الصحيح من سيرة النبى الاعظم(ص)
دوسرى فصل

ہجرت حبشہ اور اس سے متعلقہ بحث


73
راہ حل كى تلاش:
قريش نے ان مسلمانوں كو ستانے كا سلسلہ جارى ركھا جن كى حمايت كرنے والا كوئي قبيلہ نہ تھا_ مسلمانوں كيلئے يونہى بيٹھے رہنا ممكن نہ تھا_ان ستم زدہ لوگوں كيلئے ايك ايسى سرزمين كى ضرورت تھى جو ان كى اميدوں كا مركزہوتي، ان كو مشكلات كامقابلہ كرنے ميں مدد ديتى اور جہاں وہ مشركين كى طرف سے قسم قسم كے دباؤ كا مقابلہ كرنے كے زيادہ قابل بن سكتے_ يوں وہ ان مشركين كا مقابلہ كرسكتے تھے جنہوں نے اپنے خداؤں سے ما فوق خدا اور اپنى حاكميت سے برتر حاكميت كو تسليم كرنے سے انكار كيا تھا_ نيز اطاعت وتسليم كے بجائے ہٹ دھرمى اور عناد كى روش اپنائي تھي_
دوسرى طرف سے اس پر مشقت و پرآلام صورتحال پر باقى رہنے كى صورت ميں قبول اسلام كى جانب لوگوں كى رغبت ميں كمى آجاتى كيونكہ اسلام قبول كرنے كا نتيجہ خوف، دہشت اور تكاليف وآلام ميں مبتلا ہونے كے علاوہ كچھ نہيں دكھائي ديتا تھا_
تيسرا پہلو يہ كہ قريش كے تكبر اور ان كى خود پسندانہ طاقت پر كم از كم نفسياتى طور پر ايسى كارى ضرب لگانے كى ضرورت تھى ، كہ وہ سمجھ جا ئيں كہ دين كا مسئلہ ان كے تصورات اور ان كى طاقت كى حدود سے مافوق چيز ہے اور ان كو زيادہ سنجيدہ ہوكر سوچنے كى ضرورت ہے_
ان حقائق كے پيش نظر رسول(ص) الله نے مسلمانوں كو حبشہ كى طرف ہجرت كا حكم ديا_ ہجرت حبشہ بعثت كے پانچويں سال ہوئي ليكن حاكم نيشابورى كے مطابق ہجرت حبشہ جناب ابوطالب كى وفات كے بعد ہوئي (1)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ مستدرك حاكم ج2ص 622_

74
حالانكہ جناب ابوطالب كى وفات بعثت كے دسويں سال ہوئي _ شايد وہ ايك اور ہجرت كے متعلق بتانا چاہتے ہوں جسے كچھ مسلمانوں نے اس موقع پر انجام ديا يا شايد كچھ لوگ صلح كے متعلق سن كر واپس پلٹے ہوں اور اچانك برعكس صورت حال ديكھ كر دوبارہ ہجرت كرگئے ہوں _ ليكن ہمارے پاس ايسے كوئي قرائن بھى نہيں ہيں جو اس بات كى تائيد كرتے ہوں كہ يہ واقعہ وفات جناب ابوطالب كے بعد پيش آيا_

حبشہ كے انتخاب كى وجہ
ہجرت كيلئے حبشہ كا انتخاب كيوں ہوا؟ اس رازكى طرف رسول(ص) الله نے يوں اشارہ فرمايا ''يقينا وہاں ايك ايسا بادشاہ موجود ہے جس كى حكومت كے زير سايہ كسى پر ظلم نہيں ہوتا''_ حبشہ سچائي كى سرزمين ہے اور وہ (بادشاہ) مانگنے والوں كے ساتھ اچھا سلوك كرتا ہے_ اس انتخاب كى علت بالفاظ ديگر يہ تھى كہ:
1) اس صورت ميں قريش پر ضرورى ہوجاتا كہ وہ اپنے اقتدار، بت پرستى اور انحرافى افكار كے لئے خطرہ سمجھنے والے دين پر اول و آخر اپنے مكمل تسلط اور اختيار كو باقى ركھنے كے لئے مسلمانوں كو واپس لانے كى پورى كوشش كريں_
2) قريش كو تجارتى اور اقتصادى روابط كے سبب روم اور شام ميں اثر و رسوخ حاصل تھا ،بنابريں ان سرزمينوں كى طرف ہجرت كرنے كى صورت ميں قريش كيلئے مسلمانوں كو لوٹانا ياكم از كم آزار پہنچانا آسان ہوجاتا_ خصوصا اس حالت ميں جب ان ملكوں كے حكمران كسى قسم كے اخلاقى يا انسانى اصولوں كے پابند نہ تھے اور ان كو ظلم وستم سے روكنے والى كوئي چيز موجود نہ تھى خاص كر ان مسلمانوں كے اوپر جن كا دين ان كے ذاتى مفادات اور اقتدار كيلئے خطرہ اور چيلنج تھا_
رہا يمن يا دوسرے عرب قبائل كا مسئلہ تو وہ ظالم اور جابر ايرانى بادشاہوں كے زير تسلط تھے_ كہتے ہيں كہ جب رسول(ص) الله نے بعض قبائل كى طرف پيغام بھيجا اور ان سے حمايت چاہى تو انہوں نے قبول كيا ليكن كسرى نے قبول نہ كيا_واضح رہے كہ كسرى كے ہاں پناہ تلاش كرناملك روم ميں پناہ ڈھونڈنے سے كم خطر ناك نہ تھا_ بالخصوص اس حالت ميں جب كہ كسرى ديكھ رہا تھا كہ يہ عرب شخص جلدہى اس كے ملك سے قريب علاقے ميں خروج كرے گا اور اس كى دعوت اس كے ملك ميں بھى سرايت كرجائے گي_

75
نيز يہ دعوت اپنے لئے تراشے گئے ناجائز امتيازى حقوق پر اثر انداز ہوگي( جيساكہ نبى اكرم(ص) كے مشن اوراہداف سے ظاہر تھا) _اس كے علاوہ وہ طبيعة عربوں كو حقير سمجھتا تھا اور ان كيلئے كسى عزت واحترام كا قائل نہ تھا_
3) قريش كو مختلف عرب قبائل كے اندر كافى اثر و نفوذ حاصل تھا حتى ان قبائل كے درميان بھى جو ايران وروم كے زير اثر تھے جيساكہ اس كتاب كے اوائل ميں مذكوربعض معروضات سے واضح ہے_
4)مذكورہ باتوں كے علاوہ رسول(ص) الله نے ارشاد فرمايا تھا كہ حبشہ ميں كسى پر ظلم نہيں ہوتا_ ان حقائق كے پيش نظر ہم ہجرت كيلئے حبشہ كے انتخاب كى وجہ سمجھ سكتے ہيں_ حبشہ كا علاقہ ايران، روم اور قريش كے اثر و رسوخ سے خارج تھا _قريش وہاں گھوڑوں يا اونٹوں پر سوار ہوكر نہيں پہنچ سكتے تھے قريش بحرى جنگ سے بھى نا آشنا تھے_ بنابريں مسلمانوں نے (جو قريش كى طاقت و جبروت كے سامنے كمزور تھے ) ہجرت كيلئے حبشہ كى راہ لى ...
آخر ميں ہم ارض حبشہ كے بارے ميں پيغمبر(ص) اسلام كے ارشاد (حبشہ صدق وصفا كى سرزمين ہے) سے يہ سمجھ سكتے ہيں كہ حبشہ ميں بعض قبيلے فطرت كے مطابق زندگى بسر كرتے تھے اور صدق وخلوص سے ميل جول ركھتے تھے_ پس اس مسلمان مہاجر گروہ كا وہاں ان لوگوں كے ساتھ آسودگى كے ساتھ رہنا اور ميل جول ركھنا ممكن تھا، خاص طور پر جب يہ بات مدنظر ركھى جائے كہ اس مملكت ميں وہ انحرافات اور غلط افكار وعقائدنہيں پائے جاتے تھے جو روم اور ايران ميں پائے جاتے تھے كيونكہ يہ ممالك غير انسانى نظريات وافكار اور منحرف عقائد واديان سے كافى حد تك آلودہ ہوچكے تھے ليكن حبشہ كى سرزمين ان آلودگيوں سے دور تھى _
اس لئے كہ وہاں نت نئے دين نہيں ابھرتے تھے اور نہ ہى وہاں روم اور ايران كى مقدار ميں دانشمند اور فلاسفر تھے اس لئے وہ دوسرے ممالك كى بہ نسبت فطرت اور حق سے زيادہ قريب تھى ليكن فطرت كى بالادستى كا مطلب يہ نہيں ہے كہ يہ ممالك كسى بھى انحراف سے خالى ہيں _ كيونكہ وہاں انحرافات كا وجود بھى طبيعى امر ہے جبكہ يہ كہنا كہ وہاں فطرت كا راج ہے بالكل اس طرح ہے جيسے يہ كہا جائے كہ فلاں شہر كے لوگ مؤمن ہيں ،

76
بہادر ہيں يا سخى ہيں _ كيونكہ يہ بات اس شہر ميں كافروں، منافقوں ، بزدلوں يابخيلوں كے وجود سے مانع نہيں ہے _ اور واضح سى بات ہے كہ اگر مسلمان كسى ايسے ملك كى طرف ہجرت كرتے جہاں فطرت كى بالادستى نہ ہوتى اور وہاں كا فرمانروا ظلم سے پرہيز نہ كرتا تو وہاں بھى ان كے لئے زندگى مشكل ہوجاتى اور ان كى ہجرت كا كوئي زيادہ فائدہ اور بہتر اثر نہ ہوتا_

حبشہ كا سفر
مسلمانوں نے رسول(ص) الله كے حكم سے حبشہ كى طرف ہجرت كي، حضرت ام سلمہ سے منقول ايك روايت كے مطابق وہ مختلف گروہوں كى شكل ميں وہاں گئے (1) كہتے ہيں كہ پہلے دس مردوں اور چارعورتوں نے عثمان بن مظعون كى سركردگى ميں ہجرت كى (2) اس كے بعد ديگر مسلمان بھى چلے گئے يہاں تك كہ بچوں كے علاوہ كل بياسى مرداور اگر حضرت عمار ياسر بھى ان ميں شامل ہوں تو تراسى مرد اور انيس عورتيں حبشہ پہنچ گئے_
ليكن ہم صرف ايك ہى مرتبہ كى ہجرت كے قائل ہيں جس ميںسب نے حضرت جعفر بن ابوطالب كى سركردگى ميں حبشہ كى طرف ايك ساتھ ہجرت كى تھى _اس قافلے ميں حضرت جعفر طيار(ع) كے علاوہ بنى ہاشم ميں سے كوئي نہ تھا _البتہ ممكن ہے كہ مكہ سے نكلتے وقت احتياط كے پيش نظر افراد مختلف گروہوں كى شكل ميں خارج ہوئے ہوں ليكن ہجرت ايك ہى مرتبہ ہوئي تھى كيونكہ شاہ حبشہ كے نام رسول(ص) الله كاخط بھى اسى بات كى گواہى ديتا ہے جسے آپ(ص) نے عمروبن اميہ الضمرى كے ساتھ روانہ كيا تھا ، اس خط ميں مكتوب ہے:
'' البتہ ميں نے آپ كى طرف اپنے چچا زاد بھائي جعفر بن ابوطالب كو مسلمانوں كے ايك گروہ كے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ السيرة النبوية (ابن كثير) ج 2ص 17، البداية و النہاية ج 3ص 72 تاريخ الخميس ج 1ص 290 ازالصفوة و المنتہي_
2_ سيرة ابن ہشام ج 1ص 345، سيرة النبوية (ابن كثير) ج 2ص 5، البدايہ و النہاية ج 3ص 67، السيرة الحلبية ہ ج 1ص 324 (جس ميں كہا گيا ہے كہ ابن محدث نے بھى اپنى كتاب ميں اس بات كى تصريح كى ہے) نيز تاريخ الخميس ج 1ص 288_

