تيسرا باب
اعلان نبوت سے لے كر وفات ابوطالب تك
پہلى فصل : ہجرت حبشہ تك
دوسرى فصل : ہجرت حبشہ اور اس سے مربوط امور
تيسرى فصل : شعب ابوطالب تك كے حالات
چوتھى فصل : شعب ابوطالب ميں
پانچويں فصل : ابوطالب مؤمن قريش
14
پہلى فصل
ہجرت حبشہ تك
15
مقدمہ:
اسلام قبول كرنے والوں كا تذكرہ اور بعثت كے بعد كے حالات كو بيان كرنے سے پہلے دو اہم باتوں كى طرف اشارہ كرنا ضرورى سمجھتا ہوں_
پہلى بات تو يہ كہ اسلام كے اہداف اوردنياوى زندگى كے حوالے سے اس كے مقاصد كيا ہيں، اور دوسرى يہ كہ كسى بھى دعوت كا طبيعى طريقہ كار كيسا ہونا چاہيئے اور اس كى ابتدا كہاں سے ہونى چاہيئے؟
اسلام كے اہداف و مقاصد
سب سے پہلے يہ عرض كرتا چلوں كہ اسلام كا اصل مقصد فقط قيام عدل (اگرچہ اس كے وسيع تر مفہوم كے تناظر ميں ہى سہي) نہيں_ كيونكہ اگر مقصد صرف يہى ہو_ تو پھر دين و عقيدے كى راہ ميں جہاد كرنے اور جان كى قربانى دينے كا حكم بے معنى ہو كر رہ جاتا ہے اور يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ كيوں ايك انسان تو اپنى جان گنوائے جبكہ دوسرے لوگ زندگى اور اس كى لذتوں سے لطف اندوز ہوتے رہيں_ علاوہ ازيں خدا كے نزديك ايثار اور ايثار كرنے والے كے محبوب اور پسنديدہ ہونے كى كوئي وجہ باقى نہيں رہتى _ جس طرح ارشاد خداوندى ہے: (و يؤثرون على انفسہم و لو كان بہم خصاصة) (1)
كيونكہ اگر فقط عدل مقصود و مطلوب ہو تو پھر ايثار كى كوئي گنجائشے نہيں رہتى _نيز كينہ و حسد سے پرہيز كا حكم
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ حشر آيت 9_
16
بھى غيرمعقول ہو كر رہ جائے گا _ اس كے علاوہ بھى كئي اور مثاليں ہيں جن كے ذكر كى يہاں گنجائشے نہيں_ خلاصہ يہ كہ مذكورہ و غيرمذكورہ احكام اس بات كى نشاندہى كرتے ہيں كہ اسلام كا ہدف صرف قيام عدل ميں محدود نہيں بلكہ اس سے بھى اعلى ،اہم اور مقدس ہدف ہے_
اسلام كا حقيقى ہدف انسان كى انسانيت كو پروان چڑھانا اور اس كى پوشيدہ صلاحيتوں كو بروئے كار لاكر اسے اس قابل بنانا ہے كہ وہ زمين پر خلافت الہى كے منصب كى اہليت پيدا كرے تا كہ خدا اس كے متعلق يہ دعوى كرسكے_
(و اذ قال ربك للملائكة انى جاعل فى الارض خليفة) (1)
واضح ہو كہ عدل اور ديگر معنوى مقامات اور كمالات اس اعلى اور مقدس ترين ہدف تك پہنچنے كے وسائل اور مراحل ميں سے ہيں، يہ ہدف حقيقى عدل سميت تمام انسانى كمالات و فضائل اور مكمل خوش بختى و كامرانى كا حامل ہے_
يہ ہے اسلام كا بنيادى ہدف جس كے حصول كى تگ و دو كى جاتى ہے_
اس بات كى واضح ترين دليل درج ذيل آيت ہے جو رسول خدا (ص) كى ذمہ داريوں ميں پيام الہى كو لوگوں تك پہنچانے كے ساتھ ساتھ لوگوں كو حكمت كى تعليم دينے اور ان كے تزكيہ و تطہير كى ذمہ داريوں كو بيان كرتى ہے:(ہو الذى بعث فى الاميين رسولاً منہم، يتلو عليہم آياتہ، و يزكيہم، و يعلمہم الكتاب و الحكمة، و ان كانوا من قبل لفى ضلال مبين) (2)
يہ ارشاد بھى قابل غور ہے:
(ما يريد الله ليجعل عليكم من حرج، و لكن يريد ليطہركم، و ليتم نعمتہ عليكم، لعلكم تشكرون) (3)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ بقرہ آيت 30_
2_سورہ جمعہ، آيت 2_
3_سورہ مائدہ، آيت 6_
17
خدا تمہيں كسى بے جا سختى ميں مبتلا نہيں كرنا چاہتا وہ تو يہ چاہتا ہے كہ تمہيں پاك و پاكيزہ كرے اور تم لوگوں پر اپنى نعمتوں كو كامل كرے تاكہ تم شكرگزار بنو_
آيات قرآنى كى طرف رجوع كرنے سے پتہ چلتا ہے كہ بہت سارى آيات مذكورہ حقيقت پر واضح طور پر دلالت كرتى ہيں_ بنابرايں مزيد دلائل و شواہد اور توضيح و تشريح كى ضرورت باقى نہيں رہتي_
وزير اور وصى كى ضرورت
جب ہميں اسلام كے اصلى مقصد كا علم ہوگيا ہے تو ہم يہ بھى جان سكتے ہيں كہ يہ مقصد نہايت ہى مشكل اور كٹھن ہے_ اس لئے كہ ابتداء ہى ميں يہ ہدف اشخاص كى ذات سے ہى متصادم ہے _ كيونكہ اس مقصد كے تحقق كے لئے افراد كے عزائز اور نفسانى خواہشات پر غلبہ پانا ضرورى ہے تاكہ مثالى انسان كى شخصيت تعمير ہوسكے_ اسى طرح معاشرے كى معاشرتى ، سياسى اور ديگر اصولوں كى بنيادى تبديليوں كا ہدف ہے_ تا كہ شركى جڑيں اكھاڑ پھينكے اور انحراف كے تمام عوامل و اسباب كو ختم كرڈالے _ اور اس كے بدلے ميں خير ، بركت ، نيكى اور خوشبختى كے تناور درخت اگائے_
جى ہاں يہى تو نہايت مشكل ہدف ہے اور اس سے بڑھ كر مشكل كوئي چيز نہيں _ اس لئے كہ اس كے تحقق اور دوام كے لئے اس وقت تك سخت اور مسلسل جد و جہد كى ضرورت ہے جب تك انسان اپنے اندر وہ تبديلياں نہ پالے جس كے لئے خدا نے اسے خلق كيا ہے تا كہ يہ تبديلياں اس كى بقاء ، سعادت اور سكون كى عامل بنيں_اور خدا نے بھى انسان كو ان خواہشات پر قابو پانے اور انہيں ہدف مند كرنے كے وسائل فراہم كئے ہيں_ ليكن بسا اوقات يہ وسائل ان خواہشات پر قابو پانے ميں ناكام ہوجاتے ہيںاور جب تك ان كے درميان جنگ جارى ہے انحراف كے خطرات منڈلاتے رہتے ہيں_ اور چونكہ طول زمانہ ميں انسان كے وجود كے ساتھ جنگ بھى جارى رہے گى _ اس لئے انحراف اور بھٹكنے كا خطرہ بھى دائمى رہے گا پس انبياء كو عقل كو مسحور كردينے والى آيتوں كى تلاوت اور اسلامى احكام كى تعليم كے ساتھ ساتھ تربيت اور تزكيہ كى مہم پر توجہ دينے ،
18
انسانى اور اخلاقى فضائل كو انسان كى ذات ميں كوٹ كوٹ كر بھرنے اور پھر اس كى تطبيق اور اس دائمى كشمكش كى نگرانى كرنے كى ضرورت رہے گى _انہى باتوں سے نبى كے وزير ، وصى ، مددگار ، بھائي اور حامى كى ضرورت واضح ہوتى ہے _ پس رسول (ص) كريم كى جانب سے خلافت پر حضرت على (ع) كى تنصيب ،راہ جہاد اور دعوت الى اللہ كے سلسلے ميں ايك عقلمندانہ فيصلہ تھا _ پس دعوت ذوالعشيرة اور اس ميں حضرت رسول اكرم(ص) كے وصى ، وزير اور خليفہ كے عنوان سے حضرت على (ع) كى تنصيب كا واقعہ ان بہت زيادہ واقعات ميں سے ايك ہے جن ميں اس امر خلافت پر قوت اور شدت كے ساتھ تاكيد كى گئي ہے_ دعوت ذوالعشيرة كا واقعہ كچھ يوں ہے:
دعوت ذوالعشيرہ
بعثت كے ابتدائي تين سالوں كے بعد ايك اہم، جديد اوركٹھنمرحلہ كا آغاز ہوا اور وہ تھا اسلام كى طرف اعلانيہ دعوت كا مرحلہ_
پہلے پہل نسبتاً ايك محدود دائرے سے اس كى ابتدا ہوئي كيونكہ خدا كى جانب سے يہ آيت نازل ہوئي_ (وانذر عشيرتك الاقربين) (1) يعنى اپنے نزديكى رشتہ داروں كو (كفر و گمراہى كے عذاب سے) ڈراؤ_
مؤرخين كے بقول ( الفاظ تاريخ طبرى كے ہيں) جب يہ آيت نازل ہوئي تو آنحضرت(ص) نے حضرت علي(ع) كو بلاكر كھانا تيار كرنے اور بنى عبدالمطلب كو دعوت دينے كا حكم ديا تاكہ آپ(ص) ان كے ساتھ گفتگو كركے حكم الہى كو ان تك پہنچاسكيں_
پس حضرت علي(ع) نے ايك صاع (تقريباً تين كلو) آٹے كى روٹياں تيار كرائيں اور بكرے كى ايك ران بھى پكالى نيز دودھ كا كاسہ بھى بھر كر ركھ ديا_ بعدازاں انہيں دعوت دى حالانكہ اس وقت ان كى تعداد چاليس كے لگ بھگ تھى جن ميں آنحضرت(ص) كے چچا ابوطالب، حمزہ، عباس اور ابولہب بھى شامل تھے_ حضرت على (ع) كا
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ شعرائ، آيت 214_
19
بيان ہے كہ انہوں نے پيٹ بھر كر كھانا كھايا ليكن كھانا جوں كا توں رہا صرف انگليوں كے نشان دكھائي دے رہے تھے_ قسم ہے اس خدا كى جس كے ہاتھ ميں على كى جان ہے وہ كھانا جو ميں نے ان كيلئے تيار كيا وہ سارے كا سارا ان ميں سے ايك آدمى كھا سكتا تھا_ اس كے بعد آنحضرت(ص) نے انہيں دودھ پلانے كا حكم ديا_ ميں دودھ كا برتن ليكر ان كے پاس آيا انہوں نے جى بھر كر پيا_ خدا كى قسم وہ سارا دودھ ان ميں سے اكيلا آدمى پى سكتا تھا_ اس كے بعد جب پيغمبر اكرم(ص) نے ان سے گفتگو كرنى چاہى تو ابولہب نے پہل كرتے ہوئے كہا كہ تمہارے ساتھى نے تم پر كيسا سخت جادو كرديا_ يہ سن كر وہ لوگ متفرق ہوگئے اور رسول(ص) خدا ان سے گفتگو نہ كرسكے_
دوسرے دن آپ(ص) نے حضرت على (ع) كو حسب سابق دعوت دينے كا حكم ديا_ چنانچہ جب لوگ كھا پى كر فارغ ہوگئے تو حضور(ص) نے ان سے فرمايا:'' اے آل عبدالمطلب خدا كى قسم جہاں تك مجھے علم ہے عرب كا كوئي جوان آج تك اپنى قوم كيلئے كوئي ايسا تحفہ ليكر نہيں آيا جس قسم كا تحفہ ميں لايا ہوں_ ميں تمہارے لئے دنيا و آخرت كى سعادت كا تحفہ ليكر آيا ہوں خدا نے مجھے حكم ديا ہے كہ تمہيں اس كى طرف دعوت دوں_ اب تم ميں سے كوئي ہے جو اس امر ميں ميرا ہاتھ بٹائے تاكہ وہ ميرا بھائي، ميرا وصى اور تمہارے درميان ميرا جانشين قرار پائے''_ يہ سن كر سب چپ ہوگئے حضرت على (ع) نے عرض كيا: ''اے الله كے نبي(ص) ميں اس امر ميں آپ(ص) كا ہاتھ بٹاؤں گا''_ (حضرت على (ع) كہتے ہيں كہ) يہ سن كر حضور(ص) نے ميرے كندھے پر ہاتھ ركھا اور فرمايا: ''بے شك يہ ميرا بھائي، ميرا وصى اور تمہارے درميان ميرا جانشين ہے، پس اس كى بات سنو اور اس كى اطاعت كرو''_
حضرت على (ع) كا كہنا ہے كہ وہ لوگ ہنستے ہوئے اور جناب ابوطالب سے يہ كہتے ہوئے چلے گئے كہ لو اب اس نے تجھے حكم ديا ہے كہ اپنے بيٹے كى بات سنو اور اس كى اطاعت كرو_ بعض روايات ميں صريحاً بيان ہوا ہے كہ جب حضرت علي(ع) نے اٹھ كر جواب ديا تو آنحضرت(ص) نے آپ كو بٹھا ديا اور اپنى بات كا تكرار كيا_ حضرت علي(ع) نے بھى دوبارہ وہى جواب ديا_ پيغمبر اكرم(ص) نے پھر آپ كو بٹھا ديا اور حاضرين كے سامنے تيسرى بار اپنى بات دہرائي_ ليكن سوائے علي(ع) كے كسى نے بھى جواب نہ ديا_ اس وقت آپ(ص) نے مذكورہ كلمات ارشاد فرمائے_
20
اسكافى كى تصريح كے مطابق آنحضرت(ص) نے فرمايا: ''يہ ہے ميرا بھائي، ميرا وصى اور ميرے بعد ميرا جانشين''_ يہ سن كر حاضرين نے ابوطالب سے كہا:'' لو اب اپنے بيٹے كى اطاعت كرو محمد (ص) نے تو اسے تمہارے اوپر حاكم بناديا ہے''_ (1)
اندھا تعصّب
يہاں اس بات كا تذكرہ ضرورى ہے كہ طبرى نے اپنى تاريخ ميں تو اس حديث كو مذكورہ بالا انداز ميں بيان كيا ہے_ ليكن معلوم يہى ہوتا ہے كہ بعد ميں وہ پشيمان ہوا كيونكہ اس نے اپنى تفسير ميں مذكورہ حديث كو متن و سند كى رو سے مكمل طور پر اور حرف بہ حرف نقل كيا ہے البتہ ايك عبارت ميں تحريف كى ہے اور اسے يوں ذكر كيا ہے:
''فايكم يوازرنى على ھذا الامر، على ان يكون اخي، وكذاوكذا ...'' (2)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ اس واقعہ كے سلسلہ ميں مراجعہ ہو، تاريخ طبرى ج 2 ص 63، مختصر التاريخ ابوالفدء ج 2 ص 14 (دار الفكر بيروت)، شواہد التنزيل ج 1 ص 372 و ص 421 و كنز العمال طبع دوم ج 15 ص 116_117 و 113 و 130 از ابن اسحاق و ابن جريرجبكہ احمد، ابن ابوحاتم، ابن مردويہ، ابونعيم اور بيہقى نے الدلائل ميں اور تاريخ ابن عساكر ميں اسے صحيح ہے ،تاريخ ابن عساكر نيز زندگى نامہ امام على (بتحقيق محمودي) ج1، ص 87_88، شرح نہج البلاغة (معتزلي) ج 13 ص 244 از اسكافي، حيات محمد ( ھيكل) طبع اول ص 286 و كامل ابن اثير ج 2 ص 62،63، السيرة الحلبية ج 1 ص 286، مسند احمد ج 1 ص 159 نيز رجوع كريں كفاية الطالب ص 205 از ثعلبي، منھاج السنة ج 3 ص 80 از بغوى و ابن ابى حاتم و واحدى و ثعلبى و ابن جرير نيز مسند احمد ج 1 ص 111 و فرائد السمطين بہ تحقيق محمودى ج 1 ص 86 و اثبات الوصية (از مسعودي) ص 115 و ص 116 والسيرة النبوية ابن كثير ج 1 ص 460،459، الغدير ج 2 ص 278،284 بعض مذكورہ كتب سے اور انباء نجباء الابناء ص 46،47 سے نيز شرح الشفا_ (خفاجي) ج 3 ص 37 و تفسير خازن ج ص 390 و كتاب سليم بن قيس وغيرہ اور خصائص نسائي ص 86 حديث 63 نيز رجوع كريں بحارالانوار ج 38 و درمنثور ج 5 ص 97 از منابع كنز العمال ليكن اس نے اس ميں تحريف كى ہے نيز مجمع الزوائد ج 8 ص 302 كچھ كمى كے ساتھ و ينابيع المودة ص 105 و غايت المرام ص 320 ابن بطريق كى كتاب و العمدة و تفسير ثعالبى و تفسير طبرى ج 19 ص 75 و البداية و النہاية ج 3 ص 40 و تفسير ابن كثير ج 3 ص 350و351_
2_تفسير طبرى ج 19 ص 75 _
21
''تم ميں سے كون اس امر ميں ميرا مددگار ہوگا تاكہ وہ ميرا بھائي اوروغيرہ وغيرہ ہو ... يہاں تك كہ فرما يا يہ ميرا بھائي ... وغيرہ وغيرہ ہے''_*
ابن كثير شامى نے بھى يہاں طبرى كى تقليد كى ہے چنانچہ اس نے اس حديث كو تاريخ طبرى كى بجائے تفسير طبرى سے نقل كيا ہے حالانكہ تاريخ لكھتے وقت اس نے تاريخ طبرى پر اعتماد كرتے ہوئے اسے اپنى تاريخ كا ماخذ قرار ديا ہے_ (1)
اسى طرح محمد حسين ھيكل (مصري) نے بھى ''حيات محمد(ص) '' نامى كتاب كے پہلے ايڈيشن كے صفحہ 104 پر تاريخ طبرى سے مذكورہ حديث نقل كى ہے ليكن دوسرے ايڈيشن مطبوعہ (1354 ھ) كے صفحہ 139 ميں ''و خليفتى فيكم'' كے الفاظ حذف كرديئے اور ''و يكون اخى و وصيي'' لكھنے پر اكتفا كيا ہے_ يہ كام اس نے پانچ سو جنية (مصرى كرنسي) كى وصولى يا اس كتاب كے ايك ہزار نسخوں كى خريدارى كے عوض انجام ديا_ (2)
ابن تيميہ اور حديث الدار (3)
ادھر ابن تيميہ نے بھى سيد الاوصياء اميرالمومنين حضرت علي(ع) كے فضائل كو جھٹلانے كے سلسلے ميں اپنى عادت كے مطابق حديث دار كو قبول كرنے سے انكار كيا ہے_ ابن تيميہ نے اس حديث پر جو اعتراضات كئے ہيں ان كا خلاصہ يہ ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تفسير ابن كثير ج 3 ص 351 نيز البداية و النہاية ج 3 ص 40 والسيرة النبوية از ابن كثير ج 1 ص 459_
خلاصہ يہ كہ طبرى نے اپنى تفسير ميں ''وصيى وخليفتى فيكم'' كے الفاظ كو حذف كر كے انكى جگہ كذا وكذا كے مبہم الفاظ لكھ كر تحريف ميں اپنى مہارت كا ثبوت ديا ہے_ (مترجم)
2_ رجوع كريں: فلسفة التوحيد و الولاية ص 179 و ص 132 و سيرة المصطفى ص 131 و130_
3_ دعوت ذوالعشيرہ والى روايتيں حديث الدار اور حديث انذار كے نام سے بھى معروف ہيں ليكن اردو ميں يہ واقعہ دعوت ذوالعشيرہ سے ہى معروف ہے (مترجم)_
22
1) طبرى كى روايت كے سلسلہ سند ميں ابومريم كوفى بھى ہے جس كے متروك ہونے پر سب كا اتفاق ہے_ احمد نے كہا ہے كہ ''وہ ثقہ نہيں''_ ابن مدينى نے اس پر حديث گھڑنے كا الزام لگايا ہے_
2) روايت كے مطابق حضور(ص) نے عبدالمطلب كى اولاد كو جمع كيا جس كى تعداد چاليس تھى حالانكہ يہ بات واضح ہے كہ اس آيت كے نزول كے وقت آل عبدالمطلب كے مردوں كى تعداد اس قدر زيادہ نہ تھي_
3) روايت كا يہ بيان كہ ان ميں سے ايك شخص اكيلا ہى ايك پورا بكرا كھا جاتا اور اكيلا ہى ايك فُرق (1) دودھ پى جاتا تھا جھوٹ پر مبنى ہے كيونكہ بنى ہاشم ميں كوئي شخص ايك بكرا ہڑپ كرنے يا ايك فرق دودھ پى جانے ميں معروف نہ تھا_
4) آپ(ص) كى حمايت ميں مثبت جواب دينے كا مطلب يہ نہ تھا كہ جواب دينے والا آپ (ص) كا وصى اور خليفہ بن جاتا كيونكہ تمام مومنين نے اسلام كى دعوت پر لبيك كہى اس امر ميں آپ كى مدد كى نيز اسلام كى راہ ميں جان و مال كى قربانى بھى دى علاوہ براں اگر چاليس يا ان ميں سے كچھ افراد اكٹھے مثبت جواب ديتے تو كيا وہ سب كے سب آپ(ص) كے خليفہ بن جاتے؟
5) جناب حمزہ، جعفر اور عبيدہ ابن حرث نے بھى حضرت على (ع) كى طرح مثبت جواب ديا تھا بلكہ جناب حمزہ نے تو مومنين كى تعداد چاليس ہونے سے پہلے اسلام قبول كيا تھا_ (2)
ابن تيميہ كے اعتراضات كا جواب
ابن تيميہ كے اعتراضات حقيقت سے دور اور سب كے سب بے بنياد ہيں كيونكہ ...
