376
چوتھى فصل
مدينہ تك
377
آغاز:
مدينہ پہنچنے كے بعد اسلامى معاشرہ كى تشكيل، حكومت كى بنياديں مضبوط كرنے اور دنيا كے مختلف حصوں ميں تبليغ اسلام كى منصوبہ بندى كرنے كا كام شروع ہوا_ يوں اسلامى دعوت انفرداى اصلاح كے مرحلے سے نكل كر معاشرتى اصلاح، اسلامى عقائد واحكام كے عملى نفاذ اور پورى دنيا سے جاہليت كے تمام آثار كو مٹانے كے مرحلے ميں داخل ہوئي_
اگر ہم اس سلسلے ميں رسول(ص) اعظم صلى الله عليہ وآلہ وسلم كے تمام اقدامات كا تذكرہ كريں تو اس مختصر كتاب ميں ان كا تفصيلى ذكر ممكن نہ ہوگا_ نيز ہم آنحضرت(ص) كى عطرآگين سيرت كے بنيادى واقعات پر بحث كرنے سے رہ جائيں گے_ اس بناپر ہم يہ كام دوسروں كيلئے چھوڑتے ہيں اور ان چيزوں كے اجمالى بيان پر اكتفا كرتے ہيں جو كسى محقق كيلئے ضرورى ہوتى ہيں_ ہم جزئيات اور تفصيلات فقط اسى حد تك بيان كريں گے جو ہمارى نظر ميں ضرورى اور معقول ہوں_
اہل مدينہ كے گيت اور(معاذ اللہ) رسول(ص) الله كا رقص؟
كہتے ہيں كہ اہل مدينہ رسول(ص) الله كى آمد سے اتنے خوش ہوئے كہ اس قدر كسى اور سے خوش نہيں ہوئے تھے_ حضرت عائشه سے منقول ہے كہ جب حضور(ص) مدينہ پہنچے تو عورتيں اور لڑكياں يہ گيت گارہى تھيں:
طلع البدر علينا
من ثنيات الوداع
وجب الشكر علينا
ما دعا لله داع
ايہا المبعوث فينا
جئت بالامر المطاع
378
آج ثنيات وداع نامى جگہ سے چودہويں كا چاند طلوع ہوا_
جب تك كوئي دعا كرنے والا دعا گو موجود ہے ہم پر خدا كا شكر لازم ہے_
اے وہ جو ہمارى طرف بھيجا گيا ہے تيرا پيغام واجب الاطاعت ہے_
تب آپ(ص) دائيں طرف مڑے اور قبا ميں پہنچ كر اتر گئے_ (1)
ايك روايت كى رو سے رسول(ص) الله اپنى آستينوں كے ساتھ ناچنے لگے ( معاذ اللہ)_ (2)
قبا ميں چند دن ٹھہرنے كے بعد آپ(ص) شہر مدينہ كى طرف روانہ ہوئے_ اس وقت بنى نجار كي
عورتيں دف بجا بجاكر گارہى تھيں_
نحن نساء من بنى النجار
يا حبذا محمد من جار
ہم بنى نجاركى عورتيں ہيں، خوش نصيب ہيں كہ محمد(ص) ہمارے پڑوسى بن گئے_
رسول(ص) الله نے ان سے فرمايا: ''كيا آپ مجھ سے محبت كرتى ہيں؟ ''وہ بوليں:'' ہاں اے الله كے رسول(ص) '' آپ(ص) نے فرمايا:'' الله كى قسم ميں بھى تم سے محبت ركھتا ہوں''_ آپ (ص) نے يہ جملہ تين بار فرمايا_ (3)
حلبى كہتا ''ہے يہ واقعہ اس بات كى واضح دليل ہے كہ شادى كے علاوہ ديگر موقعوں پر بھى دف (ڈھولكي) كے ساتھ گانا سننا جائز ہے''_ (4)
