ صفوان نے تو يہ قسم اٹھالى كہ وہ اس سے نہ كبھى گفتگو كرے گا اور نہ اس كے كسى كام آئے گا (1)

زينب كے ہار اور رسول (ص) خدا كا موقف
اس موقع پر كہا جاتاہے كہ آنحضرت(ص) كى لے پالك بيٹى جناب زينب نے اپنے شوہر ابوالعاص بن ربيع كى رہائي كے لئے فديہ كے طور پر كچھ چيزيں بھيجيں جن ميں وہ ہار بھى شامل تھے جنہيں جناب خديجہ (ع) نے
---------------------------------------------------------
1)سيرہ نبويہ ابن ہشام ج2 ص 317 و 318_

362
زينب كو جہيز ميں ديا تھا _ يہ ہار ديكھ كر آنحضرت (ص) كو جناب خديجہ(ع) كى بہت ياد آئي اور زينب كے ساتھ بہت زيادہ ہمدردى كا احساس ہوا اور اس پر رحم آگيا _ جس كى وجہ سے آپ(ص) نے مسلمانوں سے اس قيدى كو چھوڑنے كى خواہش كى اور انہوں نے بھى اسے چھوڑديا _ ليكن آپ(ص) نے اسے اس شرط پر آزاد كركے جانے ديا كہ وہ جاتے ہى زينب كو ادھر بھيج دے گا _ اس نے بھى وعدہ وفائي كرتے ہوئے زينب كو مدينہ بھجواديا تھا(1) زينب كى ہجرت كا ماجرا بھى انشاء اللہ آئندہ آئے گا_

چند جواب طلب سوال
يہاں يہ سوال پيدا ہوتاہے كہ كيا آنحضرت (ص) واقعاً اتنے جذباتى تھے كہ ان كى ہمدردى اور رقت نے آپ(ص) كو ايك ايسے قيدى كى رہائي پر مجبور كرديا جس پر مسلمان بھاؤ تاؤ كركے اس كے بدلے ميں ايسى چيز يا اتنا مال حاصل كرسكتے تھے جو دشمن كے مقابلے ميں انہيں طاقتور بناسكتى تھي؟ كيا صرف زينب كى پرورش ہى آپ(ص) كے اس كے ساتھ امتيازى سلوك اختيار كرنے كے لئے كافى تھي؟ يا اور وجوہات بھى تھيں ؟ كيا آپ(ص) اپنے رشتہ داروں كا دوسروں سے زيادہ اور خاص خيال ركھنا چاہتے تھے؟ اور كيا يہ بات آپ(ص) كى رسالت ، صفات اور اخلاق كے مناسب بھى ہے ؟
ان سوالات كا جواب يہ ہے كہ اصل بات يہ نہيں تھى بلكہ اس موقف ميں چند ايسى مصلحتيں پوشيدہ تھيں جو اسلام اور مسلمانوں كى نفع ميں ہى تھيں وگرنہ آپ(ص) كا موقف كسى كے ساتھ بھى كبھى امتيازى نہيں رہا _ اور اس جيسے ديگر رشتہ داروں كے ساتھ آپ(ص) كا سلوك بھى ہمارے سامنے ہے_ آپ(ص) كا اپنے چچا ابولہب ملعون اور عقيل كے ساتھ رويہ بھى ہمارے ذہن ميں محفوظ ہے _ جبكہ ہم يہاں يہ مشاہدہ كرتے ہيں كہ آنحضرت(ص) كا مذكورہ عمل اس بات كى تاكيدى وضاحت كے لئے تھا كہ اسلام دوسروں كے (اسلام كى خاطر انجام ديئے
---------------------------------------------------------
1)سيرہ نبويہ ابن ہشام ج2 ص 308 ، تاريخ الامم والملوك مطبوعہ الاستقامة ج2 ص 164 الكامل فى التاريخ ج2 ص 134 ، بحار الانوار ج 19 ، ص 241 ، دلائل النبوہ مطبوعہ دار الكتب العلميہ ج3 ص 154 و تاريخ الاسلام ذہبى ( حصہ مغازي) ص 46 _

