204
چوتھا باب
ہجرت طائف تك
پہلى فصل : ہجرت طائف
دوسرى فصل : بيعت عقبہ تك كے حالات
تيسرى فصل : بيعت عقبہ
205
پہلى فصل
ہجرت طائف
206
نئي جد وجہد كى ضرورت
حضرت ابوطالب(ع) كى وفات كے باعث پيغمبر اكرم(ص) ايك ايسے طاقتور مددگار سے محروم ہوگئے جس نے اپنے ہاتھ، اپنى زبان، اپنے اشعار، اپنى اولاد، اپنے رشتہ داروں اور تمام وسائل كے ساتھ آنحضرت(ع) كى اور آپ(ص) كے آسمانى مشن كى حمايت كي_ اس مقصد كے حصول كيلئے انہوں نے اپنى حيثيت، دولت اور معاشرتى روابط كو بھى داؤ پر لگا ديا (جيساكہ بيان كيا چكا ہے)_
قريش كا يہ خيال تھا كہ پيغمبر(ص) كا عزم و عمل اپنے حامى وناصر كى موت كے بعد كمزور پڑجائے گا _چنانچہ ابوطالب(ع) كى وفات كے بعد قريش نے آپ(ص) كو مختلف قسم كى اذيتيں پہنچائيں_ وہ آپ(ص) كے اس عظيم المرتبت چچا كى زندگى ميں اس قسم كى اذيتيں پہنچانے سے عاجز تھے_ ليكن اب ان كو موقع ملاكہ وہ اپنے اندرونى كينے كا اظہار كريں اور دل كى بھڑاس نكاليں، اس شخص كے خلاف جسے وہ اپنے لئے مشكلات اور مسائل كى بنياد سمجھتے تھے_
حضور اكرم(ص) نے بھى يہى محسوس كيا كہ اسلام كو زبردست دباؤكا سامنا ہے جو اس دين كى ترويج اور لوگوں كے قبول اسلام كى راہ ميں ركاوٹ بن رہا ہے_ كيونكہ مسلمان ديكھتے تھے كہ قبول اسلام كا نتيجہ ايذا رسانى وتعذيب يا اہانت وتحقير كے سوا كچھ نہيں نكل رہا_ بلكہ اب تك جو كچھ ہاتھ آچكا تھا اور جس امر كے حصول كيلئے خطرات ومشكلات كامقابلہ كرتے ہوئے زبردست جدوجہد كى گئي تھى وہ بھى ايسے خطرات كى نذر ہوسكتا تھا جن كا كامياب مقابلہ شايد آپ(ص) كے بس كى بات نہ ہوتي_
ان حالات كے پيش نظر ايك نئي جدوجہد كى ضرورت تھى جو دعوت اسلامى كيلئے مہميز ثابت ہوتى نيز اس كو مزيد جاندار كرنے اور متوقع خطرات كا مقابلہ كرنے كيلئے زيادہ سے زيادہ طاقتور بناتي_
207
پس جب آنحضرت(ص) كامكہ ميں بيٹھے رہنا دعوت اسلامى كيلئے جمود كا باعث ٹھہرا اگرچہ اس دعوت كے وجودكيلئے باعث خطر نہ بھى ہوتا تو واضح ہے كہ آپ(ص) فطرى طور پر ايك ايسى جگہ تلاش كرتے جہاں آپ(ص) قريش كى ايذا رسانيوں اور سازشوں سے دوررہتے ہوئے آزادى كے ساتھ اپنى سرگرميوں اور دعوت الى الله كا سلسلہ جارى ركھ سكتے اور وہ مسلمان جو قريش كے ہاتھوں قسم قسم كى اذيتوں اور تكاليف ميں مبتلا تھے سكون كاسانس لے سكتے، قبل اس كے كہ وہ مايوسى كا شكار ہو جاتے يا پے درپے مشكلات اور دباؤكے باعث ہتھيار ڈال ديتے_ ان وجوہات اوران كے علاوہ ديگر اسباب كى بنا پر آنحضرت(ع) نے طائف كى طرف ہجرت فرمائي_
ہجرت طائف
جب خدانے اپنے رسول(ص) كو مكہ سے نكلنے كى اجازت دى (كيونكہ آپ(ص) كا حامى ومددگار ابوطالب(ع) اس دنيا سے جاچكا تھا) تو آپ(ص) طائف كى طرف نكل پڑے_ آپ(ص) كے ساتھ (مختلف اقوال كى رو سے) حضرت امام علي(ع) (1) يا زيد بن حارثہ يا دونوں تھے (2) يہ واقعہ بعثت كے دسويں سال كا ہے جبكہ ماہ شوال كے چند دن ابھى باقى تھے_
آپ(ص) طائف ميں دس دن رہے_ ايك قول كى بناپر ايك ماہ رہے_ آپ(ص) نے وہاں كے سركردہ لوگوں ميں سے ہر ايك كے ساتھ ملاقات كر كے گفتگو فرمائي ليكن كسى نے آپ(ص) كو مثبت جواب نہ ديا_ انہيں اپنى نوجوان نسل كے بارے ميں آپ(ص) سے خطرہ محسوس ہوا _چنانچہ انہوں نے آپ(ص) كو وہاں سے نكل جانے كيلئے كہا_ ادھر اوباشوں كو آپ(ص) كے خلاف اكسايا جو آپ(ص) كے راستے ميں دوقطاريں بناكر بيٹھے اور آپ(ص) پر پتھربرسانے لگے_ حضرت علي(ع) آپ(ص) كا دفاع كررہے تھے يہاں تك كہ حضرت علي(ع) يازيد بن حارثہ كا سر زخمى ہوگيا_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرة المصطفى ص 221_222اور شرح نہج البلاغة معتزلى ج 14ص 97از شيعہ_
2_ شرح نہج البلاغة معتزلى ج 4ص 127از مدائنى اور سيرت مصطفى ص 221_222_
208
كہتے ہيں كہ رسول(ص) الله نے ربيعہ كے بيٹوں(عتبہ، اور شيبہ) كے باغ ميں پناہ لى اور اس باغ كے ايك كونے ميں بيٹھ گئے_ ربيعہ كے بيٹوں نے جب آپ(ص) كو تكليف ميں مبتلا ديكھا تو ان كے جذبات بيدار ہوئے_ انہوں نے اپنے غلام ''عداس'' كو جو نينوا كا باشندہ اور نصرانى تھا، انگوروں كے ساتھ آپ(ص) كى خدمت ميں بھيجا_ اس نے انگور آپ(ص) كے سامنے ركھے_ آپ(ص) نے اپنا ہاتھ بڑھايا اور ''بسم اللہ الرحمن الرحيم'' كہا_ عداس كويہ ديكھ كر (كہ اس علاقے ميں كوئي خدا كا نام ليوا بھى موجود ہے) تعجب ہوا پھر رسول(ص) الله اور اس كے درميان گفتگو ہوئي جس ميں عداس مسلمان ہوا_ ربيعہ كے ايك بيٹے نے دوسرے سے كہا تيرے غلام كو اس نے تيرا مخالف بناديا_
اس كے بعد پيغمبر(ص) اسلام مكہ لوٹے اور آپ(ص) كے دشمن آپ(ص) كو نت نئي اذيتيں دينے كے درپے ہوگئے ليكن آنحضرت(ص) ہر قسم كى متوقع مشكلات كا مقابلہ كرنے كےلئے عزم صميم كے ساتھ آمادہ تھے _چنانچہ آپ(ص) نے اپنے ساتھى حضرت علي(ع) يا حضرت زيد سے فرمايا بتحقيق الله ان (مشكلات) سے نكلنے اور نجات حاصل كرنے كى كوئي سبيل نكالے گا_ بے شك وہ اپنے دين كا ناصر اور اپنے رسول(ص) كو فتح عطاكرنے والا ہے_
اس كے بعد آپ(ص) نے اخنس بن شريق سے كہا كہ وہ آپ(ص) كو مكہ ميں داخل ہونے كيلئے اپنى امان ميں لے، ليكن اس نے يہ كہہ كر انكار كرديا كہ وہ قريش كاحليف ہے اور كوئي حليف (اپنے دوسرے حليف كے مخالفين كو) پناہ نہيں دے سكتا_ (1)
اس كے بعد آپ(ص) نے سہيل بن عمرو سے امان مانگى ليكن اس نے بھى اس بہانے انكار كيا كہ اس كا تعلق بنى عامر سے ہے اور وہ بنى كعب كے مخالفين كو پناہ نہيں دے سكتا_ آخر كار آپ(ص) مطعم بن عدى كى پناہ ميں داخل مكہ ہوئے_ مطعم اور اس كے افراد آپ(ص) كى حمايت كيلئے مسلح ہوگئے_ ادھر قريش نے اس كى امان قبول كرلي_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ہجرت ابوبكر اور ابن دغنہ كى پناہ ميں ان كى مكہ ميں واپسى كا واقعہ ذكر كرتے وقت اس كے حوالہ جات گزر چكے ہيں_
209
كہتے ہيں كہ آنحضرت(ص) نے مكہ پہنچنے كے پہلے ہى دن اس كى امان سے نكلنے كا فيصلہ كيا ليكن كچھ لوگ يہ كہتے ہيں كہ آپ(ص) اس كى امان ميں كچھ مدت تك باقى رہے_
يہ ہے مختصر طور پر وہ واقعہ جسے مورخين نے ہجرت طائف اور وہاں سے واپسى كے متعلق بيان كيا ہے_
مزيد ہجرتيں
يہ بھى كہتے ہيں كہ آنحضرت(ص) اپنے چچا حضرت ابوطالب كى رحلت كے بعد حضرت على (ع) كو ليكر بنى صعصعہ كے ہاں چلے گئے ليكن انہوں نے مثبت جواب نہ ديا_ يوں آپ(ص) دس دن مكہ سے باہر رہے_ اس كے علاوہ آپ(ص) نے حضرت على (ع) اور حضرت ابوبكر كے ساتھ بنى شيبان كے ہاں بھى ہجرت اختيار كي_ اس دفعہ حضور(ص) تيرہ دن مكہ سے باہر رہے ليكن وہاں سے بھى كسى قسم كى مدد حاصل نہ كرسكے_ (1)
يہاں ہم توقف كرتے ہيں تاكہ مذكورہ بالا باتوں سے مربوط بعض ايسے نكات كى وضاحت كريں جو ہمارى دانست ميں ايك حدتك اہميت كے حامل ہيں_ يہ نكات درج ذيل ہيں:
1_ عداس كا قصہ
رہا عداس كا مذكورہ كردار اور پيغمبر(ص) كا اس كے لائے ہوئے انگور كو تناول فرمانا تو يہ بات ہمارے نزديك مشكوك ہے جس كى درج ذيل وجوہات ہيں:
(الف) پہلے بيان ہوچكا ہے كہ نبى كريم(ص) كسى مشرك كے تحفے كو قبول نہيں كرتے تھے_ آپ(ص) كو منظور نہ تھا كہ مشرك كا آپ(ص) كے اوپر كوئي احسان ہو جس كے بدلے ميں وہ آپ كے احسان كا مستحق بنے_ پھر آپ(ص) نے كيونكر ربيعہ كے مشرك بيٹوں كا ہديہ قبول فرمايا؟ اور كيسے راضى ہوئے كہ ان كا احسان اٹھائيں؟صرف يہ كہا جا سكتا ہے كہ انہوں نے عداس كا ہديہ قبول فرمايا تھا اور يہ نہيں جانتے تھے كہ اسے ان لوگوں نے بھيجا ہے _
--------------------------------------------------------------------------------
1_ شرح نہج البلاغة معتزلى ج 4ص 126 _
210
(ب) مذكورہ روايت صاف كہتى ہے كہ عداس مسلمان ہوا حالانكہ كچھ حضرات كہتے ہيں كہ پيغمبر(ص) طائف سے غمگين ومحزون واپس آئے اور كسى مرد يا عورت نے آپ(ص) كى دعوت قبول نہ كى (2) مگر يہ كہا جائے كہ ان لوگوں كى مراد يہ ہے كہ كسى آزاد شخص نے آپ(ص) كى آواز پر لبيك نہيں كہا يا يہ كہ طائف والوں ميں سے كسى نے آپ(ص) كى بات نہيں ماني_ رہا عداس، تو وہ نينوا كا با شندہ تھا_
(ج) رسول (ص) اللہ كو اسلام كى دعوت ديتے ہوئے تقريبا دس سال گزرگئے تھے_ اس دعوت كى شہرت مكہ سے نكل كر ديگر شہروں اور سرزمينوں ميں بھى پہنچ چكى تھي_ يوں آپ(ص) اور آپ(ص) كا پيغام زبان زد خاص وعام ہوچكے تھے_ پھر عداس كو طائف ميں خدا كا نام سن كر تعجب كيسے ہوا جبكہ رسول(ص) الله كو طائف آئے ہوئے دس دن يا ايك ماہ كا عرصہ بھى گزرچكا تھا؟ آپ(ص) لوگوں كو بغير كسى سستى ياتھكاوٹ كے مسلسل اسلام كى دعوت ديتے رہے تھے_ كيا يہ معقول ہے كہ اس پورے عرصے ميں عداس نے آپ(ص) يا آپ(ص) كى دعوت كا تذكرہ ہى نہ سنا ہو، نہ طائف ميں آپ(ص) كى موجودگى كے دوران اور نہ ہى اس پورے علاقے ميں آپ(ص) كى تبليغ شروع ہونے كے بعد سے اب تك؟
وحى كى ابتداء سے مربوط روايت كى بحث كے دوران ہم نے عداس كے بارے ميں تھوڑى گفتگو كى تھي، لہذا دوبارہ بحث كرنے سے گريز كرتے ہيں_
2_كسى كى پناہ ميں آپ(ص) كا داخل مكہ ہونا:
كہتے ہيں كہ اخنس بن شريق اور سہيل بن عمرو نے رسول(ص) الله كو دخول مكہ كيلئے پناہ دينے سے انكار كيا_ اخنس نے يہ بہانہ كيا كہ وہ قريش كا حليف ہے اور حليف اپنے ہم عہد كے كسى مخالف كو پناہ نہيں دے سكتے (2) پھر آپ(ص) مطعم بن عدى كى پناہ ميں داخل مكہ ہوئے_ ہمارے نزديك يہ بات بھى مشكوك ہے كيونكہ:
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں: طبقات ابن سعد ج 1قسم اول ص 142_
2_ حبشہ كى طرف حضرت ابوبكر كى ہجرت كے باب ميں اس كے حوالہ جات ملاحظہ كريں_
211
(الف) ہم پہلے عرض كرچكے ہيں كہ رسول(ص) الله كو يہ بات گوارا نہ تھى كہ كسى مشرك كا آپ(ص) پر كوئي حق ہو جس كيلئے آپ(ص) كو اس كا شكر گزار ہونا پڑے_
(ب) وہ پيغمبر(ص) جواپنى زندگى كے پچاس سال عربوں كے درميان گزار چكے تھے اس پورى مدت ميں يہ كيسے نہ جان سكے كہ كوئي حليف (دوسرے حليف كے مخالف) كسى كو پناہ نہيں دے سكتا اور يہ كہ بنى عامر بنى كعب كے كسى مخالف كو پناہ نہيں دے سكتے تھے_
(ج) كيا يہ عمل يعنى مشركين كى پناہ لينا ظالموں اور كافروں كى طرف ميلان نہيں؟ جبكہ خدا فرماتا ہے: (ولا تؤمنوا الا لمن تبع دينكم) يعنى اپنے دين كے پيروكاروں كے علاوہ كسى كو نہ مانو_
نيز فرماتا ہے: (ولا تركنوا الى الذين ظلموا فتمسكم النار) (1) يعنى ظالموں كى طرف ميلان نہ ركھو وگرنہ آگ كا مزہ چكھنا پڑے گا_
(د) ہم تاريخ ميں ديكھتے ہيں كہ عثمان بن مظعون وليد بن مغيرہ كى امان سے نكل گيا تاكہ اپنے ديگر بھائيوں كى دلجوئي كرسكے توكيا رسول(ص) الله اس لحاظ سے عثمان بن مظعون كے برابر بھى نہ تھے؟ اور كيا آپ(ص) ميں ان اذيتوں اور سختيوں كو برداشت كرنے كا حوصلہ نہ تھا جو قريش آپ(ص) كو پہنچانے والے تھے؟ يہ تو سچ مچ ايك عجيب بات ہے_
نيز جب آپ(ص) نے اس كى امان كو رد كرديا تو قريش كى ايذا رسانيوں كا خوف كہاں گيا؟خاص كر اس صورت ميں كہ آپ(ص) تو پہلے ہى دن ان كى پناہ سے نكل گئے تھے_
اگر كوئي يہ كہے كہ آپ(ص) كو قتل ہوجانے كا خطرہ تھا اسلئے ان لوگوں سے پناہ طلب كى تو اس كا جواب يہ ہے كہ آپ(ص) كو معلوم تھا كہ قريش ايسا نہيں كرسكتے اور ايسا كرنا ان حالات ميں خود ان كے مفادات كے برخلاف تھا خصوصاًاس صورت ميں كہ يہ كام اعلانيہ طور پر انجام پاتا_
ان سارى باتوں كے علاوہ يہ سوال بھى پيدا ہوتا ہے كہ آخر بنى ہاشم اس وقت كہاں گئے تھے؟ وہ اپنے سيد
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ ہود، آيت 113_
212
وسردار كى حمايت كيلئے كيوں كھڑے نہ ہوئے كہ رسول(ص) الله كو دوسروں سے مدد لينى پڑي؟ آخر خدا اور رسول(ص) كے شير (حضرت حمزہ) كہاں تھے_ جس نے ابوجہل كى خبر لى تھى (جيساكہ ذكر ہوچكا ہے)؟
3_ جنوں كے ايك گروہ كا قبول اسلام
مورخين كہتے ہيں كہ جب آپ(ص) طائف سے مكہ واپس آرہے تھے تو بعض جنوں سے آپ(ص) كى ملاقات ہوئي_ آپ(ص) نے ان كو قرآن پڑھ كر سنايا تو وہ ايمان لے آئے پھر وہ اپنى قوم كى طرف لوٹ گئے اور انہيں اسلام كى بشارت دى اور عذاب الہى سے ڈرايا_ پس خدا نے اس واقعے كا ذكر قرآن ميں يوں كيا: (قل اوحى الى انہ استمع نفر من الجن فقالوا انا سمعنا قرآنا عجبا يہدى الى الرشد ...)_
ليكن بظاہر جنوںكے قبول اسلام كا واقعہ بعثت كے ابتدائي دنوں كا ہے كيونكہ روايت كہتى ہے كہ جب نبى كريم(ص) كى بعثت ہوئي تو جنوں كيلئے آسمانوں سے خبريں چرانے كا راستہ بند ہوگياكيونكہ اب ان كو آسمانى شہابوں كا نشانہ بنايا جاتا تھا_ تب انہوں نے سوچا كہ اس كى وجہ زمين ميں واقع ہونے والا كوئي غير معمولى واقعہ ہوگا_ پس وہ زمين كى طرف لوٹے اور تحقيق كى تو معلوم ہوا كہ نبي(ص) كى بعثت ہوچكى ہے_ تب انہوں نے قرآن كو سنا اور ايمان لے آئے پس يہ آيت اتري_ (1)
ايك اور روايت ميں ہے كہ ابليس نے اپنے لشكر كو بغرض تحقيق بھيجا جو آپ(ص) كى بعثت كى خبر ليكر اس كى طرف پلٹے_ (2)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں: در المنثور ج 6 ص 270_275 بخاري، مسلم، عبد بن حميد، احمد، ترمذي، نسائي، حاكم، ابن منذر، طبراني، ابن مردويہ، ابونعيم، بيہقى اور ديگران سے اور تاريخ الخميس ج 1 ص 303_304 اور كہا گيا ہے كہ سورہ احقاف كى آيات طائف سے واپس آتے ہوئے اسى مناسبت سے نازل ہوئيں ليكن درالمنثور ج 6 ص 45 مسلم، احمد، ترمذى اور عبد بن حميد و ديگران كے حوالے سے اسے رد كيا گيا ہے _
2_ تاريخ الخميس ج 1ص 304 _
213
ابن كثير كا عقيدہ بھى ہمارے اس قول كے مطابق ہے كہ يہ واقعہ بعثت كے ابتدائي دنوں كا ہے_ (1) اس بات كى ايك دليل يہ بھى ہے كہ بعض روايات كے مطابق جس رات جنوں نے اسلام قبول كيا ابن مسعود آنحضرت(ص) كے ساتھ تھے (2) جبكہ ابن مسعود مہاجرين حبشہ ميں سے ايك ہيں، بنابريں يہ واقعہ لازمى طور پر ہجرت حبشہ سے قبل كا ہونا چاہي ے يعنى بعثت كے پانچويں سال سے پہلے كا_
4_ طائف اور آس پاس والوں سے روابط
طائف والوں كا اہل مكہ اور آس پاس والوں سے اقتصادى رابطہ تھا كيونكہ اہل طائف مكہ اور ديگر علاقوں كو پھل برآمد كرتے تھے_
بنابر اين وہ اپنے مستقبل كو اقتصادى اور معاشرتى طور پر دوسروں كے ساتھ منسلك ديكھتے تھے_ اس بات كے پيش نظر طائف والوں كو ان لوگوں كے ساتھ نزديكى تعلقات اور روابط استوار ركھنے اور ان كى خوشنودى و رضامندى حاصل كرنے كى ضرورت تھى تاكہ ان كو آس پاس والوں خاص كراہل مكہ (جو ان كى برآمدات كى سب سے بڑى منڈى تھا) كى طرف سے معاشرتى دباؤ يااقتصاى بائيكاٹ كاسامنا نہ كرنا پڑے (جيساكہ بنى ہاشم كو سامنا كرنا پڑا)_
محقق روحانى نے اس نكتے كا اضافہ كيا ہے كہ مكہ والوں كے ہاں ايك بُت تھا جسے عزى كہتے تھے_ اس بت كے مخصوص خادم تھے_ اہل عرب اس بت كى زيارت كرتے تھے، (3) بنابريں اہل مكہ كو عربوں كے درميان ايك قسم كى دينى مركزيت حاصل تھي، جس كى وہ سختى سے حفاظت كرتے تھے_
يہاں سے ہم ملاحظہ كرتے ہيں كہ اہل طائف نے نبى كريم(ص) كے ساتھ سختى كيوں برتى اور آپ(ص) كو جلد سے جلد نكال دينے كے در پے كيوں ہوئے؟
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تاريخ الخميس ج 1ص 303مواھب اللدنية سے _
2_ تاريخ الخميس ج 1ص 304 _
3_ الاصنام (كلبي)ص16 ، حاشيہ سيرہ حلبيہ پر السيرة النبويہ و حلان ج 3 ص 11 اور تاريخ الخميس ج 2 ص 135_
214
5_ اسلام دين فطرت
ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ طائف والوں كو پيغمبر(ص) كى دعوت سے اپنى نوجوان نسل كيلئے خطرہ محسوس ہوا_ باوجود اس كے كہ رسول(ص) الله ان كے درميان نہايت مختصر وقت كيلئے ٹھہرے تھے_ يہ اس بات كى نشاندہى كرتى ہے كہ اسلام صاف ستھرے اذہان كو آسانى اور سہولت كے ساتھ اپنى طرف كھينچ ليتا ہے_ نيز يہ كہ اسلام فطرت سليم (جو منحرف نظريات و عقائد سے آلودہ نہ ہوئي ہو نيز ذاتى مفادات اور نسلى تعصبات وغيرہ سے متا ثر نہ ہوئي ہو) كے ساتھ سازگار اور ہم آہنگ ہے_
اسلام صاف اذہان كو آسانى سے متا ثر كيوں نہ كرے جبكہ اس كى بنياديں واضح عقلى دلائل وبراہين پر استوار ہيں_وہ فطرت كے ساتھ سازگار ہے_ نيززندہ ضميروں كا ترجمان ہے_ يہى وجہ تھى كہ طائف والے آپ(ص) كى باتوں كو رد كرنے يا ان پر بحث كرنے سے عاجز تھے_ اس كے بدلے انہوں نے آپ(ص) كو وہاں سے نكل جانے كيلئے كہا_ انہوں نے كوشش كى كہ آپ(ص) كى حقيقت ان لوگوں كے سامنے مسخ كى جائے، جنہوں نے آپ(ص) كى بات سنى تھي_ اس مقصد كيلئے انہوں نے آپ(ص) كے خلاف غير منطقى ہتھكنڈے استعمال كئے جن كى پہلى امتيازى علامت توہين اور ايذا رسانى تھى اور دوسرى علامت توہين آميز تمسخر يا استہزاء تھا_
6_ كيا يہ ايك ناكام سفر تھا؟
كبھى يہ سوال كياجاسكتا ہے كہ اس بے ثمر ہجرت كا فورى اور وقتى فائدہ كيا تھا؟ اس كے جواب ميں ہم يہ كہيں گے كہ لازمى بات ہے كہ اس حادثے نے ان لوگوں كے اذہان پر (جن سے آپ(ص) نے ملاقات اور بات كي) كسى نہ كسى قسم كے مثبت اثرات چھوڑے اور بعد ميں ان كے مطلوبہ نتائج سامنے آئے_ اس ہجرت نے واضح طور پر مستقبل ميں جب اسلام كابول بالاہوا اور اہل طائف كو اپنے ہمسايوں بالخصوص قريش سے معاشرتى و اقتصادى دباؤ كا خطرہ نہ رہا تو بنى ثقيف كے قبول اسلام كى راہ ہموار كي_
215
اس كى وضاحت اس بات سے ہوتى ہے كہ قريش نبى كريم(ص) كے بارے ميں افواہيں پھيلاتے تھے كہ (نعوذ باالله ) آپ(ص) مجنون، ساحر، كاہن، اور شاعر وغيرہ ہيں ليكن جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم لوگوں سے براہ راست ملتے اور لوگ بچشم خود حقيقت حال كا مشاہدہ كرتے، نيز آپ(ص) كى شخصيت اور صفات كا نزديك سے مشاہدہ كرتے تو ہر قسم كے پروپيگنڈوں اور جھوٹى افواہوں كا اثر ختم ہوجاتا تھا_ يوں آپ(ص) اور آپكے مشن پر ايمان لے آنانہايت آسان اور سہل ہوجاتا تھا نيز اس ميں مزيد قوت، گہرائي اور مضبوطى پيدا ہوتى تھي_
216
دوسرى فصل
بيعت عقبہ تك كے حالات
217
قحط
پھر بھوك كا سخت بحران آيا_ يہ نبى كريم(ص) كى بد دعا كا اثر تھا_ بات يہاں تك پہنچى كہ لوگ علھز (خشك خون) (1) اور حيوانوں كى كھاليں كھانے پر مجبورہوئے نيز ہڈيوں كو جلاكر كھانے لگے_ مرے ہوئے كتے، مردار اور قبروں سے مردوں كو نكال كر كھا گئے_ عورتوں نے اپنے بچے كھائے_ لوگوں كى حالت يہ تھى كہ انہيں اپنے اور آسمان كے درميان دھوئيں كى طرح كى دھند لاہٹ نظر آتى تھى چنانچہ لوگ اپنى ہى مشكلات ميں پھنس كر رہ گئے_ يوں نبى كريم(ص) كو فرصت ملى (اگرچہ مختصر مدت كيلئے ہى سہي) كہ آپ(ص) اپنے دين اور مشن كى راہ ميں لوگوں كو دعوت دينے اور الله كى خوشنودى كى خاطر جدوجہد كرنے كيلئے اٹھ كھڑے ہوں_