77
ساتھ بھيجا ہے، جب وہ پہنچ جائيں تو ان كو وہاں ٹھہرانا ...'' (1)
يہى بات ابوموسى سے مروى روايت سے بھى ظاہر ہوتى ہے جس ميں اس نے كہا ہے كہ رسول(ص) الله نے ہميں حكم ديا كہ ہم جعفربن ابوطالب كے ہمراہ نجاشى كے ملك كى طرف چلے جائيں_(2) اگرچہ خود ابو موسى كى ہجرت مشكوك ہے جس كا تذكرہ آئندہ ہوگا_

جعفر سردار مہاجرين :
ہمارا نظريہ يہ ہے كہ حضرت جعفر طيار كى حبشہ كى طرف ہجرت قريش كى جانب سے سختيوں اور مشكلات سے چھٹكارا پانے كے لئے نہيں تھي_ كيونكہ قريش حضرت ابوطالب (ع) كى شان و شوكت سے ڈرتے تھے اور بنى ہاشم اور خاص كر ان كا لحاظ كرتے تھے_ حضرت جعفر كو رسول (ص) خدا نے صرف مہاجرين كا سردار اور ان كا سرپرست بنا كر بھيجاتھا تا كہ وہ انہيں اس نئے معاشرے ميں جذب ہوجانے سے بچاسكے، جس طرح كہ ابن جحش كى صورتحال تھى كہ وہ حبشہ ميں نصرانى ہوگيا تھا_

حبشہ كا پہلا مہاجر
كہتے ہيں كہ عثمان بن عفان نے اپنے اہل وعيال كے ساتھ سب سے پہلے حبشہ كى جانب ہجرت كى اور نبى اكرم(ص) نے اس بارے ميں فرماياكہ وہ حضرت لوط(ع) كے بعد پہلا شخص ہے جس نے اپنے اہل وعيال كے ساتھ ہجرت كي_ (3) يہ بھى كہا گيا ہے كہ وہ سب سے پہلے خارج ہوئے_ (4)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ البداية و النہاية ج 3ص 83، بحارالانوار ج 18ص 418، اعلام الورى ص 45_46از قصص الانبياء_
2_ البداية و النہاية ج 3ص 70 نے ابو نعيم كى الدلائل سے نقل كيا ہے اور سيرت نبويہ (ابن كثير) ج 2ص 11 _
3_ البداية و النہاية ج 3ص 66از ابن اسحاق، السيرة الحلبية ج 1ص 323اور تاريخ الخميس ج 1 ص289 _
4_ سيرة ابن ہشام ج 1ص 344، نيز البداية و النہاية ج 3ص 66از بيہقى نير السيرة الحلبية ج 1 ص223 _

78
ليكن ہميں اس بارے ميں شك ہے كيونكہ اگر مراد يہ ہو كہ وہ گھروالوں كے ساتھ ہجرت كرنے والے پہلے آدمى تھے تويہ بات واضح رہے كہ سب سے پہلے اپنے گھروالوں كے ساتھ ابوسلمہ نے ہجرت كى تھى جيساكہ نقل ہوا ہے_ (1 ) اور اگر مراد يہ ہو كہ وہ بذات خود سب سے پہلے خارج ہوئے تو عرض ہے كہ خود انہى نقل كرنے والوںكے بقول سب سے پہلے خارج ہونے والے شخص حاطب بن عمر تھے (2) يا سليط بن عمرو (3) نيز ابوسلمہ كے بارے ميں بھى اسى قسم كا قول موجود ہے_

ابوموسى نے حبشہ كى جانب ہجرت نہيں كي
امام احمد نے (حسن و غيرہ كى سند كے ساتھ) اوردوسروں نے بھى روايت كى ہے كہ ابوموسى اشعرى حبشہ كى طرف پہلى بار ہجرت كرنے والوں ميں شامل ہے_ (4) ليكن بظاہر يہ بات يا تو غلط فہمى كا نتيجہ ہے يا راوى نے عمداً غلط بيانى كى ہے كيونكہ ابوموسى ہجرت كے ساتويں سال مدينے ميں مسلمان ہوا تھا_ كہتے ہيں كہ وہ پيغمبر(ص) اسلام كے پاس جانے كيلئے نكلے ليكن ان كى كشتى نے انہيں حبشہ پہنچاديا اور وہ حبشہ كے مہاجرين كے ساتھ ساتويں ہجرى ميں مدينہ آئے (5) اس سے ظاہر ہوتاہے كہ يہ ہجرت مدينہ كے بعد كا واقعہ ہے كيونكہ يہ نہيں ہوسكتا كہ وہ آپ(ص) كے پاس مكہ آنے كيلئے چلتے اور پندرہ سال حبشہ ميں ٹھہرتے بظاہر ابوموسى اشعرى مہاجرين حبشہ كے ساتھ واپسى كے راستے ميںآن ملے تھے كيونكہ عسقلانى نے كہا ہے : '' اس كى كشتى جناب
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الاصابة ج 2ص 335نيز رجوع كريں ج 4ص 459اور 458نيز الاستيعاب (حاشيہ الاصابہ پر) ج 2ص 338از مصعب الزبيرى و تہذيب الاسماء و اللغات ج 2ص 362واسد الغابة ج 3ص 196از ابى عمر و ابن منزہ اور السيرة الحلبيہ ج 1ص 323 _
2_ الاصابة ج 1 ص 301 اور السيرة الحلبية ج 2 ص 323_
3_ السيرة الحلبية ج 1ص 323 _
4_ رجوع كريں: سيرة ابن ہشام ج 1ص 347، البداية و النہاية ج 3ص 67، 69، 70 نے ابن اسحاق، احمد اور ابونعيم كى الدلائل سے نقل كيا ہے_ السيرة النبوية( ابن كثير) ج 2ص 7اور ص 9، فتح البارى ج7ص 143، مجمع الزوائد ج 6ص 24 از طبرانى اور نيز حلية الاولياء ج 1 ص114 _
5_ رجوع كريں السيرة النبوية (ابن كثير) ج 2ص 14اور البداية و النہاية ج 3ص 71_

79
جعفر بن ابوطالب كى كشتى سے ملى اور وہ سب اكٹھے آئے''(1)

مہاجرين كے ساتھ عمر كا رويہ
كہتے ہيں كہ جب مسلمان ہجرت حبشہ كى تيارى ميں مصروف تھے تو حضرت عمر نے ان كو ديكھا يوں ان كا دل پسيجا اور وہ محزون ہوئے (2) ليكن يہ بات درست نہيں كيونكہ وہ لوگ تو خاموشى سے چھپ كر نكلے تھے_ ان ميں سے بعض پيدل تھے اور بعض سواريہاں تك كہ ساحل سمندر تك پہنچ گئے، وہاں انہوں نے ايك كشتى ديكھى اور جلدى سے اس ميں سوار ہوگئے_ ادھر قريش ان كے تعاقب ميں ساحل تك پہنچے ليكن وہاں كسى كو نہيں پايا_ (3) اس كے علاوہ حضرت عمركى وہ سخت گيرى اور قساوت بھى ملحوظ رہے جس كى نسبت (ہجرت حبشہ سے قبل اور ہجرت حبشہ كے بعد) ان كى طرف دى جاتى ہے اور يہ بات مذكورہ بالاقول كے ساتھ ہماہنگ نہيں ہے_

حضرت ابوبكر نے ہجرت نہيں كي
كہتے ہيں كہ جب مكے ميں بچے ہوئے مسلمانوں پر سختيوں ميں اضافہ ہوا اور حضرت ابوبكر كيلئے مكے ميں زيادہ تكاليف كے سبب جينا دوبھر ہوگيا، تو وہ وہاں سے نكل گئے اور حبشہ كى راہ لى اس وقت بنى ہاشم شعب ابوطالب ميں محصور تھے_ جب وہ ''برك الغماد'' كے مقام پر پہنچے (جو مكہ سے پانچ دن كے فاصلے پر يمن كى جانب واقع ہے) تو قبيلہ قارہ كے سردار ابن دغنہ كى ان سے ملاقات ہوگئي ،يہ لوگ قريش كے قبيلہ بنى زہرہ
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الاصابہ ج2 ص 359_
2_ البداية و النہاية ج 3ص 79از ابن اسحاق، مجمع الزوائد ج 6ص 24، مستدرك الحاكم ج 3ص 58، الطبرانى اور السيرة الحلبيہج 1ص 323اور 324 _
3_ السيرة الحلبية ج 1ص 324، تاريخ الخميس ج1ص 288اور 289از المنتقي، الطبرى ج 2ص 69البدء و التاريخ ج 4ص 149و اعلام الورى ص 43 ويعقوبى ج 2ص 29اور ابن قيم كى زاد المعاد ج 2ص 44_

