الصحيح من سيرة النبى الاعظم(ص)
259
مشركوں كى ہٹ دھر مى اور كينہ توزي
بدر كے كنويں پر مسلمانوں نے قريش كے چند ايك غلاموں كو پكڑ ان سے تجارتى قافلے كے متعلق پوچھ گچھ كى توانہوں نے اس سے لا علمى كا اظہار كيا جس پر مسلمانوں نے انہيں مارا پٹيا_ اس وقت آنحضرت (ص) نماز ميں مصروف تھے ، آپ(ص) نے جلدى جلدى نماز مكمل كى اور فرمايا:'' وہ تمہيں سچ سچ بتا رہے ہيں تو تم انہيں مار رہے ہو كيا جھوٹ بولنے پر انہيں چھوڑ وگے؟ '' _ پھر آپ(ص) نے ان سے لشكر قريش كى تعداد كے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس سے بھى لا علمى كا اظہار كيا _ جس پر آپ(ص) نے ان سے پوچھا : '' وہ ہر روز كتنے اونٹ ذبح كرتے ہيں؟'' _ انہوں نے كہا :'' نو سے دس تك ذبح كرتے ہيں'' _ اس پر آپ(ص) نے فرمايا : '' اس كا مطلب ہے وہ لوگ نو سو سے ايك ہزار تك كى تعداد ميں ہيں''(1)_ (البتہ اس سے زيادہ تعداد بھى بتائي گئي ہے حتى كہ يہ بھى كہا گيا ہے كہ ان كى تعداد تين ہزار تك تھى ليكن يہ صحيح نہيں ہے) _ پھر آپ(ص) نے ان لوگوں كو قيد كرنے كا حكم ديا تو انہيں قيد كر ليا گيا _ جب مشركين كو اس بات كا علم ہوا تو وہ اپنے بدر آنے پر بہت نادم اور پريشان ہوئے كيونكہ تجارتى قافلے كے صحيح سالم بچ نكلنے كى خبر سن كر بھى انہوں نے عربوں پر اپنى دہشت بٹھانے كے لئے بدر آنے پر بہت اصرار كيا تھا_
عتبہ بن ربيعہ ( جس كا بيٹا ابو حذيفہ رسول (ص) كريم كے ساتھ تھا) نے بھى يہ اعتراف كيا تھا كہ تجارتى قافلے كى نجات كے بعد ان كا بدر آنا ہٹ دھرمى اور كينہ توزى پر مبنى تھا_ حالانكہ واپسى كا متفقہ فيصلہ كرنے كى كوششيں بھى ہوئيں ليكن ابوجہل نے واپسى سے انكار كرتے ہوئے كہا تھا : '' نہيں ، لات و عزّى كى قسم جب تك ان پر يثرب ميں دھا و ابول كر انہيں قيد كركے ( ذلت اور خوارى كے ساتھ) مكّہ نہيں لے آئيں گے يہاں سے واپس نہيں پلٹيں گے _ تا كہ سارے عرب ميں اس بات كا چرچا ہو اور آئندہ كوئي بھى ناپسنديدہ شخص ہمارے اور ہمارے تجارتى راستے كے درميان ركاوٹ كھڑى كرنے كى كوشش نہ كرے''(2) البتہ
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو : سيرہ نبويہ ابن ہشام ج 2 ص 269 تا ص 298 ، المغازى و اقدى ج 1 ص 53 ، البدايہ و النہايہ ج 3 ص 263تا ص 264، دلائل النبوة بيہقى ج 2 ص 327 و ص 328، السنن الكبرى ج 9 ص 147 و ص 148 ، زاد المعاد ج3 ص 175، صحيح مسلم ج 5 ص 170، كشف الاستار ج 2 ص 311 ، طبقات الكبرى مطبوعہ صادر ج 2 ص 15، تاريخ الامم و الملوك ج 2 ص 132 تا ص 134 و ص 142 و سيرہ حلبيہ ج 2 ص 152_
2) بحار الانوار ج 19 ص 250 از تفسير قمى نيز ملاحظہ ہو : المغازى واقدى ج 1 ص 71_

260
جيسا كہ پہلے بھى كہا جا چكا ہے اخنس بن شريق كے ايماء پر بنى زہرہ كا قبيلہ وہيں سے واپس پلٹ گيا تھا_

دونوں فوجوں كا پڑاؤ
مشركين، بدر كے مقام پر پہلے پہنچ گئے اور انہوں نے مكہ كے راستے پر پڑنے والي'' عدوة القصوى '' نامى وادى ميں پڑاؤ كيا جہاں پانى موجود تھااور ان كے پڑاؤ كى جگہ سخت تھي_ قريش كا تجارتى قافلہ بھى مشركين كى فوج كے پيچھے موجود تھا(1) ارشاد خداوند ہے ( و الركب اسفل منكم) _جبكہ مسلمانوں نے مدينہ كى جانب پڑنے والى '' عدوة الدنيا '' نامى وادى ميں پڑاؤ كيا جہاں پانى بھى نہيں تھا اور زمين بھى ايسى نرم تھى كہ قدم بھى نہيں جم سكتے تھے _ جس كا مطلب يہ تھا كہ مسلمانوں كى جگہ فوجى نقطہ نظر سے نہايت نامناسب تھى _ ليكن خدا نے دشمنوں كے مقابلے ميں اپنے بندوں كى مدد اور حمايت كى اور راتوں رات مشركوں كى جگہ پر بارش برسى تو ان كى جگہ كيچڑ ميں تبديل ہوگئي جبكہ اسى بارش نے مسلمانوں كى جگہ پر برس كر زمين كو سخت اور ٹھوس كرديا تھا اور مسلمانوں نے گڑھوں اور تالابوں ميں پانى بھر ليا تھا(2)_

مسلمانوں كى معنويات اور پروردگار كى عنايات
جب مسلمانوں تك مشركوں كى كثرت كى خبر پہنچى تو وہ گھبراگئے اور خدا سے دعا اور زارى كرنے لگے_ حضرت امام محمد باقر عليہ السلام كى روايت ہے كہ جب رسول (ص) خدا نے مشركوں كى كثرت اور مسلمانوں كى قلت كو ديكھا تو قبلہ رو ہو كر يہ دعا مانگى :'' پروردگار اپنى مدد كا وعدہ پورا كر _ خدايا اگر تونے اپنے ان عزيزوں كو مارديا تو پھر زمين پر كبھى تيرى عبادت نہيں ہوگي''_
---------------------------------------------------------
1) البتہ عنقريب ذكر ہوگا كہ وہ تجارتى قافلہ صحيح سالم بچ كرنكل گيا تھا كيونكہ ابوسفيان اس قافلہ كو مدينہ اور مسلمانوں كے رستے سے دور ساحل سمندر كے راستے سے بچا كر لے گيا تھا_
2) سيرہ نبويہ ابن ہشام ج 2 ص 271 و ص 272 ، تاريخ الخميس ج 1 ص 375 ، تاريخ الامم و الملوك مطبوعہ الاستقامہ ج 2 ص 144 ، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 154، الكامل فى التاريخ ج 2 ص 122، دلائل النبوة بيہقى مطبوعہ دار الكتاب العلميہ ج 3 ص 35 و البدايہ و النہايہ ج 3 ص 266_

261
اس پر يہ آيت نازل ہوئي :
(اذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم انى ممدكم بالف من الملائكة مردفين و ما جعلہ اللہ الا بشرى و لتطمئن بہ قلوبكم) (10)
'' (اور وہ وقت يا كرو ) جب تم اپنے پروردگار سے گڑ گڑا كر مدد مانگ رہے تھے تو خدا نے بھى تمہارى سن لى اور قطار اندر قطار ايك ہزار فرشتے بھيجے اور خدا نے انہيں صرف خوشخبرى دے كر بھيجا تا كہ تمہارے دل مطمئن ہو جائيں''
پس كمزورى اور گھبرا ہٹ محسوس كركے خدا سے امداد كى درخواست كرنے والے مسلمانوں كى مدد صرف ان كى تسكين خاطر اورروحانى تقويت نيز سرد پڑتے دلوں كو گرمانے كے لئے تھے _ پھر اس كے بعد خدا نے مسلمانوں پر نيند طارى كردى اور وہ سوگئے اور اس كے بعد خدا نے بارش بھيج دى _ اس كا ذكر خدا نے يوں كياہے (اذ يغشيكم النعاس امنة منہ و ينزل عليكم من السماء ماء ليطہركم بہ و يذہب عنكم رجز الشيطان و ليربط على قلوبكم و يثبت بہ الاقدام)(2) _ ترجمہ '' ( ياد كرو اس وقت كو ) جب خدا كى طرف سے تمہيں پر امن نيند نے آليا اور آسمان سے اس لئے مينہ برسا كہ تمہيں ( اور تمہارے دلوں كو ) صاف ستھرا كردے ، شيطان كے وسوسوں كو نكال باہر كرے ، تمہارے دلوں كو مضبوط كردے اور تمہيں ثابت قدم ركھے''_
جى ہاں اتنے ہولناك خطرے كا سامنا كرنے والے ايسے لوگوں كے لئے اونگھ اور ہلكى نيند بہت ضرورى تھى جويہ جانتے تھے كہ ان كے پاس اس خطرے كا سامنا كرنے اور اسے ٹالنے كے لئے كوئي قابل ذكر مادى وسائل نہيں ہيں_ ہاں يہ نيند ان كے لئے ضرورى تھى تا كہ ايسى خطرناك رات ميں شيطانى وسوسے ان پر غلبہ نہ پاليں جس ميں چھوٹى چيزيں بھى بڑى اور موٹى نظر آتى ہيں_ اور اگر وہ چيز خود طبيعى طور پر بڑى ہو تو پھر
---------------------------------------------------------
1) انفال : 9و 10_
2) ص : 11_

262
كيا حال ہوگا؟ _ يہ نيند اس لئے بھى ضرورى تھى كہ انہيں اطمينان اور سكون كى ضرورت تھى '' امنة '' _ نيز اسى امن و سكون اور ايمان كے ذريعہ ان كے دلوں كو مضبوط كرنے كى بھى ضرورت تھى تا كہ خطرے كا سامنا كرتے وقت وہ كمزورى نہ دكھائيں اور كمزورى ، تاثير پذيرى اور گھبرا ہٹ كى بجائے عقل سے كام ليں اور غور و فكر كے ساتھ كوئي كام كريں اور موقف اپنائيں_ اسى نيند اور بارش كے ذريعہ سے خدا نے ان كے دلوں كو مضبوط اور طاقتور بناديا _ حتى كہ وہ ان باتوں سے يہ جان كر مطمئن ہوگئے كہ ان پر خدا كى نظر كرم ہے اور خدا كى الطاف و عنايات ان كے شامل حال ہيں_ جس كے بعد انہيں كمر شكن حادثات اور دشمن كى صف شكن كثير تعداد كى بھى كوئي پرواہ نہ رہى _ جبكہ اس كے بدلے ميں خدا نے كافروں كے دلوں ميں رعب اور خوف طارى كر ديا تھا_ اس كى طرف انشاء اللہ بعد ميں اشارہ كريں گے_
يہاں يہ بھى كہا جاتا ہے كہ خدا نے سورہ '' محمد(ص) ''جيسى مكى سورتوں ميں ، اپنے انبياء كے خلاف گروہ بندى كر كے محاذ آرائي كرنے والوں اور ثمود اور فرعون كے ذكر كے بعد يہ خبر دے دى تھى اور پيشين گوئي كر دى تھى كہ مسلمانوں كے ساتھ بھى ايسے حادثات و واقعات پيش آئيں گے جو ان گروہوں كے ساتھ پيش آئے تھے_ بعض كے بقول آيت (جند ما ہنالك مہزوم من الاحزاب )(1)_ترجمہ '' يہاں كئي ايسے لشكر بھى ہيں جو چھوٹے گروہوں سے شكست كھانے والے ہيں'' _ واقعہ بدر كے متعلق ہے_

اس جنگ كے مقاصد
يہاں پر سب سے اہم اور قابل ملاحظہ بات يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم يہاں خود صراحت كے ساتھ فرما رہے ہيں كہ يہ جنگ ايك فيصلہ كن جنگ ہے _ اور اس كا مقصد بھى خدا كى عبادت كے لئے آزادى كا حصول تھا _ اس جنگ سے نہ ذات كى پرستش مقصود تھى ، نہ مال ، نہ كوئي امتياز ، نہ مقام ، نہ حكومت اور نہ ہى كوئي اور چيز _ يعنى خدا كى عبادت ميں آزادى كے حصول كے علاوہ اس جنگ كا كوئي اور مقصد نہيں تھا _
---------------------------------------------------------
1) ص : 11 _

263
خاص طور پر جب قريش كو يہ احساس بھى ہوگيا تھا كہ وہ اقتصادى اور نفسياتى طور پر تنگى ، ذلت اور كمزورى كا شكار ہوگئے ہيں كيونكہ انہيں معلوم ہوگيا تھا كہ شام اور ديگر علاقوں تك جانے والے ان كے تجارتى قافلوں كے راستے اتنے پر خطر ہوگئے ہيں كہ قريشيوں كے ارادے پست كر سكتے ہيں بلكہ ان كے وجود كو بھى متزلزل كر سكتے ہيں جس كى وجہ سے وہ كمزور موقف اپنا نے پر بھى مجبور ہو جائيں گے _ ( اس صورت ميں مسلمان ان اہداف كى خاطر بھى لڑسكتے تھے ليكن ان كا مقصد ان چھوٹى چيزوں سے كہيں بلند و بالا تھا)_
جبكہ مشركوں نے بھى اپنا موقف واضح كرديا تھا _ اور يہ بتاديا تھا كہ اس جنگ سے ان كا مقصد عربوں پر اپنى دھاك بٹھانا اور اپنے اور تجارتى راستے كے درميان كسى ناپسنديدہ شخص كو حائل ہونے سے روكنا تھا _ فريقين كے اہداف نيز ہر ايك كى بہ نسبت جنگ كے نتائج ميں بھى زمين اور آسمان كا فرق تھا _ جس پر انشاء اللہ بعد ميں گفتگو كريں گے_

صف آرائي
جب صبح ہوئي تو حضرت رسول (ص) خدا نے اپنے اصحاب كى صفوں كو منظم كيا _ اس دن آپ(ص) (ص) كا علم مبارك اميرالمؤمنين حضرت على عليہ السلام كے ہاتھوں ميں تھا (1)_ اور عنقريب غزوہ احد ميں ہم يہ بھى انشاء اللہ ثابت كريں گے كہ جنگ بدر بلكہ ہر موقع پر حضرت على عليہ السلام ہى آپ(ص) كے علمدار تھے (2)_ پس يہ جو كہا جاتا ہے كہ جنگ بدر ميں آنحضرت (ص) كے ايك سے زيادہ علم تھے كہ مصعب بن عمير يا حباب بن منذر كے پاس بھى ايك علم تھا ، يہ صحيح نہيں ہے _ مگر يہ كہا جائے كہ مہاجرين كا پرچم مصعب كے پاس اور انصار كا پرچم
---------------------------------------------------------
1) المناقب خوارزمى ص 102، الآحاد و المثانى ابن ابى عاصم النبيل كو پلى لائبريرى ميں خطى نسخہ نمبر 235 ، مسند الكلابى در انتہاء المناقب ابن مغازلى ص 434 ، خود المناقب ابن مغازلى ص 366، الاستيعاب بر حاشيہ الاصابہ ج 3 ص 33 و ص 34 ، مستدرك حاكم ج 3 ص 11 ، اس كے حاشيہ پر تلخيص مستدرك ذہبى ، مجمع الزوائد ج 9 ص 125 ، منقول از شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد طبع اولى ج 2 ص 102 ، جمہرة الخطب ج 1 ص 428، الاغانى مطبوعہ دار الكتب ج 4 ص 175 وتاريخ طبرى مطبوعہ دار المعارف ج 2 ص 430_
2) زندگانى امام امير المؤمنين (ع) از تاريخ ابن عسا كر با تحقيق محمودى ج 1 ص 145 ، ذخائر العقبى ص 75 از احمددر المناقب ، طبقات ابن سعد ج 3حصہ اول ص 14 ، كفايت الطالب ص 336 ، اسى كے حاشيہ ميں از كنز العمال ج 6 ص 398 از طبرانى و الرياض النضرہ ج 2 ص 202 نيز اسى ميں يہ بھى كہا گيا ہے كہ اس بات كو نظام الملك نے اپنى كتاب امالى ميں ذكر كيا ہے_

264
حباب كے پاس تھا يا اس طرح كى كوئي اور بات كہى جائے تو اور بات ہے وگرنہ اختلاف كو دور كرنے كى غرض سے پرچم (راية ) اور علم ( لوائ) ميں فرق بيان كرنے كى ان كى كوشش بھى ايك بے سود اور ناكام كوشش ہے _ كيونكہ دونوں چيزوں كے متعلق روايات ملتى ہيں كہ يہ دونوں چيزيں حضرت على عليہ السلام كے ساتھ خاص تھيں _ جس طرح كہ مندرجہ ذيل حاشيوں ميں مذكور دستاويزات سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے (1) _ نيز مزيد وضاحت انشاء اللہ واقعہ جنگ احد كے بيان ميں ہوجائے گي_
مزيد يہ كہ ابن سعد اور ابن اسحاق نے يہ ذكر كيا ہے كہ پرچم ( راية) واقعہ بدر كے بعد اور جنگ خيبر كے دوران بنايا گيا (2) _ يہ تو اس صورت ميں ہے كہ ہم علم ( لوائ) اور پرچم ( راية) كے درميان كسى فرق كے قائل ہوں وگرنہ بعض اہل لغت كے مطابق يہ دونوں الفاظ ايك دوسرے كے مترادف ہيں (3)_

طوفان سے قبل آرام
حضرت رسول (ص) خدا نے صحابہ كى صفين منظم كرنے كے بعد ان سے فرمايا ، '' نگاہيں نيچى كرلو ، لڑائي ميں پہل مت كرو اور كسى سے بھى بات مت كرو '' (4)_مسلمانوں نے بھى آنحضرت (ص) كے حكم كى تعميل ميں خاموشى اختيار كر لى اور نگاہيں نيچى كرليں_ اس صورتحال نے قريشيوں پر اپنا واضح اثر دكھا يا حتى كہ جب ان كا ايك آدمى كسى گھات و غيرہ كى تلاش ميں اپنے گھوڑے پر سوار مسلمانوں كے لشكر كا چكر لگا كر اپنى فوج كى طرف واپس پلٹا تو اس نے وہاں جاكر كہا : '' ان كے لشكر كے كسى بھى جگہ اور حصہ سے گھات يا كسى مدد و غيرہ كى كوئي اميد نہيں ہے _ ليكن يثرب ( مدينہ ) كے جنگجو دردناك اور اچانك موت ساتھ لائے ہيں _ كيا تم ديكھ نہيں رہے كہ وہ ايسے گونگے ہوگئے ہيں كہ كچھ بھى نہيں بول رہے؟اور ادہوں كى طرح پھنكار رہے ہيں _ ان كي
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہوں پچھلے دو حاشيوں ميں مذكور منابع_
2) سيرہ حلبيہ ج 2 ص 147_
3،4) سيرہ حلبيہ ج ص 147 و ص 148_

265
پناہ گاہيں صرف ان كى تلواريں ہيں؟ مجھے لگتا ہے كہ يہ پيچھے نہيں ہٹيں گے بلكہ مارے جائيں گے اور كم از كم اپنى تعداد جتنا افراد ماركر ہى مريں گے''_ اس پر ابوجہل نے اسے برابھلا كہا كيونكہ وہ ديكھ رہا تھا كہ اس بات سے اس كے ساتھيوں ميں خوف كى لہر دوڑ رہى تھى _
پھر ابوجہل نے مسلمانوں كى قليل تعداد كو نشانہ بناتے ہوئے اپنے ساتھيوں كا حوصلہ بڑھانے كے لئے كہا : '' وہ تو گنتى كے چند آدمى ہيں ، اگر ہم اپنے غلاموں كو ان كى طرف روانہ كرديں تو وہ بھى انہيں ہاتھ سے پكڑ كرلے آئيں گے_''
اس كے بعد آپ(ص) نے مشركين كى طرف اپنے ايك آدمى كے ذريعہ يہ پيغام بھيجا كہ'' اے قريشيو ميں تم سے لڑنا نہيں چاہتا _ مجھے تم عربوں كے حوالے كر كے واپس چلے جاؤ_اگر ميں سچا ہوا تو ميرى بڑائي اور بلندى تمہارى ہى بلندى اور عظمت ہے ليكن اگر ميں جھوٹا ہوا تو عرب كے درندے ميرا كام تمام كركے تمہارا مقصد پورا كرديں گے _'' يہاں پر مؤرخين كے بقول عتبہ بن ربيعہ نے مشركوں سے اس بات كو قبول كرنے پر زور اصرار كيا ليكن ابوجہل نے اس پر بزدلى كا الزام لگاتے ہوئے كہا كہ ( حضرت ) محمد(ص) اور ان كے ساتھيوں كو ديكھ كر اس كا پتا پانى ہوگيا ہے _ اور اسے (حضرت) محمد (ص) كے ساتھ شامل ہونے والے اپنے بيٹے ابوحذيفہ كى جان كا خطرہ لا حق ہوگيا ہے _ جب عتبہ تك ابوجہل كى يہ بات پہنچى تو وہ غصہ سے آگ بگولہ ہوگيا اوركہا : '' ابھى اس چوتيے (1) كو معلوم ہوجائے گا كہ كس كا پتا پانى ہوا ہے ميرا يا اس كا ؟ '' _ اس بات سے اس كى غيرت كى رگ بھى پھڑكى اور اس نے اپنے بھائي شيبہ اور بيٹے وليد كے ساتھ زرہ پہنى اور وہ رن ميں جاكر حريف طلب كرنے لگے_
يہاں پر ہم مندرجہ ذيل نكات كى طرف اشارہ كرتے ہيں:_
---------------------------------------------------------
1) ان الفاظ سے لگتا يہى ہے كہ اس نے ابوجہل كو مفعول ہونے كى گالى دى تھي، كيونكہ انصار بھى اسے اسى نام سے پكارتے تھے_ ملاحظہ ہو: مجمع الامثال ج1 ص 251 ضرب المثل ''اخنث من مصفر استہ'' ، البرصان والعرجان ص 102 و ص 103 متن و حاشيہ ، الغدير ج 8 ص 251 از الصواعق المحرقہ ابن حجر ص 108 ازدميرى در حياة الحيوان نيز الدرة الفاخرہ فى الامثال السائرہ ج1 ص 188_