363
جانے والے) افعال اور خدمات كا احترام اور ان كى قدر كرتاہے اور جناب خديجہ (ع) بھى ان شخصيات ميں سے ہيں جن كى خدمات قابل قدر ہيں _ اور آپ(ص) جناب خديجہ (ع) كى پيارى شخصيتوں كے ساتھ محبت آميز اور بہترين سلوك كركے ان قابل قدر خدمات كا صلہ ديتے تھے ، آپ(ص) جناب خديجہ (ع) كى سہيليوں كا بہت زيادہ احترام كيا كرتے تھے اور وقتاً فوقتاً ان كو تحفے تحائف ديا كرتے تھے _ حتى كہ اس وجہ سے آپ(ص) كو بى بى عائشہ سے ناپسنديدہ الفاظ بھى سننے پڑے تھے (1) اور اگر يہ خدمات جناب خديجہ (ع) كے علاوہ كسى اور شخصيت سے بھى انجام پاتيں تب بھى آنحضرت(ص) كا يہى موقف ہوتا _ يعنى آپ(ص) دين كى راہ ميں انجام دى جانے والى خدمات كى حوصلہ افزائي فرماتے تھے چاہے يہ خدمات جس كسى سے اور جس سطح پر انجام پائي ہوں_ اس پر مزيد يہ كہ اس موقع سے اگر آپ(ص) ، مشركين كے ظلم و ستم اور ان كے چنگل سے كسى كو (اور وہ بھى زينب جيسى شخصيت كو ) نجات دلاسكتے تھے تو پھر اس سے فائدہ كيوں نہ اٹھاتے؟ اور آپ(ص) نے ابوالعاص كو فديہ لئے بغير بھى تو نہيں چھوڑا تھا كيونكہ زينب نے اس كا فديہ بھجوا ديا تھا، پھر اب اس كو قيد ركھنے كا كيا جواز رہ جاتا تھا؟

جناب زينب كا واقعہ اور ابن ابى الحديد
اس مقام پر ابن ابى الحديد آپ(ص) كى رقت اور ہمدردى كے متعلق لكھتے ہيں كہ '' ميں نے نقيب(2) ابوجعفر يحيى بن ابوزيد بصرى ( اس كى شخصيت كى تعريف اور تعارف ابن ابى الحديد نے كئي ديگر مقامات پر كيا ہے)_(3) كو يہ روايت پڑھ كر سنائي تو انہوں نے كہا :
---------------------------------------------------------
1)اس كے منابع و مآخذ '' بيعت عقبہ'' والى فصل ميں '' بى بى عائشہ كى غيرت اور حسد'' كے متعلق گفتگو كے دوران ذكرہوچكے ہيں_
2)كسى دور ميں عالم عارف اور زاہد كامل كو نقيب كا لقب ديا جاتا تھا جس كا مطلب خدا كا يا دين اسلام كا نمائندہ اور تقوى كا عملى نمونہ ہوتا تھا_
3) ابن ابى الحديد نے شرح نہج البلاغہ ج 12 ميں ان الفاظ سے اس كا تعارف كرايا ہے كہ '' وہ نہ تو امامى مذہب ہے ، نہ كسى بزرگ صحابى سے بيزار اور نہ ہى كسى افراطى شيعہ كى بات سننے والا '' اور اسى كتاب كى ج 9 ص 248 ميں اس كى تعريف يوں كى ہے كہ '' وہ منصف مزاج اور نہايت عقل مند ہے '' نيز بحار الانوار ج 19 كے حاشيہ ميں ابن ابى الحديد سے منقول ہے كہ اس نے اس كى تعريف ديانت دارى ، امانت داري، خواہشات اور تعصبات سے دورى ، مناظروں ميں انصاف پسندي، كثرت علم ، تيز فہمى اور عقل مندى جيسى صفات سے كى ہے _