بعثت كا گيارہواں سال آيا تو ابوسفيان نے آنحضرت(ص) كے پاس آكر عرض كيا:'' اے محمد(ص) تم خود صلہ رحمى كا پيغام ليكر آئے تھے_ ادھر تمہارى قوم بھوك سے مر رہى ہے پس الله سے ان كيلئے دعا كرو''_ رسول الله صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ان كيلئے دعا كى اور خدا نے انہيں قحط سے نجات دى چنانچہ فرمايا_ (انا كاشفوا العذاب قليلا انكم عائدون) (2) يعنى ہم تھوڑى دير كيلئے عذاب كو ہٹاليتے ہيں ليكن تم پھر اپنى سابقہ روش پر لوٹ جاؤگے_
يہاں اس بات كى طرف اشارہ ضرورى معلوم ہوتا ہے كہ ابوسفيان كا پيغمبر(ص) كى طرف رجوع كرنا اس بات كو واضح كرتا ہے كہ مشركين آپ(ص) كے پيغام كى حقانيت و صداقت سے آگاہ تھے ليكن ہٹ دھرمي، تكبر،
--------------------------------------------------------------------------------
1_ علھز: خشك خون جسے اونٹ كے بالوں كے ساتھ كوٹ كر قحط كے ايام ميں كھا ليتے تھے_
2_ سورہ دخان آيت 15رجوع كريں: البدء و التاريخ ج 4ص 157، تفسير البرہان نے مناقب ابن شھر آشوب ج 4ص 160 سے _
218
جاہ طلبى اور اپنى خودساختہ، و ظالمانہ امتيازى حيثيت كو بچانے كى خاطر اس كا انكار كرتے تھے_
دوسرى طرف ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ آنحضرت(ص) ابوسفيان كى درخواست كو قبول كرتے ہيں ليكن اس كى وجہ ابوسفيان كى بيان كردہ صلہ رحمى نہ تھى كيونكہ درحقيقت اسلام ہى تمام انسانوں كے درميان باہمى رشتے اور صلے كى بنياد ہے اور اسى بنا پر ان كے درميان بھائي چارہ قائم ہوتا ہے_ آپ(ص) نے ابوسفيان كى درخواست اس لئے قبول كى تاكہ اس كو اپنے مشن كى حقانيت كى ايك اور دليل دكھاديں_ نيز اس پر اور اس كے ديگر ہم خيال افراد پر اتمام حجت كريں تاكہ ہلاك ہونے والے دليل كے ساتھ ہلاك ہوں اور زندہ رہنے والے بھى دليل كے ساتھ زندہ رہيں_
اس كے ساتھ رسول اكرم(ص) ان لوگوں كو جو (علم وحقيقت كى كوئي) روشنى سے دور زندگى گزار رہے تھے اور بڑے بڑے دنيوى مفادات كے چكر ميں پھنسے ہوئے نہ تھے ايك اورموقع دينا چاہتے تھے تاكہ وہ دشمنوں كى پيدا كردہ فضا سے آزاد ہو كر يكسوئي كے ساتھ غوروفكر كريں_
نبى كريم (ص) كى طرف سے قبائل كو دعوت اسلام
نبى كريم(ص) حج كے ايام ميں فرصت كو غنيمت سمجھتے ہوئے مختلف قبيلوں كو ايك ايك كر كے اسلام قبول كرنے نيز اس كى تبليغ و ترويج اور حفاظت و حمايت كرنے كى دعوت ديتے تھے بلكہ جب آپ(ص) كو كسى بھى مشہور يا صاحب شرف آدمى كى آمدكى خبر ملتى تو آپ(ص) اس سے ملتے اور اسے اسلام كى دعوت ديتے ليكن آپ(ص) كا چچا ابولہب ہر جگہ آپ(ص) كا پيچھا كرتا_ آپ(ص) كى باتوں كو ٹوكتا اور لوگوں سے كہتا كہ وہ آپ كى بات قبول كريں نہ اطاعت كريں_ علاوہ ازيں وہ آپ(ص) پرمجنون، ساحر، كاہن، اور شاعر وغيرہ ہونے كى تہمت بھى لگاتا تھا_
لوگ غالباً قريش كے اثر ونفوذ اور طاقت كے خوف سے يا مكہ ميں اپنے اقتصادى مفادات كى حفاظت كے پيش نظر( خصوصاً حج كے ايام اور بازار عكاظ ميں )قريش كى باتوں پر كان دھرتے تھے_
219
ادھر آنحضرت(ص) كو ناكام بنانے كيلئے ابولہب كى ذاتى كوششوں نے بھى انتہائي منفى اثرات دكھائے كيونكہ وہ آپ(ص) كا چچا تھا اور دوسروں سے زيادہ آپ(ص) كے بارے ميں با خبر تھا_
آخر كار پيغمبراسلام صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى كوششيں رنگ لائيں كيونكہ جب آپ(ص) كى دعوت كے ظہور اور پھيلاؤ نيز قريش كے مقابلے ميں آپ كى پے درپے كاميابيوں بالخصوص فتح مكہ كے نتيجے ميں قريش كى شان وشوكت ختم ہوگئي_ ان كا كمال زوال ميں بدلنے لگا اور ان كے اثر ونفوذ كو زبردست دھچكا لگا تو مختلف علاقوں سے عرب وفود يكے بعد ديگرے مدينہ پہنچنے لگے تاكہ وہ اپنى دوستى اور حمايت كا اعلان كريں_ ہاں يہ اس وقت كى بات ہے جب وہ قريش كى دشمنى كے خطرے سے آسودہ خاطر ہوچكے تھے نيز قريش كے بے جادعووں اور بے بنياد پروپيگنڈوں كا اثرزائل ہوچكا تھا_اس كى وجہ يہ تھى كہ جب انہوں نے ايام حج ميں آپ(ص) سے ملاقات كى تھى اور آپ(ص) نے ان كے سامنے اپنا دين پيش كيا تھا تو انہوں نے آپ(ص) كو نزديك سے پہچانا، آپ(ص) كے اندر عقل كى برترى ديكھى اور آپ(ص) كى روش كو معقول اور درست پايا_
ايك اور نكتہ جس كى طرف اشارہ ضرورى ہے يہ ہے كہ رسول(ص) الله كى جدوجہد اور آپ(ص) كا قبائل كے سامنے اسلام كو پيش كرنا نيز اس كى راہ ميں متعدد بار ہجرت فرمانا اس طرزفكر كے منافى ہے كہ دين كى دعوت دينے والے كيلئے ضرورى ہے كہ وہ اپنے گھر ميں بيٹھا رہے اور كسى قسم كى جدوجہد نہ كرے_ بلكہ لوگوں پر لازم ہے كہ وہ اس كے پاس جائيں اور اپنى ضروريات و احتياجات كے بارے ميں اس سے سوال كريں_
بنى عامر بن صعصعہ اور نبى كريم(ص) كى حمايت
يہاں ہم ايك اہم قصے كى طرف اشارہ كرنا چاہتے ہيں_ يہ واقعہ اس وقت پيش آيا جب رسول(ص) الله مختلف قبائل كو اسلام كى دعوت دے رہے تھے_
واقعہ كچھ يوں ہے كہ رسول(ص) الله بنى عامر كے پاس آئے اور ان كوالله كى طرف بلايا اور اپنى نبوت كا مسئلہ ان كے سامنے پيش كيا_ بنى عامر كے ايك شخص نے( جس كا نام بيحرہ بن فراس تھا )ان لوگوں سے كہا:'' الله
220
كى قسم اگر قريش اس جوان كو ميرے حوالے كرتے تو ميں اس كے ذريعے پورے عرب كو ہڑپ كرجاتا''_ پھر آپ(ص) سے كہا:'' اگر ہم تمہارى بيعت كريں پھر خدا تمہيںاپنے دشمنوں پر غالب كردے تو كيا تمہارے بعد حكومت ہمارى ہوگي؟''
آپ(ص) نے فرمايا :''حكومت خدا كى ہے جسے وہ چاہے عطا كرتا ہے''_
بيحرہ نے كہا:'' تو كيا ہم تمہارے واسطے ويسے ہى اپنى گردنوں كو عربوں (كے حملوں) كانشانہ قرار ديں؟ پھر جب خدا تم كو غالب كردے تو حكومت دوسروں كو مل جائے؟ ہميں تمہارے دين كى كوئي ضرورت نہيں''_
يوں انہوں نے آپ(ص) كى دعوت كو ماننے سے انكار كيا_ جب لوگ واپس چلے گئے تو بنى عامر اپنے ايك بزرگ كے پاس آئے _اس نے ان سے پوچھا كہ ايام حج ميں ان كے ساتھ كيا پيش آيا؟ وہ بولے: ''ہمارے پاس قريش كا ايك جوان آيا يعنى بنى عبدالمطلب كا ايك فرد جو اپنے آپ(ص) كو نبى سمجھتا ہے آيا اور ہميں دعوت دى كہ ہم اس كى حمايت كريں اس كا ساتھ ديں اور اسے مكہ سے نكال كر اپنے علاقے ميں لے آئيں''_
يہ سن كر اس بزرگ نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر كو تھام ليا اور كہا:'' اے عامر كے بيٹوكيا اس كى تلافى ہوسكتى ہے؟ قسم ہے اس كى جس كے ہاتھ ميں فلاں كى جان ہے اسماعيل كى اولاد ميں سے كسى نے نبوت كا جھوٹادعوى نہيں كيا، اس كا دعوى سچا ہے_ بتاؤ اس وقت تمہارى عقل كہاں چلى گئي تھي؟''(1)
اس قسم كا واقعہ رسول(ص) الله اور بنى كندہ كے درميان بھى پيش آيا جيساكہ ابونعيم نے دلائل النبوہ ميں ذكر كيا ہے_ (2)
يہاں ہم درج ذيل امور كى طرف اشارہ كرتے چليں:
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں: سيرت ابن ہشام ج 2 ص 66، الثقات ابن حبان ج 1 ص 89_91، بہجة المحافل ج 1 ص 128، حياة محمد از ہيكل ص 152، سيرة النبوية (دحلان) ج 1 ص 147، السيرة الحلبية ہ ج 2 ص 3، الروض الانف ج 1 ص 180، البداية و النہاية ج 3 ص 139_140 اور دلائل النبوة ابونعيم سے ص 100 نيز حياة الصحابہ ج1 ص 78 ، 79_
2_ البداية و النہاية ج 3 ص 140 _
221
1_ حكومت فقط خداكي
(الف) رسول(ص) الله نے ان لوگوں كے مطالبے پر ان كے ساتھ ايسا كوئي وعدہ نہيں كيا كہ آپ(ص) كے بعد حكومت ان كوملے گى بلكہ آپ(ص) نے تو يہ جواب ديا كہ حكومت كا فيصلہ خداكے اختيار ميں ہے جسے چا ہے عطا كرے_ بالفاظ ديگر يہ بات ممكن نہ تھى كہ آپ(ص) ايسا وعدہ فرماتے جو آپ(ص) كے بس سے باہر ہوتا_ آپ(ص) كى يہ روش عصر حاضر كے سياستدانوں كى روش كے بالكل برعكس ہے جو خوبصورت وعدوں كے ڈھير لگانے سے نہيں كتراتے_ پھر جب وہ اپنے مقاصد كو پاليتے ہيں اور اقتدار كى كرسى پر قبضہ جماليتے ہيں تو سارے وعدے بھول جاتے ہيں_
ليكن رسول(ص) الله نے باوجود اس كے كہ آپ(ص) كو مددگاروں كى شديد ضرورت تھى بالخصوص ايسے بڑے قبيلے جو تعداد اور وسائل كے لحاظ سے آپ(ص) كا دفاع اور مدد كرنے كے قابل تھے، اگرچہ يہ وعدہ آپ(ص) كيلئے نہايت سودمند ہوتا ليكن اس كے باوجود آپ(ص) نے ايسا وعدہ كرنے سے انكار فرمايا جس كا پورا كرنا آپ(ص) كے بس سے باہر تھا_
(ب) ان لوگوں كے جواب ميں آپ(ص) كے اس ارشاد سے كہ حكومت الله كے اختيار ميں ہے جسے چاہے عطا كرتا ہے ، اہلبيت پيغمبر(ص) اور شيعيان اہلبيت(ص) كے اس عقيدے كى تائيد ہوتى ہے كہ خلافت ايسا منصب نہيں ہے جس كااختيار لوگوں كے ہاتھ ميں ہو بلكہ يہ ايك آسمانى منصب ہے جس كا اختيار فقط خداكے پاس ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا كرتا ہے_
2_ ہدف كى بلندى اور تنگ نظري
بديہى بات ہے كہ اس قبيلے كى طرف سے مذكورہ طريقے پر مدد كى پيشكش كرنا اس بات كى دليل ہے كہ ان كا مقصد رضائے الہى كيلئے آپ(ص) كى مدد كرنا نہ تھا اور نہ ان كا يہ موقف ايمان راسخ اور پختہ عقيدے كى بنيادوں پر استوار تھا_ نيز ان ميں ثواب آخرت كا شوق تھا نہ ہى عقاب الہى كا خوف_
222
ان كے اس موقف كا بنيادى ہدف تنگ نظرى پر مبنى سودا بازى تھا _وہ پيغمبر(ص) كى مدد كے ذريعے عرب پر فيصلہ كى طاقت اور عزت و حكومت حاصل كرنا چاہتے تھے_