266
الف: مشركين كے خوف كى وجوہات:
مشركين كو اس بات كا پورا پورا علم تھا كہ مسلمان جنگ كا پختہ ارادہ ركھتے ہيں_ اور اپنے دين اور عقيدے كى راہ ميں كم از كم اپنى تعداد جتنے آدميوں كو قتل كرنے كے بعد سب كے سب مرنے كے لئے بالكل تيار ہيں_ اور اسى بات نے مشركوں كے دل ميں رن كى دھاك بٹھادى كيونكہ وہ تو اپنے خيال ميں اس دنيا ميں بقاء اور دنياوى لذتوں اور فائدوں سے بہرہ مند ہونے كے لئے يہ جنگ لڑ رہے تھے_ اس صورتحال ميں مسلمانوں كا غيض و غضب كى شدت سے سكوت بھى ان كے خوف كى فضا ميں اضافے كا باعث بنا اور مشركوں كے دلوں ميں ان كا خوف اور رعب مزيد بيٹھ گيا _ اور ابھى ان كى سرگردانى اور حيرت ميں مزيد اضافہ ہونا تھا كيونكہ كچھ دير بعد شروع ہونے والى جنگ كى صورتحال اور مد مقابل كى چالوں سے وہ لا علم تھے اور انہيں كوئي ايسا اشارہ بھى نہيں مل رہا تھا جو انہيں جنگ كى صورتحال ، مد مقابل كى چالوں اور جنگ كے اثرات اور نتائج كى طرف رہنمائي كرتا_
اور مسلمانوں كے متعلق ابوجہل كا يہ كہنا كہ يہ تو گنتى كے چند آدمى ہيں، يہ مسلمانوں سے مشركوں كے مرعوب نہ ہونے پر دلالت نہيں كرتا _ كيونكہ اس نے يہ بات صرف اپنے ساتھيوں كا حوصلہ بڑھانے كے لئے كى تھى _ كيونكہ اس نے جنگ كے متعلق اپنے ساتھيوں كى ترديد اور بزدلى كا خاص طور پر مشاہدہ كيا تھا_ يہاں يہ اضافہ بھى ضرور كرتے چليں كہ خداوند عالم نے بھى جنگ كے بعض مراحل ميں مسلمانوں كى نظر ميں مشركوں كو اور مشركوں كى نظر ميں مسلمانوں كو كم تعداد ميں دكھلايا تا كہ وہ آپس ميں ضرور لڑيں اور خدا كا فيصلہ پورا ہو كر رہے_ اس بارے ميں مزيد گفتگو اس فصل كے اواخر ميں ہوگي_

ب : مشركين كو نبي(ص) كريم كى پيشكش پر ايك نگاہ :
آنحضرت (ص) نے مشركوں كے ساتھ ان كے نقطہ نظر ، طرز تفكر ، مفاد اور ان كى نفسيات كے مطابق بات كرنے كى كوشش كى _نيز آپ(ص) كى يہ باتيں ان كے اس مفاد كے بھى مطابق تھيں جس كے تحفظ كے لئے (وہ

267
اپنے ہى دعوے كے مطابق) يہاں لڑنے آئے تھے_ آپ(ص) كا يہ جملہ '' اگر ميں سچا ہوا تو ميرى وجہ سے تمہارى ہى شان بڑھے گى '' ان مشركوں كى حب جاہ سے بالكل ميل كھاتا ہے _ كيونكہ ان كى طاقت اور سركشى كى وجہ سے ان كے اوپر سردارى اور حكومت كا بھوت اس حد تك سوار ہوگيا تھا كہ ان كے نسلى اور قبائلى تعلقات پر بھى اثر انداز ہوگيا تھا اور وہ اس كى خاطر اپنے باپ اور بيٹوں سے بھى لڑنے مرنے پر تيار ہوجاتے تھے_
پھر آپ(ص) كا ان سے يہ فرمانا كہ '' اگر ميں جھوٹا ہوا تو عرب كے درندے ميرا كام تمام كركے تمہارا مقصد پورا كرديں گے''_ يہ بات بھى ان كى زندگى كے ساتھ محبت اور مالى مفاد سے ميل كھاتى ہے _ اور آپ(ص) كى شان و شوكت كے اعتراف كے ساتھ آپ(ص) سے جنگ كئے بنا ان كے واپس پلٹنے كا بھرم بھى ركھتى ہے اور اس بات سے وہ اپنى پسپائي كى تاويل اور توجيہ كركے اپنى آبرو بھى بچا سكتے تھے_ ليكن قريش كى سركشى اور تكبر اس بہترين ، منطقى اور قيمتى مشورے كو ماننے سے مانع ہوئي اور وہ اپنے جھوٹے تكبر اور احمقانہ اور بے باكانہ ڈينگوں كے سبب جنگ كرنے اور اس كے ہولناك نتائج بھگتنے پر بضد رہے_

ج: رسول (ص) خدا جنگ كى ابتداء نہيں كرنا چاہتے_
يہاں ہم يہ بھى ديكھتے ہيں كہ خود رسول (ص) خدا بھى جنگ كى ابتداء نہيں كرتے اور مسلمانوں كو بھى حكم ديتے ہيں كہ جنگ شروع نہ كريں بلكہ آپ(ص) مقابل كو اس مخمصے سے آبرومندانہ طريقے سے نكلنے كا ايك موقع دينا چاہتے تھے _
ليكن اگر وہ اس پيشكش كو ٹھكرا ديتے اور اپنى ہٹ دھرمى اور سركشى سے مسلمانوں پر چڑھائي پر بضد رہتے تو پھر مسلمان بھى اپنا دفاع كرنے اور حملہ آور كى چالوں كا جواب دينے كا حق ركھتے تھے ، چاہے وہ حملہ آور كوئي بھى ہو اور جيسا بھى ہو_
حضرت على عليہ السلام كا بھى آنحضرت(ص) كى حيات طيّبہ ميں بلكہ آپ(ص) كى رحلت كے بعد بھى دشمنوں كے ساتھ يہى رويّہ رہا_ بلكہ يہ تو( رسول (ص) خدا كى اتباع كرنے والے ائمہ ہدى كى پيروى ميں )شيعيان على (ع) كى رسم

268
اور ان كا خاصہ ہے _ اس پر مزيد گفتگو جنگ بدر كى گفتگو كے بعد ''سيرت سے متعلق كچھ ابحاث '' كے فصل كے ذيل ميں ديگر بحثوں كے ساتھ ساتھ انشاء اللہ شيعوں كى خصوصيات كى بحث ميں ہوگى _ البتہ اس كے كئي اشارے ذكر بھى ہوچكے ہيں_

نبى كريم (ص) سائبان تلے؟
مؤرخين كے بقول بدر ميں صحابہ نے آنحضرت (ص) كے لئے كھجور كى چھڑيوں سے ايك چھولدار ى تيار كى جس ميں آپ(ص) كے ساتھ صرف جناب ابوبكر تھے اور كوئي بھى نہيں تھا_ مؤرخين يہ دعوى بھى كرتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے اس بات سے بھى اتفاق كيا تھا كہ آپ(ص) كے ساتھ چند تازہ دم اصيل گھوڑے تيار رہيںتا كہ اگر جنگ ميں كاميابى ہوئي تو ٹھيك و گرنہ آپ(ص) گھوڑے پر سوار ہوكر مدينہ ميں اپنے ديگر صحابيوںسے ملحق ہوجائيںگے(1)_
ليكن يہ بات كسى بھى صورت ميں صحيح نہيں ہے _ كيونكہ معتزلى كے بقول : '' وہ چھولدارى كى بات تو نہايت حيرت انگيز ہے _ چھولدارى بنانے كے لئے ان كے پاس كھجور كى چھڑيوں كى اتنى بڑى تعداد كہاں سے آگئي تھى ؟ حالانكہ بدر ميں تو كھجور كے درخت نہيں تھے_ اور ان كے پاس جو تھوڑى بہت چھڑياں تھيں بھى تو وہ ان كے لئے ہتھياروں كا كام دے رہى تھيں_ كيونكہ منقول ہے كہ سات صحابيوں كے ہاتھ ميں تلوار كى جگہ چھڑياں تھيں جبكہ باقى صحابى تلواروں ، تيروں اور بھالوں سے مسلح تھے _ البتہ يہ نادر نظريہ ہے كيونكہ صحيح بات يہ ہے كہ تمام افراد ہتھياروں سے مسلح تھے _ ہوسكتا ہے كہ چند چھڑياں بھى ساتھ ہوں اور ان پر كوئي كپڑا و غيرہ ڈال كر كوئي سايہ بنايا گيا ہو و گرنہ يہاں كھجور كى چھڑيوں سے چھپر بنانے كى كوئي معقول وجہ نظر ميں آتى '' (2) ليكن ہم كہتے ہيں كہ :
الف : معتزلى كى يہ بات كہ تمام مہاجرين كے پاس اسلحہ تھا يہ ناقابل قبول ہے _ اس لئے كہ گذشتہ
---------------------------------------------------------
1) سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 222 و ص 279 ، المغازى واقدى ج 1 ص 49 و ص 55 ، الكامل ابن اثير ج 2 ص 122 ،شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 4 ص 118 ، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 155 _156 و ص 161 و ديگر كثير مآخذ
2) شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد معتزلى ج 4 ص 118

269
دستاويزات ميں ان كے اسلحہ كى تعداد مذكور ہوچكى ہے اور ان ميں كوئي ايسى بات نہيں ہے جو معتزلى كى بات كى تائيد كرتى ہو _ بلكہ لگتا يہى ہے كہ تھوڑے افراد ايسے تھے جو تيركمانوں سے مسلح تھے كيونكہ آنحضرت(ص) نے ان سے يہ فرمايا تھا كہ جب مشركين نزديك پہنچيں تب ان پر تيراندازى كرو _ شايد بعض كے پاس نيزے ، بعض كے پاس لاٹھياں اور بعض كے پاس تلوار يا خنجر تھے اور كچھ لوگوں كے پاس كھجور كى خشك چھڑياں بھى تھيں جن سے وہ اپنا بچاؤ كرتے تھے اور موقع پانے كى صورت ميں دشمن پر حملہ بھى كر سكتے تھے _
ب: اس كا آخرى نتيجہ بھى بے جاہے _ كيونكہ جن چھڑيوں پر كپڑا و غيرہ ڈال كرسائبان و غيرہ بنايا جاتا ہے انہيں خيمہ كہا جاتا ہے چھپر نہيں _ بلكہ بعض كى رائے ميں تو اسے خيمہ بھى نہيں كہتے _ اسى طرح معتزلى كا ان لوگوں كى اور ان كے تلواروں كى تعداد كے متعلق نظريہ بھى گذشتہ باتوں كے سبب مشكوك ہوجاتا ہے _
البتہ بنيادى طور پر ہم بھى اس مزعومہ سائبان كے وجود اور آنحضرت(ص) كے اس ميں بيٹھنے اور شكست كى صورت ميں آپ(ص) كے فرار كے انكارى ہيں ليكن ہمارے پاس مندرجہ ذيل دلائل ہيں :
ايك : نبي(ص) كريم جنگ كے كٹھن لمحات ميں فرار كرنے والے تھے ہى نہيں _
دو : مختلف مؤرخين سے منقول آپ(ص) كى يہ دعا '' اللہم ان تہلك ہذہ العصابة لا تعبد '' ( خدايا اگر تو نے اپنے ان عزيزوں كو مارديا تو پھر تيرى عبادت كرنے والا كوئي نہ رہے گا )
بھى اس دعوے كو جھٹلاتى ہے كہ اس جنگ ميں مشركوں كى كاميابى كى صورت ميں آپ(ص) اپنے گھوڑوں پر سوار ہو كر فرار كا ارادہ ركھتے تھے _ كيونكہ آنحضرت(ص) كے مدينہ پلٹ جانے كى صورت ميں بھى كرہ ارض پر خدا كى عبادت نہيں ہوسكتى تھى ( اس لئے كے بعد والى شق كے مطابق وہ آ پ(ص) كا اور آپ(ص) كے ماننے والوں كا پيچھا كرتے اور جان لئے بغير دم نہ ليتے ) _ تو آپ(ص) يہ بات فرما كر پھر يہ كام كيوں كرتے ؟
تين : اگر آنحضرت(ص) جنگ بدر ميں ( نعوذ با للہ ) شكست كھا جاتے توبھى مشركين آپ(ص) كو اپنى جان بچا كر كہيں جا كر پھر سے فوج اكٹھا كرنے كا موقع نہيں ديتے _ بلكہ وہ مدينہ پر ہى چڑھائي كر كے اس ميں اپنے لئے مشكلات كھڑى كرنے والوں كو سرے سے ہى نابود كرديتے _ اس لئے كہ وہ اب مدينہ كے قريب بھى

270
آئے ہوئے تھے ، كاميابى و كامرانى كامزہ بھى چكھ چكے ہوتے تھے اور ان كے پاس تعداد اور تيارى كے لحاظ سے ايك آئيڈيل اور قابل رشك فوج بھى موجود تھي_
چار : آپ(ص) چھپر كے نيچے محافظ كے ساتھ كيسے جاكر بيٹھ سكتے تھے؟ حالانكہ انہى مؤرخين كے بقول آپ(ص) نے جنگ بدر كے موقع پر خواب ميں اپنے آپ(ص) كو تلوار سونت كر يہ آيت پڑھتے ہوئے مشركوں كا پيچھا كرتے ہوئے ديكھا تھا ( سيھزم الجمع و يولون الدبر) ترجمہ : '' عنقريب ان كى فوج تتر بتر ہوكر پسپائي اختيار كرے گى '' (1) _ وہ تويہ بھى كہتے ہيں كہ آپ(ص) نے بنفس نفيس جنگ بدر ميں شركت كركے سخت لڑائي لڑى تھى (2) اور يہ بات بھى جنگ ميں آپ(ص) كى شركت پر دلالت كرتى ہے كہ كچھ لوگ آپ(ص) كے شانہ بشانہ لڑ رہے تھے،ايك آپ(ص) كے دائيں ، ايك بائيں ، ايك آگے اور ايك پيچھے تھا(3)_اور حضرت على عليہ السلام كى زبانى بھى منقول ہے كہ '' جنگ بدر كے موقع پر ہم آنحضرت(ص) كے ذريعہ مشركين سے اپنا بچاؤ كرتے تھے _ آپ(ص) سب سے زيادہ دلير شخصيت تھے اور آپ(ص) ہى سب سے آگے آگے تھے''(4)
اب يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ جناب ابوبكر اس وقت كہاں تھے؟ كيا رن ميں رسول (ص) خدا كے ساتھ تھے؟ يا پھر جا حظ كے عنقريب ذكر ہونے والے دعوے كے مطابق وہ قائد ، سردار اور رہنما كا كردار ادا كرنے كے لئے اكيلے چھو لدارى ميں بيٹھ گئے تھے؟ واقعہ بدركے بعد ايك فصل ميں جناب ابوبكر كى بہادرى اور چھولدارى ميں اس كے بيٹھنے كا ذكر آئے گا _ انشاء اللہ تعالى _
پانچ : جب مسلمانوں كے پاس صرف مقداد كے گھوڑے كے سوا كوئي اور گھوڑا تھا ہى نہيں تو پھر آنحضرت(ص) كے ( نعوذ باللہ) فرار كے لئے تيار كئي اصيل گھوڑے كہاں سے آگئے تھے؟ اور يہ گھوڑے دين اور مسلمانوں سے دفاع كے لئے جنگ ميں كيوں كام نہ آئے؟ حالانكہ وہاں ان كى اشد ضرورت تھي_
---------------------------------------------------------
1) تاريخ طبرى ج 2 ص 172_
2) سيرہ حلبيہ ج 2 ص 123 و ص 167 ليكن اس نے مذكورہ بات كى خلاف واقع توجيہ كى ہے كيونكہ اس نے كہا ہے كہ يہاں جہاد كا مطلب دعا ہے _ يہ سب باتيں چھپر والى حديث كو صحيح ثابت كرنے كى كوششيں ہيں_
3) المغازى واقدى ج 1 ص 78_
4) ملاحظہ ہو : تاريخ طبرى ج 2 ص 135، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 123، البدايہ و النہايہ ج 6 ص 37 و حياة الصحابہ ج 2 ص 677 از احمد و بيہقي_

271
نكتہ:
حضرت على (ع) سے منقول گذشتہ روايت كو اگر صحيح تسليم كر بھى ليا جائے تو بھى اس كى يہ توجيہ كرنى ہوگى كہ آپ(ع) اپنے بارے ميں نہيں بلكہ دوسروں كے متعلق مذكورہ جملہ ارشاد فرما رہے ہيں(1) كيونكہ حضرت على عليہ السلام نہ مشركوں سے ڈرنے والے تھے اور نہ ہى انہيں اپنى حفاظت كے لئے كسى پناہ گاہ كى ضرورت تھى _ انہيں جائے پناہ كى ضرورت كيونكر ہو سكتى تھى جبكہ بدر كے آدھے سے زيادہ مقتولين كو انہوں نے اكيلے ہى قتل كيا تھا اور باقى نصف كے قتل ميں بھى شريك تھے _ آپ(ص) كى مذكورہ بات كى مثال ايسے سے جيسے كوئي يہ كہے كہ ہمارے شہر ميں يہ چيز كھائي جاتى ہے ، يہ پہنى جاتى ہے يا ہم اس شہر ميں فلاں چيز بناتے ہيں_ حالانكہ ہو سكتا ہے اس شخص نے كبھى بھى وہ چيز نہ كھائي ہو ، و ہ لباس نہ پہنا ہو يا وہ چيز نہ بنائي ہو_

جنگ كى ابتدائ:
جنگ كى ابتداء عتبہ ، شيبہ اور وليد نے دوبدو لڑائي كے لئے حريف طلب كرنے كے ساتھ كى ، جن كے جواب ميں ادھر سے تين انصارى نكلے، ليكن انہوں نے ان سے كہا كہ تم لوگ واپس چلے جاؤ، ہم تم سے لڑنے نہيں آئے ہم تو قريش سے اپنا ہم پلہ حريف طلب كر رہے ہيں_ ان كى اس بات پر رسول (ص) خدا نے انہيں واپس بلا ليا اور آپ(ص) نے جنگ كى ابتداء اپنے رشتہ داروں سے كى كيونكہ آپ(ص) انصار سے اس جنگ كا آغاز نہيں كرنا چاہتے تھے(2)_اور يہ كہہ كر آپ(ص) نے حضرت على (ع) ، حمزہ اور عبيدہ بن حارث كو پكارا:'' عبيدہ چچا جان على (ع) اٹھو اور ان سے اپنے اس حق كا مطالبہ كرو جسے خدا نے تمہارے لئے قرار ديا ہے ... ...''_
جب وہ رن ميں گئے تو عتبہ نے ان سے حسب و نسب كے متعلق پوچھا تو سب نے اپنا تعارف كرايا اور شيبہ نے جناب حمزہ سے اس كا حسب نسب پوچھا تو اس نے كہا :'' ميں عبدالمطلب كا سپوت اور خدا اور اس
---------------------------------------------------------
1) البتہ يہ بھى ہو سكتا ہے كہ حضرت على عليہ السلام نے آپ(ص) كى شجاعت اور بے جگرى سے لڑائي كے بيان ميں مبالغہ آرائي كى ہو كہ على (ع) جيسا نڈر شير بھى آپ(ص) كى پناہ ڈھونڈھ رہا تھا_ اس كى اردو ميں مثال ميرا نيس كا يہ مصرع ہے انگارے تھے حباب تو پانى شرر فشاں (بلكہ پورى نظم)_
2) تفسير قمى ج 1 ص 664، بحار الانور ج 19 ص 313 و ص 353 و سعد السعود ص 102 _

272
كے رسول (ص) كا شير حمزہ ہوں'' _ اس پر شيبہ نے كہا: '' اے خدا كے شير اب تمہارا سامنا حلفاء (1) كے شير سے ہے اب ديكھتے ہيں تم ميں كتنا دم خم ہے''_
بہرحال ،حضرت على عليہ السلام جب وليد كو قتل كركے فارغ ہوئے تو ديكھا كہ جناب حمزہ اور شيبہ ايك دوسرے سے لپٹے ہوئے ہيں اور دونوں كے ہاتھوں ميں اپنى اپنى ٹوٹى ہوئي تلوار ہے _ يہ منظر ديكھ كر حضرت على (ع) نے جناب حمزہ سے فرمايا:'' چچا جان اپنا سر نيچے كيجئے '' _ اور چونكہ جناب حمزہ طويل القامت تھے اس لئے انہيں اپنا سر شيبہ كے سينے ميں گھسانا پڑا ، تو حضرت على (ع) نے شيبہ كے سر پر تلوار كا ايسا زور دار وار كيا كہ اس كا آدھا حصہ ( بھيجا) اڑكر دور جاگرا _ ادھر عتبہ نے عبيدہ كى ٹانگ كاٹ دى تھى اور عبيدہ نے بھى اس كا سر پھوڑا ہوا تھا پھر حضرت على (ع) نے آكر اس كا كام بھى تمام كرديا _ يوں حضرت على (ع) تينوں كے قتل ميں شريك ہوئے تھے_(2)
اور كتاب '' المقنع '' ميں ہندہ جگر خوارہ كے مندرجہ ذيل اشعار بھى اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ حضرت على عليہ السلام تينوں كے قتل ميں حصہ دار تھے:_