364
'' كيا تمہارے خيال ميں اس واقعہ ميں ابوبكر اور عمر موجود نہيں تھے؟ كيا كرم اور احسان كا يہ تقاضا نہيں تھا كہ وہ فدك كو مسلمانوں كى طرف سے حضرت فاطمہ (عليہا السلام) كو دے كر ان كا دل خوش كرتے ؟ كيا كائنات كى عورتوں كى سردار اس بى بى كى شان اپنى بہن جناب زينب سے بھى كم تھي؟ يہ تو اس صورت ميں ان كا حق بنتا تھا جب وراثت يا رسول (ص) خدا كے عطيہ والا ان كا حق ثابت نہ ہوتا ( حالانكہ دونوں صورتوں ميں ان كا ثابت ہوتاہے، ليكن برا ہوكر سى كا جو اپنے مد مقابل كو دبانے كے لئے ہر قسم كے انسانى اور غير انسانى بلكہ شيطانى ہتھكنڈے استعمال كرنے پر مجبور كرديتى ہے )'' (1)

فديہ اسير، تعليم تحرير
مقريزى كہتاہے:'' قيديوں ميں كئي ايسے بھى تھے جو لكھنا پڑھنا جانتے تھے جبكہ انصار ميں كوئي بھى اچھى لكھائي والا نہيں تھا_ اوروہ قيدى نادار بھى تھے_ پس ان كے ساتھ يہ طے پايا كہ ہر قيدى دس لڑكوں كو لكھنا سكھائے گا تو اسے آزاد كرديا جائے گا _ انصار كے لڑكوں كے ساتھ زيد بن ثابت نے بھى اسى عرصے ميں لكھنا سيكھا تھا_ امام احمد نے عكرمہ كے ذريعہ ابن عباس كى روايت بيان كرتے ہوئے كہا ہے كہ جنگ بدر كے قيديوں ميں كچھ افراد ايسے بھى تھے جن كے پاس فديہ دينے كو كچھ نہيں تھا_ تورسول خدا نے ان كا فديہ يہ قرار ديا كہ وہ انصار كے لڑكوں كو لكھنا سكھائيں '' اس كے بعدمقريزى ايك ايسے شخص كا واقعہ نقل كرتا ہے جسے اس كے استاد نے مارا تھا_ پھر اس كے بعد كہتاہے : '' عامر الشعبى نے كہا ہے كہ جنگ بدر كے ہر قيدى كا فديہ چاليس اوقيہ سونا تھا_ ليكن جس كے پاس يہ سب نہيں تھا تو اس پر دس مسلمانوں كو لكھائي سكھانا ضرورى تھا_ اور زيد بن ثابت بھى انہى افراد ميں سے تھا جنہوں نے لكھناسيكھا تھا'' (2)
---------------------------------------------------------
1)شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج4 1 ص 191_