--------------------------------------------------------------------------------
1_ فرق ايك پيمانہ ہے تين صاع يعنى تقريباً نوكلو_
2_ منہاج السنة ج 4 ص 81،83_
23
پہلے اعتراض كا جواب
ابومريم كے بارے ميں اس كے اعتراض كا جواب ابن عدى كا يہ قول ہے كہ ''ميں نے ابن عقدہ كو ابومريم كى تعريف و تمجيد كرتے سنا اور اس نے اس كى انتہا درجے كى تعريف بيان كى ہے''_ (1) شعبہ نے بھى اس كو سراہا ہے_ (2)
ذہبى كا اس بارے ميں كہنا ہے كہ وہ صاحب علم تھا اور علم رجال ميں دسترس ركھتا تھا_ (3)
ان باتوں كے علاوہ بعض حضرات نے تو صاف صاف كہہ ديا ہے كہ ابومريم كو غيرمعتبر قرار دينے كى وجہ اس كا شيعہ ہونا ہے جبكہ واضح ہے كہ يہ بات اس كے خلاف نہيں جاتى كيونكہ اصحاب صحاح خصوصاً بخارى اور مسلم نے دسيوں اہل تشيع (شيعوں) سے احاديث نقل كى ہيں_ (4)ان تمام چيزوں سے قطع نظر ، متقى ہندى نے طبرى سے نقل كيا ہے كہ اس نے اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے_(5)
اسى طرح اسكافى معتزلى نے بھى اسے صحيح جانا ہے_ (6) اور خفاجى نے بھى شرح الشفا ميں اس حديث كى صحت كو قبول كيا ہے_ (7)
احمد بن حنبل نے اس حديث كو اس سند كے ساتھ نقل كيا ہے جس كے تمام افراد صحاح ستہ كے غيرمتنازعہ افراد ہيںاس سند كے راوى يہ ہيں: شريك، اعمش، منہال، عباد اور حضرت على (ع) _ (8)
اگر مذكورہ اعتراض كو تسليم كر بھى ليں پھر بھى اس حديث كى اسناد مستفيضہ ہيں (9)اور يہ اسناد ايك
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الغدير ج 2 ص 280 و لسان الميزان ج 4 ص 43 كى طرف رجوع كريں_
2_ لسان الميزان ج 4 ص 42_
3،4_ ميزان الاعتدال ذہبى ج 2 ص 640،641 و لسان الميزان ج 3 ص 42 _
5_ كنز العمال ج 15 ص 113_
6_ شرح نہج البلاغة (معتزلي) ج 13 ص 244 كى جانب رجوع كريں_
7_ الغدير ج 2 ص 28 كى طرف رجوع كريں_
8_ الغدير و نيز مسند احمد ج 1 ص 111 كى طرف رجوع كريں_
9_ علم حديث ميں مستفيض اور استفاضہ ايك اصطلاح ہے جس كا معنى راويوں كى ايسى كثرت ہے (يعنى روايت كو كثير راويوں نے نقل كيا ہو) جس سے يہ اطمينان ہوجائے كہ روايت سچى ہے ، ليكن اس كا درجہ حديث متواتر سے قدرے كم ہے _ (مترجم)
24
دوسرے كى تقويت كرتى ہيں_ بنابريں كسى ايك سند ميں كسى راوى كے ضعف سے حديث كى صحت پر كوئي اثر نہيں پڑتا_
اس سے بھى زيادہ عجيب بات بعض لوگوں كا يہ دعوى ہے كہ كتب حديث ميں اس واقعہ كے بعد مسئلہ خلافت كا تذكرہ نہيں ہوا ہے، كيونكہ جو شخص مذكورہ بالا مآخذ كى طرف رجوع كرے گا وہ جان لے گا كہ مسئلہ خلافت كا تذكرہ دسيوں منابع اور مسانيد ميں ہوچكا ہے_
رہى ابوحاتم كى روايت تو اسكے سلسلہ سند پر اس وجہ سے اعتراض ہوا ہے كہ اس ميں عبدالله بن عبدالقدوس موجود ہے جسے دار قطنى نے ضعيف قرار ديا ہے نسائي كا كہنا ہے ''وہ ثقہ نہيں ہے'' اور ابن معين كہتا ہے كہ اس كى كوئي حيثيت نہيں وہ تو خبيث رافضى ہے_
ان باتوں كے جواب ميں شيخ مظفر فرماتے ہيں كہ عبدالله بن عبدالقدوس پر ان لوگوں كا اعتراض غلط ہے اور تقريب نامى كتاب ميں ابن حجر كے اس قول '' انہ صدوق ( وہ راستگو ہيں ) '' سے متصادم ہے ادھر تہذيب التھذيب ميں محمدبن عيسى كا قول درج ہے كہ وہ ثقہ ہيں_ نيز ابن حبان نے بھى اسے ثقات ميں شمار كيا ہے_بخارى كا كہنا ہے'' حقيقت ميں وہ راستگو ضرور ہے ليكن ضعيف القول افراد سے حديث نقل كرتا ہے''_ علاوہ ازيں وہ سنن ترمذى كے راويوں ميں بھى شامل ہے_
پس انہى مذكورہ افراد كى تعريف ہى مقدم ہے كيونكہ اختلاف مذہب كى بنا پر ايك دوسرے كى مخالفت قابل اعتبار نہيں_ ہاں اگر ايك مخالف دوسرے كى تعريف كرے تو مقبول ہے_ ظاہر ہے ان لوگوں نے تشيع كے جرم ميں اس پر مذكورہ الزامات لگائے ہيں_ اگرچہ ہم اسے شيعہ راويوں ميں سے شمار نہيں كرتے_
ليكن ابن عدى كا بيان ہے كہ عموماً اہلسنت حضرات فضائل اہلبيت(ع) كے بارے ميں احاديث نقل نہيں كياكرتے اور شايد اس (عبدالله بن عبدالقدوس) پر ان كے الزامات كا راز بھى يہى ہو_ (1)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ دلائل الصدق ج 2 ص 234_
25
دوسرے اعتراض كا جواب
ايسا معلوم ہوتا ہے كہ لفظ ''عبد'' كا اضافہ راويوں نے كيا ہے اس كى دليل يہ ہے كہ بعض روايات ميں صريحاً بيان ہوا ہے كہ آپ(ص) نے بنى ہاشم كو دعوت دي_ (1) كچھ اور روايات ميں يوں ذكر ہوا ہے كہ آپ(ص) نے تمام بنى عبدالمطلب كو اور بنى مطلب كے بعض افراد كو دعوت دى (2) بنابرايں شايد راوى نے غلط فہمى سے مطلب كى جگہ عبدالمطلب لكھ ديا ہے_ اس قسم كى غلطياں اكثرديكھنے ميں آتى ہيں_ اس بيان كى روشنى ميں واضح ہوا كہ مذكورہ اعتراض اصل واقعہ (جو متفق عليہ ہے) كے جھٹلانے كا باعث نہيں بن سكتا_
جب حضرت عبدالمطلب كے دس بيٹے تھے اور اس وقت ان كے سب سے چھوٹے بيٹے كى عمر بھى ساٹھ سال كے قريب تھى پھر جب ان كى اولاد كو بھى ساتھ ملاليں تو كيسے چاليس تك نہيں پہنچيںگے ؟ بلكہ وہ تو اس سے بھى بہت زيادہ ہوجائيں گے پس اس تعداد كو بعيد جاننے كى كيا وجہ ہے؟
تيسرے اعتراض كا جواب
شيخ مظفر نے اس كا جواب يوں ديا ہے_ ''كھانے پينے ميں ان كا مشہور نہ ہونا اس بات كى دليل نہيں ہے كہ حقيقت ميں بھى وہ ايسے نہ تھے بلكہ ان كا ايسا ہونا عين ممكن ہے اور اگر ہم تسليم كرليں كہ وہ اس حد تك نہ كھاتے تھے تو پھر مذكورہ بات سے يہى مطلب نكلتا ہے كہ راوى نے پيغمبر(ص) كے اس معجزے كو بيان كرنے ميں مبالغہ سے كام ليا ہے كہ آپ(ص) نے بھيڑ كى ايك ران سے ان سب كو سير كيا اور دودھ كے ايك برتن سے انہيں سيراب كيا''_ (3)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ السيرة النبوية از ابن كثير ج 1 ص 459 از ابن ابى حاتم نيز البداية و النہاية ج 3 ص 40 اور رجوع كريں كنز العمال ج 15 ص 113، مسند احمد ج 1 ص 113، تفسير ابن كثير ج 3 ص 350، ابن عساكر، زندگى نامہ امام على بہ تحقيق المحمودى ج 1 ص 87 و اثبات الوصية (مسعودي) ص 115 تاريخ يعقوبى ج 2 ص 27 اور مسند البزار خطى نسخہ در كتابخانہ مراد نمبر 578_
2_ الكامل ابن اثير ج 2 ص 62_
3_ دلائل الصدق ج 2 ص 235 _
26
چوتھے اعتراض كا جواب
شيخ مظفر فرماتے ہيں كہ يہ اعتراض بھى درست نہيں كيونكہ حضور(ص) كا مذكورہ بيان استحقاق خلافت كيلئے علت تامہ كى حيثيت نہيں ركھتا تھا اور نہ ہى پيغمبر(ص) نے اس بات كا دعوى كيا تھا_ اگر ايسى بات ہوتى تو پھر آپ كے رشتہ داروں كے علاوہ ديگر لوگ بھى اس كے مستحق ٹھہرتے_ بلكہ آپ كو حكم ہوا تھا كہ اپنے رشتہ داروں كو خبردار كريں كيونكہ آپ كى حمايت و نصرت كيلئے يہى لوگ زيادہ مناسب تھے_ بنابرايں يہ مقام فقط انہى كيلئے مختص ہوا_
نيز آپ كا مقصد ابتدا ميں ہى يہ بتا دينا تھا كہ يہ مقام علي(ع) كے ساتھ مختص ہے كيونكہ الله اور اس كے رسول(ص) كو بخوبى علم تھا كہ نبى كى دعوت پر لبيك كہنے اور آپ كى مدد كرنے والا علي(ع) كے سوا كوئي نہ ہوگا_ بنابرايں رسول(ص) الله كا يہ طرز عمل لوگوں كے اوپر اتمام حجت كرتے ہوئے حضرت علي(ع) كى امامت كے اثبات كےلئے تھا_ اگر بالفرض آپ كى دعوت پر دوسرے افراد بھى لبيك كہتے تو آپ ان لوگوں كے درميان ميں سے زيادہ مناسب فرد كا انتخاب فرماتے_ (1)
محقق جليل سيد مہدى روحانى نے شيخ مظفر كے مذكورہ بيان كى يوں وضاحت كى ہے كہ حضور(ص) كا خطاب سب كيلئے تھا ليكن آپ ان لوگوں كى فطرى عادتوں، خصلتوں اور طبيعتوں كے پيش نظر جانتے تھے كہ سوائے علي(ع) كے ان ميں سے كوئي بھى ہامى نہيں بھرے گا_ مزيد يہ كہ خدا نے بھى آپ(ص) كو اس امر كى اطلاع دى تھي_ قول مصنف: اس حقيقت كى تائيد اس روايت سے ہوتى ہے جسے ہم سيد ابن طاؤوس كى زبانى بحارالانوار سے نقل كريں گے_ بحار ميں''ماذا قال النبى يوم الانذار'' (نبي(ص) نے دعوت ذوالعشيرہ كے دن كيا فرمايا) كے عنوان سے اس كا تذكرہ ہوا ہے_
وہاں پر ہم نے يہ عرض كيا ہے كہ يہى روايت قرآن كى آيت سے ہم آہنگ ہے_ كيونكہ اسحديث ميں آپ(ص) نے فرمايا: ''خدا نے كسى بھى نبى كو مبعوث نہيں كيا مگر يہ كہ اس كے قريبوںميں سے كسى كو اس كا بھائي وزير، وصى اور وارث قرار ديا ہے_ يقينا اس نے گذشتہ انبيا كى طرح ميرے لئے بھى ايك وزير مقرر كيا ہے''_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ دلائل الصدق ج 2 ص 236_
27
پھرفرمايا:'' الله كى قسم اس نے مجھے اس بات كى خبر دى ہے اور اس كا نام بھى مجھے بتاديا ہے ليكن اس الله كا حكم يہ ہے كہ ميں تمہيں دعوت دے كر نصيحت كروں اور اس مسئلے كو تمہارے سامنے پيش كروں تاكہ آئندہ تمہارے پاس كوئي بہانہ نہ رہے اور حجت تمام ہوجائے''_(1)
محقق روحانى نے اس بات كا بھى احتمال ديا ہے كہ شايد حضور(ص) كا مقصد يہ ہو كہ اس خطاب كے نتيجے ميں كوئي ايك فرد جواب ديدے_ اسى لئے ان سے فرمايا ''تم ميں كون ہے جو ميرا ہاتھ بٹائے'' بنابرايں سب سے پہلے لبيك كہنے والا ہى آنحضرت(ص) كے وعدے كا مستحق ٹھہرتا_ ايك سے زيادہ افراد كا جواب دينا بہت بعيد ہے اور عرف عام ميں اس احتمال كى كوئي وقعت نہيں_ بالخصوص يہ اعتراض اس وقت ہوسكتا ہے جب ايك سے زيادہ افراد باہم جواب ديتے حالانكہ يہ تو اور بھى بعيد تھا_
اس پر مزيد يہ كہ حضور(ص) كو علم تھا كہ ان ميں سے سوائے ايك فرد كے كوئي بھى مدد كرنے كيلئے تيار نہيں ہوگا_
البتہ بعض بزرگان كا كہنا ہے كہ رسول كى مدد سے مراد چند امور ميں ہاتھ بٹانا ہوہى نہيں سكتا _ كيونكہ تمام اصحاب اپنے مرتبے كے اختلاف كے باوجود بھى رسول اكرم(ص) كا ہاتھ بٹايا كرتے تھے پس يہاں پر نصرت سے مراد تمام امور اور حالات ميں مدد كرنا ہے_ اور دين ميں مكمل مدد صبر اور علم كے بلند مرتبہ اور درجہ عصمت تك بلندى روح كى متقاضى ہے _ جس كا مطلب يہ ہے كہ صرف مذكورہ صفات كا حامل ہى امامت كا مستحق ہوسكتا ہے _ كوئي اور شخص مثلا ظالم آدمى نہيں ہوسكتا كيونكہ خدا فرماتا ہے '' لا ينال عہدى الظالمين'' ميرا عہدہ ظالموں كو نہيں مل سكتا_ اور ايسا شخص صرف على (ع) ہى ہوسكتا ہے_
قول مصنف : حضرت على (ع) كى امامت اور خلافت نبى كى طر ف سے بھى نہيں بلكہ خدا كى طرف سے عطا كردہ ہے تا كہ مانگى گئي اور ترغيب دى گئي مدد كا نتيجہ بنے_ حالانكہ نبى كريم(ص) جانتے تھے كہ على (ع) كے سوا اور كوئي جواب دينے والا نہيں ہے_ پس دعوت ذوالعشيرہ كا ماجرا ا تمام حجت كے لئے تھا تا كہ كوئي بہانہ بھى باقى نہ رہے پس جناب مظفر صاحب كى بات ہى بہتر اور حقيقت كے قريب ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ بحارالانوار ج 18 ص 215،216 نے سعد السعود ص 106 سے نقل كيا ہے_
28
پانچويں اور آخرى اعتراض كا جواب
يہ آخرى اعتراض تو كسى صورت ميں بھى درست نہيں كيونكہ اولاً: جناب حمزہ(ع) كا قبول اسلام اس وقت مانع بن سكتا ہے جب يہ آيہ انذار كے نزول سے قبل واقع ہوا ہو اور ہم تو اس كا احتمال بھى نہيں دے سكتے چہ جائيكہ اس كا يقين كريں_
كيونكہ جناب حمزہ(ع) كے قبول اسلام كى كيفيت ميں منقول روايات كى رو سے صريحاً نہيں تو بظاہر يہ ضرور معلوم ہوتا ہے كہ آپ اعلانيہ دعوت اسلام كے بعد اس وقت مسلمان ہوئے جب قريش كھل كر حضور(ص) كى مخالفت پر اتر آئےتھے اور حضرت ابوطالب كے ساتھ ان كے مذاكرات بھى ہوچكے تھے_
ثانياً: اگر ہم مذكورہ بات كو تسليم بھى كرليں (1)تو ممكن ہے دعوت ذوالعشيرہ كا واقعہ خفيہ دعوت كے دوران اورجناب حمزہ كے قبول اسلام سے پہلے پيش آيا ہو_ البتہ يہ اس صورت ميں ممكن ہے جب حضرت حمزہ كا قبول اسلام بعثت كے دوسرے سال واقع ہوا ہو اورجناب حمزہ اور ابوجہل كے درميان پيش آنے والا واقعہ ايك حد تك دعوت اسلام كو آشكار كرنے كا باعث بنا ہو_ اور قريش نے خفيہ دعوت كے دوران ہى نبى كريم (ص) كو تنگ كرنے كا سلسلہ شروع كرديا ہو_ رہا مسئلہ دوسرے مسلمانوں كا تو ان كے ساتھ آنحضرت(ص) كے روابط مخصوص طرز پر تھے اور ان كے قبول اسلام كے بارے ميں رازدارى برتى جاتى تھي_ ہمارى بات كى تائيد اس آيت (فاصدع بما تو مر) سے ہوتى ہےكيونكہ اسى آيت كے باعث اسلام كى خفيہ دعوت نے اعلانيہ دعوت كى شكل اختيار كرلى اور اس بات ميں كوئي شك نہيں كہ دعوت ذوالعشيرہ كا واقعہ اس سے پہلے كا ہے_
ثالثاً: اگر حضرت حمزہ اس وقت اسلام لابھى چكے ہوتے تو ان كى مثال حضرت ابوطالب جيسى تھى اور ان دونوں نے اپنے آپ كو اس دعوت كا مطلوب و مقصود ہى نہ سمجھا تھا (يعنى ان دونوں كو علم تھا كہ اس دعوت سے ہم مراد نہيں ہيں) خصوصاً جب وہ ديكھ رہے تھے كہ پيغمبر(ص) كے بعد ان كا زندہ رہنا نہايت مشكل ہے_ كيونكہ حضرت حمزہ تقريباً حضور(ص) كے ہم عمر تھے اور حضرت ابوطالب(ع) تو نہايت عمر رسيدہ تھے اور حضور(ص) كى وفات تك
--------------------------------------------------------------------------------
1_ كہ جناب حمزہ (ع) نے خفيہ دعوت اسلام كے موقع پر اسلام قبول كيا تھا _ (مترجم)
29
ان كے زندہ رہنے كى توقع نہ تھي_ بنابرايں اس بات كى گنجائشے نہ تھى كہ ان دونوں ميں سے كوئي بھى اپنے آپ كو پيغمبر(ص) كے بعد آپ(ص) كا جانشين بننے كيلئے پيش كرتا_
خلاصہ يہ كہ ابن تيميہ كے سارے اعتراضات بے حقيقت سراب كى مانند ہيں يا اس راكھ كى طرح ہيں جسے تند و تيز ہوا اڑا كر لے جائے_
واقعہ انذار اور چند اہم نكات
الف_ غير معتبر روايتيں