ما كان لى عن عتبة من صبر
ابى ، و عمى و شقيق صدري
اخى الذى كان كضوء البدر
بھم كسرت يا على (ع) ظہرى (3)
عتبہ كى جدائي پر مجھ سے صبر نہيں ہوسكتا _ اے على (ع) تونے ميرے باپ، چچا اور ميرے جگر كے ٹكڑے اور چاند سے بھائي كو مار كرميرى كمر توڑ دى ہے_
---------------------------------------------------------
1) يہ زمانہ جاہليت كے اس عہد كى طرف اشارہ ہے جس ميں قريش كے چند خاندانوں اور قبيلوں نے خون ميں ہاتھ رنگ كر ايك دوسرے كى مدد اور حمايت كا اعلان اور عہد كيا تھا_ اسے حلف لعقة دم كہا جاتا تھا ، معاہدے كے فريقوں كو حليف اور سب كو حلفاء يا احلاف كہا جاتا تھا _ حضرت على (ع) نے بھى نہج البلاغہ ميں اس كى طرف اشارہ كيا ہے _مترجم_
2) ملاحظہ ہو : المناقب ج 3 ص 119 از الاغانى و غيرہ ..._
3) شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 13 ص 283 ب، العثمانيہ ، قسم نقوض الاسكا فى ص 432 ، بحار الانوار ج 19 ص 292 و المناقب ابن شہر آشوب ج 3 ص 121_

273
اسى طرح سيد حميرى مرحوم نے حضرت اميرالمؤمنين عليہ السلام كى ثناميں مندرجہ ذيل شعر كہے ہيں:_

و لہ ببدر وقعة مشہورہ
كانت على اہل الشقاء دماراً
فا ذاق شيبة و الوليد منية
اذ صبحاہ جحفلاً جراراً
و اذاق عتبة مثلہا اہوى لہا
عضباً صقيلاً مرہفاً تياراً(1)
حضرت على عليہ السلام نے بدر ميں مشہور و معروف كارنامہ سرانجام ديا _ آپ(ص) نے اس دن ان بدبختوں كو تباہ و برباد كركے ركھ ديا _ جب دن كو بہت بڑے لشكر سے آپ(ع) كا سامنا ہوا تو آپ(ع) نے شيبہ اور وليد اور اسى طرح عتبہ كو بھى اپنى تيز ، آبدار اور كاٹ دار تلوار سے موت كا جام پلايا_
نيز حسان بن ثابت كے اشعار كے جواب ميں قبيلہ بنى عامركے كسى شخص نے مندرجہ ذيل اشعار كہے جو ہمارے مدعا كى تائيد كرتے ہيں:_

ببدر خرجتم للبراز فردكم
شيوخ قريش جھرة و تاخروا
فلما اتاہم حمزة و عبيدة
و جاء على بالمہند يخطر
فقالوا نعم اكفاء صدق فاقبلوا
اليہا سراعاً اذ بغوا و تجبروا
فجال على جولة ہا شمية
فدمرہم لما بغو ا و تكبروا(2)
بدر ميں تم لوگ لڑنے نكلے تو قريش كے سرداروں نے كھلم كھلاتمہيں واپس پلٹا ديا اور تم سے جنگ گوارا نہيں كيا اور دوسرے جنگجوؤں كے منتظر ہوئے_ پھر جب حضرت على (ع) ، حمزہ اور عبيدہ
---------------------------------------------------------
1) ديوان سيد حميرى ص 215 و الماقب ابن شہر آشوب ج 3 ص 122_
2) المناقب ابن شہر آشوب ج 3 ص 119 و بحار الانوار ج 19 ص 291_

274
كاٹ كار تلواريں لہراتے ہوئے نكلے تو انہوں نے مطمئن ہو كر كہا كہ ہاں يہ بالكل ہمارے ہم پلّہ ہيں_ اور جب انہوں نے تكبّر كےساتھ انہيں للكارا تو وہ جلدى سے جنگ ميں كود پڑے اور جب انہوں نے تكبر اور سركشى دكھانى شروع كردى تو حضرت على (ع) كا ہاشمى خون جوش ميں آيا اور انہوں نے اُن سب كونيست و نابود كر كے ركھ ديا_
اسى طرح حضرت على عليہ السلام نے معاويہ كو ايك خط ميں لكھا:''بالكل ميں ہى ابوالحسن تمہارے دادا عتبہ ، چچا شيبہ ، ماموں وليد اور بھائي حنظلہ كا قاتل ہوں _ ان كا خون خدا نے ہى ميرے ہاتھوں بہا يا تھا _ اب بھى ميرے پاس وہى تلوار ہے اور ميں نے اسى رعب و دبدبے اور جوش سے اپنے دشمنوں كو پچھاڑ اتھا''(1)_

تينوں جنگجوؤں كے قتل كے بعد
اس كے بعد حضرت على (ع) اور حضرت حمزہ جناب عبيدہ بن حارث كو اٹھا كر رسول (ص) خدا كى خدمت ميں لے آئے تو اس نے آنسو بہاتے ہوئے كہا :'' يا رسول (ص) اللہ كيا ميں شہيد نہيں ہوں؟'' _ آپ(ص) نے فرمايا: ''بالكل تم تو ميرے اہل بيت كے سب سے پہلے شہيد ہو''_ ( يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ عنقريب آپ(ص) كے اہل بيت سے شہيدوں كا تانتا بندھ جائے گا _ اور ہوا بھى يہي) _ پھر اس نے كہا : '' اگر اس وقت آپ(ع) كے چچا بزرگوار زندہ ہوتے اور اپنى آنكھوں سے يہ ماجرا ديكھتے تو يہ جان ليتے كہ ہم ان كى باتوں سے بہر حال بہترہيں''_
آپ(ص) نے پوچھا :'' تم كس چچا كى بات كر رہے ہو ؟ ''_ اس نے كہا :'' ابوطالب كى ، كيونكہ انہوں نے كہا تھا كہ :

كذبتم و بيت اللہ يبزى محمد
و لما نطا عن دونہ و نناظل
و نسلمہ حتى نصرع دونہ
و نذہل عن ابنائنا و الحلائل
---------------------------------------------------------
1) الفتوح ابن اعثم ج 2 ص 435 ، شرح نہج البلاغہ محمد عبدہ ج 3 ص 13 و الغدير ج 10 ص 151_

275
(قريشيو) خدا كى قسم تم يہ جھوٹ كہتے ہو كہ محمد (ص) ايك تر لقمہ ہے _ كيونكہ ہم اس كى حمايت ميں تيروں تلواروں اور نيزوں سے تم سے سخت جنگ كريں گے اور اپنے بيوى ، بچوں كو بھى اس پر قربان كرديں گے اور تم ہمارى لاشوں سے گذر كر ہى اس تك پہنچ سكوگے ( يعنى وہ يہ كہنا چاہتا تھا كہ حضرت ابوطالب نے صرف باتيں كى تھيں ليكن ہم عمل كركے دكھا رہے ہيں _ از مترجم )''_
اس پر آپ(ص) نے اس سے فرمايا :'' كياتم يہ نہيں ديكھ رہے كہ اس كا ايك بيٹا خدا اور اس كے رسول (ص) كى آنكھوں كے سامنے بپھرے ہوئے شير كى طرح چوكس كھڑا ہے اور دوسرا بيٹا حبشہ كى سرزمين ميں خدا كى راہ ميں جہاد ميں مصروف ہے؟ '' _ اس نے عرض كيا :'' يا رسول (ص) اللہ آپ(ص) اس حالت ميں بھى مجھے ڈانٹ رہے ہيں؟ '' _ تو آپ(ص) نے فرمايا :'' ميں تم پر ناراض نہيں ہو اليكن تم نے ميرے پيارے چچا كا نام ليا تو مجھے اس كى ياد ستانے لگى ''(1)_
اس روايت كے آخرى حصے كو چھوڑ كر بہت سے مؤرخين نے اس روايت كو نقل كيا ہے _ مؤرخين يہ بھى كہتے ہيں كہ يہ آيت ان چھ مذكورہ افراد كے بارے ميں نازل ہوئي (ہذان خصمان اختصموا فى ربہم فالذين كفروا قطعت لہم ثياب من نار )ترجمہ : '' يہ دونوں متحارب (گروہ ) اپنے اپنے رب كى خاطر لڑ رہے تھے اور كافروں كے لئے جہنم كى آگ كے كپڑے تيار ہو چكے ہيں''_ اور بخارى ميں مذكور ہے كہ ابوذر قسم اٹھا كر كہتا تھا كہ يہ آيت انہى مذكورہ افراد كے بارے ميں نازل ہوئي ہے(2)_نيز حضرت على (ع) ،جناب حمزہ اور عبيدہ كے بارے ميں يہ آيت بھى نازل ہوئي (من المومنين رجال صدقوا
---------------------------------------------------------
1) تفسير قمى ج 1 ص 265، بحار الانوار ج 19 ص 255 البتہ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 14 ص 80 ميں ہے كہ اس دن رسول (ص) خدا نے عبيدہ اور ابوطالب (ع) دونوں كے لئے مغفرت طلب فرمائي _ نيز الغدير ج 7 ص 316 _ ليكن نسب قريش مصعب زبيرى ص 94 ميں يوں آيا ہے كہ عبيدہ نے آپ(ص) سے عرض كيا : '' يا رسول اللہ كاش ابوطالب آج زندہ ہوتے تو اپنے ان اشعار كا مصداق اور تعبير ديكھ ليتے ...''_ بسا اوقات يہ كہا جاتا ہے كہ عبيدہ كے ادب اور اخلاص سے يہى بات زيادہ سازگار ہے _ ليكن ايسا نہيں ہے كيونكہ گذشتہ بات بھى اس كے ادب اور خلوص كے منافى نہيں ہے اس لئے كہ وہ اپنے آپ كو دين كى راہ ميں جان قربان كئے ہوئے ديكھ رہا تھا، اس بنا پر اس كى مذكورہ بات ميں كوئي حرج نہيں تھا _
2) بخارى مطبوعہ ميمينہ ج 3 ص 4 ، المناقب ابن شہر آشوب ج 3 ص 118 از مسلم البتہ ابوذر كى قسم كے بغير ، مستدرك حاكم ج 2 ص 386 اور اسى نے اور ذہبى نے اس كى تخليص ميں اس روايت كو صحيح قرار ديا ہے ، الغدير ج 7 ص 202از تفسير ابن كثير ج3 ص 212 ، تفسير ابن جزى ج 3 ص 38 ، تفسير خازن ج 3 ص 698 ، تفسير قرطبى ج 2 ص 25_ 26 ، صحيح مسلم ج 2 ص 550 و طبقات ابن سعد ص 518 اور ابن عباس ، ابن خيثم ، قيس بن عباد ، ثورى ، اعمش ، سعيد بن جبير اور عطاء سے بھى يہى منقول ہے_

276
ما عاہدوا اللہ عليہ ...)ترجمہ : '' مومنوں ميں كئي ايسے افراد بھى ہيں جنہوں نے خدا سے اپنا كيا ہوا وعدہ پورا كر دكھايا ... (1)_البتہ يہ بھى منقول ہے كہ يہ آيت فقط حضرت على عليہ السلام كے حق ميں اتري(2)_ اس كے علاوہ جنگ بدر ميں حضرت على عليہ السلام كى تعريف ميں كئي اور آيات بھى نازل ہوئيںجنہيں آپ ملاحظہ فرما سكتے ہيں(3)_
اس واقعہ كى روشنى ميں ہم مندرجہ ذيل چند عرائض كى طرف اشارہ كرتے ہيں:

الف: حضرت ابوطالب (ع) كے حق ميں آنحضرت (ص) كا غصہ:
جب آنحضرت (ص) اتنے مہذب اور محدود پيمانے پر اپنے چچا كے ناروا ذكر پر غصہ ہوسكتے ہيں تو خود ہى سوچئے كہ جناب ابوطالب پر كفر اور شرك كا ناروا الزام لگانے اور انہيں خدا كى بھڑكتى ہوئي آگ ميں دردناك عذاب كے مستحق ٹھہرانے پر آپ(ص) كا كيا موقف اور ردّ عمل ہوگا؟ كيا آپ لوگوں كے خيال ميں اس بات سے آنحضرت (ص) خوش ہوں گے؟ ہرگز نہيں_ حالانكہ يہ بے بنياد باتيں سياست كى ابجد سے بھى ناواقف افراد كى طرف سے صرف سياسى مقاصد كے لئے گھڑى گئيں_

ب: اپنے رشتہ داروں سے آنحضرت (ع) كى جنگ كى ابتدائ:
يہاں ہم يہ بھى ديكھتے ہيں كہ آنحضرت (ص) نے ہى انصار كے تين جنگجوؤں كو واپس بلا كر حضرت على (ع) ، حمزہ اور عبيدہ بن حارث كو رن ميں جاكر سب سے پہلے دشمن كا سامنا كرنے كا حكم ديا (4) _ اور يہ تينوں شخصيات
---------------------------------------------------------
1) الصواعق المحرقہ ص 80_
2) المناقب خوارزمى ص 188 و الكفاية خطيب ص 122_
3) المناقب ابن شہر آشوب ج 3 ص 118 و ديگر كتب_
4) البتہ امالى سيد مرتضى ج 1 ص 275 ، اعلام الورى ص 308، بحار الانوارج 48 ص 144 اور المناقب ابن شہر آشوب ج 4 ص 316 ميں ايك روايت مذكور ہے كہ حضرت امام موسى كاظم عليہ السلام نے نفيع انصار ى سے فرمايا :'' ... اور اگر تم عزت اور فخر ميں مقابلہ كرنا چاہتے ہو تو يہ سن لو كہ خدا كى قسم ہمارے قبيلے كے مشركوں نے تمہارى قوم كے مسلمانوں كو اپنا ہم پلّہ نہ سمجھتے ہوئے ان سے جنگ نہيں كيا بلكہ انہوں نے آنحضرت(ص) سے كہا كہ اے محمّد(ص) قريش سے ہمارے ہم پلّہ جنگجوؤں كو ہمارے مقابلے ميں بھيج'' _ ليكن ميرے خيال ميں دونوں باتوں ميں كوئي تضاد نہيں ہے كيونكہ ہوسكتا ہے كہ مشركين بھى ان سے جنگ كے لئے راضى نہ ہوں اور آنحضرت(ص) كا بھى انہيں رن ميں بھيجنے كا دل نہ ہو_

277
آپ(ص) كے رشتہ دار ہيں _ اور حضرت على عليہ السلام نے بھى حضرت نبي(ص) كريم كے متعلق فرمايا: '' جب جنگ چھڑ جاتى تھى اور دوبدو لڑائي كے لئے حريف طلب كئے جاتے تو آپ(ص) اپنے رشتہ داروں كو آگے كر كے اپنے صحابہ كو بچاليتے تھے _ جس كى وجہ سے عبيدہ جنگ بدر ميں ، حمزہ جنگ اُحد ميں اور جعفر جنگ مؤتہ ميں ماراگيا ...''(1)_
يہاں ہم يہ كہنے ہيں حق بجانب ہيں كہ جب آنحضرت (ص) جنگوں كى ابتداء اپنے رشتہ داروں سے كرتے ہيں تو اس بات سے آپ(ص) مہاجرين و انصار كونہ صرف زبانى كلامى بلكہ عملى طور پر يہ باور كرانا چاہتے تھے كہ آپ(ص) انہيں اپنے مقاصد تك پہنچنے اور اپنى ذات اور اپنے رشتہ داروں سے خطرات كوٹا لنے كا ذريعہ ( يعنى صرف قربانى كا بكرا) نہيں بناناچاہتے بلكہ آپ(ص) كے پيش نظر ايسے اعلى مقاصد تھے جن كے حصول كے لئے سب كو شريك ہونا پڑے گا اور آپ(ص) بھى خوشى ، غمى ، سختى ، آسانى ، دكھ اور سكھ تمام حالات ميں ان كے ساتھ برابر كے شريك تھے_ اور دوسروں سے جان كى قربانى طلب كرنے سے پہلے خود قربانى پيش كرتے تھے بلكہ آپ(ص) جتنا بھى ہوسكتا تھا دوسروں كو خطرات سے نكالنے كى كوشش كرتے تھے، چاہے اس كے بدلے ميں اپنے ہى رشتہ داروں كو خطرات ميں جھونك دينا پڑتا آپ(ص) جھونك ديتے_
اور يہ ايسى بات ہے جسے ہر اعلى مقصد ركھنے والے شخص ، سياست دان اور ہر ليڈر كے لئے بہترين نمونہ عمل ہونا چاہئے_ اسے چاہئے كہ اپنے مقاصد كے حصول كے لئے سب سے پہلے خود قربانى پيش كرے ، پھر اگر اسے دوسروں كى قربانيوں كى ضرورت پڑى تو اس كے پاس قربانى طلب كرنے كا جواز ہوگا اور ہر كوئي يہ كہے گا كہ وہ اپنے مطالبے ميں سچا اور حق بجانب ہے_ اور اسے عملى طور پر اپنے اغراض و مقاصد كى طرف بڑھنے كى بجائے مضبوط قلعوں ميں بيٹھ كر صرف دوسروں كو زبانى كلامى احكام صادر كرنے سے پرہيز كرنا چاہئے اور اپنے آپ كو اس ہدف كى طرف پيش قدمى كرنے والوں سے مستثنى سمجھ كر دوسروں پر صرف حكم
---------------------------------------------------------
1) انساب الاشراف ج 2 ص 81 ، شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 15 ص 77 ، كتاب صفين مزاحم ص 90 ، نہج البلاغہ حصہ خطوط خط نمبر 9 ، العقد الفريد ج 4 ص 336، المناقب خوارزمى ص 176 و نہج البلاغہ ج 3 ص 10 و ص 11_

278
چلانے پر اسے اكتفا نہيں كرنا چاہئے بلكہ اسے بھى دوسروں كے شانہ بشانہ اپنے مقصد كى طرف بڑھنا چاہئے بلكہ اسے دوسروں سے آگے آگے ہونا چاہئے كيونكہ ہدف چاہے كتنا ہى بلند ، اعلى اور مقدس ہوليكن پھر بھى اس كى جانب پيش قدمى پر اكسا نے اور ابھارنے كے لئے صرف باتوں كا خاطر خواہ اثر نہيں ہوتا اور نہ ہى خاطر خواہ نتيجہ نكلتا ہے بلكہ اس كے ساتھ عمل كى بھى اشد ضرورت ہوتى ہے_

ج : شيبہ كا توہين آميز رويّہ:
ہم نے وہاں يہ بھى مشاہدہ كيا كہ حضرت حمزہ كے اپنے آپ كو خدا اور رسول (ص) خدا كے شير كہنے پر شيبہ نے ان كا كس طرح مذاق اڑايا اور اپنے '' حلفائ''كے شير ہونے پروہ كس طرح اكڑ رہا تھا _ حالانكہ انصاف كا تقاضا اور حقيقت اس كے بالكل بر عكس ہے_ ان حلفاء كے خاص مفاد اور قبائلى طرز تفكر پر مبنى حلف كے بعض پست اور بے وقعت اہداف و مقاصد پر ہم پہلے روشنى ڈال چكے ہيں_ انہى مقاصد كے حصول كے لئے وہ بدر جيسى جنگيں لڑ رہے تھے_ اور ہم سب كو معلوم ہے بلكہ ان مشركوں كو بھى معلوم تھا كہ خدا ، رسول (ص) خدا اور شير خدا كے روئے زمين پر قربانى دينے كا مقصد صرف اور صرف دنيا اور آخرت ميں انسانيت كى نجات ، بھلائي اور كاميابى ہے_

د: خدا كى طرف سے مسلمانوں كو ملنے والا حق:
يہاں ايك سوال يہ بھى پيدا ہوتا ہے كہ وہ كو نسا حق تھا جس كى طرف آنحضرت (ص) نے حضرت على (ع) ، حضرت حمزہ اور جناب عبيدہ كو جنگ كا حكم ديتے ہوئے يوں اشارہ فرمايا تھا :'' ان سے اپنے اس حق كا مطالبہ كرو جسے خدا نے تمہارے لئے قرار ديا ہے''_ كيا يہ وہى عقيدے اور فكر كى آزادى كا حق نہيں تھا؟ اور كيا يہ مسلمانوں پر ظلم كرنے والے، انہيں اپنے ہى گھروں سے نكال باہر كرنے والے اور ان كا مال لوٹنے والے بلكہ كئي مسلمانوں كو قتل كرنے والے اور ان سب پربد ترين زيادتيوں كے مرتكب ہونے والے قريشيوں اور ان كے حملے كے مقابلے ميں دين الہى اور اپنى ذات كے دفاع كا حق نہيں تھا؟
279
خلاصہ كلام : يہ كہ مسلمان آزاد زندگى گذارنا چاہتے تھے اور منحرفوں اور ظالموں كے مقابلے ميںدين الہى كا دفاع كرنا چاہتے تھے _ اور مظلوم كو يہ حق حاصل ہے كہ وہ اپنے اوپر ظلم اور زيادتى كرنے والے سے انصاف كا مطالبہ كرے_ خاص كر جب حضور (ص) نبى كريم نے ان مشركين كے سامنے وہ مذكورہ پيشكش ركھى تھى ليكن وہ اپنى ہٹ دھرمى كى وجہ سے بھول كر بھى باز نہيں آئے بلكہ وہ پھونكوں سے چراغ الہى كو بجھانے ، مسلمانوں سے جنگ كرنے اور انہيں نيچاد كھانے پر بضدر ہے ، اسى لئے خداوند عالم كو يہ كہنا پڑا ( اذن للذين يقاتلون بانہم ظلموا و ا ن اللہ على نصرہم لقدير الذين اخرجوا من ديارہم بغير حق الّا ان يقولوا ربنا اللہ ) (1)

