265
پانچواں باب
مكہ سے مدينہ تك
پہلى فصل : ہجرت مدينہ كا آ غاز
دوسرى فصل : ہجرت رسول(ص)
تيسرى فصل : قبا كى جانب
چوتھى فصل : مدينہ تك
266
پہلى فصل
ہجرت مدينہ كا آغاز
267
وطن كى محبت ايمان كا حصہ ہے _
آئمہ معصومين(ع) سے منقول ہے كہ ''حب الوطن من الايمان'' (1) يعنى وطن كى محبت ايمان كا حصہ ہے_ پہلى نظر ميں اس جملے كا كوئي درست اور قابل قبول مفہوم بنتا نظر نہيں آتا كيونكہ يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ وطن كى محبت كيونكر ايمان كا حصہ قرارپائے؟ كيا اس خاك كو جس پر انسان كى ولادت ہوئي اور جس كى فضاؤں ميں اس نے زندگى گزارى ہے صرف خاك ہونے كے ناطے اس قدر اہميت اور احترام حاصل ہے كہ اس كى محبت ايمان كا حصہ قرار پائے؟ خواہ جغرافيائي طور پر اس كى حالت كتنى ہى بدتر كيوں نہ ہو؟ كيا اس محبت كے فقدان كى صورت ميں انسان كا ايمان ناقص اور مطلوبہ اثرات سے عارى ہوگا؟
اس سوال كا جواب ديتے ہوئے ہميں يہ نكتہ ملحوظ خاطر ركھناہوگا كہ اسلام كى نظر ميں اہميت كى حامل اس محبت سے مراد ايسى اندھى محبت نہيں ہوسكتى جس كا كوئي مقصد يا فائدہ نہ ہو يا اسلام كى مخالف سمت ميں ہو بلكہ اس سے مراد ايسى محبت ہے جو اسلام كے عظيم اہداف سے ہم آہنگ ہو_ نيز حقيقى ايمان اور دينى بنيادوں پر استوار ہو_ اس قسم كى محبت ہى ايمان كا حصہ ہوسكتى ہے_
علاوہ براين وطن (جس كى محبت كو ايمان قرار ديا جارہا ہے) سے مراد وہ جگہ بھى نہيں جہاں انسان كى پيدائشے واقع ہو بلكہ اس سے مراد وہ عظيم اسلامى وطن ہے جس كى حفاظت دين اور انسانيت كى حفاظت شمار ہوتى ہو كيونكہ يہ دين كى تقويت اور اعلاء كلمة الله كا باعث ہے_
نيز يہى وطن اسلام كى طاقت كا مركز ہے كيونكہ وہ امن و سكون كى آماجگاہ، نيز فكرى و روحانى اور مادي
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سفينة البحار ج 2 ص 668_
268
تربيت گاہ ہے اور پھر يہيں سے بہتر اور مثالى مراحل كى طرف انتقال كا عمل شروع ہوتا ہے ليكن اس وطن سے دورى اور استقلال اورسكون كے فقدان كى صورت ميں (تعميري) قوتيں ضائع ہوجاتى ہيں كيونكہ وہاں انسان كو اپنى حقيقت اور اپنے مستقبل كے بارے ميں غوروفكر كى فرصت ہى نہيں ملتى اور اگر اس كا موقع مل بھى جائے تو مركزيت جو منظم اور ٹھوس پيشرفت نيز استحكام اور عمل پيہم كا موقع فراہم كرتى ہے، كے فقدان كے باعث وہ اپنے فيصلوں كو عملى جامہ نہيں پہنا سكتا_
خلاصہ يہ كہ وطن، دين اور حق كے دفاع نيز برگزيدہ وبلند اہداف تكے پہنچنے كا وسيلہ ہونے كے علاوہ كچھ بھى نہيں_ بنابريں اصل چيز دين اور انسان ہيں _رہا وطن اورديگر چيزيں توان كو دين وانسانيت كى خدمت كا وسيلہ سمجھنا چاہيئے_
پس جو شخص اسلام كى حفاظت يا اس سے محبت كے پيش نظر اپنے وطن كى محافظت يا اس سے محبت كرتا ہے اسے ايمان كا حصہ قرار ديا جاسكتا ہے_
ليكن اگر وطن شرك وكفر وانحراف اور انحطاط انسانيت كى سر زمين ہو تو اس قسم كے وطن كى حفاظت يا اس سے محبت درحقيقت شرك كى تقويت اور حفاطت ہوگي_ اور اس محبت كا تعلق كفر وشرك سے ہوگا نہ كہ ايمان اور اسلام سے_
اس لئے قرآن اور اسلام نے ان لوگوں كو جو بلاد شرك ميں رہتے ہوں (اوران كا وہاں رہنا دين وايمان كى كمزورى كا باعث ہو) حكم ديا كہ وہ وہاں سے ہجرت كر كے بلاد ايمان واسلام كى طرف چلے جائيں جہاں وہ اپنے دين نيز تخليقى صلاحتيوں سے مالا مال عظيم انسانيت كى خاطرخواہ اور مؤثر حفاظت كرسكيں_ ارشاد الہى ہے (ان الذين توفاھم الملائكة ظالمى انفسھم قالوا فيم كنتم قالوا كنا مستضعفين فى الارض قالوا الم تكن ارض الله واسعة فتہاجروا فيھا فا ولئك ما واھم جہنم وسائت مصيرا) (1)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ نساء آيت 97 _
269
يعنى فرشتے جن لوگوں كى روحيں قبض كرتے ہيں اوران سے پوچھتے ہيں تم كس حال ميں تھے، وہ كہيں گے ہم زمين ميں كمزور اور مجبور تھے_ فرشتے كہيں گے كيا خدا كى زمين وسيع نہ تھى تاكہ تم اس ميں ہجرت كرتے، يہ وہ لوگ ہيں جن كا ٹھكانہ جہنم ہے اور بڑا ہى برا ٹھكانہ ہے_
بلكہ اگركسى انسان كا وطن جہاں وہ پيداہوا ہو دين حق كے مقابلے پر اور نور الہى كو بجھانے كى كوشش ميں ہو تو اس كو برباد كرنا ہر ايك كے اوپر لازم ہے_ يہاں تك كہ خود اس شخص پر بھي، جس كى وہاں ولادت ہوئي ہو اور زندگى گزرى ہو_ (1)
