الصحيح من سيرة النبى الاعظم(ص)
140
چو تھى فصل
شعب ابوطالب ميں

141
بائيكاٹ:
جب قريش نے مكہ ميں نبى كريم(ص) اور آپ(ص) كے ساتھيوں كي، نيز حبشہ ميں آپ(ص) كے اصحاب كى عزت و حيثيت ديكھي، اس كے علاوہ قبائل ميں اسلام كے پھيلاؤ كا عمل ديكھا (1) اور يہ بھى محسوس كيا كہ اسلام كے مقابلے ميں ان كى سارى كوششيں رائيگاں ثابت ہوئيں ، تو انہيں ايك نئے تجربے كى سوجھى اور وہ تھا ابوطالب اور بنى ہاشم كا اقتصادى ومعاشرتى بائيكاٹ، تاكہ اس طرح ياتو وہ حضرت محمد(ص) كو قتل كرنے كيلئے ان كے حوالے كرديتے يا( ان كے خيال خام ميں) آپ(ص) خود اپنى دعوت سے دست بردار ہوجاتے يا بصورت ديگر وہ سب بھوك اور بے كسى كے عالم ميں راہى ملك عدم ہوتے _يوں كسى ايك فرد كے اوپر ذمہ دارى بھى نہ آتى جو ايك ايسى خانہ جنگى كا باعث بن سكتى تھى جس كے برے نتائج كا كوئي شخص اندازہ نہيں لگا سكتا تھا_
مختصر يہ كہ انہوں نے ايك عہدنامہ لكھا، جس ميں سب نے مل كر يہ عہد كيا كہ وہ بنى ہاشم كے ساتھ شادى بياہ كا رشتہ قائم نہيں كريں گے، خريد وفروش نہيں كريں گے، اور كوئي عمل ان كے ساتھ مل كر انجام نہيں ديں گے مگر يہ كہ وہ رسول(ص) الله كو قتل كرنے كيلئے ان كے حوالے كرديں_
اس عہدنامے پر قريش كے چاليس رؤسا نے دستخط كئے اور اپنى مہريں بھى لگائيں_ اسے انہوں نے ايك عرصے تك كعبے ميں آويزاں ركھا (كہتے ہيں انہيں اس كى چورى كا خطرہ محسوس ہوا اسلئے اسے ابوجہل كى ماں كے گھر منتقل كيا)_ (2)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرت مغلطاى ص 23نيز سيرت ابن ہشام ج 1ص 375اور تاريخ الخميس ج 1ص 297از مواھب اللدنية كى طرف رجوع كريں_
2_ بحارالانوار كى جلد 19ص 16پر الخرائج و الجرائح سے اسى طرح نقل ہوا ہے يہاں اس بات كى تحقيق كى زيادہ ضرورت نہيں_

142
يہ واقعہ بنابر مشہور بعثت كے ساتويں سال پيش آيا اور ايك قول كى بنا پر چھٹے سال _اس معاہدے كے نتيجے ميں بنى ہاشم شعب ابوطالب (1) ميں داخل ہوئے اور ان كے ساتھ مطلب بن عبدمناف كا خاندان تھا سوائے ابولہب كے_ (2)
بعثت كے دسويں سال تك وہ اسى تنگ درے ميں محصور رہے اور قريش نے ان كے اردگرد پہرے دار بٹھا ديئے تاكہ كوئي ان تك كھانے پينے كا سامان نہ پہنچاسكے_
يہ مسلمان حضرت خديجہ اور حضرت ابوطالب كے اموال سے خرچ كرتے رہے، يہاں تك كہ ان اموال كا خاتمہ ہوا اور مسلمان درختوں كے پتے كھانے پر مجبور ہوئے _ان كے بچے بھوك سے بلبلاتے تھے_ مشركين درے كے اس طرف ان كى آوازيں سنتے اور اس بارے ميں تبادلہ خيال بھى كرتے تھے_ كچھ لوگ اس سے خوش ہوتے اور كچھ لوگ اسے باعث ننگ و عار قرار ديتے تھے_
كہاجاتا ہے كہ بعض مشركين مسلمانوں كے ساتھ احسان و مہربانى كا ثبوت بھى ديتے تھے، غالباً وہ حضرات جن كا ان مسلمانوں كے ساتھ كوئي نسبى رشتہ تھا_ مثال كے طور پر ابوالعاص بن ربيع اور حكيم بن حزام وغيرہ_ (اگرچہ يہ بات ہمارے نزديك قابل قبول نہيں جس كا بعد ميں ذكر ہوگا انشاء الله )_
مسلمان فقط عمرہ كے ايام (ماہ رجب)اور حج كے ايام (ماہ ذى الحجہ) ميں باہر نكلتے تھے_ اس دوران وہ نہايت مشكل سے خريد وفروخت كرتے تھے كيونكہ مشركين قبل از وقت مكہ آنے والوں سے مل ليتے اور چيزوں كى منہ مانگى قيمت دينے كى لالچ ديتے تھے بشرطيكہ وہ اسے مسلمانوں كے ہاتھ نہ بيچيں ابولہب اس معاملے ميں پيش پيش تھا_ وہ تاجروں كو اكساتا تھا كہ وہ چيزيں مہنگى بيچيں تاكہ مسلمان خريدارى نہ كرسكيں _نيز ابولہب ان كواضافى قيمت ادا كرنے كى ضمانت ديتا تھا_ بلكہ مشركين دھمكى ديتے تھے كہ مسلمانوں كے ساتھ سودا
--------------------------------------------------------------------------------
1_ جو شہر مكہ كے قريب ايك تنگ اور چھوٹا درہ ہے اس درے ميں چند گھر اور خستہ حال سائبان موجودہيں_ (مترجم)
2_ كہتے ہيں كہ ابوسفيان بن حارث بھى مسلمانوں كے ساتھ شعب ابوطالب ميں داخل نہيں ہوا ليكن يہ قول غيرمعروف ہے_ اكثر حضرات نے فقط ابولہب ملعون كو مستثنى قرار ديا ہے يہاں ہميں اس امر كى تحقيق سے غرض نہيں_

143
كرنے والوں كے اموال چھين لئے جائيں گے_وہ مسلمانوں كے ساتھ ليں دين كيلئے مكہ آنے والوں كو ڈراتے تھے_ خلاصہ يہ كہ قريش نے بازاروں كے دروازے ان پر بند كر ديئے اور كھانے پينے كى اشياء كا جہاں كوئي سودا ہوتا قريش پہلے پہنچ جاتے ان كا مقصد رسول(ص) الله كا خون بہانا تھا_ (1)
مصيبت كا يہ دور دو يا تين سالوں تك جارى رہا_ اس دوران حضرت علي(ع) مكہ سے چھپ چھپا كر سامان خوردونوش ان تك پہنچاتے تھے، اگرچہ يہ خطرہ تھا كہ اگر آپ ان كے ہاتھوں لگ جاتے تو وہ آپ پر رحم نہ كرتے جيساكہ اسكافى وغيرہ نے بيان كيا ہے_ (2)
حضرت ابوطالب(ع) كو رسول(ص) الله پر شب خون كا خطرہ محسوس ہوتا تھا اسلئے جب لوگ سونے لگتے اور حضور اكرم(ص) بھى اپنے بستر پر سوجاتے يہاں تك كہ شعب ابوطالب ميں موجود لوگ بھى اس كا مشاہدہ كرليتے تو سب كے سوجانے كے بعد حضرت ابوطالب(ع) آكر رسول(ص) خدا كو جگاتے اور آپ كى جگہ اپنے نور چشم حضرت علي(ع) كو سلاتے تھے_ (3)
اسى مناسبت سے انہوں نے اپنے بيٹے حضرت علي(ع) سے مخاطب ہوكر كچھ شعر كہے ہيں جو كتابوں ميں مذكور ہيں ان كى طرف رجوع كريں_

خديجہ(ع) كى دولت اور على (ع) كى تلوار
معروف ہے كہ اسلام على (ع) كى تلوار اور خديجہ(ع) كى دولت سے پھيلا_ ليكن سوال يہ ہے كہ اس سے كيامراد ہے؟ كيا يہ كہ حضرت خديجہ(ع) لوگوں كو مسلمان ہونے كيلئے رشوت ديتى تھيں؟ كيا تاريخ ميں اس كى كوئي مثال ملتى ہے؟
--------------------------------------------------------------------------------
1_ البداية و النہاية ج 3ص 84 _
2_ شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 13ص 256 _
3_ شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 13ص 256و ج 14ص 65نيز الغدير ج 7ص 357_358از كتاب الحجة ( ابن معد)، ابن كثير نے اسے البداية و النہاية ج 3ص 84ميں نام كا ذكر كئے بغير نقل كيا ہے نيز تيسير المطالب ص 49 _

144
آپ يہ بات كہہ سكتے ہيں كہ رسول(ص) الله اسلام كيلئے لوگوں سے روابط استوار كرتے اور ان كى حوصلہ افزائي كيلئے مالى مدد بھى فرماتے تھے _اس كى بہترين دليل جنگ حنين ميں مال غنيمت كى تقسيم ہے_ (جس كا بعد ميں تذكرہ ہوگا) اس كے علاوہ اسلامى قوانين كے اندر مؤلفة القلوب كے حصے سے كون بے خبرہے؟_
اس كا جواب يہ ہے كہ مذكورہ طرز عمل كا مطلب يہ نہيں كہ (نعوذ بالله ) يہ لوگ قبول اسلام كيلئے رشوت ليتے تھے_ بلكہ اسلام تو بس يہ چاہتا ہے كہ يہ لوگ اسلامى ما حول سے آشنا اور مربوط رہيں _نيز ہر قسم كے تعصب يا نفسياتي، سياسى اور معاشرتى ركاوٹوں سے بالاتر ہو كر اس كى طرف نگاہ كريں_
بنابريں ان كو ديا جانے والا مال مذكورہ موہوم ركاوٹوں كو اكثر موقعوں پر ہٹانے اور انہيں اسلامى ما حول سے آشنا اور مربوط ركھنے، نيز اسلام كے اہداف وخصوصيات سے آشنا كرنے ميں مدد ديتا تھا تاكہ نتيجتاً وہ اسلام كى حفاظت اور اس كے عظيم اہداف كے سامنے قلبى اور فكرى طور پر سر تسليم خم كريں_
چنانچہ ان ميں سے بعض لوگ يہ سمجھتے ہيں كہ اسلام نے ان كو مال ودولت اور ہر قسم كى ان مراعات سے محروم كرديا ہے ، جن كو وہ فطرى طور پر چاہتے تھے _بنابريں طبيعى بات ہے كہ وہ پوشيدہ طور پراپنے مفادات كے لئے مضر، اس گھٹن كى فضا سے نجات حاصل كرنے كى كوشش كريں گے _ليكن جب ان كى مالى اعانت كى جائے اور انہيں يہ سمجھايا جائے كہ اسلام مال ودولت كا دشمن نہيں، جيساكہ ارشاد ربانى ہے (قل من حرم زينة الله التى اخرج لعبادہ والطيبات من الرزق) يعنى اے رسول(ص) كہہ ديجئے، كس نے الله كى حلال كردہ زينتوں اور پاك روزيوں كو حرام قرار ديا ہے_ نتيجتاً وہ سمجھ جائيں گے كہ اسلام كا مقصد انسان كى انسانيت كو پروان چڑھانا، نيز مال، طاقت، حسن اور اقتدار وغيرہ كى بجائے انسانيت كو حقيقى معيار قرار ديناہے اور اسى پيمانے پر نظام زندگى كو استوار كرنا ہے تاكہ انسان دنيا و آخرت دونوں ميں منزل سعادت تك پہنچ سكے_
حضرت خديجہ كے اموال كے حوالے سے واضح ہے كہ يہ اموال لوگوں كو مسلمان بنانے كيلئے بطور رشوت نہيں ديئے جاتے تھے اور نہ ہى مؤلفة القلوب كيلئے تھے _حضرت خديجہ(ع) كے مال سے تو بس ان مسلمانوں