جنگ كے شعلے بھڑك اٹھے
جب ابوجہل نے عتبہ ، شيبہ اور وليد كو قتل ہوتے ديكھا تو حالات كو كنٹرول كرنے كى كوشش كرتے ہوئے كہنے لگا : '' ربيعہ كے بيٹوں كى طرح جلد بازى اور تكبر نہ كرو _ ايسا كرو كہ يثرب والوں ( يعنى انصاريوں ) پر حملہ كر كے ان سب كو گا جرمولى كى طرح كاٹ كر ركھ دو اور قريشيوں كو اچھى طرح كس كر قيد كر لو تا كہ انہيں مكّہ لے جا كر ان سے اچھى طرح پوچھ گچھ كريں كہ وہ كس گمراہى پر تھے ''_
اور ابن عباس اس آيت ( و ما رميت اذ رميت و لكن اللہ رمى ) كے متعلق كہتا ہے كہ حضرت جبرائيل (ع) كے كہنے پر آنحضرت(ص) نے حضرت على (ع) كو حكم ديا:'' مجھے مٹھى بھر كنكرياں اٹھا كردو '' _ حضرت على (ع) نے آپ(ص) كو مٹھى بھر چھوٹے سنگريزے اٹھا كرديئے ايك روايت كے مطابق وہ مٹى سے بھى اٹے ہوئے تھے ) _ آنحضرت (ص) نے وہ كنكرياں لے كر مشركوں كے چہروںكى طرف (شاہت الوجوہكہہ كر) پھينك ديں تو تمام مشركوں كى آنكھيں كنكريوں سے بھرگئيں _ ايك روايت ميں يہ بھى ہے كہ وہ كنكرياں ان كى آنكھوں كے علاوہ ان كے منہ اور ناك كے نتھنوں ميں بھى جا پڑيں _ پھر تو مسلمانوں نے انہيں يكے بعد ديگرے قتل يا قيد كرنا شروع كرديا (2) البتہ يہاں ابن عباس كا كام فقط مذكورہ آيت كو اس معجزاتى عمل سے مطابقت دينا تھا_
---------------------------------------------------------
1) حج / 39و 40_
2) بحار الانوار ج 19 ص 229 از تفسير ثعلبى ، المناقب ابن شہر آشوب ج 1 ص 189 نيز ملاحظہ ہو سيرہ حلبيہ ج 2 ص 167_

280
جنگ بدر ميں فرشتوں كا كردار
علماء كا اس بات ميں اختلاف ہے كہ خدا نے جب فرشتوں كو مسلمانوں كى مدد كے لئے بھيجا توكيا وہ صرف مسلمانوں كى ڈھارس بندھانے اور بزدلى دور كرنے كے لئے آئے تھے يا انہوں نے خود بھى جنگ ميں حصہ ليا تھا؟_ البتہ قرآن مجيد كى يہ آيت اس دوسرے نظريئےو رد كرتى ہے ( وما جعلہ الّا بشرى و لتطمئن بہ قلوبكم ) (1) ترجمہ : '' اور خدا نے فرشتوں كو صرف كاميابى كى خوشخبرى دے كر بھيجا تا كہ اس طريقے سے تمہارے دل مطمئن ہوں '' _ ليكن چند ايك ديگر آيتيں ان كے جنگ ميں شريك ہونے كى طرف اشارہ كرتى ہيں _ سورہ انفال كى يہ بار ہويں آيت بھى ان ميں سے ہے _ ( اذ يوحى ربك الى الملائكہ انى معكم فثبتو االذين آمنوا سالقى فى قلوب الذين كفروا الرعب ، فاضربوا فوق الاعناق و اضربوا منہم كل بنان ) ترجمہ : ( ياد كرو اس وقت كو ) جب تمہارے ربّ نے فرشتوں كو يہ وحى كى كہ (مسلمانوں كو جا كر خوشخبرى دوكہ گھبراؤ نہيں) ميں تمہارے ساتھ ہى ہوں اور مؤمنوں كو ثابت قدم ركھو _ ميں عنقريب كافروں كے دلوں ميں رعب ڈال دوںگا _ تو جا كر ان كے پس گردن بلكہ ہر طرف سے وار كرو '' _ البتہ يہ اشارہ اس صورت ميں قابل قبول ہوگا جب آيت ميں (فاضربوا ...) كے مخاطب فرشتے ہوں ، جس طرح كہ آيت سے بھى بظاہر يہى لگتا ہے _ ليكن اگر اس آيت ميں مخاطب مسلمان جنگجو ہوں تو پھر اس آيت ميں بھى فرشتوں كے جنگ كرنے كے بارے ميں كوئي اشارہ نہيں ہوگا _
بہر حال صورتحال جو بھى ہو ، ايك بات مسلم ہے كہ تمام فرشتے حضرت على عليہ السلام كى صورت ميں ظاہر ہوئے تھے (2) اور ہوسكتا ہے كہ وہ كافروں كى نظر ميں مسلمانوں كى تعدا د زيادہ دكھانے كا سبب بنے ہوں
---------------------------------------------------------
1) انفال / 15 _
2) بحار الانوار ج 19 ص 285 از المناقب ، ليكن ديگر مؤرخين سے مروى ہے كہ وہ فرشتے زبير كى شكل و صورت ميں نازل ہوئے _ كيونكہ زبير كے سر پر زرد عمامہ (پگڑى ) تھا اور ملائكہ بھى سر پر زرد عمامے باندھے ان پر نازل ہوئے _ اس بارے ميں ملاحظہ ہو: مستدرك حاكم ج 3 ص 361 ، حياة الصحابہ ج 3 ص 586 از مستدرك و كنز العمال ص 268 از طبرانى و ابن عساكر و مجمع الزوائد ج 6 ص 84 ليكن مذكورہ بات كى نفى دلائل النبوہ ابو نعيم ص 170 و حياة الصحابہ ج 3 ص 586 ميں مذكور وہ روايتيں كرتى ہيں جن ميں آيا ہے كہ جنگ بدر كے دن ملائكہ سر پر سفيد عمامہ باندھے نازل ہوئے تھے _

281
كيونكہ خداوند عالم كا ارشاد ہے ( و يكثر كم فى اعينہم ) '' اور خدا نے ان كى آنكھوں ميں تمہيں كثير جلوہ گر كيا ''_

جنگ جمل ميں بى بى عائشہ كا كردار
اسى مناسبت سے ہم يہاں يہ ذكر بھى كرتے چليں كہ ( آنحضرت (ص) كى نقل كرتے ہوئے ) جنگ جمل ميں بى بى عائشہ نے بھى كہا تھا كہ مجھے مٹھى بھر مٹى چاہئے _ جب اسے مٹى فراہم كى گئي تو بدروالوں كے ساتھ رسول (ص) خدا كے سلوك كى طرح اس نے بھى حضرت اميرالمؤمنين عليہ السلام كے ساتھيوں كى طرف رخ كر كے اس پر پھونك مارتے ہوئے كہا : '' شاہت الوجوہ '' (چہرے بگڑ جائيں ) _ يہ منظر ديكھ كر حضرت على عليہ السلام نے فرمايا :'' و ما رميت از رميت و لكن الشيطان رمى و ليعودن و بالك عليك ان شاء اللہ '' ( شيطان نے تمہارے ذريعہ يہ مٹى پھينكى ہے _ اس كا برا انجام بھى انشاء اللہ تمہارى ہى گردن پكڑے گا) (1) _
اسى طرح جب بى بى عائشہ نے حضرت على عليہ السلام كو جنگ جمل ميں اپنى فوج كى صفوں ميں ايسے چكر لگاتے ہوئے ديكھا جيسے جنگ بدر ميں رسول (ص) خدا اپنى فوج كى صفوں كى نگرانى كر رہے تھے ، تواس نے كہا : ''اسے ديكھو تو سہى مجھے تو لگتا ہے كہ وہ تم پر كاميابى كے لئے دوپہر كے وقت سورج كے زوال كا انتظار كر رہا ہے '' (2) اور ہوا بھى ايسے ہى ، نيز اس موقع پر بھى اميرالمؤمنين حضرت على (ع) نے بالكل سچ فرمايا تھا_

شكست اور ذلت
بہر حال خدا نے مشركين كو بہت برى طرح شكست سے دوچار كيا _ اس جنگ ميں ابوجہل بھى ماراگيا _
---------------------------------------------------------
1) كتاب الجمل شيخ مفيد ص 186 و شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 1 ص 257 نيز ملاحظہ ہو الفتوح ابن اعثم ج 2 ص 325_
2) الفتوح ابن اعثم ج 2 ص 214 _ يہاں بدر اور جمل كے واقعات اور شخصيتوں كے كردار و گفتار كى عينى يا عكسى مشابہت بھى نہايت حيرت انگير ہے البتہ يہاں تفصيل كى گنجائشے بالكل نہيں ہے ليكن ذہين قارئين سے بھى پوشيدہ نہيں ہے _ مترجم

282
رسول (ص) خدا نے اسے پہلے ہى پيشين گوئي كردى تھى كہ خدا اسے آپ(ص) كے سب سے كمزور صحابى كے ہاتھوں مارے گا _ بلكہ آپ(ص) نے وقوعہ سے پہلے ہى اسے جنگ بدر كا سارا واقعہ بتا ديا تھا (1) _ تو اسے ايك انصارى نے قتل كرديا تھا پھر ابن مسعود نے آكر اس كا سر كاٹ ديا تھا_ يہ بھى منقول ہے كہ ابن مسعودنے اسے آخرى سانسوں ميں پايا تو اس نے آكر اس كا كام تمام كرديا _ ليكن پہلى بات حقيقت سے قريب ترہے اس لئے كہ اس كا سامان ابن مسعود كے علاوہ كسى اور نے غنيمت كے طور پر لوٹا تھا _
جنگ بدر كا سب سے پہلا بھگوڑا ابليس ملعون تھا _ كيونكہ روايات كے مطابق وہ مشركين كو قبيلہ بنى كنانہ كے ايك بزرگ سراقہ بن مالك مدلجى كى شكل ميں دكھائي ديتا تھا _ اور وہ اس لئے كہ قريش قبيلہ بنى بكر بن عبد مناف كو كسى خونى معاملے كى وجہ سے اپنے ساتھ ملانے سے ڈرتے تھے جس كى وجہ سے ابليس قريشيوں كو سراقہ كى شكل ميں نظر آيا اور انہيں مطلوبہ ضمانت فراہم كى اور وہ سب ساتھ ہولئے _ ليكن جب اس نے مشركين كى حالت زار ديكھى اور مسلمانوں كى مدد كو آئے ہوئے ملائكہ كو بھى مشاہدہ كيا تو وہ اس كام سے پيچھے ہٹ گيا جس كى وجہ سے مشركين شكست كھا گئے تو مكّہ والے يہ كہنے لگے كہ سراقہ بھاگ گيا _ ليكن ( اصلى ) سراقہ نے كہا : '' مجھے تو تمہارے جانے كا بھى اس وقت پتہ چلا جب تمہارى شكست كى خبر مجھے ملى '' _ پھر انہيں مسلمان ہونے كے بعد معلوم ہوا كہ وہ تو شيطان تھا _
يہ بھى مروى ہے كہ جب ابوسفيان نے قافلہ كو مكّہ پہنچاديا تو خود واپس پلٹ آيا اور قريش كى فوج كے ساتھ مل كر بدر كے ميدان تك آيا _ اور اس جنگ ميں اسے بھى كئي زخم لگے اور وہ واپس بھاگتے ہوئے گھوڑے سے گرپڑا اور پھر پيدل ہى مكّہ جاپہنچا (2)_
---------------------------------------------------------
1) بحار الانوار ج 19 ص 267 از الاحتجاج و حضرت امام حسن عسكرى عليہ السلام سے منسوب تفسير ص 118 و ص119
2) تاريخ الخميس ج 1 ص 375_

283
دوسرى فصل: جنگ كے نتائج

285
جنگ كے نتائج :
جنگ بدر ميں مشركين كے ستر آدمى مارے گئے اور اتنے ہى قيد كرلئے گئے _ البتہ يہ بھى منقول ہے كہ پينتاليس آدمى قتل اور اتنے ہى قيدى ہوئے _ ليكن ہوسكتا ہے اس دوسرے نظريئےى بنياد بعض مؤرخين كى يہ بات ہو كہ مذكورہ مقدار ميں يا اس سے زيادہ مشركين قتل ہوگئے _ جس سے انہوں نے يہ سمجھ ليا كہ يہ ان كے مقتولين اور قيديوں كى آخرى تعداد ہے _ ليكن مذكورہ بات اس بات پر دلالت نہيں كرتى كہ مقتول مشركين كى كل تعداد اتنى تھى بلكہ صرف اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ راوى كو اتنى تعداد كا علم ہوسكا ہے _
ليكن مسلمانوں كے شہدا كے متعلق مختلف نظريات ذكر ہوئے ہيں _ نو بھى مذكور ہے ، گيارہ بھى اور چودہ شہيدوں كا نظريہ بھى ہے كہ جس ميں سے چھ مہاجر تھے اور آٹھ انصارى _ البتہ قيد كوئي نہيں ہوا تھا _ جبكہ مال غنيمت ميں مشركين كے اڑھائي سو اونٹ ، دس گھوڑے ( البتہ ابن اثير كے مطابق تيس گھوڑے ) اور بہت زيادہ ساز و سامان ، اسلحے ، چمڑے كے بچھونے ، كپڑے اور چمڑے مسلمانوں كے ہاتھ لگے تھے (1) _

حضرت على عليہ السلام كے كارنامے:
مشركين كے اكثر مقتولين ، مہاجرين بالخصوص آنحضرت (ص) كے رشتہ داروں اور خاص كر خود حضرت على عليہ السلام كے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے تھے_ اور اس دن كافروں كو بہت بڑى مصيبت ، اور شكست دينے كى وجہ سے كافروں نے آپ(ع) كو '' الموت الاحمر'' ( سرخ موت ) كا نام ديا (2)_
---------------------------------------------------------
1) المغازى واقدى ج 1 ص 102 و 103 ، الكامل ابن اثير ج 2 ص 118 و سيرہ حلبيہ ج 2 ص 183_
2) المناقب ابن شہر آشوب ج 2 ص 68_

286
اور ايسا كيوں نہ ہو جبكہ شبعى ہميں يہ كہتا ہوا نظر آتا ہے كہ '' پورے عرب كو اس بات كا اعتراف ہے كہ على (ع) سب سے زيادہ بہادر شخصيت تھے'' (1) _ اور گذشتہ فصل ميں '' جنگ كى ابتدا'' كے تحت عنوان حسان بن ثابت كے اشعار كے جواب ميں قبيلہ بنى عامر كے ايك آدمى كے اشعار اور اپنے مقتولين كے مرثيہ ميں ہندہ كے اشعار بھى اس بارے ميں ذكر ہوچكے ہيں _
نيز مشركين قريش كو حضرت على عليہ السلام كے خلاف بھڑكاتے ہوئے اسيد بن ابى اياس نے مندرجہ ذيل اشعار كہے:

فى كل مجمع غاية اخزاكم
جذع ابرعلى المذاكى القرح
للہ دركم المّا تنكروا
قد ينكر الحر الكريم و يستحي
ہذا ابن فاطمة الذى افناكم
ذبحاً و قتلاً قعصة لم يذبح
اعطوہ خرجاً و اتقوا تضريبہ
فعل الذليل وبيعة لم تربح
اين الكہول و اين كل دعامة
فى المعضلات و اين زين الابطح
افناہم قعصاً و ضرباً يفترى
بالسيف يعمل حدہ لم يصفح(2)
---------------------------------------------------------
1) نور القبس ص 249_
2) اسد الغابہ ج 4 ص 20 و 21 ، زندگى امام على (ع) در تاريخ دمشق باتحقيق محمودى ج 1 ص 15 ، ارشادمفيد ص 47 ، المناقب ابن شہر آشوب ج 3 ص 121 ، بحار الانوار ج 19 ص 282 ، انساب الاشراف با تحقيق محمودى ج 2 ص 188 و تيسير المطالب ص 50 _

287
ہر ٹكراؤ پر آخر كار اس نے تمہيں خوار كيا _ سوئي كى طرح كا ايك لاغر آدمى اچھے بھلے شہ زوروں پر غالب آرہا ہے _ تمہيں خدا كا واسطہ بتاؤ كيا اب بھى تمہيں شرمندگى محسوس نہيں ہوئي؟ حالانكہ ان باتوں سے تو كسى بھى شريف آزاد خيال آدمى كو بھى شرمندگى اور پچھتا وا ہوسكتا ہے _ يہ فاطمہ ( بنت اسد ) كا چھوكرا تمہيں گا جرمولى كى طرح كاٹ كاٹ كر نيست و نابود كرتا جارہا ہے _ اس كے تند و تيز مہلك وار سے بچ بچا كر اسے اپنے اس پست كام اور بے فائدہ بيعت كا مزاچكھاؤ _ كہاں ہيں وہ بزرگ ، كہاں ہيں مشكلات ميں وہ پناہ گا ہيں اور كہاں ہيں مكّہ اور بطحاء كے سپوت _ على (ع) نے ہى انہيں فورى موت كا مزہ چكھايا ہے _ اس نے تلوار كے ايك ہى وار سے ان كا كام تمام كرديا ہے _ وہ اكيلے ہى يہ كام كررہا ہے اور كسى كو معاف بھى نہيں كر رہا _
وہ على (ع) كو سرخ موت كيوں نہ كہتے ؟ جبكہ بعض روايات كے مطابق جنگ بدر ميں ہى جبرائيل (ع) نے آسمان اور زمين كے درميان آكر ندادى :
( لافتى الّا على لا سيف الّا ذوالفقار)
( جوان ہے تو صرف على (ع) ہے اور تلوار بھى ہے تو صرف ذوالفقار ہى ہے )
البتہ يہ بھى كہا جاتا ہے كہ جبرائيل نے يہ صدا جنگ احد ميں لگائي تھى _ انشاء اللہ اس بارے ميں مزيد بات بعد ميں ہوگى _ بہر حال مشركين كے ستر مقتولين ميں سے آدھے كو حضرت على (ع) نے بذات خود اكيلے ہى واصل جہنم كيا تھا اور باقى نصف كے قتل ميں بھى شريك رہے تھے (1) _ اور شيخ مفيد نے تو حضرت على (ع) كے ہاتھوں قتل ہونے والے چھتيس مشركين كا نام بھى ذكر كيا ہے (2) _ ابن اسحاق كہتا ہے كہ جنگ بدر ميںاكثرمشركين كو حضرت على عليہ السلام نے ہى قتل كيا تھا (3) _ طبرسى اور قمى كہتے ہيں كہ آپ(ع) نے ستائيس
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو : دلائل الصدق ج 2 ص 353 كے ضمن ميں نہج الحق _ اور اس بات پر فضل ابن روز بہان جيسے متعصب نے بھى كوئي اعتراض نہيں كيا _
2) الارشاد ص 43 و 44 ، بحارالانوار ج 19 ص 277 و 316از الارشاد و اعلام الورى ص 77_
3) المناقب ابن شہر آشوب ج 3 ص 120 و بحارالانوار ج 19ص 291

288
مشركوں كو قتل كيا (1) _ جبكہ اسامہ بن منقذ كہتا ہے كہ دوسروں كے ساتھ مشركوں كے قتل ميں شريك ہونے كے علاوہ چوبيس كو آپ(ع) نے بذات خود قتل كيا (2) _ شبلنجى كہتا ہے كہ '' بعض مؤرخين كے بقول غزوہ نويسوں كا اس بات پر اتفاق ہے كہ جنگ بدر ميں كل ستر آدمى قتل ہوئے تھے اور راويوں كے متفقہ فيصلے كے مطابق ان ميں سے اكيس آدميوں كو صرف حضرت على (ع) نے قتل كيا اور چار كے قتل ميں دوسروں كا ساتھ ديا البتہ آٹھ مقتولين كے قاتل كے بارے ميں اختلاف رائے پايا جاتا ہے '' (3) _
واقدى نے كل بائيس مقتولين كا نام ليا ہے جن ميں سے اٹھارہ حضرت على (ع) كے ہاتھوں قتل ہوئے جبكہ چار كے متعلق اختلاف ہے (4) اور معتزلى اور ابن ہشام نے ( بالترتيب) كہا ہے كہ حضرت علي(ع) نے انتيس مشركوں كو فى النار كيا يا كل باون مقتولين ميں سے اتنے كے قتل ميں دوسروں كا ساتھ ديا (5) ليكن تعدا دميں يہ اختلاف زيادہ اہميت كا حامل نہيں ہے كيونكہ ان مقتولين كا نام ذكر كرنے والے مؤرخين نے تھوڑى كمى بيشى كے ساتھ پچاس كے لگ بھگ مقتولين كا نام ذكر كيا ہے (6) _ ان ميں بھى ہم ديكھتے ہيں كہ حضرت على عليہ السلام نے ان ميں سے نصف يا اس سے بھى زيادہ تعداد كو قتل كيا اور اگر يہ لوگ باقى افراد كا نام بھى جان ليں تو يقينا ( دوسروں كے ساتھ مشركين كے قتل ميں شراكت كے علاوہ ) خود حضرت على عليہ السلام كے ہاتھوں قتل ہونے والوں كى تعداد ستر كے نصف بلكہ اس سے بھى زيادہ تك پہنچ جائے گى _
حقيقت تو بالكل يہى ہے ليكن ان مذكورہ مؤرخين كے بعد آنے والے مؤرخين نے ان پچاس افراد كو (جنہيں مذكورہ افراد نے پچاس كے ضمن ميںنام كے ساتھ ذكر كيا ہے ) كل تعداد سمجھ ليا ہے حالانكہ يہ تعداد كل تعداد كا ايك حصہ ہے _ يہاں يہ نكتہ بھى قابل غور ہے كہ بعض مؤرخين جن افراد كا نام ذكر كرتے ہيں ان
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو ، تفسير قمى ج 1 ص 271 و بحار الانوار ج 19 ص 240 از مجمع البيان
2) لباب الآداب ص 173
3) نور الابصار ص 86
4) المغازى واقدى ج 1 ص 147 تا ص 152
5) ملاحظہ ہو : سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 365 تا ص 372 و شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 14 ص 208 تا 212
6) شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 14 ص 212 و ابن ہشام و واقدى و غيرہ