80
كے حليف تھے_ ابن دغنہ نے كہا:'' اے ابوبكر كہاں كا ارادہ ہے؟'' وہ بولے :''ميرى قوم نے مجھے نكال ديا ہے چنانچہ ميرا ارادہ ہے كہ ميں دنيا ميں پھروں اور اپنے رب كى عبادت كروں''_ ابن دغنہ نے كہا:'' اے ابوبكر تم جيسوں كو نكالانہيں كرتے، تم محروموں كى مدد كرتے ہو''_ يہاں تك كہ كہا:'' اب لوٹ جاؤ ميں تمہيں پناہ ديتا ہوں'' يوں حضرت ابوبكر ابن دغنہ كے ساتھ واپس ہوئے، ابن دغنہ نے رات كو قريش كے بزرگوں كے ہاں جاكر بتايا كہ اس نے حضرت ابوبكر كو پناہ دى ہے قريش نے اس شرط كے ساتھ اسے قبول كيا كہ وہ اپنے رب كى اعلانيہ عبادت نہ كريں بلكہ اپنے گھر ميں عبادت كيا كريں_
ليكن حضرت ابوبكر نے كچھ عرصے بعد بنى جمح كے ہاں اپنے پڑوس ميں ايك مسجد تعمير كى وہاں وہ نمازيں پڑھتے اور قرآن كى تلاوت كرتے تھے، مشركين كى عورتيں اور بچے ان كى تلاوت سننے كيلئے جمع ہوتے تھے حتى كہ ازدحام كى وجہ سے وہ ايك دوسرے كے اوپر گر پڑتے تھے_ حضرت ابوبكر كى آواز سريلى اور ان كا چہرہ خوبصورت تھا_مشركين نے ابن دغنہ سے اس مسئلے ميں استفسار كيا چنانچہ ابن دغنہ حضرت ابوبكر كے پاس آيا اور امان كى شرائط كو نبھانے كا مطالبہ كيا ليكن حضرت ابوبكر نے اس كى امان سے نكلنے كا فيصلہ كرليا_ (1)
ہمارے نزديك يہ بات مشكوك ہے كيونكہ اس سے قطع نظر كہ :
ا_ جناب ابوبكر كو قوم سے نكال ديئے جانے كا مطلب ان كى ہجرت نہيں ہے ليكن ان كے الفاظ سے يہى ظاہر ہوتاہے_
2_ يہ روايت فقط حضرت عائشه سے مروى ہے اور خود يہ ايك عجيب بات ہے اسلئے كہ وہ لوگ يہ كہتے ہيں كہ اس وقت وہ بہت چھوٹى تھيں لہذا ان امور كى تمام جزئيات كو درك نہيں كرسكتى تھيں ليكن اگر ہم فرض
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں السيرة النبوية (دحلان) ج 1ص 127،128، و سيرت ابن ہشام ج2ص 12،13، شرح نہج البلاغہ ج 13ص 267، المصنف ج 5ص 385،386، البداية و النہاية ج 3ص 94،95 اور تاريخ الخميس ج 1ص 319و 320ميں مذكور ہے كہ يہ بعثت كے تيرہويں سال كا واقعہ ہے_ نيز رجوع كريں حيات الصحابہ جلد 1ص 276،277نے بخارى ص 552سے نقل كيا ہے_

81
بھى كرليں كہ ان كى عمر ان كى بيان كردہ مقدار سے كافى زيادہ تھى (جيساكہ ہم آگے چل كر اشارہ كريں گے) ليكن يہ بھى معلوم نہيں كہ انہوں نے كس سے حديث نقل كى ہے _ اور يہ دعوى كہ كسى صحابى كى مرسل روايت اس كے كمزور ہونے كا سبب نہيں ہے كيونكہ ايك صحابى دوسرے صحابى سے نقل كرتاہے اور تمام صحابہ عادل ہيں بھى صحيح نہيں ہے كيونكہ ان سب كى عدالت كے متعلق ہم نے اپنى كتاب '' دراسات و بحوث فى التاريخ والاسلام '' كى دوسرى جلد ميں '' صحابہ كتاب و سنت كى نظر ميں'' كے تحت عنوان ثابت كيا ہے كہ يہ صحيح نہيں ہے اور يہ دعوى بھى صحيح نہيں ہے كہ ايك صحابى دوسرے صحابى سے ہى نقل كرتاہے كيونكہ ہوسكتاہے كہ ايك صحابى كسى غير صحابى سے بھى روايت نقل كرے ، جس طرح كہ ابوہريرہ نے كعب الاحبار سے نقل كيا ہے (1)
بہر حال اگر ان تمام چيزوں سے چشم پوشى كر بھى ليں تو پھر بھى درج ذيل نكات قابل غور ہيں:
پہلانكتہ: روايت صريحاً كہتى ہے كہ ابن دغنہ قريش كے قبيلہ بنى زہرہ كا حليف تھا اس صورت ميں اس نے حضرت ابوبكر كو قريش كى مخالفت ميں پناہ دى جبكہ كوئي حليف اس قسم كى پناہ نہيں ديتا جيساكہ ان لوگوںكے بقول اخنس بن شريق نے ايسا كرنے سے انكار كيا تھا جب رسول(ص) الله نے مكہ ميں داخل ہونے كيلئے اس سے پناہ مانگى تھي_ (2)
دوسرانكتہ: ابن دغنہ كى امان كو رد كرنے كے بعد قريش نے حضرت ابوبكر كو اذيت كيوں نہيں دى يا مكہ سے كيوں نہيں نكالا _اگر كوئي يہ كہے كہ اس كے قبيلے والوں كى حمايت كے سبب ايسا نہيں ہوسكا تھا تو سوال يہ ہے كہ يہ حمايت پہلے كيوں نہيں ہوئي اور اگر حضرت ابوبكر سے تعرض نہ كرنے كى وجہ يہ ہوتى كہ ابن دغنہ نے قريش كو ہجرت ابوبكر كى تعريف كر كے رام كرليا تھا ، تو يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ اس سے قبل ہى تعريف
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ملاحظہ ہو : شيخ محمود ابوريہ كى كتاب شيخ المضيرہ، سيد شرف الدين كى كتاب ابوہريرہ اور ملاحظہ ہو كعب الاحبار كا تعارف سير اعلام النبلاء ج 3 ص 490 و غيرہ ميں_
2_ اعلام الورى ص 55، البحار ج 19ص 7از قمي، سيرة ابن ہشام ج 2ص 20، البداية و النہاية ج 3 ص 137، السيرة الحلبية ج 1ص 360، السيرة النبوية (دحلان) ج 1ص 142اور بہجة المحافل ج 1 ص126 _

82
كے ذريعہ ايسا كيوں نہ ہوا؟ تاكہ حضرت ابوبكر كو پناہ ڈھونڈنے كى ضرورت بھى پيش نہ آتي_
تيسرانكتہ: اسكافى نے اس واقعے كے دعويدار جاحظ كے دعوى كو يہ كہہ كر رد كيا ہے كہ بنى جمح عثمان بن مظعون كو كيسے ستا سكتے تھے؟ حالانكہ وہ ان كے ہاں صاحب سطوت وجلالت تھے_ اور ابوبكر كو كيسے آزاد چھوڑ سكتے تھے تاكہ وہ مسجد بنائے اور اس ميں وہ امور انجام دے جن كاتم لوگوں نے ذكر كيا ہے، جبكہ خود تم ہى لوگوں نے ابن مسعود سے نقل كيا ہے كہ اس نے كہا ہم نے اس وقت تك اعلانيہ نماز نہيں پڑھى جب تك حضرت عمرنے اسلام قبول نہ كيا اور يہ جو تعمير مسجد كى بات كرتے ہو وہ حضرت عمر كے مسلمان ہونے سے پہلے كى ہے_
رہا حضرت ابوبكر كى خوش الحانى اور خوبروئي كے بارے ميں تمہارا بيان تو يہ كيسے ہوسكتا ہے جبكہ واقدى اور دوسروں نے روايت كى ہے كہ حضرت عائشه نے ايك عرب كو ديكھا جس كى داڑھى كم تھى اس كا چہرہ پچكا ہوا تھا آنكھيں اندر كو دھنسى ہوئي تھيں پشت كا كبڑا تھااور اپنى تہبند سنبھال نہيں سكتا تھا اسے ديكھ كر حضرت عائشه نے كہا ميں نے اس شخص سے زيادہ حضرت ابوبكر كے مشابہ كسى كو نہيں ديكھا _ميرے خيال ميں يہاں حضرت عائشه نے حضرت ابوبكر كى كوئي اچھى صفت بيان نہيں كي_(1)
اسكافى كے بيان كى تصديق مقدسى كى اس بات سے ہوتى ہے، وہ كہتا ہے كہ انہيں چہرے كى وجاہت كے باعث عتيق كہتے تھے_ اس كے بعد وہ كہتا ہے كہ اس كى رنگت سفيد تھي، لب سرخ تھے بدن كمزور تھاداڑھى ہلكى تھى چہرے كى ہڈياں ابھرى ہوئي آنكھيں اندر كو دھنسى ہوئي پيشانى اور ہاتھ كى رگيں ابھرى ہوئي اور كمر جھكى ہوئي تھى اپنا تہبند نہيں سنبھال سكتے تھے اور اسے ڈھيلا چھوڑتے تھے جبكہ وہ مالدار لوگوں ميں سے تھے حضرت ابوبكر كے بارے ميں اسى قسم كى باتيں اور لوگوں نے بھى نقل كى ہيں_ (2) اور يہ بات تو ان كے اس قول كے علاوہ ہے كہ ابوبكر كو عتيق كا لقب رسول اللہ(ص) كے اس فرمان '' ہذا عتيق من النار'' ( يہ جہنم سے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ شرح نہج البلاغہ (معتزلي) ج 13ص 268از اسكافي_
2_ البدء و التاريخ ج 5ص 76،77، تاريخ الخميس ج 2ص 199اور تاريخ طبرى ج 2ص 615

83
آزاد شدہ ہے) كى وجہ سے ملا _ جبكہ اس سے پہلے ان كا نام عبداللہ بن عثمان تھا (1) اور يہ بات خوبصورتى كى وجہ سے عتيق كہلانے والى بات كى منافى ہے_
چوتھانكتہ: روايت نے صريحا كہا ہے كہ حضرت ابوبكر نے بنى جمح ميں ايك مسجد تيار كى ليكن انہى روايت كرنے والے افراد كا كہنا ہے كہ اسلام كى سب سے پہلى مسجد، مسجد قبا ہے_ (2) وہ يہ بھى كہتے ہيں كہ عمار نے اسلام كى سب سے پہلى مسجد بنائي_ (3)
بعض لوگوں نے اس كا جواب يوں دينے كى كوشش كى ہے كہ قبا مدينے ميں بننے والى پہلى مسجدہے اور عمار نے سب سے پہلے ايك عام مسجد بنائي (4)
ليكن جواب دينے والا يہ بھول گيا كہ مذكورہ قول ( مسجد قبا كے اسلام كى پہلى مسجد ہونے) سے پہلى بات (حضرت ابوبكر كے نبى جمع ميں مسجد بنانے )كى نفى ہوتى ہے اور اس قول سے كہ سب سے پہلى مسجد عمار نے بنائي دوسرى بات (مسجد قبا كے اسلام كى پہلى مسجد ہونے) كى نفى ہوتى ہے جيساكہ وہاں صريحا كہا گيا ہے كہ انہوں نے سب سے پہلے اپنے گھر ميں ايك مسجد بنائي جس ميں وہ عبادت كيا كرتے تھے_ (5)
پانچواں نكتہ: حضرت ابوبكر كو بنى جمح ميں مسجد بنانے كى كھلى چھٹى كيسے ملي؟ بنى جمح والوں نے اس خطرے پر اعتراض كيوں نہيں كيا؟ تيميوںنے حضرت ابوبكر كى ان عظيم خصوصيات كا كيونكر ادراك نہ كيا اور انہيں (ان كے بقول) ابن دغنہ نے سمجھ ليا تھا؟ كيا صرف ابن دغنہ نے ان صفات كا ادراك كيا؟ نيز قريش نے حضرت ابوبكر كى ان صفات كا لحاظ كيوں نہيں كيا جن كا انہوں نے بعد ميں اعتراف كيا اور كيوں حضرت ابوبكر كو نكل جانے ديا؟ بلكہ ان كو اذيتيں ہى كيوں ديں_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ كشف الاستار عن مسند البزار ج 3 ص 163 در مجمع الزوائد ج 9 ص 40_
2_ وفاء الوفاء ج 1ص 250اورالسيرة الحلبية ج 2ص 55 _
3_ السيرة الحلبية ج 2ص 55، طبقات ابن سعد ج 3ص 178،179، تاريخ ابن كثير ج 7ص 311اور الغدير ج 9ص 20 _
4_ سيرة الحلبيہ ج 2ص 55، وفاء الوفاء ج 1ص 250 _
5_ طبقات ابن سعد ج 3 ص 178اور البداية و النہاية ج 7ص 311 اور ملاحظہ ہو سيرہ حلبيہ ج 2 ص 55 كيونكہ اس ميں يہ تصريح كى گئي ہے كہ يہ مسجد، بنانے والے كے ساتھ مخصوص تھي_