ابن تيميہ نے اس قسم كى احاديث كو تقويت دينے كى كوشش كى ہے جو نہ صرف حضرت على (ع) اور اہل بيت كو منظر سے ہٹا ديتى ہيں بلكہ عمومى طور پر بنى ہاشم كو بھى نظروں سے اوجھل كرديتى ہيں_ مثال كے طور پر بخارى اور مسلم و غيرہ كى وہ روايات جو كہتى ہيں كہ جب آيہ (و انذر عشيرتك الاقربين) اترى تو رسول(ص) الله نے قريش كو جمع كيا، جب سب جمع ہوگئے تو آپ(ص) نے عمومى اور خصوصى دعوت دے كر فرمايا:'' اے بنى كعب بن لوي اپنے آپ كو آگ سے بچاؤ، اے بنى مرة بن كعب اپنے آپ كو عذاب آتش سے بچاؤ، اے بنى ہاشم آتش الہى سے بچو، اے بنى عبدالمطلب عذاب آتش سے بچو_ اور اے فاطمہ بنت محمد آتش الہى سے اپنے آپ كو بچاؤ''_ (1)آخر روايت تك_
ايك اور روايت ميں ہے كہ آپ(ص) نے بنى ہاشم كو جمع كيا، مردوں كو دروازے كے سامنے بٹھايا اور عورتوں كو گھر كے اندر بٹھايا پھر بنى ہاشم سے بات چيت كي_ اس كے بعد اپنے گھر والوں كى طرف متوجہ ہوئے اور فرمايا:'' اے عائشه بنت ابوبكر اے حفصہ بنت عمر اے ام سلمہ اے فاطمہ بنت محمد اے رسول(ص) الله كى چچى ام
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں: منھاج السنة ج 4 ص 83 و درالمنثور ج 5 ص 95 اور 96 از احمد، عبد بن حميد، بخاري، مسلم، ترمذي، ابن جرير، ابن المنذر، ابن ابى حاتم، ابن مردويہ اور بيہقى نے حضرت عائشه ، انس، عروہ بن زبير، براء اور قتادہ سے نقل كيا ہے نيز تاريخ الخميس ج 1 ص 287_
30
زبير رضائے الہى كے بدلے اپنى جانوں كا سودا كرواور اپنى نجات كيلئے جدوجہد كرو_ ميں خدا كى جانب سے تمہارے لئے كچھ بھى نہيں كرسكتا''_ يہ سن كر حضرت عائشه رو پڑى اور كہا ... (اس كے بعد رسول(ص) الله اور حضرت عائشه كے درميان گفتگو كا تذكرہ ہے)_ (1)
ان كے علاوہ ديگر روايات بھى منقول ہيں جن ميں آنحضرت(ص) كى جانب سے قريش كو دعوت دينے اور ان كو ڈرانے كا تذكرہ موجود ہے_ حقيقت يہ ہے كہ يہ روايات درست نہيں ہوسكتيں كيونكہ:_
1) جيساكہ پہلے ذكر ہوچكا ہے كہ اس وقت تك حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا كى ولادت بھى نہيں ہوئي تھى _
2) حضرت عائشےہ، (2) حضرت حفصہ اور ام سلمہ سے اس وقت تك رسول(ص) الله كى شادى ہى نہيں ہوئي تھى اور نہ وہ آپ كے اہل ميں شامل تھيں ان تينوں سے آپ كى شادى كئي سال بعد مدينے ميں ہوئي_
3) يہ روايات ان احاديث كے منافى ہيں جن كے مطابق آپ(ص) نے قريش كو اس وقت دعوت اسلام دى جب (فاصدع بما تو مر ...) والى آيت نازل ہوئي_ اور '' و انذر عشيرتك الاقربين'' والى آيت كے نزول پر قريش كو دعوت نہيں دى تھي_
4) يہ روايات خود قرآن كى آيت (انذر عشيرتك الاقربين) كى بھى مخالف ہيں كيونكہ يہ آيت آپ (ص) كو نہ تو تمام قبيلہ والوں كو دعوت كا حكم ديتى ہے اور نہ ہى تمام لوگوں كو بلكہ صرف اپنے قريبى رشتہ داروں كو اسلام كى دعوت دينے كا حكم ديتى ہے _ظاہر ہے كہ آپ(ص) كے قريبى رشتہ دار يا تو بنى ہاشم ہوسكتے ہيں يا بنى عبدالمطلب اور بنى مطلب_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ درالمنثور ج5 ص 96 از طبرانى و ابن مردويہ از ابى امامہ_ يہ روايات ديگر متعدد منابع ميں بھى موجود ہيں خصوصاً جن مآخذ كا ذكر ہم نے اس بحث كى ابتدا ميں كيا تھا_
2_ عجيب بات تو يہ ہے كہ ان كے عقيدے كى رو سے حضرت عائشه بعثت كے پانچويں سال پيدا ہوئيں اور دعوت ذوالعشيرہ كا واقعہ بھى اسى سال كى بات ہے يوں وہ صريحاً تضاد گوئي كے شكار ہوئے ہيں_ اگرچہ ہمارا نظريہ يہ ہے كہ حضرت عائشه بعثت سے كئي سال قبل پيدا ہوئيں جس كى طرف اشارہ ہوگا_ انشاء الله تعالي_
31
واقعہ انذار كے كئي بار واقع ہونے كا قول بھى اس ا شكال كو دور نہيں كرسكتا_ كيونكہ روايات صريحاً كہتى ہيں كہ يہ واقعہ مذكورہ آيت كے نزول كے ساتھ ہى پيش آيا_
ان باتوں كے علاوہ يہ روايات اسناد كے لحاظ سے بھى قابل اعتراض ہيں كيونكہ ان احاديث كے راويوں ميں سے كوئي بھى مورخين كے بقول دعوت ذوالعشيرہ كے وقت موجود نہ تھا_
ب_ '' خليفتى فى اھلى ''سے كيا مراد ہے؟
شيخ مظفر كے بقول يہ بات واضح ہے كہ حضور(ص) كے ''خليفتى فيكم'' يا ''خليفتى فى اھلي'' فرمانے پر كوئي اعتراض وارد نہيں ہوتا كيونكہ مسلمانوں كا اس بات پر اجماع ہے كہ آنحضرت(ص) كے بيك وقت دو ايسے خليفے نہيں ہوسكتے جن ميں سے ايك خاص ہو دوسرا عام بلكہ جو آپ(ص) كا خليفہ خاص ہوگا وہى آپ(ص) كا خليفہ عام بھى ہوگا_
يہاں پر صحيح ترين عبارت ''من بعدي'' ہى ہوسكتى ہے (جيساكہ ديگر روايات ميں بھى موجود ہے) يا پھر پيغمبر اكرم(ص) كے ''فيكم'' پر مشتمل ارشاد ميں آپ كے حقيقى مخاطب ايمان لانے والے لوگ تھے_
رہا بعض لوگوں كا يہ دعوى كہ ''خليفتى فى اھلي'' يا ''فيكم'' سے مراد وہ شخص ہے جو ان كے دنياوى امور كا ذمہ دار ہو تو يہ بات تاريخى حقيقت نہيںركھتي_ كيونكہ واضح ہے كہ حضرت علي(ع) كسى ہاشمى كے دنياوى امور كے ذمہ دار نہيں تھے_ اگر كوئي يہ كہے كہ مراد فقط حضرت حسنين(ع) اور حضرت فاطمہ(ع) ہيں تو اس كا جواب بھى واضح ہے_ كيونكہ جناب حسنين(ع) ( حتى كہ ان كى والدہ بھى )اس وقت پيدا نہيں ہوئے تھے مزيد يہ كہ وہ خلافت كى بنياد پر ان كے كفيل نہيں تھے بلكہ وہ ويسے ہى ان تينوں كے نفقہكے ذمہ دار تھے_ ان كے علاوہ ديگر لوگوں كے اخراجات آپ كے ذمہ نہ تھے اور نہ ہى آپ نے عملاً اس كام كو انجام ديا_ (1)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ دلائل الصدق ج 2 ص 239 كى طرف رجوع كريں _
32
ج_ فقط رشتہ داروں كى دعوت كيوں؟
واضح سى بات ہے كہ نزديكى رشتہ داروں كى دعوت آپ كے مشن كى بنيادوں كو مضبوط كرنے اور آپ كے پيغام كو پھيلانے كا بہترين ذريعہ تھي_ كيونكہ اصلاح كى ابتدا ہميشہ اندر سے ہونى چاہيئے تاكہ اپنے اہل خاندان اور قبيلہ كى حمايت حاصل كرنے كے بعد دوسروں كى جانب اطمينان، ثابت قدمى اور عزم راسخ كے ساتھ رخ كيا جا ئے_
علاوہ ازيں ان كو دعوت ديكر آپ(ص) باہمى روابط اور جذبوںكے حوالے سے قوت و ضعف كے اندرونى عوامل كو پركھ سكتے تھے اور مستقبل ميں حاصل ہونے والى حمايت كا اندازہ لگا كر اس كى روشنى ميں اپنے اقدامات اور پاليسيوں كى حدود كو معين فرما سكتے تھے_
يہ بھى بتاتے چليں كہ جب آپ (ص) نے قريبى رشتہ داروں سے دعوت اسلام كا آغاز كيا اور اس مرحلہ ميں بھى كسى كو كوئي امتياز اور خصوصيت دينے پر تيار نہيں تھے تو اس كا مطلب يہ ہے كہ دوسرے لوگوں كو بھى جان لينا چاہئے كہ آپ(ص) اعتماد بہ نفس ركھتے ہيں اور اپنے دعوے كے صحيح ہونے پر آپ(ص) كو پورا يقين ہے _ كيونكہ آپ(ص) اپنے سب سے پيارے افراد كے لئے يہ بھلائي چاہتے ہيں كہ وہ ان مؤمنين كى صف ميں شامل ہوجائيں جو اس دين كى راہ ميں سب سے بڑى قربانى دينے پر بھى تيار ہيں_ اور ہم نے ديكھا كہ واقعہ مباہلہ ميں نصارى اس بات كا ادراك كرتے ہوئے مباہلہ كئے بنا واپس لوٹ گئےيہ بھى پيش نظر رہے كہ رسول(ص) الله ايك ايسے معاشرے ميں زندگى گزار رہے تھے جس ميں باہمى تعلقات كى بنياد ''قبيلہ'' تھي_ بنابريں چونكہ آپ(ص) بنيادى اور تقديرساز اقدامات كرنا چاہتے تھے اور اس بات پر بھى ذاتى طور پر راضى نہ تھے كہ اپنے موقف كى حمايت يا اپنے اہداف كے حصول ميں قبيلہ پرستى شامل ہو جائے، لہذا اس بات كى ضرورت تھى كہ آپ رشتہ داروں كے معاملے ميں ايك واضح موقف اپناتے اور انہيں مكمل آزادى اور صدق دل كے ساتھ اپنى ذمہ داريوں كو واضح طور پر سمجھنے كا موقع فراہم كرتے_ تاكہ اس سلسلے ميں معاشرے ميں رائج كسى بھى قسم كے خاندانى و قبائلى تعلقات كے دباؤ سے كام نہ ليا جائے كيونكہ يہ اسلام كى نظر ميں صحيح نہيں تھا_
33
يہيں سے يہ حقيقت بھى كھل كر سامنے آتى ہے كہ مختلف حالات كا سامنا كرنے اور ان كاحل پيش كرنے كے بارے ميں اسلام كى روش كيا ہے_ اسلام نہيں چاہتا كہ اپنے مقاصد اور مفادات كے حصول كيلئے لوگوں كى سادگى اور جہالت سے فائدہ اٹھائے_ يہاں تك كہ ان غلط رسوم و عادات سے بھى جنہيں لوگوں نے اپنى مرضى سے اپنايا ہو_
اسلام وسيلے كو ہدف كا ايك حصہ سمجھتا ہے_ بنابرايں وسيلے كو ہدف سے ہم آہنگ ہونا چاہيئے_ جس طرح ہدف مقدس ہے اسى طرح وسيلہ كا بھى مقدس اور پاك ہونا ضرورى ہے_ خدا ہميں اسلام كى ہدايت پر چلنے اور اس كى تعليمات سے متمسك رہنے كى توفيق عنايت فرمائے_
خدا ہى اميدوں كا بہترين مركز ہے اور طلب حوائج كيلئے سب سے زيادہ صاحب بخشش ہستى ہے_ بہرحال شيخ بطحاء ابوطالب كى طرف سے تعاون اور مدد كے بھرپور وعدے كے بعد پيغمبر اكرم(ص) اس جلسہ سے نكلے_ كيونكہ ابوطالب(ع) نے جب ابولہب كے نامعقول اور غيرانسانى موقف كو ديكھا تو فرمايا: ''اے پست انسان ،الله كى قسم ہم ضرور ان كى مدد كريں گے_ (پھر رسول(ص) الله سے كہا) اے بھتيجے جب تم اپنے رب كى طرف دعوت دينا چاہو تو ہميں پكارو ہم مسلح ہو كر تمہارى مدد كريں گے''_ (1)
د_ على (ع) اور واقعہ انذار
ہم نے مشاہدہ كيا كہ نبى اكرم(ص) نے دعوت ذوالعشيرہ كے دن چاليس افراد كى ميزبانى كے فرائض سنبھالنے كيلئے حضرت على (ع) كا انتخاب كيا اور حكم ديا كہ كھانا تيار كر كے انہيں بلائيں اس لئے كہ حضرت على (ع) آپ (ص) ہى كے گھر ميں اور آپ (ص) ہى كے ساتھ ہوتے تھے_حالانكہ آپ (ص) جناب خديجہ سے بھى كھانا تيار كرنے كو كہہ سكتے تھے كيونكہ بظاہر يہ دعوت رسول كريم (ص) كے گھر ميں ہوئي نيز اس كام كيلئے ديگر لوگ بھى موجود تھے جو حضرت على (ع) سے زيادہ مشہور تھے، مثلاً حضرت ابوطالب(ع) يا حضرت جعفر جو عمر كے لحاظ سے حضرت على (ع) سے بڑے تھے اور ان كے علاوہ دوسرے افراد جن كى شخصيت اور نفوذ سے استفادہ كرسكتے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تاريخ يعقوبي، ج 2 ص 27،28_
34
جى ہاں حضرت على (ع) كا انتخاب رسول(ص) الله نے بذات خود فرمايا تھا_كيونكہ حضرت على (ع) اس وقت عمر كے لحاظ سے اگر چہ چھوٹے تھے، ليكن درحقيقت عقل كے لحاظ سے بڑے تھے_ آپ عظيم خصوصيات اور لياقتوں كے مالك، نيز روحانى و معنوى بزرگى كے حامل تھے_ آپ كے اہداف و مقاصد عظيم تھے_ اس كى سب سے بڑى دليل يہ ہے كہ حاضرين ميں آپ ہى واحد فرد تھے جس نے رسول(ص) (ص) كى دعوت پر لبيك كہا اور آنحضرت(ص) كى مدد و نصرت كا اعلان كيا_ ساتھ ساتھ نبي(ص) اكرم نے بھى اس دن على (ع) كے كردار كى بناء پر آپ كو اپنا بھائي، وصى اور خليفہ ہونے كا اہل سمجھا _يہ وہ مقام تھا جس تك كوئي رسائي حاصل نہ كرسكتا تھا بلكہ ايك دن كے لئے بھى اس كے حصول كا خواب بھى نہيں ديكھ سكتا تھا _
ليكن حضرت على (ع) نے كمسنى كے باوجود اس مقام كوپاليا اور باقى سب كو پيچھے چھوڑ ديا_ اس كى وجہ يہ تھى كہ آپ نے رسول(ص) الله كى آغوش ميں پرورش پائي_ حضور(ص) نے آپ كى كفالت و تربيت كى تھي_ وہ آپ كو كھانا ٹھنڈا كر كے كھلاتے اور على (ع) آپ(ص) كى خوشبو سونگھتے تھے_ حضرت على (ع) حضور(ص) كے نقش قدم پر اس طرح چلتے جس طرح اونٹنى كا بچہ اپنى ماں كے پيچھے پيچھے ہوتا ہے_ رسول(ص) الله آپ كو بيٹے كى طرح چاہتے تھے_ (1)
و ذلك فضل الله يؤتيہ من يشاء و الله ذوالفضل العظيم_
ھ_ ابولہب كا موقف
ابولہب نے دعوت اسلام كى حقيقت كو سمجھ ليا تھا اور اندازہ كرليا تھا كہ اب يہ تحريك سنجيدگى كے مرحلے ميں داخل ہوچكى ہے _ وہ ايك نيا معجزہ اپنى آنكھوں كے سامنے ديكھ رہا تھا_ اس سے قبل بھى وہ رسول(ص) خدا سے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ نبى كريم(ص) كى جانب سے حضرت علي(ع) كى كفالت كے باعث شيخ الابطح ابوطالب(ع) پر كوئي اعتراض وارد نہيں ہوتا( جيساكہ بعض لوگ گمان كرتے ہيں )كيونكہ جناب عبدالله اور جناب ابوطالب اپنے باقى بھائيوں كے برخلاف ايك ہى ماں سے پيدا ہوئے تھے_ ادھر نبى (ص) كى پرورش ابوطالب(ع) نے كى تھي_ حضور (ص) فاطمہ بنت اسد كو ماں كہہ كر پكارتے تھے حضرت ابوطالب اور ان كى زوجہ حضرت فاطمہ بنت اسد رسول(ص) الله كا بڑا خيال ركھتے تھے اسى طرح رسول اللہ (ص) اور حضرت على (ع) كى عمروں ميں تفاوت كو مدنظر ركھتے ہوئے ( يہ كہا جاسكتاہے كہ ) حضرت على (ع) بھى رسول اكرم (ص) كے لئے بيٹے كى حيثيت ركھتے تھے_
35
متعدد معجزات و كرامات كا مشاہدہ كرچكا تھا اور آج بھى اس نے ديكھا كہ كس طرح گوشت كى ايك ران اور دودھ كا ايك برتن چاليس افراد كيلئے كافى ثابت ہوا_
ابولہب اس دين كى حقيقت اور اہداف كو سمجھ رہا تھا جس كى جانب حضرت محمد (ص) ہدايت فرمارہے تھے اور وہ يہ بھى جانتا تھا كہ حضرت محمد(ص) كے نزديك ان امتيازات كى كوئي حيثيت نہيں جو طاقت، ظلم و عدوان اور ناجائز طريقوں سے حاصل ہوئے ہوں_ بنابرايں وہ اپنى غيرمعقول سوچ كے مطابق يہ ضرورى سمجھتا تھا كہ اس دين كے مقابلے پر اتر آئے اور ہر ممكنہ طريقے سے اس دين كو اس كے اہداف تك پہنچنے سے روكے اور آنحضرت(ص) كو موقع سے فائدہ اٹھانے كى مہلت نہ دے تاكہ يوں ايك طرف سے وہ اپنے مفادات كو بچائے، اور دوسرى جانب سے اپنے سينے ميںكينے اور حسد كى بھڑكتى ہوئي آگ كو ٹھنڈا كرسكے_ اس كينے كى كوئي وجہ اور بنياد نہ تھى سوائے اس كے كہ وہ نبى اكرم(ص) كى ذات ميں صفات جميلہ اور اخلاق كريمہ كا مشاہدہ كرتا تھا_ ظاہر ہے اس كى نظر ميں اس سے بڑا جرم اور كيا ہوسكتا تھا_
ابولہب نے عملى طور پر اس كينہ و حسد كا ثبوت ديا_ اس نے كھانے والے معجزے كو (جسے سب نے اپنى آنكھوں سے ديكھا تھا) غلط رنگ ديا اور رسول(ص) الله پر جادو كا الزام لگاتے ہوئے كہا: ''تمہارے ساتھى نے تم پر بڑا سخت جادو كر دكھايا''_ يہ سن كر وہ لوگ اس دن چلے گئے اور رسول(ص) الله اپنے دل كى بات نہ كرسكے_ يہاں تك كہ دوسرا دن آيا اور حضور اكرم(ص) حكم الہى كو ان تك پہنچانے اور اتمام حجت كرنے ميں كامياب ہوئے جيساكہ پہلے ذكر ہوچكا ہے_
و_ پہلے انذار پھر ...