145
كيلئے قوت لايموت كا بندوبست ہوتا تھا جو اپنے دين اور عقيدے كى راہ ميں عظيم ترين مصائب ومشكلات جھيل رہے تھے_ اورجن كا مقابلہ كرنے كيلئے قريش ہر قسم كے غير اخلاقى وغير انسانى حربوں حتى كہ انہيں فقر وفاقے پر مجبور كرنے كے حربے سے كام لے رہے تھے _ يہ ہے وہ حقيقت جس كى بنا پر يہ مقولہ مشہور ہوگيا كہ اسلام حضرت خديجہ(ع) كے مال اور حضرت علي(ع) كى تلوار سے كامياب ہوا_
يہ واضح ہے كہ بنى ہاشم كے بائيكاٹ كے دوران حضرت خديجہ كى دولت صرف بھوكوںكو زندہ ركھنے والے اناج اور برہنہ كو لباس فراہم كرنے ميں خرچ ہوئي _ديگر امور ميں ان اموال سے چندان، استفادہ نہيں ہوا كيونكہ وہ غالباً خريد وفروش سے معذور تھے_
آخر ميں يہ بتا دينا ضرورى ہے كہ مكہ ميں اموال كى جس قدر بھى كثرت ہوتى ليكن پھر بھى اس كے وسائل محدود تھے كيونكہ مكہ كوئي غيرمعمولى يابہت بڑا شہر نہ تھا _ البتہ بستى يا گاؤں كے مقابلے ميں بڑا تھا، اسى لئے قرآن نے اسے ام القرى (بستيوں كى ماں يعنى مركزى بستي) كا نام ديا ہے _بنابريں اس قسم كے چھوٹے شہروں كے مالى وسائل بھى محدود ہى ہوتے ہيں_

مسلمانوں كے متعلق حكيم بن حزام كے جذبات
پہلے بيان ہوچكا ہے كہ ابن اسحاق وغيرہ كى روايت كے مطابق حكيم بن حزام بھى مسلمانوں كيلئے شعب ابوطالب ميں چھپ چھپاكر سامان خورد ونوش بھيجا كرتا تھا (1) ليكن ہم اس بات كو قابل اعتبار نہيں سمجھتے، كيونكہ حكيم بن حزام ان افراد ميں سے تھا جسے شب ہجرت قريش نے رسول(ص) اللہ كو قتل كرنے كے لئے اپنے ساتھ شامل كيا تھا (2) اور موقع كے انتظار ميں انہوں نے تمام رات رسول(ص) اللہ كے دروازے پر گذاردى ليكن خدانے ان كى چال اپنے پر پلٹا دى _ مزيد يہ كہ يہى حكيم بن حزام رسول(ص) الله كے عہد ميں مدينہ پہنچنے والي
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں: سيرت ابن ہشام ج 1ص 379 نيز سيرت كى ديگر كتب كى طرف_
2_ بحار الانوارج 19 ص 31 و مجمع البيان ج 4 ص 537 _

146
تمام اشيائے خورد ونوش كى ذخيرہ اندوزى كياكرتا تھا تاكہ بعد ميں مہنگے داموں فروخت كرے(1)اور اسى كا شمار مؤلفہ القلوب افراد ميں ہوتا ہے (2) _ ظاہر ہے اس قسم كى ذہنيت والا انسان اس قدر سخى نہيں ہوسكتا،خاص كران حالات ميں جبكہ مسلمانوں كى مدد كا عمل قريش كى دشمنى مول لينے اور اپنى جان خطرے ميں ڈال دينے كا باعث بھى ہو _ البتہ اس بات كا امكان ہے كہ مذكور عمل انجام دينے ميں بھى اس كا مقصد منافع لينا اور دولت جمع كرناہو يعنى ممكن ہے كہ اس نے مال كى محبت ميں كھانے كى اشياء كے عوض مسلمانوں سے منہ مانگى قيمت وصول كرنے كيلئے ايسا كيا ہو_ بالفاظ ديگر وہ مال كى محبت ميں جان سے بے پروا ہو كر ہر مشكل ميں آسانى سے كودنے كيلئے آمادہ ہوگيا ہو_ مزيد يہكہ رسول(ص) الله نے اس كے اور بعض دوسرے لوگوں كے تحائف كو متعدد موقعوں پر قبول كرنے سے انكار فرمايا تھا كيونكہ وہ مشرك تھے (اس كابعد ميں ذكر ہوگا)_ پس يہ كيونكر معقول ہے كہ پہلے اس كو قبول كرليں اور بعد ميں قبول نہ كريں؟مگر يہ دعوى كيا جائے كہ وہ رسول (ص) اللہ كو نہيں بلكہ شعب ابى طالب ميں محصور بنى ہاشم كے بچوں اور ان كى عورتوں كو ہديہديتا تھا اور وہ تو قبول كر ليتے تھے ليكن رسول (ص) اللہ قبول نہيں فرماتے تھے_
ان سارى باتوں سے يہ بھى واضح ہوجاتا ہے كہ ابوالعاص بن ربيع كے بارے ميں مذكوريہ قول بھى قابل قبول اور قابل اطمينان نہيں ہے ،كہ وہ بھى حكيم بن حزام كى طرح ان دنوں مسلمانوں كى مدد كرتا تھا_
ہم بعيد نہيں جانتے كہ حكيم بن حزام كے حق ميں مذكورہ فضيلت گھڑنے ميں زبيريوں كاہاتھ ہو خصوصاً اس بات كے پيش نظر كہ زبير نے اميرالمؤمنين علي(ع) كى بيعت ميں ليت ولعل سے كام ليا تھا_ نيز وہ ايك متعصب عثمانى تھا_ (3) خانہ كعبہ ميں ولادت اميرالمؤمنين اور كيفيت وحى كے بارے ميں جھوٹى باتيں گھڑنے كے ذكر ميں بھى ہم نے اس بات كى طرف اشارہ كيا تھا_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ دعائم الاسلام ج 2 ص 35 ، توحيد صدوق ص 389 ، وسائل ج 12 ص 316 ، كافى ج 5 ص 165، التھذيب طوسى ج 7 ص 160 ، من لا يحضرہ الفقيہ ج 3 ص 266 مطبوعہ جامعة المدرسين و الاستبصار ج 3 ص 15
2_ نسب قريش ص 231 _
3_ قاموس الرجال ج3ص 387 _

147
شق القمر
شق القمر كا واقعہ بعثت كے آٹھويں سال پيش آيا جبكہ مسلمان شعب ابوطالب ميں محصور تھے_(1)
بہت سارى روايات ميں مذكور ہے كہ قريش نے رسول(ص) الله سے معجزہ طلب كيا چنانچہ آپ(ص) نے خدا سے دعا كى تو چاند كے دو حصے ہوگئے، اور انہوں نے اس كا نظارہ كيا ،پھر دونوں حصے آپس ميں مل گئے_
يہ ديكھ كر قريش نے كہا كہ يہ ايك جادو ہے پس آيت اترى (اقتربت الساعة وانشق القمر وان يروا آية يعرضوا ويقولوا سحر مستمر) يعنى قيامت كى گھڑى قريب آگئي اور چاند دو ٹكڑے ہوگيا_ يہ لوگ اگر الله كى كوئي نشانى ديكھيں تو منہ موڑ ليتے ہيں اور كہتے ہيں كہ يہ تو ايك سلسلہ وار جادو ہے_
ايك روايت ميں ہے كہ كفار نے كہا :''ٹھہرو ديكھتے ہيں كہ مسافرين كيا خبر لاتے ہيں كيونكہ محمد(ص) سارے لوگوں پر جادو نہيں كرسكتا ''_جب مسافرين آگئے تو كفارنے ان سے استفسار كيا جس پر انہوں نے جواب ديا: ''ہاں ہم نے بھى يہ منظر ديكھا ہے ''پس يہ آيت اترى (اقتربت الساعة وانشق القمر) (2)
سيد شريف سے شرح المواقف ميں اورابن سبكى سے شرح المختصر ميں نقل ہوا ہے كہ يہ حديث متواتر ہے اور اہلسنت كے ہاں اس كے متواتر ہونے ميں شك كى كوئي گنجائشے نہيں ہے_ (3)
رہا غيرسنيوں كے نزديك تو علامہ محقق السيد طباطبائي كہتے ہيں شق القمر كے واقعے كا شيعہ روايات ميں آئمہ اہلبيت(ع) سے بكثرت ذكر ہوا ہے_ شيعہ علماء اور محدثين كے نزديك يہ واقعہ مسلمہ ہے_ (4) ليكن بہرحال اس مسئلے كو ضروريّات دين ميں شامل كرنا ممكن نہيں، جيساكہ بعض علماء نے اس جانب اشارہ كيا ہے_ (5)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تفسير الميزان ج 19ص 62و 64 _
2_ الدر المنثور ج 6ص 133از ابن جرير، ابن منذر، ابن مردويہ، دلائل ابونعيم اور دلائل بيہقى نيز مناقب آل ابوطالب ج 1ص 122 _
3_ تفسير الميزان ج 19ص 60_
4_ تفسير الميزان ج 19 ص 61 نيز رجوع ہو بحارالانوار ج 17 ص 348_359 باب المعجزات السماوية_
5_ رجوع كريں: فارسى كتاب ''ھمہ بايد بدانند'' ص 75كى طرف_