ابن كثير نے صحيحين كى آئندہ آنے والے روايتوں سے استدلال كيا ہے كہ شاديوں اور مسافروں كى آمد كے موقع پر گانا بجانا جائز ہے_ (5)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تاريخ خميس ج1 ص 341_342 از الرياض النضرة ، و السيرة الحلبية ج 2 ص 54، و دلائل النبوةبيہقى ج 2 ص 233، و وفاء الوفاء سمہودى ج 1 ص 244 و ج 4 ص1172 و 262 و فتح البارى ج 7 ص 204_
2_ نہج الحق الموجود فى دلائل الصدق ج 1 ص 389، (يعنى حضور (ص) كريم اپنى آستينوں كو نعوذ باللہ تھركانے لگے _ از مترجم) فضل بن روز بہان نے بھى اس پراعتراض نہيں كيا بلكہ وہ اس كى توجيہ اور تاويل پيش كرنے لگے( گويا وہ اسے بالكل قبول كرتے ہيں)_
3_ وفاء الوفاء ج 1 ص 263 ، فتح البارى ج 7 ص 204 و دلائل النبوة بيہقى ج 2 ص 234 و 235 و تاريخ الخميس ج 1 ص 341 و سيرت حلبى ج 3 ص 61 اور البداية و النہايةج 3 ص 200 _
4_ سيرت حلبى ج 2 ص 41 _
5_ البداية و النہاية ج 1 ص 276_
379
ليكن يہ باتيں غلط ہيں:
جسكى وجوہات كچھ يوں ہيں:
(الف): ثنيات الوداع كا محل وقوع مدينے كى جانب نہيں بلكہ شام كى جانب ہے اور مكہ سے مدينہ كى طرف آنے والے كو نظر نہيں آتا اور نہ ہى وہاں سے اس كا گزر ہوتا ہے مگر يہ كہ كوئي شام كا رخ كرے (1) بلكہ سمہودى كے بقول ''ميں نے مكہ كى جانب كسى سفر ميں ثنيات الوداع كا تذكرہ نہيں ديكھا_ (2)
''جن لوگوں نے اسے مكے كى جانب قرار ديا ہے بظاہر ان كى دليل ان عورتوں كا مذكورہ جملہ ہے جو ہجرت كے موقع پر كہا گيا''_ (3)
ثنية الوداع كے شام اور خيبر كى جانب واقع ہونے كى تائيد تبوك كى طرف رسول(ص) الله كے تشريف لے جانے اور وہاں سے آپ(ص) كے لوٹنے سے ہوتى ہے_ جب آپ(ص) خيبر اور شام سے لوٹے موتہ، غزوہ عاليہ اور غزوہ غابہ كى طرف گئے، نيز اسب مضمر (وہ گھوڑا جسے گھڑ دوڑ ميں شركت سے پہلے دبلا اور بدن كا چھريرا بنانے كيلئے ايك مدت تك باندھ كر ركھتے ہيں) كى مدت كے بارے ميں گھڑ دوڑ والى حديث ميں مذكورہ بات سے بھى اس امركى تائيد ہوتى ہے_ (4)
سمہودى نے مذكورہ بات كو صحيح قرار دينے كى كوشش اس طرح كى ہے كہ ان لوگوں كے بقول قبا سے مدينہ آتے وقت رسول(ص) الله انصار كے گھروں سے گزرے يہاں تك كہ بنى ساعدہ كے گھروں سے آپ(ص) كا گزر ہوا جو شام كى جانب واقع ہے پس آپ(ص) شہر مدينہ ميں داخل نہيں ہوئے مگر اسى طرف سے_ (5)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ زاد المعاد ج 3 ص 10 اور رجوع كريں وفاء الوفاء سمہورى ج 4 ص 1170 نيز التراتيب الاداريہ ج2 ص 130_
2_ وفاء الوفاء ج 4 ص 1172_
3_ وفاء الوفاء ج 4 ص 1172_