بنابريں واضح ہے كہ بعد ميں جب وہ يہ ديكھ ليتے كہ ان كے مفادات كى حد ختم ہوچكى اور ان كے سارے مقاصد حاصل ہوچكے يا يہ كہ ان كى دنياوى سودا بازى ناكام ہوئي ہے تو پھر ان كى حمايت بھى ختم ہوجاتى بلكہ عين ممكن تھا كہ جب وہ اپنے مفادات اور خودساختہ امتيازى حيثيت كى راہ ميں حضور اكرم(ص) كو ركاوٹ پاتے تو پھرآپ(ص) كے ہى خلاف ہوجاتے_
ان باتوں كى روشنى ميں واضح ہوا كہ اس قسم كا طرزفكر ركھنے والے افراد پر اعتماد كرنا اعتمادكرنے والے كو بلا اور عذاب ميں مبتلا كرنے كا باعث نہ سہى تو كم ازكم كسى سراب كو حقيقت سمجھنے كى مانند ضرور ہے_
3_ دين وسياست
بعض محققين نے ايك نكتے كى نشاندہى كى ہے اور وہ يہ كہ بنى عامر بن صعصعہ سے تعلق ركھنے والے مذكورہ فرد (بيحرہ بن فراس) كو جب رسول(ص) الله كى دعوت كے بارے ميں بتايا گيا نيز ان كے ساتھ گزرنے والے واقعے سے آگاہ كياگيا تو وہ سمجھ گيا كہ يہ دين صرف عبادت گاہوں ميں گھس كر ترك دنيا كرنے يانماز و دعا اور ورد و اذكار پر اكتفا كرنے كا دين نہيں بلكہ يہ ايك ايسا دين ہے جو تدبير و سياست اور حكومت كو بھى شامل كئے ہوئے ہے_ اسى لئے اس نے كہا اگر يہ جوان (يعنى حضرت محمد(ص) ) اپنے جامع مشن كے ساتھ ميرے اختيار ميں ہوتا تو ميں اس كے ذريعے پورے عرب كو ہڑپ كرجاتا_
اس شخص سے قبل انصار كے رئيس اسعد بن زرارہ نے بھى اس نكتے كا ادراك كرليا تھا_ جب وہ مكہ آيا اور رسول(ص) الله نے اس كے سامنے اسلام كو پيش كيا تو اس نے سمجھ ليا كہ آپ اور آپ(ص) كا دين ان كے معاشرتى مسائل كى اصلاح نيز ان كے اور قبيلہ اوس كے درميان موجود سنگين اختلافات كو حل كرنے كى صلاحيت ركھتا ہے اور اس بنا پر ہجرت ہوئي (1)_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ملاحظہ ہو: بحارالانوار ج19 ص 9 و اعلام الورى ص 57 از قمي_
223
اس حقيقت كوتو خود ان لوگوں نے بھى سمجھ ليا تھا جنہوں نے اسلام كيلئے يہ شرط ركھى تھى كہ حكومت آپ(ص) كے بعد ان كومل جائے ليكن آپ(ص) نے انہيں رد كرديا تھا_
ايك طرف سے اسلام اور دعوت قرآنى كے بارے ميں ان لوگوں كى فكر تھى جو انصار كے قبول اسلام اور پھر ہجرت اور ان كى بيعت (بيعت عقبہ اولى اور ثانيہ) نيز بيعت كرنے والوں كيلئے ضامنوں اورنقيبوں كے انتخاب كا سبب بنى اور دوسرى طرف دين و سياست كو جدا سمجھنے والوں كى سوچ ہے اور ان دونوں ميں كس قدرفاصلہ ہے_ يہ بات يقينا استعمارى طاقتوں كى پيدا كردہ ہے اور باہر سے در آمد شدہ مسيحى طرزفكر كا شاخسانہ ہے_
4_ قبائل كو دعوت اسلام دينے كے نتائج
گذشتہ باتوں سے ہم يہ نتيجہ اخذ كرسكتے ہيں كہ :
(الف) رسول(ص) اللہ كا لوگوں سے ملكر بہ نفس نفيس گفتگو فرمانااس بات كا موجب تھا كہ لوگوں كے اذہان ميں آپ(ص) كى شخصيت اور آپ(ص) كے دين كى حقيقى تصوير اتر جائے_ نيز ان بے بنياد اور خود غرضى پر مشتمل دعووں اور افواہوں كى ترديد ہوجائے جو قريش اور ان كے مددگار پھيلاتے تھے_ مثال كے طورپر آپ(ص) كو شاعر، كاہن، ساحر، اور مجنون وغيرہ كہنا_
(ب) بنى عامر كے ساتھ پيش آنے والا واقعہ اس بات كى واضح دليل ہے كہ رسول(ص) الله كا قبائل كو دعوت اسلام دينا دين كى ترويج اور دور در از علاقوں تك اس كى شہرت كے پھيلنے كا باعث بنا كيونكہ فطرى بات تھى كہ جب لوگ اپنے وطن واپس لوٹتے تو ان امور كے بارے ميں گفتگو كرتے جن كو انہوں نے اس سفركے دوران سنا اور ديكھا تھا_ پھران دنوں مكہ ميں اس نئے دين كے ظہور كى خبر سے زيادہ سنسنى خيز خبر كوئي اور نہ تھي_
حضرت سودہ اور عائشه سے رسول اكرم(ص) كى شادي
كہتے ہيں كہ حضرت پيغمبر(ص) نے بعثت كے دس سال بعد زمعہ كى بيٹى سودہ كے ساتھ شادى كى نيز حضرت
224
ابوبكر كى بيٹى حضرت عائشه سے بھى نكاح فرمايا_
ہم تاريخ اسلام ميں سودہ كا كوئي اہم كردار نہيں ديكھتے، نہ رسول(ص) الله كى زندگى ميں نہ اس كے بعد، اور ان لوگوں كى سارى توجہ حضرت عائشه پر ہى مركوز رہى ہے يہاں تك كہ انہوں نے ماہ شوال ميں عقد كرنے كو مستحب قرار ديا ہے كيونكہ رسول (ص) الله نے حضرت عائشه كے ساتھ شوال ميں عقد كيا تھا (1) جبكہ خود رسول اكرم (ص) نے باقى عورتوں كے ساتھ شوال كے علاوہ ديگر مہينوں ميں عقد كيا تھا_ بہرحال يہاں ہم حضرت عائشه كى شادى سے مربوط تمام اقوال و نظريات پر روشنى نہيں ڈال سكتے كيونكہ فرصت كى كمى كے باعث يہ كام دشوار بلكہ نہايت مشكل ہے_
بنابريں ہم فقط دونكتوں كا ذكر كرنے پر ہى اكتفا كرتے ہيں جو آنحضرت(ص) اور حضرت عائشه كى شادى سے متعلق ہيں_
البتہ حضرت عائشه سے متعلق كچھ اورپہلوؤں سے آگے چل كر بحث ہوگي_ ان دونوں نكتوں ميں سے ايك حضرت عائشه كى عمر كا مسئلہ ہے اور دوسرا ان كے حسن و جمال اور پيغمبراكرم(ص) كے نزديك ان كى قدر و منزلت كا _
1_ نكاح كے وقت حضرت عائشه كى عمر
كہتے ہيں كہ رسول(ص) الله نے عائشه سے چھ يا سات سال كى عمر ميں نكاح فرمايا_ پھر ہجرت مدينہ كے بعد 9سال كى عمر ميں وہ آپ(ص) كے گھر منتقل ہوئيں_ يہى بات خود حضرت عائشه سے بھى مروى ہے_ (2)
ليكن ہم درج ذيل دلائل كى رو سے كہتے ہيں كہ يہ بات درست نہيں بلكہ حضرت عائشه كى عمر اس سے كہيں زياہ تھي_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ نزھة المجالس ج 2ص 137 _
2_ طبقات ابن سعد ج 8 ص 39، الاصابة ج 4 ص 359، تاريخ طبرى ج 2 ص 413، تہذيب التہذيب ج 12، اسد الغابة ج 5 اور دوسرى كتب بطور مثال شرح نہج البلاغة معتزلى ج 9 ص 190 ليكن ص 191 پر خود اپنے كو رد كيا ہے اور كہا ہے وہ سنہ 57ہجرى ميں فوت ہوئيں اور ان كى عمر64سال ہے_ اس كا مطلب ہے ہجرت كے وقت ان كى عمر فقط سات سال تھي_
225
(الف) ابن اسحاق نے حضرت عائشه كو ان لوگوں ميں شمار كيا ہے جنہوں نے بعثت كے ابتدائي دور ميں اسلام قبول كيا وہ كہتے ہيں كہ اس وقت حضرت عائشه چھوٹى تھيں اور اس نے فقط اٹھارہ افراد كے بعد اسلام قبول كيا_ (1)
بنابريں اگر ہم بعثت كے وقت حضرت عائشه كى عمر سات سال بھى قرار ديں تو نكاح كے وقت ان كى عمر سترہ سال اور ہجرت كے وقت بيس سال ہوگي_
(ب) حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہاكے بارے ميں پيغمبراكرم(ص) نے فرمايا ہے وہ عالمين كى تمام عورتوں كى سردار ہيں_ نيز آپ(ص) سے يہ قول بھى منسوب ہے كہ عورتوں ميں سے كوئي كامل نہيں ہوئي سوائے عمران كى بيٹى مريم اور فرعون كى بيوى آسيہ كے اور عائشه كى فضيلت تمام عورتوں پر اس طرح ہے جس طرح ثريد كو تمام كھانوں پر فضيلت حاصل ہے_
ان دونوں اقوال كے درميان تناقض كو دور كرنے كے سلسلے ميں طحاوى كہتا ہے ممكن ہے كہ دوسرى حديث فاطمہ كے بلوغ اور اس مرتبے كى اہليّت پيدا ہونے سے قبل كى ہو جسے رسول(ص) الله نے ان كيلئے بيان كيا_ كچھ آگے چل كر كہتا ہے كہ ہر وہ فضيلت جو دوسرى عورتوں كيلئے بيان ہوئي ہو اور فاطمہ كے حق ميں اس كے ثابت ہونے كا احتمال ہو وہ ممكن ہے اس وقت بيان ہوئي ہو جب وہ چھوٹى تھيں اور اس كے بعد وہ بالغ ہوئيں_ (2)
اس سے كچھ قبل طحاوى نے قاطعانہ طور پر كہا تھاكہ وفات كے وقت حضرت فاطمہ كى عمر 25سال تھي_ (3)
اس كا مطلب يہ ہے كہ ان كى ولادت بعثت سے دو سال قبل ہوئي جبكہ فرض يہ ہے كہ جب حضرت عائشه حد بلوغت كو پہنچيں تو اس وقت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا چھوٹى بچى تھيں_(دوسرے لفظوں ميں حضرت عائشه كي
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرت ابن ہشام ج 1 ص 271، تہذيب الاسماء و اللغات ج 2 ص 351و 329ابن ابى خيثمہ سے اس كى تاريخ ميں ابن اسحاق سے اور البدء و التاريخ ج 4 ص 146 _
2_ مشكل الآثارج ج 1ص 52 _
3_ مشكل الآثارج 1 ص 47_بعض علماء نے عائشه كى فضيلت سے متعلق اس حديث كو عائشه كے ساتھ آنحضرت(ص) كا مزاح قرار ديا ہے كيونكہ اس كے جملے تفضيل اور بيان فضيلت كے ساتھ سازگار نہيں ہيں _ خاص كر جب ہم اس بات كو بھى خاطر نشين كرليں كہ آپ (ص) كھانے پينے كے معاملے ميں اتنے اہتمام كے قائل نہيں تھے اور نہ ہى آپ (ص) لذت سے بھر پور كھانوں كے خواہش مند تھے كہ تفضيل جيسے حساس مسئلہ پر ايسى مثال پيش كريں_
226
پيدائشے بھى بعثت سے كئي سال قبل ہوئي يوں حضرت عائشه وقت ہجرت كم از كم پندرہ سال كى ہوں گي_ مترجم)
(ج) ابن قتيبہ كا بيان ہے كہ حضرت عائشےہ58ہجرى ميں چل بسيں_( بعض لوگوں كے خيال ميں 57ہجرى ميں ان كى وفات ہوئي )تقريبا 70سال كى عمرميں_ (1)
ادھر بعض لوگ يہ كہتے ہيں كہ حضرت خديجہ كى وفات ہجرت سے تين يا چار يا پانچ سال قبل ہوئي_اور ادھر حضرت عائشه سے مروى ہے جب رسول(ص) الله نے مجھ سے شادى كى تو ميں نو سال كى تھي_(2)
ہمارى گذشتہ معروضات اور اس بات كے پيش نظر كہ لفظ سبع (سات) اور تسع (نو) كے درميان اكثر اشتباہ ہوتا ہے كيونكہ پہلے زمانے ميں الفاظ كے نقطے نہيں ہوتے تھے اور مذكورہ عدد بھى اسى وجہ سے مشكوك ہے نيز عام طور پر عورتيں اپنى عمر كم بتانے كى خواہاں ہوتى ہيں شايد يہى روايت حقيقت سے نزديك ترہو_
بہرحال ابن قتيبہ كا كلام اور اس كے بعد والے كلام سے يہ ظاہر ہوتا ہے كہ حضرت عائشه كى پيدائشے يا بعثت كے سال ہوئي يا اس سے قبل البتہ ہمارى معروضات كى روشنى ميں دوسرا احتمال زيادہ قوى ہے_
خلاصہ يہ كہ جب ہم مذكورہ امور كو مدنظر ركھتے ہيں تو نتيجہ يہى نكلتا ہے كہ جب رسول(ص) الله نے حضرت عائشه سے بعثت كے دسويں سال نكاح فرمايا تو ان كى عمر چھ سال سے كہيں زيادہ تھى يعنى 13سے ليكر 17سال كے درميان تھي_