148
ايك اعتراض اور اس كا جواب
علامہ طباطبائي كہتے ہيں يہاں ايك اعتراض ہوا ہے ،وہ يہ كہ لوگوں كے مطالبے پر رسول(ص) الله كى طرف سے معجزے كا اظہار اس آيت كے منافى ہے (وما منعنا ان نرسل بالايات الا ان كذب بہا الا ولون وآتينا ثمود الناقة مبصرة فظلموا بہا وما نرسل بالايات الا تخويفا)(1) يعنى ہمارے لئے اپنى نشانياں دكھانے سے فقط يہ بات مانع ہے كہ پہلے والوں نے اس كى تكذيب كي_ ہم نے قوم ثمود كو اونٹنى عطا كى جو ہمارى قدرت كوروشن كرنے والى تھى ليكن ان لوگوں نے اس پر ظلم كيا اور ہم تو نشانيوں كو فقط ڈرانے كيلئے بھيجتے ہيں_
اس آيت كا مفہوم يا تو يہ ہے كہ ہم اس امت كى طرف معجزے بھيجتے ہى نہيں كيونكہ گذشتہ امتوں نے ان كى تكذيب كى اور چونكہ اس امت كے لوگوں كى طبيعت بھى ان كى طرح ہے لہذا وہ بھى ان معجزوں كى تكذيب كريں گے_ اس صورت ميں چونكہ معجزہ ان كيلئے بے فائدہ ہے اسلئے ہم معجزے نہيں دكھاتے _يا مفہوم يہ ہوگاكہ ہم معجزے اسلئے نہيں بھيجتے كيونكہ جب ہم نے گذشتہ لوگوں كو معجزے دكھائے تو انہوں نے جھٹلايا نتيجتاً عذاب الہى كا شكار ہوكر ہلاك ہوگئے، پس اگر ہم ان لوگوں كو بھى معجزہ دكھائيں تو يہ بھى اس كو جھٹلاكر عذاب كا شكار ہوں گے، ليكن ہم ان كو عذاب دينے ميں جلدى كرنا نہيں چاہتے_ بہرحال مفہوم جو بھى ہو نتيجہ يہ ہے كہ سابقہ امتوں كيلئے جس طرح معجزے بھيجے جاتے تھے اس امت كيلئے نہيں بھيجے جائيں گے_
البتہ يہ فيصلہ ان معجزوں كے بارے ميں ہے جو لوگوں كے مطالبے پر دكھائے جائيں نہ ان معجزوں كے بارے ميں جن سے رسالت كى تائيد ہوتى ہو مثال كے طور پر خود قرآن بھى ايك معجزہ ہے اور اس سے رسالت پيغمبر(ص) كى تائيد ہوتى ہے_ نيز عصائے موسي(ع) يا يد موسي(ع) يا حضرت عيسى (ع) كے ہاتھوں مردوں كا زندہ ہونا وغيرہ _علاوہ بر ايں وہ معجزے جو خدا كى طرف سے بطور لطف نازل ہوئے وہ بھى اس سے مستثنى ہيںجس طرح رسول(ص) الله سے ظاہر ہونے والے وہ معجزات جو لوگوں كى در خواست پر نہيںدكھائے گئے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ اسرائ، آيت 59_

149
اس كے بعد علامہ طباطبائي نے خود اس اعتراض كا جواب ديا ہے جس كا خلاصہ كچھ يوں ہے كہ معجزہ شق القمر كى تكذيب كا تقاضا يہ تھا كہ ان پر عذاب نازل ہوتا كيونكہ يہ معجزہ ان كى درخواست پر ظاہر ہوا ،ليكن خدا تمام اہل زمين كو( جن كى طرف رسول(ص) كو بھيجا گياتھا ) كيسے ہلاك كرسكتا تھا ؟جبكہ ان سب پر ابھى اتمام حجت نہيں ہوا تھا جسے وہ جھٹلاكر مستحق عذاب ہوتے بلكہ مكہ ميں رہنے والے بعض افراد پر يہ حجت تمام ہوئي تھى كيونكہ يہ معجزہ ہجرت سے پانچ سال قبل دكھايا گيا تھا_
نيز مكہ اور اس كے آس پاس رہنے والے تمام لوگوں كو ہلاك كرنا بھى مقصود خداوندى نہ تھا كيونكہ ان ميں مسلمانوں كى بڑى تعداد موجود تھى چنانچہ ارشاد الہى ہے (ولولا رجال مؤمنون ونساء مؤمنات لم تعلموہم ان تطئوہم فتصيبكم منہم معرة بغير علم ليدخل الله فى رحمتہ من يشاء لو تزيلوا لعذبنا الذين كفروا منہم عذاباً اليماً) (1)
يعنى اگر با ايمان مرداور عورتيں نہ ہوتيں جن كو تم نہيں جانتے تھے اور نادانستگى ميں تمہارے ہاتھوں ان كى پامالى كا بھى خطرہ تھا ،اس طرح تمہيں لا علمى كى بنا پر نقصان پہنچتا (تو تمہيں روكا بھى نہ جاتا روكا اسلئے) تاكہ خدا جسے چاہے اپنى رحمت ميں داخل كرتا ہے اگر يہ لوگ الگ الگ ہوجاتے تو ہم كفار كو دردناك عذاب ميں مبتلا كرديتے_حالانكہ اس وقت مشركين مسلمانوں سے جدا نہيں ہوئے تھے_
نيز رسول(ص) الله كى موجودگى ميں بھى ان كفار پر عذاب نازل نہيں ہوسكتا تھا جيساكہ ارشاد بارى ہے (وما كان الله ليعذبہم وانت فيہم) (2) يعنى جب آپ ان كے درميان موجود ہوں تو خدا ان پر عذاب نازل نہ كرے گا_
اور يہ بھى نہيں ہوسكتا تھا كہ خدا مسلمانوں كو چھوڑ كر فقط كافروں پر عذاب نازل كرتا جبكہ كفار كى ايك كثير تعداد بعثت كے آٹھويں سال سے لے كر ہجرت كے آٹھويں سال تك مسلمان ہوچكى تھى اوربعد ازاں فتح مكہ كے وقت تو عام لوگ بھى مسلمان ہوگئے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ فتح، آيت 25_
2_ سورہ انفال، آيت 33_

150
اس مسئلے ميں اسلام كے نزديك لوگوں كا بظاہر اسلام قبول كرليناہى كافى ہے _اس كے علاوہ تمام اہل مكہ يا آس پاس كے لوگ اسلام سے عناد ركھنے والے يا جان بوجھ كر حق كا انكار كرنے والے نہ تھے_ يہ صفت تو فقط قريش كے سرداروںكى تھي، جو رسول(ص) الله كا مذاق اڑاتے اور مؤمنين پر تشدد كرتے تھے_
جن آيات ميں رسول (ص) اللہ كو مسجدالحرام جانے سے روكنے اور انہيں وہاں سے نكال باہر كرنے كے جرم ميں كافروں كو رسول (ص) خدا كے مقابلے ميں زيادہ دير نہ ٹھہر سكنے (1) اور عذاب الہى كامز اچكھنے كى دھمكى دى گئي تھى تو ان آيات نے جنگ بدر ميں حقيقت كا روپ دھارليا اور بہت سے كفار واصل جہنم ہوئے_
پس قرآن كى مذكورہ آيت (وما منعنا ان نرسل بالآيات ...) سے يہى بات سمجھ ميں آتى ہے كہ جب تك رسول(ص) الله ان كے درميان موجود ہوں خدا معجزے نہيں دكھاتا _رہا معجزہ دكھا كر عذاب كو مؤخر كرنا يہاں تك كہ پيغمبر(ص) ان كے درميان سے اٹھ جائيں تو خدا كے مذكورہ كلام ميں اس كا كوئي ذكر نہيں_ ادھر الله تعالى كا ارشاد ہے(وقالوا لن نؤمن لك حتى تفجر لنا من الارض ينبوعاً ... قل سبحان ربى ہل كنت الا بشراً رسولاً) (2) يعنى ''كفار بولے ہم آپ(ص) پر اس وقت ايمان لائيں گے جب آپ(ص) زمين سے ہمارے لئے چشمے جارى كرديں ... كہہ ديجئے ميں تو بس ايك بشرہوں جو رسول(ص) بنا كر بھيجا گيا ہے''اور يہ ارشاد اس بات پر دلالت نہيں كرتا كہ خدا معجزات كے ذريعے اپنے نبي(ص) كى حمايت ونصرت نہيں فرمائے گا يامعجزے كا اظہار بالكل نہ ہوگا ،وگرنہ تمام انبياء بھى انسان ہى تھے_پس آيت كا مفہوم يہ ہے كہ پيغمبر(ص) ايك بشر ہونے كے ناطے بذات خود اس امر پر قادر نہيں بلكہ سارى قدرت خدا كى ہے اور درحقيقت اسى كے حكم سے معجزات رونما ہوتے ہيں_ (3)
كچھ لوگوں كا كہنا ہے كہ (وما نرسل بالايات الا تخويفا) والى آيت كا مقصد شايد يہ ہو كہ ہمارے نبي(ص) كى دعوت كى بنياد ناقہ ثمود يا معجزات موسي(ع) كى طرح كے معجزوں پر استوار نہيں بلكہ آپ(ص) كى دعوت كى بنياد
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ بنى اسرائيل 76اور سورہ انفال 35_
2_ سورہ بنى اسرائيل 93 _
3_ تفسير الميزان ج 19ص 60_64_

151
حضرت ابراہيم(ع) كى دعوت كى طرح بنيادى طور پر عقلى دلائل قائم كر كے اذہان كو مطمئن كرنے پر مبنى ہے_ ليكن واضح رہے كہ يہ بات اس امر كے منافى نہيں كہ بعض مقامات پر (جہاں عقلى براہين و دلائل كارگرنہ ہوں) معجزات كا اظہار كياجائے_

شق القمر، مؤرخين اور عام لوگ
معجزہ شق القمر پر يہ اعتراض ہوا ہے كہ اگر حقيقتاً چاندكے دوٹكڑے ہوئے ہوتے تو تمام لوگ اسے ديكھ ليتے اور مغرب كى رصدگاہوں ميں اس كا ريكارڈ ہوتا كيونكہ چاند كا دونيم ہونا عجيب ترين آسمانى معجزہ ہوتا_ بہرحال اس قسم كے معجزے كو سننے اور نقل نہ كرنے كى كوئي وجہ نہ تھي_
اس اعتراض كے درج ذيل جوابات ديئے گئے ہيں_
الف: ممكن ہے كہ لوگ اس واقعے سے غافل رہے ہوں كيونكہ اس بات كى كوئي دليل نہيں كہ ہر آسمانى يا زمينى حادثے كا لوگوں كو ضرور علم ہونا چاہيئے يا ان كے ريكارڈ ميں اس قسم كے واقعات كو موجود ہونا چاہئے اور نسل در نسل لوگوں كے پاس ان كا علم ہونا چاہيئے_ (1)
محقق توانا علامہ شيخ ناصر مكام شيرازى نے اس مسئلے كى مزيدوضاحت كى ہے ان كے بيان كى رو سے درج ذيل نكات قابل ملاحظہ ہيں_
1) چاند كا دونيم ہونا زمين كے اس نصف حصے كيلئے قابل ديد تھا جہاں رات تھى نہ كہ دوسرے نصف حصے كيلئے جہاں دن تھا_
2) اس نصف حصے ميں بھى جہاں رات ہوتى ہے اكثر لوگ اجرام فلكى ميں رونما ہونے والے حادثات و واقعات كى طرف متوجہ نہيں ہوتے خصوصاً آدھى رات كے بعد تو سب سو جاتے ہيں اور تقريباً كوئي بھى متوجہ نہيں ہوتا_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تفسير الميزان، ج 19 ص 64_