84
عثمان بن مظعون كى فضيلت كى چوري
ہميں ظن قوى حاصل ہے كہ بعض لوگوں نے عثمان بن مظعون كى فضيلت كو حضرت ابوبكر كيلئے ثابت كرنے كى كوشش كى ہے كيونكہ مورخين كے بقول جب عثمان بن مظعون ہجرت حبشہ كے دوماہ بعد وہاں سے لوٹنے والوں كے ساتھ لوٹے تو خلاف توقع يہ مشاہدہ كيا كہ مشركين اوررسول(ص) الله كا مسئلہ جوں كاتوں ہے تو وہ وليدبن مغيرہ كى امان ميں داخل مكہ ہوئے_
ليكن جب انہوں نے مسلمانوں كو مصائب وتكاليف ميں مبتلا ديكھاجبكہ خود انہيں امان حاصل تھى تو يہ بات ان پر شاق گزرى _بنابريں وہ وليد كے پاس گئے اور اس كى امان ميں رہنے سے انكار كرديا_ وليد نے كہا:''اے بھتيجے كيا تجھے ميرى قوم كے كسى فردنے ستايا ہے؟ ''بولے:'' نہيں بلكہ ميں ترجيح ديتا ہوں كہ خدا كى پناہ ميں رہوں اور اس كے سوا كسى سے پناہ نہ مانگوں ''_وليدنے كہا پس مسجدجاؤ اور ميرى پناہ سے نكلنے كا اعلانيہ اظہار كرو جس طرح ميں نے تجھے اعلانيہ پناہ دى ہے''_چنانچہ وہ اس كے ساتھ مسجد گئے اور مسجد ميں اس كى امان سے نكل جانے كا اعلان كيا_ (1)

قريش كى مايوسانہ كوشش
جب قريش ہجرت حبشہ كے سبب لگنے والے اچانك دھچكے سے كچھ سنبھل گئے اور ديكھا كہ مسلمان حبشہ ميں بس گئے ہيں اور وہاں امن و سكون سے زندگى گزار رہے ہيں،(2) تو انہوں نے سازش كى اور يہ فيصلہ كيا كہ دو آدمى مہاجرين كو لوٹانے كيلئے روانہ كئے جائيں _اس سلسلے ميں ان كى نظر انتخاب عمرو بن عاص پرپڑى اور بقولے عمارہ بن وليدبھى منتخب ہوا _چنانچہ قريش نے ان دونوں كو نجاشى اور اس كے سرداروں كيلئے تحائف كے ساتھ حبشہ بھيجا (راستے ميں عمارہ اور عمرو كے درميان ايك دلچسپ واقعہ پيش آيا جو عمرو بن عاص كى بيوي
--------------------------------------------------------------------------------
1_ البداية و النہاية ج 3ص 92اس واقعے كا ذكر تاريخ كى متعدد بنيادى كتابوں ميں ہوا ہے بنابرين تعداد كے ذكر كى ضرورت نہيں ہے_

2_ سيرت مغلطاى ص 22 _
85
اور عمارہ كے درميان عاشقى سے مربوط ہے عمرو نے مناسب موقع پر عمارہ كو پھنسانے كيلئے وقتى طور پر چشم پوشى كرلي) ان دونوں نے نجاشى كے پاس يہ دعوى كيا كہ ہمارے كچھ سر پھرے جوانوں نے تمہارى سرزمين ميں پناہ لى ہے انہوں نے اپنے آبائي دين كو خير باد كہہ ديا ہے اور تمہارے دين ميں بھى داخل نہيں ہوئے ہيں _وہ ايك جديد اور خودساختہ دين كے پيرو بن گئے ہيں جو تمہارے دين كے مطابق ہے نہ ہمارے_ ہميں ان كى قوم كے بزرگوں نے (جن ميں ان كے باپ، چچے اور اہل قبيلہ شامل ہيں) تمہارى خدمت ميں بھيجا ہے تاكہ تم ان لوگوں كو واپس بھيج دو_
نجاشى نے عمرو اور عمارہ كے مدعا كے بارے ميں تحقيق كرنے سے پہلے مسلمانوں كو ان كے حوالے كرنے سے انكار كرديا _چنانچہ مسلمان حاضر كئے گئے اور نجاشى نے ان سے سوالات كئے_ اس كے جواب ميں جناب جعفر بن ابوطالب(ع) نے فرمايا:''اے بادشاہ ہم جاہل اور بت پرست تھے، مردار كھاتے تھے، بدكاريوں ميں مشغول رہتے تھے، قطع رحم كرتے تھے، ہمسايوں كے ساتھ بدسلوكى كرتے تھے، اور كمزوروں كے حقوق كو پامال كرتے تھے يہاں تك كہ الله نے ہم ميں سے ايك شخص كورسول بناكر بھيجا _ہم اس كے نسب، اس كى صداقت، امانت اور پاكدامنى سے خوب آگاہ ہيں_اس نے ہميں خدا كى طرف بلايا تاكہ ہم اس كى وحدانيت كا اقرار كريں، اس كى عبادت كريں، اس كے سوا كسى كى پرستش نہ كريں اور جن پتھروں اور بتوں كى پوجا ہم اور ہمارے آباء واجداد كرتے تھے انہيں ترك كريں_
اس نے ہميں سچ بولنے، امانت كو ادا كرنے، صلہ رحمى كرنے، ہمسائے كے ساتھ نيكى كرنے اور حرام چيزوں اور خونريزى سے اجتناب كرنے كا حكم ديا _اس نے ہميں بدكارى كرنے، جھوٹ بولنے ، يتيموں كا مال كھانے اور پاكدامن عورتوں پر ناروا الزام لگانے سے منع كيا اور حكم دياكہ ہم خدائے واحد كى عبادت كريں، كسى كو اس كا شريك نہ ٹھہرائيں اور نماز، زكواة اور روزہ كا بھى حكم ديا ... ''_ (1)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ مختلف منابع ميں زكوة اور روزے كا ذكر ہوا ہے_ رجوع كريں سيرت ابن ہشام ج 1ص 360 و السيرة النبوية (ابن كثير) ج 2 ص 21، الكامل ابن كثير ج 2ص 80 (اس نے زكوة كا ذكر نہيں كيا)، نيز اعلام الورى ص 44 (روزہ كے ذكر كے بغير)، البداية و النہاية ج 3ص 74، تاريخ الخميس ج1ص 290، السيرة الحلبية ج1 ص 340 (بقيہ مآخذ كا ذكر نماز اور زكوة كے مدينے ميں واجب ہونے كى بحث كے دوران ہوگا_ غزوہ بدر كے ذكر سے پہلے)_

86
اس كے بعد حضرت جعفر (ع) نے نجاشى كے دربار ميں سورہ كہف كى بعض آيات كى تلاوت كى جنہيں سن كر نجاشى روپڑا يہاں تك كہ اس كى داڑھى بھيگ گئي _نيز وہاں موجود پادرى بھى روئے ،اس كے بعد نجاشى نے كہا:'' بے شكيہ كلام اور وہ كلام جوعيسى (ع) لے آئے دونوں ايك ہى نورانى سرچشمہ سے پھوٹے ہيں_ تم دونوں چلے جاؤ خدا كى قسم ميں انہيں تمہارے حوالے نہيں كروں گا''_
دوسرے دن عمرو نجاشى كے پاس يہ بتانے گيا كہ مسلمانوں كے عقيدے كے مطابق عيسي(ع) بن مريم انسان ہيں_ نجاشى نے مسلمانوں كو بلاكر پوچھا تو حضرت جعفر(ع) نے اس سے كہا: '' ہم عيسى (ع) كے بارے ميں وہى كہتے ہيں جو ہمارے نبي(ص) نے كہا ہے ،وہ بندہ خدا ہيں اس كے رسول(ص) ، اس كى روح اور اس كا وہ كلمہ ہيں جسے خدانے پاكدامن مريم كو عطاكيا''_ يہ سن كر نجاشى نے كہا خدا كى قسم عيسي(ع) كا مقام اس سے زيادہ نہ تھا جو تم نے بيان كيا ... بادشاہ كى بات كو درباريوں اور امراء نے نا پسند كيا،ليكن نجاشى نے كہا :''اگرچہ يہ بات تم لوگوں كو پسند نہ آئے''_ پھر (مسلمانوں سے) كہا :'' ... جاؤ تمہيں امان حاصل ہے جس نے تمہارى برائي بيان كى وہ خسارے ميں رہا''_ يہ بات اس نے تين بار دہرائي پھر بولا :''ميں سونے كے ايك پہاڑ كے بدلے بھى تم ميں سے كسى ايك كو ستانا قبول نہيں كروں گا''_ اس كے بعد نجاشى نے قريش كے تحائف واپس كرديئے_
نوٹ: كچھ لوگ اس روايت كے جعلى ہونے كا احتمال ديتے ہيں اور كہتے ہيں كہ اس ميں روزے كا ذكرہے حالانكہ روزہ مدينہ ميں واجب ہوا_ (1)
ليكن يہ احتمال باطل ہے كيونكہ روزہ، اور زكواة وغيرہ كا حكم مكہ ميں ہى نازل ہوا انشاء الله ہجرت كے بعد كے واقعات ميں اس مسئلے پر روشنى ڈاليں گے اور ثابت كريں گے كہ مذكورہ نظريہ (كہ روزہ كا حكم مدينہ ميں نازل ہوا) باطل ہے لہذا فى الحال اس مسئلے پر بحث نہيں چھيڑتے كيونكہ مورخين اس كا تذكرہ وہاں كرتے ہيں_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ فجر الاسلام( احمد امين) ص 76_