جعلى احاديث كا ايك لطيف نمونہ
اس مقام پر دروغ گوئي كى عجيب و غريب مثال ابوہريرہ كى روايت ہے كہ جب نبى كريم(ص) مدينہ ميں داخل ہوئے اور يہيں بس گئے تو آپ نے لوگوں سے شادى كى خواہش كا اظہار كيا اور فرمايا كہ ميرے لئے نكاح كا بندوبست كرو_ جبرئيل جنت كا ايك كپڑا ليكر اترے جس پر ايك ايسى خوبصورت تصوير نقش تھى جس سے زيادہ خوبصورت شكل كسى نے نہ ديكھى تھي_ جبرئيل نے آپ(ص) كو خدا كى طرف سے يہ حكم سنايا كہ اس تصوير كے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ المعارف ابن قتيبہ ص 59 مطبوعہ 1390ھ_
2_ رجوع كريں حديث الافك صفحہ 93_
227
مطابق شادى كريں_ پس نبي(ص) نے فرمايا :''اے جبرئيل ميں كيونكر اس جيسى صورت ركھنے والى سے شادى كرسكتا ہوں؟''_ جبرئيل نے كہا كہ خدا نے آپ (ص) كو يہ پيغام ديا ہے كہ ابوبكر كى بيٹى سے شادى كريں ''_ پس رسول(ص) الله حضرت ابوبكر كے گھر گئے اور دروازہ كھٹكھٹايا اور فرمايا:'' اے ابوبكر خدا نے مجھے تيرا داماد بننے كا حكم ديا ہے''_ چنانچہ حضرت ابوبكر نے اپنى تين بيٹياں آپ(ص) كے سامنے پيش كيں_ آپ(ص) نے فرمايا:'' خدا نے مجھے اس لڑكى يعنى عائشه سے شادى كرنے كا حكم ديا ہے'' _چنانچہ رسول(ص) الله نے ان سے شادى كي_ (1)
اس روايت كى سندپر جو اعتراضات ہيں ان سے قطع نظر ہم يہ عرض كرتے چليں كہ:
(الف) ہمارى سمجھ ميں تو نہيں آتا كہ پيغمبر(ص) اسلام كيونكر ايسا كام كرتے جسے احترام ذات كے قائل صاحبان عقل انجام نہيں ديتے اور لوگوں سے كہتے كہ اے لوگو ميرى شادى كرادو_ آپ(ص) (معاذ اللہ)چھوٹے بچے تو نہيں تھے جو شرم و حيا اور عقل و شعور سے عارى ہوں_ عجيب نكتہ تو يہ ہے كہ (روايت كى رو سے) لوگوں نے آپ(ص) كى خواہش كو سنى ان سنى كر كے آپ(ص) كے ساتھ نا انصافى كى يہاں تك كہ جبرئيل نے آكر آپ(ص) كى مشكل حل كردي_
(ب) كيا يہ درست ہے كہ حضرت عائشه كاحسن و جمال اس قدرزيادہ تھاكہ اس سے بہتر صورت كسى نے نہ ديكھى ہو؟_ انشاء الله آنے والے معروضات، طالبان حق و ہدايت كيلئے كافى اور قانع كنندہ ثابت ہوںگے_
(ج) نبى كريم(ص) نے ہجرت مدينہ سے تين سال قبل مكہ ميں حضرت عائشه سے شادى كى تھى اس سلسلے ميں مورخين كا اجماع محتاج بيان نہيں_
(د) حضرت ابوبكر كى تين بيٹيا ں جن كو انہوں نے رسول(ص) كے سامنے پيش كيا تھا معلوم نہيں كونسى تھيں_ كيونكہ اسماء تو زبير كى بيوى تھى جب وہ مدينہ آئي تو حاملہ تھى جس سے عبدالله پيدا ہوا_ حضرت عائشه نے رسول(ص) الله سے مكہ ميں شادى كى اور ام كلثوم تو حضرت ابوبكر كى وفات كے بعد پيدا ہوئيں_ان تينوں كے علاوہ تو ان
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تاريخ بغداد خطيب ج 2 ص 194 ميزان الاعتدال ذہبى ج 3 ص 44 ... خطيب اور ذہبى نے اس حديث كى تكذيب كى ہے جس كے تمام راوى ثقہ ہيں سوائے محمد بن حسن، الغدير ج 5 ص 321_
228
كى كوئي بيٹى تھى ہى نہيں_(1)
ان باتوں كے علاوہ حضرت ابوبكركو صديق كا لقب انكے چاہنے والوں نے رسول(ص) الله كى وفات كے بعد ديا تھا جس كى طرف ہم غار كے واقعے ميں انشاء الله اشارہ كريں گے_
حضرت عائشه كا جمال اور انكى قدر ومنزلت
(اہل سنت كے تاريخى منابع كے مطابق)
حضرت عائشه كے حسن وجمال اور پيغمبر(ص) كے نزديك ان كى قدر ومنزلت اور محبوبيت كے بارے ميں جو كچھ كہا گيا ہے وہ كاملاً نہيں توكم از كم غالباً خود حضرت عائشه سے مروى ہے ياان كے بھانجے عروہ سے_ ہميں تو يقين ہے كہ يہ باتيں سرے سے ہى غلط ہيں_ يہاں ہم اپنى كتاب حديث الافك (جو چھپ چكى ہے) ميں مذكور نكات كو بعض اضافوں كے ساتھ پيش كرتے ہيں اور عرض كرتے ہيں كہ:
(الف) حضرت عائشه كے حسن و جمال اور رسول(ص) الله كے پاس ان كى قدر و منزلت اور محبوبيت كى بات غالباً خودحضرت عائشه سے منقول ہے جيساكہ روايات ميں تحقيق كرنے سے پتہ چلتا ہے توكيا يہ خوبياں صرف عائشه يا ان كے بھانجے كو ہى معلوم تھيں كوئي اور ان سے واقف نہ تھا ؟ _
(ب) جنگ جمل كے بعد ابن عباس جب حضرت عائشه سے روبرو ہوئے تو انہوں نے اس حقيقت كى نشاندہى كى كہ نہ تو وہ پيغمبر(ص) كى بيويوں ميں سے سب سے خوبصورت تھيں اور نہ خاندانى شرافت و نجابت كے لحاظ سے ممتاز تھيں (1) نيز (جيساكہ آگے جلد ذكر ہوگا) حضرت عمر نے حضرت عائشه كے بجائے صرف زينب كے حسن كى تعريف كى ہے_
(ج) ''على فكري'' كہتا ہے ابن بكار كى يہ روايت ہے كہ ضحاك بن ابوسفيان كلابى ايك بدصورت آدمى تھا جب اس نے پيغمبر(ص) كى بيعت كى تو عرض كيا:'' ميرى دو بيوياں ہيں جو اس حميرا سے زيادہ خوبصورت
--------------------------------------------------------------------------------
1_ نسب قريش مصعب زبيرى ص 275_278_
2_ الفتوح ابن اعثم ج 2 ص 337 مطبوعہ ہند_
229
ہيں (حميرا سے مراد حضرت عائشه ہے اور يہ واقعہ آيت حجاب كے نزول سے قبل كا ہے) كيا ميں ان دونوں ميں سے ايك سے دستبردار نہ ہو جاؤں تاكہ آپ(ص) اس سے شادى كرليں؟''_ اس وقت حضرت عائشه بيٹھى سن رہى تھيں، بوليں :''اس كا حسن زيادہ ہے يا تمہارا؟'' بولا:'' ميرا حسن اور مرتبہ اس سے زيادہ ہے''_جناب رسول(ص) الله حضرت عائشه كے اس سوال پر ہنس پڑے (كيونكہ وہ شخص نہايت بدصورت تھا)_ (1)
(د) اہل سنت كى كتابوں ميں ہے كہ عباد بن عوام نے سہيل بن ذكوان سے پوچھا: '' حضرت عائشه كيسى تھيں ؟ ''اس نے كہا : ''وہ كالى تھيں'' يحيى نے كہا : '' ہم نے سہيل بن ذكوان سے پوچھا كہ كيا تم نے حضرت عائشه كو ديكھا ہے؟ اس نے كہا : '' ہاں'' پوچھا : '' كيسى تھيں ؟ '' كہا : '' كالى تھيں'' (2) پس يہ جو كہاجاتاہے كہ وہ گلابى رنگت كى تھيں اور پھر رسول (ص) كريم كے جملہ'' يا حميرا'' كو بطور ثبوت پيش كيا جاتاہے يہ سب مشكوك ہوجائے گا_ اور شايد رسول (ص) اكرم كا حضرت عائشه كو حميرا كہنا ملائمت اور دلجوئي كے لئے ہو يا اس بناپر ہو كہ چونكہ عربوں كى مثال ہے ''شر النساء الحميرا ء المحياض'' (3) سب سے برى عورت زيادہ، ماہوارى كا خون ديكھنے والى عورت ہے _ اسى لئے عائشه كے لئے جناب رسول (ص) خدا مذاق ميں يہ لفظ استعمال فرماتے ہوں_
(ھ) جو شخص ازواج پيغمبر (ص) كى سيرت كا مطالعہ كرے تو وہ جان ليتا ہے كہ حضرت عائشه ہى پيغمبر(ص) كى تمام ازواج اور لونڈيوں سے حسد كرتى تھيں اور اس بات كا بھى يقين حاصل كرليتا ہے كہ اگر پيغمبر(ص) كى سارى بيوياں نہ سہى تو كم از كم ان كى اكثريت پيغمبر(ص) كے نزديك حضرت عائشه سے زيادہ قدر و منزلت ركھتى تھيں_ اگرچہ ہم يہ دعوى نہ بھى كريں كہ وہ حسن و جمال ميں بھى حضرت عائشه سے آگے تھيں_ كيونكہ فطرى بات ہے بدصورت آدمى خوبصور ت آدمى سے حسد كرتا ہے_ رہا خوبرو آدمى تو اسے بدشكل شخص سےحسد كرنے كى ضرورت ہى كيا ہے_
اسى طرح يہ بھى انسانى طبيعت كے خلاف ہے كہ وہ خوبرو شخص كے مقابلے ميں بدصورت كى طرف زيادہ مائل ہو_ چنانچہ واقعہ افك ميں حضرت عائشه كى ماں كايہ قول نقل ہوا ہے''الله كى قسم ايسا بہت كم ہوتا ہے كہ كوئي
--------------------------------------------------------------------------------
1_ المسير المھذب ج 2 ص 8_9_
2_ الضعفاء الكبير عقيلى ج2 ص 155_
3_ علامہ زمخشرى كى ربيع الابرار ج4 ص 280 و روض الاخيار ص 130_
230
خوبصورت عورت اپنے شوہر كے نزديك محبوب ہو اور اس كى سوكنيں بھى ہوں ليكن وہ اس كے خلاف باتيں نہ بنائيں''_
اگر ہم تسليم بھى كريں كہ حضرت عائشه ہى پيغمبر(ص) كے پاس قدر و منزلت ركھتى تھيں اور آپ(ص) دوسروں سے زيادہ ان كو چاہتے تھے تو پھر دوسرى بيويوں سے نفرت كرنے اور حسد كرنے كى كيا وجہ تھي؟ حسد تو ہميشہ اس چيز كے بارے ميں ہوتا ہے جس سے خود حاسد محروم ہو_ حاسد چاہتا ہے كہ محسود اس چيز سے محروم ہوجائے اور وہ خود اسے حاصل كرلے_
ذيل ميں ہم پيغمبر(ص) كى ديگر ازواج كے خلاف حضرت عائشه كے حسد كے بعض نمونے پيش كريں گے_
1_ حضرت خديجہ عليہا السلام
حضرت عائشه سے مروى ہے كہ ميں نے كسى عورت سے اتنى نفرت نہيں كى جس قدر خديجہ سے كى ہے_ اس كى وجہ يہ نہ تھى كہ ميں نے اس كے ساتھ زندگى گزارى ہو بلكہ يہ تھى كہ رسول(ص) الله انہيں زيادہ ياد كرتے تھے_ اگر آپ(ص) كوئي گوسفندبھى ذبح كرتے تو اسے حضرت خديجہ كى سہيليوں كے پاس بطور ہديہ بھيجتے تھے_ (1)يہ قول مختلف عبارات ميں مختلف اسناد كے ساتھ مذكور ہے_
ايك دن رسول(ص) (ص) الله نے حضرت خديجہ كاذكر كيا تو ام المومنين عائشه نے ناك بھوں چڑھاتے ہوئے كہا:'' وہ تو بس ايك بوڑھى عورت تھى جس سے بہتر عورت خدا نے آپ(ص) كو عطاكى ہے''_ مسلم كے الفاظ يہ ہيں ''جس كا آپ(ص) ذكر كرتے ہيں وہ تو قريش كى بوڑھيوں ميں سے ايك بڑھيا تھي_ جس كے لبوں كے گوشے سرخ تھے اور اسے مرے ہوئے عرصہ ہوگيا ہے _ خدا نے آپ كو اس سے بہتر عطا كى ہے''_ يہ سن كر
--------------------------------------------------------------------------------
1_ صحيح بخارى ج 9 ص 292 اور ج 5 ص 48 اور ج 7 ص 47 اور ج 8 ص 10 صحيح مسلم ج 7 ص 34_135 اسد الغابة ج 5 ص 438، المصنف ج 7 ص 493، الاستيعاب حاشية الاصابة ج 4 ص 286 صفة الصفوة ج 2 ص 8، بخارى و مسلم سے، تاريخ الاسلام ذہبى ج 2 ص 153البداية و النہاية ج 3 ص 128_
231