152
3)ممكن ہے اس وقت بعض مقامات پر بادل چھائے ہوئے ہوں جس كى وجہ سے چاند كا ديكھنا ممكن نہ رہاہو_
4) آسمانى حادثات و واقعات لوگوں كى توجہ اس وقت جذب كرتے ہيں جب ان كے ساتھ كوئي آواز (مثلا گھن گرج وغيرہ) بھى سنائي دے يا غير معمولى علامات( مثلا سورج گرہن كى صورت ميں نسبتاً كافى دير تك سورج كى روشنى كا مدہم پڑ جانا )بھى ہمراہ ہوں_
5) علاوہ براين پہلے زمانوں كے لوگ آسمانى حادثات پر اتنى توجہ نہيں ديتے تھے_
6) اس زمانے ميں ذرايع ابلاغ نے اس قدر ترقى نہيں كى تھى كہ دنيا كے ايك حصے كى خبر فوراً دوسرے حصے ميں پہنچ جاتى اور لوگوں كى توجہ اس طرف مبذول ہوجاتي_
7) ہمارے ہاں موجود تاريخ بہت ہى ناقص ہے كيونكہ گذشتہ سينكڑوں بلكہ ہزاروں سالوں ميں كتنے ہى عظيم حادثات گذرے ہوں گے، زلزلے اور سيلاب آئے ہوں گے جن سے بہت سى اقوام كى تباہى ہوئي ہوگى ليكن آج تاريخ ميں ان كا كوئي تذكرہ نہيں ملتا_ بطور مثال زرتشت جس كا ظہور ايك عظيم حكومت كے دامن ميں ہوا اور جس نے تاريخ عالم ميں مختلف اقوام وملل پر زبردست اثر چھوڑا ، ان كے بارے ميں يہ معلوم نہيں كہ وہ كہاں پيدا ہوا كہاں مرا اور كہاں دفن ہوا بلكہ بعض لوگوں كوتو اس بات ميں بھى شك ہے كہ اس كا وجود حقيقى تھا يا افسانوي_ بنابرايں ظاہر ہے كہ اگر سارے لوگوں نے شق القمر كا مشاہدہ نہ كيا ہو يا تاريخ ميں يہ واقعہ واضح طور پر ثبت نہ ہو سكاہو تو اس ميں تعجب كى كوئي بات نہيں_ (1)
ب:عرب يا غيرعرب علاقوں ميں فلكياتى حالات كا جائزہ لينے كيلئے رصدگاہيں موجود نہ تھيں_ مشرق ومغرب ميں اگر رصدگاہيں موجود تھيں تو شايد روم اور يونان وغيرہ ميں تھيں اگرچہ ہمارے نزديك اس دور ميں رصدگاہ كى موجودگى بھى ثابت نہيں _اس كے علاوہ مغرب كى سرزمين جہاں ان امور پر توجہ دى جاتى تھي،اور مكہ كے درميان اختلاف افق كى بنا پر وقت كا بہت زيادہ فرق تھا بعض روايات كى بنا پر معجزے كے وقت چاند مكمل تھا اور طلوع كے وقت تھوڑى دير كيلئے شق ہونے كے بعد پھر جڑگيا _ظاہر ہے اس كے بعد جب
--------------------------------------------------------------------------------
1_ فارسى كتاب ''ھمہ بايد بدانند'' ص 94_

153
مغرب ميں چاند طلوع ہوا ہوگا تو اس وقت اس كے دونوں حصے ملے ہوئے تھے_ (1)

چاند كاشق ہوكر جڑنا، سائنسى نقطہ نظر سے
يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ كيا سائنسى نقطہ نظر سے اجرام فلكى كاشق ہونا ممكن ہے؟ يہ اس وقت ممكن ہے جب دونوں حصوں كے درميان جاذبيت برقرار نہ رہے اور جب كشش ہى نہ رہے تو دوبارہ جڑنے كا سوال ہى پيدا نہيں ہوتا_جس كا جواب يہ ديا گيا ہے كہ قدرت خداوندى سے يہ خارق العادہ كام محال نہيں ہيں اور علامہ ناصر مكارم شيرازى نے اس كا جواب يوں ديا ہے كہ ماہرين فلكيات كے بقول اجرام فلكى ميں خاص وجوہات كى بنا پر توڑپھوڑ كا عمل بہت زيادہ واقع ہوا ہے مثال كے طور پر كہتے ہيں كہ:
1) سورج كے گرد تقريباً پانچ ہزار چھوٹے بڑے اجسام گردش كررہے ہيں_
سائنسدانوں كا خيال ہے كہ يہ اجسام كسى ايسے سيارے كے باقى ماندہ ٹكڑے ہيں جو مريخ اور مشترى كے مداروں كے درميان موجود تھا _پھر نامعلوم وجوہات كى بناء پر دھماكے سے پھٹ كر تباہ ہوگيا اور مختلف حجم كے ٹكڑوں كى شكل ميں سورج كے گرد مختلف مداروں ميں بكھر گيا_
2) ماہرين كہتے ہيں كہ شہاب ثاقب حيرت انگيز رفتار سے سورج كے گرد گھومنے والے پتھر كے نسبتاًچھوٹے ٹكڑے ہيں _ كبھى كبھى وہ زمين كے نزديك سے گزرتے ہيں تو زمين ان كو اپنى طرف كھينچ ليتى ہے_ يوں جب وہ زمين كى فضاؤں سے رگڑكھاتے ہيں تو شعلوں ميں تبديل ہوكر نيست و نابود ہوجاتے ہيں _ ماہرين كے بقول يہ بھى كسى ايسے ستارے كے ٹكڑے ہيں جو دھماكے كے بعد ان ٹكڑوں كى شكل ميں تقسم ہوگيا_
3)لاپلس (LAPLACE) كے نظريئے كے مطابق نظام شمسى بھى ايك ہى جسم تھا_ پھر كسى نامعلوم سبب كى بناء پر وہ پھٹ گيا اور موجودہ شكل اختيار كرلي_ بنابريں كسى زبردست علت كے نتيجے ميں چاند كے بھى دو ٹكڑے ہوسكتے ہيں اور وہ علت ہے خدا كى قدرت و طاقت_ كيونكہ جب نبى كريم(ص) نے خدا سے دعا
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تفسير الميزان ج 19ص 64،65_

154
كى تو اس نے قبول كرلي_
يہ دعوى تو كوئي بھى نہيں كرتا كہ چاند بغير كسى سبب كے شق ہوا _رہا اس كا دوبارہ جڑجانا تو اس سلسلے ميں ماہرين كہتے ہيں كہ ہر بڑے سيارے ميں كشش ہوتى ہے اسى لئے ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ سورج اپنے گرد گھومنے والے بہت سے ٹكڑوں كواپنى طرف جذب كر ليتا ہے ،جس پر يہ اجسام ٹكراؤ اور ر گڑ كے نتيجے ميں شعلے كى شكل اختيار كر كے تباہ ہوجاتے ہيں_
پس جب چاند كے دونوں حصے ايك دوسرے كے قريب ہوں اور وہ قوت جوان دونوں كى باہمى كشش كى راہ ميں حائل تھى اٹھ جائے تو يہ دونوں ٹكرے ايك دوسرے كو كيوں نہ اپنى طرف كھينچيں تاكہ پھر پہلے والى حالت پر واپس آجائيں؟ عقلى طور پر اس ميں كونسى ركاوٹ ہے؟ (1)
علامہ طباطبائي نے اس سوال (كہ بغير جاذبيت كے كيسے جڑ سكتے ہيں) كا مختصر الفاظ ميں يوں جواب ديا ہے كہ عقل كے نزديك يہ امر محال نہيں (بلكہ ممكن ہے)_ رہا يہ سوال كہ عام طور پر ايسا نہيں ہوا كرتا تو اس كا جواب يہ ہے كہ اگر يہ امر جدائي كے بعد دوبارہ جڑجانے سے مانع ہے تو پھر شروع ميں ہى اس كے دوٹكروں ميں بٹ جانے سے بھى مانع ہونا چاہئے_ ليكن جب شق ہونا ممكن ہوا تو دوبارہ ان كامل جانا بھى ممكن ہے_ نيز ہمارى بحث ہى غير معمولى امر يعنى (معجزے) كے رونما ہونے ميں ہے _(2)

شق القمر پر قرآنى آيت كى دلالت
بعض لوگ يہ احتمال ديتے ہيں كہ قرآنى آيت (اقتربت الساعة وانشق القمر) مستقبل كے بارے ميں گفتگو كر رہى ہے اور يہ بتا رہى ہے كہ چاند كا شق ہونا قيامت كى نشانيوں ميں سے ايك ہے ،جس طرح تكوير شمس (سورج كى شعاعوں كا زائل ہوجانا) اور انكدار نجوم (ستاروں كا ٹوٹ كر بكھرنا) بھى قيامت كى نشانيوں ميں سے ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ہمہ بايد بدانند ص 84 تا 90_
2_ تفسير الميزان ج 19ص 65 _