87
محقق محترم روحانى صاحب كانظريہ ہے كہ احمد امين اور اس كے ہم خيال افراد كى بے بنياد تحقيقات كا اصلى مقصداس پہلو كو مشكوك كرنا ہے جس سے حضرت جعفر(ع) كى مردانگي، جرا ت، حكمت، عقل اور ہوش كا اظہار ہوتا ہے_
اس قسم كى نا انصافى حضرت جعفر(ع) كے بارے ميں دوسرے مقام پر بھى ہوئي ہے يعنى جنگ موتہ ميں سپہ سالار ہونے كے بارے ميں _كچھ لوگوں كو اس بات سے نہايت دلچسپى ہے كہ حضرت جعفر كى بجائے زيد بن حارثہ كو لشكر اسلام كا پہلا سپہ سالار ثابت كرسكيں_
وجہ صرف يہ ہے كہ حضرت جعفر(ع) حضرت علي(ع) كے بھائي ہيں، اس سلسلے ميں ہمارى كتاب ''دراسات وبحوث فى التاريخ والاسلام''كى جلداول ميں اس مقالے كى طرف رجوع كريں جس كا موضوع ہے جنگ موتہ كا پہلا سپہ سالار كون تھا؟_

قريش اور مستقبل كے منصوبے
حقيقت يہ ہے كہ ہجرت حبشہ قريش كيلئے ايك كارى ضرب ثابت ہوئي جس نے ان كے اوسان خطا كرديئے اور ان كے وجود كو ہلاكر ركھ ديا_ لہذا انہوں نے خطرات كى روك تھام كيلئے كوششيں كيں، چنانچہ قريش نے مسلمانوں كا پيچھا كيا تاكہ انہيں حبشہ سے لوٹاكر اپنے زير تسلط ركھيں، ليكن پانى سر سے گزرچكا تھا_ جب قريش نے محسوس كيا كہ حالات ان كے قابوسے باہر ہو رہے ہيں تو ان كواپنى پاليسيوں پر نظرثانى كى ضرورت محسوس ہوئي_ اس كى وجوہات درج ذيل تھيں:
1) انہوں نے ديكھا كہ مختلف قبائل ميں موجود مسلمانوں كو سزائيں دينے كا كوئي خاطر خواہ نتيجہ نہيں نكل رہا بلكہ اس سے الٹا اندرونى اختلافات اور خانہ جنگى كو ہوا لگنے كا احتمال ہے_
يہ بات قريش كى شہرت وعزت كيلئے سخت خطرناك تھي_ نيز ہر قبيلہ اس بات پر بھى راضى نہ تھا كہ وہ اپنے اندر موجود مسلمانوں كاصفايا كرے كيونكہ وہ قبائلى طرزفكر ركھتے تھے اور اس كے مطابق فيصلے كرتے چلے

88
آرہے تھے،يہاں تك كہ حضرت محمد(ص) اور آپ كے مشن كى مخالفت پر اتفاق كے باوجود بھى قبائلى طرزفكر مذكورہ امركى راہ ميں ركاوٹ بنا رہا_ اس قبائلى طرز تفكر كى يہى مثال كافى ہے كہ انہوں نے فيصلہ كيا تھا كہ ہر قبيلے كے مسلمانوں كو وہى قبيلہ سزادے گا ،كوئي دوسرا قبيلہ مداخلت نہيں كرے گا_
2) قريش ديكھ رہے تھے كہ حضرت محمد(ص) كى دعوت ايك عالم گير پيغام بن كر اُبھر رہى ہے جو مكہ وحجاز كے لوگوں سے مختص نہيں اور مسلمانوں كى حبشہ كى طرف ہجرت فقط سزاؤں سے فرار كرنے كى غرض سے نہ تھى كيونكہ ہجرت كرنے والوں ميں بہت سے افراد ايسے تھے جن كو اذيتيں نہيں دى گئي تھيں اور ايك خاص بات يہ تھى كہ مہاجرين مكہ كے مختلف قبائل سے تعلق ركھتے تھے_اس لئے وہ خاص طور پر اسلام اور مسلمانوں كى طرف سے حاصل ہونے والے كسى مناسب موقع كى تلاش ميں تھے كيونكہ ہر ايك كے لئے واضح ہوگيا تھا كہ مكہ كے مسلمانوں كا مرجانا اسلام كے خاتمہ كى نشانى نہيں ہے_
3) قريش يہ بھى مشاہدہ كررہے تھے كہ مسلمانوں كے اس طرح ہجرت كرنے اور انكے تسلط سے خارج ہونے كے نتيجے ميں ان كو مستقبل قريب ميں ايك ہمہ گير مخالفت كا سامنا كرنا پڑے گا اوران كے مفادات كو سخت خطرہ لاحق ہوگا_ ہم ديكھتے ہيں كہ حضرت ابوذر نے تن تنہا قريش كا ناطقہ بندكرديا تھا جب وہ عسفان نامى مقام پر قافلوں كى گزرگاہ پر بيٹھے رہتے اور وہاں سے گزرنے والے كاروانوں كوروكے ركھتے (اور سمجھاتے تھے) يہاں تك كہ وہ لاالہ الا الله محمد(ص) رسول الله نہ كہہ ديتے_ حضرت ابوذر جنگ احد كے بعد تك اسى روش پر قائم رہے جب حضرت ابوذر نے قريش كے ساتھ اس قدر سختى كى جبكہ وہ جانتے تھے كہ قريش كيلئے ان سے نپٹنا آسان تر تھا كيونكہ وہ قريش كى سرزمين كے اندر موجود تھے _نيز حضرت ابوذر كى جلد گرفتارى اور ان كى سرگرميوں پر پابندى بھى آسان تھى اسلئے كہ وہ قريش كے دوستوں اور تابعداروں كے درميان موجود تھے_ علاوہ برايں حضرت ابوذر ان لوگوں كى نظر ميں ايك اجنبى اور انتہا پسند شخص تھے _خلاصہ يہ كہ جب ايك حضرت ابوذر كے سامنے ان كى يہ حالت تھى تو پھر ان مسلمانوں كا (جن كا تعلق خود قريش سے تھا) ان كے تسلط اور اثر ونفوذ سے دور حبشہ ميں امن وسكون كے ساتھ رہنا قريش اور ان كے مفادات كيلئے
89 نہايت خطرناك تھا_ يہ حقيقت قريش كو صبر وحوصلے اور بہتر منصوبہ بندى كے ساتھ كام كرنے پر مجبور كرتى تھي، خصوصاً ان حالات ميں جبكہ شيخ الابطح حضرت ابوطالب (ع) كى حمايت اور ابولہب ملعون كے علاوہ ديگر ہاشميوں كى حمايت كى بنا پر وہ حضور(ص) كاخاتمہ كرنے يا ان كو خاموش كرنے كى تدبير نہ كرپاتے تھے_
لہذا انہوں نے نجاشى كے پاس اپنے دو نمائندے بھيجے تاكہ وہ مہاجرين كو واپس بھيج دے ليكن انہيں ناكامى اور سيہ روئي كے ساتھ واپس ہونا پڑا _اس كے بعد قريش نے باقى ماندہ مسلمانوں پر نئے سرے سے مظالم ڈھانے كا سلسلہ شروع كيا_انہوں نے نبى اكرم(ص) كو ستانے اور آپ(ص) كا مذاق اڑانے كيلئے آپ(ص) پر ساحر ومجنون اور كاہن ہونے كى تہمت لگائي نيز مختلف قسم كے نفسياتى حربوں سے كام لينے لگے_

نجاشى كے خلاف بغاوت
حبشہ ميں مسلمانوں كى موجودگى نجاشى كيلئے كئي ايك مشكلات كا سبب بني، كيونكہ اہل حبشہ نے اس پريہ الزام لگايا كہ وہ ان كے دين سے خارج ہوگيا ہے_ يوں اس كے خلاف بغاوت ہوئي ليكن نجاشى اپنى فہم وفراست كے باعث بغاوت كى آگ بجھانے ميں كامياب رہا اور مسلمان اس كے پاس نہايت امن وسكون كى زندگى گزارتے رہے ،يہاں تك كہ وہ نبى كريم (ص) كے ہجرت مدينہ كے بعد مدينہ چلے گئے (جس كا آگے چل كر تذكرہ ہوگا)_
محمد بن اسحاق نے امام جعفر صادق(ع) سے اور انہوں نے اپنے والد گرامي(ع) سے نقل كيا ہے كہ حبشہ والوں نے مل كر نجاشى سے كہا كہ تم ہمارے دين سے نكل گئے ہو اس طرح انہوں نے اس كے خلاف بغاوت كي_ نجاشى نے حضرت جعفر اور ديگر مہاجرين كيلئے كشتيوں كا بندوبست كيا اور كہا :'' ان ميں سوار ہوجاؤ اور بدستور يہيں رہو اگر مجھے شكست ہوئي تو جہاں چاہو چلے جاؤ ليكن اگر مجھے كاميابى ہوئي تو يہيں رہو'' اس كے بعد وہ باغيوں كے پاس گيا اور ان سے بحث كى ،نتيجتاً وہ متفرق ہوكر چلے گئے_ (1)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرت ابن ہشام ج 1ص 365و البداية و النہاية ج3ص 77و سيرت حلبى ج 2ص 202_

90
يہ واقعہ قريش كى طرف سے عمرو اور عمارہ كو حبشہ بھيجنے سے پہلے كا ہے كيونكہ نجاشى نے ان دونوں سے كہا تھا، خداكى قسم اس (الله ) نے مجھے حكومت واپس كردى ليكن مجھ سے اس كے بدلے كچھ نہيں ليا_ اس نے ميرے بارے ميں لوگوں كى بات نہيں مانى پس ميں اس كے بارے ميں لوگوں كى بات كيونكرمانوں؟ ان كے تحائف واپس كردو مجھے ان كى كوئي ضرورت نہيں اور تم دونوں ميرى سرزمين سے نكل جاؤ پس وہ دونوں بے آبرو اور ناكام ہوكر واپس لوٹے_ (1)

بعض مہاجرين كى واپسي
حبشہ ميں مسلمانوں كو خبر ملى كہ مكہ ميں وقتى طورپر صلح ہوگئي ہے _ادھر مسلمانوں نے يہ بھى ديكھاكہ ان كے باعث نجاشى كو كيا كيا پاپڑ بيلنے پڑے_ چنانچہ بعض مسلمانوں نے دو يا تين ماہ بعد مكہ واپسى كى ٹھانى اورتيس سے زيادہ افراد واپس ہوئے جنميں سے عثمان بن مظعون كو وليد بن مغيرہ نے پناہ دى _ حضرت عثمان كى طرف سے وليد كى پناہ سے نكل جانے اور امان الہى پر اكتفا كرنے كا واقعہ گزرچكا ہے_
حبشہ سے بعض مسلمانوں كى واپسى كى وجہ صرف يہى تھى نہ افسانہ غرانيق جسے اسلام دشمنوں نے گھڑا ہے اورہم اس پر بحث كرنے والے ہيں_

غرانيق كا افسانہ (2)
اس خودساختہ كہانى كا خلاصہ يہ ہے كہ ہجرت حبشہ كے دوماہ بعد رسول(ص) خدانے مشركين كے ساتھ ايك نشست ركھي_ اتنے ميں خداكى طرف سے سورہ نجم نازل ہوئي ،آپ(ص) نے اس كى تلاوت شروع كى يہاں
--------------------------------------------------------------------------------
1_ البداية و النہاية ج 3ص 75از ابن اسحاق اور سيرت ابن ہشام ج 1ص 362 _
2_ غرانيق غرنوق كى جمع ہے يعنى آبى پرندے چونكہ پرندے بہت بلندى پر پرواز كرتے ہيں اسلئے بتوں كو ان سے تشبيہہ دى گئي ہے تاكہ بتوں كى عظمت ظاہر ہو نيز غرنوق سفيد اور خوبصورت جوانوں كو بھى كہتے ہيں_