رسول(ص) الله غضبناك ہوئے يہاں تك كہ آپ(ص) كے سركے اگلے بال كھڑے ہوگئے_ پھر فرمايا :''خدا كى قسم ايسانہيں، الله نے مجھے اس سے بہتر عطا نہيںفرمايا ...''_ (1)
عسقلانى اور قسطلانى كا كہنا ہے كہ حضرت عائشه پيغمبراكرم(ص) كى بيويوں سے حسد كرتى تھيں ليكن حضرت خديجہ سے ان كا حسد زيادہ تھا_ (2)
مجھے اپنى زندگى كى قسم يہ تو حضرت خديجہ كى زندگى كے بعد حضرت عائشه كى حالت ہے_ پتہ نہيں اگر وہ زندہ ہوتيں تو كيا حال ہوتا؟ نيز جب ام المومنين كے حسد نے مُردوں كوبھى نہ چھوڑا تو زندوں كے ساتھ ان كا رويہ كيسا رہا ہوگا؟
2_ زينب بنت جحش
حضرت عائشه نے اعتراف كيا ہے كہ پيغمبر(ص) كى ازواج ميں سے زينب ہى فخرميں اس كا مقابلہ كرتى تھي_نيز اس بات كا بھى اعتراف كيا ہے كہ جب رسول(ص) الله نے زينب سے شادى كا ارادہ كيا تو دور و نزديك كے لوگوں نے اس كى خبرلى كيونكہ اس كے حسن و جمال كى خبر ان تك پہنچى تھي_ (3)
مغافير كے مشہور واقعے ميں حضرت زينب كے ساتھ حضرت عائشه اور حضرت حفصہ كى كہانى مشہور ہے_يہاں تك كہ كہتے ہيں كہ يہى واقعہ آيہ تحريم (4) كے نزول كا باعث بنا ہے_ اگرچہ ہمارا عقيدہ يہ ہے كہ آيہ تحريم كسى اور مناسبت سے نازل ہوئي تھي_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ صحيح مسلم ج 7 ص 134 ليكن اس نے آپ(ص) كا جواب ذكر نہيں كيا، اسد الغابة ج 5 ص 438 نيز ص 557 و 558 ،الاصابة ج 4 ص 283 استيعاب ج 4 ص 286، صفة الصفوة ج 2 ص 8مسند احمد ج 6 ص 117بخارى ج 2 ص 202 مطبوعہ 1309 ہجرى ، البداية و النہاية ج 3 ص 128 نيز اسعاف الراغبين در حاشيہ نور الابصار ص 96_
2_ فتح البارى ج 7 ص 102، ارشاد السارى ج 6 ص 166 و ج 8 ص 113 _
3_ الاصابة ج 4 ص 314 و طبقات ابن اسد ج 8 ص 72 و در المنثور ج 5 ص 202 ابن سعد و حاكم سے_
4_ طبقات ابن سعد ج 8ص 76 نيز حياة الصحابہ ج2 ص 761 از بخارى و مسلم_
232
حضر ت عمر ابن خطاب نے بھى زينب بنت جحش كے جمال كا اعتراف كرتے ہوئے اپنى بيٹى سے كہا '' نہ تمہيں عائشه والا مرتبہ حاصل ہے اور نہ زينب والاحسن_'' (1) يعنى اگر حضرت عائشه كے پاس حسن ہوتا تو اسے حضرت زينب پر ضرور مقدم كيا جا تا البتہ ہميں پہلے جملے ميںبھى شك ہے اور ہمارا نظريہ يہ ہے كہ حضرت عمر كى ام المومنين كے ساتھ ايك سياست تھى يا راويوں نے اپنى خواہشات كے تحت اس كا اضافہ كيا ہے(2)_ اس كى وجہ پہلے بيان شدہ حقائق ہيں اورآئندہ بھى اس بارے ميں گفتگو ہوگي_
حضرت ام سلمہ كہتى ہيں كہ رسول(ص) الله حضرت زينب كو بہت پسند فرماتے تھے_ آپ (ص) اكثر اس كانام لياكرتے تھے_ (3)
3_ ام سلمہ رحمہا الله
حضرت ام سلمہ سب سے زيادہ با جمال تھيں_ (4)
امام باقر(ع) سے مروى ہے كہ (ام سلمہ) پيغمبر(ص) كى ازواج ميں سب سے زيادہ خوبصورت تھيں_ كہتے ہيں كہ حضرت عائشه اور حضرت حفصہ كے بارے ميں مغافير كا واقعہ ام سلمہ كى وجہ سے پيش آيا_ (5) خود حضرت عائشه كا بھى اعتراف ہے كہ ام سلمہ اور زينب پيغمبر اكرم(ص) كو حضرت عائشه كے بعد سب سے زيادہ محبوب تھيں_ (6)
حضرت عائشه كہتى ہيں:'' جب رسول(ص) الله نے حضرت ام سلمہ سے شادى كى توميں اس كے حسن كے بارے ميں ملنے والى خبروں كے باعث سخت محزون ہوئي اور ميرى پريشانى ميں اضافہ ہوا يہاں تك كہ جب
--------------------------------------------------------------------------------
1_ طبقات ابن سعد ج 8ص 137_138_
2_ طبقات ابن سعد ج 8ص 73و تہذيب الاسماء و اللغات ج 2ص 347 _
3_ المواھب اللدنية ج 1ص 205و تہذيب الاسماء و اللغات ج 2ص 362 _
4_ طبقات ابن سعد ج 8ص 122در المنثور ج 6ص 239 _
5_ طبقات ابن سعد ج 8ص 81 _
6_ الاصابہ ج4 ص 459 اور طبقات ابن سعد ج8 ص 66_
233
ميں نے اسے ديكھا تو جيسے سنا تھا اس سے كئي گنا زيادہ حسين پايا''_ (1) ابن حجر نے كہا ہے كہ حضرت ام سلمہ غيرمعمولى حسن اور عقل ركھتى تھيں_ (2)
4_ صفيہ بنت حيى بن اخطب
ام سنان اسلميہ كہتى ہيں:'' وہ حسين ترين عورتوں ميں سے تھيں''_ (3) جب وہ مدينہ آئيں تو مدينہ كى عورتيں ان كا حسن و جمال ديكھنے كيلئے آئيں_ حضرت عائشه بھى نقاب اوڑھے ان كے ہمراہ تھيں_ جب رسول(ص) الله نے پوچھا:'' اے عائشه اسے كيسا پايا ''تو وہ بوليں:'' ايك يہوديہ پايا''_ يہ سن كر رسول(ص) الله نے عائشه كو اس امر سے منع فرمايا_ (4) جب وہ قيد ہوئي تھيں تو لوگ ان كى تعريف كرنے اور كہنے لگے:'' ہم نے ايسى عورت كو قيد ميں ديكھا جس كى مانند كسى كو نہيں ديكھا تھا_'' (5) جب حضرت صفيہ نے رسول(ص) الله كى خدمت ميں كھانے كا ايك ظرف بھيجا (اس وقت آپ حضرت عائشه كے ہاں تھے) تو حضرت عائشه لرزنے لگى يہاں تك كہ ان كے اوپر كپكپى طارى ہوگئي پھر انہوں نے اس برتن كو ٹھوكر مارى اور دور پھينك ديا_ (6)
رسول خدا(ص) نے ان كے متعلق تاكيد كے ساتھ فرمايا كہ يہ عائشه اور حفصہ سے بہت بہتر ہے (7)
5_ جويريہ بنت حارث
حضرت عائشه كہتى ہيں كہ وہ ايك پر كشش اور خوبصورت عورت تھيں جس شخص كى نظر اس پر پڑتى تو اس كا دل
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الاصابة ج 4ص 459_
2_ الاصابة ج 4ص 347 و 463 اور طبقات ابن سعد ج8 ص87 _
3_ الاصابة ج 4ص 347 اور طبقات ابن سعد ج 8ص 90 _
4_ و طبقات ابن سعد ج 8ص 88 _
5_ مسند احمد ص 277 ج 6 بخارى باب الغيرة ، باب النكاح كے ذيل ميں ليكن اس ميں حضرت عائشه كا نام نہيں ليا گيا_
6_ اسد الغابہ ج5 ص 491_
7_ الاصابہ ج4 ص 265 ، الاستيعاب حاشيہ الاصابہ ج4 ص 259 نيز صفة الصفوة ج2 ص50_
234
موہ ليتى تھيں_ وہ لكھنے ميں رسول(ص) الله كى مدد كيلئے آپ(ص) كى خدمت ميں آتى تھيں، حضرت عائشه كہتى ہيں :''خدا كى قسم جونہى ميں نے اسے ديكھا نفرت كا احساس ہوا اور اپنے دل ميں كہا، اس كى جو خصوصيت ميں نے ديكھى ہے رسول(ص) الله بھى ديكھيں گے_ پھر جب وہ رسول(ص) (ص) الله كے پاس پہنچى ... '' (1)
6_ ماريہ قبطيہ
حضرت عائشه كا كہنا ہے :''ميں نے ماريہ قبطيہ سے زيادہ كسى كے ساتھ حسد نہيں كيا تھا كيونكہ وہ خوبصورت اورگھونگھر يالے بالوں والى تھي_ چنانچہ رسول(ص) الله كو وہ پسند آگئي_ جب وہ پہلى مرتبہ آئي تو رسول(ص) الله نے اس كو حارثہ بن نعمان كے گھر ركھا_ يوں وہ ہمارى ہمسايہ بن گئي_ آپ(ص) شب و روز اس كے پاس رہتے تھے يہاں تك كہ ہم اس كے پيچھے پڑگئے اور وہ خوفزدہ ہوگئي اس كے بعد آپ(ص) نے اسے عاليہ كے ہاں بھيج ديا آنحضرت(ص) اس كے پاس وہاں جايا كرتے تھے_ يہ بات ہمارے اوپر اور زيادہ سخت گزري''_ (2)
امام باقر(ع) سے منقول ہے كہ حضور اكرم(ص) نے ماريہ كو چھپا ديا تھا_ يہ بات رسول(ص) كى ازواج پر گراں گزرى اور ان سے حسد كرنے لگيں البتہ حضرت عائشه كى طرح نہيں''_ (3)
رسول(ص) الله حضرت ماريہ كو پسند فرماتے تھے _وہ گھونگھر يالے بالوں والى (4) سفيد، حسين اور نيك سيرت خاتون تھيں_ (5)
انصار كے درميان ابراہيم كو دودھ پلانے كے بارے ميں كھينچا تانى ہوئي، وہ چاہتے تھے كہ حضرت ماريہ نبي(ص) كى خدمت كيلئے ديگر كاموں سے فارغ البال رہے كيونكہ وہ ماريہ كے بارے ميں نبي(ص) كى دلچسپى سے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الاصابة ج 4 ص 405طبقات ابن سعد ج 8 ص 153بدايہ و نہايہ ج 3 ص 303_304 و وفاء الوفاء سمھودى ج 3 ص 826 _
2_ طبقات ابن سعد ج 1قسم 1 ص 86 سيرت حلبيہ ج 3 ص 309 _
3_ طبقات ابن سعد ج 1حصہ 1 ص 86 اور الاصابة ج 4 ص 405 _
4_ تہذيب الاسماء و اللغات ج 2 ص 355 و طبقات ابن سعد ج 1 حصہ 1 ص 86 اور البداية و النہاية ج 3 ص 303 _
5_ ذخائر العقبى ص 54 ، الاستيعاب حاشيہ الاصابہ ج1 ص 42 اور طبقات ابن سعد ج8 ص 153_
235
سے آگاہ تھے_ (1)
ماريہ سے حضرت عائشه كے حسد ميں اضافے كى ايك وجہ شايد ماريہ كا ابراہيم كو جنم دينا ہو_ يہاں تك كہ انہوں نے جسارت كرتے ہوئے رسول(ص) الله اور ابراہيم كے درميان شباہت كى نفى كى اس كے باوجود كہ آپ(ص) نے اس مسئلے ميں بہت تاكيد اور اصرار كيا تھا(2)_ بات يہاں تك بڑھى كہ آيہ تحريم كے نزول كى نوبت آئي جيساكہ سيوطى وغيرہ نے ذكر كيا ہے_
7_ سودہ بنت زمعہ
حضرت عائشه كہتى تھيں عورتوں ميں فقط سودہ بنت زمعہ سے مجھے اتنى محبت ہے كہ ميں چاہتى ہوں، كاش اسكى كھال كے اندرميں ہوتي، اسكى خامى بس يہ ہے كہ وہ حاسد ہے_ (3)
نيز اس كرتوت كا بھى مطالعہ فرمائيں جو حضرت حفصہ نے حضرت سودہ كے ساتھ كيا تھا اور جس پر حضرت عائشه اور حفصہ دونوں حضرت سودہ پر ہنستيں اور مذاق اڑاتيں (4)
8_ اسماء بنت نعمان
حضرت اسماء اپنے زمانے كى خوبصورت ترين اور جوان ترين عورت تھي_ پيغمبر(ص) كى بيوياں اسماء سے حسد كرتى تھيں_ انہوں نے اسماء كے خلاف سازش كي_ سازش حضرت عائشه اور حفصہ نے ملكر كى يہاں تك كہ اس نے رسول(ص) الله سے كہا كہ آپ(ص) سے خدا كى پناہ مانگتى ہوں پھر پيغمبر اكرم(ص) نے اسے طلاق دے دي_(5)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ طبقات ابن سعد ج1 ص 88 ، الدرالمنثور ج6 ص 240 از ابن مردويہ ، البدايہ والنہايہ ج3 ص 305 قاموس الرجال ج 11 ص 305 قاموس الرجال ج 11 ص 305 از بلاذري، السيرة الحلبيہ ج3 ص 309 ، مستدرك حاكم ج4 ص 39 ، تلخيص مستدرك (اسى كے حاشيہ پر ) بيہقى نيز تاريخ يعقويب ج2 ص 87 مطبوعہ صادر_
2_ طبقات ابن سعد ج 8 ص 37 البداية و النہاية ج 8 ص 70_
3_ حياة الصحابہ ج2 ص 560 اور مجمع الزوائد ج4 ص 316_