2) ملاحظہ ہو: التراتيب الاداريہ ج1 ص 48 و 49 از المطالع النصريہ فى الاصول الخطيہ ابوالوفاء نصر الدين الہورينى واز سہيلى ، مسند احمد ج1 ص 247 ، الامتاع ص 101 ، الروض الانف ج 3 ص 84 ، تاريخ الخميس ج1 ص 395 ، سيرہ حلبيہ ج2 ص 193 ، طبقات ابن سعد ج2 حصہ 1 ص 14 و نظام الحكم فى الشريعة والتاريخ الاسلامى (الحياة الدستوريہ ) ص 48_
365
ہم بھى كہتے ہيں كہ دس مسلمان بچوں كو لكھائي كى تعليم كو قيديوں كا فديہ قرار دينا تاريخ ميں پہلى جہالت مكاؤ تحريك تھى جس ميں اسلام تمام ديگر اقوام اور اديان سے سبقت لے گيا _ يہ روايت بھى ملتى ہے كہ حكم بن سعيد بن عاص نے رسول (ص) خدا كے پاس آكر اپنے نام كے متعلق پوچھا تو آپ(ص) نے اس كا نام بدل كر عبداللہ ركھا اور اسے حكم ديا كہ مدينہ جاكر لوگوں كو لكھنا سكھائے (1) اور يہ بات ايسے زمانے ميں اسلام ميں علم كى اہميت كى انتہا كو بيان كرتى ہے جب اس وقت كى ايران جيسى دنيا كى بڑى طاقتيں اپنے دربارى اور حكومتى افراد كے علاوہ ہر كسى كو بڑے زور و شور سے حصول علم سے منع كرتى تھيں _ حتى كہ اس زمانے كے ايك بہت بڑے تاجر نے قيصر روم سے انوشيروان كى جنگ كے تمام لازمى اخراجات اس شرط پر اپنے ذمہ لينے كى پيشكش كى كہ اس كے بيٹے كو حصول علم كى اجازت دى جائے (2) _ بلكہ بعض عربى قبيلے تو لكھنے پڑھنے سے آشنائي كو اپنے لئے عيب سمجھتے تھے (3) _اس كى طرف ہم نے اس سيرت كى بحث كے مقدمہ ميں اشارہ كرديا تھا_ شائقين وہاں مراجعہ فرمائيں_
بہر حال اسلام ان نازك حالات اور مشكل لمحات ميں بھى دس مسلمان بچوں كو تعليم دينے كے بدلے ميں اپنے سخت ترين دشمنوں كو بھى آزاد كرنے آيا _ حالانكہ وہ ان قيديوں سے فديہ بھى لے سكتا تھا يا خود ان سے مسلمانوں كے مشقت والے كام كرائے جاسكتے تھے بلكہ وہ انہيں قريش پر سياسى دباؤ كا ذريعہ بھى بناسكتے تھے_ اور يہ كام اس نئے جنم لينے والے معاشرے كے لئے نہايت ضرورى بھى تھے جسے دوسرے معاشرے دھتكارنے اور تباہ و برباد كرنے پر تلے ہوئے تھے جبكہ اس نئے معاشرے كو اپنى زندگى ، بقائ، اسلامى حكومت كے قيام اور آسمانى تعليمات كے نشر و اشاعت كے لئے جنگوں سے بھر پور ايك طويل اور پر مشقت راستہ طے كرنا تھا_
---------------------------------------------------------
1)نسب قريش مصعب زبيرى ص 174 و الاصابہ ج1 ص 344 از نسب قريش_
2)خدمات متقابل اسلام و ايران ص 283 ، 284و 314نيز ملاحظہ ہو ص 310 از شاہنامہ فردوسى ج 6 ص 258 تا 260_
3)الشعر والشعراء ص 334 والتراتيب الاداريہ ج2 ص 248_

366
قيديوں سے سلوك
يہاں قابل ملاحظہ ہے كہ جن مسلمانوں نے كل مشركوں سے سختياں اور تلخياں چكھى تھيں وہ آج اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل كرچكے تھے اور جن لوگوں نے كل انہيں اذيتيں دى تھيں ، دربدر كيا تھا، تمام مال و اسباب چھين ليا تھا اور قطع رحمى كى تھى وہ آج انہى كے ہاتھوں ذلت اور رسوائي ميں مبتلا ہوگئے تھے اور ان كى ہمدردى كے محتاج ہوگئے تھے، تو آپ لوگوں كے خيال ميں وہ مسلمانوں سے كس قسم كے سلوك كى توقع ركھ سكتے تھے ؟ يا مسلمان ان سے كس قسم كا اور كس طرح كا بدلہ ليتے؟
توقعات اور خيالات تو ذہن ميں بہت سے آسكتے ہيں ليكن مسلمانوں نے ان تمام توقعات كے برخلاف ان سے كسى قسم كا بدلہ لينے كى كوشش نہيں كى اور نہ ہى اس فرصت سے كوئي فائدہ اٹھانے كى كوشش كى _ بلكہ ان كے عظيم رہنما (حضرت محمد مصطفى (ص) ) كى طرف سے صرف ايك جملہ صادر ہوا كہ قيديوں سے ہر ممكن اچھا سلوك كرو_ اور مسلمانوں نے بھى اس حكم كى پيروى كى اور انہوں نے قيديوں كو اپنے مال و اسباب تك ميں شريك كرليا_ حتى كہ بعض توايثار كا مظاہرہ كرتے ہوئے اپنا كھانا تك بھى قيديوں كو كھلا ديتے تھے (1)