91
تك كہ جب آپ(ص) اس آيت پر پہنچے (افرا يتم اللات والعزى ومناة الثالثة الاخري) تو شيطان نے آپ(ص) كے دل ميں دوباتيں ڈاليں اور آپ(ص) نے ان دونوں باتوں كو وحى الہى سمجھتے ہوئے زبان پر جارى كرديا_وہ دو جملے يہ ہيں (تلك الغرانيق العلى وان شفاعتھن لترتجي) يعنى يہ بلند مرتبہ غرانيق ہيں جن كى شفاعت مقبول ہے_ اس كے بعد آپ(ص) نے بقيہ آيات پڑھيں جب سجدے والى آيت پر پہنچے توآپ(ص) نے سجدہ كيا، آپ(ص) كے ساتھ مسلمانوں اور مشركين نے بھى سجدہ كيا ليكن وليدبن مغيرہ نے بڑھاپے يا بقولے تكبر كى بناء پر سجدہ نہ كيا_ اس نے كچھ مٹى اٹھاكر اپنى پيشانى كے قريب كى اور اس پر سجدہ كيا_ ايك قول كى بنا پر يہ شخص سعيد بن عاص تھا نيز كہا گيا ہے كہ وہ دونوں تھے،ايك اور قول كى رو سے وہ شخص اميہ بن خلف تھا ،ابولہب اور مطلّب كے بارے ميں بھى اقوال موجود ہيں_
بخارى نے مسلمانوں كے ساتھ جنوں اور انسانوں كے سجدے كا بھى ذكر كيا ہے_جب يہ خبر مكہ ميں پھيلى تو مشركين نے خوشى منائي يہاں تك كہ بقولے انہوں نے رسول(ص) كوكاندھوں پر اٹھاكر پورے مكے كا چكرلگايا_
جب رات ہوئي تو حضرت جبريل آئے حضور اكرم(ص) نے مذكورہ سورہ دہرايا اوران دوجملوں كو بھى پڑھا حضرت جبريل نے ان كى نفى كى اور كہا آپ(ص) نے خداسے وہ چيز منسوب كى ہے جو اس نے نہيں فرمائي اس وقت خدانے يہ آيت نازل كى (وان كادوا ليفتنونك عن الذى اوحينا اليك لتفترى علينا غيرہ واذا لاتخذوك خليلا ولولا ان ثبتناك لقد كدت تركن اليہم شيئا قليلا اذا لاذقناك ضعف الحياة وضعف الممات ثم لا تجد لك علينا نصيرا) يعنى يہ لوگ كوشاں تھے كہ آپ(ص) كو ہمارى وحى سے ہٹاكر دوسرى باتوں كے افتراء پر آمادہ كريں وہ آپ(ص) سے دوستى گھڑليتے اگر ہمارى توفيق خاص نے آپ(ص) كو ثابت قدم نہ ركھا ہوتا تو آپ(ص) ان كى طرف كچھ نہ كچھ مائل ضرور ہوتے پھر ہم آپ(ص) كو دنيا كى زندگى اور موت دونوں مرحلوں پر دوھرا مزا چكھاتے اور آپ(ص) ہمارے مقابل اپنا كوئي مددگارنہ پاتے_
اس افسانے كى صحت پر درج ذيل آيت سے استدلال كيا گيا ہے (اور دعوى كيا گيا ہے كہ آيت اسى مناسبت سے نازل ہوئي ہے)_
92
ارشاد رب العزت ہے:
(وما ارسلنا من قبلك من رسول و لا نبيّ الا اذا تمنى القى الشيطان فى امنيتہ فينسخ الله مايلقى الشيطان ثم يحكم الله آياتہ واللہ عليم حكيم ليجعل مايلقى الشيطان فتنة للذين فى قلوبہم مرض ...) يعنى اور ہم نے آپ(ص) سے پہلے كوئي رسول يا نبى نہيں بھيجا مگر يہ كہ جب بھى اس نے كوئي نيك آرزو كى تو شيطان نے اس كى آرزؤوں كى راہ ميں ركاوٹ ڈال دى ليكن خدانے شيطان كى ڈالى ہوئي ركاوٹوں كو دور كرديا اور اپنى آيات كو مستحكم بناديا ،وہ نہايت جاننے والا اور صاحب حكمت ہے تاكہ وہ شيطانى القاء كو امتحان قراردے ان لوگوں كيلئے جن كے دلوں ميں مرض ہے_
بعض حضرات كے نزديك اس واقعے كى بعض اسانيد درست ہيں_ (1)
كہتے ہيں كہ جب حبشہ ميں مسلمان مہاجرين نے يہ سنا كہ مكہ ميں قريش اور مسلمانوں كے درميان موافقت اور صلح ہوگئي ہے تو ان ميں سے كچھ لوگ واپس مكہ آگئے ليكن ديكھا كہ صورت حال برعكسہے _ ليكن ہميں يقين ہے كہ يہ روايت جھوٹى اور جعلى ہے بہت سے علماء اس نظريئے ميں ہمارے ہم خيال ہيں_
جب محمد بن اسحاق سے اس بارے ميں سوال ہوا تو اس نے جواب ديا اس كو زنديقوں نے گھڑا ہے_ موصوف نے اس كى رد ميں ايك الگ كتاب بھى لكھى ہے_ (2)
قاضى عبدالجبار نے اس روايت كے متعلق كہا ہے كہ يہ بے بنياد ہے ،اس قسم كى احاديث ملحدين كى سازش كے علاوہ كچھ بھى نہيں ہوسكتيں_ (3)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں: الدر المنثور ج 4ص 194، ص 366اور ص 368، السيرة الحلبية ج1ص 325اور 326، تفسير طبرى ج 17ص 131اور 134، فتح البارى ج 8ص 333اور بخارى نے بھى اصل واقعے كى طرف ايك سے زيادہ بار اشارہ كيا ہے نيز البداية و النہاية ج 3ص 90ميں بھى مذكور ہے_ سيوطى نے در منثور ميں بعض اسانيد كى صحت كى تصريح كى ہے_ رجوع كريں لباب النقول اور تفسير طبري_ مختلف تفاسير ميں بھى يہ واقعہ موجود ہے (مذكورہ آيت كى تفسير كے ضمن ميں) بنابريں مآخذ كى تعداد بيان كرنے كى ضرورت نہيں_
2_ رجوع كريں البحر المحيط ( ابى حيان) ج 6ص 381 _
3_ تنزيہ القرآن عن المطاعن ص 243 _

93
ابوحيان كا كہنا ہے كہ اس نے اپنى كتاب كو اس قصے كے ذكر سے پاك ركھا ہے_ (1)
بيضاوى نے اس كى اسناد پر اعتراض كرتے ہوئے اسے رد كيا ہے نيز بيہقي، نووي، رازي، نسفي، ابن عربى اور سيد مرتضى كا بھى يہى نظريہ ہے_ تفسير خازن ميں لكھا ہے صاحبان علم نے اس واقعے كوبے بنياد قرار ديا ہے_ (2)
عياض كہتے ہيں كہ معتبراحاديث نقل كرنے والوں نے اس روايت كو نقل نہيں كيا ہے اور نہ ہى كسى ثقہ نے اسے درست اور مدلل سندكے ساتھ نقل كيا ہے _ اس قسم كى روايات سے دلچسپى ان مفسرين اور مورخين كو ہے جو ہر قسم كى ضعيف روايت سے بھى شغف ركھتے ہيں اور كتابوں سے ہر صحيح وسقيم روايت كو نقل كرتے ہيں_
قاضى بكربن علاء مالكى نے سچ كہا ہے كہ لوگ بعض ہوا پرست مفسروںكے ہاتھوں پھنس گئے اور ملحدين بھى اسى سے چمٹ گئے حالانكہ اس حديث كے راوى ضعيف اور اس كى اسناد مبہم و منقطع ہيں، نيز اس كے كلمات ميں بھى تضاد ہے_ (3)
ہم اس بات كى تائيد كرتے ہيں كيونكہ:
1) سعيد بن جبير كى سند كے علاوہ اس واقعے كى تمام اسناد يا تو ضعيف ہيں يا منقطع ہيں_(4) سعيد كى روايت بھى مرسل ہے اور اكثر محدثين كے نزديك مرسل كا شمار بھى ضعيف احاديث ميں ہى ہوتا ہے كيونكہ اس بات كا احتمال ہے كہ راوى نے اسے غير ثقہ افراد سے نقل كيا ہو_ (5)
علاوہ برايں اگر ہم حديث مرسل سے استدلال كو صحيح قرار دے بھى ديں تو اس كا فائدہ فقط فرعى مسائل ميںہوگا اعتقادى امور ميں نہيں_ جبكہ يہاں ہمارى بحث اعتقادى مسئلے ميںہے جسں ميں قطعى دليل كي
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تفسير البحر المحيط ج 2ص 381 _
2_ السيرة الحلبية ج 1ص 91، الہدى الى دين المصطفى ج 1ص 130، الرحلة المدرسية ص 38، فتح البارى ج 8ص 333 اور تفسير رازى ج 23ص 50 _
3_ الشفاء ج 2ص 126، مطبوعہ عثمانيہ اور المواہب اللدنيہ ج1 ص 53_
4_ فتح البارى ج 8ص 333 _
5_ رجوع كريں مقدمہ ابن صلاح ص 26 _