289
سے ديگر مؤرخين بالكل ناواقف ہيں اور اسى طرح معاملہ برعكس بھى ہے _ اور يہ چيزہمارى اور شيخ مفيد و غيرہ كى باتوں كى تائيد اور تاكيد كرتى ہے _
بہرحال ، اميرالمؤمنين حضرت على عليہ السلام كے ہاتھوں قتل ہونے والے لوگوں ميں مندرجہ ذيل افراد بھى تھے _ طعيمہ بن عدى ، ابوحذيفہ بن ابوسفيان ، عاص بن سعيد بن عاص( جس سے سب لوگ ڈرتے تھے) ، نوفل بن خويلد ( يہ قريش كا شرير ترين آدمى تھا ) اور عاص بن ہشام بن مغيرہ (1) _

ايك اور جھوٹى روايت
بعض لوگوں كے گمان ميں عاص بن ہشام بن مغيرہ كو جناب عمر بن خطاب نے ہى ہلاك كيا تھا (2) وہ روايت كرتے ہيں كہ عمر نے سعيد بن عاص سے كہا : '' ميں نے تمہارے باپ كو نہيں بلكہ اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغيرہ كو قتل كيا تھا '' (3) _
ليكن يہ مشكوك بات ہے كيونكہ :
مذكورہ عاص ، عمر كا ماموں نہيں تھا _ اس لئے كہ عمركى ماں حنتمہ ہشام بن مغيرہ كى نہيں بلكہ ہاشم بن مغيرہ كى بيٹى تھى _ اور جن علماء نے اسے ہشام كى بيٹى كہا ہے (4) انہوں نے غلط كہا ہے _ ابن حزم كہتا ہے : '' ہاشم كا حنتمہ كے علاوہ اور كوئي وارث نہيں تھا '' (5) اور ابن قتيہ نے كہا ہے : '' اور عمر بن خطاب كى ماں ہاشم بن مغيرہ كى بيٹى حنتمہ تھى جو عمر كے باپ كى چچا زاد تھى '' (6) _
بلكہ يہ بھى كہا گيا ہے كہ حنتمہ سعيد بن مغيرہ كى بيٹى تھى (7) _
---------------------------------------------------------
1) المنمق ص 456 وا لاغانى مطبوعہ ساسى ج 3 ص 100_
2) سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 368 ، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 145 و نسب قريش مصعب زبيرى ص 301_
3) المغازى واقدى ج 1 ص 92 ، سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 289 ، نسب قريش مصعب زبيرى ص 176 ، البدايہ و النہايہ ج 3 ص 290 ، تاريخ الخميس ج 1 ص 381 ، حياة الصحابہ ج 2 ص 333 و الاصابہ و الاستيعاب _
4) تاريخ عمر بن خطاب ابن جوزى ص 19_
5) جمہرة انساب العرب ص 144_
6) الشعر و الشعراء ص 348_
7) تاريخ عمر بن الخطاب ابن جوزى ص 20_

290
البتہ بعض نے يہ احتمال ديا ہے كہ اس نے اسے اپنا ماموں كہہ كر اس سے اپنا مادرى قبليہ مراد ليا ہے كيونكہ عرب لوگ اپنے مادرى قبيلہ كے ہر فرد كو اپنا ماموں كہتے تھے جيسا كہ شاعر كا كہنا ہے :

ولو انى بليت بہاشمى
خؤولتہ بنى عبدالمدان
اور چاہے ميں اس ہاشمى كے چنگل ميں پھنس جاؤں جن كے ماموں بنى عبدالمدان كا قبيلہ ہے_
ليكن يہ احتمال اس كى باتوں سے ناسازگار ہے كيونكہ '' خالى '' ( مير اماموں ) كے لفظ سے ذہن ميں فوراً حقيقى اور سگے ماموں كا تصور بھر تا ہے _ اور لفظ'' اخوال'' ( ميرے ماموں ) كے مادرى قبيلے پر اطلاق كا يہ لازمہ نہيں ہے كہ يہ بات بھى صحيح سمجھى جائے كہ كوئي شخص '' خالى '' ( ميرا ماموں ) كہہ كر مادرى قبيلے كا ايك فرد مراد لے جبكہ وہ اس كا سگا ماموں ہو ہى نہ _ پس يہ كہنا تو صحيح ہے كہ '' بنو مخزوم اخوالنا '' (قبيلہ بنى مخزوم ہمارا مادرى قبيلہ ہے ) ليكن '' فلان المخزوى خالى '' (قبيلہ بنى مخزوم كا فلاں شخص ميرا ماموں ہے _ جبكہ وہ سگا نہ ہو يہ ) كہنا صحيح نہيں ہے _ اس لئے كہ دوسرے جملے سے حقيقى اور سگا ماموں مراد ليا جاتا ہے _
بلكہ بعض مؤرخين نے تو حنتمہ كو مخزومى ( قبيلہ بنى مخزوم كى عورت ) بھى ماننے سے سرے سے انكار كرتے ہوئے كہا ہے كہ ہاشم نے اسے راستے ميں پڑا ہوا ديكھا تو اسے اٹھا كر ساتھ لے آيا اور اسے پال پوس كر اس كى شادى خطاب سے كردى _ اس كى پرورش كرنے اور پالنے پوسنے كى وجہ سے عرب اپنى عادت كى بناپر حنتمہ كو ہاشم كى بيٹى كہا كرتے تھے(1)_

تو پھر صحيح كيا ہے ؟
ہو سكتا ہے كہ ابن ابى الحديد معتزلى اور شيخ مفيد كى بيان كى ہوئي مندرجہ ذيل روايت زيادہ معتبر ، حقيقت
---------------------------------------------------------
1) د لائل الصدق ج 3 حصہ 1 ص 56_

291
سے قريب تر اور اس وقت كے سياسى حالات اور سياسى فضا كے مناسب تر ہو _اس روايت كا خلاصہ يہ ہے كہ عثمان بن عفان اور سعيد بن عاص حضرت عمر كى خلافت كے ايام ميں اس كے پاس آئے _ عثمان تو اس محفل ميں اپنى پسنديدہ جگہ پر آكر بيٹھ گيا ليكن سعيد آكر ايك كونے ميں بيٹھ گيا تو عمر نے اسے ديكھ كر كہا:'' تم مجھ سے كترا كيوں رہے ہو ؟ ايسے لگتا ہے جيسے ميں نے ہى تمہارے باپ كو قتل كرڈالا ہو اسے ميں نے نہيں ابوالحسن ( حضرت على (ع) ) نے قتل كيا ہے '' ( البتہ شيخ مفيد كى روايت ميں يوں آيا ہے كہ پھر عمر نے كہا : ''جب ميں نے تمہارے باپ كو لڑائي كے لئے تيار ديكھا تو اس سے ڈرگيا اور اس سے ادھر ادھر ہونے لگا تو اس نے مجھ سے كہا كہ خطاب كے بيٹے كہاں بھاگے جا رہے ہو ؟ ليكن على (ع) اس كى طرف آيا اور اسے جاليا _ ابھى خدا كى قسم ميںا پنى جگہ سے ہلا بھى نہيں تھا كہ اس نے اسے وہيں مارڈالا ) _ وہاں حضرت على عليہ السلام بھى موجود تھے، انہوں نے كہا : '' خدايا معاف كرنا _ شرك اپنى تمام برائيوں سميت مٹ گيا اور اسلام نے گذشتہ تمام نقوش مٹاديئےيں _ ليكن تم كيوں لوگوں كو ميرے خلاف بھڑكا رہے ہو؟'' عمر اس بات كا جواب نہ دے پايا_ ليكن سعيد نے جواب ميں كہا : '' ليكن اگر ميرے باپ كا قاتل اس كے چچا زاد بھائي على بن ابى طالب عليہ السلام كے علاوہ كوئي اور ہوتا تو پھر مجھے اس كا افسوس ہوتا '' (2) _
پس اس روايت ميں يہ بات تو ملتى ہے كہ حضرت امام على عليہ السلام نے عمر كى جان بچائي ليكن يہ بات نہيں ملتى كہ عمر نے اپنے ماموں عاص بن ہشام كو قتل كيا ہو _ البتہ ( جس طرح پہلے بتا چكے ہيں) عاص ، عمر كا ماموں بھى نہيں تھا يا كم از كم اس كا عمر كا ماموں ہونا نہايت مشكوك ہے _ نيز اس روايت ميں خاص كر سعيد اور حضرت على عليہ السلام كى باتوں ميں كئي اور اشارے بھى ملتے ہيں _صاحبان فہم كو غور و فكر كى دعوت ہے_

نكتہ
جنگ بدر اور جنگ احد و غيرہ نے مشركين كے دلوں پر حضرت على عليہ السلام كى بہت زيادہ دھاك
---------------------------------------------------------
1) شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 4 1 ص 144 و ص 145 و الارشاد ص 46_

292
بٹھادى تھى _ حتى كہ يہ بھى منقول ہے كہ قريشى جب بھى حضرت على عليہ السلام كو كسى لشكر يا گروہ ميں ديكھ ليتے تو ايك دوسرے كو وصيتيں كرنے لگ جاتے تھے_
ايك مرتبہ جب آپ(ع) نے دشمن كى فوج كو تتر بتر كرديا تو ايك شخص نے آپ(ص) كو ديكھ كر كہا:''مجھے ايسے لگا كہ ملك الموت(موت كا فرشتہ) بھى اسى طرف جاتا ہے جس طرف على (ع) جاتا ہے''(1)_

مشركين كے مقتولين ، كنوئيں ميں:
جنگ ختم ہونے پر آنحضرت (ص) نے وہاں موجود ايك كنوئيں كو مٹى سے بند كراكے مشركين كى لاشوں كو اس ميں ڈالنے كا حكم ديا تو سب لاشيں اس ميں ڈال دى گئيں، پھر آپ(ص) نے ايك ايك مقتول كا نام لے كر پكارتے ہوئے پوچھا _''كيا تم لوگوں نے اپنے خداؤں كے وعدہ كى حقيقت ديكھ لى ہے ؟ ميں نے تو اپنے پروردگار كے وعدے كو سچا پايا ہے _ تم اپنے نبى (ص) كى بدترين قوم تھے _ تم نے مجھے جھٹلايا ليكن دوسرے لوگوں نے ميرى تصديق كى ، تم نے مجھے در بدر كيا ليكن دوسرے لوگوں نے مجھے ٹھكانہ ديا اور تم نے مجھ سے جنگ كى جبكہ دوسروں نے ميرى مدد كى '' يہاں عمر نے كہا :'' يا رسول(ص) اللہ كيا آپ(ص) مرنے والوں سے باتيں كر رہے ہيں؟''_ تو آپ(ص) نے فرمايا:'' وہ ميرى باتيں تم لوگوں سے زيادہ سن اور اچھى طرح سمجھ رہے ہيں ليكن وہ ميرى باتوں كا جواب نہيں دے سكتے''(2)_
ليكن بى بى عائشہ نے آنحضرت (ص) كى اس بات ''انہوں نے ميرى باتيں سن لى ہيں''كاانكار كرتے ہوئے كہا ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا:''وہ ميرى باتيں پہلے سے ہى جان چكے تھے''_ اور اپنى مذكورہ بات كى دليل كے طور پر يہ آيتيں پيش كى ہيں (انك لا تسمع الموتي)ترجمہ : '' آپ(ص) مردوں كو كوئي بات نہيں سنا سكتے'' _ اور (و ما انت بمسمع من فى القبور )(3) ترجمہ : '' اور آپ(ص) قبر ميں ليٹے مردوں كو كوئي بات نہيں
---------------------------------------------------------
1) محاضرات الادبا راغب اصفہانى ج 2 ص 138_
2) ملاحظہ ہو : فتح البارى ج 7 ص 234 و ص 234 نيز اسى مقام پر حاشيے ميں صحيح بخارى ، الكامل ابن اثير ، ج 2 ص 29 ، تاريخ الخميس ج 1 ص 386 ، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 82 و حياة الصحابہ ج 2 ص 333 و ص 334_
3) سيرہ حلبيہ ج 2 ص 82 ، نيز ملاحظہ ہو : مسند احمد ج 2 ص 31 و ص 38 و ديگر كتب _

293
سنا سكتے''_ ليكن بخارى ميں قتادہ سے مروى ہے كہ خدا نے ان كى روحوں كو ان كے جسم ميں واپس لوٹا ديا جس كى وجہ سے انہوں نے آنحضرت (ص) كى باتيں سن ليں_ اور بيہقى نے بھى يہى جواب ديا (1)_
ليكن ہم كہتے ہيں كہ اگر قتادہ كى بات صحيح ثابت ہوجائے تو يہ سردار انبيا حضرت محمد مصطفى صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا ايك معجزہ ہوگا_
البتہ حلبى نے اس كا جواب يوں ديا ہے كہ مردوں كا حقيقت ميں سننے ميں كوئي مضائقہ نہيں ہے، كيونكہ جب ان كى روحوں كا ان كے جسموں سے مضبوط تعلق پيدا ہوجائے تو ان كے كانوں سے سننے كا امكان پيدا ہو جاتا ہے _ اس لئے كہ سننے كى يہ حس ان كے اندر باقى رہتى ہے _ اور مذكورہ دو آيتوں ميں جس سماع كى نفى كى گئي ہے وہ مشركوں كو نفع پہنچانے والا سماع ہے _ اس كى طرف سيوطى نے بھى اپنے اشعار ميں يوں اشارہ كيا ہے:

سماع موتى كلام اللہ قاطبة
جاء ت بہ عندنا الاثار فى الكتب
و آية النفى معناہا سماع ہدي
لا يقبلون و لا يصغون للادب
تمام مردوں كے خدا كے كلام كو سننے كے متعلق ہمارى كتابوں ميں كئي روايتيں منقول ہيں _ اس لئے وہ قابل قبول ہے البتہ آيت ميں جس سماع كى نفى كى گئي ہے اس سے مراد ہدايت قبول كرنے والا سماع ہے كيونكہ وہ اپنى بے ادبى كى وجہ سے ہدايت كى ان باتوں پر كان نہيں دھرتے_
اس لئے كہ خدا نے زندہ كافروں كو قبر ميں پڑے مردوں سے اس وجہ سے تشبيہ دى ہے كہ وہ نفع بخش اسلام سے كوئي نفع حاصل ہى نہيں كرنا چاہتے (2)_
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو : بخارى باب غزوہ بدر نيز ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 14 ص 279 ميں معتزلى كا بيان _
2) ملاحظہ ہو : سيرہ حلبيہ ج 2 ص 82_

294
كيا '' مہجع'' سيد الشہداء ہے؟
مؤرخين كہتے ہيں كہ جب جنگ بدر ميں دونوں فوجوں كى صفيں منظم ہوگئيں تو سب سے پہلے ''مھجع'' ( عمر كا غلام ) جنگ كرنے نكلا اور مارا گيا _ بعض مشائخ كے بقول '' امت محمديہ (ص) ميں اسے سب سے پہلا شہيد كہا گيا'' _ اور اس كے متعلق رسول (ص) خدا نے فرمايا كہ مھجع تمام شہيدوں كا سردار ہے (1)_
ليكن يہ تمام باتيں مشكوك ہيں ، كيونكہ :
1_ يہاں يہ سوال پيدا ہوتے ہيں كہ اس امت كا سب سے پہلا شہيد مھجع كيوں كہلائے گا اور عمار كے والد جناب يا سريا ان كى والدہ جناب سميّہ اسلام كے پہلے شہيد كيوں نہيں كہلائے جاسكتے ؟ حالانكہ يہ دونوں شخصيات جنگ بدر سے كئي برس پہلے شہيد ہوئے_
نيز اسى جنگ بدر ميں مھجع سے پہلے شہيد ہونے والے عبيدہ بن حارث كو ہى اسلام كا سب سے پہلا شہيد كيوں نہيں كہا جائے گا؟
2_ ان كا يہ كہنا كہ صفوں كے منظم ہونے كے بعد وہ سب سے پہلے جنگ كرنے نكلا، ناقابل قبول ہے _ كيونكہ مسلمانوں سے سب سے پہلے حضرت على (ع) ، جناب حمزہ اور جناب عبيدہ بن حارث جنگ كے لئے نكلے تھے_
3_ ''مھجع'' كے سيد الشہداء ہونے والى بات كے ساتھ يہ روايت كيسے جڑے گى كہ '' حضرت حمزہ '' سيدالشہداء ہيں ؟ (2)_ اس بات كا ذكر انشاء اللہ غزوہ احد كى گفتگو ميں ہوگا_
وہ حضرت على (ع) كا يہ شعر بھى خو دہى نقل كرتے ہيں كہ :

محمّد النبى اخى و صہرى
و حمزة سيدالشہداء عمى (3)
---------------------------------------------------------
1) سيرہ حلبيہ 2 ص 61 نيز ملاحظہ ہو : المصنف ج 5 ص 351_
2) سير اعلام النبلاء ج 1 ص 172 ، مستدرك حاكم ج 3 ص 195و ص 199 ، تلخيص ذہبى ( مطبوعہ بر حاشيہ مستدرك ) ، مجمع الزوائد ج 9 ص 268 ، حياة الصحابہ ج 1 ص 571 و تاريخ الخميس ج 1 ص 164 و ص 165_
3) روضة الواعظين ص 87 ، الصراط المستقيم بياضى ج 1 ص 277 ، كنز الفوائد كراجكى مطبوعہ دار الاضواء ج 1 ص 266 و الغدير ج 6 ص 25 تا 33 از نہايت كثير منابع _

295
نبى كريم حضرت محمد مصطفى صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم ميرے ( چچا زاد ) بھائي اور ميرے سسر ہيں اور سيدالشہدا جناب حمزہ ميرے چچا ہيں _
اسى طرح خود حضرت على عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ '' اور سيدالشہداء حمزہ بھى ہم ميں سے ہى ہيں''(1)_
4_ ان كى يہ بات كہ'' مھجع مسلمانوں كاپہلا شہيد ہے'' اس بات كے ساتھ كيسے جمع ہوسكتى ہے كہ مسلمانوں ''كے سب سے پہلے شہيد عمير بن حمام ہيں''(2)؟_
حلبى نے اس كى يہ راہ نكالنے كى كوشش كى ہے كہ عمير انصارى مقتول تھا جبكہ اول الذكر مہاجر تھا _ ليكن پھر اس كا جواب يہ ديا ہے كہ سب سے پہلا انصارى شہيد تو حارثہ بن قيس تھا _ ليكن اس جواب كو پھر خود اس نے ہى يہ كہہ كر ٹھكرا ديا كہ حارثہ كسى نا معلوم تير سے مارا گيا تھا اور اس كا قاتل نا معلوم تھا(3)_
ليكن يہ واضح سى بات ہے كہ يہ صرف لفظوں كا كھيل ہے _ كيونكہ جب يہ كہا جاتا ہے كہ فلاں اسلام كا سب سے پہلا شہيد ہے يا بدر ميں مسلمانوں كى طرف سے سب سے پہلا شہيد ہے تو نہ ہى اس كے آلہ قتل كى كوئي بات ہوتى ہے نہ اس كے شہر يا علاقے كى اور نہ ہى اس كے قوم و قبيلہ كى _ و گرنہ بطور مثال يہ كہا جانا چاہئے تھا كہ فلاں مہاجرين كا سب سے پہلا شہيد ہے اور فلاں انصار كا اولين شہيد ہے_ يا فلاں سب سے پہلے تير سے شہيد ہوا يا نيزے سے شہيد ہو ا يا اس طرح كى ديگر باتيں ہوتيں تو يہ اس كے مطلوب اور مقصود سے زيادہ سازگار ہوتا_
پھر بھى اگر حلبى كى بات صحيح مان لى جائے تو يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ سيدالشہداء كا لقب عمير بن حمام ، عبيدہ يا حارثہ بن قيس كو چھوڑ كر صرف مھجع كو كيوں ديا گيا ؟ اور اسے ايسا لقب كس وجہ سے ديا گيا ؟ كيا اس وجہ سے كہ اس نے اسلام كى ايسى مدد اور حمايت كى تھى كہ دوسرے نہيں كر سكے تھے؟ يا يہ باقى دوسروں سے ذاتى اور اخلاقى فضائل كے لحاظ سے ممتاز حيثيت ركھتا تھا؟ يا صرف اس وجہ سے اسے سيد الشہداء كا لقب ملا
---------------------------------------------------------
1) الاستيعاب بر حاشيہ الاصابہ ج 1 ص 273 و الاصابہ ج 1 ص 354 ، نيز ملاحظہ ہو : بحار الانوار ج 44 ص 140 و المسترشد ص 57_
2) الاصابہ ج 3 ص 31 و سيرہ حلبيہ ج 2 ص 161_
3) سيرہ حلبيہ ج 2 ص 161_

296
كہ وہ عمر بن خطاب كا غلام تھا؟ پس اس وجہ سے اس كے پاس ايسى فضيلت ہونى چاہئے جو سيدا لشہداء حضرت حمزہ اور حضرت امام حسين عليہ السلام كے علاوہ كسى اور ميں نہيں پائي جاتى ؟ ہميں تو نہيں معلوم شايد سمجھدار قاريوں كو اس كا علم ہو_