واقعہ انذار كا تذكرہ كرتے ہوئے يہ بتانا ضرورى ہے كہ رسول(ص) الله كو خدا كى جانب سے حكم ہوا تھا كہ آپ پہلے اپنے نزديكى رشتہ داروں كو ڈرائيں چنانچہ ارشاد ہوا: (وانذر عشيرتك الاقربين) (1)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ شعرائ، آيت 214_
36
اوردوسرے لوگوں كے معاملے ميں بھى يہى صورت حال تھي_ چنانچہ سورہ مدثر ميں (جو بعثت كے اوائل ميں نازل ہونے والى سورتوں ميں سے ہے) الله نے اپنے پيارے نبى سے فرمايا: (قم فانذر) اے رسول(ص) اٹھو اور لوگوں كو (عذاب الہى سے) ڈراؤ_ (1)_
ايسا كيوں ہے ؟ حالانكہ رسول(ص) الله لوگوں كيلئے مبشر و نذير (خوشخبرى دينے اور ڈرانے والے) كى حيثيت سے مبعوث ہوئے تھے جس طرح خود قرآن ، ہدايت بھى ہے اور بشارت بھي_ اس كى علت واضح ہے كيونكہ لوگ ابتدائے بعثت ميں كافر تھے اور ظلم و انحراف كى آخرى حدوں كو چھو رہے تھے_ بنابريں پہلے ان كو ڈرانے كى ضرورت تھى تاكہ وہ اس خطرناك صورتحال كى طرف متوجہ ہوں جس ميں وہ زندگى گزار رہے تھے اور ان خوفناك و تباہ كن نتائج سے باخبر ہوں جو مذكورہ صورتحال كے نتيجے ميں پيش آتے ہيں_ عذاب كى جانب ان كى توجہ ، غفلت سے بيدار ہونے اور اس خطرناك صورتحال سے نكلنے كے لئے عملى قدم اٹھانے كے لئے مؤثر ہوسكتى تھي_
اس كے بعد انفرادى و اجتماعى سطح پر معاشرے كو غلط آداب و رسوم اور خرابيوں سے نجات دلانے اور اجنبى اوربے سور افراد سے پاك كرنے كا مرحلہ آتا_ اس كے ساتھ ساتھ صحيح انسانى جذبات، باہمى روابط اور سب سے بڑھ كر فكرى و تہذيبى سطح پر اسلامى معاشرے كو صاف اور مضبوط بنيادوں پر استوار كرنے كى بارى آتي_ پھر اس اسلامى معاشرے كو كائنات، زندگى اور طاقتور ہوتے ہوئے بھى كمزور انسان كے حقيقى مفہوم سے آگاہ كرنے كا موقع ملتا اور انسان كى باطنى تعليم و تربيت و اصلاح كيلئے قدم اٹھايا جاسكتا،جو نبي، امام اور مبلغين حق كى ذمہ دارى ہے،چنانچہ كتاب كے اس حصّہ كے شروع ميں ہم نے اس آيت قرآنى كى طرف اشارہ كيا: (ھو الذى بعث فى الاميين رسولاً منہم يتلوعليہم آياتہ ويزكيھم ويعلمہم الكتاب والحكمة) يعنى الله ہى نے مكہ والوں ميں ،انہى ميں سے ايك رسول(ص) بھيجا جو ان كے سامنے اس كى آيتيں پڑھتا اور ان كو پاك كرتا ہے اور ان كو كتاب و حكمت كى باتيں سكھاتا ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ مدثر/2_
37
اسلام كے طريقہ تبليغ كے بارے ميں جو كچھ ہم نے عرض كيا وہ درحقيقت ہر اس دعوت يا تحريك كا فطرى تقاضا ہے جو بنيادى اصلاح اور مشكلات زندگى كو حل كرنے كى طالب ہو_
ز_روز انذار رسول (ص) اللہ كا فرمان :
بعض كتابوں ميں مذكور ہے كہ حضور(ص) نے فرمايا: ''اے اولاد عبدالمطلب ميں خدا كى جانب سے تمہيں ڈرانے آيا ہوں ميں وہ چيز لے كر آيا ہوں جسے اب تك كوئي عرب ليكر نہيں آيا اگر ميرى اطاعت كرو گے تو ہدايت، فلاح اور نجات پاؤگے آج كے اس كھانے كے بارے ميں مجھے خدا كى جانب سے حكم ہوا تھا_ پس ميں نے اسے تمہارے لئے تيار كيا جيساكہ حضرت عيسى (ع) نے اپنى قوم كيلئے كھانے كا بندوبست كيا تھا _اس كے بعد اگر تم ميں سے كسى نے كفران كيا تو خداوند عالم اس كو ايسے شديد عذاب ميں مبتلاكرے گا كہ پورے عالم ميں كسى اور كو مبتلا نہ كيا ہوگا پس خدا سے ڈرو اور ميرى بات سنو_
اے بنى عبدالمطلب جان لو كہ خدا نے كسى نبى كو بغير كسى بھائي، وزير، وصى اور وارث كے مبعوث نہيں كيا_ بتحقيق اس نے ميرے لئے بھى كسى كو وصى قرار ديا ہے جس طرح مجھ سے پہلے والے انبياء كيلئے قرار ديا تھا_ بے شك الله نے مجھے تمام لوگوں كى طرف بھيجا ہے اور مجھ پر يہ حكم نازل كيا ہے (وانذر عشيرتك الاقربين) يعنى اپنے قريبى رشتہ داروں اور مخلص لوگوں كو خدا كا خوف دلاؤ_
خدا كى قسم اس نے مجھے اپنے وصى اور وزير كى خبر دى ہے اور اس فرد كا نام بھى بتا ديا ہے ليكن ميں تمہيں دعوت ديتا ہوں اور نصيحت كرتا ہوں_ نيز تمہيں اس عہدے كى پيشكشكرتا ہوں تاكہ بعد ميں تمہارے لئے كوئي بہانہ نہ ر ہے، تم لوگ ميرے رشتہ دار اور ميرے قبيلہ والے ہو _پس تم ميں سے كون ہے جو اس امركى طرف پيش قدمى كرے تاكہ وہ خدا كى راہ ميں ميرا بھائي ميرا وزير اور مددگار بنے''_ رسول(ص) الله كا يہ كلام كتاب كى اس فصل كى ابتدا ميں مذكور عبارت سے ہم آہنگ ہے_ (1) اور يہ تصريح شايد اس جيسے عظيم موقف
--------------------------------------------------------------------------------
1_ بحار الانوار ج18ص 215،216 نے ابن طاووس كى كتاب سعد السعود ص 106 سے نقل كيا ہے_
38
سے بھى مكمل ہم آہنگ ہے_ اسى طرح يہ الفاظ آيت ميں حكم انذارسے بھى پورى طرح مرتبط ہيںكيونكہ ہر تحريك كا پہلا قدم ''انذار'' ہى ہوتا ہے جس طرح كہ ہم نے يہ بات پہلے بھى كئي مرتبہ ذكر كى ہے_
ح_ بشارت و انذار
عظيم محقق شہيد شيخ مرتضى مطہرى كہتے ہيں: ''جو شخص يہ چاہتا ہو كہ كسى فرد كو كسى كام پر آمادہ كرے تو اس كے دو طريقے ہيں ايك بشارت و حوصلہ افزائي اور اس كام كے فوائد كو بيان كرنا اور دوسرا اس كام كے ترك كرنے پر جو برے نتائج ہيں ان سے ڈرانا''_
اسى لئے كہا گيا ہے كہ انذار پيچھے سے حيوان كو ہانكنے كى طرح اور بشارت و تشويق آگے سے كھينچنے كى طرح ہے_
قرآن و اسلام كى نظر ميں انسان ان دونوں باتوں كا ايك ساتھ محتاج ہے_ ان ميں سے فقط ايك كافى نہيں بلكہ اسلام كا نظريہ يہ ہے كہ بشارت اور تشويق كے پلڑے كو انذاز و تخويف كے پلڑے پر بھارى ہونا چاہئے اسى لئے قرآن كى اكثر آيات ميں بشارت كو انذار پر مقدم كياگيا ہے_
چنانچہ رسول(ص) الله نے بھى معاذ بن جبل كو يمن بھيجتے وقت فرمايا ''يسر ولاتعسر وبشر ولاتنفر'' (آسانى پيدا كرنے كى كوشش كرو نہ كہ كاموں كو مشكل بنانے كى نيز لوگوں كو راضى ركھنے كى كوشش كرو نہ كہ دور كرنے كي)_
آپ(ص) نے يہاں انذار و تخويف كى نفى نہيں كى بلكہ يہ آپ(ص) كى حكمت عملى كا حصہ تھا _ہاں آپ(ص) نے تشويق كے پہلو كو زيادہ اہميت دى كيونكہ اس پہلو سے اسلام كى معنويت اور خوبيوں كا بہتر ادراك ہوسكتا تھا_
علاوہ بريں اس طرح لوگوں كا قبول اسلام مكمل رضا و رغبت كے ساتھ عمل ميں آتا_ رہا آپ(ص) كا ''لاتنفر'' فرمانا تو اس كى وجہ واضح ہے كيونكہ انسان كى روح نہايت لطيفہے اور بہت جلد ردعمل كا اظہار كرتى ہے_ اسى لئے ہم ديكھتے ہيں كہ پيغمبر اكرم(ص) نے ہميں اس وقت عبادت كرنے كا حكم ديا ہے جب دلى رغبت موجود ہو_
39
دباؤ يا ناقابل برداشت امور پر زبردستى كى صورت ميں نفس اس چيز كو قبول نہيں كرتا_ سہولت اور آسانى پر مبنى اسلامى شريعت ميں اس كى بہت سارى مثاليں مل سكتى ہيں_ (1)
مذكورہ بيانات كى روشنى ميں ہم يہ سمجھ سكتے ہيں كہ رسول(ص) الله نے اپنے رشتہ داروں كو جو دعوت دى تھى اس ميں آپ نے ہر چند ابتدا تخويف و انذار سے كى تھى ليكن كيوں تشويق كے پہلوكو بھى مدنظر ركھا اور فرمايا :'' جو ميرى كى مدد كرے گا وہ ميرےبعد ميرا خليفہ ہوگا'' اور يہ ذكركياكہ ميں دنيا و آخرت كى جملہ خوبياں لے كر ان كے پاس آيا ہوں_ اس لئے كہ آپ(ص) كا يہ طرز عمل ان لوگوں كى اندرونى خواہشات اور رغبتوں سے ہم آہنگ تھا_ اور يہ پيشكش اس ذات كى جانب سے تھى جسے كسى بھى صورت ميں مورد الزام نہيں ٹھہرايا جاسكتا_
ط_ ميرا بھائي اور ميرا وصي
يہاں پر حضور(ص) كا يہ ارشاد كہ وہ شخص ميرا بھائي، ميرا وصى اور ميرا خليفہ ہوگا، بھى قابل توجہ ہے كيونكہ آپ(ص) كے يہ الفاظ اس الفت و محبت كى شدت كو خوب واضح كرتے ہيں جو آپ كى حمايت ونصرت كرنے والے فرد سے آپ (ص) كو تھى _ آپ(ص) نے اسے اپنا بھائي قرار ديا گويا آپ(ص) كے ساتھ اس شخص كى نسبت حاكم و محكوم اور بڑے اور چھوٹے مرتبے والے كى سى نہ تھى بلكہ ان دونوں كا باہمى تعلق دو ہم مرتبہ انسانوں كا اور تعميرى مقاصد ميں ايك دوسرے كے ساتھ تعاون پر مبنى تھا_ جس طرح ايك بھائي كا تعلق دوسرے بھائي سے ہوتا ہے محبت اعتماد اور خلوص سے لبريز_
فاصدع بما تؤمر
جب آنحضرت(ص) اپنے قريبى رشتہ داروں پر اتمام حجت كرچكے اور آپ(ص) كى نبوت كا مسئلہ مكہ ميں معروف ہوچكا تو قريش نے مسئلے كى سنگينى اور اس كے جوانب كا ادراك كرتے ہوئے آپ(ص) كا مذاق اڑانے اور آپ (ص)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں: روزنامہ جمہورى اسلامى (فارسي) شمارہ 254سال 1359 ہجرى شمسي_ مقالات مطہريا_
40
كے اوپر تہمتيں لگانے كا سلسلہ شروع كر ديا_ تا كہ عام لوگوں كے سامنے حضور(ص) كے مرتبے كو گھٹائيں اور آپ(ص) كى شخصيت كو مخدوش كريں، حالانكہ ابھى تك رسول(ص) الله نے انہيں اپنى تعليمات پر ايمان لانے كى دعوت نہيں دى تھى قريش كے اس رويے كى وجہ حسد، كينہ اور مستقبل ميں پيش آنے والے ممكنہ خطرات كے علاوہ اوركچھ نہ تھا_
قريش كے تمسخرنے طبيعى طور پر اورخاص كر قبول اسلام كى جانب عوامى رغبت پر اپنا زبردست اثر دكھايا_ حضور(ص) اس امر سے سخت فكرمند ہوئے_ آپ(ص) نے اسے اپنى دعوت كے پھيلاؤ اور اپنے مشن كى راہ ميں زبردست ركاوٹ سمجھا _چنانچہ خدا نے آپ(ص) كو حكم ديا كہ اپنى دعوت كو ظاہر كريں اور كھل كر قريش سے خداپر ايمان لانے كا مطالبہ كريں_ اس كى ساتھ ہى آپ(ص) سے پكا وعدہ كيا كہ وہ مذاق اڑانے والوں كے مقابلے ميں آپ(ص) كى پورى مدد كرے گا_ بنابريں آپ(ص) پر ضرورى تھا كہ آپ(ص) انہيں اہميت نہ ديتے اور انہيں نظر انداز كرديتے ،حكم خدا يہ تھا: (فاصدع بما تؤمر و اعرض عن المشركين انا كفيناك المستہزئين) (1) يعنى اے رسول جس چيزكا آپ كو حكم ہوا ہے اس كا بر ملا اظہار كريں اور مشركين كو نظر انداز كرديں ہم مسخرہ كرنے والوں كے شرسے آ پ كو بچائيں گے_
الله تعالى نے آپ(ص) كيلئے واضح كيا كہ مستقبل ميں آپ(ص) كا لائحہ عمل كيا ہوگا چنانچہ آپ(ص) كو حكم ہوا كہ حسن سلوك كو اپنائيں ،مشركين كے معاملے كواہميت نہ ديں، پريشان نہ ہوں اور ان كى باتوں سے دل گير بھى نہ ہوں_ ان كا انجام اس خدا كے ہاتھ ميں ہے جو ہر چھوٹى بڑى چيز سے آگاہ ہے_
رسول اكرم(ص) نے حكم خداوندى كى تعميل كى ، اپنى تبليغ كو آشكار كيا اور سارے لوگوں كو خدا پر ايمان لانے كى دعوت دي_ كہتے ہيں كہ آپ(ص) نے ايك پتھر پركھڑے ہوكر فرمايا: ''اے گروہ قريش و عرب ميں تمہيں اس بات كى گواہى دينے كى دعوت ديتا ہوں كہ الله كے سوا كوئي معبود نہيں اور ميں الله كا رسول(ص) ہوں ميں تمہيں مصنوعى خداؤں اور بتوں كے چھوڑنے كا حكم ديتا ہوں _ميرى بات مانو ،اگر ايسا كرو گے تو پورے عرب كے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ حجر، آيت 94،95_
41
مالك بن جاؤ گے اور عجم بھى تمہارے مطيع ہونگے نيز جنت ميں بھى تمہارى بادشاہى ہوگي''_ ليكن قريش نے آپ(ص) كا مذاق اڑايا اور وہ كہنے لگے كہ محمد بن عبدالله مجنون ہوگيا ہے البتہ حضرت ابوطالب كى سماجى حيثيت كے پيش نظر آپ(ص) كے خلاف كوئي عملى كاروائي نہ كرسكے_(1)
يہ بھى منقول ہے كہ آپ(ص) صفاكى پہاڑى پر كھڑے ہو كر قريش كو پكارا جب وہ جمع ہوگئے تو فرمايا:''اگر ميں تم سے كہوں كہ اس پہاڑى كے پيچھے ايك لشكر تمہارا منتظر ہے تو كياتم ميرى تصديق كرو گے؟''_ وہ بولے:'' كيوں نہيں ہم نے آپ(ص) ميں كوئي بدى نہيں ديكھى اور آپ(ص) سے كبھى كوئي جھوٹ نہيں سنا تب آپ(ص) نے فرمايا: ''ميں تمہيں شديد عذاب سے ڈراتا ہوں ...'' اس پر ابولہب نے كھڑے ہوكر بلند آواز سے كہا ''تيرا سارا دن بربادى ميں گزرے، كيا اتنى سى بات كيلئے لوگوں كو اكٹھا كيا تھا؟'' يہ سن كر سارے لوگ متفرق ہوگئے اور اس پر سورہ (تبت يدا ابى لہب) نازل ہوئي_ (2)
ناكام مذاكرات
ابن اسحاق وغيرہ كا بيان ہے كہ جب رسول(ص) الله نے بحكم خدا اپنى قوم كے سامنے على الاعلان ًاسلام كو پيش كيا تو اس وقت لوگ آپ(ص) سے دور ہوئے نہ آپ كى مخالفت كي_ ليكنجب آپ(ص) نے ان كے معبودوں كى برائي بيان كى تو اس وقت انہوں نے شديد ردعمل كا اظہار كيا اور آپ(ص) كے خلاف متحد ہوگئے سوائے ان لوگوں كے كہ جن كوالله تعالى نے اسلام كے ذريعے ان سے بچايا_ يہ لوگ كم بھى تھے اور بے بس بھي_
رسول(ص) الله كے چچا حضرت ابوطالب نے آپ(ص) كى حمايت كرتے ہوئے دشمنوں كے مقابلے ميں آپ كا دفاع كيا اور پيغمبراكرم بلاروك ٹوك اعلانيہ حكم الہى بجالاتے رہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تفسير نور الثقلين ج3ص34كہ تفسير قمى سے نقل كيا ہے_
2_ اس حديث كو مفسرين نے نقل كيا ہے اور سيوطى نے در منثور ميں، نيز غير شيعہ مورخين نے بھى واقعہ انذار كے ضمن ميں نقل كيا ہے ليكن ہم واضح كرچكے ہيں كہ آيہ انذار ميں سارے رشتہ دار مراد نہيں بلكہ فقط قريبى رشتہ دار ہى منظور ہيں_ بنابريں يہ روايت مذكورہ ارشاد الہى (فاصدع بما تو مر) كے ساتھ ہى سازگار معلوم ہوتى ہے_
42
جب قريش نے يہ ديكھا كہ حضور(ص) ان كى مخالفت كے باوجود باز نہيں آتے، ان كے معبودوں كو برا بھلا كہنے سے نہيں ركتے اور آپ كے چچا حضرت ابوطالب بھى آپ كى حمايت كرتے ہوئے آپ(ص) كو قريش كے حوالے كرنے سے گريزاں ہيں تو انہوں نے حضرت ابوطالب كے ساتھ مذاكرات كى كوشش كي_ يہ مذاكرات (ا بن اسحاق وغيرہ كے خيال ميں) تين مراحل سے گزرے اور سب كے سب برى طرح ناكامى سے دوچار ہوئے_
پہلا مرحلہ:
قريش كے چند سر كردہ افراد (جن كے ناموں كا مورخين نے ذكر كيا ہے) حضرت ابوطالب كے پاس گئے اور كہا :''اے ابوطالب آپ كے بھتيجے نے ہمارے معبودوں كو برا بھلا كہا ہے ہمارے دين كى برائي بيان كى ہے_ ہمارے نظريات كو باطل اور ہمارے آباء و اجداد كو گمراہ قرار ديا ہے پس ياتو آپ خود اس كو روكيں يا ہمارے اور اس كے درميان حائل نہ ہوں كيونكہ آپ بھى ہمارى طرح ( نظرياتيلحاظ سے) اس كے مخالف ہيں_ يوں ہم اس سے آپ كو بھى بچائيں گے''_ حضرت ابوطالب(ع) نے ان سے نرم گفتگو كى اور اچھے طريقے سے انہيں ٹال ديا چنانچہ وہ چلے گئے_
دوسرا مرحلہ:
جب مشركين نے ديكھا كہ رسول(ص) الله اپنے مشن پر ڈٹے ہوئے ہيں اور اپنے دين كى ترويج وتبليغ ميں مصروف ہيں يہاں تك كہ ان كے درميان معاملہ بگڑنے لگا ہے_ لوگوں ميں دشمنى اور اختلاف پيدا ہوچكا ہے اور قريش كے در ميان كثرت سے رسول(ص) الله كا ذكر ہونے لگا ہے تو وہ حضرت ابوطالب كے پاس گئے اور دھمكى دى كہ اگر وہ اپنے بھتيجے كو ان كے آباء و اجداد كو برا بھلا كہنے ، ان كے نظريات كو باطل ٹھہرانے اور ان كے خداؤں كو بُرا كہنے سے نہيں روكيں گے تو وہ ان دونوں كے مقابلے پر اترآئيں گے اور ان سے جنگ
43
كريں گے يہاں تك كہ كوئي ايك فريق ہلاك ہوجائے_ اس دھمكى كے بعد وہ چلے گئے_
حضرت ابوطالب نے حضور(ص) كو اس بات كى اطلاع دى اور اس خواہش كا اظہار كيا كہ آپ(ص) اپنے اور ان كے اوپر رحم كھائيں اور ناقابل برداشت بوجھ نہ ڈاليں حضور(ص) نے سوچاكہ چچا كا ارادہ بدل چكا ہے اور وہ آپ كى نصرت و حمايت كى طاقت نہيں ركھتے چنانچہ آپ(ص) نے فرمايا:'' اے چچا خدا كى قسم اگر وہ ميرے دائيں ہاتھ پر سورج اور بائيں ہاتھ پر چاند ركھ ديں تاكہ ميں اس امر سے دست بردار ہوجاؤں پھر بھى ميں ہرگز باز نہيں آؤں گا يہاں تك كہ خدا اپنے دين كوغالب كر دے يا ميں اس دين كى راہ ميں قتل ہوجاؤں'' يہ ديكھ كر حضرت ابوطالب نے آپ (ص) كى حمايت كا وعدہ كيا_
تيسرا مرحلہ:
اس دفعہ قريش نے حضرت ابوطالب كويہ پيشكش كى كہ وہ رسول(ص) الله كى جگہ عمارة بن وليد كو اپنا بيٹا بناليں اور نبى اكرم(ص) كو( جن كے بارے ميں قريش كا خيال تھا كہ انہوں نے ابوطالب اور ان كے آباء و اجداد كے دين كى مخالفت كى تھي، مشركين ميں اختلاف ڈالا تھا اور ان كى آرزوؤں كو پامال كيا تھا) ان كے حوالے كر ديں تاكہ وہ آپ(ص) كو قتل كريں_ تو اس طرح سے آدمى كا بدلہ آدمى سے ہوجائے گا _
حضرت ابوطالب نے كہا:'' خدا كى قسم تم نے ميرے ساتھ نہايت برا سودا كرنے كا ارادہ كيا ہے_ تم چاہتے ہو كہ اپنا بيٹاپلنے كے لئے ميرے حوالے كرو اوراس كے بدلے ميں ميں اپنا بيٹا قتل ہونے كے لئے تمہارے حوالے كردوں _خدا كى قسم ايسا كبھى نہيں ہوسكتا''_
يہ سن كر مطعم بن عدى نے كہا:'' اے ابوطالب الله كى قسم تيرى قوم نے تيرے ساتھ انصاف كيا ہے انہوں نے اس چيز (افتراق و انتشار) سے نجات حاصل كرنے كى كوشش كى ہے جوتجھے بھى نا پسند ہے ليكن ميں ديكھ رہا ہوں كہ تو ان كى كوئي بات قبول نہيں كرنا چاہتا''_ حضرت ابوطالب نے كہا:'' والله انہوں نے توميرے ساتھ نا انصافى كى ہے ليكن تونے مجھے بے يار ومددگار بنانے اور لوگوں كو ميرے مقابلے ميں لاكھڑا
44
كرنے كا ارادہ كيا ہے_ پس تيرى جو مرضى ہو وہ كر كے ديكھ لے''_ حضرت ابوطالب كى اس بات كے بعد معاملہ بگڑ گيا مخالفت كا بازار گرم ہوگيا اور لوگوں نے كھلم كھلا دشمنى شروع كردي_
ممكن ہے كہ يہ مراحل اسى ترتيب سے واقع ہوئے ہوں اور ممكن ہے كہ يہ ترتيب نہ رہى ہو_ بہرحال ہم نے جو كچھ كہا وہ ہمارے نزديك بلا كم و كاست حالات و واقعات كے (1) طبيعى سفر كى ايك تصوير كشى تھى البتہ اس گفتگو كے سلسلے كو جارى ركھنے سے قبل درج ذيل نكات كا تذكرہ ضرورى سمجھتا ہوں_
الف: اس ناكامى كے بعد
ہم نے ملاحظہ كيا كہ مشركين مكہ نے شروع شروع ميں يہ كوشش كى كہ وہ حضرت ابوطالب اور بنى ہاشم كے ساتھ نہ الجھيں_ چنانچہ انہوں نے خود حضرت ابوطالب كو اس بات پر آمادہ كرنے كى كوشش كى كہ وہ رسول اكرم(ص) كو اپنے موقف سے ہٹائيں اور اس چيز كا خاتمہ كريں جسے وہ اپنے لئے مشكلات اور خطرات كا سرچشمہ سمجھتے تھے_ انہوں نے ابوطالب كو بھڑكانے اور انہيں اپنے بھتيجے كے خلاف يہ سمجھاكر اكسانے كى كوشش كى كہ حضور(ص) كا پيغام ان كے مفادات كے منافى اور ديگر لوگوں كے علاوہ خود حضرت ابوطالب كى ہمدردى و شفقت كو زك پہنچانے كے مترادف ہے_
اس بناپر طبيعى تھا كہ خود حضرت ابوطالب اپنے بھتيجے كى سرگرمياں محدود كرتے_ اور قريش كو اس مسئلے سے نجات دلاتے ليكن جب انہوں نے ديكھا كہ حضرت ابوطالب نے ان كى بے سروپا باتوں كو تسليم نہيں كيا اور ان كى ذات اور مفادات كو درپيش خطرات كى روك تھام كيلئے كوئي قدم نہيں اٹھايا تو وہ دھمكى دينے پر اترآئے _ اس كے بعد انہوں نے مكروفريب اور دھوكے كى سياست اپنائي( جيساكہ نبى كريم(ص) كو برائے قتل ان كے حوالے كرنے اور آپ(ص) كے بدلے عمارة بن وليد كو بطورفرزند، حضرت ابوطالب كے حوالے كرنے كى كوشش سے ظاہر ہوتا ہے)اس واقعے نے ان كے دلوں ميں پوشيدہ مقصد كو بھى ظاہر كر ديا _ نيز حضرت ابوطالب اور
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں: سيرت ابن ہشام ج1 ص282،286نيز البدء والتاريخ ج4ص 47،149 نيز تاريخ طبرى ج 2 ص 65،68_
45
ديگر لوگوں كيلئے واضح ہوا كہ ان كا مقصد دين حق كومٹانے اور نورالہى كو بجھانے كے علاوہ كچھ بھى نہيں_ اس امرنے حضرت ابوطالب كو دين حق اور پيغمبراسلام كى حمايت پر مزيد كمربستہ كر ديا_
ب: قريش كى ہٹ دھرمى كا راز
مشركين مكہ كى ہٹ دھرمى اور نور الہى كو بجھانے كى كوششوں كا راز درج ذيل امور ميں مضمر معلوم ہوتا ہے:
1)قريش ،مكہ اور دوسرے مقامات كے غريبوں، غلاموں اور كمزوروں سے اپنے مفادات كے حصول كيلئے كام ليتے تھے_ رسول(ص) خدا نے آكران بيچارے لوگوں كے اندر ايك تازہ روح پھونكي_ آپ(ص) نے انسانى عظمت اور حريت كے تصور كو واضح كرنے كى كوشش شروع كى اورساتھ ساتھ آپ(ص) ان كى دستگيرى كرتے اور مسائل و مشكلات زندگى ميں ان كے مددگار ہوتے تھے_ آپ(ص) ان كى حقيقت خودان كيلئے آشكاركرتے تھے اور اسلامى تعليمات سے ان كو بہرہ ور فرماتے تھے _ان تعليمات كى ابتدائي باتوں ميں سے ايك، ان ظالموں كے تسلط اور ظلم سے رہائي كى ضرورت كا مسئلہ بھى تھا_
2)كفار مكہ، رسول(ص) الله كى تبليغ اور اس كے مقاصد كو ديكھ كر يہ اندازہ كرچكے تھے كہ وہ اس دين كے زير سايہ اپنے ناجائز امتيازات كو برقرار نہيں ركھ سكتے جنہيں ان ظالموں نے اپنے لئے مخصوص كرركھا تھا اور رسول(ص) الله انہيں رد كر ر ہے تھے_ آپ(ص) تاكيد فرماتے تھے كہ خدا كى عدالت ميں سب لوگ مساوى ہيں اس كے علاوہ يہ مشركين، دين اسلام كے سائے تلے اپنى غيراخلاقى اور غير انسانى اطوار كو برقرار نہيں ركھ سكتے تھے كيونكہ اسلام مكارم اخلاق كى تكميل كيلئے آيا تھا اور يہ لوگ اپنے رسوم كے زبردست پابند تھے حتى كہ اپنے ان معبودوں كى عبادت سے بھى زيادہ پابند رسوم تھے جن كى نگہبانى كے وہ دعويدار تھے_ چنانچہ ايك دفعہ ايك عرب نے بھوك لگنے پر اپنے اس خدا كو كھاليا جسے اس نے كھجوروں سے تيار كياہوا تھا_
3)تيسرے سبب كى طرف قرآن نے يوں اشارہ كيا ہے (وقالوا ان نتبع الہدى معك نتخطف من ارضنا) (1) يعنى اگر ہم تمہارے ساتھ ايمان لے آئيں تو اپنى سرزمين سے اچك لئے جائيں گے،
46
بالفاظ ديگر انہوں نے اسلام قبول نہ كرنے كيلئے يہ بہانہ تراشا كہ اگر وہ ايمان لے آئے تو مشركين عرب ان كے ايمان لانے اور بتوں كو ٹھكرانے كى وجہ سے ناراض ہوجائيں گے_
قرآن نے اس كا جواب يوں ديا ہے (اولم نمكن لہم حرما آمنا يُجبى اليہ ثمرات كل شى رزقا من لدنا) (2) كيا ہم نے انہيں امن كے مقام حرم مكہ ميں جگہ نہيں دى جہاں ہر قسم كے پھل ہمارى دى ہوئي روزى كى بناپر چلے آر ہے ہيں_
بنابرايں اس خوف كى كوئي وجہ نہ تھى نيز اس خوف كے بہانے شرك پر باقى رہنے سے بھى خطرہ ٹل نہيں سكتا تھا كيونكہ كتنى ہى بستيوں كو خدانے ہلاك كرڈالا تھا جن كے مكين نعمتوں كى كثرت كے باعث بہك گئے پھر ان گھروں ميں رہنے والا كوئي نہ رہا بلكہ يہى بات دنيا ميں ان كى ہلاكت كى وجہ بنى كيونكہ اگر ان تمام امكانات اور مادى وسائل كو صحيح راہوں پر چلانے والے اور حال و مستقبل كے لحاظ سے انفرادى اور اجتماعى طور پر فائدہ مند بنانے والے كوئي قواعد و ضوابط موجود نہ ہوں تو يہى چيزيں باہمى اختلافات، ظلم و استبداد اور معاشرتى و قومى بربادى والے ديگر انحرافات كا باعث بنتى ہيں_
ہر چيز كا اختيار خداكے دست قدرت ميں ہے_ جو كوئي بھى اس كى نافرمانى كرتاہے وہ اپنى ذات كو دنيوى اور اخروى ہلاكت ميں ڈال ديتا ہے پھر خدانے ان كيلئے قارون كى مثال بھى دى جس كے پاس اس قدر خزانے تھے جن كى چابياں اٹھانے سے ايك طاقتورجماعت بھى عاجز تھي_ ليكن جب اس نے ہٹ دھرمى تكبر اور نافرمانى كا مظاہرہ كيا اور احكام الہى كى مخالفت كى تو خدانے اسے گھر سميت زمين كے اندر دھنسا ديا_
متعلقہ سورہ كى آيات ميں عجيب نكتے اور لطيف معانى پوشيدہ ہيں جو مستقل اور عميق مطالعے كے محتاج ہيں ليكن يہاں اس كى گنجائشے نہيں يہاں ہم اسى اجمال اور اشارے پر اكتفا كرتے ہيں، خداوند عالم توفيق عطا كرنے اور مدد كرنے والا ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1 و 2 _سورہ قصص، آيت 57_
47
مذاكرات كى ناكامى كے بعد
مذاكرات كى ناكامى كے بعدحضرت ابوطالب سمجھ گئے تھےكہ اب معاملہ سنگين صورت اختيار كرچكا ہے اور مشركين سے كھلى جنگ كا مرحلہ قريب ہے لہذا حضرت ابوطالب نے حفظ ماتقدم كے طورپر بنى ہاشم اور بنى مطلّب سب كو جمع كيا اور ان كو رسول(ص) الله كى حمايت و حفاظت كرنے كى دعوت دى تو ابولہب ملعون كے سوا انہوں نے مثبت جواب ديااور آپ(ص) كى حمايت كيلئے آمادہ ہوگئے _
خدانے بھى اپنے رسول(ص) كى حفاظت كى اور مشركين آپ كا بال بھى بيكا نہ كرسكے ہاں وہ آپ(ص) كو مجنون، ساحر، كاہن، اور شاعر كہہ كرپكارتے ر ہے ليكن قرآن ان لوگوں كو جھٹلاتا رہا اور آپ(ص) راہ حق پرقائم ر ہے مشركين كى افتراپردازياں آپ كو خفيہ و اعلانيہ دعوت حق دينے سے كبھى نہ روك سكيں_
درحقيقت جب مشركين نے ديكھا كہ حضور(ص) كى ذات كو ضرر پہنچانے كا نتيجہ مسلح جھڑپ ہوگا جس كيلئے وہ آمادہ نہ تھے اور خاص كر بنى ہاشم كے روابط اور قبائل كے ساتھ ان كے معاہدوں مثلاً مطيبين كے معاہدہ اور جناب عبدالمطلب كے ساتھ مكہ كے نواح ميں رہنے والے قبيلہ خزاعہ كے معاہدے كو ديكھتے ہوئے انہيں يہ بھى يقيننہ تھا كہ اس جھڑپ كا نتيجہ ان كے حق ميں نكلے گا_ بلكہ اگر يہ جنگ چھڑتى تو ممكن تھا كہ اس سے حضرت محمد(ص) كو اپنى تبليغى سرگرميوں كو تيز كرنے كا موقع ملتا_(1) توان تمام باتوں كے پيش نظر مشركين نے بہتر يہ سمجھا كہ جنگ سے بچا جائے اور محمد(ص) كو كمزور بنانے اور اس كى تبليغ كا مقابلہ كرنے كيلئے ديگر طريقوں سے كام ليا جائے_
چنانچہ ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ مشركين:
الف : لوگوں كو نبى اكرم(ص) سے ملنے اور آپ(ص) كى زبانى آيات قرآن سننے سے منع كرتے تھے جيساكہ
--------------------------------------------------------------------------------
1_ بعض محققين كا خيال ہے كہ شايد حضرت ابوطالب نے كبھى نرمى اور كبھى سختى برتنے كى روش اسلئے اختيار كى تاكہ اس قسم كى ايك جنگ چھڑ جائے جس سے نبى كريم(ص) كو اپنا پيغام پھيلانے كا بہتر موقع مل جائے_
48
ارشاد الہى ہے: (وہم ينھون عنہ وينا وْنَ عنہ) (1) يعنى وہ قرآن سے دوسروں كو منع كرتے تھے اور خود بھى دورى اختيار كرتے تھے_ نيزفرمايا: (وقال الذين كفروا لا تسمعوا لھذا القرآن و الغوافيہ لعلكم تغلبون) (2) يعنى كافروں نے كہا اس قرآن كو نہ سنو اور اس كى تلاوت كے وقت شور مچاؤ شايد اس طرح ان پر غالب آسكو_
ب: حضور كا مذاق اڑانے اور آپ پر بے بنياد تہمتيں لگانے كى روش اختيار كئے ہوئے تھے تاكہ وہ:
1_ نبى كريم(ص) كى ذات پر دباؤ ڈال سكيں كيونكہ ان كے گمان باطل ميں شايد آپ (ص) نفسياتى طورپر شكست كھاجائيں گے اور احساس كمترى و حقارت كاشكار ہوكر اپنے مشن سے ہاتھ اٹھا ليں گے_
2_نبى كريم(ص) كے مرتبے كو گھٹاكر نيز آپ كى شخصيت كو مسخ كر كے كمزور ارادے كے مالك افراد كو آپ(ص) كى پيروى اور آپ (ص) كے دين ميں داخل ہونے سے روكيں _اسى مقصد كے پيش نظر ہم ديكھتے ہيں كہ وہ بيوقوف لوگوں كو اس بات پر اكساتے تھے كہ وہ رسول(ص) اسلام كواذيت پہنچائيں اورآپ(ص) كو جھٹلائيں _بسا اوقات قريش كے رو سا بھى اس قسم كے كاموں كا ارتكاب كرتے تھے يہاں تك كہ ايك دفعہ انہوں نے اپنے كسى غلام كو حكم ديا كہ وہ حيوان كى اوجھڑى اور گوبر حالت نماز ميں آپ(ص) كے اوپر ڈال دے چنانچہ غلام نے اسے آپ(ص) كے كاندھوں پر پھينك ديا _اس بات سے حضرت ابوطالب غضبناك ہوئے اور آ كر وہ گندگى مشركين كى مونچھوں پر مل دى _اس طرح خدا نے ان كے اوپر رعب طارى كر ديا_ مشركين آپ(ص) كے اوپر مٹى اور بكرى كى بچہ دانى وغيرہ بھى ڈالتے تھے_
ان باتوں نے لوگوں كو آپ(ص) سے دور ركھنے اور انہيں قبول اسلام سے روكنے ميں كچھ حد تك اپنا اثردكھايا يہاں تك كہ عروة بن زبير اور دوسروں كاكہنا ہے كہ مشركين حضور(ص) كى باتوں كو ناپسند كرتے تھے، وہ اپنے زير دست افراد كو آپ كے خلاف اكساتے تھے يوں عام لوگ آپ(ص) سے دورى اختيار كرگئے_ (3)
--------------------------------------------------------------------------------
1_سورہ انعام، آيت 26_
2_ سورہ فصلت، آيت 26_
3_تاريخ طبري، ج 2 ص 68_
49
مكہ كے ستم ديدہ مسلمان
مذكورہ باتوں كے علاوہ مشركين نے آپ(ص) كے ان اصحاب سے انتقام لينے كى ٹھانى جو مختلف قبائل ميں زندگى گزارتے تھے _چنانچہ ہر قبيلے نے اپنے اندر موجود مسلمانوں كو ستانے، انہيں اپنے دين سے دوبارہ پلٹانے، قيدكرنے، مارنے پيٹنے، بھوكا ركھنے، مكہ كى تپتى زمينوں پر سزا دينے، نيزديگر ظالمانہ اور وحشيانہ طريقوں سے ان كو اذيت دينے كا سلسلہ شروع كيا_
ذكر مظلوم :
مشركين نے كئي مسلمانوں پر ستم كيا _ عمر بن خطاب نے بھى قبيلہ بنى عدى كى شاخ بنى مؤمل كى ايك مسلمان لڑكى پر تشدد كيا_ وہ اسے مارتا رہا اور جب وہ مار مار ہلكان ہوگيا تو بولا '' ميں تمہيں صرف تھكاوٹ سے تنگ آكر چھوڑ رہا ہوں'' (1)_ شايد قبيلہ بنى مؤمل نے عمر بن خطاب كو اپنے قبيلے كى لڑكى پر تشدد كرنے كى اجازت دے ركھى تھى وگرنہ معاشرے ميں اس كى اتنى حيثيت ہى نہيں تھى كہ اسے اس جيسے كام كى كھل چھٹى دے دى جاتى _ اسى طرح مشركين نے خباب بن الارت ، ام شريك ، مصعب بن عمير اور ديگر لوگوں پر بھى تشدد كيا جن كے نام اور واقعات كے ذكر كى يہاں گنجائشے نہيں ہے_
انہى لوگوں نے ہمارے لئے توحيد اور عقيدے كى خاطر استقامت اور جہاد كى عمدہ مثال پيش كى ہے_ حالانكہ وہ يہ بھى جانتے تھے كہ ارادہ الہى كے علاوہ ان كے پاس اور كوئي ايسى طاقت نہيں ہے جو مشركوں كو اس تشدد سے باز ركھ سكے _ پھر بھى انہوں نے اپنے اسلام كے بل بوتے پر اس پورى دنيا كو چيلنج كيا ہوا تھا جو اپنى تمام تر توانائيوں سميت ان كے مقابلے پر اتر آئي تھى _ اور اسى چيز ميں ہى ان كى عظمت اور خصوصيت پوشيدہ تھى _
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرہ ابن ہشام ج1 ص 341 ، سيرہ حلبيہ ج1 ص 300 اور ملاحظہ ہو: السيرة النبويہ ابن كثير ج1 ص 493 اور المحبر ص 184_
50
حضرت ابوبكر نے كن كو آزاد كيا؟
راہ خداميں اذيت پانے والوں ميں بلال حبشى اور عامر بن فہيرہ بھى تھے، كہتے ہيں كہ ان كو حضرت ابوبكر نے خريد كر آزاد كيا اور انہيں حضرت ابوبكر كى وجہ سے نجات حاصل ہوئي_ ليكن يہ بات ہمارے نزديك مشكوك ہے كيونكہ:
اولا: اسكافى نے كہا ہے'' بلال اور عامربن فہيرہ كو خود رسول(ص) الله نے آزاد كياہے''_ اور اسے واقدى اور ابن اسحاق نے بھى نقل كيا ہے_ (1)
علاوہ ازيں ابن شہر آشوب نے بلال كو رسول الله صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كے ہاتھوں آزاد شدگان ميں شمار كيا ہے_ (2)
ثانيا: اس بارے ميں وہ خود متضاد روايتيں ذكر كرتے ہيں جن كا ايك دوسرے سے كوئي ربط ہى نہيں بنتا_
اس سلسلے ميں اتنا ہى كافى ہے كہ ہم حضرت ابوبكر كى طرف سے اداكى جانے والى قيمت ميں اختلاف كا ہى ذكر كريں چنانچہ ايك روايت كہتى ہے حضرت ابوبكر نے اس كى قيمت ميں اپنا ايك غلام دے ديا جو (بلال) سے زيادہ مضبوط تھا_
دوسرى روايت كہتى ہے كہ اس كى قيمت كے طورپر ايك غلام، اس كى بيوى اور بيٹى كے علاوہ دو سو دينار بھى ديئے_
تيسرى روايت كى رو سے سات اوقيہ (3) سونے ميں خريدا_
چوتھى روايت كے مطابق نو اوقيہ ميں_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ شرح نہج البلاغة (معتزلي) ج 13 ص 273 اور قاموس الرجال ج 5 ص 196 و ج 2 ص 238 كى طرف رجوع كريں_
2_المناقب ابن شہر آشوب ج 1 ص 171_
3_ اوقيہ رطل كا بارہواں حصہ جو چو تھائي چھٹانك تك ہوتا ہے_ (المنجد، مترجم)_
51
پانچويں روايت كے مطابق پانچ اوقيہ كے بدلے اور چھٹى روايت كے مطابق ايك رطل (1) سونے كے عوض خريدا_
ساتويں روايت كا كہنا ہے كہ حضرت ابوبكر نے اسے اپنے غلام قسطاس كے بدلے خريدا جو دس ہزار دينار كے علاوہ كنيزوں، غلاموں اور مويشيوں كا مالك تھا_
آٹھويں روايت كى رو سے اس كى قيمت ايك كمبل اور دس اوقيہ چاندى تھى علاوہ بريں اس مسئلے ميں مزيد اختلاف موجود ہے(2)_
ثالثا :كہتے ہيں كہ اسى مناسبت سے (فاما من اعطى واتقى وصدق بالحسنى فسنيسرہ لليسري)(3) والى آيات حضرت ابوبكر كے حق ميں نازل ہو ئيں (4) حالانكہ:
1_ اسكافى نے اسے رد كيا ہے اور كہا ہے كہ ايك قول كے مطابق يہ آيات مصعب ابن عمير كے بارے ميں اترى ہيں_ (5)
2_ علاوہ برآں ابن عباس وغيرہ بلكہ خودرسول(ص) الله سے مروى احاديث ميں اس آيت كى تفسير كو عام قرار ديا گيا ہے اور اسے كسى فردسے مختص نہيں سمجھا گيا، شيعوں كى روايت ہے كہ يہ آيت حضرت على (ع) كے حق ميں نازل ہوئي، حلبى نے ان پر اعتراض كيا ہے كہ حضرت على (ع) كا رسول(ص) الله نے احسان چكا ديا تھا اور وہ رسول(ص) الله كے ہاں آپ كا تربيت پانا تھا جبكہ آيات يہ كہتى ہيں كہ اس پركسى كاكوئي احسان نہيں جس كا چكانا ضرورى ہو_ رازى نے بھى يہى اعتراض كيا ہے_ (6)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رطل، ايك وزن مساوى 12 اوقيہ كے ہے_ (المنجد، مترجم)_
2_ گذشتہ اختلافات كے معاملہ ميں مراجعہ ہو: سيرہ حلبيہ ج1 ص 298 و 299 ، قاموس الرجال ج 1 ص 216 ، سير اعلام النبلاء ج1 ص 353، سيرہ نبويہ ابن ہشام ج1 ص 340 ، حلية الاولياء ج1 ص 148 اور بہت سے ديگر منابع
3_ سورہ ليل، آيت 5،7_
4_ درمنثور ء 6 ص 358،390 كئي كتب سے ماخوذ نيز السيرة الحلبية ہ ج 1 ص 299 اور شرح نہج البلاغة (معتزلي) ج 13 ص 273 بہ نقل از جاحظ اور عثمانيہ ص 25 _
5_ شرح نہج البلاغہ ج 13 ص 273_
6_ السيرة الحلبية ج 1 ص 299_
52
ليكن رازى اور حلبى يہ نہيں جانتے كہ يہاںمرادكچھ اورہے يعنى خدا اس صاحب تقوى شخص كى صفت بيان نہيں كررہا بلكہ مراد يہ ہے كہ يہ مال جو وہ خرچ كررہا ہے اسلئے خرچ نہيں كر رہا كہ كسى شخص كى طرف سے اس كى جزا ملے بلكہ وہ فقط اور فقط خدا كى مرضى كيلئے خرچ كررہا ہے _
3_ ابن حاتم كے بيان كے مطابق يہ سورہ سمرة بن جندب كے بارے ميں نازل ہوئي جو ايك درخت كھجور كا مالك تھا اس درخت كى شاخ ايك نادار شخص كے گھر ميں تھي_ جب سمرة كھجور چننے درخت پر چڑھتا تو گاہے كچھ دانے گرپڑتے اور نادار شخص كے بچے وہ اٹھاليتے _يہ ديكھ كر سمرة درخت سے اترتا اور ان كے ہاتھوں سے دانے چھين ليتا اوراگر وہ منہ ميں ڈال ليتے تو اپنى انگلى ڈال كر كھجور باہر نكال ليتا _پس نادار شخص نے رسول(ص) الله كے پاس اس كى شكايت كى _اس كے بعد رسول(ص) الله كى سمرة سے ملاقات ہوئي ،آپ نے اس سے كہا كہ وہ اس درخت كو جنت كے ايك درخت كے بدلے فروخت كر دے_ سمرة بولامجھے بہت كچھ ملا ہوا ہے ميں خرما كے بہت سارے درختوں كا مالك ہوں ان ميں سے كسى كا پھل اس درخت كے پھل سے زيادہ مجھے پسند نہيں_
ايك اورشخص جس نے رسول(ص) الله اور سمرة كے درميان ہونے والى گفتگو سنى تھى وہ رسول(ص) الله كے پاس آيا اورعرض كيا كہ اگر ميں اس درخت كو حاصل كروں توآپ مجھے وہى چيز عنايت كريں گے جس كا آپ نے سمرة سے وعدہ فرمايا تھا_ آپ(ص) نے فرمايا ٹھيك ہے يہ سن كر وہ چلا گيا اور درخت كے مالك سے ملا _پھر خرما كے چاليس درختوں كے بدلے اس نے سمرة سے وہ درخت خريد ليا_ پھر نبى اكرم(ص) كے پاس گيا اور درخت آپ كو ہديہ كر ديا_ رسول(ص) الله مالك مكان كے پاس تشريف لے گئے اور فرمايا اب يہ درخت تمہارا اور تمہارے گھروالوں كا ہے، اس وقت يہ آيت نازل ہوئي: (والليل اذا يغشي ...) (1)
اسى لئے سيوطى نے سورہ الليل كے بارے ميں كہا ہے كہ قول معروف كے مطابق يہ سورہ مكى ہے نيز يہ بھى كہا گيا ہے كہ مدنى ہے كيونكہ اس كے سبب نزول ميں خرما كے درخت كا واقعہ منقول ہے جيساكہ ہم نے اسباب نزول كے بارے ميں ذكر كيا ہے_ (2)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ درالمنثور ج 6 ص 357 از ابن ابى حاتم از ابن عباس اور تفسير برہان ج 4 ص 470 از على ابن ابراہيم ، در منشور سے منقول بات سے كچھ اختلاف كے ساتھ_
2_ الاتقان ج 1 ص 14_
53
يہاں ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ يہ منقول واقعہ ان آيات كے ساتھ متناسب معلوم ہوتا ہے كيونكہ آيت كہتى ہے، كسى نے راہ خدا ميں مال ديكر تقوى اختيار كيا ليكن كسى نے بخل سے كام ليا اور لاپروائي اختيار كي_
ہاں اگر ان كا عقيدہ يہ ہو كہ بخل كرنے والے سے مراد (نعوذ بالله ) رسول(ص) الله تھے تو اور بات ہے جبكہ يہ بات بھى درست نہيں كيونكہ آپ(ص) كے پاس مال كے فقدان كى صورت ميں آپ پر بخل صادق نہيں آتا، نيز خود يہ لوگ آپ(ص) كا يہ قول نقل كرتے ہيں كہ اگر آپ(ص) كے پاس مال ہوتا تو بلال كو خريد ليتے_ يا پھر بخلكرنے والے سے مراد جناب عباس تھے جن كے بارے ميں روايات كہتى ہيں كہ اس نے جاكر بلال كو خريدا اور ابوبكر كے پاس بھيجا پھر انہوں نے بلال كو آزاد كيا_
4_ حديث غار ميں ہم حضرت عائشه كا يہ قول نقل كريں گے كہ قرآن ميں آل ابوبكر كے بارے ميں كوئي آيت نازل ہى نہيں ہوئي_ ہاں حضرت عائشه كا عذر نازل ہوا يعنى سورہ نور ميں حديث افك (تہمت) سے متعلق آيات اور حضرت عائشه كى اپنے متعلق صفائي بھى نازل ہوئي_ ليكن درحقيقت وہ آيت بھى حضرت عائشه كے متعلق نازل نہيں ہوئي جيساكہ ہم نے اپنى كتاب حديث الافك ميں اس كا تذكرہ كيا ہے_
رابعاً: يہ بات بھى ہمارى سمجھ ميں نہيں آسكى كہ رسول(ص) الله نے يہ كيونكر فرمايا كہ اگر آپ(ص) كے پاس مال ہوتا تو بلال كو خريد ليتے كيونكہ ايك طرف تو آپ(ص) كا يہ قول ہے اور دوسرى طرف ان لوگوں كا يہ قول بھى ہے كہ آپ(ص) نے حضرت ابوبكر سے بلال كو مشتركہ طور پر خريدنے كا تقاضا كيا تو ابوبكر نے بتايا كہ اس نے بلال كو آزاد كر ديا ہے_ (1) وہ ان دو اقوال كے درميان كيسے ہماہنگى پيدا كرسكتے ہيں؟ علاوہ برايں كيا حضرت خديجہ (س) كے اموال آپ (ص) كے اختيار ميں نہ تھے؟ كيا آپ(ص) مكہ كے مسلمانوں پر يہ اموال خرچ نہ كرتے تھے؟ جيساكہ اسماء بنت عميس كو حضرت عمرنے ہجرت كے شرف سے محروم رہنے كا طعنہ ديا تو اس نے جواب ميں كہا: ''بے شك وہ اور اس كے ديگر مسلمان ساتھى رسول(ص) الله كے ساتھ تھے آپ(ص) بھوكوں كو سير كراتے اور جاہلوں كو علم سكھاتے تھے'' اس واقعے كا تفصيلى ذكر انشاء الله اپنے مقام پرہوگا_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ طبقات ابن سعد ج 3 ص 165_
54
رہا اس بات كا احتمال كہ بلال والا واقعہ ہجرت سے قبل كے آخرى سالوں ميں واقع ہوا ہے تو اسے مورخين قبول نہيں كرتے كيونكہ نووى كہتے ہيں '' وہ اعلان نبوت كى ابتدا ميں مسلمان ہوئے وہ سب سے پہلے اسلام كا اظہار كرنے والوں ميں سے تھے''_ (1)مگر يہ كہا جائے كہ بلال مسلمان تو بہت پہلے ہوگئے تھے ليكن كچھ سال بعد انہيں خريد كر آزاد كيا گيا تھا_
ان سارى باتوں كے علاوہ يہ بھى روايت ہوئي ہے كہ حضرت بلال كو حضرت عباس نے خريد كر حضرت ابوبكر كے پاس بھيجا اور انہوں نے اسے آزاد كيا_ (2) بعض ديگر روايات كہتى ہيں كہ حضرت بلال كو حضرت ابوبكر نے بذات خود خريد كر آزاد كيا_ نيز ايسى روايات بھى ملتى ہيں جو كہتى كہ جب رسول(ص) الله كى وفات ہوئي تو حضرت بلال نے ابوبكر سے كہا ''اگر تم نے مجھے اپنے لئے خريدا تھا تو اپنا غلام بنائے ركھو اور اگر رضائے الہى كيلئے خريدا تھا تو پھر مجھے آزاد كردو''_
اس روايت كى رو سے تو وفات رسول(ص) تك حضرت ابوبكر نے حضرت بلال كو آزاد نہيں كيا تھا_ رہى حضرت عباس كے حضرت بلال كو خريدنے كى بات تو يہاں ہمارى سمجھ ميں نہيں آيا كہ حضرت عباس نے اگر بلال كو اپنے لئے خريدا تھا تو انہوں نے خود حضرت بلال كو آزاد كيوں نہيں كيا؟ اور اگرحضرت عباس نے حضرت ابوبكر كے لئے خريدا تھا تو وہ حضرت ابوبكر كے وكيل كب بنے تھے؟ اور اس قسم كے كاموں ميں كب سے دلچسپى لينے لگے تھے؟ جبكہ انہى لوگوں كے بقول حضرت عباس نے فتح مكہ كے سال يا جنگ بدر ميں اسلام قبول كيا تھا_
بعض لوگوں كا يہ دعوى ہے كہ حضرت عباس نے امية بن خلف سے بات كى پھر حضرت ابوبكرنے آكر حضرت بلال كو خريدليا_ (3) يہ تو نہايت ہى تعجب انگيز بات ہے _ زمانے كا دستور نرالا ہوتاہے_
گذشتہ نكات كے علاوہ اس بات كى طرف اشارہ كرنابھى ضرورى ہے كہ خود حضرت ابوبكر كے معاشي
--------------------------------------------------------------------------------
1_تہذيب الاسماء و اللغات ج 1 ص 136_
2_سيرت نبويہ از دحلان ج 1 ص 126 و السيرة الحلبية ج 1 ص 299 نيز رجوع كريں المصنف ج 1 ص 234 كى طرف_
3_ سيرت نبويہ از دحلان ج 1 ص 126 و السيرة الحلبية ج 1 ص 299 نيز رجوع كريں المصنف ج 1 ص 234 كى طرف_
55
حالات اس بات كى اجازت كب ديتے تھے كہ وہ كئي سو دينار دے سكتے؟ چہ جائيكہ ان كاايك غلام دس ہزار دينار كے علاوہ كنيزوں اور مويشيوں وغيرہ كا بھى مالك ہو( اگرچہ ہم فرض بھى كرليں كہ اس دور ميں عربوں كے غلام مال و دولت كے مالك بھى بن سكتے تھے) كيونكہ حضرت ابوبكر تاجر نہ تھے بلكہ چھوٹے بچوں كے استاد تھے پس ان كے پاس ہزاروں ياكم از كم سينكڑوں درہم و دينار كہاں سے آگئے تھے كہ جس سے سات يا نو افرادكو خريد كر آزاد كرتے_ غار والے واقعہ پر بحث كے دوران ہم انشاء الله حضرت ابوبكر كى مال و دولت كے بارے ميں بھى اشارہ كريں گے_
بعض لوگوں نے تو حضرت ابوبكر سے منسوب غلاموں ميں سے كئي ايك كے وجود ميں ہى شك كيا ہے بالخصوص زنيرہ وغيرہ كے بارے ميں_ جس كے متعلق سہيلى نے كہا ہے كہ عورتوں ميں زنيرہ كا نام و نشان تك نہيں ملتا_ (1)
سيد حسنى كہتے ہيں: ''قريش ايمان لانے والوں كو سزائيں ديتے تھے تاكہ اسلام نہ پھيلے _وہ حضرت محمد(ص) كو ہرقسم كا قيمتى اور نفيس مال دينے پر آمادہ تھے تاكہ وہ اپنے مشن سے دست بردار ہوجائيں _اس صورت ميں قريش حضرت ابوبكر كے حق ميں اپنے غلاموں سے كيسے دست بردار ہوسكتے تھے؟ اور ان كو سزا ديئے بغير اتنى آسانى سے كيسے چھوڑ سكتے تھے'' (2) مگريہ كہاجائے كہ مال و دولت سے قريش كى محبت اور ساتھ ساتھ حضرت محمد(ص) سے ان كى مايوسى كے سبب انہوں نے ايسا كيا (جيساكہ بعض لوگوں كا كہنا ہے)_
كيا حضرت ابوبكر نے بھى تكليفيں برداشت كيں؟
مؤرخين كہتے ہيں كہ اسلام كى راہ ميں حضرت ابوبكر نے بھى تكليفيں برداشت كى ہيں_ كيونكہ جب ابوبكر اور طلحہ بن عبداللہ تيمى نے اسلام قبول كيا تو عمر بن عثمان نے دونوں كو پكڑكر ايك رسى ميں ايك ساتھ باندھ ديا اور نوفل بن خويلد نے ان پر تشدد كركے انہيں دين سے پھيرنے كى كوشش كي_ اسى لئے ابوبكر اور طلحہ كو'' قرينين ''
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الروض الانف ج 2 ص 78_
2_سيرة المصطفى ص 149_
56
كہا جاتا ہے _ البتہ بعض مؤرخين كے مطابق انہيں باندھ كر ان پر تشدد كرنے والا صرف نوفل ہى ہے جبكہ اس دوران عمر بن عثمان كا كہيں ذكر ہى نہيں ملتا (1)
اس كے باوجود بھى ہم ديكھتے ہيں كہ :
1_ وہ خود ہى كہتے ہيں'' خدانے حضرت ابوبكر كى حفاظت اس كى قوم كے ذريعہ سے كى '' (2) اور يہ ان كے اس قول '' حضرت ابوبكر نے بھى تكليفيں اٹھائيں'' كے بالكل متضاد ہے_ اسى طرح ابن دغنہ كے اس قول ''اسے قوم سے نكال ديا گيا'' سے بھى متناقض ہے_
2_ سيرت كى كتابوں كے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے كہ جس قبيلہ سے بھى كوئي شخص اسلام لاتا تو صرف وہى قبيلہ اس پر تشدد كرتا تھا_ دوسرے قبيلہ والوں كو اس پر تشدد كرنے كى جرات نہيں ہوتى تھي_
3_ اسكافى نے بھى يہى كہا ہے كہ ہميں تو صرف يہ معلوم ہے كہ يہ تشدد صرف غلاموں يا كرائے كے غنڈوں كے ذريعہ سے ہوتا اور اس شخص پر ہوتا جس كى حمايت كرنے والا كوئي خاندان نہيں ہوتا تھا_(3)
اس كے ساتھ ساتھ وہ يہ بھى كہتے ہيں كہ جناب ابوبكر بڑے قابل اطاعت سردار اور بزرگ تھے_(4)جس كے منتظر بزرگان قريش بھى رہتے تھے اور اس كى عدم موجودگى ميں كوئي بھى فيصلہ نہيں كرتے تھے_ حتى كہ حضرت محمد (ص) كے معاملے ميں بھى (جيسا كہ ابوبكر كے اسلام لانے والے واقعہ ميں گذر چكا ہے) اسى كے پاس كوئي قطعى فيصلہ كرنے آئے تھے_ ان كى تعريفوں كے مطابق وہ بلند پايہ شخصيت ، بزرگ سردار اور قريش كے محترم رئيس تھے_(5) پھر جناب ابوبكر اس گروہ سے كيسے ستائے گئے جو ان كے قبيلے سے بھي
--------------------------------------------------------------------------------
1_ اس بارے ميں ملاحضہ ہو : العثمانيہ جاحظ ص 27و 28 ، شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 13 ص 253، سيرة ابن ہشام ج 1 ص 301، نسب قريش مصعب زبيرى ص 230، البدايہ و النہايہ ج 2 ص 29 ، بيہقى اور مستدرك حاكم ج 3 ص 369 اور البدء و التاريخ ج 5 ص 82_
2_ البدايہ و النہايہ ج 3 ص 28 ، مستدرك حاكم ج 3 ص 284 حاكم نے بھى اور ذہبى نے بھى اس كى تلخيص كے حاشيہ ميں اس قول كو صحيح جانا ہے ، حلية الاولياء ج 1 ص 149، استيعاب ج 1 ص 141، سنن احمد ، سنن ابن ماجہ ، سيرہ نبويہ دحلان ج 1 ص 126، سيرہ نبويہ ابن كثير ج 1 ص 436از كنز العمال ج 7 ص 14از ابن ابى شيبہ اور طبقات الكبرى ابن سعد مطبوعہ صادر ج 3 ص 233_
3_ شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 13 ص 255_
4_ ملاحظہ ہو : شرح نہج البلاغہ معتزلى ج 13 ص 255، سيرہ نبويہ دحلان ج 1 ص 123 اور سيرہ حلبيہ ج 1 ص 273_
5_ سيرہ نبويہ ابن كثير ج 1 ص 433 اور البدايہ و النہايہ ج 3 ص 26_
57
نہ تھے؟ اور اس كى قوم نے اپنے سردار اور بلند پايہ شخصيت كو ايسے كيسے چھوڑديا كہ وہ لوگ اس كى توہين كرتے رہيں؟اور ابن ہشام و غيرہ كے مطابق :'' اپنى قوم كا مونس ، محبت كرنے والا اور نرم خو تھا '' حتى كہ وہ كہتا ہے ''اس كى قوم كے افراد اس كے پاس جاكر كئي ايك امور كے لئے اس كى حمايت حاصل كرتے (1) اور ابن دغنہ كے زعم ميں : '' ايسے شخص كو كيونكر نكالا جاسكتا ہے؟ كيا تم ايسے شخص كو نكال باہر كر رہے جو گمنامى كا طالب ہے ، صلہ رحمى كرتاہے ، دوسروں كا بوجھ اٹھاتا ہے ، مہمان نوا ز اور زمانے كى مصيبتوں پر دوسروں كا مدد گار ہے؟''(2)_
توجہ : يہ ا لفاظ تقريباً وہى الفاظ ہيں جو وقت بعثت حضرت خديجہ نے حضور كريم (ص) كى دلجوئي كے لئے كہے تھے_ ان الفاظ كو ابن دغنہ نے جناب ابوبكر كے ہجرت حبشہ كے وقت اس كے حق ميں كہے ہيں جن كا سقم آئندہ معلوم ہوگا _يہاں بس پڑھتے جائيں ، سنتے جائيں اور پيش آيند پر تعجب بھى كرتے جائيں_ سنتا جاشرماتاجا _
پہلانكتہ : كيا حضرت ابوبكر قبيلہ كے سردار تھے؟
گذشتہ تمام باتيں ہم نے صرف ان كى باتوں كے اختلاف اور تناقض كو بيان كرنے كے لئے ذكر كى ہيں_ كيونكہ اگر ايك بات صحيح ہے تو دوسرى صحيح نہيں ہے_ وگرنہ ہميں ابوبكر كے عظيم سردار اور قابل اطاعت بزرگ ہونے ميں شك ہے ، كيونكہ :
1_ حضرت ابوبكر جب ابوسفيان كے ساتھ حج كوگئے تو (وقت تلبيہ) اس نے اپنى آواز ابوسفيان كى آواز سے اونچى ركھى ، ابوقحافہ نے اس سے كہا :'' ابوبكر اپنى آواز ابن حرب كى آواز سے دھيمى ركھو'' جس پر ابوبكر نے كہا :'' اے ابوقحافہ خدا نے اسلام ميں وہ گھر بنائے ہيں جو پہلے نہيں بنے تھے اور وہ گھر ڈھاديئےيں جو زمانہ جاہليت ميں بنے ہوئے تھے_ اور ابوسفيان كا گھر بھى ڈھائے جانے والے گھروں ميں سے ہے''_(3)
2_ جب ابوبكر كى بيعت كى جا رہى تھى تو ابوسفيان چلا اٹھا: '' امر خلافت كے لئے قريش كا سب سے پست
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرہ ابن ہشام ج 1 ص 367 اور سيرہ نبويہ ابن كثير ص 437_
2_ سيرہ حلبيہ ج 1 ص 103 اور اس بارے ميں مزيد منابع كا ذكر ہجرت ابوبكر كى بحث كى دوران ہوگا ان شاء اللہ _
3_ ملاحظہ ہو : النزاع و التخاصم مقريزى ص 19 اور اسى ماخذ سے ذكر كرتے ہوئے الغدير ج 3 ص 353_
58