155
علامہ محقق شيخ ناصر مكارم شيرازى نے اس كا جواب ديا ہے جس كا حاصل مطلب يہ ہے:
الف:قول الہي: (وان يروا آية يعرضوا ويقولوا سحر مستمر) سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ پيغمبر(ص) اسلام كے كچھ مخالفين خدا كى نشانيوں اور معجزات پر ايمان نہيں لائے _جب بھى كوئي معجزہ رونما ہوتا ہے تو ان كے عناد اور ہٹ دھرمى ميں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اسے جادو قرار ديتے ہيں_ يہاں سے معلوم ہوتا ہے كہ شق القمر كے مسئلے ميں بھى آپ(ص) كے ساتھ كافروں نے يہى روش اپنائي تھي_(جس كا مطلب يہ ہے كہ يہ واقعہ پہلے رونما ہوچكا ہے _مترجم)
ب:لفظ (انشق) فعل ماضى ہے ماضى كے الفاظ مستقبل پر دلالت نہيں كرتے مگر كو ئي قرينہ موجود ہو اور يہاں كوئي ايسا قرينہ موجود نہيں بلكہ قرينہ اس كے برعكس ہے _چنانچہ رازى كہتا ہے تمام مفسرين كا اجماع ہے كہ اس لفظ سے يہى مراد ہے كہ چاند كا شق ہونا واقع ہوچكا ہے_ نيز معتبر روايات بھى اس بات پر دلالت كرتى ہيں _(1)
اگرچہ طبرسى اور ابن شہر آشوب نے عطاء حسن اور بلخى كو مستثنى قرار ديا ہے_ (2)اور طبرسى كہتے ہيں كہ ان كا يہ قول درست نہيں كيونكہ تمام مسلمانوں كا اس پر اتفاق ہے _لہذا اس مسئلے ميں بعض لوگوں كى مخالفت سے كوئي فرق نہيں پڑتا_ (3)
اگر كوئي يہ اعتراض كرے كہ قرآن ميں جملہ (اقتربت الساعة) كے فوراً بعد (انشق القمر) كا جملہ مذكور ہے اور يہ اس بات كى دليل ہے كہ ان دونوں كا زمانہ مشترك ہے (يعنى روز قيامت)_ تو اس كاجواب يہ ہے كہ قرآن كى بہت سارى آيات ميں صريحاً كہا گيا ہے كہ قيامت قريب آگئي ہے پس غفلت كيسي؟ فرمايا ہے (اقترب للناس حسابہم وہم فى غفلة معرضون) (4) يعنى لوگوں كيلئے حساب كى گھڑى آگئي ہے ليكن وہ غفلت كا شكار ہوكر كنارہ كشى اختيار كررہے ہيں_ يہاں پيغمبر اكرم(ص) سے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تفسير رازى ج 29ص 28_
2_ مجمع البيان ج 9ص 186و مناقب آل ابيطالب ج 1ص 122 _
3_ مجمع البيان ج 9ص 186 _
4_ سورہ الانبيائ، آيت_ 1

156
منقول ہے كہ آپ(ص) نے اپنى دوانگليوں كى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا:'' ميرى بعثت اور قيامت كى مثال يوں ہے''_ (1) ظاہر ہے كہ يہ بات مجموعى دنياوى زندگى كو مدنظر ركھ كر كہى گئي ہے جو بہت طولانى ہے_ جسے مد نظر ركھتے ہوئے يہ كہاجا سكتا ہے كہ بعثت پيغمبر(ص) اور قيامت كا درميانى عرصہ كچھ بھى نہيں _بنابريں آيت كا مفہوم يہ ہوگا كہ قيامت نزديك آگئي ہے اور نبي(ص) كے ذريعے يہ معجزہ ظاہر ہوا ليكن يہ خودسرمشركين ايمان نہيں لاتے اور اس كى تصديق كرنے كى بجائے كہتے ہيں كہ يہ جادو ہے_ (2)
ليكن ايك محقق كا كہنا ہے (ان يروا آية) والى آيت جملہ شرطيہ ہے، اس ميں مذكورہ امر كے واقع ہوجانے كا تذكرہ نہيں _نيز جملہ (انشق القمر) كى مثال اس آيت كى طرح ہے (آتى امر الله فلا تستعجلوہ) حكم الہى آياہى چاہتا ہے لہذا جلد بازى نہ كرو _ يہاں ماضى كا جملہ ہے حالانكہ ابھى امر الہى واقع نہيں ہوا اسى لئے اس كے فوراً بعد فرمايا ہے كہ جلد بازى نہ كرو _يہى حال ہے قول الہى (وانشق القمر) كا كيونكہ اس كے بعد كہا گيا ہے (وان يروا ...)_ يہاں يہ كہنا مقصودہے كہ اگر ايسا امر واقع ہوا تو ان كى كيا حالت ہوگي_ رہا اجماع جس كا طبرسى نے وعوى كيا ہے تو وہ حجت نہيں كيونكہ ممكن ہے كہ يہ اجماع اس آيت سے غلط استنباط كى بناء پر وجود ميں آيا ہو_
يہاں ہم يہ عرض كريں گے كہ اگر شق القمر كے واقع ہونے پر معتبر احاديث گواہى نہ دے چكى ہوتيں تو پھر مذكورہ احتمال كى كسى حدتك گنجائشے تھي_

افسانے
لوگوں نے شق القمر كے واقعے سے بہت سارے افسانے اور بے بنياد قصے گھڑ لئے، يہاں تك كہ لوگوں كے درميان مشہور ہوگيا كہ چاند كا ايك ٹكڑا رسول(ص) خدا كى آستين سے ہوكر گزرگيا_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ مفتاح كنوز السنة ص 227كہ بخاري، مسلم، ابن ماجہ، طياسي، احمد، ترمذى اور دارمى سے نقل كيا ہے_
2_ آيت كى دلالت سے متعلق ہمارى مذكورہ معروضات كے سلسلے ميں آپ رجوع كريں فارسى كتاب ''ہمہ بايد بدانند'' ص 76_80_

157
علامہ ناصر مكارم شيرازى كہتے ہيں كہ احاديث وتفسير كى كتابوں ميں خواہ شيعوں كى ہوں يا سنيوں كي، اس قول كا نام ونشان بھى نہيں ملتا_
بعض روايات ميں اس مسئلے كى جزئيات اور تفصيلات كا ذكر ہوا ہے ليكن ہم ان پر تحقيق كرنے ميں كوئي بڑا فائدہ يا نتيجہ نہيں پاتے _بنابريں ہم زيادہ اہم اور مفيد مسئلے كا رخ كرتے ہيں_

عہد نامے كى منسوخي
تقريبا تين سال بعد رسول(ص) خدا نے اپنے چچا حضرت ابوطالب كو بتايا كہ ديمك نے مشركين كے عہدنامے ميں ظلم اور قطع رحمى سے متعلق الفاظ كو كھاليا ہے اور سوائے اسماء الہى كے كوئي چيز باقى نہيں رہي_ ايك اور روايت كے مطابق ديمك نے الله كے تمام ناموں كو كھاليا ليكن ظلم وشر اور قطع رحمى سے متعلق حصّے كو چھوڑ ديا_ (1)
چنانچہ حضرت ابوطالب بنى ہاشم كے ہمراہ اس درے سے خارج ہوئے اور شہر مكہ لوٹ آئے_
يہ ديكھ كر مشركين نے كہا كہ بھوك نے ان كو نكلنے پر مجبور كرديا ہے_ قريش نے كہا:'' اے ابوطالب اب وقت آگيا ہے كہ اپنى قوم كے ساتھ مصالحت كرلو'' _حضرت ابوطالب نے فرمايا:'' ميں تمہارے پاس ايك اچھى تجويز ليكر آياہوں ،اپنا عہدنامہ منگواؤ شايد اس ميں ہمارے اور تمہارے درميان صلح كى كوئي راہ موجود ہو''_ قريش اسے لے آئے اور ديكھا كہ اس پر ان كى مہريں اب بھى موجود ہيں حضرت ابوطالب نے كہا:'' كيا اس معاہدہ پر تمہيں كوئي اعتراض ہے؟'' بولے نہيں_
ابوطالب(ع) نے كہا:'' ميرے بھتيجے نے (جس نے مجھ سے كبھى جھوٹ نہيں بولا) مجھے خبر دى ہے كہ خدا كے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ كبھى كہا جاتا ہے كہ معاہدے كى منسوخى تك قريش كا اپنى عداوت پر باقى رہنا اس بات كى دليل ہے كہ ديمك نے صرف الله كے نام كو مٹايا تھا اور قطع رحمى كى مانند ديگر مواد كو باقى ركھا تھا ليكن اس كا يہ جواب ديا گيا ہے كہ ديمك كا خدا كے نام كو كھا جانا بہت بعيد بات ہے شايد مشركين عہدنامے كے محو ہوچكنے كے باوجود بھى اس كے مضمون پر عمل كرتے رہے ہوں اور يہ بھى ممكن ہے كہ انہوں نے اسے دوبارہ لكھا ہو_ اس پر يہ اشكال كيا گيا ہے كہ ديمك نے خدا كا نام اس كى حرمت باقى ركھنے كيلئے چاٹا ہو تاكہ اس ظالمانہ عہدنامے ميں اس كا پاك نام باقى نہ رہے_ اور يہ اظہار حق كيلئے مطلوب ايك مثبت معجزہ تھا_ اس سے كسى قسم كى اہانت كا پہلو نہيں نكلتا_

158
حكم سے ديمك نے اس عہدنامے سے گناہ اور قطع رحمى سے مربوط الفاظ كو كھا ليا ہے اور فقط الله كے ناموں كو باقى چھوڑا ہے_ اگر اس كى بات صحيح نكلے تو تمہيں ہمارے اوپر ظلم كرنے سے دست بردار ہونا چاہيئے اور اگر جھوٹ نكلے تو ہم اسے تمہارے حوالے كرديں گے تاكہ تم اسے قتل كرسكو''_
يہ سن كر لوگ پكار اٹھے:'' اے ابوطالب بتحقيق آپ نے ہمارے ساتھ انصاف والى بات كي''_ اس كے بعد وہ عہدنامہ كولائے تو اسے ويساہى پايا جيسارسول(ص) خدا نے خبر دى تھي_ يہ ديكھ كر مسلمانوں نے تكبير كى آواز بلند كى اور كفار كے چہروں كارنگ فق ہوگيا_حضرت ابوطالب بولے:'' ديكھ ليا كہ ہم ميں سے كون ساحر يا كاہن كہلانے كا حقدار ہے؟''
اس دن ان كے بہت سے افراد نے اسلام قبول كرليا ليكن مشركين پھر بھى قانع نہ ہوئے اور انہوں نے عہدنامے كے مضمون كے مطابق سابقہ روش جارى ركھي،يہاں تك كہ بعض مشركين اس عہدنامے كو توڑنے كے درپے ہوئے ان لوگوں ميں ان افراد كا ذكر ہوا ہے_ ہشام بن عمروبن ربيعہ، زہير بن اميہ بن مغيرہ، مطعم بن عدي، ابوالبخترى بن ہشام، زمعة بن اسود_
يہ سارے حضرات بنى ہاشم اور بنى مطلب سے كوئي نہ كوئي قرابت ركھتے تھے_ ابوجہل نے ان كى مخالفت كي، ليكن انہوں نے اس كى پروا نہ كى چنانچہ وہ عہدنامہ پھاڑ ديا گيا اور اس پر عمل درآمدختم ہوگيا _يوں بنى ہاشم شعب ابوطالب سے نكل آئے_(1)

ابوطالب عقلمندى اور ايمان كا پيكر
ہجرت سے قبل كے واقعات كا مطالعہ كرنے والا شخص دسيوں مقامات پر حضرت ابوطالب كى ہوشيارى وتجربہ كارى كا مشاہدہ كرتا ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ اس بارے ميں ملاحظہ ہو : السيرة النبويہ ( ابن كثير) ج2 ص 44 ، السيرة النبويہ (ابن ہشام) ج 2 ص 16 ، دلائل النبوة مطبوعہ دار الكتب ج 2 ص 312، الكامل فى التاريخ ج 2 ص 88 السيرة النبويہ (دحلان) ج1ص 137 و 138 مطبوعہ دار المعرفة ، تاريخ يعقوبى ج 2 ص 31 اور البداية والنہاية ج3 ص 85 و 86_