94
ضرورت ہے_ ان باتوں سے قطع نظر اس قصے كے اسناد كے مطالعے سے پتہ چلتا ہے كہ ان كى اسناد يا كسى تابعى پر ختم ہوتى ہيں يا ايسے صحابى پر جواس واقعہ كے بعد پيدا ہوا ہے اگر ہم اس حديث كے سلسلے كو متصل بھى قرار ديں تب بھى اس حديث كو رد كرنے اور اس كے جعلى اور جھوٹى ہونے پر يقين ركھنے كى ضرورت ہے كيونكہ يہ عقل سليم كے خلاف ہے اوريہ اعتراض قسطلاني، عسقلانى اور ان لوگوں پر وارد ہوتا ہے جنہوں نے اسے صحيح گردانا ہے اور كثرت اسناد كے بہانے اسے معتبر سمجھا ہے_ (1)
2) مضامين كا اختلاف_ سجدہ نہ كرنے والے كے بارے ميں اختلاف كا ذكر تو پہلے گزرچكا ہے يہاں ہم مزيد اختلافات اور تضادات كى طرف اشارہ كريں گے; مثلاً كبھى كہا گيا ہے كہ رسول(ص) نے حالت نماز ميں مذكورہ جملے ادا كئے اور كبھى كہا گيا ہےكہ قريش كى مجلس ميں، نيز اس ميں بھى اختلاف ہے كہ آپ(ص) نے ان الفاظ پر فقط غور كيا يا آپ(ص) كى زبان پر جارى بھى ہوئے؟ نيز اختلاف ہے كہ شيطان نے ان كو خبردى تھى ، رسول(ص) الله نے ايسا فرمايا، يا يہ كہ مشركين نے اسے پڑھا_
علاوہ ازيں كبھى كہا گيا ہے كہ پيغمبر اكرم(ص) پڑھتے وقت اس طرف متوجہ بھى تھے اور كبھى يہ كہ آپ شام تك متوجہ ہى نہيں ہوئے_ كلاعى نے تو يہ كہا ہے كہ حقيقت حال اتنى جلدى منكشف نہ ہوئي بلكہ بات اس وقت واضح ہوئي جب حبشہ ميں مسلمانوں كو خبر ملى كہ مكہ ميں مسلمانوں كو امان حاصل ہوگئي ہے چنانچہ حبشہ سے مسلمان واپس آگئے پھر شيطان كى طرف سے القاء شدہ جملوں كے منسوخ ہونے كے بارے ميں آيت اترى اور جب خدانے اپنا حكم واضح كيا تو مشركين نے مسلمانوں كے ساتھ اپنا رويہ سخت كرليا_ (2) اسلئے كہتے ہيں: دروغگو را حافظہ نباشد_
3) اس افسانے سے نہ صرف سہو و خطا سے پيغمبر(ص) كے معصوم ہونے كى نفى ہوتى ہے( خصوصاً تبليغ كے بارے ميں) جس پر امت كا اجماع ہے اور قطعى دلائل قائم ہيں بلكہ اس افسانے سے (نعوذ بالله ) پيغمبر اكرم(ص) كا ارتدادبھى لازم آتا ہے_ خدا ہميں اس قسم كے گمراہ كن نظريات سے بچائے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ فتح البارى ج 8ص 333 السيرة الحلبية ج 1ص 326اور سيرت مغلطاى ص 24از المواہب اللدنية ج1 ص 53_
2_ رجوع كريں: الاكتفاء (كلاعي) ج 1ص 352/353_

95
4)يہ واقعہ اس آيت كے منافى ہے (ان عبادى ليس لك عليھم سلطان)(1) يعنى اے شيطان تجھے ميرے برگزيدہ بندوں پر تسلط حاصل نہ ہوگا _نيز اس آيت سے بھى متصادم ہے (انہ ليس لہ سلطان على الذين آمنوا وعلى ربہم يتوكلون)(2) يعنى شيطان كو ان پر تسلط حاصل نہ ہوگا جوايمان لے آئے اور جو اپنے پروردگار پر توكل كرتے ہيں_ ہاں اگر وہ لوگ يہ فرض كرليں كہ نعوذ بالله حضور اكرم(ص) خدا كے برگزيدہ بندوں ميں شامل نہيں اور نہ ايمان لانے والوں اور توكل كرنے والوں ميں، تويہ اور بات ہے، اور ايسا كہنا ايمان كے بعد كفر اختيار كرنے كے سوا اور كياہوسكتا ہے؟ جيساكہ صاف ظاہر ہے_
5) كلاعى صريحاً كہتا ہے كہ جب نبى اكرم(ص) سورہ كے آخر تك پہنچے تو مسلمانوں اور مشركين سب نے سجدہ كيا اور مسلمانوں نے مشركين كے سجدے پر تعجب كيا كيونكہ مسلمانوں نے اس چيز كو نہيں سنا تھا جسے شيطان نے مشركين كى زبان پر جارى كيا تھا حالانكہ خود كلاعى چند سطر قبل صريحاًيہ كہتا ہے كہ شيطان نے ان كلمات كو رسول(ص) كى زبان پر جارى كيا (3) اس واضح تناقض كے علاوہ يہ سوال پيش آتا ہے كہ مشركين نے وہ بات كيونكر سنى جو شيطان نے نعوذ بالله رسول(ص) كى زبان پر جارى كى تھى جبكہ مسلمانوں نے نہيں سني؟ حالانكہ وہ بھى ان كے ساتھ تھے پھر تو لازمى طورپر مسلمانوں كى نسبت كافررسول(ص) الله سے قريب تر ہوئے ؟ _
5) سارى مذكورہ آيات ممكن ہى نہيں كہ ان روايات كے ساتھ مناسبت ركھتى ہوں كيونكہ:
الف:سورہ نجم كى آيات ميں خدانے مشركين كے بتوں (لات، منات، عزي) كے بارے ميں كہا ہے (ان ھى اسماء سميتموہا انتم وآباء كم ما انزل الله بہا من سلطان ان يتبعون الا الظن وما تہوى الانفس ولقد جائہم من ربہم الہدي)(4)يعنى يہ نام توصرف تم اور تمہارے آباء نے ركھے ہيں
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ اسراء آيت 65_
2_ سورہ نمل آيت 99_
3_ رجوع كريں: الاكتفاء (كلاعي) ج 1ص 352_
4_ سورہ نجم آيت 23_

96
خدانے اس كے بارے ميں كوئي دليل نازل نہيں كى درحقيقت وہ تو بس ظن وگمان اور ہوائے نفس كى پيروى كرتے ہيں جبكہ ان كے رب كى طرف سے ان كے ہاں ہدايت آچكى ہے_
سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ مشركين اپنے معبودوں كى اس قدر تند لہجے ميں مذمت پر كيوں راضى ہوئے اور پھر آپ(ص) كى بات سے خوش ہوكر سربسجودبھى ہوگئے؟ انہوں نے آپ(ص) كے كلام ميں اس واضح تضاد كوكيوں محسوس نہيں كيا يا سمجھنے كى كوشش نہيں كى اور بات يہاں تك آن پہنچى كہ آپ(ص) كو اٹھاكر پورے مكہ ميں يہ كہتے ہوئے چكر لگايا كہ يہ بنى عبد مناف كا نبى ہے_
دوسرا سوال يہ ہے كہ خود رسول(ص) الله اس واضح تضاد كو كيوں نہ سمجھ سكے اور رات تك غافل رہے يہاں تك كہ جبريل آئے اور آپ(ص) كو اس تضاد سے آگاہ كيا؟ كيا آپ(ص) اس دوران (نعوذ باللہ) غائب دماغ رہے تھے يا (نعوذ بالله ) آپ (ص) كا ذہن كام نہيں كر رہا تھا؟_
تيسرا سوال يہ ہے كہ كيا يہ واقعہ اسى سورہ نجم كى اس آيت سے منافات نہيں ركھتا جس ميں قسم اٹھانے كے بعد فرمايا گيا ہے (وما ينطق عن الہوى ان ہو الاوحى يوحي) يعنى رسول(ص) كى گفتگو خواہشات كے تابع نہيں بلكہ نازل شدہ وحى ہوتى ہے_ پھر كيسے ہوسكتا ہے كہ اس صورت ميں آپ(ص) اپنى خواہش كے مطابق بات كريں بلكہ شيطان كى طرف سے القاء شدہ جملوں كو خدا كى طرف سے نازل شدہ آيات كے طور پر دہرائيں؟ جبكہ فرمان الہى ہے: (ولو تقوّل علينا بعض الاقاويل لاخذنا منہ باليمين ثم لقطعنا منہ الوتين) (1) (اگر رسول(ص) ہمارى طرف سے كوئي بات گڑھ ليتاتو ہم اس كے ہاتھ كو پكڑليتے اور پھر اس كى گردن اڑاديتے) پس خدا نے مذكورہ جملوں كے گھڑنے پركوئي اقدام كيوں نہيں كيا (2) اگر يہ آيت سورہ نجم كے بعد اترى ہو تو پھر بھى اس سے كوئي فرق نہيں پڑتا كيونكہ يہ آيت ايك قاعدہ كليہ اور قانون بيان كر رہى ہے نہ يہ كہ ايك خارجى واقعے كى طرف اشارہ كررہى ہو اور بس_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ الحاقّہ آيت 44_46_
2_ يہ اس صورت ميں ہے كہ آيت ميں تقوّل سے مراد صرف جان بوجھ كر جھوٹ بولنا نہ ہو كيونكہ آيت ميں تقول كا لفظ آيا ہے اور تقول كا مطلب ہے كہ جان بوجھ كر كوئي بات گھڑى جائے_

97
ب: رہى آيہ تمنّى تو وہ سورہ حج ميںہے جو سب كے نزديك مدنى ہے _بالخصوص اس ميں لوگوں كيلئے اعلان حج ،نيز جنگ وجہاد كا حكم ہوا ہے، مسجد حرام كا راستہ روكنے كا بھى تذكرہ ہوا ہے اور يہ سارى باتيں ہجرت كے بعد كى ہيں _كچھ احكام تو ہجرت كے كئي سال بعد كے بھى ہيں اس پر مستزاد يہ كہ ابن عباس، قتادہ اور ابن زبير وغيرہ نے بھى اسے مدنى قرار ديا ہے _
اگر يہ مدنى ہو تو اس كا مطلب يہ ہے كہ غرانيق والے افسانے كے سالہا سال بعد يہ آيت نازل ہوئي كيونكہ غرانيق كا واقعہ بعثت كے پانچويں سال سے منسوب ہے پھر يہ كيسے ہوسكتا ہے كہ خدا اپنے رسول(ص) كو تسلى دينے ميں سالہا سال تك تاخير فرمائے؟
علاوہ ازيں آيت كا مفہوم بھى اس واقعے كے ساتھ بالكل ہم آہنگ نہيں ہے كيونكہ تمنّى كا مطلب كسى مرغوب اور پسنديدہ امر كى خواہش ہے اور رسول(ص) گرامى فقط اسى چيز كى خواہش كرسكتے ہيں جو ايك رسول(ص) كى حيثيت سے آپ(ص) كى ذمہ داريوں كے مناسب ہو_ آپ (ص) جيسے انسانوں كى سب سے بڑى خواہش حق وہدايت كى ترويج اور باطل كى سركوبى ہوتى ہے_ شيطان اپنى گمراہى كے باعث لوگوں كے دلوں ميں ايسے وسوسے ڈالتا ہے جو اس نيك خواہش كو دھندلاكر دكھاتاہے ،يوں جن كے دلوں ميں مرض ہو وہ اس آزمائشے ميں گرفتار ہو جاتے ہيں جيساكہ شيطان نے امت موسي(ع) كے دلوں ميں وسوسہ ڈالا، ليكن خدا ہدايت كے نور سے شيطانى وسوسوں كو دور كرتا ہے اور عقل سليم ركھنے والوں كيلئے حق كو واضح كرتا ہے_
اور اگر ان لوگوں كے بقول تمنا سے مراد تلاوت لى جائے تو تمنى كا يہ معنى بہت نادر، خلاف قاعدہ اور انوكھا ہوگا جو وضع لغوى كے بھى مخالف ہوگااور ظاہر لفظ كے بھى _ آخر كس نے اب تك '' تمنا'' كا معنى '' پڑھنا'' كيا ہے؟ ہميں تو كوئي شك نہيں كہ اس خيالى واقعہ كے ساتھ مطابقت پيدا كرنے كے لئے اس آيت كى مذكورہ تفسير گھڑى گئي ہے _ اور اسى طرح حسان بن ثابت سے منقول شعر(1) بھى اسى مقصد كے لئے گھڑا گيا ہے _
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تنزيہ الانبياء كے ص 107 ميں حسان سے يہ شعر منسوب ہے :
تمنى كتاب اللہ اوّل ليلة و آخرہ لاقى حمام المقادر
جبكہ ممكن ہے كہ يہاں تمنى سے مراد محبت اور شوق ہو_