بنابريں ہم اس نتيجے پر پہنچتے ہيں كہ رسول(ص) الله اور اصحاب كى مكہ سے مدينہ كو ہجرت فطرت انساني، عقل سليم اور صحيح طرزفكر كے تقاضوں كے عين مطابق تھي_ كيونكہ صحيح فكر كے سامنے اچھے اور بلند اہداف ہوتے ہيں نيز اس كى نظر ميں ہر چيز كى قدر وقيمت اتنى ہى ہوتى ہے جس قدر ان اہداف كے ساتھ سازگار اور ان تك رسائي ميں مددگار ثابت ہو_
آيئےب ہم ديكھتے ہيں كہ مدينہ كى طرف ہجرت كن حالات ميں، كن اسباب كى بناپر، اور كس طرح ہوئي؟
ہجرت مدينہ كے اسباب
مكہ سے مدينہ ہجرت كے اسباب بيان كرتے ہوئے ہم درج ذيل نكات كى طرف اشارہ كرسكتے ہيں:
1_ مكہ دعوت اسلامى كيلئے مناسب جگہ نہ تھي_ رسول(ص) خدا كيلئے مكے ميں كاميابى كى جتنى گنجائشے تھى وہ حاصل ہو چكى تھى اور اب اس بات كى اميد نہيں تھى كہ مزيد لوگ كم ازكم مستقبل قريب ميں، اس نئے دين كو اپنائيں گے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ علامہ محقق شيخ على احمدى كا خيال ہے كہ معصومين كے قول ''حب الوطن من الايمان'' كا مطلب يہ ہے كہ جس شخص كو اپنے وطن سے محبت ہو وہ اس وطن كو انحرافات سے نجات دينے، اس كى مشكلات كو دور كرنے اور وہاں كے معاشرے كو حق و ايمان اور اسلام كى طرف رہنمائي كرنے كيلئے كوشاں ہوتا ہے كيونكہ ظاہر ہے كہ يہ ايمان كا تقاضا ہے_
270
جب تك لوگوں كے قبول اسلام كے باعث اس كى تقويت واعانت كى اميد تھى مصائب ومشكلات كو برداشت كرنے كى معقول وجہ موجود تھي_ليكن اب مكہ اپنا سب كچھ دے چكا تھا_
مومن جوانوں اور مستضعفين كى كافى تعداد اسلام قبول كرچكى تھي_ لہذا اب مكہ ميں وہى لوگ رہ گئے تھے جو اطاعت خدا كيلئے سد راہ تھے_ اسلام كى ترقى كى راہ ميں ركاوٹيں ڈال رہے تھے اور اس كے پھيلاؤ كو روك رہے تھے_ ان حالات ميں مزيد وہاں ٹھہرنا نہ صرف بے دليل ہوتا بلكہ اسلامى دعوت كے ساتھ خيانت اور اس كے خلاف جنگ ميں مدد اور اس كى شكست كا باعث ہوتا_ خاص كر ان حالات ميں جبكہ قريش راہ خدا سے لوگوں كو روكنے اور نور الہى كو بجھانے كيلئے اپنى قوتوں كو مجتمع كر رہے تھے حالانكہ خدا كو بس يہ منظور تھا كہ وہ اپنے نور كو كامل كرے اگرچہ مشركين كو يہ بات نا پسند ہو_
جى ہاں اب يہ بات ناگزير ہوگئي تھى كہ ايك نئے مركز كى طرف منتقل ہواجائے، جہاں سكون واطمينان كے ساتھ مشركين كے دباؤ اور ان كے زير تسلط اور زير اثر علاقوں سے دور رہ كر زبانى اور عملى طور پر آزادى كے ساتھ تبليغ دين كرنے كى ضمانت فراہم ہو_
ادھر ہم مشاہدہ كرچكے ہيں كہ مشركين رسول(ص) الله كى سرگرميوں پر كڑى نظر ركھے ہوئے تھے_ وہ مسلمانوں كو دھمكياں ديتے بلكہ اس نئے دين ميں داخل ہونے والے ہر شخص كو سزائيں ديتے اور جن لوگوں كے مسلمان ہونے كا خطرہ ہوتا انہيں ڈراتے تھے_
2_اسلام اور اس كے داعى اور نمائندہ يعنى رسول الله صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كيلئے كسى محدود كاميابى پر اكتفا كرنا ممكن نہ تھا كيونكہ اسلام پورى انسانيت كا دين تھا، ارشاد الہى ہے (وما ارسلناك الا كافة للناس) (1) ہم نے آپ(ص) كو تمام انسانوں كيلئے (بشير ونذير بناكر) بھيجا ہے _
واضح ہے كہ اب تك جو كاميابياں نصيب ہو چكى تھيں وہ اسلام كى تعليمات كو عملًا نافذ كرنے اور اس كے سارے اہداف كو حاصل كرنے كيلئے ناكافى تھيں خصوصاً لوگوں كے معاشرتى واجتماعى مسائل وغيرہ كے حل
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ سبا آيت 28 _
271
سے متعلق پہلوؤں كے نقطہ نظرسے كہ (قانون اور نظام كى موجودگى ميں)جن كو نافذ كرنے كيلئے طاقت اور قوت كى ضرورت ہوتى ہے_
ادھر بنى ہاشم اور بنى عبدالمطلب رسول(ص) الله كى ذات كو تو دشمنوں كے شرسے بچانے كى ضمانت دے سكتے تھے ليكن وہ آپ(ص) كے اصحاب اور اس نئے آسمانى دين ميں داخل ہونے والوں كى حفاظت كے ضامن نہيں بن سكتے تھے ،خاص كراس صورت ميں كہ رسول(ص) الله بوقت ضرورت اسلامى تعليمات كے فروغ كو ان پر ضرورى قرار دينے كى كوشش فرماتے_ كيونكہ اس صورت ميں تو وہ آپ(ص) كى معمولى سى حمايت بھى نہ كرپاتے_
حضرت ابوطالب عليہ السلام كى وفات كے بعد تو حالات نے خودرسول(ص) الله كے خلاف بھى خوفناك شكل اختيار كرلى تھى جيساكہ ہم ملاحظہ كرچكے اورآئندہ بھى ملاحظہ كريں گے_
3_دائرہ اسلام ميں داخل ہونے والے مسلمان سالہاسال سے آزار اور مظالم كو سہتے چلے آرہے تھے يہاں تك كہ كچھ مسلمان اپنے دين كى حفاطت كے پيش نظر مكہ سے بھاگ كر دوسرے علاقوں ميں چلے گئے ...