سودہ كا آنحضرت(ص) كے خلاف قيديوں كو بھڑكانا
يہاں قابل تامل اور تعجب بات يہ ہے كہ ہے (آنحضرت(ص) كى زوجہ) ام المؤمنين سودہ بنت زمعہ مشرك قيديوں كو آنحضرت(ص) اور مسلمانوں كى خلاف بھڑكاتى رہي_اور واقعہ كچھ يوں ہے كہ جب بدر كے قيديوں كو مدينہ لايا گيا اور سودہ نے سہيل بن عمرو كورسى كے ساتھ پس گردن بندھے ہاتھوں سے گھر كے ايك كونے ميں ديكھا تو كہتى ہے كہ '' بخدا جب ميں نے ابويزيد كو اس حالت ميں ديكھا تو مجھ سے رہا نہ گيا اور ميں آپے سے باہر ہوكر كہنے لگي: ''او ابويزيدتم لوگوں نے اپنے ہاتھ ان كے آگے جوڑ ديئے؟كيا تم شرافت كى موت نہيں
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو : طبرى ج2 ص 159 ، الكامل ابن اثير ج2 ص 131 ، سيرہ ابن ہشام ج2 ص 299 و ص 300 المغازى واقدى ج1 ص 119 و تاريخ الخميس ج1 ص 388_

367
مرسكتے تھے؟'' اور خدا كى قسم مجھے اس وقت ہوش آيا جب گھر كے اندر سے مجھے سول (ص) خدا كى آواز سنائي دي_ آپ (ص) فرمارہے تھے: '' سودہ كيا تو انہيں خدا اور رسول (ص) خدا كے خلاف بھڑكانا چاہتى ہے ؟'' جس پر ميں نے آنحضرت(ص) سے عرض كيا : '' يا رسول اللہ (ص) آپ(ص) كو برحق نبى بناكر بھيجنے والى ذات كى قسم جب ميں نے ابويزيد كو اس حالت ميں ديكھا كہ اس كے ہاتھ پس گردن بندھے ہوئے ہيں تو مجھ سے رہا نہ گيا اور جو كچھ منہ ميں آيا كہہ ديا '' (1)_
اور بعض دستاويزات ميں يہ اشارہ بھى ملتاہے كہ سودہ كا اپنى زندگى ميں آنحضرت(ص) كے ساتھ رويّہ اكثر و بيشتر منفى رہا ہے حتى كہ يہ بھى ملتاہے كہ آنحضرت(ص) اسے طلاق دينے پر بھى آمادہ ہوگئے ليكن اس نے آپ(ص) كو واسطہ دے دے كر دوبارہ رجوع كرنے پر راضى كيا اور اپنے حصے كے دن اور رات سے بھى عائشہ كے حق ميں دست بردار ہوگئي كيونكہ عائشہ ہر وقت اس كى تعريف كيا كرتى تھي_ حتى كہ اس نے يہ بھى كہا تھا كہ سودہ سے زيادہ مجھے كوئي بھى شخص زيادہ عزيز نہيں ہے _ ميرا تو دل كرتاہے كہ سودہ كے جسم ( روايت ميں كينچلى كا لفظ آيا ہے ) ميں ميرى روح سماجاتى ... (2)
---------------------------------------------------------
1) البدايہ والنہايہ ج3 ص 307_
2) الاصابہ ج4 ص 338 و ديگر كثير منابع_