159
بہترين مثال مذكورہ بالا واقعہ ہے_ ہم نے مشاہدہ كياكہ حضرت ابوطالب نے كفار سے عہدنامہ لانے كا مطالبہ كيا اورساتھ ہى يہ اشارہ بھى كيا كہ شايد اس ميں صلح كيلئے كوئي راہ نكل آئے_
ايسا كہنے كى وجہ يہ تھى كہ وہ عہدنامہ سب لوگوں كے سامنے كھولاجائے تاكہ سب اسے ديكھ ليں اور آئندہ پيش آنے والے عظيم واقعے كيلئے آمادہ ہوسكيں _نيز ايك منطقى حل پيش كرنے كيلئے فضا ہموار ہوجائے تاكہ بعد ميں قريش كيلئے اس كو قبول كرنا اور اس پر قائم رہنا شاق نہ ہو، بالخصوص اس صورت ميں جب وہ ان سے كوئي وعدہ لينے يا ان كو عرب معاشرے ميں رائج اخلاقى اقدار كے مطابق قول و قرار، شرافت و نجابت اور احترام ذات وغيرہ كے پابند بنانے ميں كامياب ہوتے_ انہيں اس ميں بڑى حدتك كاميابى ہوئي يہاں تك كہ لوگ پكار اٹھے ''اے ابوطالب تو نے ہمارے ساتھ منصفانہ بات كى ہے_''
مذكورہ عبارات سے ايك اور حقيقت كى نشاندہى بھى ہوتى ہے جو بجائے خود اہميت اور نتائج كى حامل ہے اور جو يہ بتاتى ہے كہ حضرت ابوطالب كو رسول(ص) الله كى سچائي، آپ(ص) كے مشن كى درستى اور آپ(ص) كے پيغام كى حقانيت پركس قدر اعتماد تھا اور يہ كہ جب دوسرے لوگ حضور اكرم(ص) كو ساحر اور كاہن كہہ كر پكارتے تھے تو انہيں دكھ ہوتا تھا_ ان كى نظر ميں يہ ايك كھلم كھلا بہتان تھا_ اسى لئے انہوں نے اس فرصت كو غنيمت سمجھا تاكہ اس سے فائدہ اٹھاكر كفار كے خيالات و نظريات كو باطل قرار ديں چنانچہ انہوں نے كہا :'' كيا تم ديكھتے نہيں ہوكہ ہم ميں سے كون ساحر يا كاہن كہلانے كا زيادہ حقدار ہے؟ ''اس كا نتيجہ يہ ہوا كہ عہد نامے والا معجزہ ديكھنے كے بعد مكہ كے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول كرليا_

قبيلہ پرستى اور اس كے اثرات
گذشتہ صفحات ميں ہم نے ملاحظہ كياكہ قبيلہ پرستى نے ايك حدتك ان حادثات كى روك تھام ميں مدد كى جن سے دعوت اسلامى كے مستقبل اور اس كى كاميابى پر برا اثر پڑ سكتا تھا_ مثال كے طور پر عہدنامے كو منسوخ كرنے والے افراد كى كوشش ميں بھى يہى جذبہ كارفرما تھا، ليكن قابل توجہ بات يہ ہے كہ اس جدوجہد ميں ابولہب كہيں دكھائي نہيں ديتا نيز حضرت خديجہ كے چچازاد حكيم بن حزام بھى نظر نہيں آتے جس كے بارے

160
ميں روايات كا دعوى يہ ہے كہ وہ مسلمانوں كيلئے شعب ابوطالب ميں كھانے كاسامان بھيجا كرتے تھے _ اس كے علاوہ ابوالعاص بن ربيع اموى كا بھى كوئي كردار ديكھنے ميں نہيں آيا جس كے بارے ميں وہ لوگ دعوى كرتے ہيں كہ رسول(ص) نے اس كے ساتھ قرابت كو سراہا (انشاء اللہ ابوجہل كى بيٹى كے ساتھ حضرت على (ع) كى شادى والے افسانے ميں اس كا مزيد ذكر ہوگا)_ ان كوششوں كى وجہ بالواسطہ طريقے سے حضرت علي(ع) كے مقام كو گھٹانا ہے جو ان كے نزديك فقط ملامت اور سرزنش كے حقدار ہيں_ وہ علي(ع) جو اپنى جان ہتھيلى پر ركھ كر شعب ابوطالب ميں شہر مكہ سے كھانے كا سامان پہنچاتے تھے اور اگر وہ كفار كے ہاتھ لگ جاتے تو وہ انہيں قتل كرديتے_ (جيساكہ پہلے ذكر ہوچكا)_

عہد نامے كى منسوخى كے بعد
رسول اكرم(ص) اپنے دين كى ترويج ميں بدستور مصروف رہے_ قريش بھى آپ(ص) كى راہ ميں روڑے اٹكاتے رہے_ نيز وہ ہر ممكنہ ذريعے سے كوشش كرتے تھے كہ لوگ آپ(ص) كے پاس نہ آئيں اور آپ(ص) كى باتيں نہ سنيں، ليكن رسول(ص) خدا نے صبروتحمل كا راستہ اپناتے ہوئے ہر قسم كى سستى يا كندى سے احتراز كيا، يوں قريش كسى نتيجے تك نہ پہنچ سكے_
اس سلسلے ميں بہت سے حادثات و واقعات پيش آئے، ان سب كو بيان كرنے كيلئے كافى وقت دركا رہے لہذا اس موضوع كو چھوڑكر دوسرے موضوعات كا رخ كئے بغير چارہ نہيں اگرچہ اس موضوع كو ناتمام چھوڑنا ہمارے اوپر گران ہے_

حبشہ سے ايك وفد كى آمد
نبى اكرم صلى الله عليہ وآلہ وسلم كى خدمت ميں مكہ كے باہر سے پہنچنے والا پہلا وفد حبشہ كے عيسائيوں كا تھا_ بقولے ان كا تعلق نجران سے تھا ابن اسحاق وغيرہ كے بقول يہ وفد بيس افراد پر مشتمل تھا _ان كى تعداد كے

161
بارے ميں اور اقوال بھى ہيں_ اس وفد كى قيادت حضرت جعفر بن ابوطالب(ع) كر رہے تھے_ (1)
ان لوگوں نے رسول الله صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كو مسجد الحرام ميں پايا_ انہوں نے آپ(ص) سے گفتگو كى اور سوالات كئے _اس وقت قريش كے كچھ حضرات كعبہ كے گرد محفل جمائے بيٹھے تھے_ پھر جب رسول(ص) الله نے ان كو اسلام كى دعوت دى تو وہ ايمان لے آئے_
اس كے بعد جب يہ لوگ كھڑے ہوگئے تو ابوجہل نے انہيں روكا اور اپنا دين چھوڑنے پر انہيں خوب برا بھلا كہا ليكن انہوں نے جواباً كہا سلام عليكم ،ہم تمہارى نادانى كا جواب نادانى سے نہيں ديں گے_ ہمارے لئے ہمارا راستہ مبارك ہو اور تمہارے لئے تمہارا، ہم كسى امر كو اپنے لئے سودمند پائيں تو اس ميں كوتاہى نہيں كرتے ،اس وقت آيت نازل ہوئي_ (الذين آتيناہم الكتاب من قبلہ ہم بہ يؤمنون ... واذا سمعو اللغو اعرضوا عنہ وقالوا لنا اعمالنا ولكم اعمالكم سلام عليكم لانبتغى الجاہلين) (2) يعنى جن لوگوں كو ہم نے اس سے قبل كتاب دى وہ اس پر ايمان ركھتے ہيں اور جب وہ فضول گوئي سنتے ہيں تو منہ پھير ليتے ہيں اور كہتے ہيں ہمارے لئے ہمارے اعمال ہيں اور تمہارے لئے اپنے اعمال_ پس تم پر ہمارا سلام كہ ہم جاہلوں كى صحبت پسند نہيں كرتے_
يہ واقعہ واضح طور پر قريش كى ہٹ دھرمي، ان كے اہداف اور منصوبوں پر ايك كارى ضرب تھا خاص كر اس وجہ سے كہ وہ وفد حبشہ سے آيا تھا اور وہ بھى حضرت جعفر(ع) كى قيادت ميں _اس كا مطلب يہ تھا كہ قريش كى دسترس سے خارج سرزمينوں ميں بھى اسلام نے لوگوں كے دلوں پر قبضہ كرنا شروع كرديا تھا_
نيز يہ واقعہ قريش كيلئے خطرے كى گھنٹى تھا تاكہ وہ پانى كے سر سے گزر جانے سے پہلے اٹھ كھڑے ہوں ليكن كيسے اور كيونكر؟ جبكہ حضرت ابوطالب كى سركردگى ميں بنى ہاشم اور بنى مطلب حضرت محمد(ص) كى حفاظت و حمايت پر كمربستہ تھے _بنابريں ان كے پاس ايك ہى راستہ تھا اور وہ تھا مناسب وقت كا انتظار_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ فقہ السيرة ص 126ميں بوطى نے يہى كہا ہے نيز مجمع البيان ج 7 ص 285 سے ظاہر ہوتا ہے كہ جب حضرت جعفر(ع) فتح خيبر كے سال آخرى بار وہاں سے لوٹے تو يہ لوگ بھى انكے ساتھ آئے_
2_ سورہ قصص، آيت 52 تا 55، حديث كيلئے سيرہ ابن ہشام ج 2ص 32اور ان آيات كى تفسير ميں ابن كثير، قرطبى اور نيشاپورى كى تفاسير كى طرف رجوع كريں_ نيز البداية و النہاية ج 3ص 82_