جو مسلمان مكہ ميں باقى رہے قريش ان كو گمراہ كرنے كيلئے ظلم و زبردستى اور دھوكہ و فريب كے مختلف حربے استعمال كرتے رہے اور يہ مسلمان ان كا سامنا كرتے رہے_
الله اور رسول(ص) كے شير (حمزہ(ع) ) نيز بعض دوسرے معدود مسلمانوں ( جنہيں اپنے قبيلوں كى حمايت حاصل تھي)(1) كے علاوہ باقى مسلمان غالباًغريب اور بے چارے لوگ تھے جن كيلئے سختيوں پر صبر وتحمل كے علاوہ كوئي چارہ نہ تھا _اگر يہ لوگ آلام و مشكلات كا يونہى سامنا كرتے رہتے اور اميدكى كوئي كرن بھى نظر نہ آتى تو پھر خواہ ان كا ايمان كتنا ہى قوى كيوں نہ ہوتا، فطرى بات تھى كہ ان حالات ميں وہ مايوسى كا شكار ہوجاتے، اس قسم كى زندگى سے اكتا جاتے اور زودگزر خواہشات ان پر غلبہ پا ليتيںيوں وہ خود بھى ہلاك ہوجاتے اور
--------------------------------------------------------------------------------
1_ حتى كہ يہ لوگ بھى نفسياتى اور روحانى كرب و آزار نيز تلخ اجتماعى منافرت سے محفوظ نہ تھے بسا اوقات يہ حالت بعض مسلمانوں كيلئے (شعور و آگاہى اور تيزبينى ميں دوسروں سے ممتاز ہونے كى وجہ سے) جسمانى ايذا رسانى سے بھى سخت بات تھي_
272
دوسروں كو بھى ہلاك كرتے، كيونكہ مصائب و مشكلات كے ساتھ پورى زندگى گزارنا ان كے بس كى بات نہ تھى چنانچہ ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ جب جنگ احد ميں يہ افواہ پھيلى كہ رسول(ص) خدا شہيد ہوچكے ہيں تو بعض لوگ دوبارہ مشرك ہوجانے كى سوچنے لگے اور مشركين كے ساتھ صلح كا راستہ، ڈھونڈنے لگے_ اس بارے ميں قرآن كى يہ آيت اترى جس كى تلاوت قيامت تك ہوتى رہے گي_
(وما محمد الا رسول قدخلت من قبلہ الرسل ا فان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ومن ينقلب منكم على عقبيہ فلن يضرالله شيئا، وسيجزى الله الشاكرين)
يعنى محمد(ص) تو بس الله كے رسول(ص) ہيں ان سے پہلے بھى متعدد رسول(ص) گزرچكے ہيں توكيا اگران كى موت واقع ہو يا قتل ہوجائيں تو تم الٹے پاؤں پھرجاؤگے؟ ياد ركھوتم ميں سے جو شخص الٹے پاؤں پھر جائے وہ الله كا كچھ نقصان نہ كرے گا_البتہ الله اپنے شكر گزار بندوں كو جزائے خير دے گا_ (1)
4_قريش آخر كار اس نتيجے پر پہنچے كہ رسول(ص) الله كو قتل كرنے كى ايك ايسى راہ موجود ہے جس ميں بنى ہاشم كے سامنے ان پر كوئي واضح ذمہ دارى عائدنہيں ہوگى بالفاظ ديگر بنى ہاشم پيغمبر(ص) كے خون كا مطالبہ نہ كرسكيں گے كيونكہ ان كے منصوبے كے مطابق آپ(ص) كو دس آدمى ملكر قتل كرتے جن كا تعلق مختلف قبائل سے ہوتا_ يوں آپ(ص) كاخون بہت سے قبائل كے درميان تقسيم ہوجاتا كيونكہ بنى ہاشم ان سب كا مقابلہ نہيں كرسكتے تھے_ اگر بنى ہاشم ان سب سے لڑتے تو خود مصيبت ميں پھنس جاتے_ ليكن اگر ديہ (يا خون بہا) قبول كرليتے تو يہ قريش كيلئے اور بھى اچھا ہوتا_ پس جب رسول(ص) الله قتل ہوجاتے تو آپ(ص) كے پيروكاروں كو ختم كرنا بہت آسان ہوجاتا اور قريش كو كوئي خاص پريشانى پيش نہ آتى بلكہ اگر مسلمانوں كو يونہى چھوڑ ديتے تب بھى وہ خود بخود ختم ہوجاتے_
يہ تھا قريش كا خيال اور منصوبہ، ياد رہے كہ نبى اكرم(ص) پر اگرچہ خدا كا لطف و كرم تھا اور اس كى توجہ آپ(ص) پرتھى ليكن بديہى بات ہے كہ اگر قريش اپنے منصوبوں كو عملى جامہ پہنانے كى كوشش كرتے تو خواہ ان كو
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ آل عمران آيت 144 _
273
كاميابى ہوتى يا ناكامى نتيجتاً بنى ہاشم اور قريش كے روابط نہايت كشيدہ ہوجاتے اور رسول(ص) الله كے مكہ ميں رہنے كى صورت ميں حالات بدترہوجاتے_ ادھر خدا كا قانون يہ رہا ہے كہ وہ كسى شخص كو اپنے ارادوں كو عملى جامہ پہنانے سے جبرى طور پر نہيں روكتا_ ہاں جب دين اور انسانيت كى حفاظت كيلئے نبى كى حفاظت ضرورى ہو تو اس صورت ميں الله كى عنايات نبى كے شامل حال ہوتى ہيں اور دشمن اپنے ارادوں كو عملى جامہ پہنانے سے عاجز رہتے ہيں_
خلاصہ يہ كہ ان حالات ميں رسول(ص) الله اور آپ(ص) كے اصحاب كيلئے مكہ سے نكل كر كسى ايسے پرامن مقام كى طرف جانا ضرورى ہوگيا تھا جہاں وہ زيادہ بہتراور جامع صورت ميں اپنى دعوت كو پھيلانے اور اپنے مشن كو لوگوں تك پہنچانے كى جدوجہد كرسكتے_
مدينہ كے انتخاب كى وجہ
رہا يہ سوال كہ رسول(ص) خدانے دوسرے مقامات مثلاً حبشہ وغيرہ كو چھوڑ كر مدينہ كو كس بنا پر اپنى ہجرت اور اپنى دعوت كا مركز منتخب كيا؟
اس سوال كے جواب ميں كئي ايك اسباب كا ذكر كيا جاتا ہے _يہاں ان ميں سے درج ذيل كا تذكرہ كرتے ہيں:
1_مكے كو لوگوں كے ہاں ايك خاص روحانى مقام حاصل تھا _بنابريں مكے پر تسلط حاصل ہوئے بغير، نيز بت پرستوں كے اثر ونفوذ كوختم كر كے اس كى جگہ اسلام كى قوت كو جاگزين كئے بغير آپ(ص) كى دعوت كاميابى سے ہمكنار نہ ہوتى اور آپ(ص) كى تمام كوششيں رائيگاں جاتيں_ كيونكہ آپ(ص) كى دعوت كو مكے كى اسى قدر ضرورت تھى جس قدر مكے كو اس دعوت كي_
اسلئے مكے سے قريب ہى ايسے مقام كا انتخاب ضرورى تھا جہاں سے بوقت ضرورت مكے پر اقتصادى وسياسى بلكہ فوجى دباؤ بھى ڈالاجاسكتا ہو كيونكہ آپ(ص) كو مكے پر تسلط حاصل كرنے كى ضرورت تھي_