ذوالشمالين:
بدر ميں ذوالشمالين بھى رتبہ شہادت پر فائز ہوا ( اسے ذوالشمالين اس لئے كہتے تھے كہ وہ ہر كام اپنے دونوں ہاتھوں سے كيا كرتا تھا ) _ اس كا اصل نام عمير بن عبد عمر و بن نضلہ بن عمر و بن غبشان تھا(1) _ البتہ يہاں ( نعوذ باللہ ) آنحضرت (ص) كے بھول چو ك اور ذوالشمالين كے آپ(ص) پر اعتراض كا ايك لمبا واقعہ مذكور ہے، ليكن چونكہ اسے '' سيرت سے متعلق چند ابحاث '' ميں ذكر كريں گے اس لئے يہاں اس كے ذكر سے چشم پوشى كرتے ہيں _پس وہاں مراجعہ فرمائيں_
البتہ جنگ بدرسے متعلق ديگر حالات و واقعات كے بيان سے قبل درج ذيل نكات بيان كرتے چليں:
الف : جنگ بدر ميں آنحضرت (ص) كى حفاظت كى خطير مہم
امير المؤمنين حضرت على (ع) فرماتے ہيں:'' جنگ بدر كے موقع پر ميں كچھ دير جنگ كرتا اور كچھ دير جنگ كرنے كے بعد ميں يہ ديكھنے كے لئے آنحضرت(ص) كے پاس آتا كہ آپ(ص) كا كيا حال ہے اور كيا كر رہے ہيں_ ميں ايك مرتبہ آپ(ص) كے پاس گيا تو ديكھا كہ آپ(ص) سجدے كى حالت ميں '' يا حى يا قيوم ''كا ورد كر رہے ہيں اور اس سے آگے كچھ نہيں فرما رہے ،ميں پھر واپس لڑنے كے لئے چلا گيا _ پھر كچھ دير لڑنے كے بعد واپس آيا تو ديكھا كہ آپ(ص) ابھى تك اسى ورد ميں مصروف ہيں اسى لئے ميں پھر واپس جنگ كرنے چلاگيا اور اسى طرح بار بار وقفے وقفے سے آپ(ص) كى خبرگيرى كرتا رہا ، يہاں تك كہ خدا نے ہميں فتح سے ہمكنار كيا''(2)
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو : سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 337 ، طبرى اس كى تاريخ كے ذيل ميں ص 157، الاستيعاب بر حاشيہ الاصابہ ج 1 ص 491، نسب قريش مصعب زبيرى ص 394 ، الاصابہ ج 1 ص 486 و طبقات ابن سعد ج 3 ص 119_
2) البداية و النہايہ ج 3 ص 275 و ص 276 از بيہقى و نسائي در اليوم والليلة ، حياة الصحابہ ج 1 ص 502 از مذكورہ و از كنز العمال ج 5 ص 267 از حاكم، بزار ، ابو يعلى و فريابي_

297
البتہ اس كا يہ مطلب نہيں ہے كہ آنحضرت (ص) سرے سے جنگ بدر ميں شريك ہى نہيں ہوئے _ ہوسكتا ہے آپ(ص) جنگ بدر كے شروع ميں مسلمانوں كا دل بڑھانے كے لئے شريك ہوئے ہوں اور جب آپ(ص) كو يہ مقصد حاصل ہوگيا تو آپ(ص) ميدان جنگ سے عليحدہ ہوكر دعاؤں اور راز و نياز ميں مصروف ہوگئے ہوں(1)_

چند نكات:
1_ حضرت على عليہ السلام ان سخت حالات ميں بھى آنحضرت(ص) كى مسلسل خبرگيرى كرتے رہے اور آپ(ص) سے ان جان ليوا گھڑيوں ميں بھى ايك لحظہ اور ايك پل كے لئے بھى غافل نہيں ہوئے _ اسى طرح يہ بھى مشاہدہ كيا گيا ہے كہ حضرت على عليہ السلام ديگر مقامات اور حالات ميں بھى آنحضرت(ص) كى خبرگيرى كرتے تھے اور آپ(ص) كى حفاظت اور حمايت كو حضرت (ع) نے اپنے ذمہ لے ليا تھا _ كيونكہ يحيى سے مروى ہے كہ ہميں موسى بن سلمہ نے يہ بتايا ہے كہ ميں نے جعفر بن عبداللہ بن حسين سے حضرت على (ع) ابن ابى طالب عليہما السلام كے (مسجد نبوى (ص) ميں) ستون كى بابت پوچھا تو اس نے كہا :'' باب رسول اللہ كى طرف يہاں ايك حفاظتى چوكى تھى اور حضرت على عليہ السلام اس ميں تربت رسول (ص) كى طرف رخ كركے بيٹھتے تھے اور آنحضرت(ص) كى حفاظت كيا كرتے تھے''(2)_ سمہودى نے بھى اپنى كتاب ميں اس ستون كا ذكر '' اسطوان المحرس '' ( حفاظتى چوكى والا ستون) كے نام سے كيا ہے(3)_
2_ ان سخت اور كٹھن گھڑيوں ميں بھى آنحضرت(ص) كا دعا اور مبداء اعلى يعنى پروردگا ريكتا سے رابطے كا اہتمام قابل ملاحظہ ہے _ كيونكہ وہى اصل طاقت اور كاميابى كا سرچشمہ ہے _ آپ(ص) مسلمانوں كو يقين اور صبر
---------------------------------------------------------
1) گذشتہ بات معقول اور مسلم نظر آتى ہے البتہ لگتا يہى ہے كہ آپ(ص) كفار كے منہ ميں خاك ڈال كر تھوڑى دير جنگ ميں مصروف رہے ہوں گے تا كہ مسلمانوں كى جنگ كے لئے حوصلہ افزائي ہو اور جب وہ جنگ ميں مصروف ہوگئے ہوں گے تو آپ(ص) رن سے نكل كر مصلى ميں مصروف دعا ہوگئے ہوں گے_ و اللہ العالم _ از مترجم _
2) وفاء الوفاء ج 2 ص 448_
3) ايضاً_

298
عطا كرنے اور انہيں خدا كے لطف و عنايات كے شامل حال كرنے كے لئے خدا سے براہ راست رابطہ كئے ہوئے تھے كيونكہ خدا كے لطف و كرم كے بغير نہ ہى فتح اور كاميابى امكان ہے اور نہ ہى كاميابى ملنے كى صورت ميں اس كى كوئي قدر و قيمت ہے_
3_ اسى طرح اس جنگ ميں سب سے زيادہ تكليف اٹھانے والے حضرت على (ع) كا خضوع و خشوع بھى لائق ديد ہے_ انہوں نے پينتيس 35 سے زيادہ آدميوں كو بذات خود فى النار كيا تھا اور باقى پينتيس 35 كے قتل ميں بھى شريك ہوئے تھے ، ليكن ہم انہيں يہ كہتا ہوا ديكھتے ہيں كہ '' خدا نے آپ(ص) كے ذريعہ سے ہميں فتح عنايت كى '' يعنى حضرت على (ص) اس كاميابى كو آنحضرت(ص) كى طرف منسوب كرتے ہوئے اسے آپ(ص) كے مرہون منت جانتے ہيں اور اس كاميابى ميںاپنے سميت كسى كا بھى كوئي قابل ذكر كردار نہيں سمجھتے تھے_

ب : جنگ فيصلہ كن تھي
يہ بات واضح ہے كہ اس جنگ كو فريقين اپنے لئے فيصلہ كن سمجھتے تھے _ مسلمان خاص كر حضرت رسول (ص) كريم يہ سوچ رہے تھے كہ اگر وہ خدا نخواستہ شكست كھا گئے تو پھر روئے زمين پر كبھى بھى خدا كى عبادت نہيں ہوگى _ جبكہ مشركين بھى يہ چاہتے تھے كہ مہاجرين كو اچھى طرح كس كر انہيں اپنى گمراہى كا مزاچكھائيں اور انصاريوں كو بھى نيست و نابود كركے ركھ ديں تا كہ بعد ميں كوئي بھى ان كے دشمن كے ساتھ كبھى اتحاد نہ كر سكے اور نہ ہى كوئي كبھى ان كے تجارتى راستے ميں كسى قسم كى كوئي ركاوٹ ڈال سكے اور اس كے نتيجے ميں پورے خطہ عرب پر ان كى دھاك بيٹھ جائے_ ہاں مال ، دنيا اور جاہ و حشم پر مرمٹنے والے لوگوں كے نزديك يہ چيزيں نہايت اہم تھيں اور بالكل اسى لئے انہوں نے آنحضرت(ص) اور آپ(ص) كے ساتھيوں كو بہت تنگ كيا ، گھروں سے نكال باہر كيا اور ان سے جنگ كيا حالانكہ وہ ان كے اپنے فرزند ، بھائي ، بزرگ اور رشتہ دار تھے_ ان كے لئے سب كچھ دنيا ہى تھى اور نہ اس سے پہلے كوئي چيز تھى اور نہ بعد ميں كچھ ہے_ اسى چيز نے ان كى آنكھوں پر پٹى باندھ دى تھى اور انہيں اپنے رشتہ داروں پر جرم و جنايت كے مرتكب ہونے پر اكسا يا جس كى وجہ سے انہوں

299
نے اپنوں كو مختلف قسم كے شكنجوں كا نشانہ بنايا، ان كا مذاق اڑايا ، پھر ان كا مال و اسباب لوٹا، انہيں اپنے گھروں سے نكال باہر كيا اور آخر كار انہيں جڑ سے اكھاڑنے اور نيست و نابود كرنے كے لئے ان كے خلاف سخت ترين جنگ لڑي_

ج: شكت ، طاقت كا عدم توازن اور فرشتوں كى امداد
كبھى ايسا بھى ہوجاتا ہے كہ كوئي چھوٹا لشكر كسى بڑى فوج كو شكست دے ديتا ہے _ ليكن يہ اس صورت ميں ہوتا ہے كہ اس چھوٹى فوج ميں ايسے امتيازات اور ايڈ و انٹيج پائے جاتے ہيں جو بڑے لشكر ميں نہيں ہوتے_ مثال كے طور پر اسلحہ با رود كى كثرت ، زيادہ نظم و ضبط ، زيادہ معلومات اور منصوبہ بندى اور كسى خاص معين جنگى علاقے يعنى جغرافيائي لحاظ سے اسٹرٹيجك جگہ پر قبضہ بھى انہى امتيازات ميں سے ہيں_
ليكن مسلمانوں اور مشركوں كا اس جنگ ميں معاملہ بالكل ہى الٹ تھا _ كيونكہ جنگى تجربہ ، كثرت تعداد ، اسلحہ كى بھر مار اور جنگى تيارى اورسازو سامان و غيرہ سب كچھ مشركين كے پاس تھا جبكہ مسلمانوں كے پاس كسى خاص حدود اربعہ ميں معين كوئي خاص جنگى علاقہ بھى نہيں تھا_ بلكہ انہيں تو اس جنگ كا سامنا تھا جسے مشركين نے اپنى مرضى كى جگہ اور وقت پر ان پر مسلط كر دياتھا_ بلكہ اكثر مشركين كو اس علاقے ميں بھى امتياز اور برترى حاصل تھى _ جنگى تكنيك اور اسلوب بھى و ہى پرانا تھا، يعنى فريقين كو وہى معروف اور رائج طريقہء كار اپنانا تھا_ اور اس ميں بھى قريش كو برترى اس لحاظ سے حاصل تھى كہ اس كے پاس عرب كے ايسے مشہور شہسوار موجود تھے جو اپنے تجربے اور بڑى شہرت كے باعث ان تقليدى جنگوں ميں برترى كے حامل تھے _ پس جنگ كے متوقع نتائج مشركين كے حق ميں تھے_
ليكن جنگ كے حقيقى نتائج ان متوقع نتائج كے الٹ نكلے اور وہ اتنى بڑى تيارى اور كثير تعداد والے ہر لحاظ سے برترى كے حامل فريق كے بالكل برخلاف تھے_ كيونكہ مشركوں كو مسلمانوں سے كئي گنا زيادہ خسارہ اٹھانا پڑا _ اس لئے كہ مسلمانوں كے آٹھ سے چودہ شہيدوں اور مشركين كے ستر مقتولوں اور ستر قيديوں كے

300
درميان كونسى نسبت ہے؟ حالانكہ ہر لحاظ سے مشركوں كاپلڑا مسلمانوں سے بہت بھارى تھا_ كيا آپ لوگ بتاسكتے ہيں كہ اس غير متوقع نتيجہ كا كيا راز اور سبب ہے؟
اس كا جواب خود خدا نے قرآن مجيد ميں يوں ديا ہے
(اذ يريكہم اللہ فى منامك قليلاً و لو اراكہم كثيراً لفشلتم و لتنازعتم فى الامر ، ولكن اللہ سلم انہ عليم بذات الصدور و اذ يريكموہم اذ التقيتم فى اعينكم قليلاً و يقللكم فى اعينہم ليقضى اللہ امراً كان مفعولاً)
'' ( اس وقت كو ) ياد كر و جب خدا نے خواب ميں تمہيں ان كى كثير تعداد كو كم جلوہ گر كيا اور اگر خدا ان كى تعداد زيادہ دكھاتا تو تم تو دل ہار بيٹھتے اور خود جنگ كے معاملے ميں ہى آپس ميں جھگڑنے لگتے ليكن خدا نے تمہيں اس سے محفوظ ركھا كيونكہ وہ دلوں كے راز بخوبى جانتا ہے_ اور جنگ كے وقت بھى خدا نے تمہارى آنكھوں ميں ان كى تعداد گھٹا كر دكھائي نيز انہيں بھى تمہارى تعداد گھٹا كر دكھائي تا كہ خدا كا ہونے والا كام ہو كر رہے''(1)
نيز ارشاد خداوندى ہے :
(و اذ زين لہم الشيطان اعمالہم ... لا غالب لكم اليوم من الناس و انى جار لكم)(2)
'' اور ياد كرو جب شيطان نے كافروں كے اس برے كام كو اچھا كردكھايا ...ليكن آج وہ لوگ تم پر غلبہ نہيں پا سكتے كيونكہ آج تم ميرى پناہ ميں ہو''
---------------------------------------------------------
1) انفال /43، 44_
2) انفال /48_

301
اسى طرح يہ بھى فرماتا ہے :
(كما اخرجك ربك من بيتك بالحق و ان فريقاً من المؤمنين لكارہون) (1)
'' جس طرح خدا نے تمہيں اپنے گھر سے بر حق نكالا ہے ليكن مؤمنوں كے ايك گروہ كو يہ بات ناپسند تھي''
اسى طرح رسول (ص) خدا نے بھى فرمايا ہے :'' رعب اور دبدبے سے ميرى مدد اور حمايت كى گئي ہے اور زمين كو بھى ميرے لئے سجدہ گاہ اور باعث طہارت بنا يا گيا ہے'' (2)
اس سے يہ نتيجہ نكلتا ہے كہ مسلمانوں اور مشركوں كو آپس ميں لڑانے كے لئے خدا ئي عنايت ، لطف بلكہ طاقت كار فرماتھى تا كہ بہت سے مسلمانوں كے دل سے مشركوں كى ہيبت اور دہشت نكل جائے _ كيونكہ جب مسلمان قريش سے لڑليں گے تو دوسروں سے لڑنے كيلئے وہ اور زيادہ جرى اور طاقتور ہوں گے_
اور يہ خدائي مشن درجہ ذيل چيزوں ميں خلاصہ ہوتا ہے:
1_ آيتوں ميں مذكور گھٹا نے بڑھا نے والے طريقے سے مسلمانوں كى حوصلہ افزائي_
2_ ملائكہ كے ساتھ مسلمانوں كى مدد_
3_ اسلام دشمنوں كے دل ميں رعب اور دہشت بٹھانا_
تشريح : فريقين كے جنگى اہداف ہى مادى اور انسانى خسارے بلكہ تاريخ كے دھارے كو كسى بھى طرف موڑنے كے لحاظ سے جنگ كے نتائج كى تعيين اور اس كا فيصلہ كرتے ہيں اور ہم پہلے بھى كئي بار يہ بات بيان كر چكے ہيں كہ اس جنگ سے مشركين كا مقصد مطلوبہ زندگى اور ان امتيازات اور خصوصيات كا حصول تھا جن
---------------------------------------------------------
1) انفال /5_
2) سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 233 ، بخارى ج 1 ص 46و ص 57، ج 2 ص 107 و ج 4 ص 135 و ص 163، سنن دارمى ج 2 ص 224 ، صحيح مسلم ج 2 ص 63 تا ص 65 ، الجامع الصحيح ج 4 ص 123 ، كشف الاستار ج 1 ص 44 و ج 3 ،ص 147 ، سنن نسائي ج 1 ص 209و ص 210و ج 6 ص 3 ، مسند احمد ج 1 ص 98 و ص 301 و ج 2 ص 222 و ص 264 ، ص 268 ، ص 314، ص 366 ، ص 412 ، ص 455 و ص 501 ، ج 3 ص 304 ، ج 4 ص 416و ج 5 ص 145 و ص 148 و ص 162 و ص 248 و ص 256 ، مجمع الزوائد ج 6 ص 65 و امالى طوسى ص 56_

302
سے وہ اپنى آسودگى ، فرمانروائي اور سردارى كى لمبى لمبى آرزوؤں كى تكميل كى توقع كر رہے تھے_ پس جب وہ لڑہى اس دنياوى زندگى كے لئے رہے تھے تو اس مقصد كے لئے ان كا قربانى دنيا كيسے ممكن ہے؟ اس كا مطلب تو پھر ہدف كو كھونا اور مقصد كى مخالفت كرنا ہے_ مؤرخين كى مندرجہ ذيل روايت بھى ہمارے بيانات كى تصديق كرتى ہے _ وہ كہتے ہيں كہ جب طليحہ بن خويلد نے اپنے بہت سے ساتھيوں كو رن سے فرار كرتے ہوئے ديكھا تو پكارا'' منحوسو كيوں بھاگ رہے ہو؟''_ تو ان ميں سے كسى نے كہا :'' ميں تمہيں بتاتا ہوں كہ ہم كيوں بھاگ رہے ہيں ہم اس لئے بھاگ رہے ہيں كہ ہم ميں سے ہر شخص كى يہى خواہش ہے كہ اس سے پہلے اس كا ساتھى مرے ( يعنى وہ سب سے آخرميں مرے) حالانكہ ايسے ايسے افراد سے ہمارا سامنا ہے جو اپنے ساتھيوں سے پہلے مرنا چاہتے ہيں''(1)_ اسى طرح جب جنگ جمل ميں زبير كے پيٹھ دكھا كر بھاگنے كى خبر حضرت على عليہ السلام تك پہنچى تو آپ(ع) نے فرمايا : '' اگر صفيہ كے بيٹے كو معلوم ہوتا كہ وہ حق پر ہے تو وہ جنگ سے كبھى پيٹھ دكھا كر نہ بھاگتا ...''(2)_ اور مامون كى فوج كا ايك بہت بڑا جرنيل حميد طوسى كہتا ہے : '' ہم آخرت سے تو مايوس ہوچكے ہيں اب صرف يہى ايك دنياہى رہتى ہے ، اس لئے خدا كى قسم ہم كسى كو اپنى زندگى مكدّر كرنے كى اجازت نہيں ديں گے'' (3)_
ليكن تمام مسلمانوں كابلكہ يوں كہنا بہتر ہوگا كہ قريش كى جڑيں كاٹنے والے حضرت على (ع) اور حمزہ جيسے ان بعض مسلمانوں كا مقصد اخروى كاميابى تھا جنہوں نے دشمنوں كو تہہ تيغ كركے مسلمانوں كى كاميابى ميں نہايت اہم كردار ادا كيا تھا_ وہ يہ جانتے تھے كہ انہيں دوبھلائيوں ميں سے كوئي ايك ضرور ملے گي_ يا تو وہ جيت جائيں گے اور اس صورت ميں انہيں دنياوى اور اخروى كاميابى نصيب ہوگى يا پھر شہيد ہوجائيں گے اور اس صورت ميں بھى انہيں حتى كہ دنياوى كاميابى بھى نصيب ہوگى اور آخرت تو ہے ہى _ اور ايسے لوگ جب موت
---------------------------------------------------------
1) سنن بيہقى ج 8 ص 176و حياة الصحابہ ج 3 ص 770 از سنن بيہقي_
2) المصنف عبدالرزاق ج 11 ص 241 اور اس روايت سے اس بات كى تائيد ہوتى ہے كہ وہ پيٹھ دكھا كر بھاگتے ہوئے قتل ہوا _ جيسا كہ بعض نے صراحتاً كہا بھى ہے_
3) نشوار المحاضرات ج 3 ص 100_