گھرانہ تم پر غالب آگيا ہے'' اور حاكم كى عبارت ميںيوں آبا ہے '' اس امر خلافت كا كيا ہوگا جو قريش كے سب سے كم مرتبہ اور ذليل شخص يعنى ابوبكر كے پاس آيا ہے'' (1) جبكہ بلاذرى كى عبارت يوں ہے: ''ابوسفيان نے حضرت على (ع) كے پاس آكر كہا ہے '' يا على (ع) تم لوگوں نے قريش كے ذليل ترين قبيلے كے آدمى كى بيعت كى ہے'' (2)
3_ شاعر عوف بن عطيہ كا كہنا ہے:
و اما الا لامان بنوعدى
و تيم حين تزد حم الامور
فلا تشہد بہم فتيان حرب
و لكن ادن من حليب و عير
اذا رہنوا رماحہم بزبد
فان رماح تيم لا تضير (3)
اور قبيلہ بنى عدى اور تيم تو مشكلات كى بھيڑ ميں واويلا كرنے والے پست اور بے صبرے ہيں_ انہيں كوئي جنگجو نہيں كہہ سكتا كيونكہ يہ ايك جماعت اور قافلے سے بھى مغلوب ہونے والے ہيں_ انہيں مكھن (چكنى چپڑى باتوں) كے بدلے ميں نيزے گروى ركھ لينے چاہئيں كيونكہ اب ان كے نيزے كسى كام كے نہيں ہيں_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ملاحظہ ہو : المصنف عبدالرزاق ج 5 ص 451 ، مستدرك حاكم ج 3 ص 78 از ابن عساكرو ابواحمد دہقان ، الكامل ابن اثير ج 2 ص 326، تاريخ طبرى ج 2 ص 944، النزاع و التخاصم ص 19 اور كنز العمال ج 5 ص 383و 385از ابن عساكروابواحمد دہقان_
2_ انساب الاشراف بلاذرى (حصہ حيات طيبہ) ص 588 _(اسى طرح منہاج الراعہ شرح نہج البلاغہ حبيب اللہ خوئي كے ترجمہ اردو ج 3 ص 50 پر جناب ابوبكر كے خاندانى پس منظر كے ذكر كے بعد آيا ہے كہ جب حضرت ابوبكر مسند اقتدار پر فائز ہوئے تو ابوسفيان نے ان كا خاندانى پس منظر ياد كركے حضرت على (ع) سے كہا: '' ارضيتم يا بنى عبد مناف ان يلى عليكم تيمى رذل'' اے بنى عبد مناف كيا تم ايك رذيل تيمى كى حكومت پر راضى ہوچكے ہو؟ ''حاكم نيشاپورى اور ان حجر نے لكھا ہے كہ جب ابوقحافہ نے اپنے بيٹے كى حكومت كا سناتو كہا : '' كيا بنى عبدمناف اور بنى مغيرہ ميرے بيٹے كى حكومت پر راضى ہوگئے؟ '' لوگوں نے بتايا : '' جى ہاں'' تو اس وقت اس نے كہا تھا : '' اللہم لا واضع لما رفعت و لا رافع لما وضعت '' خدايا جسے تو بلند كرے اسے كوئي پست نہيں كرسكتا اور جسے تو پست كرے اسے كوئي بلندى نہيں دے سكتا_ اگر چہ كہ ابوسفيان كى باتيں نيك نيتى كى بناپر نہيں تھيں ليكن اس سے دو باتوں كا علم ہوتا ہے : 1_ حضرت ابوبكر نہ صرف قبيلہ كے رئيس نہيں تھے بلكہ ان كا خاندانى پس منظر بھى كچھ قابل ذكر نہيں ہے اس لئے تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے كہ پھر بھى كچھ لوگ كہتے ہيں كہ اللہ نے حضرت ابوبكر كى دولت سے اپنے نبى كو مالامال كرديا تھا_2_ حضرت علي(ع) ہر لحاظ سے خلافت پيغمبر (ص) كے زيادہ حقدار تھے _ اسى لئے ابوسفيان صرف حضرت على (ع) كے پاس آيا تا كہ وہ حق دار ہونے كى بنا پر اٹھ كھڑے ہوں گے اور اس موقع سے فائدہ اٹھاكر ابوسفيان اپنے مقاصد حاصل كرے گا ليكن حضرت على (ع) نے اس كے ارادے بھانپ لئے تھے اور مناسب جواب ديا تھا _ از مترجم)_
3_ طبقات الشعراء ابن سلام ص 38_
59
دوسرا نكتہ :
دوسرى بات يہ ہے كہ يہ لوگ جو كہتے ہيں :'' ابوبكر اظہار اسلام كرنے والا پہلا شخص ہے جس كى قوم نے اس كى حمايت كي'' يا'' جس پر اسے اتنا ماراگيا كہ وہ مرنے كے قريب ہوگيا '' (1) تو ان لوگوں كى مذكور باتوں كو بہت سارى گذشتہ باتيں بھى جھٹلاتى ہيں اور يہاں پر بھى ہم يہ كہتے ہيں كہ دعوت اسلام كے اعلان كرنے والى سب سے پہلى شخصيت رسول كريم(ص) كى ذات والا صفات تھى جناب ابوبكر نہيں تھے_ اور مذكورہ بات تو ان متضاد باتوں كے علاوہ ہے جو يہ لوگ كبھى تو كہتے ہيں كہ عبداللہ بن مسعود نے سب سے پہلے اظہار اسلام كيا تھا ، كبھى كہتے ہيں كہ عمر بن خطاب نے كيا تھا اور يہاں پر وہ يہ كہتے ہيں كہ ابوبكر نے ايسا كيا تھا؟ (حافظہ كہاںگيا؟)
اسى طرح ايك روايت يہ بتاتى ہے كہ ابوبكر كا اظہار اسلام اس وقت تھا جب مسلمانوں كى تعداد 38 افراد تك پہنچ گئي تھى اور حضور كريم (ص) ارقم كے گھر ميں تشريف فرماتھے_ جبكہ ہم پہلے يہ بتاچكے ہيں كہ ابوبكر تو اس وقت تك بھى اسلام نہيں لائے تھے كيونكہ وہ پچاس سے زيادہ افراد كے اسلام لانے كے بعد مسلمان ہوئے تھے_ مگر يہ كہا جائے كہ اس روايت كا مقصد يہ ہے كہ ہجرت حبشہ كے بعد اسلام لانے والوں كى تعداد 38 افراد تك پہنچنے كے بعد ابوبكر مسلمان ہوا تھا_ ليكن يہ بات بھى روايت كى اس تصريح كے ساتھ جوڑ نہيں كھاتى جس ميں آياہے كہ ابوبكر كا مسلمان ہونا جناب حمزہ كے اسلام لانے كے دن تھا جس وقت نبى كريم (ص) ارقم كے گھر ميں تشريف فرما تھے_
اسلام ميں سب سے پہلى شہادت
قريش كے ہاتھوں آل ياسركو سخت ترين سزائيں دى گئيں نتيجتاً حضرت عمار كى ماں حضرت سميّہ، فرعون قريش ابوجہل (لعنة الله عليہ) كے ہاتھوں شہيد ہوگئيں وہ اسلام كى راہ ميں شہيد ہونے والى سب سے پہلي
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرہ نبويہ ابن كثير ج 1 ص 439 تا 449 ، البدايہ و النہاية ج 3 ص 30 ، تاريخ الخميس ج 1 ص 294 اور الغدير ج 7 ص 322 از تاريخ الخميس و الرياض النضرہ ج 1 ص 46_
60
ہستى ہيں_ (1) حضرت سميّہ كے بعد حضرت ياسر (رحمة الله عليہ) شہيد ہوئے_البتہ كچھ لوگ كہتے ہيں كہ اسلام كے پہلے شہيد حضرت حارث ابن ابوہالہ ہيں_ وہ اس طرح كہ جب رسول(ص) الله كو اعلانيہ تبليغ كا حكم ہوا تو آپ(ص) نے مسجد الحرام ميں كھڑے ہو كر فرمايا: '' اے لوگو لا الہ الا الله كہو تاكہ نجات پاؤ ''يہ سن كر قريش آپ(ص) پر ٹوٹ پڑے، سب سے پہلے آپ(ص) كى فرياد رسى كيلئے پہنچنے والا يہى حارث تھا اس نے قريش پر حملہ كركے انہيں آپ كے پاس سے ہٹايا جبكہ قريش نے حارث كارخ كيا اور اسے قتل كر ديا_ (2)
ليكن يہ واقعہ درست نہيں كيونكہ (جيساكہ پہلے ذكر ہوچكا) خدانے حضرت ابوطالب اور بنى ہاشم كے ذريعے اپنے نبى كى حفاظت كي، چنانچہ قريش آپ(ص) كا بال بھى بيكا كرنے كى جر ات نہ كرسكے_اسى طرح بنى ہاشم كے دوسرے ايمان لانے والوں كى حالت ہے كيونكہ وہ لوگ حضرت جعفر (رض) حضرت على (ع) اور ديگر افراد پر بھى حضرت ابوطالب كے مقام كى وجہ سے تشدد نہيں كرسكے_
علاوہ برايں مورخين كا تقريبا ًاتفاق ہے كہ اسلام كى راہ ميں سب سے پہلى شہادت حضرت سميہ اور اس كے شوہر حضرت ياسر كو نصيب ہوئي مزيد يہ كہ اعلانيہ تبليغ كى كيفيت كے بارے ميں جو كچھ كہا گيا ہے وہ مذكورہ باتوں كے صريحاً منافى ہے (عنوان '' فاصدع بما تؤمر'' كا مطالعہ فرمائيں)_
يہاں ہمارے خيال كے مطابق اس واقعے كو گھڑنے كا مقصد يہى معلوم ہوتا ہے كہ وہ يہ ثابت كريں كہ حضرت خديجہ نے رسول الله صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم سے شادى كرنے سے قبل ايك يا ايك سے زيادہ بار شادى كى تھى اور ان دونوں سے ان كى اولاد ہوئي ليكن قبل ازيں رسول(ص) (ص) الله سے ان كى شادى كى بحث ميں اس كا ذكر ہوچكا ہے جو مذكورہ بالا بات كو مشكوك ظاہر كرتى ہے_
عمار بن ياسر
بنى مخزوم نے عمار بن ياسر كوبھى زبردست اذيتيں پہنچائيں يہاں تك كہ وہ قريش كى من پسند بات كہنے پر
--------------------------------------------------------------------------------
1 _ الاستيعاب حاشيہ الاصابہ ج 4 ص 330 و 331 و 333 ، الاصابہ ج4 ص 334 و 335، سيرہ نبويہ ابن كثير ج1 ص 495، اسد الغابہ ج5 ص 481 اور تاريخ يعقوبى ج2 ص 28_
2_ نور القبس ص 275 از شرقى ابن قطامي، الاصابة ج 1 ص 293 از كلبي، ابن حزم اور عسكرى نيز الاوائل ج 1 ص 311،312_
61
مجبور ہوئے اور يوں انہوں نے عمار كو چھوڑ ديا_ اس كے بعد وہ رسول(ص) (ص) الله كے پاس روتے ہوئے آئے اور عرض كيا '' يا رسول (ص) اللہ جب تك ميں نے مجبور ہوكر آپ (ص) كو برا بھلا نہيں كہا اور ان كے معبودوں كى تعريف نہيں كى تب تك انہوں نے مجھے نہيں چھوڑا'' _
آپ(ص) نے فرمايا: ''اے عمار تيرى قلبى كيفيت كيسى ہے؟'' عرض كيا ''يا رسول(ص) الله ميرا دل تو ايمان سے لبريز ہے''_ آپ(ص) نے فرمايا: ''پس كوئي حرج نہيں بلكہ اگر وہ دوبارہ تمہيں مجبور كريں توتم پھر وہى كہو جو وہ چاہيں_ بے شك خدانے تيرے بارے ميں يہ آيت نازل كى ہے (الا من اكرہ وقلبہ مطمئن بالايمان) مگرجس پر جبر كيا جائے جبكہ اس كا دل ايمان سے لبريز ہو_ (1)
تقيہ كتاب وسنت كى روشنى ميں
1_حضرت عمار كا قصہ اور اس كے بارے ميں آيات كا نزول، جان ومال كا خوف در پيش ہونے كى صورت ميں تقيہ كے جواز كى دليل ہے_
2_علاوہ ازيں خدا كا يہ ارشاد بھى جواز تقيہ كى دليل ہے (ومن يفعل ذلك فليس من الله فى شى الا ان تتقوا منہم تقاة) (2) يعنى جو بھى ايسا كرے (يعنى كفار كو اپنا ولى بنائے) اس كاخدا سے كوئي تعلق نہ ہوگا مگر يہ كہ تمہيں كفار سے خوف ہو تو كوئي حرج نہيں_(3)
3_نيز يہ آيت بھى تقيہ كو ثابت كرتى ہے (قال رجل مؤمن من آل فرعون يكتم ايمانہ اتقتلون رجلا ان يقول ربى الله ) (4) يعنى آل فرعون كے ايك شخص نے جو اپنے ايمان كو چھپائے ركھتا تھا كہا: ''كيا تم ايك شخص كو اس جرم ميں قتل كرتے ہو كہ وہ خدائے واحد كا اقرار كرتا ہے''_
اس آيت كو منسوخ قرار دينا غلط اور بے دليل ہے بلكہ اس كا منسوخ نہ ہونا ثابت ہے، جيساكہ جناب
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ نحل، آيت 106 ، رجوع كريں: حلية الاولياء ج 1 ص 140، تفسير طبرى ج 4 ص 112 اور حاشيہ پر تفسير نيشاپورى اور بہت سى ديگر كتب_
2_ سورہ آل عمران، آيت 28_
3_ تقيہ كے متعلق مزيد مطالعہ كے لئے: احكام القرآن جصاص ج2 ص 9 ، تقوية الايمان ص 38 ، صحيح بخارى مطبوعہ ميمنہ ج 4 ص 128 اور ديگر متعلقہ كتب _
4_ سورہ غافر، آيت 28_
62
يعقوب كلينى نے عبدالله بن سليمان سے نقل كيا ہے كہ سليمان نے كہا:'' ميں نے ابوجعفر (امام باقر(ع) ) سے سنا جبكہ آپ كے پاس عثمان اعمى نامى ايك بصرى بيٹھا تھا ، جب اس نے كہا كہ حسن بصرى كا قول ہے ''جو لوگ علم كو چھپاتے ہيں ان كے شكم كى ہوا سے اہل جہنم كواذيت ہوگي''_ تو آپ نے فرمايا:''اس صورت ميں تو مومن آل فرعون تباہ ہوجائے گا، جب سے خدانے حضرت نوح(ع) كو مبعوث كيا علم مستور چلا آرہا ہے _حسن دائيں بائيں جس قدر چاہے پھرے خدا كى قسم علم سوائے يہاں كے كہيں اور پايا نہ جائے گا''_ (1)
مذكورہ آيت سے امام(ع) كا استدلال اس بات كى دليل ہے كہ اس كے منسوخ نہ ہونے پرعلماء كا اتفاق تھا_رہى سنت نبوى تو اس سے ہم درج ذيل دلائل كا ذكر كريں گے_
سنت رسول (ص) ميں تقيہ
1_ جناب ابوذر (ص) سے مروى ہے كہ حضور كريم (ص) نے فرمايا :'' عنقريب تمہارے اوپر ايسے حاكم مسلط ہوں گے جو نماز كا حليہ بگاڑديں گے_ اگر تم ان كے زمانے ميں رہے تو تم اپنى نماز وقت پر پڑھتے رہو ليكن ان كے ساتھ بھى بطور نافلہ نماز پڑھ ليا كرو ...'' (2) اور اس سے ملتى جلتى ديگر احاديث(3)
2) مسيلمہ كذاب كے پاس دو آدمى لائے گئے اس نے ايك سے كہا :''كياتم جانتے ہو كہ ميں رسول(ص) خدا ہوں''_ اس نے جواب ديا: '' الله كے رسول(ص) تو حضرت محمد(ص) ہيں ''_مسيلمہ نے اسے قتل كرديا پھر دوسرے سے كہا تو اس نے جواب ديا:'' تم اور محمد(ص) دونوں الله كے نبى ہو ''_يہ سن كر مسليمہ نے اسے چھوڑ ديا_ يہ بات رسول الله صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم تك پہنچى تو آپ(ص) نے فرمايا:'' پہلا شخص اپنے عزم ويقين پر قائم رہا ليكن دوسرے نے اس راہ كو اختيار كيا جس كى خدا نے اجازت دى ہے پس اس پر كوئي عقاب نہيں''_ (4)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ اصول كافى ص 40،41 (منشورات المكتبة الاسلامية )نيز وسائل جلد 18ص 8_
2_ مسند احمد ج 5 ص 159_
3_ مسند احمد ج 5 ص 160، 168_
4_ محاضرات الادباء ، راغب اصفہانى ج 4ص 408اور 409 ، احكام القرآن جصاص ج2 ص 10 اور سعد السعود ص 137_
63
3) سہمى نے رسول(ص) الله سے روايت كى ہے ''لا دين لمن لا ثقة لہ'' (1)بظاہر يہاں لفظ ثقہ كى بجائے لفظ تقيہ مناسب اور درست ہے يعنى جو تقيہ نہيں كرتا وہ دين نہيں ركھتا جيساكہ شيعوں كى اہل بيت (ع) سے مروى روايات اس امر پر دلالت كرتى ہيں(2)_
4) حضرت عمار ياسر كا معروف واقعہ اور حضور(ص) كا عمار سے فرمانا كہ اگر وہ دوبارہ ايسا كريں تو تم بھى گذشتہ عمل كا تكرار كرو يہ بات احاديث وتفسير كى مختلف كتابوں ميں مذكور ہے اور اسى مناسبت سے آيت '' من كفر باللہ بعد ايمانہ ، الاّ من اكرہ و قلبہ مطمئن بالايمان''(3)نازل ہوئي تھي_
5) نبى اكرم(ص) كا بذات خود تقيہ فرمانا كيونكہ آپ تين يا پانچ سالوں تك خفيہ تبليغ كرتے رہے جو سب كے نزديك مسلمہ اور اجماعى ہے اور كسى كيلئے شك كى گنجائشے نہيں اگر چہ كہ ہم نے وہاں بتايا تھا كہ حقيقت امر صرف يہى نہيں تھا_
6) اسلام كفار كو بعض حالات ميں اجازت ديتا ہے كہ وہ اسلام قبول كريں يا جزيہ ديں يا قتل ہونے كيلئے تيار ہوجائيں_ واضح ہے كہ يہ بھى تقيہ كى ترغيب ہے كيونكہ اس قسم كے حالات ميں قبول اسلام جان كى حفاظت كيلئے ہى ہوسكتا ہے پختہ عقيدہ كى بناپر نہيں_اسلامى معاشرے ميں اس اميد كے ساتھ منافقين كو رہنے كى اجازت دينا اور ان كے ساتھ اسلامى بھائي چارے كے مطابق سلوك كرنا كہ وہ اسلام كے ساتھ تعاون كريں گے اور ان كے دلوں ميں ايمان مستحكم ہوجائے گا بھى اسى طرح ہے _
7) فتح خيبر كے موقع پر حجاج بن علاط نے نبى كريم (ص) سے عرض كيا :'' مكہ ميں ميرا كچھ مال اور رشتہ دار ہيں اور ميں انہيں وہاں سے لے آنا چاہتا ہوں _ پس اگر مجھے آپ(ص) كو برا بھلا كہنا بھى پڑا تو كيا آپ(ص) كى اجازت ہوگي؟'' تو رسول (ص) خدانے اجازت دے دى كہ جو كچھ كہے كہہ سكتا ہے(4)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تاريخ جرجان ص 201 _
2_ ملاحظہ ہو : كافى (اصول) ج2 ص 217 مطبوعہ آخندي، وسائل الشيعہ ج11 ص 465اور ميزان الحكمت ج10 ص 666 و 667_
3_ سورہ نمل آيت 106اور ملاحظہ ہو فتح البارى ج12 ص 277 و 278_
4_ دراسات فى الكافى و الصحيح ص 338 از سيرہ حلبيہ_
64
تاريخ سے مثاليں
1) ايك شخص نے ابن عمر سے پوچھا: ''كيا ميں حكام كو زكوة دوں''؟ ابن عمر نے كہا : ''اسے فقراء اورمساكين كے حوالے كرو'' راوى كہتا ہے كہ پس حسن نے مجھ سے كہا : ''كيا ميں نے تجھ سے كہا نہيں تھا كہ جب ابن عمر خوف محسوس نہيں كرتا، تو كہتا ہے زكوة فقيروں اور مسكينوں كو دو''_ (1)
2) علماء نے دعوى كيا ہے كہ انس بن مالك نے ركوع سے قبل قنوت والى حديث كو اپنے زمانے كے بعض حكام سے تقيہ كى بناپر روايت كيا ہے (2)
3) عباس بن حسن نے اپنے محرروں اور خاص نديموں سے مكتفى كے مرنے كے بعد خلافت كے اہل آدمى كے متعلق مشورہ ليا تو ابن فرات نے اسے يہ مشورہ ديا كہ وہ ہر كسى سے عليحدگى ميں مشورہ كرے تا كہ اس كى صحيح رائے معلوم ہوسكے دوسرے لوگوں كى موجودگى ميں ہوسكتا ہے تقيہ كرتے ہوئے وہ اپنى رائے پيش نہ كرسكا ہو اور دوسروں كا ساتھ ديا ہو اس بات پر اس نے كہا : ''سچ كہتے ہو'' _ پھر اس نے ويسا ہى كيا جيسا ابن فرات نے كہا تھا (3)
4) بيعت عقبہ ميں جناب رسول خدا اور جناب حمزہ نے تقيہ فرمايا تھا جس كے متعلق روايتيں عليحدہ فصل ميں بيان ہوں گي_
5) ايوب سے مروى ہے كہ ميں جب بھى حسن سے زكوة كے بارے ميں سوال كرتاتو كبھى وہ يہ كہتا حكام كو دے دو اور كبھى كہتا ان كو نہ دو_ مگر يہ كہا جائے كہ حسن كى جانب سے يہ ترديد اس بارے ميں شرعى مسئلہ كے واضح نہ ہونے كى وجہ سے تھي(4)