274
ادھرمدينہ ہى وہ مناسب جگہ تھى جہاں اس مطلوبہ دباؤ كے سارے لوازمات موجود تھے_ مدينہ اہل مكہ كو اقتصادى بحران ميں مبتلا كرسكتا تھا_كيونكہ مدينہ مكہ كے تجارتى قافلوں كى گزرگاہ تھا، اور قريش كا گزارہ بھى بنيادى طور پرتجارت پرہى تھا_
چنانچہ پہلے بيان ہوچكا كہ مشركين قريش نے بيعت عقبہ كے وقت عبدالله بن ابى سے كہا تھا ''ہمارى ناپسنديدہ ترين جنگ جو چھڑ سكتى ہے وہ تم لوگوں سے ہى ہے''_
نيز اس بات كا بھى تذكرہ ہوچكا ہے كہ جب قريش نے بيعت عقبہ كے بعد سعد بن عبادہ كو پكڑكر سزادى تو حارث بن حرب اور جبير ابن مطعم نے آكر نجات دي_ كيونكہ وہ ان كے مال تجارت كى حفاظت كرتا تھا_
واضح ہے كہ جب اكيلے حضرت ابوذر كے ہاتھوں قريش كى جو شامت آئي سوآئي تو پھر اہل مدينہ كى طرف سے مستقبل ميں ان كى جو شامت آتى وہ زيادہ شديد اور دور رس اثرات كى حامل ہوتي_
2_ان بيانات كى روشنى ميں ہم پر واضح ہوا كہ مدينے كى طرف ہجرت كئے بغير كوئي چارہ كار نہ تھا كيونكہ اگر طائف كى طرف ہجرت كى جاتى تو كوئي فائدہ نہ ہوتا چنانچہ ہم ديكھ چكے كہ جب آنحضرت(ص) نے وہاں ہجرت كى تواہل طائف نے منفى جواب ديا_ اس كى وجہ يہ تھى كہ اہل طائف كے خيال ميں مكہ والے ان پر اقتصادى دباؤ ڈال سكتے تھے اور مكہ والوں كو ان كى اتنى ضرورت نہيں تھى جس قدر انہيں اہل مكہ كي_ نيز آئندہ (كم از كم مستقبل قريب ميں) ان كيلئے سوائے اس كے كوئي چارہ نہ تھا كہ وہ سياسى طور پر اہل مكہ كى متابعت كرتے اور ان كے زير تسلط رہتے_ رہے عرب كے ديگر قبائل تو آنحضرت(ص) آزما چكے تھے كہ وہ لوگ آپ(ص) كى دعوت قبول كرنے اور اس كى حفاظت كرنے كيلئے آمادہ نہ تھے_ آپ(ص) نے انہيں اگرنقصان دہ نہيں پايا تھا تو كم از كم اس نتيجے پر ضرور پہنچے تھے كہ وہ آپ(ص) كے كسى كام نہيں آسكتے_
ادھر يمن، فارس، روم اور شام كے علاقوں پر نظر كريں تو وہ ان دو بڑى سلطنتوں كے آگے سر تسليم خم تھے جن سے پيغمبر(ص) اسلام كو سوائے مشكلات اور عظيم خطرات كے كچھ حاصل نہيں ہوسكتا تھا_
ہم نے اس كتاب كے باب اول كے اواخر ميں اسلام كى اشاعت اور كاميابى كے اسباب كا ذكر كرتے
275
ہوئے اس سلسلے ميں كچھ بحث كى تھي_ آگے چل كر ہم ديكھيں گے كہ جب رسول(ص) الله نے كسرى كو اسلام كى دعوت دينے كيلئے اپنا ايلچى بھيجا تھا تو اس نے آنحضرت(ص) اور آپ(ص) كى رسالت كے خلاف ايك خطرناك كاروائي كرنے كى كوشش كى تھي_ رہى حبشہ كى بات توواضح ہے كہ حبشہ ايسا ملك نہيں تھا جو اقتصادي، سياسى اور عسكرى نقطہ نظر سے (بلكہ فكرى وسماجى حوالے سے بھي) ايك عالمگير اور جامع انقلاب كى قيادت كرسكتا_
لہذا صرف اور صرف مدينہ ہى باقى رہ جاتا تھا_ چنانچہ ہجرت كيلئے اسى سر زمين كا انتخاب ہوا_
3_مذكورہ اسباب كے علاوہ مدينہ زرعى نقطہ نظر سے مكے كى نسبت زيادہ خود كفيل تھا_ بالفاظ ديگر اگر ان كو كسى قسم كے تجارتى دباؤ كا سامنا كرنا پڑتا (اگرچہ مكہ والے ايسا نہيں كرسكتے تھے) تو وہ اغيار كى خواہشات كے آگے سر تسليم خم كئے بغير اس دباؤ كا مقابلہ كرتے ہوئے اپنا گزارہ كر سكتے تھے اگرچہ بمشكل ہى سہي_
زرعى پہلو كے علاوہ ديگر پہلوؤں سے بھى مدينے كو ترجيح حاصل تھي_ نيز پيغمبر(ص) اسلام كى دعوت كيلئے وسيع فعاليت اور ہمہ گير جد وجہد كى ضرورت تھى كيونكہ يہ عالمى سطح پر ايك جامع انقلاب كى قيادت كرنے والى تھي_ علاوہ بريں اس دعوت كو داخلى طور پر اقتصادى استحكام كى ضرورت تھى تاكہ اس كى بدولت اس دعوت كے علمبرداروں كو اپنے دين كى اشاعت اور اپنے مشن كے پھيلاؤ كى جدوجہد كا موقع ميسر ہوسكتا_
4_چونكہ حج اسلام كے اہم ترين احكام ميں سے ايك تھا بنابريں جب تك مكے پر بت پرستوں كا تسلط رہتا حج كى افاديت جاتى رہتي_ نيز عرب قبائل كے درميان قريش كا وسيع اثر ونفوذ باقى رہتااوران قبائل كے دلوں ميں مشركين مكہ كو ايك قسم كا تقدس بھى حاصل رہتا_ بنابريں مكے كوان كے ہاتھوں سے چھڑانا ضرورى تھا تاكہ لوگوں كے نزديك ان كو جو روحانى مقام حاصل تھا اس كاخاتمہ ہوجاتا اور اس نئے دين كيلئے لوگوں كے دلوں كے دروازے پورى طرح كھل جاتے اورمسلمان كسى ركاوٹ كے بغير مكمل آزادى كے ساتھ اس عظيم دينى فريضے كو ادا كرسكتے_
اس بات كى دليل طبرانى وغيرہ كى روايت ہے كہ جب نبى كريم(ص) نے ذى الجوشن ضبابى كو اسلام كى دعوت دى تو اس نے اس وقت تك اسلام كو قبول كرنے سے انكار كيا جب تك وہ اپنى آنكھوں سے كعبے پر آپ(ص) كا
276
غلبہ نہ ديكھ لے_ ايك اور روايت ميں مرقوم ہے كہ اس نے آنحضرت(ص) سے كہا:''ميں نے ديكھا كہ آپ كى قوم نے آپ(ص) كو جھٹلايا اور نكال باہر كيا نيز آپ(ص) كے ساتھ مقابلہ كيا_ اب ميں ديكھتا ہوں كہ آپ(ص) كيا كرتے ہيں_ اگر آپ(ص) كو ان پر فتح حاصل ہوئي تو ميں مسلمان ہوجاؤں گا اور آپ(ص) كى اطاعت كروں گا، ليكن اگر انہيں آپ(ص) پرغلبہ حاصل ہوا تو پھر آپ(ص) كى اطاعت نہيں كرونگا''_ (1)