98
اور تاريخ كى كتابوں ميں ايسے كئي واقعات ملتے ہيں _ اور اگر تمنا كا معنى تلاوت بھى لے ليں تو اس آيت كا مطلب وہى ہوگا جو سيد مرتضى نے فرماياہے_
سيد مرتضى فرماتے ہيں كہ اگر مراد تلاوت ہو تو مطلب يہ ہوگا كہ جب رسول(ص) نے اپنى قوم كيلئے آيات كى تلاوت كى تو قوم نے ان ميں تحريف كى اور كمى بيشى كے مرتكب ہوئے_ جس طرح يہودى اپنے نبى پر جھوٹ باندھتے ہوئے اس امر كے مرتكب ہوئے تھے اس صورت ميں اسے شيطان كى طرف منسوب كرنے كا مقصد يہ ہے كہ درحقيقت دلوں ميں وسوسہ ڈالنے والا وہى شيطان ہے ليكن خدا اس وسوسے كو اپنى دليلوں كے ذريعے زائل اور باطل كرديتا ہے_ (1)
ج: سورہ اسرا كى آيات (وان كادوا ليفتنونك عن الذى اوحينا اليك لتفترى علينا غيرہ ...)كے بارے ميں ان لوگوں كا يہ دعوى كہ يہ آيات غرانيق كے مسئلے ميں نازل ہوئيں تو يہ بھى غيرمعقول قول ہے كيو نكہ ان آيا ت كا اس واقعے سے كوئي ربط نہيں بلكہ ان كے درميان منافات ہے پس ان آيات كا شان نزول مذكورہ واقعہ كيسے ہوسكتا ہے؟
آيات كہتى ہيں كہ رسول(ص) الله ان كى طرف مائل نہيں ہوئے بلكہ اس امر كے قريب بھى نہيں ہوئے اور الله نے ان كو ثابت قدم ركھا نيزاگران كى طرف مائل ہوتے تو خدا آپ(ص) كو سزاديتا جبكہ غرانيق كاافسانہ كہتا ہے كہ آپ(ص) نہ صرف مائل ہوئے بلكہ آپ(ص) نے قبول بھى كيا اور (نعوذ بالله ) خدا پر جھوٹ باندھا اور جو بات خدا كى طرف سے نہ تھى اسے قرآن ميں داخل كرليا_
آيت كا مقصود تو يہ ہے كہ مشركين نے اس بات پر اصرار كيا كہ ان كو اپنے حال پر چھوڑ ديا جائے انہوں نے حضرت پيغمبر اكرم(ص) اور حضرت ابوطالب كے ساتھ متعدد مذاكرات بھى كئے _پس بعيد نہيںكہ رسول(ص) الله نے ان كو كچھ مہلت دينے كا سوچاہو تاكہ غور كريں اور باطل كو چھوڑ ديں پس يہ آيت نازل ہوئي تاكہ آپ(ص) پر واضح كردے كہ ان كو مہلت دينے ميں مصلحت نہيں بلكہ مصلحت سختى كرنے ميں ہے_
ان تمام دلائل سے قطع نظر وہ كہتے ہيں كہ سورہ اسرا كى مذكورہ آيات بنى ثقيف كے بارے ميں اس وقت
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تنزيہ الانبياء ص 107 ، 108_

99
اتريں جب انہوں نے قبول اسلام كيلئے ايسى شرائط پيش كيں جو ان كے مقام كو بلند كريں_ اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ يہ آيات قريش كے بارے ميں اتريں جب انہوں نے رسول(ص) الله كو حجر اسود مس كرنے سے روكا_ يہ بھى كہا گيا ہے كہ مدينہ كے يہوديوں كے بارے ميں نازل ہوئيں جب انہوں نے حضور(ص) سے مطالبہ كيا كہ آپ(ص) شام چلے جائيں_ (1) قاضى بيضاوى نے يہى آرا ء بيان كرنے پر اكتفا كيا ہے_
6) آخرى نكتہ يہ ہے كہ مشركين نے خدا كا قول (فاسجدوا لله واعبدوا) سن كر كيونكر سجدہ كيا؟ جبكہ وہ الله تعالى كيلئے سجدہ كرنے كے قائل نہيں تھے، چنانچہ ارشاد بارى ہے (اذا قيل لہم اسجدو للرحمان قالوا وما الرحمان ا نسجد لما تأمرنا وزادھم نفورا) جب ان سے كہا جاتا ہے كہ رحمان كيلئے سجدہ كرو تو كہتے ہيں كہ رحمان كيا چيزہے؟ كيا ہم اس چيز كيلئے سجدہ كريں جسكا تو ہميں حكم ديتا ہے؟ اسطرح انكى نفرت ميں مزيد اضافہ ہوتا ہے_
يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ يہ منظر ديكھ كر كسى مسلمان كا ايمان متزلزل كيوں نہيں ہوا؟ ياوہ دين سے خارج كيوں نہيں ہوا جبكہ وہ ديكھ رہا ہو كہ رسول(ص) الله (نعوذ بالله ) اصنام كى تعريف كر رہے ہيں اور ان كى شفاعت كو مقبول قرار دے رہے ہيں؟ (2)

مسئلے كى حقيقت
يہاں مسئلے كى حقيقت كچھ يوں معلوم ہوتى ہے (جيساكہ نقل ہوا ہے) كہ جب حضور(ص) قرآن كى تلاوت كرتے تو كفار فضول اور غلط باتوں كا سلسلہ شروع كرديتے تاكہ كوئي آپ(ص) كى بات سننے نہ پائے سورہ فصّلت كى آيت 26ميں ارشاد ہے: (و قال الذين كفروا لا تسمعوا لہذا القرآن و الغوا فيہ لعلكم تغلبون) يعنى كفار آپس ميں كہتے ہيں كہ اس قرآن كو نہ سنو اور شور مچاؤ شايداس طرح سے غالب آسكو_ پس جب
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں: سيرہ حلبى ج1ص 326نيز الدر المنثور و تفسير خازن اور تفسير كى ديگر كتب ميں بھى مرقوم ہے_
2_ رجوع ہو حاشيہ الاكتفاء (كلاعي) ج 1ص 353_354_

100
پيغمبر اكرم(ص) نے سورہ نجم كى تلاو ت كى اور اس مقام (افرايتم اللات و العزى و مناة ثالثة اخري) پرپہنچے تومشركين نے حسب معمول مداخلت كرتے ہوئے كہا ''تلك الغرانيق العلي ...''_ (1)
ہاں اس كے بعدجب كرايہ كے قصہ پردازوں اور كينہ توزوں كى بارى آئي تو انہوں نے اپنے شيطانى مفادات كے پيش نظر اس ميں مزيد پيوند كارى كرتے ہوئے رسول(ص) الله كى عصمت كو اپنے حملوں كا نشانہ بنايااور قرآن ميں موجود ہر چيز ميں شكوك وشبہات پيدا كرنے كى كوشش كى تاكہ نبى اكرم(ص) كو اس حدتك جاہل ثابت كرسكيں كہ گويا آپ(ص) واضح تضادات كو بھى نہيں سمجھتے تھے، يہاں تك كہ نعوذ بالله آپ(ص) شيطان كے آگے بھى بے بس تھے، شيطانى وغير شيطانى امور ميں تميز نہيں كرپاتے تھے_
ليكن ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ ان باتوں كے مقابلے ميں يہى لوگ كہتے ہيں كہ شيطان حضرت عمر كى آہٹ سے بھى ڈرتا تھا(2) نيز يہ كہ جب سے حضرت عمر مسلمان ہوئے ،شيطان كا ان سے جب بھى سامنا ہوتا تھا تو شيطان منہ كے بل گر پڑتا تھا(3) يا يہ كہ جس وادى سے حضرت عمر گزرتے تھے شيطان وہاں سے كترا كرنكل جاتا تھا(4) گويا ان لوگوں كى مراد يہ ہے كہ حضرت ابوبكر كى طرح نبى كريم (ص) كا بھى ايك شيطان تھا جو آپ(ص) پر اثر انداز ہوتا رہتا تھا_ ان سارے مسائل پر پہلے بحث ہوچكى ہے_
اس كے بعد اسلام دشمن متعصب مستشرقين كى بارى آئي انہوں نے ان بے بنياد باتوں اور افسانوں سے استفادہ كرتے ہوئے ہمارے نبى اكرم(ص) كو اعتراضات كا نشانہ بنايا_ (5)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرة النبوية (دحلان) ج 1ص 128 اور تنزيہ الانبياء ص 107نيز رجوع كريں حاشيہ الاكتفاء (كلاعي) ج1ص 354از سہيلي_ كلبى نے كتاب الاصنام ميں نقل كيا ہے كہ قريش يہ جملے اپنے بتوں كى تعريف ميں جو كعبہ كے اردگرد ركھے گئے تھے ادا كرتے تھے_
2_ الرياض النضرہ ج 2 ص 103_
3_ عمدة القارى ج 16 ص196 اور ملاحظہ ہو تاريخ عمر ص 62_
4_ صحيح مسلم ج 7 ص 115 اور اسى كے قريب قريب واقعہ تاريخ عمر ص 35 نيز ص 62 ، الغدير ج 8 ص 94 ، مسند احمد ج 1 ص 171، ص 182، ص187 صحيح بخارى ج2 ص 44و ص 188 اور عمدة القارى ج 16 ص 196_
5_ رجوع ہو تاريخ الشعوب الاسلامية ص 34از بروكلمان اور كتاب الاسلام ص 35/36 (الفريڈ ھيوم)_

101
ليكن الله نے ان كى كوششوں كوناكام بناديا (1) يوں وہ اپنے مكر وفريب كے جال ميں خود پھنس كررہ گئے كيونكہ حق صبح كى طرح روشن اور شرافت ونجابت وپاكيزگى اور عصمت ميں ہمارے نبى صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى سيرت سورج كى طرح تابناك ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ قابل ذكر ہے كہ سلمان رشدى نے بھى استعمارى طاقتوں كى پشت پناہى اور سازش كے سائے ميں رسول الله (ص) كے حق ميں تاريخى بے ادبى كرتے ہوئے شيطانى آيات نامى كتاب لكھي_ اس كتاب ميں ان بے بنياد روايات اور افسانوں سے بھى مدد لى گئي ، تمام باطل قوتيں حق كو مسخ كرنے كيلئے متحد ہوئيں ليكن على (ع) كے لال روح الله خمينى بت شكن كے ايك جملے نے عصر حاضر كے شياطين كے مكر و فريب كو خاك ميں ملا ديا _( مترجم)