162
جناب ابوطالب(ع) كى پاليسياں
شيخ الابطح ابوطالب كى ذات وہ ذات تھى جس نے اپنى زبان اور ہاتھ سے رسول(ص) خدا كى حمايت و نصرت اور آنحضرت(ص) كے بچپن سے ليكر اب تك آپ(ص) كى نگرانى كى تھي_ حضرت ابوطالب(ع) نے حضور(ص) كى حمايت و نصرت اور تبليغ دين كے دائرے كو وسعت دينے كيلئے زبردست مصائب اور عظيم مشكلات كا مقابلہ كيا_
يہى حضرت ابوطالب تھے جو حضور(ص) كو اپنى تمام اولاد پر ترجيح ديتے تھے_ جب بُصرى (شام) ميں ايك يہودى بحيرا نے انہيں خبر دى كہ حضرت محمد(ص) كو يہوديوں سے خطرہ ہے تو وہ انہيں بنفس نفيس مكہ واپس لے آئے _يہ حضرت ابوطالب ہى تھے جو قريش كى عداوت مول لينے، بھوك اور فقر كو جھيلنے ،نيز معاشرتى بائيكاٹ كا مقابلہ كرنے كيلئے آمادہ ہوئے_ انہوں نے شعب ابوطالب ميں بچوں كو بھوك سے بلبلاتے ديكھا ،بلكہ درختوں كے پتے كھانے پر بھى مجبورہوئے _انہوں نے صاف صاف بتاديا تھا كہ وہ(ہر خشك و تر كو برباد كردينے والي) ايك تباہ كن جنگ كيلئے تو تيار ہيں ليكن حضرت محمد(ص) كو كفار كے حوالے كرنے يا آپ(ص) كو تبليغ دين سے روكنے يا كم ازكم تبليغ چھوڑنے كا مطالبہ تك كرنے كيلئے آمادہ نہيں _يہ حضرت ابوطالب(ع) ہى تھے جنہوں نے قريش كے فرعون اور ظالم سرداروں سے ٹكرلي_
جب رسول(ص) الله كے سر پرقريش نے اونٹ كى اوجھڑى ڈالى تھى تو انہوں نے تلوار سونت لى اور حضرت حمزہ كو حكم ديا كہ اسے ہٹائيں پھر قريش كى طرف بڑھے انہوں نے جناب ابوطالب (ع) كے چہرے پرخطرے كى علامات ديكھيں_ پھر انہوں نے حمزہ كو حكم ديا كہ وہ اس گندگى كو ان كے چہروں اور داڑھيوں پر ايك ايك كر كے مل ديں چنانچہ حضرت حمزہ نے ايسا ہى كيا_(1)
ايك اور روايت كے مطابق حضرت ابوطالب نے اپنے افراد كو بلايا اور ان كو مسلح ہونے كا حكم ديا جب مشركين نے انہيں ديكھا تو وہاں سے كھسكنے كا ارادہ كيا_ انہوں نے ان سے كہا كعبہ كى قسم تم ميں سے جو بھى اٹھے گا تلوار سے اس كى خبر لوں گا _اس كے بعد نبى كريم(ص) كى بے ادبى كرنے والے كى ناك پر مار كر اسے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الكافى مطبوعہ مكتبة الصدوق ج1 ص 449 ، منية الراغب ص 75 ، السيرة الحلبية ج1 ص 291 و 292 والسيرة النبويہ (دحلان، مطبوع حاشيہ سيرہ حلبيہ ) ج1 ص 202 و 208 و 231 اور بحار الانوار ج 18 ص 209_

163
خون آلود كرديا _(يہ شخص ابن زبعرى تھا )_نيز اوجھڑى كى گندگى اور خون كو ان سب كى داڑھيوں پر مل ديا_(1)
ادھر شعب ابوطالب ميں بھى وہى تھے جو رسول(ص) خدا كى بنفس نفيس حفاظت كرتے تھے_ آپ(ص) كو ايك جگہ سے دوسرى جگہ منتقل كرتے تھے اور اپنے نور چشم علي(ع) كو رسول(ص) الله كى جگہ سلاتے تھے تاكہ اگر كوئي حادثہ پيش آجائے تو حضور(ص) محفوظ رہيں،چاہے على (ع) كو گزند پہنچے(2)_وہ پيغمبر(ص) خدا كا دفاع كرنے كيلئے قريش كے ساتھ كبھى نرمى اور كبھى سختى برتتے تھے نيز جذبات كو زندہ كرنے مصائب كو دور كرنے خداكے نام كو سربلند كرنے اس كے دين كو پھيلانے اور مسلمانوں كى حمايت كرنے كيلئے سياسى اشعار بھى كہتے تھے_
ايك دفعہ انہوں نے رسول(ص) الله كو كہيں نہ پايا تو بنى ہاشم كو جمع كر كے مسلح كيا اور يہ فيصلہ كيا كہ ان ميں سے ہر ايك كو قريش كے ايك ايك سرغنہ كے پاس بھيجيں تاكہ اگر يہ ثابت ہو كہ حضرت محمد(ص) كو كچھ ہوا ہے تو يہ افراد ان كا كام تمام كرديں_(3)انہوں نے يہ سب رسول خدا صلى الله عليہ وآلہ وسلم كى حفاظت، اسلام كى حمايت اور دين كى سربلندى كيلئے كيا_
واضح ہے كہ حضرت ابوطالب(ع) كے جملہ كارناموں اور آپ كى عظيم قربانيوں كو بيان كرنے كيلئے طويل وقت اور مستقل كام كى ضرورت ہے _يہاں تو ہم اجمالى اشارے پرہى اكتفا كرتے ہيں ليكن يہ اعتراف كرتے ہيں، كہ ہم ان كا حق ادا نہيں كرسكے_ اس اختصار كى غرض يہ ہے كہ سيرت نبويہ كے ديگر پہلوؤں پر بھى بحث كا موقع مل سكے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ملاحظہ ہو: الغدير ج7 ص 388 و 359 و ج 8 ص 3 تا 4 اور ابوطالب مؤمن قريش ص 73 (دونوں كتابوں ميں كئي منابع سے ماخوذ ہے) ثمرات الاوراق ص 285 و 286 ، نزھة المجالس ج 2 ص 122 ، الجامع لاحكام القرآن ج6 ص 405 و 406 اور تاريخ يعقوبى ج 2 ص 24 و 25_
2 _ المناقب ابن شہر آشوب ج 1 ص 64و 65 ،ا سنى المطالب ص 21 ( اس نے على (ع) كا نام ذكر نہيں كيا ) اسى طرح سيرہ حلبيہ ج1 ص 342 اور ملاحظہ ہو: البدايہ والنہايہ ج 3 ص 84، السيرة النبويہ ( ابن كثير ) ج 2 ص 44 ، دلائل النبوة ( بيہقي) مطبوعہ دار الكتب العلميہ ج2 ص 312 ، تاريخ الاسلام ج 2 ص 140 و 141 ، الغدير ج7 ص 363 و 357 و ج8 ص 3 و 4 اور ابوطالب مؤمن قريش ص 194_
3 _ تاريخ يعقوبى ج 2 ص 26 ، ابوطالب مؤمن قريش ص 171 ، منية الراغب ص 75 و 76 اور الغدير ج 2 ص 49 و 350 و 351_

164
ابوطالب(ع) كى قربانياں
مذكورہ بالا معروضات سے معلوم ہوا كہ شيخ الابطح حضرت ابوطالب (ع) آمادہ تھے كہ:
1) اپنى قوم كے درميان حاصل مقام و مرتبے كو خيرباد كہہ كر اہل مكہ بلكہ پورى دنيا كى دشمنى مول ليں، يہاں تك كہ انہوں نے اپنے حاميوں كے ہمراہ معاشرتى بائيكاٹ كو برداشت كيا ليكن كسى قسم كے دباؤ ميں نہ آئے_
2) نہ صرف فقر وفاقے اور معاشى بائيكاٹ برداشت كرنے پر راضى ہوں بلكہ اپنے پاس موجود دولت اور ہر چيز راہ خدا ميں پيش كرديں_
3)بوقت ضرورت ايك تباہ كن جنگ ميں كود پڑيں جو بنى ہاشم اور ان كے دشمنوں كى بربادى پر منتج ہوسكتى تھي
4) انہوں نے سب سے چھوٹے نور چشم حضرت علي(ع) كو راہ خدا ميں قربانى كيلئے پيش كيا، اور دوسرے بيٹے حضرت جعفر(ع) جنہوں نے حبشہ كو ہجرت كى تھى كى جدائي كا صدمہ برداشت كرليا_
5) حضرت ابوطالب(ع) اپنى زبان اور ہاتھ دونوں سے مصروف جہاد رہے اور ہر قسم كے مادى ومعنوى وسائل كو استعمال كرنے سے دريغ نہ كيا _ہر قسم كى تكاليف و مشكلات سے بے پروا ہوكر حتى المقدور دين محمد(ص) كى حفاظت و حمايت ميں مصروف رہے_
يہاں يہ سوال پيدا ہوسكتا ہے كہ حضرت ابوطالب نے جو كچھ كيا وہ ممكن ہے جذبات يا نسلى و خاندانى تعصب كا نتيجہ ہو يا بالفاظ ديگر آپ كى فطرى محبت كا تقاضا ہو؟_ (1)
ليكن اس كا جواب يہ ہے كہ ايسا كبھى نہيں ہوسكتا كيونكہ ايك طرف حضرت ابوطالب(ع) كے ايمان پر قطعى دلائل خاص كر ان كے اشعار و غيرہ اور حضرت رسول (ص) اكرم اور ديگر ائمہ كى ان كے متعلق احاديث موجود ہيں اور دوسرى طرف جس طرح حضرت محمد(ص) ان كے بھتيجے تھے اس طرح حضرت علي(ع) ان كے بيٹے تھے اگر رشتہ دارى كا جذبہ كارفرما ہوتا تو وہ كيونكر بيٹے كو بھتيجے پر قربان كرتے؟ وہ بھى اپنى مرضى سے نيز اس كے انجام كے بارے ميں غوروفكر اور تا مل و تدبر كے بعد؟ انہيں بھتيجے كى بجائے بيٹے كا قتل ہوجانا كيونكر منظور ہوا؟ كيا يہ معقول ہے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تفسير ابن كثير ج 3ص 394 _