علاوہ ازيں مكہ سے قريب ترين اور مناسب جگہ مدينہ تھي_ مدينہ اقتصادى طاقت كے ساتھ ساتھ اچھى خاصى افرادى قوت كابھى حامل تھا_ اورمكے والوں كے خلاف اپنى ذمہ دارياں بطريق احسن انجام دينے پر قادر تھا_ مكے كے قريبى علاقوں ميں سے مدينے كے علاوہ كوئي بھى علاقہ ان خصوصيات كا حامل نہ تھا_
5_گذشتہ معروضات كے علاوہ مدينہ والے اصل ميں يمن كے تاركين وطن تھے اور يمن قديم زمانے كى ابتدائي تہذيب وتمدن كاكچھ حد تك حامل رہا تھا_ بنابريں وہ عرب نہيں تھے كہ ان كے دل قساوت سے لبريز ہوتے_ نيز قريش كى طرح اس علاقے ميں ان كيلئے اقتدار يابڑے مفادات كا مسئلہ بھى در پيش نہ تھا_ نہ ہى وہ كسى خاص قسم كے نفسياتى ماحول ميں زندگى گزارتے تھے جس طرح قريش والے عدنانيوں كے درميان اپنى خاندانى حيثيت، مكہ كى سردارى اور بيت الله كے متولى ہونے كے باعث ايك خاص قسم كے نفسياتى ماحول ميں رہ رہے تھے_
ان باتوں كے ساتھ ساتھ عدنانيوں اور قحطانيوں كے درميان واضح اختلاف كا مسئلہ بھى تھا_ قحطان رسول(ص) الله كو دشمنوں كے حوالے كرنے كيلئے (دينى يا نظرياتى جذبات سے قطع نظر) آمادہ نہيں ہوسكتے تھے_ اس بات كى دليل يہ ہے كہ پيغمبر(ص) اسلام كى وفات كے بعد بھى اس اختلاف كے آثار ديكھنے ميں آتے ہيں اسى بنا پر حضرت عمرنے بيت المال كى تقسيم ميں عدنانيوں كو قحطانيوں پر ترجيح دي_ اس بات نے امويوں كيلئے اس روش سے استفادہ كرنے نيز يمنيوں اور قيسيوں كے درميان فتنوں كى آگ بھڑكانے كا راستہ ہموار كيا_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ مجمع الزوائد ج 2 ص 68 يہاں يوں مذكور ہے، اسے عبدالله بن احمد اور اس كے والد نے نقل كيا ہے ليكن اس كا متن ذكر نہيں كيا_ طبرانى سے بھى اسے نقل كيا ہے_ (ان دونوں كے راوى بخارى كے راوى ہيں) نيز ابوداؤد نے اس كا كچھ حصہ نقل كيا ہے_
277
جبكہ دوسرى طرف ہم ديكھتے ہيں كہ اميرالمومنين عليہ السلام كى نظر ميں اولاد اسماعيل كو اولاد اسحاق پر كوئي ترجيح حاصل نہ تھي_ (بہرحال يہ اس بحث كا مقام نہيں)_
6_پھراہل مدينہ نے انحراف وگمراہى كا مزہ نہايت اچھى طرح سے چكھا تھا_ جنگوں نے ان كو تباہ وبرباد كر ڈالا تھا_ وہ مستقل طور پر خوف ودہشت كے زير سايہ زندگى گزار رہے تھے_ يہاں تك كہ وہ شب وروز مسلح رہتے تھے اور اپنے بدن سے اسلحوں كوجدا نہ كرتے تھے (جس كا ذكر ہو چكا ہے)_ يہ بھى بيان ہوچكا كہ خزرج والے قريش كو اپنا حليف بنانے كيلئے مكہ بھى گئے تھے ليكن قريش نے ان كى بات نہ ماني_ اہل مدينہ اپنے دل كى گہرائيوں سے يہ چاہتے تھے كہ وہ اس گھٹن كى فضا سے نكليں_ يہاں تك كہ اسعد بن زرارہ نے اس امر پر اپنے غم وافسوس كا اظہار كيا _چنانچہ جب رسول(ص) الله نے اس كو اسلام كى دعوت دى تو اس نے يوں عرض كيا:'' ہمارا تعلق يثرب كے قبيلہ خزرج سے ہے_ ہمارے اور اوسى بھائيوں كے درميان تعلقات منقطع ہيں_اگر الله آپ(ص) كے ذريعے ان تعلقات كو بحال كرديتا ہے تو كيا ہى اچھى بات ہے_ آپ(ص) سے زيادہ صاحب عزت اور كوئي نہيں ''_ (ان باتوں كا تذكرہ پہلے ہوچكا ہے) _
اس كے علاوہ مدينے ميں اسلام كے پہنچنے كے بعد وہاں كے مسلمانوں كى حفاظت اور اعانت ضرورى تھى تاكہ اس دين كى حمايت اور اعلاء كلمہ حق كا سلسلہ جارى ركھ سكتے_
7_آخرى نكتہ يہ كہ رسول(ص) الله كے ظہور كا زمانہ قريب ہونے كے بارے ميں يہوديوں كى پيش گوئيوں كے باعث سارے لوگ اس دين كو قبول كرنے كيلئے آمادہ تھے_ ليكن ان كو مناسب فرصت اور حوصلہ افزائي كى ضرورت تھي_ان حالات ميں رسول(ص) خدا انہيں كيسے نظر انداز كرسكتے تھے_ اور ان كيلئے قبول اسلام كا موقع فراہم كرنے سے كيسے چشم پوشى كرسكتے تھے جبكہ اہل يثرب بيعت عقبہ كر كے خود ہى رسول (ص) خدا كو مدينہ آنے كى دعوت دے رہے تھے_
يہ تھے وہ نكات جن كى طرف فرصت كى كمى كے سبب صرف اشارہ كرناہى ہم نے كافى سمجھا_
278
مہاجرين كے درميان بھائي چارے كا قيام
چونكہ ہجرت كى وجہ سے مسلمانوں كو بظاہر بہت سى مشكلات كا سامنا كرنا پڑا جس كيلئے اعلى سطح پر ايك دوسرے كى مدد اور تعاون كى ضرورت تھى بنابريں ہجرت كى تيارى كے طورپر مواخات (بھائي چارے) كا اقدام عمل ميں آيا، جس كا مقصد انسانى روابط كو مصلحتوں اور مفادات كى سطح سے بلند كر كے ايك ايسے برادرانہ رابطے كى شكل دينا تھا جو خدا پر ايمان كى بنيادوں پر استوار ہو_
تاكہ اس كى بدولت مسلمانوں كے باہمى تعلقات حقيقت سے قريب تر، منظم تر اور نفسياتى رجحانات سے دورتر ہوں جو بسااوقات مدد كرنے والے يا مدد لينے والے كے ذہن ميں ايسے خيالات پيدا كرنے كا باعث بنتے ہيں جن سے روابط ميں (كم از كم نفسياتى طور پر) پيچيدگى پيدا ہوتى ہے_