4_ طبقات ابن سعد ج 8 ص 104 تاريخ اسلام ذہبى ج 2 ص 415_416 سازش كرنے والى كا نام نہيں آيا_
5_ طبقات ابن سعد ج8 ص 106 اور تاريخ الاسلام ذہبى ج2 ص 416_
236
9_ مليكہ بنت كعب
وہ اپنے غير معمولى حسن و جمال كى بنا پر معروف تھيں_ حضرت عائشه نے اس كے پاس آكر كہا:'' تجھے اپنے باپ كے قاتل سے شادى كر كے شرم نہيں آئي؟''_اس نے خدا كے ہاں رسول(ص) الله سے پناہ مانگي_ چنانچہ آپ(ص) نے اسے بھى طلاق دے دي_ (1)
10_ ام شريك
اس خاتون نے اپنے نفس كو رسول(ص) الله كيلئے وقف كيا تھا اور آپ(ص) نے اسے قبول فرمايا تھا تب حضرت عائشه نے كہا:'' جو عورت اپنے نفس كو كسى مرد كيلئے وقف كر دے اس ميں كوئي بھلائي نہيں''_ ام شريك نے كہا:'' پھر ميں وہى عورت ہوں''_ پس خدا نے اسے مومنہ كے نام سے ياد كيا اور فرمايا: ( وامرا ة مومنة ان وھبت نفسہا للنبي) يعنى اگر كوئي مومنہ عورت اپنى جان كو نبى كيلئے وقف كردے_ جب يہ آيت اترى تو حضرت عائشه نے رسول(ص) الله سے كہا:'' خدا آپ(ص) كى خواہش كو جلد پورا كرے گا''_ (2)
11_ شراف بنت خليفہ
رسول(ص) الله نے بنى كلاب سے ايك عورت كى خواستگارى فرمائي اور حضرت عائشه كو بھيجا تاكہ اسے ديكھے چنانچہ وہ گئيں اور واپس آگئيں_ رسول(ص) الله نے پوچھا:'' اسے كيسا پايا؟''_حضرت عائشه بوليں:'' كوئي كام كى چيز نہيں پائي''_ آپ(ص) نے فرمايا :'' بتحقيقتونے اسے كام كى عورت پايا ہے_ تو نے اس كے چہرے پر خال ديكھا ہے جس سے تيرے بدن كے سارے بال كھڑے ہوگئے (يعنى تيرے اوسان خطا ہوگئے)''_ پس وہ بوليں:'' اے رسول(ص) الله آپ سے كوئي چيز پوشيدہ نہيں رہتي''_ (3)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ طبقات ابن سعد ج 8ص 112 _
2_ طبقات ابن سعد ج8 ص 115_
3_ طبقات ابن سعد ج 8ص 115 _
237
12_ حفصہ بن عمر
بلكہ عائشه تو اپنى سہيلى حفصہ سے بھى حسد كرتى تھى _ اور كہا جاتاہے كہ واقعہ مغافير ان دونوں كے درميان پيش آيا تھا(1)_
نتيجہ
يہ تھا رسول(ص) خدا كى ديگر ازواج كے ساتھ حضرت عائشه كا رويہ _ مذكورہ مشكلات كا قابل ملاحظہ حصہ بظاہر ان ازواج كے حسن و جمال كے باعث حضرت عائشه كاحسد تھا (جيساكہ بيان ہو چكا ہے) حضرت عائشه كى پيداكردہ مشكلات اور ان كے تجاوزات كادسواں حصہ بھى رسول(ص) الله كى كسى اور زوجہ كے بارے ميں ديكھنے ميں نہيں آتا سوائے ايك يا دو روايتوں كے جو خود حضرت عائشه سے مروى ہيں_
رسول(ص) الله كى بيويوں ميں سے فقط حضرت عائشه نے (بغض و حسد اور مشكلات كا) جو طوفان مچا ركھا تھا وہ اس بات كا غماز ہے كہ اس كے پيچھے ايك خاص وجہ كارفرما تھى اور وہ يہ كہ حضرت عائشه ان ازواج كے مقابلے ميں احساس كمترى يا احساس محروميت كا شكار تھي، كم ازكم حسن و جمال كے معاملے ميں_
ان حقائق كے پيش نظر عروہ اور حضرت عائشه وغيرہ سے مذكور ان تمام دعوں اور روايات كا اعتبار ساقط ہوجاتا ہے جن سے رسول(ص) خدا كے نزديك عائشه كے مقام و مرتبے كا اظہار ہوتا ہے اور اگر ساقط نہ بھى ہوں تو كم از كم يہ دعوے اور روايات مشكوك ضرور ہوجاتى ہيں_
رہى واقعہ افك والى بات تو وہ بھى باطل ہے_ ہم نے اس مسئلے كے بارے ميں ايك الگ كتاب لكھ كر تفصيلى بحث كى ہے_ يہ كتاب كچھ ہى مدت پہلے چھپ چكى ہے_
يہاں پر يہ آخرى نكتہ بھى بيان كرتے چليں كہ (اہل سنت كى كتابوں ميں)حضرت عائشه سے ايسى بہت سى احاديث نقل ہوئي ہيں جن ميں ( ان كے بقول) رسول اكرم(ص) كے حضرت عائشه كے ساتھ بوس و كنار، حالت حيض ميں (نعوذ باللہ) آپ (ص) كى اس كے ساتھ ہم بسترى اور دونوں كے ايك ہى برتن ميں غسل
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ملاحظہ ہو: حياة الصحابہ ج2 ص 762 از بخارى ، مسلم و تفسير ابن كثير ج4 ص 387 نيز از جمع الفوائد ج1 ص 229 و از طبقات ابن سعد ج8 ص 85_
238
كرنے كا ذكر ہے_ اور ديگر ايسى احاديث بھى مذكور ہيں جن ميں( معاذ اللہ) جنسيات، دل ربائي اور لطف اندوزى كا رنگ پايا جاتا ہے _ جبكہ (اہل سنت كے منابع ميں) حضرت عائشه كے علاوہ ديگرازواج پيغمبر (ص) سے اس قسم كى حاديث بہت ہى كم ديكھنے كو مليں گے _ شايد اس كى وجہ يہ ہو كہ آپ (ص) اور حضرت عائشه كے درميان تعلقات زيادہ مضبوط نہيں تھے_ كيونكہ اس كى نہ تو ذہني، ثقافتى اور عملى سطح اتنى تھى جو آپ (ص) اور عائشه كے درميان پل كا كام كرتى اور جس كے ذريعہ وہ آپ (ص) كے ساتھ اپنے تعلقات كو خاص اور مضبوط بناسكتى اور نہ ہى اس كے اغراض ،اہداف اور مقاصد، آپ(ص) كے اغراض ، اہداف اور مقاصد سے ميل كھاتے تھے_
اور اس كے بعد
ان عرائض كى روشنى ميں ہم اس نتيجے پر پہنچتے ہيں كہ رسول(ص) كا حضرت عائشه كى جسارتوں، زيادتيوں نيز آپ(ص) كے بھائي حضرت علي(ع) اور آپ(ص) كى ديگر ازواج كے حوالے سے اس كى ايذا رسانيوں كو سہنے كى وجہ اس كے سوا كچھ اور نظرنہيں آتى كہ آپ(ص) حضرت عائشه كے بارے ميں كوئي اٹل فيصلہ كرنے كى پوزيشن ميں نہيں تھے كيونكہ سياسى حالات كا تقاضا تھا كہ آپ ان تمام تلخيوں پر صبر سے كام ليتے_ رسول(ص) خدا كا اپنى ازواج كے ساتھ برتاؤ اس وقت كے سياسى حالات كے پيش نظر تھا گھريلو يا ازدواجى ماحول كے تقاضوں كے مطابق نہيں_ اس امر كى تائيد حضرت عمر كى اس بات سے ہوتى ہے جوانہوں نے اپنى بيٹى حفصہ سے كہي_ يہ اس وقت كى بات ہے جب حضرت عائشه اور حضرت حفصہ نے پيغمبر(ص) خدا كے خلاف ايكا كرليا تھا_ اور آنحضرت نے (جواباً) اپنى تمام بيويوں سے كنارہ كشى اختيار كرلى تھي_ حضرت عمر نے حفصہ سے كہا تھا:'' الله كى قسم تجھے معلوم ہے كہ رسول(ص) خدا تجھے نہيں چاہتے_ اگر ميں نہ ہوتا تو رسول(ص) الله تجھے طلاق دے ديتے''_(1)
يہاں اس حقيقت كا ذكر ضرورى ہے كہ اس دور ميں كوئي فرد ايسا نہ تھا جو حقيقت كا اظہار كرنے كى طاقت ركھتا ہو كيونكہ (دور خلفا ميں) سركارى مشينرى نے حضرت عائشه كى ركاب تھام ركھى تھى اور ان كى قدر و منزلت كو بڑھانے ميں مصروف تھى كيونكہ سركارى مشينرى حضرت عائشه سے زبردست فائدے حاصل كررہى تھي_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ صحيح مسلم ج 4 ص 189،اس كى مزيد وضاحت آپ(ص) كى كثرت ازواج كے سبب كى گفتگو ميں آئيگى جو واقعہ احد سے پہلے كى بحث ہے_
239
ان كے مقام كو بڑھا چڑھا كر پيش كرنے اور ان كيلئے تمغوں (خودساختہ كارناموں) كا ڈھير لگانے كے پيچھے ايك سوچى سمجھى اور با قاعدہ سازش كارفرماتھي_ اور حضرت عائشه بھى رسول (ص) كريم سے اپنى زوجيت اور ام المؤمنين كے لقب سے حد سے زيادہ فائدہ اٹھارہى تھيں_ اسى طرح وقت كى حكومتوں كى ضروريات سے بھى نامحدود فوائد حاصل كررہى تھيں_ يہ تمام باتيں، ہمارے لئے اس راز سے پردہ اٹھاتى ہيں كہ كيوں حضرت عائشه لوگوں كے درميان ( اپنے حسن و جمال كى وجہ سے اور اس وجہ سے كہ رسول (ص) خدا نے اس كے كنوارے پن كى بناپر اس سے شادى كى ہے ) اپنے آپ كو رسول (ص) خدا كى ديگر ازواج كى نسبت آپ (ص) كے زيادہ قريب اور با اثر مشہور كرتى تھيں_
مدينے ميں دخول اسلام
مورخين كے درميان اس بات پر اختلاف ہے كہ مدينے ميں سب سے پہلے اسلام كب داخل ہوا؟ پہلا مسلمان كون تھا؟ اور كيسے اسلام وہاں پہنچا؟ ليكن ہم يقين كے ساتھ كہہ سكتے ہيں كہ مدينہ ميں اسلام كا ورود كئي مرحلوں پر مشتمل ہے_ سب سے پہلے اسعد بن زرارہ اور ذكوان بن عبد القيس مسلمان ہوئے_ يہ اس وقت كى بات ہے جب مسلمان شعب ابيطالب ميں محصورتھے _اس كے بعد پانچ يا آٹھ يا چھ افراد مسلمان ہوئے_ پھر عقبہ كى پہلى بيعت ہوئي اور بعدازاں عقبہ كى دوسرى بيعت_ مغلطاى وغيرہ كے بيانات سے بھى اسى بات كا اظہار ہوتا ہے_ (1)
اسى بنا پر وہ كہتے ہيں كہ اسعد بن زرارہ خزرجى اور ذكوان بن عبد القيس خزرجى ايك دفعہ حج كے ايام ميں مكہ آئے اس وقت قريش نے بنى ہاشم كا شعب ابيطالب ميں محاصرہ كر ركھا تھا_ ان كے آنے كا مقصد قبيلہ اوس كے خلاف عقبہ بن ربيعہ كو اپنا حليف بنانا تھا ليكن عقبہ نے انكار كيا اور كہا: ''ہمارے اور تمہارے گھروں كے درميان بہت فاصلہ ہے اور ہم ايسى مشكل ميں پھنسے ہوئے ہيں كہ كسى اور كام كى طرف توجہ ہى نہيں دے سكتے''_ جب اس مشكل كے بارے ميں سوال ہوا تو عقبہ نے رسول(ص) اللہ كے قيام كا ذكر كيا اور كہا كہ آپ(ص)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرة مغلطاى ص 29 _
240
نے ان كے جوانوں كو خراب اور ان كے اتحاد كو پارہ پارہ كرديا ہے_ پھر عقبہ نے اسے حضور(ص) كے ساتھ رابطہ سے يہ كہہ كر منع كيا كہ آپ(ص) ساحر ہيں اور اپنے كلام سے اس كو مسحور كرديں گے_ پھر اسے يہ بھى حكم ديا كہ وہ طواف كے دوران اپنے كانوں ميں روئي ڈال لے تاكہ رسول(ص) خدا كى بات سنائي نہ دے _اس وقت نبى كريم(ص) بنى ہاشم كے ايك گروہ كے ساتھ حجر اسماعيل ميں بيٹھے ہوئے تھے_ يہ لوگ ايام حج ميں خانہ كعبہ كى زيارت كيلئے شعب ابيطالب سے خارج ہوئے تھے_
اسعد طواف كيلئے آيا اور اس نے رسول(ص) خدا كو حجر اسماعيل كے پاس تشريف فرما ديكھا_ اس نے سوچا مجھ سے زيادہ جاہل كون ہوگا؟ يہ كيسے ہوسكتا ہے كہ مكہ ميں رونما ہونے والے اس واقعے سے آگاہ ہوئے بغير ميں اپنى قوم كے پاس واپس جاؤں اور ان كو اس سلسلے ميں كچھ نہ بتاسكوں؟ چنانچہ اس نے روئي اپنے كانوں سے نكال كردور پھينك دي_ پھر رسول اكرم(ص) كے پاس آيا آپ(ص) كو سلام كيا اور آپ(ص) كے ساتھ گفتگو كي_ رسول(ص) الله نے اسے دعوت اسلام دى اور وہ مسلمان ہوگيا_ اس كے بعد ذكوان نے بھى اسلام قبول كرليا_