6) محمد بن حنفيہ كے ايك خطبے ميں يوں بيان ہوا ہے، امت سے جدا نہ ہونا ان لوگوں (بنى اميہ) سے تقيہ كے ذريعے سے بچتے رہو ، اور ان سے جنگ نہ كرو،راوى نے كہا :''ان سے تقيّہ كرنے سے كيا مراد ہے؟'' كہا :''جب وہ بلائيں تو ان كے پاس حاضرى دينا_يوں خدا تجھ سے نيز تيرے خون اور تيرے دين سے ان
--------------------------------------------------------------------------------
1_ المصنفعبدالرزاق ج 4ص 48 _
2_ ملاحظہ ہو : المحلى ج4 ص 141_
3_ الوزراء صابى ص 130_
4_ مصدر سابق_
65
كے شر كو دور ركھے گا اور تجھے خدا كے مال سے حصہ بھى ملے گا جس كے تم زيادہ حقدار ہو ''_(1)
7) مالك سے محمد بن عبدالله بن حسن كے ساتھ خروج كرنے كے بارے ميں سوال ہوا، ساتھ ہى يہ بھى بتايا گيا كہ ہم نے ابوجعفر المنصور كى بيعت بھى كرركھى ہے مالك نے كہا :'' تم نے مجبوراً بيعت كى تھى اور جسے مجبور كيا جائے اسكى قسم (بيعت) كى كوئي حيثيت نہيں'' (2)
8) قرطبى نے شافعى اور كوفيوں سے نقل كيا ہے كہ قتل كا خطرہ ہونے كى صورت ميں تقيہ جائزہے_ ساتھ يہ بھى كہا ہے كہ اہل علم كا اس بات پر اتفاق ہے_ (3)
9) حذيفہ كى روايت ہے كہ ہم رسول (ص) اللہ كى خدمت ميں تھے_ انہوں نے فرمايا: '' مجھے گن كربتاؤ اسلام كے كتنے اركان ہيں؟'' حذيفہ كا كہنا ہے كہ ہم نے عرض كيا :'' يا رسول(ص) اللہ كيا آپ(ص) كو ہمارى طرف سے كوئي پريشانى لاحق ہے؟ جبكہ ہم ابھى بھى چھ سوسے سات سو كے درميان ہيں'' تب آپ (ص) نے فرمايا:'' تمہيں كيا خبر كل كلاں تم آزمائشے ميں مبتلا ہوجاؤ'' حذيفہ كہتا ہے كہ بعد ميں ہم ايسى سخت آزمائشے ميں مبتلا ہوئے كہ حتى كہ ہم ميں سے ہر كوئي چھپ كر نماز پڑھتا تھا_(4)
يہى حذيفہ حضرت على (ع) كى بيعت كے صرف چاليس دن بعد فوت ہوا اور يہ حديث اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ اس بيعت سے قبل پچھلے دور ميں مؤمنين سخت دباؤ كا شكار تھے_ جو لوگ شرعى حكومت پر قابض تھے وہ دين اور دينداروں كے خلاف اپنے دل ميں پرانا كينہ ركھتے تھے اور جس چيز كا تھوڑا سا تعلق بھى دين كے ساتھ ہوتا تھا اس كا مذاق اڑايا كرتے اور اس كے خلاف محاذ آرائي كرتے تھے_
10) تمام اہل حديث اور ان كے بڑے بڑے علماء نے تقيہ كرتے ہوئے قرآن كے مخلوق ہونے كى تصديق كى حالانكہ وہ اس كے قديم ہونے كے قائل تھے فقط امام احمد بن حنبل اور محمد بن نوح نے انكار كيا(5) بلكہ امام احمد نے بھى تقيہ كيا چنانچہ جب وہ پھندے كے پاس پہنچا تو كہا : ''ميں كوئي بات زبان پر نہ
--------------------------------------------------------------------------------
1_ طبقات ابن سعد ج 5ص 70 _
2_ مقاتل الطالبين ص 283نيز طبرى ج 3ص 200 مطبوعہ يورپ_
3_ تفسير قرطبى ج 10ص 181 _
4_ صحيح مسلم ج 1 ص 91 _ صحيح بخارى مطبوعہ 1309ھ ج 2 ص 116و مسند احمد ج 5 ص 384_
5_ تجارب الامم مطبوعہ ہمراہ العيون و الحدائق ص 465 _
66
لاؤںگا'' نيز جب حاكم وقت نے اس سے كہا:'' قرآن كے بارے ميں كيا كہتے ہو'' تو جواب ديا: '' قرآن كلام الہى ہے'' پوچھا گيا ''كيا قرآن مخلوق ہے''؟ جواب ديا: ''ميں بس اتنا كہتا ہوں كہ الله كا كلام ہے''_ (1)بلكہ يعقوبى نے تو يہاں تك كہا ہے كہ جب امام احمد سے اس بارے ميں پوچھا گيا تو بولے : '' ميں ايك انسان ہوں جس نے كچھ علم حاصل تو كيا ہے ليكن اس بارے ميں مجھے كچھ علم نہيں ہے '' _اس مناظرے اور چند كوڑے كھانے كے بعد اسحق بن ابراہيم مناظرے كے لئے دوبارہ آيا اور اس سے كہا : '' اب كچھ باقى رہ گيا ہے جسے تو نہ جانتاہو؟''كہا : '' ہاں باقى ہے'' _ كہا : ' ' پس يہ مسئلہ بھى ان مسائل ميں سے ہے جنہيں تو نہيں جانتا_ حالانكہ امير المؤمنين (حاكم وقت) نے تجھے اچھى طرح سكھا ديا ہے '' _ كہا : '' پھر ميں بھى اميرالمؤمنين كے فرمان كا قائل ہوگيا ہوں '' پوچھا: '' قرآ ن كے مخلوق ہونے كے متعلق ؟'' كہا : '' جى ہاں خلق قرآن كے متعلق '' كہا : ''پھر يا د ركھنا'' پھر اسے آزاد كركے گھر كو جانے ديا(2)_
حالانكہ امام احمد خودكہتے ہيں كہ جو فقط يہ كہے كہ قرآن كلام الله ہے اور مزيد كچھ نہ كہے تو وہ واقفى اور ملعون ہے_ (3)
خوارج كے مقابلے ميں ابن زبير نے بھى تقيہ سے كام ليا (4) اسى طرح شعبى اور مطرف بن عبداللہ نے حجاج سے تقيہ كيا اور عرباض بن ساريہ اور مؤمن الطاق نے بھى خوارج سے اور صعصعہ بن صوحان نے معاويہ سے تقيہ كيا (5)
خلق قرآن كے مسئلے ميں اسماعيل بن حماد اور ابن مدينى نے بھى تقيہ كيا، ابن مدينى قاضى ابو داؤد معتزلى كى مجلس ميں حاضر رہتا اور اس كے پيچھے نماز پڑھتا تھا_ نيز احمد بن حنبل اور اس كے اصحاب كى حمايت كرتا تھا_(6)
11_ مدينہ پر بسربن ابى ارطاة كے غارتگرانہ حملہ كے موقع پر جابربن عبداللہ انصارى نے ام المومنين
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تاريخ طبرى ج 7ص 201نيز آثار جاحظ ص 274و مذكرات الرمانى ص 47_
2_ تاريخ يعقوبى ج2 ص 472_
3_ بحوث مع اھل السنة و السلفيہ ص 122،123 از الرد على الجھمية (ابن حنبل) در كتاب الدومى ص28 _
4_ ملاحظہ ہو العقد الفريد ابن عبدربہ ج2 ص 393_
5_ العقد الفريد ج 2 ص 464 و ص 465 اور ملاحظہ ہو : بہج الصباغہ ج 7 ص 121_
6_ رجوع كريں لسان الميزان ج 1ص 339اور 400متن اور حاشيہ ملاحظہ ہو_
67
حضرت ام سلمہ كى خدمت ميں شكايت كى :'' مجھے قتل ہونے كا خوف ہے اور يہ بيعت ايك گمراہ شخص كى بيعت ہے اس موقع پر ميں كيا كروں''؟ تو انہوں نے فرمايا : '' اس صورت ميں تم اس كى بيعت كرلو كيونكہ اصحاب كہف كو بھى اسى تقيہ نے صليب پہننے اور دوسرے شہريوں كے ساتھ عيد كى محفلوں ميں شريك ہونے پر مجبور كرديا تھا'' (1)
12_ حضرت امام حسن (ع) كے مسموم ہونے كے بعد جب اہل كوفہ نے حضرت امام حسين (ع) سے معاويہ كے خلاف قيام كرنے كا مطالبہ كيا تو آپ (ع) نے ان كا مطالبہ مسترد كرديا_ البتہ اس معاملے ميں آپ كے اور بھى اہداف تھے جو معاويہ كے خلاف پورى زندگى قيام نہ كرنے كے اپنے شہيد بھائي كے موقف كے ہماہنگ تھے_ اس بارے ميں ملاحظہ فرمائيں اخبار الطوال ص 220تا222_
13_ حسن بصرى كا قول ہے كہ تقيہ روز قيامت تك ہے_(2)
14_ بخارى كا كہنا ہے:'' جب كسى آدى كو اپنے ساتھى كے قتل و غيرہ كا ڈر ہو اور اس كے متعلق يہ قسم كھائے كہ يہ ميرا بھائي ہے _ تو اس پر كوئي بھى حد يا قصاص و غيرہ نہيں ہے كيونكہ اس سے ظالم كے مقابلے ميں اس كى حمايت كر رہا ہو تا ہے_ ظالم شخص اسے چھوڑكر قسم كھانے والے كے ساتھ جھگڑتا ہے جبكہ اسے كچھ نہيں كہتا_ اسى طرح اگر اس سے يہ كہا جائے كہ يا تو تم شراب پيو ، مردار كھاؤ ، اپنا غلام بيچو، قرض كا اقرار كرو يا كوئي چيز تحفہ دويا كوئي معاملہ ختم كردو و گر نہ تمہارے باپ يا تمہارے مسلمان بھائي كو قتل كرديں گے تو اسے ان چيزوں كے ارتكاب كى اجازت ہے ... ...'' يہاں تك كہ وہ كہتا ہے :'' نخعى كا قول ہے كہ اگر قسم لينے والا ظالم ہے تو قسم اٹھانے والے كى نيت پر منحصر ہے اور اگر قسم لينے والا مظلوم ہے تو پھر اس كى نيت پر منحصر ہوگا ''(3)
15_ يہاں تك كہ مغيرہ بن شعبہ كا حضرت على (ع) كے متعلق عيب جوئي كے بارے ميں يہ دعوى ہے كہ وہ تقيہ پر عمل كرتا تھا كيونكہ صعصعہ سے كہتا ہے:'' يہ بادشاہ ہمارے سروں پر مسلط ہوچكا ہے اور ہميں لوگوں كے سامنے آپ (ع) كى عيب جوئي كرنے پر مجبور كرتا ہے ، ہميں بھى اكثر اوقات اس كى پيروى كرتے ہوئے ان لوگوں
--------------------------------------------------------------------------------
1) تاريخ يعقوبى ج2 ص 198_
2) صحيح بخارى ج 4 ص 128 مطبوعہ الميمنيہ_
3) صحيح بخارى ج 4 ص 128 ، صحيح بخارى كى '' كتاب الاكراہ'' كا مطالعہ بہت مفيد ہوگا كيونكہ اس ميں تقيہ كے متعلق بہت مفيد معلومات ہيں_
68
كے شر سے دور رہنے كے لئے بطور تقيہ ايسى بات كہنى پڑتى ہے _ اگر تم حضرت (ع) كى فضيلت بيان كرنا بھى چاہتے ہو تو اپنے ساتھيوں كے درميان اور اپنے گھروں ميں چھپ كر كرو ...''(1)
16_ ابن سلام كہتا ہے :'' رسول كريم (ص) نے مجھے نماز كو وقت پر پڑھنے كا اور پھر بطور نافلہ ان حكام كے ساتھ پڑھنے كا حكم ديا جو نماز كو تاخير كے ساتھ پڑھتے ہيں'' (2)
17_ خدرى نے يہ تصريح كى ہے كہ حضرت على (ع) كے متعلق اپنے موقف ميں وہ تقيہ سے كام ليتا تھا_ تا كہ بنى اميہ سے اس كى جان بچى رہے اور اس نے آيت '' ادفع بالتى ہى احسن السيئة'' سے استدلال كيا ہے(3) اسى طرح بياضى كى '' الصراط المستقيم'' ج 3 ص 27 تا 73 ميں ايسے كوئي واقعات ذكر ہوئے ہيں وہ بھى ملاحظہ فرمائيں_
بہرحال اس مسئلے كى تحقيق كيلئے كافى وقت كى ضرورت ہے يہاں جتنا عرض كيا گيا ہے شايد كافى ہو_
تقيہ ايك فطري، عقلي، دينى اور اخلاقى ضرورت
تقيہ كا جواز اس بات كى بہترين دليل ہے كہ اسلام ايك جامع اور لچك دار دين ہے اور ہر قسم كے حالات سے عہدہ برا ہوسكتا ہے_ اگر اسلام خشك اور غيرلچك دار ہوتا يااس ميں نئے حالات وواقعات سے ہم آہنگ ہونے كى گنجائشے نہ ہوتى تو لازمى طورپر نت نئے واقعات سے ٹكراكر پاش پاش ہوجاتا _بنابريں خدانے تقيہ كو جائز قرار ديكر مشكل اور سنگين حالات ميں اپنے مشن كى حفاظت اس مشن كے پاسبان (رسول(ص) ) كى حفاظت كے ذريعے كي_ اس كى بہترين مثال خفيہ تبليغ كا وہ دور ہے جس ميں حضور اكرم(ص) اور آپ(ص) كے اصحاب، بعثت كے ابتدائي دور سے گزرے_
جب دين كے لئے قربانى دينے كا نہ صرف كوئي فائدہ نہ ہو بلكہ دين كے ايك وفادار سپاہى كو ضائع كرنے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تاريخ الامم و الملوك ج 4 ص 12_
2_ تہذيب تاريخ دمش ج 6 ص 205_
3_ سليم بن قيس ص 53 مطبوعہ مؤسسہ البعثة قم ايران_
69
كى وجہ سے الٹا دين كا نقصان بھى ہو تو تب دين اسلام كے پاسبانوں كى حفاظت كے لئے دين ميں لچك كى سخت ضرورت محسوس ہوتى ہے _ يوں بہت سے موقعوں پر اسلام كى حفاظت اس كے ان وفادار اور نيك سپاہيوں كى حفاظت كے زير سايہ ہوتى ہے جوبوقت ضرورت اس كى راہ ميں قربانى دينے كيلئے آمادہ رہتے ہيں پس تقيہ كا اصول انہى لوگوں كى حفاظت كيلئے وضع ہوا ہے_
رہے دوسرے لوگ جنہيں اپنے سواكسى چيزكى فكر ہى نہيں ہوتى تو، تقيہ كے قانون كى موجودگى يا عدم موجودگى ان كيلئے مساوى ہے تقيہ اسلام كے محافظين كى حفاظت كيلئے ہے تاكہ اس طريقے سے خود اسلام كى حفاظت ہوسكے تقيہ نفاق يا شكست كا نام نہيں كيونكہ اسلام كے يہ محافظين تو ہميشہ قربانى دينے كيلئے آمادہ رہتے ہيںاور اس بات كى دليل يہ ہے كہ معاويہ كے دورميں خاموش رہنے والے حسين (ع) وہى حسين(ع) تھے جنہوں نے يزيد كے خلاف اس نعرے كے ساتھ قيام كيا:
ان كان دين محمد لم يستقم
الا بقتلى فيا سيوف خذيني
يعنى اگر دين محمد(ص) كى اصلاح ميرے خون كے بغير نہيں ہوسكتى ، تو اے تلوارو آؤ اور مجھے چھلنى كر دو_
پس جس طرح يہاں ان كا قيام دين اور حق كى حفاظت كے لئے تھا بالكل اسى طرح وہاں ان كى خاموشى بھى فقط دين اور حق كى حفاظت كے لئے تھي_ اس نكتے كے بارے ميں ہم نے حلف الفضول كے واقعے ميں گفتگو كى ہے_
يوں واضح ہوا كہ جب حق كى حفاظت كيلئے قربانى كى ضرورت ہوتو اسلام اس كو لازم قرارديتا ہے اوراس سے پہلوتہى كرنے والوں سے كوئي رو رعايت نہيں برتتا_
علاوہ برايں اگر اسلام كے قوانين خشك اورغير لچك دار ہوں توبہت سے لوگ اس كو خير باد كہہ ديں گے بلكہ اس كى طرف بالكل رخ ہى نہيں كريں گے_ وحشى وغيرہ كے قبول اسلام كے بارے ميں ہم بيان كريں گے كہ بعض لوگ اسلئے مسلمان ہوتے تھے كہ حضرت محمد صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب كو قتل نہيں كرتے _
بنابريں واضح ہے كہ اسلام كے اندر موجود اس نرمى اور لچك كى يہتوجيہ صحيح نہيں ہے كہ يہ قانون دين ميں
70
دى گئي ايك سہولت ہے تاكہ بعض لوگوں كيلئے قبول اسلام كوآسان بناياجاسكے بلكہ اسے تو اسلام ومسلمين كى حفاظت كا باعث سمجھنا چاہئے بشرطيكہ اس سے اسلام كے اصولوں كو نقصان نہ پہنچتا ہو بلكہ ترك تقيہ كى صورت ميں قوت اور وسائل كابے جا ضياع ہوتا ہو اور يہى امر تقيہ اور نفاق كے درميان فرق كا معيار ہے ليكن بعض لوگ تقيہ كو جائز سمجھنے والوں پر نفاق جيسے ناجائزاور ظالمانہ الزام لگانے ميں لطف محسوس كرتے ہيں_
ايك دفعہ رسول(ص) الله كے پاس قبيلہ ثقيف كے افراد آئے اور آپ(ص) سے درخواست كى كہ كچھ مدت كيلئے ان كو بتوں كى پوجا كرنے كى اجازت دى جائے نيز ان پر نماز فرض نہ كى جائے (كيونكہ وہ اسے اپنے لئے گراں سمجھتے تھے) اس كے علاوہ انہيں اپنے ہاتھوں سے بت توڑنے كا حكم نہ دياجائے تو اسى معيار كى بناپريہاں ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ حضورنے آخرى بات تو مان لى ليكن پہلى دو باتوں كو رد كرديا_ (1) اسى طرح انہوں نے يہ درخواست بھى كى تھى كہ انہيں زنا، شراب سود اور ترك نماز كى اجازت دى جائے (2) انہيں بھى رسول (ص) خدا نے رد كرديااور اس بات كا لحاظ نہ كيا كہ يہ قبيلہ اسلام قبول كرنے كا ارادہ ركھتا ہے جس سے اسلام كو تقويت ملے گى اور دشمن كمزور ہوں گے_ آپ(ص) نے ان لوگوں كو جنہوں نے سال ہا سال بتوں كى پوجا كى تھى مزيد ايك سال تك بت پرستى كى مہلت كيوں نہ دي؟ جس كے نتيجے ميں وہ اسلام سے آشنا اور قريب ترہوجاتے_ آپ(ص) نے ان كا مطالبہ ٹھكراديا حتى كہ ايك لمحے كيلئے بھى آپ نے ان كو اس بات كى اجازت نہ دي، كيونكہ آپ(ص) ہر جائز وناجائز وسيلے سے اپنے اہداف تك پہنچنے كے قائل نہ تھے، آپ(ص) وسيلے كو بھى ہدف كاايك حصہ سمجھتے تھے جيساكہ ہم ذكر كرچكے ہيں_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ يہاں سے پتہ چلا كہ ''جبلہ ابن ايھم'' سے قصاص لينے پر اصرار ميں عمر كى پاليسى كامياب نہ تھي_ كيونكہ وہ تازہ مسلمان ہوا تھا اور اپنى قوم كا حاكم تھا_ اس نے ابھى اسلام كى عظمت اور ممتاز خوبيوں كو نہيں سمجھا تھا_ حضرت عمر كو چاہئے تھا كہ وہ صورت حال كى نزاكت كے پيش نظر اس مسئلے كو كسى آسان تر طريقے سے حل كرتے_
2_ سيرہ نبويہ دحلان ( حاشيہ سيرہ حلبيہ پر مطبوع) ج3 ص 11 ، المواہب اللدنيہ ج1 ص 236 ، تاريخ الخميس ج 2 ص 135 تا 137 اور ترك نماز كے متعلق ملاحظہ ہو : الكامل فى التاريخ ج 2 ص 284 ، اسى طرح سيرہ نبويہ ابن ہشام ج 4 ص 185 ، سيرہ نبويہ ابن كثير ج4 ص 56 اور البدايہ والنہايہ ج5 ص 30_
71
ليكن اس كے مقابل اگر كوئي بالفرض آپ(ص) كى بے حرمتى كرتا تو آپ(ص) معاف كرديتے تھے بشرطيكہ اسے يہ احساس ہوجاتا كہ اس نے گناہ كيا ہے اور رسول(ص) خدا نے اس سے درگذر كياہے_ ليكن اگر وہ شخص اپنے غلط عمل كو صحيح سمجھتا تو آپ(ص) كسى صورت ميں بھى اسے معاف نہيں فرماتے_
خلاصہ (1)يہ كہ جب مسلمان كمزور ہوں تو پھر انہيں دشمنوں كے ساتھ سخت لڑائي لڑنے كاحق نہيں جس ميں وہ خود ہلاك ہوجائيں ياان كے ختم ہونے سے عقيدہحق بھى ختم ہوجائے كيونكہ دين اور نظريات وعقائد كو اس قسم كے مقابلے سے كوئي فائدہ نہيں پہنچتا بلكہ كبھى كبھى الٹا نقصان پہنچتا ہے _ نيز اگرحق كا دفاع ايسى قربانى دينے سے پرہيز پر موقوف ہو جو حق كے مٹنے كا باعث ہو، عقل وفكر سے بيگانہ ہو يا وحشيانہ طرز عمل كے ساتھ ہو، نيز ايك نظرياتى جنگ كيلئے مطلوبہ شرائط سے خالى ہو تو پھر اس قربانى سے احتراز كرنا چاہيئے_
يہ بات اسلام كى عظمت، جامعيت اور حقائق زندگى كے ساتھ اس كى ہماہنگى كى ايك اور دليل ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ يہ خلاصہ علامہ سيد محمد حسين فضل اللہ كے فرمودات سے ماخوذ ہے _ مراجعہ ہو: مفاہيم الاسلاميہ عامہ حصہ 8 ص 127_
|