165
كہ اپنے بيٹے اور جگر گوشے كے مقابلے ميں بھتيجے كى محبت فطرى طور پر بيشتر ہو؟
اسى طرح اگر قومى يا خاندانى تعصب كارفرما ہوتا تو پھر ابولہب لعنة الله عليہ نے اس جذبے كے تحت وہ موقف كيوں اختيارنہيں كيا جو حضرت ابوطالب نے اختيار كيا اور حضرت ابوطالب كى طرح رسول(ص) الله كى حمايت كيوں نہيں كي؟ نيز اپنے بيٹے، اپنى حيثيت اور ديگر چيزوں كى قربانى كيوں نہيں پيش كي؟ بلكہ ہم نے تو اس كے برعكس ديكھا كہ ابولہب نبى كريم(ص) كا سخت ترين دشمن، آپ(ص) كى مخالفت ميں پيش پيش اور آپ(ص) كو اذيت دينے ميں سب سے آگے تھا_
رہے بنى ہاشم كے ديگر افراد تو اگرچہ وہ رسول(ص) الله كے ساتھ شعب ابوطالب ميں داخل ہوئے ليكن رسول(ص) الله كيلئے انكى قربانياں ابوطالب كى قربانيوں كا دسواں حصہ بھى نہ تھيں_ نيز ان كا يہ اقدام بھى حضرت ابوطالب كے اثر و نفوذ اور اصرار كا مرہون منت تھا_
يوں واضح ہوا كہ مرد مسلمان كا دينى جذبہ قومى يا خاندانى جذبات كے مقابلے ميں زيادہ طاقتور ہوتا ہے_ اسى لئے ہم تاريخ ميں بعض مسلمانوں كو واضح طور پر يہ كہتے ہوئے ديكھتے ہيں كہ وہ راہ خدا ميں اپنے آباء اور اولاد كو قتل كرنے كيلئے بھى تيار ہيں_ چنانچہ عبدالله بن عبدالله بن ابى نے رسول(ص) الله سے اپنے باپ (عبدالله بن ابي) كو قتل كرنے كى اجازت مانگي(1) _ نيز جنگ صفين ميں بھائي نے بھائي كو نہ چھوڑا جب تك كہ اميرالمؤمنين (ع) نے چھوڑنے كى اجازت نہ دي(2) _ان كے علاوہ بھى تاريخ اسلام ميں متعدد مثاليں ملتى ہيں_
ان باتوں سے قطع نظر اس بات كى طرف اشارہ بھى ضرورى ہے كہ اگر حضرت ابوطالب كا موقف دنيوى اغراض پر مبنى ہوتا تو اس كا تقاضا يہ تھا كہ وہ اپنے بيٹے كى بجائے بھتيجے كو قربان كرتے _نيز بھتيجے كو اپنے خاندان پر قربان كرتے _نہ كہ خاندان كو ايك بھتيجے پر _كيونكہ دنيا كا معقول طريقہ يہى ہوتاہے جيساكہ خليفہ مامون نے اپنے بھائي امين كو قتل كيا اور ام ہادى نے اپنے بيٹے كو زہر ديا _ليكن حضرت ابوطالب نے تو ہر چيز كو بھتيجے پر قربان كرديا اور يہ دنيوى مفادات كے حصول كا منطقى اور معقول طريقہ ہرگز نہيں ہوسكتا_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تفسير صافى ج5 ص 180 ، السيرة الحلبيہ ج2 ص 64 ، الدرالمنثور ج6 ،ص 24 از عبد بن حميد و ابن منذر اور الاصابہ ج2 ص 336_
2_ صفين (المنقري) ص 271 و 272_

166
اسى طرح اگر بات قبائلى تعصب كى ہوتى تو اس تعصب كا اثر قبيلے كے مفادات كے دائرے ميں ہوتا_ ليكن اگر يہى تعصب اس قبيلے كى بربادى نيز اس كے مفادات يا مستقبل كو خطرات ميں جھونكنے اور تباہ كرنے كا باعث بنتا تو پھر اس تعصب كى كوئي گنجائشے نہ ہوتى اور نہ عقلاء كے نزديك اس كا كوئي نتيجہ ہوتا_
مختصر يہ كہ ہم حضرت ابوطالب(ع) كى مذكورہ پاليسيوں اور حكمت عملى كے بارے ميں اس كے علاوہ كچھ نہيں كہہ سكتے كہ يہ پاليسياں عقيدے اور ايمان راسخ كى بنيادوں پر استوار تھيں جن كے باعث انسان كے اندر قربانى اور فداكارى كا جذبہ پيدا ہوتا ہے_
خدا كا سلام ہو آپپر اے ابوطالب(ع) اے عظيم انسانوں كے باپ اے حق اور دين كى راہ ميں قربانى پيش كرنے والے كاروان كے سالار خدا كى رحمتيں اور بركتيں آپ پر نازل ہوں_

عام الحزن
بعثت كے دسويں سال بطل جليل حضرت ابوطالب عليہ الصلاة والسلام كى رحلت ہوئي_ آپ كى وفات سے رسول(ص) الله اپنے اس مضبوط، وفادار اور باعظمت حامى سے محروم ہوگئے جو آپ(ص) كا، آپ(ص) كے دين كا اور آپ(ص) كے مشن كا ناصر و محافظ تھا (جيساكہ پہلے عرض كرچكے ہيں)_
اس حادثے كے مختصر عرصے بعد بقولے تين دن بعد اور ايك قول كے مطابق ايك ماہ(1) بعدام المؤمنين حضرت خديجہ (صلوات اللہ وسلامہ عليہا) نے بھى جنت كى راہ لي_ وہ مرتبے كے لحاظ سے رسول(ص) الله كى ازواج ميں سب سے افضل ہيں_
نيز آنحضرت(ص) كے ساتھ اخلاقى برتاؤ اور سيرت كے حوالے سے سب سے زيادہ باكمال تھيں_ رسول(ص) خدا كى ايك بيوي( حضرت عائشےہ) ان سے بہت حسد كرتى تھيں حالانكہ اس نے حضرت خديجہ(ع) كے ساتھ آنحضرت(ص) كے گھر ميں زندگى نہيں گزارى تھى كيونكہ آپ(ص) نے حضرت خديجہ كى رحلت كے بہت عرصہ بعد
--------------------------------------------------------------------------------
1_ السيرة الحلبيہ ج1 ص 346 ، السيرة النبويہ ( ابن كثير) ج 2 ص 132 ، البدايہ والنہايہ ج 3 ص 127 اورا لتنبيہ و الاشراف ص 200_

167
اس سے شادى كى تھي_(1)
دين اسلام كى راہ ميں حضرت ابوطالب(ع) اور حضرت خديجہ سلام الله عليہا كى عظيم خدمات كا اندازہ اس حقيقت سے ہوسكتا ہے كہ نبى كريم(ص) نے ان دونوں كى وفات كے سال كو عام الحزن كا نام ديا(2) يعنى غم واندوہ كا سال_ آپ(ص) نے ان دونوں سے جدائي كو پورى امت كيلئے مصيبت اور سانحہ قرار ديا_
چنانچہ فرمايا:'' اس امت پر دو مصيبتيں باہم ٹوٹ پڑيں اور ميں فيصلہ نہيں كرسكتا ان ميں سے كونسى مصيبت ميرے لئے دوسرى مصيبت كے مقابلے ميں زيادہ سخت تھي''(3)_ يہ بات آپ(ص) نے ان دونوں كى جدائي كے غم سے متا ثر ہوكر فرمائي_

محبت وعداوت، دونوں خداكى رضاكيلئے
واضح ہے كہ ان دونوں ہستيوں سے رسول(ص) كى محبت اور ان دونوں كى جدائي ميں آپ(ص) كا حزن وغم نہ ذاتى مفادات ومصالح كے پيش نظر تھا اور نہ ہى خاندانى محبت وجذبے كى بنا پر بلكہ آپ(ص) كى محبت فقط اور فقط رضائے الہى كيلئے تھي_ آپ(ص) كسى بھى شخص كو اتنى ہى اہميت ديتے ،اس كى جدائي ميں اتنے ہى غمگين ہوتے اور اس سے اسى قدر روحانى و جذباتى لگاؤ ركھتے جس قدر اس شخص كا رابطہ خدا سے ہوتا ،جس قدر وہ الله سے نزديك اور اس كى راہ ميں فداكارى كے جذبے كا حامل ہوتا_
آپ(ص) حضرت ابوطالب(ع) اور حضرت خديجہ(ع) كيلئے اس وجہ سے غمگين نہ ہوئے تھے كہ خديجہ آپ(ص) كى زوجہ تھيں يا ابوطالب آپ(ص) كے چچا تھے وگرنہ ابولہب بھى تو آپ(ص) كا چچا تھا _بلكہ وجہ يہ تھى كہ آپ(ص) نے ان
--------------------------------------------------------------------------------
1_ البدايہ والنہايہ (ابن كثير) ج 3 ص 127 و 128 ، السيرة النبويہ(ابن كثير) ج 2 ص 133 تا 135 ، صحيح بخارى ج 2 ص 202 ، عائشه (عسكري) ص 46 اور اس كے بعد اور اس كے بعض منابع ہم نے آنے والى فصل '' بيعت عقبہ تك '' ميں عائشه كے حسن و جمال كے ذكر ميں بيان كيا ہے_
2_ سيرت مغلطاى ص 26، تاريخ الخميس ج1 ص 301 ، المواہب اللدنيہ ج 1 ص 56 ، السيرة النبويہ (دحلان ) ج 1 ص 139 ص 21 مطبوعہ دار المعرفہ اور اسنى المطالب ص 21_
3_تاريخ يعقوبى ج 2ص 35 _

168
دونوں كى قوت ايماني، دين ميں پائيدارى اور اسلام كى راہ ميں فداكارى كو محسوس كرليا تھا_ اور يہى تو اسلام كا بنيادى اصول ہے جس كى خدانے يوں نشاندہى كى ہے (لاتجد قوماً يومنون بالله و اليوم الآخر يوادون من حاد الله و رسولہ و لو كانوا آبائہم او ابنائہم او اخوانہم او عشيرتہم ...) (1) يعنى جولوگ الله اور روز قيامت پر ايمان ركھتے ہيں آپ ان كو خدا اور اس كے رسول(ص) كے مخالفين سے محبت كرتے ہوئے نہيں پائيں گے خواہ وہ ان كے باپ يا بيٹے يا بھائي يا رشتے دار ہى كيوں نہ ہوں_
كيا شرك سے زيادہ كوئي دشمنى الله اور رسول(ص) كے ساتھ ہوسكتى ہے؟ وہى شرك جس كے بارے ميں خدانے فرمايا ہے: (ان الشرك لظلم عظيم) يعنى شرك سب سے بڑا ظلم ہے_
نيز فرمايا ہے: (ان الله لايغفر ان يشرك بہ و يغفر ما دون ذلك) يعنى يہ كہ خدا شرك كے علاوہ ديگر گناہوں كو معاف كرديتا ہے_
خداكى رضا كيلئے محبت كرنے اور اس كى رضا كيلئے بغض ركھنے كے بارے ميں آيات و احاديث حد سے زيادہ ہيں اور ان كے ذكر كى گنجائشے نہيں_
اسى معيار كے پيش نظر خداوند تعالى نے حضرت نوح(ع) سے انكے بيٹے كے متعلق فرمايا: (انہ ليس من اہلك انہ عمل غيرصالح)(2) يعنى اس كا تيرے گھرانے سے كوئي تعلق نہيں ہے اسكا تو غيرصالح عمل ہے_ اسى طرح حضرت ابراہيم (ع) كا قول قرآن مجيد ميں ہے كہ ( من تبعنى فانہ مني) (3) جو ميرى پيروى كرے گا وہ ميرے خاندان سے ہوگا_
نيز اسى بنا پر سلمان فارسى كا شمار اہلبيت پيغمبر(ص) ميں ہوا_
ابوفراس كہتا ہے:

كانت مودة سلمان لہم رحما
ولم تكن بين نوح و ابنہ رحم ...
يعنى اہلبيت پيغمبر(ص) سے محبت كے باعث سلمان ان كے گھرانے كا ايك فرد بن گيا جبكہ اس كے برعكس نوح(ع) اور ان كے بيٹے كے درميان قرابت نہيں رہي_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ مجادلہ، آيت 22 _
2_ سورہ ہود آيت 46_
3_ سورہ ابراہيم آيت 36_