بہرحال رسول(ص) الله نے مہاجرين كے در ميان حق اور ہمدرى كى بنيادوں پر بھائي چارہ قائم كيا_آپ(ص) نے حضرت ابوبكر اور حضرت عمر كے در ميان، حضرت حمزہ اور حضرت زيد بن حارثہ كے درميان حضرت عثمان اور حضرت عبدالرحمن بن عوف كے د ر ميان، حضرت زبير اور حضرت ابن مسعود كے درميان حضرت عبادة بن حارث اور حضرت بلال كے درميان، حضرت مصعب بن عمير اور حضرت سعد بن ابى وقاص كے درميان، حضرت ابوعبيدہ اور حضرت سالم (غلام ابوحذيفہ) كے درميان، حضرت سعيد بن زيد اور حضرت طلحہ كے درميان اور حضرت علي(ع) اور اپنے درميان بھائي چارہ قائم كيا اور حضرت علي(ع) سے فرمايا: ''اے على (ع) كيا تم نہيں چاہتے كہ ميںتمہارا بھائي قرار پاؤں؟'' عرض كيا :''كيوں نہيں اے الله كے رسول(ص) ميں تو راضى ہوں''_ فرمايا:'' پس تم ميرے بھائي ہو دنيا ميں بھى اور آخرت ميں بھي''_ (1) (اس دوران عثمان كے حبشہ ميں ہونے سے كوئي فرق نہيں پڑتا جيساكہ ہجرت كے بعد والے مواخات كى بحث ميں اس كا تذكرہ ہوگا انشاء الله ) _
ہم انشاء الله جلدہى بتائيں گے كہ رسول(ص) الله نے ہجرت كے بعد مہاجرين اور انصار كے درميان
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرت حلبيہ ج 2 ص 20 نيز دحلان كى سيرت نبويہ ج 1 ص 155 از استيعاب نيز تاريخ الخميس ج 1 ص 353، مستدرك الحاكم ج 3 ص 14 اور تلخيص مستدرك ذہبي_
279
بھائي چارہ قائم كيا تھا_ وہاں ہم حديث مواخات كے بعض مآخذ كابھى ذكر كريں گے نيز ابن تيميہ وغيرہ كى طرف سے حديث مواخات كے انكار اور اس كے جواب كا بھى تذكرہ كريں گے_ اس كے علاوہ حديث مواخات پراپنى صوا بديد كے مطابق مناسب تبصرہ بھى كريں گے انشاء الله _
مدينہ كى طرف مسلمانوں كى ہجرت كا آغاز
كہتے ہيں كہ عقبہ كى دوسرى بيعت رسول(ص) الله كى مدينہ كى طرف ہجرت سے تين ماہ پہلے ہوئي تھي_ نيز يہ بھى كہا جاتا ہے كہ جب رسول(ص) الله نے عقبہ كى پہلى بيعت مدينہ والوں سے لى تو چونكہ آپ(ص) كے اصحاب مشركين كى ايذاء رسانيوں كے باعث مكہ ميں ٹھہرنے اور ان كے مظالم كو برداشت كرنے پر قادر نہ تھے_ بنابريں آپ(ص) نے ا نہيں مدينہ جانے كى اجازت دي_
ليكن خود رسول اكرم(ص) مكے ميں ہى حكم خدا كے منتظر رہے_ يوں مسلمان مختلف ٹوليوں كى شكل ميں خارج ہوئے_ يہاں تك كہ خدانے اپنے نبي(ص) كو بھى ہجرت كى اجازت دى (جيساكہ بعد ميں ذكر ہوگا)_
بے مثال نمونہ:
يہاں اس حقيقت كو ملاحظہ كرنا ضرورى ہے كہ حقيقى مسلمانوں نے اپنے وطن( جس ميں ان كى پرورش ہوئي اور زندگى گزرى )اور دنيا كے تمام مال ومتاع (جو انہيں حاصل ہوا) نيز اپنے معاشرتى و خاندانى رشتوں كو انہوں نے كس طرح قربان كرديا اور دين كے بدلے تمام لوگوں (يہاں تك كہ اپنے باپ بھائيوں اور بيٹوں) كے ساتھ دشمنى مول لي_ يوں وہ اپنے ہدف، اپنے دين اور اپنے عقيدے كى راہ ميں وطن سے نكلے اور ايسے مستقبل كى طرف بڑھے جس كے بارے ميں ان كو علم تھا كہ وہ خطرات اور حادثات سے بھر پور ہوگا_ يہ بے مثال اور حيرت انگيز نمونہ ہميں ہجرت ميں دكھائي ديتا ہے_ خواہ ہجرت مدينہ ہو يا ہجرت حبشہ_
280
عمر ابن خطاب كى ہجرت
ايك چيز جس كى طرف يہاں ہمارى توجہ مبذول ہوتى ہے وہ حضرت عمر ابن خطاب كے قبول اسلام كى كيفيت سے متعلق كہى گئي بات ہے_ چنانچہ بعض لوگ حضرت على (ع) سے نقل كرتے ہيں كہ انہوں نے فرمايا:''جہاں تك ميں جانتا ہوں تمام مہاجرين نے چھپ كر ہجرت كى سوائے عمر بن خطاب كے_ كيونكہ جب حضرت عمر نے ہجرت كا ارادہ كيا تو انہوں نے اپنى تلوار گلے ميں لٹكائي_ اور كمان دوش پر ڈالى اپنے ہاتھوں ميں چند تير اٹھائے ايك نوك دار ڈنڈا بھى ساتھ ليا_ كعبہ كى طرف چل پڑے قريش كى ايك جماعت كعبہ كے احاطے ميں بيٹھى تھى پھرحضرت عمر نے كعبہ كا سات بارطواف كيااور مقام ابراہيم ميں دو ركعت نماز پڑھى _اس كے بعد ايك ايك كر كے لوگوں كے آگے كھڑے ہوگئے اور كہا_ خدا بگاڑدے ان چہروں كو_ خدا ان ناكوں كو خاك ميں ملا دے _ (يعنى ان كو ذليل وخوار كرے گا) پس جويہ چاہتا ہے كہ اس كى ماں اس كے سوگ ميں روئے يا اس كا فرزند يتيم ہوجائے_ يا اس كى بيوى بيوہ ہوجائے_ تو اس وادى كے اس پار ميرے سامنے آئے''_ پھر على رضى اللہ عنہ نے فرمايا: كہ '' كوئي بھى عمر كے پيچھے نہيں گيا اور اس نے اپنا سفر جارى ركھا''_ (1)
ہميں يقين حاصل ہے كہ يہ بات درست نہيں ہوسكتى كيونكہ حضرت عمر اس قسم كى شجاعت كے مالك نہ تھے _ اس كى دليل درج ذيل امور ہيں:
1_حضرت عمر كے قبول اسلام كے متعلق بخارى وغيرہ سے نقل كيا جاچكا ہے كہ جب وہ مسلمان ہوئے تو ڈركے مارے اپنے گھر ميں چھپے رہے_ يہاں تك كہ عاص بن وائل آيا اور انہيں امان دى _اس كے بعد حضرت عمر اپنے گھر سے نكلے_
2_جنگوں ميں حضرت عمر كا عام طور پر جوبزدلانہ رويہ رہا اس كے پيش نظر اس قسم كى باتوں كى تصديق كرنے كى جرا ت ہم ميں پيدا نہيں ہوسكتي_ چنانچہ جنگ بدر كے موقع پر رسول (ص) كريم اور مسلمانوں كو بزدلى پر
--------------------------------------------------------------------------------
1_ منتخب كنز العمال حاشيہ مسند احمد ج 4 ص 387 از ابن عساكر، السيرة الحلبية ج 2 ص 21_ 2 اور نور الابصار ص 15 ميں بھى اس كى جانب اشارہ كيا گيا ہے نيز كنز العمال ج14 ص 221 و 222 از ابن عساكر_
281