303
كو فوجى اور ظاہرى كاميابى كى طرح ايك كاميابى سمجھتے ہيں اور اپنى جان بچا كر فرار ہونے كو ( چاہے اس فرار سے ان كى جانيں بچ بھى جائيں اور وہ بڑى پرآسائشےں اور پر سكون زندگى اور دنياوى نعمتوں سے بہرہ مند ہو بھى جائيں پھر بھى اسے) اپنے لئے ذلت ، رسوائي ، تباہى اور مرجانے كا باعث بلكہ مرجانے سے بھى بدتر سمجھتے ہيں، كيونكہ وہ جانتے ہيں كہ اس كے بعد انہيں اخروى تباہى اور دردناك عذاب كا سامنا كرنا ہوگا_ (جب صورتحال يہ ہو ) تو يہ زندگى ان لوگوں كے لئے ناقابل قبول اور ناپسنديدہ بلكہ مكروہ ہوگى اور اس زندگى سے وہ ايسے بھاگيں گے جيسے مشركين موت كے ڈر سے بھاگ رہے تھے_ اور طليحہ بن خويلد كا جواب دينے والے شخص نے بھى اسى حقيقت كى طرف اشارہ كيا تھا جسے ہم بيان كرچكے ہيں_
جب عمير بن حمام كو پتہ چلا كہ رسول (ص) خدا شہيد ہونے والوں كو جنت كى خوشخبرى دے رہے ہيں ( اس وقت عمير كے ہاتھ ميں چند كھجور تھے جنہيں وہ آہستہ آہستہ كھا رہا تھا) تو اس نے كہا :'' واہ بھئي واہ ميرے اور جنت ميں داخلے ميں صرف ان كے قتل كرنے كا ہى فاصلہ ہے''_ يا يہ كہا :'' اگر زندہ رہا تو يہ كھجور آكر كھاؤں گا _ واہ وہ تو ايك لمبى زندگى ہے'' _ پھر وہ ہاتھ ميں پكڑى ہوئي كھجوريں پھينك كر لڑنے چلا گيا اور لڑتے لڑتے شہيد ہوگيا(1)_
(يہيں سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت امام حسين عليہ السلام كے جانثاروں كے لئے موت كيوں شہد سے بھى زيادہ ميٹھى تھى )_بلكہ جب ماؤں كو پتہ چل جاتا كہ ان كے فرزند جنت ميں ہيں تو انہيں اپنے فرزند كے بچھڑنے كا كوئي بھى دكھ نہيں ہوتا تھا بلكہ وہ بسا اوقات خوش بھى ہوتى تھيں_ جب حارثہ بن سراقہ كسى نامعلوم تير سے ماراگيا تو اس كى ماں نے آنحضرت (ص) سے كہا :'' يا رسول (ص) اللہ مجھے حارثہ كے متعلق بتائيں ، اگر وہ جنت ميں ہے تو ميں صبر كرلوں گى وگرنہ اتنى آہ و زارى كروں گى كہ سارى خدائي ديكھے گى ''_ ( جبكہ ايك اور روايت كے مطابق اس نے يوں كہا:'' ... وگرنہ ميں حد سے زيادہ گريہ كروں گي'' نيز ديگر روايت ميں آيا
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو : الكامل ابن اثير ج 2 ص 126 ، تاريخ الخميس ج 1 ص 380 ، سيرہ ابن ہشام ج 2 ص 279 ، البدايہ والنہايہ ج 3 ص 277 از مسلم و احمد ، سنن بيہقى ج 9 ص 99 ، مستدرك حاكم ( با اختصار ) ج 3 ص 426 و حياة الصحابہ ج 1 ص 424 از گذشتہ بعض منابع_

304
ہے'' ... تو روؤں گى پيٹوں گى نہيں ليكن اگر وہ دوزخ ميں گيا ہے تو ميں مرتے دم تك روتى رہوں گى '')_ اور ايك روايت ميں ہے كہ جب آنحضرت (ص) نے اسے بتايا كہ اس كا بيٹا جنت ميں ہے تو وہ ہنستے ہوئے واپس پلٹى اور كہنے لگى :'' مبارك ہو حارث مبارك ہو'' (1)_اسى طرح جنگ بدر ميں شہيد ہونے والے عمير بن ابى وقاص كو جب رسول (ص) خدا نے مدينہ ميں ٹھہرانا چاہا تو وہ ( فرط جذبات اور آپ(ص) كى مدد سے محرومى كے احساس سے ) روپڑا(2)جس پر آپ(ص) نے اسے ساتھ چلنے كى اجازت دے دى _ اور اس طرح كى مثاليں بہت زيادہ ہيں_جنہيں يہاں بيان كرنے گى گنجائشے نہيں ہے_
گذشتہ تمام باتوں سے واضح ہوجاتا ہے كہ مسلمانوں كو كتنى شدت سے مرجانے يا پھر كامياب ہونے كا شوق تھا _ اور كافروں كو صحت و سلامتى كے ساتھ زندہ رہنے كى تمنا تھى _ كيونكہ مسلمان تو موت كو ايك پل اور شہادت كو عطيہ اور سعادت سمجھتے تھے ليكن وہ لوگ موت كو خسارہ ، فنا اور تباہى سمجھتے تھے_ ان كى مثال بھى بنى اسرائيل كى طرح تھي_
اور بنى اسرائيل دنيا اور دنيا دارى كے لئے بہت زيادہ اہميت كے قائل تھے اور ان كى سوچوں بلكہ عقيدے ميں بھى آخرت كى كوئي جگہ نہيں تھي_ ان كى متعلق خدايوں فرماتا ہے:
(قل ان كانت لكم الدار الاخرة عند اللہ خالصة من دون الناس فتمنو الموت ان كنتم صادقين و لن يتمنوہ ابداً بما قدمت ايديہم و اللہ عليم بالظالمين و لتجدنہم احرص الناس على حياة و من الذين اشركوا يود احدہم لو يعمر الف سنة و ما ہو بمزحزحہ من العذاب ان يعمر و اللہ بصير بما يعملون) (3)
---------------------------------------------------------
1) ملاحظہ ہو : مستدرك حاكم ج 3 ص 208 ، البدايہ و النہايہ ج 3 ص 274 از شيخين ، سنن بيہقى ج 9 ص 167 ، حياة الصحابہ ج 2 ص 652 تا ص 653 از مذكورہ منابع و از كنز العمال ج 5 ص 273 و 275 و ج 7 ص 76 و از ابن سعد ج 3 ص 68 _
2) نسب قريش مصعب زبيرى ص 263 ، الاصابہ ج 3 ص 5 3،از حاكم ، بغوى ، ابن سعد و واقدي_
3) بقرہ / 94 تا 96_

305
''( اے رسول (ص) ) ان سے كہہ ديجئے كہ اگر آخرت كا مقام بھى خدا كے نزديك صرف تمہارا ہى ہے تو ذرا مرنے كى خواہش تو كرو اگر تم اپنے دعوے ميں سچے ہو _ ليكن وہ اپنے كر تو توں كى وجہ سے ہرگزموت كى تمنا نہيں كرسكتے اور خدا ہى ظالموں كو سب سے بہتر جانتا ہے _ انہيں تو آپ(ص) زندہ رہنے كا سب سے زيادہ خواہشمند پائيں گے حتى كہ مشركوں سے بھى _ان كا ہر شخص يہ چاہتا ہے كہ كاش اسے ہزار سالہ زندگى مل جائے _ وہ جتنى بھى زندگى كرليں وہ اسے عذاب سے چھٹكار انہيں دلا سكتى _ اور خدا ان كے كردار كو بخوبى جانتا ہے''_
اسى بنا پر جنگ بدر ميں ضرورت اس بات كى تھى كہ ابتداء ميں خدا مسلمانوں كو ان كى نظر ميں گھٹا كر دكھاتا تا كہ وہ اپنى سلامتى اور بقاء كے زيادہ احتمال كى وجہ سے آسانى اور آسودہ خيالى سے اس جنگ ميں كود پڑتے _ كم از كم وہ جنگ ميں جم كر لڑتے اور فرار كا تصور بھى نہ كرسكتے تا كہ حضرت على عليہ السلام قريش اور شرك كے بڑے بڑے فرعونوں ، سرپھروں، گروگنڈالوں اور سپاہيوں كو قتل اور قيدى كرليں_ حضرت بى بى فاطمہ الزہرا سلام اللہ عليہا كى ايك روايت بھى اسى كے مطابق ہے كہ '' جب جنگ كا شعلہ بھڑكا تو آپ(ص) نے ہى اسے بجھايا ، گمراہى بڑھنے لگى يا مشركوں كا جمگھٹا ہوا تو آپ(ص) نے اپنے بھائي كو اس ميں جھونك ديا اور وہ اسے اچھى طرح روند كر اور تلوار سے اس كے شعلے بجھا كر ہى وہاں سے واپس لوٹا _ وہ خدا كى ذات ميں جذب ( فنا فى اللہ ) ہوچكا تھا ...''(1)_
ليكن پھر جنگ چھڑنے كے بعد ضرورى تھا كہ مشركين مسلمانوں كى تعداد كى كثرت ديكھيں تا كہ وہ رعب اور دہشت كے مارے نہ لڑسكيں_يہاں خدا نے مسلمانوں كى فرشتوں كے ذريعہ مدد كى _اور ان كے ذريعہ سے ان كى تعداد بڑھائي اور فرشتوں كو يہ حكم ديا كہ وہ لڑيں اور مشركين كا سر قلم كريں نيز ان كے دلوں ميں رعب ، دہشت اور دھاك بٹھاديں _خدا نے بھى جنگ كے شروع ہونے كے بعد پيش آنے والے اس آخرى مرحلہ كا ذكر اس آيت ميں يوں كيا ہے:
(اذ يوحى ربك الى الملا ئكة انى معكم فثبتواالذين
---------------------------------------------------------
1) بلاغات النساء ص 25 مطبوعہ النہضة الحديثہ و اعلام النساء ج 4 ص 117_

306
آمنو سالقى فى قلوب الذين كفروا الرعب فاضربوا فوق الا عناق و اضربوا منھم كل بنان )(1)
''(وہ وقت يادكرو )جب تمہارے پروردگارنے فرشتوں سے كہا كہ ميں تمہارا پشت پناہ ہوں (تم جاكر ) مؤمنوں كا دل بڑھا ؤ،ميں بھى كافروں كے دل ميں دہشت پيدا كردوں گا پھر تم انہيں ہر طرف سے ماركر ان كى گردن ہى ماردو''_
اور يہ بات واضح ہے كہ ڈرپوك اور بزدل دشمن پر چڑھائي چاہے وہ كتنا ہى طاقتور ہو اس كمزور دشمن پر حملہ سے زيادہ آسان ہے جو موت سے بے پروا ہو كر خود ہى حملہ آور ہو_پس يہ معركہ جنگجوؤںكا سامنا كرنے سے كترانے والے مشركوں كے حق ميں نہيں بلكہ مسلمانوں كے حق ميں تھا_ اس بنا پر مسلمانوں كے ساتھ ساتھ خود مشركين بھى مشركين كے خلاف لٹررہے تھے اور يہ بات حضرت على (ع) كے اس فرمان كى تشريح اور تفسير ہے كہ ''ميرا سامنا جس سے بھى ہوا اس نے اپنے خلاف ميرى مددكى (اپنے آپ كو ميرے حوالہ كرديا)'' (2) اور فرشتوں كے ذريعہ مسلمانوں كى مدد كا ايك اور پہلو بھى تھا جس كا ملاحظہ بھى نہايت ضرورى ہے _اور وہ يہ ہے كہ چونكہ يہ ممكن تھا كہ بعض مسلمانوں كے ايمان اور يقين كا درجہ بلند نہ ہوتا اور اس جنگ ميں ان كا يقين اورمان ٹوٹ جاتا يا كم از كم ان كا ايمان كمزورہو جاتا اس لئے خدا نے مسلمانوں پر لطف و كرم كرتے ہوئے ان كى فرشتوں سے مدد كى تا كہ وہ انہيں جيت كى خوشخبرى ديں ،ان كا دل بڑھائيں اور جنگ كے آغاز ميں ان كى آنكھوں ميں مشركوںكو گھٹا كرد كھائيںجس سے وہ جنگ ميں بڑھ چڑھ كر حصہ ليں _اس كے علاوہ خدا كے فضل سے فرشتوں كى مدد كے اور طريقے بھى تھے _ان باتوں سے اس بات كى وجہ بھى معلوم ہو جاتى ہے كہ كيوں مشركين كے مقتولين كى تعداد شہداء اسلام سے كئي گنا زيادہ تھى اور ان كے ستر افراد بھى قيد كر لئے گئے حالانكہ مسلمانوں كا كوئي بھى فردگرفتار نہيں ہوا_اور اس مدد كے نتائج صرف جنگ بدرتك ہى محدودنہيں تھے بلكہ ايمان اور كفر كے درميان ہر جنگ ميں ايسے نتائج ظاہر ہوئے اور واقعہ كربلا بھى ہمارى آنكھوں كے سامنے ہے _
---------------------------------------------------------
1)انفال/12_
2)نہج البلا غہ حكمت 318_

307
د: انصار كے خلاف قريش كا كينہ
1_ ابوجہل كى گذشتہ باتوں سے واضح ہوتا ہے كہ قريش انصار كو زيادہ سے زيادہ نقصان پہنچانا چاہتے تھے حتى كہ ابو جہل نے اپنے ساتھيوں كو حكم ديا تھا كہ انصار كو گا جر مولى كى طرح كاٹ كرركھ دو ليكن قريشيوں كى بہ نسبت ان كا موقف مختلف تھا _كيونكہ ابو جہل نے ان كے متعلق كہا تھاكہ ان كى مشكيں اچھى طرح كس كر انہيں مكہ لے جاؤتا كہ وہاںانہيں ان كى گمراہى كا مزہ چكھا يا جائے _شايد مشركوں نے قريشيوں سے اپنے پرانے تعلقات بحال ركھنے كے لئے ان كے خلاف يہ موقف اپنا يا ہو كيونكہ ہر قريشى مسلمان كا مكہ ميں كوئي نہ كوئي رشتہ دار موجود تھا _اور وہ اپنے رشتہ دار كے قتل پر راضى نہيں ہو سكتے تھے چاہے وہ ان كے عقيدے اور مذہب كے مخالف ہى كيوں نہ ہو _اور يہى قبائلى طرز فكرہى تو تھا جواتنے سخت اور مشكل حالات ميں بھى مشركين كى سوچوں پر حاوى اور ان كے تعلقات اور موقف پر حاكم تھا _
2_ہم يہ تو جان چكے ہيں كہ رسول(ص) خدا اور مسلمانوں كو پناہ اور مدد دينے والے انصار كے خلاف قريش كا كينہ نہايت عروج پر تھا اور ان كے كينے كى ديگ برى طرح ابل رہى تھى _اس بات كا تذكرہ ابو جہل نے سعد بن معاذ سے كسى زمانے ميں (شايد بيعت عقبہ يا سعد كے حج كرنے كے موقع پر_مترجم)كيا بھى تھا اور اب وہ يثرب والوں كو گاجر مولى كى طرح كاٹنے آياتھا _ليكن ہم يہ بھى ملاحظہ كرتے ہيں كہ ان كے دل ميں يہ كينہ كئي دہائيوں تك رہا بلكہ سقيفہ كے غم ناك حادثے ميں انصار كى خلافت كے معاملے ميں قريش كى مخالفت اوردوسروں كى بہ نسبت حضرت على عليہ السلام كى طرف انصار كے رجحان نے اس جلتى پر تيل كا كام كيا _اور يہ كينہ مزيدجڑپكڑگيا كيونكہ انہوں نے ہراس جنگ ميں حضرت على عليہ السلام كا ساتھ ديا جس ميں قريشى آپ كے مد مقابل تھے(1) حتى كہ جنگ صفين ميں معاويہ كو نعمان بن بشير اور مسلمہ بن مخلدسے كہنا پڑا:''اوس اور خزرج كى طرف سے پہنچنے والى زك سے مجھے بہت دكھ اور نقصان اٹھانا پڑاہے _وہ اپنى تلواريں گردن ميںحمائل كركے جنگ كا مطالبہ كرنے آكھڑے ہوتے ہيں _حتى كہ انہوں نے ميرے شير
---------------------------------------------------------
1)ملاحظہ ہو :المصنف ج5ص456وص458وديگر كتب_

308
كى طرح بہادر ساتھيوں كو بھى چو ہے كى طرح ڈرپوك بنا كرر كھ ديا ہے _حتى كہ خدا كى قسم ميں اپنے جس شامى جنگجو كے متعلق بھى پوچھتا ہوں تو مجھے يہ كہا جاتا ہے اسے انصار نے قتل كرديا ہے_اب خدا كى قسم ميں ان سے بھر پور جنگ كروں گا ''(1)اسى طرح نعمان بن بشير نے انصار كے ساتھ اپنى ايك گفتگو ميں كہا ،''جب بھى (حضرت على (ع) پر)كوئي مشكل آن پڑى تم لوگوں نے ہى ان كى يہ مشكل آسان كى ہے'' (2)اسى طرح بنى اميہ كے بزرگ عثمان بن عفان كے خلاف انصار كے موقف اور اس كے خلاف چلائي جانے والى تحريك ميں ان كے فعال اور مؤثر كردار نے قريش كے ان كے خلاف كينے كو مزيد ہوادى _حتى كہ معاويہ نے اس كے غم ميں مندرجہ ذيل شعر كہا :(گرچہ يہ واضح ہے كہ عثمان پراس كا رونا دھونا اس كے سياسى مقاصد كے تحت تھا و گرنہ عثمان سے اسے كوئي بھى ہمدردى نہيں تھى ) _
لاتحسبوا اننى انسى مصيبتہ
و فى البلاد من الا نصار من احد(3)
يہ كبھى مت سوچنا كہ روئے زمين پر كسى ايك انصار ى كے ہوتے ہوئے ميں عثمان كا غم بھول جاؤ ں گا_
بہر حال معاويہ سے جتنا بھى ہو سكتا تھا اس نے انصار كے خلاف اپنے د ل كى بھڑ اس نكالى ليكن پھر اس كے بعداس نا بكار كے ناخلف يزيد نے كربلا ميں اہل بيت رسول (ص) كو شہيد كرنے كے بعد ''واقعہ حرہ'' ميںانصار سے نہايت برا اور شرمناك انتقام ليا تھا (4)
احمد بن حنبل نے بھى ابن عمر كى ايك بات نقل كى ہے جس كے مطابق وہ اہل بدر كے مہاجرين كو ہر موقع پر اہل بدر كے انصار پر ترجيح ديا كرتاتھا البتہ اس بارے ميں ''جنگ بدر سے پہلے كى لڑائياں ''كى فصل ميں
---------------------------------------------------------
1) شرح نہج البلا غہ ابن ابى الحديد ج8 ص 84و ص85نيز ملاحظہ ہو ص 44و ص87)_
2)شرح نہج البلاغہ ابن ابى ا لحديدج 8ص88_
3)شرح نہج البلا غہ ابن ابى الحديد ج 8 ص 44_
4)ملاحظہ ہو تاريخ الامم و الملوك ، الكامل فى التاريخ اور ديگر كتابوں ميں واقعہ حرہ _

309
''جنگ ميں مہاجرين كو پہلے بھيجنے كى وجوہات ''ميں يہ بحث ہو چكى ہے _اس موضوع كے سير حاصل مطالعہ كے لئے وہاں مراجعہ فرمائيں_
3_ايك اور پہلو سے اگر ديكھا جائے تو قريش اس جنگ ميں انصار كو ايسا يادگار سابق سكھا نا چاہتے تھے كہ وہ پھر كبھى ان كے دشمنوں سے گٹھ جوڑكرنے كا ارادہ بھى نہ كر سكيںقريش كى نظر ميں انصار كا يہى جرم ہى كافى تھا كہ انہوں نے مسلمانوں كو اتنى طاقت اور قوت فراہم كردى تھى كہ وہ ان كے مقابلہ ميں آنے كى جرات كربيٹھے_اسى لئے ابو جہل (جسے پہلے اپنى كاميابى كا پورا يقين تھا )نے اپنے سپاہيوں كو انتہائي سخت حكم ديتے ہوئے كہا تھا كہ مكّيوںكے ہا تھ سے كوئي بھى (يثربى )انصارى نہ چھوٹنے پائے (اور سب كا قلع قمع كرديا جائے )_آخر ميں يہ اضافہ بھى كرتے چليں كہ مدينہ والے قحطانى نسل كے تھے جبكہ مكّہ والے عدنانى نسل كے تھے (اور ديگر تعصبات كے علاوہ اس ميں نسلى تعصب بھى شامل تھا )_