ايك اور روايت كہتى ہے كہ جب اسعد بن زرارہ نے ذكوان كے ساتھ نبى كريم(ص) سے ملاقات كى تو آپ سے عرض كي:'' اے الله كے رسول(ص) ميرے والدين آپ پر فدا ہوں، ميں يثرب كا باشندہ ہوں اورقبيلہ خزرج سے ميرا تعلق ہے_ اوسى بھائيوں كے ساتھ ہمارے تعلقات منقطع ہيں_ شايد خدا آپ(ص) كے طفيل ہمارے تعلقات كو بحال كردے، ميں آپ(ص) كو سب سے زيادہ صاحب شرف پاتا ہوں_ ميرے ساتھ ميرى قوم كا ايك فرد موجود ہے_ اگر وہ اس دين ميں داخل ہوا تو مجھے اميد ہے كہ خدا آپ (ص) كے ذريعے ہمارى مشكل كو حل كردے گا_ الله كى قسماے الله كے رسول(ص) ہم يہوديوں كى زبانى آپ(ص) كے بارے ميں سنتے آئے تھے وہ ہميں آپ(ص) كے ظہور كى خوشخبرى ديتے اور آپ(ص) كى صفات و علامات بتاتے تھے_ مجھے اميد ہے كہ آپ(ص) كا دار ہجرت ہمارے ہاں ہوگا_يہوديوں نے ہميں اس سے آگاہ كيا ہے_ شكر ہے اس خدا كا جس نے ہميں آپ(ص) كے پاس پہنچايا_ الله كى قسم ميں تو اسلئے آيا تھا كہ قريش كو اپنا حليف بنالوں ليكن الله نے اس سے بہتر چيز عطا كي''_
اس كے بعد ذكوان آيا_ اسعد نے اس سے كہا :''يہ الله كا وہ رسول(ص) ہے جس كے بارے ميں يہودى ہميں خوشخبرى ديتے تھے اور اس كى صفات و علامات بيان كرتے تھے، آؤ مسلمان ہوجاؤ''_ يہ سن كر ذكوان بھى
241
مسلمان ہوا ... (1)
نبوت كے گيارہويں سال نبى كريم(ص) ايام حج ہى ميں قبائل كو دعوت اسلام دينے اور ان سے مدد طلب كرنے كيلئے نكلے_ پس عقبہ (ايك گھاٹي) ميں قبيلہ خزرج كے ايك گروہ سے آپ(ص) كى ملاقات ہوئي_ آپ(ص) نے ان كو دعوت اسلام دى اور قرآن پڑھ كر سنايا_يوں وہ مسلمان ہوئے اور ان كى تعداد چھ تھي،جو يہ افراد ہيں: اسعد بن زرارہ، جابر بن عبداللہ، عوف بن حارث، رافع بن مالك اور عامر كے دوبيٹے عقبہ و قطبہ_ايك قول كى بنا پر وہ آٹھ تھے_ان كى تعداد اس كے علاوہ بھى بتائي گئي ہے (نيز ان كے ناموں ميں بھى اختلاف ہے اور مذكورہ افراد كى جگہ ديگر افراد كا نام بيان ہوا ہے_بہرحال اس بات كى تحقيق كى يہاں گنجائشے نہيں)_
خلاصہ يہ كہ يہ حضرات اپنى قوم و قبيلے كے پاس مدينہ لوٹ گئے، انہيں رسول(ص) خدا كے بارے ميں بتايا اور اسلام كى دعوت دي_اس كے بعد بعثت كے بارہويں سال يعنى ہجرت سے صرف ايك سال پہلے عقبہ كى دوسرى بيعت ہوئي(2)_
اس گفتگو كو جارى ركھنے سے پہلے درج ذيل نكات كى طرف اشارہ كرتے چليں:
1_ اہل كتاب كى پيشگوئياں
گزشتہ معروضات سے معلوم ہوا كہ اہل مدينہ يہوديوں كى زبانى يہ سنتے آئے تھے كہ عنقريب پيغمبر(ص) كا ظہور ہونے والا ہے_يہ بات اس نئے دين كو قبول كرنے كيلئے ان ميں نفسياتى طور پر آمادگى پيدا ہونے كا باعث بني_
2_ اوس وخزرج كے اختلافات
اوس وخزرج كے درميان خونريز جنگيں ہوئي تھيں آخرى جنگ، جنگ بعاث تھى جس ميں اوس كو فتح ہوئي تھى اس وقت پيغمبر(ص) اور بنى ہاشم شعب ابيطالب ميں محصور تھے_ يوں اوس وخزرج كى دشمنى نہايت زوروں
--------------------------------------------------------------------------------
1_ بحار ج 19ص 9و اعلام الورى ص 57على بن ابراہيم سے _
2_ بحار ج 19 ص 9 اور اعلام الورى ص 57 از على بن ابراہيم_
242
پرتھي_ كہتے ہيں كہ وہ دن رات ہتھياربند رہتے تھے_ (1) بالفاظ ديگر وہ اپنے محدود مالى وسائل كے ساتھ شديد ترين حالات ميں ممكنہ حد تك نبرد آزماتھے_
فطرى بات ہے كہ وہ اس بحرانى حالت سے نكلنے كيلئے فرصت كى تلاش ميں تھے اور قطع شدہ روابط كى بحالى كے منتظر تھے جيساكہ اسعد بن زرارہ نے (چند سطر قبل) اس كى تصوير كشى كي_ يہ وہى اسعد ہے جو قبيلہ اوس كے خلاف عتبہ بن ربيعہ كو حليف بنانے كيلئے آيا تھا_
بنابريں اہل مدينہ ظلم وانحراف كا مزہ چكھ چكے تھے اور كسى نجات دہندہ كے متلاشى تھے_ چنانچہ انہوں نے پيغمبر(ص) اسلام كوہى اپنا حقيقى نجات دہندہ پايا جوان كے پاس اسلام كى آسان شريعت لے كرآيا تھا_ چنانچہ انہوں نے رسول(ص) الله سے كہا:'' ہم اپنى قوم كے پاس جاكر ان كو آپ(ص) كے ساتھ ہونے والى گفتگو سنائيں گے_ آپ(ص) كى طرف ہمارے مائل ہونے كى وجہ يہ ہے كہ ہم اپنى قوم كو باہمى دشمنى كى حالت ميں چھوڑ آئے ہيں_ ہم عربوں كے كسى زندہ گروہ كے درميان اس قدر دشمنى نہيں ديكھتے جس قدر ان كے درميان پاتے ہيں_ ہم ان كے پاس وہ باتيں لے كر لوٹيں گے جو ہم نے آپ(ص) سے سنى ہيں_ شايد خدا ان كے دلوں كو آپس ميں جوڑ دے اور آپ(ص) كے طفيل ان كے درميان صلح اور باہمى الفت پيدا ہوجائے''_ (2)
3_ اسلام كى سہل وآسان تعليمات
اسلام كى تعليمات صاف ستھرى ،فطرت كے ساتھ سازگار،ہر قسم كى پيچيدگى و ابہام سے پاك اور سہل وآسان ہيں_ ان تعليمات كى حقانيت كو جاننے كيلئے گہرے غوروفكر يا اس كے اہداف كو سمجھنے كيلئے جان جوكھوں ميں ڈالنے كى ضرورت نہيں اور نہ ہى اس كے نتائج سے باخبر ہونے كيلئے كہانت اورغيب گوئي كى حاجت ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ بحار ج 19 ص 8 ، 9 ، 10 نيز اعلام الورى ص 55_
2_ الثقات ابن حبان ج 1ص 90_91_
243
اس لئے ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ اہل مدينہ اسلام كے اہداف اور اصولوں كا تذكرہ سنتے ہى ايمان لے آئے ہيں_ جب ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ مدينہ والوں كو اس قسم كے حالات كا سامنا نہ تھا جن كا اہل مكہ كو سامنا تھا تو مذكورہ حقيقت زيادہ واضح ہوتى ہے_ (كيونكہ مكہ والے اسلام كو اپنے ذاتى مفادات، خودساختہ وظالمانہ امتيازات نيز اپنى خواہشات اور انحرافى روش كيلئے خطرہ تصور كرتے تھے جيساكہ ہم نے كئي مرتبہ اس كى طرف اشارہ كيا ہے)_
مدينہ والوں نے يہوديوں كى پيش گوئيوں كے علاوہ شروع ہى سے يہ ديكھ ليا تھا كہ اسلامى تعليمات ہى ان كى نجات و ہدايت اور موت كى بجائے زندگى عطا كرنے كى ضامن ہيں _نيز يہى تعليمات ہى فطرت اور عقل سليم كے موافق ہيں، خواہ عقائد اور قوانين كے لحاظ سے ہوں يا معاشرتى اور سياسى لائحہ عمل كے حوالے سے _چنانچہ انہوں نے آنحضرت(ص) سے آپ كى دعوت كے بارے ميں سوال كياتو آپ(ص) نے فرمايا: ''ميرى دعوت يہ ہے كہ سوائے الله كے كوئي معبود نہيں اور ميں الله كا رسول(ص) ہوں_ ميں تم كو دعوت ديتا ہوں كہ كسى كو خدا كا شريك قرار نہ دو، والدين كے ساتھ احسان كرواور تنگدستى كے خوف سے اپنى اولاد كو قتل نہ كرو_ ہم ہى تم كو اور ان كو روزى ديتے ہيں، بدكارى كے قريب نہ جاؤ_ نہ علانية اور نہ چھپ كر_ كسى كو ناحق قتل نہ كرو مگر يہ كہ تمہيں اس كا حق حاصل ہو_ يہ وہ نصيحتيں ہيں جوالله نے تمہارے لئے كى ہيں تاكہ تم عقل سے كام لو اور يتيموں كے مال كے قريب بھى نہ جاؤ يہاں تك كہ وہ جوان ہوجائيں مگر اس طريقہ سے جو سب سے بہتر ہو_ناپ تول ميں انصاف سے كام لو، ہم كسى پر اس كى طاقت سے زيادہ ذمہ دارى نہيں ڈالتے_ جب تم كوئي بات كہو تو انصاف كو مدنظر ركھو اگرچہ وہ تمہارے رشتہ دار كے خلاف ہى كيوں نہ ہواور عہد الہى كو پورا كرو_ يہ خدا كى نصيحتيں ہيں تمہارے لئے تاكہ انہيں ياد ركھو''_ (1)
انہى خصوصيات كى بناپر وہ اسلام كے گرويدہ اور اس دين كى راہ ميں قريش اور عربوں كے خلاف برسر پيكار ہوگئے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ ّانعام، آيت 151_152_
244
4_ اہل مدينہ اور اہل مكہ
بت پرستى (مدينہ والوں )كادين ، ان كى اندرونى مشكلات اور اختلافات كو حل كرنے سے عاجز رہا يہاں تك كہ ان مشكلات كى مدت كو بھى كم نہ كرسكا_ نہ ہى بت پرستى كے سبب اہل مدينہ كو معاشرتى يا اقتصادى يا ديگر حوالوں سے امتيازى حيثيت مل سكي_ اسى لئے بت پرستى كى بنياديں ضعيف اور كمزورپڑتى گئيں_ عقل سليم اورفطرت كے ساتھ اس كى مخالفت نے اس ضعف اور كمزورى ميں مزيد اضافہ كيا_ پھر خدا كى طرف بلانے والے نبي(ص) كا زمانہ ظہور قريب ہونے كے بارے ميں يہوديوں كى پيش گوئيوں نے مذكورہ كمزوريوں كو اور زيادہ كرديا_
يہ مشركين مكہ كى حالت كے بالكل برعكس تھا وہ بت پرستى كے ذريعے سماجى اورسياسى طور پر فائدہ حاصل كر رہے تھے_ انہوں نے اپنے آپ كو اس سرزمين كے ديگر قبائل اور جماعتوں كے اجتماع كا مركز بناليا تھا_ مكہ والوں نے اپنے لئے ناجائز مراعات اور امتيازات كى بنيادوں كو مستحكم كرليا تھا_ وہ حق اور انسانيت كى خدمت كے نام پر ان ناجائز مراعات سے دست بردار ہونے كيلئے آمادہ نہ تھے بلكہ وہ تو اپنے ذاتى مفادات، انحرافى اعمال اور ناجائز مراعات كے اوپر انسانيت اور حق كو قربان كر رہے تھے_
علاوہ ازيں اس بات كو بھى ملحوظ خاطر ركھنا چاہيئےس كا ہم اسلام كى كاميابى اور ترويج كے اسباب كے بيان ميں ذكر كرچكے ہيں _يہاں ہم اس نتيجے پر پہنچے ہيں كہ پيغمبر(ص) كى عظيم شخصيت، آپ(ص) كے بلند اخلاق، قريش اورعرب كے بہترين گھرانے سے آپ(ص) كے تعلق (نيز بعض لوگوں كے نظريئےے مطابق آپ كى والدہ، آمنہ بنت وہب كے واسطے سے بنى نجار اور خزرجيوں سے قريبى رشتہ داري) (1) وغيرہ نے اہل مدينہ كے اسلام قبول كرنے، آپ(ص) كى دعوت پر لبيك كہنے اور اسلام كى راہ ميں قربانى دينے ميں اہم كردار ادا كيا_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ البتہ يہ ايسا دعوى ہے جس كى كوئي دليل نہيں كيونكہ صرف رشتہ دارى مذكورہ باتوں كا باعث نہيں بن سكتي_
|