اكسانے والى ايسى گھٹيا بات كى جسے سن كر نبى كريم (ص) كے چہرہ اقدس سے غصہ كے آثار ظاہر ہوئے_ جنگ احد ميں وہ بھاگ گئے، حنين ميں بھى بھاگ گئے حالانكہ وہ ديكھ رہے تھے كہ رسول اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كو خطرہ در پيش ہے_ ليكن انہوں نے كوئي توجہ نہ كى اور فقط اپنى جان بچانے كى سوچي_ادھر خيبر ميں ان كا فرار تو اور بھى باعث تعجب ہے كيونكہ وہاں ان كے ساتھ ان كا بچاؤ كرنے والے بھى تھے_ رہا غزوہ خندق تو وہاں وہ عمرو بن عبدود كے مقابلے پرنكلنے كى جرا ت ہى نہ كرسكے_ادھر جنگ احدميں جب نبى اكرم(ص) نے تلوار ہاتھ ميں لے كر فرمايا_ كون ہے جو اس تلوار كو لے اوراس كا حق ادا كرے تو حضرت ابوبكر اور حضرت عمر نے وہ تلوار مانگى ليكن آپ(ص) نے ان دونوں كو نہ دى بلكہ اسے ابودجانہ كے حوالے فرمايا_ ان كے علاوہ اور بھى مثاليں ملتى ہيں جن كے ذكر كى يہاں گنجائشے نہيں ہے _ان ميں سے بعض واقعات كى طرف ہم آئندہ صفحات ميں اشارہ كريں گے انشاء الله تعالي_
عجيب بات تو يہ ہے كہ حضرت عمر حضرت ابوبكر اور حضرت عثمان تينوں نے كسى ايك شخص كو بھى ( ميدان جنگ ميں ) قتل نہيں كيا اور نہ ہى كسى سے (دو بدو) جنگ كى ہے ، اور اس بارے ميں مذكور واقعات كو ہم ثابت كر چكے ہيں كہ وہ صحيح نہيں ہيں_ اسى طرح انہوں نے راہ خدا ميں كوئي بھى زخم نہيں كھا يا حتى كہ ان كى انگليوں سے بھى خون كے قطرے تك نہيں ٹپكے جبكہ رسول (ص) خدا كے بزرگ صحابہ نے راہ خدا ميں مصيبتيں بھى اٹھائيں اور شہيد بھى ہوئے_ ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ حضرات اپنوںميں تو بہادر بنتے تھے ليكنبوقت جنگ ہرگز بہادر نہيں تھے_
3_ہم قبل ازيں اشارہ كرچكے ہيں كہ صلح حديبيہ كے سال وہ رسول(ص) الله كا پيغام لے كر مكہ والوں كے پاس جانے كى ہمت نہ كرسكے اور بہانہ يہ بنايا كہ اگراس كو ايذاء دى گئي تو بنى عدى اس كى مدد نہيں كريں گے_ يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ جو شخص مذكورہ كاركردگى اوربہادرى كا حامل رہا ہو اسے بنى عدى يا كسى اور كى ضرورت ہى كياتھي؟
4_فتح مكہ كے دوران ابوسفيان اور عباس مسلمانوں كے جھنڈوں كا جائزہ لے رہے تھے انہوں نے
282
حضرت عمر كو گزرتے ديكھا جبكہ ان كے ساتھ لوگوں كى ايك جماعت تھى اس وقت ابوسفيان نے عباس سے كہا: '' اے ابوالفضل يہ كون ہے جو بات كر رہا ہے؟ ''عباس نے جواب ديا :''يہ عمر بن خطاب ہے''_ابوسفيان بولا : ''والله بنى عدى كو ذلت وپستى اور قلت عدد كے بعد عزت مل گئي''_ عباس بولا :''اے ابوسفيان الله جس كسى كا مقام جس طريقے سے چا ہے بلند كرديتا ہے اور عمر بھى ان لوگوں ميں سے ايك ہے جس كا مقام اسلام كى بدولت بلند ہوا ہے''_ (1)
5_يہ لوگ اسى بات پر متفق ہيں كہ رسول(ص) الله سارے لوگوں سے زيادہ شجاع تھے_ بلكہ (جلدہى ذكر ہوگا كہ) ان ميں سے بعض حضرات نے اس بات كا دعوى كرنے كى كوشش كى ہے كہ حضرت ابوبكر تمام صحابہ سے زيادہ شجاع تھے( جبكہ بعدميں ہم يہ ديكھيں گے كہ حقيقت اس كے برعكس ہے) ہجرت كے واقعے ميں ہم ديكھتے ہيں كہ رسول(ص) الله غار ميں چھپ گئے اور حضرت ابوبكر ڈركے مارے روتے رہے حالانكہ وہ نبى اكرم(ص) كے ساتھ تھے جن كى حفاظت اور حمايت كى ذمہ دارى خدانے لے ركھى تھي_اور اس بات كے ثبوت ميں بہت سے معجزات بھى ديكھنے ميں آئے ہيں_ خدانے بھى قرآن ميں حضرت ابوبكر كے حزن وغم كا ذكر كيا ہے جبكہ حضرت ابوبكر كے چاہنے والوں كا كہنا ہے كہ وہ رسول (ص) كريم كے بعد سب سے زيادہ بہادر شخص تھے_ پس يہ كيسے ہوسكتا ہے كہ يہ دو تو ڈريں ليكن حضرت عمر نہ ڈريں؟
پھر حضرت عمر نے رسول(ص) كا دفاع كرتے ہوئے آپ(ص) كو مكہ سے مدينہ كيوں نہيں پہنچايا؟
نيز حضرت عمرنے يہ كيسے گوارا كرليا كہ رسول(ص) خدا اس قدرمشكلات اور مصيبتيں جھيلتے رہيں يہاں تك كہ بعد ميں آپ(ص) خود ہى مشكلات كے گرداب سے نكلنے ميں كامياب ہوئے بلكہ حضرت عمر ميں اتنى شجاعت اور طاقت تھى تو پھر نبي(ص) كو ہجرت كى ضرورت ہى كيوں پڑي؟ اس سورما كو چاہيئےتھا كہ وہ آپ(ص) كى حمايت وحفاظت كرتا اور قريش كى ايذاء رسانيوں سے آپ(ص) كو محفوظ ركھتا_
ان باتوں كے علاوہ ہم نہيں سمجھ سكے كہ تاريخ نے حضرت حمزہ كے بارے ميں اس قسم كے مردانہ اقدام كا
--------------------------------------------------------------------------------
1_ مغازى الواقدى ج 2 ص 821 و از كنز العمال ج 5 ص 295 از ابن عساكر اور واقدي_
283
ذكر كيوں نہيں كيا جبكہ حضرت حمزہ(ع) الله اور رسول(ص) كے شير تھے_ انہوں نے ہى ابوجہل كا سر پھوڑا تھا اور مسلمانوں كو ان كے قبول اسلام سے سرفرازى حاصل ہوئي تھي_
نيز كيا وجہ تھى كہ حضرت عمر نے رسول(ص) الله اوربنى ہاشم كو شعب ابيطالب ميں چھوڑے ركھا يہاں تك كہ وہ بھوك سے قريب المرگ ہوگئے تھے اور كوئي شخص ان تك كھانے كا سامان پہنچانے كى جرا ت نہ كرتا تھا جبكہ مذكورہ لوگوں كے نزديك حضرت عمر شعب ابوطالب كے محاصرے سے قبل مسلمان ہوچكے تھے( اگرچہ ہم قبل ازين قطعى طور پر يہ ثابت كرچكے ہيں كہ حضرت عمر ہجرت سے كچھ ہى مدت پہلے مسلمان ہوئے تھے)_