پہلے اہل بيت (ع) كيوں ؟
اسى لئے ہم كہتے ہيں كہ ديگر تمام لوگوں سے پہلے آپ (ص) كا اپنے اہل بيت (ع) كو جنگ ميں بھيجنے كا راز ہمارى گذشتہ تمام معروضات ہوسكتى ہيںتا كہ سب سے پہلے آپ (ص) اپنى اور اپنے اہل بيت (ع) كى قربانى پيش كريں _ اسى لئے تاريخ ،حضرت على (ع) ،حضرت حمزہ(ع) ،حضرت جعفر (ع) اور اس دين سے نہايت مخلص آپ(ص) كے ديگر بہترين صحابيوںكے كرداراور بہادر يوںكو ہرگز فراموش نہيں كر سكتى بلكہ يہ تا ابد يادگار رہيں گي_پس حضرت على (ع) اور آپ(ص) كا گھرانہ اسلام كى مضبوط ڈھال تھے اور خدا نے ان كے ذريعہ دين كو بھى بچايا اورانصار كے خلاف قريش (جن كى اكثريت اسلام دشمن تھى )كے كينے كى شدت كو بھى كم كيا _يہ سب كچھ انصار كا مستقبل محفوظ كرنے كے لئے تھا ،كيونكہ انصار اور اسلام كے خلاف قريش كے كينے نے مستقبل ميں ان دونوں پر سخت ، گہرے اور برے اثرات مرتب كئے _
310
ھ:حضرت على (ع) اور ان كے گھرانے پر جنگ بدر كے اثرات :
ہم پہلے يہ بتا چكے ہيں كہ اكثر مشركين ،مہاجرين خاص كر امير المؤمنين حضرت على (ع) اور ان كے چچا حمزہ كے ہا تھوں واصل جہنم ہوئے _اور يہ بھى بتاچكے ہيں كہ حضرت على (ع) نے بذات خود پينتيس سے زيادہ مشركوں كوفى النار كيا تھا اور باقيوںكو قتل كرنے ميں بھى دوسروں كا ہا تھ بٹا يا تھا_
اس بات سے ہم يہ جان سكتے ہيں كہ قريش چاہے جتنا بھى اسلام كا مظاہرہ كرتے رہيں ،اسلام كے ذريعہ جتنا بھى مال و مقام حاصل كرتے رہيں اور چاہے حضرت على (ع) اور ان كے گھرانے سے محبت اور مودت كى جتنى بھى آيات اور نبى (ص) كريم سے مروى روايات ديكھتے رہيںپھر بھى وہ حضرت على (ع) اور ان كے گھرانے سے كبھى بھى محبت نہيں كر سكتے تھے _
حاكم نے ايك حديث بيان كى ہے كہ ايك مرتبہ عباس غضبناك چہرے كے ساتھ آنحضرت (ص) كى خدمت ميںآيا تو آنحضرت (ص) نے اس سے پوچھا :''كيا بات ہے ؟''اس سوال پر اس نے كہا :''ہمارا قريش سے كوئي جھگڑاہے كيا؟''_آپ(ص) نے فرمايا :''تمہارا قريش سے جھگڑا؟''اس نے كہا :''ہاں جب وہ ايك دوسرے سے ملتے ہيں تو بڑے تپاك سے ملتے ہيں ليكن ہميں بے دلى سے ملتے ہيں ''_يہ سن كر آپ (ص) اتنے سخت غضبناك ہوئے كہ غصہ سے آپ (ص) كى آنكھوں كے در ميان والى رگ ابھر آئي _پھر جب آپ(ص) كا غصہ ٹھنڈاہوا تو آپ(ص) نے فرمايا :''اس خدا كى قسم جس كے قبضہ ميں (حضرت)محمد(ص) كى جان ہے، جب تك كوئي شخص خدا اور رسول (ص) خدا كى خاطر تم لوگوں سے محبت نہيں كرے گا تب تك اس كے دل ميں ايمان داخل ہوہى نہيں سكتا'' (1) اسى طرح حضرت على (ع) نے بھى قريش كا شكوہ كرتے ہوئے فرمايا تھا :''انہوں نے ہم سے قطع تعلق اور ہمارے دشمنوں سے گٹھ جوڑ كر ليا ہے ''(2)انشاء الله جنگ احد كى گفتگو ميں اس كى طرف بھى اشارہ كريں گے _
---------------------------------------------------------
1)مستدرك حاكم ج 3 ص 333 نيز تلخيص مستدرك ذہبى اسى صفحہ كے حاشيہ پر،مجمع الزوائد ج 9ص 269و حياة الصحابہ ج 2ص 487و ص 488 ازگذشتہ منابع _
2)البتہ اگر يہ صدمے كسى معصوم رہنما كو سہنے پڑيں تو وہ اپنى تدبير ،فراست اور خداداد علم ،عقل اور صبرسے انہيں برداشت كر ليتا ہے اور پائيدارى دكھاتا ہے _دوسرے لوگ يہ تكليفيں نہيں جھيل سكتے اور ان كے لئے انہيں جھيلنے اور ان سے سرخرو ہو كر باہر آنے كے لئے كوئي مناسب راہ حل نہيں ہوتا _اسى لئے ہم ديكھتے ہيں كہ ہر موقع پر رسول (ص) خدا صرف حضرت على (ع) كوہى آگے كرتے اور انہيں قريش كا سامنا كرنے كى پر زور تاكيد كرتے تھے_

311
ابن عباس سے مروى ہے كہ عثمان نے حضرت على عليہ السلام سے كہا :''اگر قريشى تمہيں نا پسند كرتے ہيں تو اس ميں ميرا كيا قصور ہے ؟تمہى نے تو ان كے ستر جنگجو افراد كو تہہ تيغ كيا ہے جس كى وجہ سے اب ان كے چہرے (غصہ كى وجہ سے )دہكتے ہوئے انگاروں كى طرح ہو گئے ہيں ''(1) اس كے علاوہ ،صاحبان احلاف (ابو سفيان پارٹى )بدر اور احد و غيرہ كے اپنے مقتولين كا بدلہ لينے كے لئے ہر وقت موقع اور فرصت كى تلاش ميں رہتے تھے _وہ جنگ جمل اور صفين ميں تو ناكام ہو گئے ليكن انہيں اپنے زعم باطل ميں واقعہ كربلا ميں اس كا اچھا موقع مل گيا تھا _پھر تو انہوں نے اہل بيت (ع) اور ان كے شيعوں پر ظلم و ستم كى انتہا ہى كردى _وہاں ہم يہ بھى مشاہدہ كرتے ہيں كہ اس موقع پر يزيد نابكار اپنے كفر اور مذكورہ جذبات كو نہ چھپا سكا _كيونكہ اس نے يہ جنگ ،بدر كے اپنے بزرگ مقتولين كا بدلہ لينے كے لئے لڑى تھى اور اس ميں وہ اپنى خام خيالى ميں كامياب ہوگيا تھا_ وہ اس كے بعد ابن زبعرى كے كفريہ اشعار بھى پڑھتا تھا اور اس ميں وحى و نبوت كے انكار پر مشتمل اپنے اشعار كا اضافہ بھى كرتا تھا _ وہ نا بكار ،جوانان جنت كے سردار اور نبى (ص) كے نوا سے حضرت امام حسين عليہ السلام كے دندان مبارك پر چھڑى سے وار كرتے ہوئے يہ اشعار كہتا تھا :

ليت اشياخى ببدر شھدوا
جزع الخزرج من وقع الا سل
لا ھلو و استھلوا فرحاً
ثم قالوا يا يزيد لا تشل
قد قتلنا القرم من اشياخھم
و عدلنا ہ ببدر فاعتدل
لعبت ھاشم بالملك فلا
---------------------------------------------------------
1)معرفة الصحابہ ابو نعيم ورقہ ،22مخطوط در كتابخانہ طوپ قپو سراى كتاب نمبر 1/497و شرح نہج البلا غہ ابن ابى الحديد ج 9 ص 22_

312
خبر جاء و لا وحى تزل
لست من خندف ان لم انتقم
من نبى احمد(ص) ما كان فعل (1)
كاش بدر ميں مارے جانے والے ميرے بزرگ آج زندہ ہوتے اور تلوار كى زد ميں آنے والے خزرجيوں (انصاريوں )كى گھبرا ہٹ اور چيخ و پكار كا نظارہ كرتے تو فرط مسرت سے ان كے چہرے دمك اٹھتے اور وہ ہلّڑ بازى كرنے لگتے پھر مجھے مبارك باد ديتے ہوئے كہتے كہ يزيد تمہارا بہت بہت شكريہ_ ہم نے ان لوگوں كے بڑے بڑوں كو آج قتل كركے بدر كا بدلہ چكا ديا ہے _اب ہمارا حساب برابر ہوگيا ہے _بنى ہاشم نے حكومت كا كھيل كھيلاتھا و گرنہ نہ نبوت كى كوئي خبر آئي ہے اور نہ ہى كوئي وحى نازل ہوئي ہے_ اگر ميں نے ( نعوذ باللہ ، حضرت) محمد(ص) كے گھرانے سے ان كے كئے كا بدلہ نہ ليا تو ميں خندف كا بيٹا ہى نہيں ہوں _
اسى طرح بدر كے متعلق خالد قسرى كے ساتھ قتادہ كى گفتگو بھى ملاحظہ ہو(2) حالانكہ قتادہ ايك مشہور و معروف شخصيت اور اہل بصرہ كا بزرگ محدث تھا_

شہدائے انصار
اگر چہ جنگ بدر ميں مسلمانوں مہاجرين كى تعداد لشكر اسلام كا چو تھا يا پا نچواں حصہ تھى ، ليكن ان كے شہيد مختلف اقوال كى بنا پر شہدائے انصار كے تيسرے بلكہ نصف حصہ سے بھى زيادہ تھے _ حالانكہ اگر تعداد اور كميت كو مد نظر ركھا جائے تو اس تناسب كو اس سے كم بلكہ بالكل ہى كم ہونا چاہئے تھا _ يعنى مہاجرين كى تعداد كل كا چوتھا يا پانچواں حصہ تھي_جبكہ شہدائے مہاجرين كى تعداد كل شہيدوں كا تيسرا بلكہ آدھا حصہ تھي_بطور مثال
---------------------------------------------------------
1)مقتل امام حسين (ع) مقرم ص 449و ص 450و اللہوف ص 75و 76_
2)بحار الانوار ج 19ص 298و ص 300و روضہ كافى ص 111تا ص 113_

313
اگر كل تعداد 100فرض كرليں تو مہاجرين كى تعداد بيس20سے پچيس 25 تك ہو گى _جبكہ ہر تين بلكہ دو انصارى كے شہيد ہونے كے ساتھ ايك مہاجر بھى شہيد ہوا جس كا مطلب يہ ہے كہ ہر بيس انصارى كے ساتھ ساتھ سات سے دس تك مہاجر بھى شہيد ہوئے حالانكہ اس حساب سے ہر بيس انصارى كے مقابلے ميں صرف چارسے پانچ مہاجرين كو جام شہادت نوش كرنا چاہئے تھا جبكہ لشكر اسلام 313 مجاہدين پر مشتمل تھا، ان ميںمہاجرين كى تعداد 78 سے 63 افراد بلكہ اس سے بھى كم تھى _ اور شہدائے اسلام كى كل تعداد زيادہ سے زيادہ چودہ بتائي گئي ہے _ جن ميں كم از كم چھ مہاجر اور آٹھ انصارى تھے_ حالانكہ اپنى تعداد كے تناسب سے ان كے شہيدوں كى تعداد زيادہ سے زيادہ تين سے چارتك ہونى چاہئے تھى بلكہ اگر انصار اور مہاجرين كے حالات كا موازنہ كيا جائے تو اس تعداد كو اس سے بھى كم ہونا چاہئے تھا_اس سے اس جنگ ميں مہاجرين كے بھر پور كردار كا اندازہ لگايا جا سكتا ہے مترجم_

آيت تخفيف كے متعلق علامہ طباطبائي كا نظريہ :
يہاں علامہ طبا طبا ئي كى ايك بات ہمارى گفتگو سے متعلق بھى ہے اس لئے اس كے خلاصے كا ذكر يہاں مناسب معلوم ہوتا ہے _وہ كہتے ہيں كہ:
ارشاد ربّانى ہے:
(يا ايھا النبى حرض المؤمنين على القتال ان يكن منكم عشرون صابرون يغلبوا مئتين و ا ن يكن منكم مئة يغلبوا الفاً من الذين كفروا بانھم قوم لا يفقھون _الآن خفف الله عنكم و علم ان فيكم ضعفاًفان يكن منكم مئة صابرة يغلبوا مئتين و ان يكن منكم الفاً يغلبوا الفين باذن الله و الله مع الصابرين _ ما كان لنبى

314
ان يكون لہ اسرى حتى يثخن فى الا رض تريدون عرض الدنيا و الله يريد الا خرة و الله عزيز حكيم)
'' اے نبى (ص) مؤمنوں كو جنگ كے لئے تيار كرو كہ تمہارے بيس بہادر افراد ان كے دوسو جنگجوؤں پر غلبہ پاليں گے ،اسى طرح تمہارے سو آدمى ان كے ايك ہزار جنگجوؤںپر بھى كامياب ہو جائيں گے كيونكہ وہ نا سمجھ لوگ ہيں ليكن اب خدا نے يہ جان كر كہ تم كمزور ہو گئے ہو تمہيں چھوٹ دے دى ہے _ پس اب تمہارے سو بہادر جنگجوان كے دوسو آدميوں پر غلبہ پاليں گے اور خدا كے حكم سے تمہارے ايك ہزار آدمى ان كے دو ہزار سپاہيوں پر غالب آجائيں گے _ اور خدا پائيدارى دكھانے والے بہادروں كے ساتھ ہے _اور مشركوں كا اچھى طرح قلع و قمع كئے بغير نبى (ص) كا ہاتھ روك لينا مناسب نہيں ہے _ تم لوگ تو دنيا دارى اور اس كے حصول كے لئے جنگ لڑنا چا ہتے ہو ليكن خدا تمہارى اخروى بھلائي چاہتا ہے اور خدا با عزت اور دانا ہے،،(1)
پس خدانے يہاں بيس آدميوں كے دو سو سپاہيوں پر غلبہ كى وجہ يہ بيان كى ہے كہ وہ دو سو نا سمجھ ہيں ليكن يہ بيس آدمى سمجھ دار اور چالاك ہيں _ اور يہ اس لئے ہے كہ اس وقت مومنين خدا پر ايمان كے بل بوتے پر جنگ لڑتے تھے اور يہ ايمان ايسى بھر پور طاقت ہے جس كا مقابلہ كوئي بھى طاقت نہيں كر سكتى ، اس لئے كہ وہ اس صحيح سو چ اور عقيدے پر مبنى ہے جو شجاعت ، جرات ، ذكاوت ، استقامت ، وقار ، اطمينان اور خدا پر بھروسہ جيسے صفات حسنہ كے زيور سے انہيں آراستہ كرتا ہے _ نيز ان ميں يہ يقين بھى پيدا كرتا ہے كہ وہ يقينا دوميں سے كوئي ايك اچھائي حاصل كر ہى ليں گے يعنى يا تو وہ كامياب ہو جائيں گے يا پھر رتبہ شہادت پر فائز ہو جائيں گے _ اور يہ كہ موت كا مطلب فنا نہيں ہے جس طرح كافروں كى غلط سوچ ہے بلكہ موت تو سعادت اور دار بقاء (جنت) كى طرف منتقلى كا نام ہے_پس كفار ،شيطان كى گمراہيوں اور نفسانى خواہشات كے بھروسے پر آئے تھے اور بہت كم ہى ايسا ہو تا ہے كہ نفسانى خواہشات موت تك بھى ثابت رہيں_ اور نہ بدليں ، كيونكہ جب
---------------------------------------------------------
1)انفال /65تا 67_

315
سب كچھ جان بچانے اور آسودہ رہنے كے لئے ہى ہے تو پھر جان كا نذرانہ كس لئے ديں؟
پس علم اور ايمان كے ساتھ ساتھ مومنوں كى سمجھ دارى جنگ بدر ميں ان كى كاميابى كى وجہ بنى جبكہ كافروں كے كفر اور نفسانى خواہشات كے علاوہ ان كى بے وقوفى اور جہالت ان كى شكست كا باعث بنى _ليكن اس كے بعد جب مسلمانوں كى تعداد زيادہ ہو گئي تو ان كى روحانى اور معنوى طاقت آہستہ آہستہ كم ہوتى گئي اور وہ كمزور ہوتے گئے كيونكہ گذشتہ پہلى آيت يعني( ذلك بانہم قوم لا يفقہون) ميں مذكور ان كى سمجھ دارى اور دوسرى آيت يعنى ( واللہ مع الصابرين) ميں مذكور ان كى پائيدارى ، صبر اور دليرى كم ہوگئي _ اور اس كمزورى كى ايك عام وجہ يہ ہے كہ ہر گروہ ،قوم يا جماعت اپنى بقاء اور اہداف زندگى كے حصول كى جد و جہد كرتى ہے _ اب اس سے كوئي فرق نہيں پڑتا كہ وہ اہداف دنياوى ہيںيا دينى ہيں _ بہر حال يہ قاعدہ كليہ ہے كہ وہ لوگ چونكہ پہلے پہل اپنے اغراض و مقاصد كے حصول كى راہ ميں كچھ ركاوٹيں پاتے ہيں اور بنياد ہلا دينے والے خطرات كو محسوس كرتے ہيں تو وہ اپنے اہداف كے حصول ، ركاوٹوں كے خاتمے اور خطرات سے نبٹنے كے لئے سخت جد و جہد كرتے ہيں اور ايڑى چوٹى كا زور لگا ديتے ہيں _ نيز اس راہ ميں اپنى جان كا نذرانہ تك دينے سے نہيں ہچكچا تے _ اورہنسى خوشى سب كچھ لٹا ديتے ہيں ليكن جب وہ اپنے اغراض و مقاصد كى راہ ميں كچھ قربانى دے ديتے ہيں ، ان كے لئے راستہ تھوڑا سا ہموار ہوجاتا ہے اور فضا كچھ سازگار ہوجاتي_
نيز تعدا د بھى زيادہ ہو جاتى ہے تو وہ اپنى قربانيوں كے نتائج سے بہرہ مند ہونا شروع كرديتے ہيں اور نعمتوں اور آسائشےوں ميں رہنا شروع كرديتے ہيں _
جس كے نتيجے ميں ان كا جوش و جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے _ اور يہ واضح سى بات ہے كہ كسى جماعت يا معاشرے كے افراد اگر كم ہيں تو بلا ترديد وہ عام طور پر اپنے مقاصد اور اہداف كے حصول كے لحاظ سے يقين
316
اپنى ذہنى اور فكرى سطح ، صفات اور اخلاقيات كے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہيں اور جيسے جيسے ان كى تعداد بڑھتى جاتى ہے ويسے ويسے ان ميں ضعيف الاعتقاد ، منافق اور بيمار ذہن افراد كى تعد اد ميں بھى اضافہ ہو تا رہتا ہے_ جس كے نتيجے ميں اگر عام افراد كو بھى ساتھ مد نظر ركھيں تو مجموعى طور پر ان كى روحانى ، معنوى اور جذباتى طاقت كى سطح نيچے آ جاتى ہے _ اور تجربہ سے يہ بات ثابت ہوئي ہے كہ كسى گروہ كے افراد جتنا كم ہوں گے ، ان كے دشمن جتنا زيادہ طاقتور ہوں گے اور مختلف تكليفوں ، مصيبتوں اور پريشانيوں نے انہيں جتنا زيادہ گھيرا ہو گا وہ اتنا ہى مصمم ، تيز ، چالاك ، بہادر ، جنگجو اور چست ہوں گے _ اور جوں جوں ان كى تعداد بڑھتى جائے گى ان كے جذبات اتنے ہى ٹھنڈے پڑتے جائيں گے ، ذہنى بيدارى كم ہوتى جائے گى اور دماغ خراب ہو تا جائے گا(1)_
ہمارى مذكورہ باتوں كى بہترين دليل آنحضرت (ع) كے غزوات ہيں_ قارئين جنگ بدر ميں مسلمانوں كى تعداد، تيارى ، حالات و واقعات اور نتائج كا احد، خندق ، خيبر اور حنين جيسى ديگر جنگوں ميں مسلمانوں كى تعداد ، تيارى ، حالات و واقعات اور نتائج كا موازنہ اور تقابل كركے ديكھ سكتے ہيں_ اور جنگ حنين كے نتائح تو اتنے ہولناك اور بھيانك تھے كہ خدا كو يہ فرمانا پڑا :
(و يوم حنين اذ اعجبتكم كثرتكم فلن تغن عنكم شيئاً وضاقت علكم الارض بما رحبت ثم وليتم مدبرين )(توبہ25)
''اور جنگ حنين ميں جب تمہارى كثرت تعداد نے تمہيں غرور ميں مبتلا كرديا تو تمہيں كسى چيز نے فائدہ نہيں پہنچايا اور زمين اپنى وسعت كے باوجود تم پر تنگ ہوگئي اور تم پيٹھ دكھا كر الٹے پاؤں بھاگے''
---------------------------------------------------------
1) اس سارى بات كو دسيوں برس پہلے علامہ اقبال نے دو لفظوں ميں يوں بيان كيا ہے:
ميں تم كو بتا تا ہوں تقدير امم كيا ہے
شمشير و سناں اول طاؤوس و رباب آخر

317
ہمارى ان باتوں سے اب مذكورہ آيتوں كا مفہوم واضح ہوجاتا ہے_ نيز ان باتوں پر وہ مذكورہ تيسرى آيت بھى دلالت كرتى ہے جس ميں يہ بيان ہوا ہے كہ وہ لوگ دنياوى مفاد كى خاطر جنگ سے ہاتھ روكنا چاہتے تھے_ اور چونكہ پہلى دو مذكورہ آيتيں دو مختلف زمانوں ميں روحانى اور جذباتى طاقت كى طبيعت اور كيفيت بيان كر رہى ہيں اس لئے دو آيتوں كے بيك وقت نزول ميں كوئي مانع نہيں ہے_ كيونكہ دو زمانوں ميں دو مختلف احكام كى موجودگى كا يہ مطلب نہيں ہے كہ ايك حكم كو بيان كرنے والى ايك آيت ايك زمانے ميں جبكہ دوسرے حكم كو بيان كرنے والى آيت دوسرى موقع پر نازل ہو ، كيونكہ يہ آيتيں ايك طبيعى حكم كو بيان كررہى ہيں كسى شرعى حكم كو نہيں _علامہ طباطبائي پھر فرماتے ہيں كہ پہلى آيت ميں فقہ (سمجھداري) اور دوسرى آيت ميں صبر كى تعليل بظاہر اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ صبر (پائيداري) ايك شخص كا پلڑا روحانى طاقت كے لحاظ سے اپنے جيسے دو آدميوں پر بھارى كرتى ہے جبكہ فقہ ايك شخص كا پلڑا اس جيسے پانچ آدميوں پر بھارى كرديتى ہے_ پس اگر يہ دونوں چيزيں كسى ايك شخص ميں جمع ہو جائيں تو اس كى روحانى طاقت كا پلڑا دس آدميوں پر بھى بھارى ہو جاتاہے (1)البتہ فقہ سے صبر جدا نہيں ہے گرچہ صبر سے فقہ جدا ہوسكتى ہے(2)_
---------------------------------------------------------
1)بسا اوقات يہ كہا جاتا ہے كہ ان كے كہنے كا مطلب يہ ہونا چاہئے كہ اگر يہ دو صفات كسى شخص ميں جمع ہو جائيں تو اس شخص كو اپنے جيسے سات آدميوں جتنا طاقتور بنا ديتى ہيں _ ليكن ہم كہتے ہيں كہ ان كے كہنے كا مقصد يہ ہے ، كہ فقہ سے پيدا ہونے والى پانچ گنا طاقت كو صبر آكر دوگنا كرديتا ہے اور يہى بات ہى دونوں آيتوں كے مفہو م كے زيادہ مناسب ہے _ كيونكہ فقہ سے صبر اور دوسرى صفات حميدہ بھى حاصل ہوجاتى ہيں پھر صبر آكر اس كى موجودہ طاقت كو دوگنا كرديتا ہے _
2) ملاحظہ ہو: الميزان علامہ طباطبائي ج 9 ص 122 تا ص 125_