ان كے علاوہ اور بھى بہت سے سوالات ابھرتے ہيں جن كا كوئي معقول اور قابل قبول جواب ان لوگوں كے پاس موجود نہيں_
حقيقت
حقيقت يہ ہے كہ مذكورہ دھمكى اميرالمومنين علي(ع) نے اس وقت دى تھى جب وہ ہجرت كر رہے تھے اورضجنان كے مقام پر ان كى سات مشركين سے مڈبھيڑ ہوگئي تھي_ اس قصے كا تفصيلى ذكر رسول اكرم(ص) كى ہجرت كے بعد اميرالمومنين على (ع) كى ہجرت كے بيان ميں ہوگا_ ليكن حضرت على (ع) كے دشمن ان كى يہ فضيلت برداشت نہ كرسكے خاص كراس حقيقت كے بعد كہ وہ اپنى يہ شجاعت شب ہجرت بستر رسول(ص) پر سوكر ثابت كرچكے تھے_
وہ حضرت على (ع) كے بستر رسول(ص) پر سونے كا انكار تو نہيں كرسكے اس لئے اپنى عادت كے مطابق انہوں نے آپ (ع) كى دوسرى فضيلت پرڈاكہ ڈال كر كسى اوركى طرف اس كى نسبت دے دي_ غار والے واقعے ميں حضرت ابوبكركى شان كو بڑھا چڑھا كر پيش كيا (جيساكہ بعد ميں ذكر ہوگا)_ بلكہ وہ تو سوائے اس كے كسى بات پر راضى نہ ہوئے كہ حضرت عمر كى فضيلت خود حضرت علي(ع) كى زبانى بيان كى جائے جيساكہ ہميں اس قسم كے موقعوں پر ان كے اس وطيرہ كا باربار مشاہدہ كرنے كى عادت ہوچكى ہے_ كيونكہ يہ طريقہ دلوں پر زيادہ اثر
284
كرتا ہے_ شكوك وشبہات سے دورتراورزيادہ قابل قبول ہوتا ہے_
ليكن الله تعالى فرماتا ہے (نقذف بالحق على الباطل فيدمغہ فاذا ہو زاھق) (1)يعنى ہم حق كو باطل پر دے مارتے ہيں يوں باطل ذليل ہوكر نابود ہوجاتا ہے_ چنانچہ ايساہى ہوا_
ہجرت مدينہ كا راز
رسول الله صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اپنے اصحاب كو مدينہ كى طرف ہجرت كا حكم ديا اور يہ امر خود آپ(ص) كى ہجرت كا مقدمہ تھا_ آپ(ص) نے ان سے فرمايا :''خداوند عالم نے تمہارے لئے غم خوار بھائيوں اور امن وسكون سے رہنے كيلئے گھروں كا بندو بست كيا ہے''_ پس مسلمانوں نے مدينہ كى طرف ہجرت كى _كچھ چھپ چھپا كرچلے گئے اور كچھ اعلانيہ_ انہوں نے اس مقصد كيلئے اپنے وطن، اپنے تعلقات اور بہت سوں نے مال و دولت اور معاشرتى حيثيت كى قربانى دي_ يہ سب كچھ انہوں نے اپنے دين اور عقيدے كى راہ ميں انجام ديا_
بالفاظ ديگر دين اور نظريے كى حيثيت ہر چيز سے زيادہ اہم اور بالاتر ہے_ پس وطن، مال اور جاہ و مقام وغيرہ كى اس وقت كوئي قيمت نہيں رہتى جب دين كو خطرہ لاحق ہو كيونكہ دين حق كى حفاظت ميں ہى وطن، مال اور ديگر چيزوں كى حفاظت كاراز پوشيدہ ہے _اگر دين حق محفوظ نہ رہے تو ہر چيز اگر ايك مصيبت يا بہت سے موقعوں پر انسان كيلئے خطرناك نہيں تو كم از كم زوال پذير ضرور ہوجاتى ہے_
قريش اور ہجرت
ہجرت حبشہ كا ذكر كرتے ہوئے ہم نے ہجرت اور اس كے مقابلے ميں قريش كى پاليسى سے متعلق تھوڑى سى گفتگو كى تھي_ چنانچہ يہاں اس كا اعادہ نہيں كرتے_يہاں سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ جب قريش نے ہجرت
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ انبياء آيت 18_
285
حبشہ كى اس قدرسخت مخالفت كى تھى يہاں تك كہ مسلمانوں كوارض حبشہ سے واپس لانے كى كوشش كى تو پھر ہجرت مدينہ كے مقابلے ميں ان كا موقف كيا ہوگا ؟جبكہ انہيں مسلمانوںكى اس ہجرت ميں اپنے مفادات، اپنے وجوداوراپنے مستقبل كيلئے زبردست خطرات نظر آرہے تھے_
چنانچہ قريش نے مختلف طريقوں سے مسلمانوں كو ہجرت سے روكنے كى كوشش كي_ اگر كوئي مسلمان ان كے ہاتھ لگتا تو وہ اس كو قيد كرتے اسے اپنے دين سے برگشتہ كرنے كى كوشش اور اس كے خلاف ظلم وتشددكے مختلف ہتھكنڈے استعمال كرتے تھے_ ليكن انہيں كاميابى حاصل نہ ہوسكي_ دوسرى طرف قريش اكثر مسلمانوں كا صفاياكرنے سے بھى اپنے آپ كو عاجز پاتے تھے كيونكہ اكثر مہاجرين كا تعلق مكى قبائل سے تھا اور ان ميں سے كسى كا بھى قتل خود قريش كے درميان خانہ جنگى كا باعث بن جاتا اور اس بات ميں شك كى گنجائشے نہيں كہ يہ كام كسى صورت ميں بھى قريش كے مفادميں نہ تھا_
ہمارے ان عرائض كى تائيد ابوسلمہ كے واقعے سے ہوتى ہے چنانچہ جب وہ اپنى بيوى اور بيٹے كے ساتھ وہاں سے نكلا تو بنى مغيرہ كے بعض مردوں نے اس كا رخ كيا اور اس كى بيوى كو چھين ليا كيونكہ اس كى بيوى كا تعلق ان كے قبيلے سے تھا_ اس بات كے نتيجے ميں ابوسلمہ كا قبيلہ بنى عبدالاسد جوش ميں آگيا اور انہوں نے سلمہ (ابوسلمہ كے بيٹے) كو اس كى ماں سے چھين ليا_ يہ واقعہ تاريخ اور رجال كى كتابوں ميں معروف ہے_(1)
قريش اس نتيجہ پر پہنچ گئے تھے كہ اس بڑى ہجرت كے بعد خود رسول اكرم(ص) بھى اس لئے ہجرت كرجائيں گے تاكہ وہاں زيادہ وسيع اور گہرى بنيادوں پر مكمل آزادى كے ساتھ قيادت و رہبرى اور ہدايت كا عمل انجام دے سكيں اور مدينہ والے بھى تمام تر وسائل كے ساتھ آپ(ص) كى حمايت كريں گے_ بنابر ايں انہيں سوائے اس بات كے كسى اور چيز كى فكر نہ تھى كہ ہر ممكنہ طريقے اور حيلے سے اس عمل كا راستہ روكا جائے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ البداية ج 3 ص 169، السيرة النبويہ ابن ہشام ج 2 ص 112 اور السيرة النبوية ابن كثير ج 2 ص 215 ، 216_
|