4_ وفاء الوفاء ج 4 ص 1168و 1172 و 1169 اور ج3 ص 857 و858 از بخارى ، ابن ابى شيبہ ، طبرانى اوسط ميں ، ابويعلى ، ابن حبان ، ابن اسحاق ،ابن سعد اور بيہقى و غيرہ نيز ملاحظہ ہو حياة الصحابہ ج1 ص 603 و 207 اور السنن الكبرى ج9 ص 175 و 85_
5_ وفاء الوفاء ج 4 ص 1170_
380
يہ بات قابل تعجب ہے كيونكہ بنى ساعدہ كے گھروں سے گزرنے كا مقصد يہ نہيں كہ آپ(ص) مدينے سے ان كى جانب سے داخل ہوئے كيونكہ عين ممكن ہے كہ آپ(ص) قبا كى جانب سے داخل ہوئے ہوں اور پھر اونٹنى نے آپ(ص) كو انصار كے گھروں كے درميان پھرايا ہو_ (جيساكہ اس نے صريحاً بيان كيا ہے) يہاں تك كہ وہ بنى ساعدہ كے گھروں تك پہنچى ہو_
سمہودى كے اس احتمال كى نفى ''طلع البدر علينا'' والى روايت ميں ان كے اس صريحى بيان سے ہوتى ہے كہ اہل مدينہ نے اس شعر كے ساتھ آپ(ص) كا استقبال كيا پھر آپ(ص) ان كے ساتھ دائيں طرف قبا كى جانب مڑے جيساكہ بيان ہوچكا ہے، بنابريں يہ شعر مكہ سے مدينہ تشريف آورى كے موقع پر كہا گيا نہ كہ قبا سے مدينہ آمد پر_
ان سارى باتوں كى روشنى ميں حقيقت يہ ہے كہ مدينہ والوں نے اس شعر كے ساتھ آپ(ص) كا استقبال مكہ سے تشريف آورى كے موقعے پر نہيں بلكہ تبوك سے آپ(ص) كى آمد كے موقع پر كيا_
(ب): حلبى كا اس روايت كى بنياد پر گانے بجانے كو جائز قرار دينا قابل تعجب امر ہے كيونكہ روايت فقط اتنا كہتى ہے كہ انہوں نے آپ(ص) كى آمد پر شعر پڑھا _ اس ميں كوئي حرام چيز تو داخل نہيں تھى اور شعر پڑھنا كوئي كار حرام نہيں ہے بلكہ روايت ميں ان اشعار كو لے ميںپڑھنے كا ذكر بھى نہيں ہے_ اسى لئے ان كے كسى عالم كا بيان ہے كہ ''حرام اور غلط موسيقى كے حاميوں كا اس (طلع البدر والى روايت) كو دليل بناكر ہر قسم كى موسيقى كو جائز قرار دينا بالكل اسى طرح ہے جس طرح انگور اور (نشے سے خالى )انگور كے پانى كے حلال ہونے كو دليل بناكر (اس سے تيار شدہ) نشہ آور شراب كو بھى حلال قرار ديا جائے_ اس قسم كا قياس ان لوگوں كے قياس كى مانند ہے جو كہتے تھے كہ تجارت اور ربا ايك جيسے ہيں''_ (1)
اور اگر ہم تسليم بھى كرليں كہ نامحرم عورت كى آواز كو سننا حرام ہے تو اس بات كى كوئي دليل نہيں كہ حرمت كا يہ حكم اس وقت نازل ہوچكا تھا كيونكہ اسلام كے اكثر احكام تدريجاً نازل ہوئے جيساكہ شراب كے بارے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ زاد المعاد (ابن قيم) ج 3 ص 17_18_
381
ميں بھى يہى كہا گيا ہے_ علاوہ برايں ان اشعار كو پڑھنے واليوں ميں كسى ايسے فرد كے موجود ہونے كا بھى كوئي ثبوت نہيں جس كى آواز كا سننا حرام تھا_
اگر ہم ان كى سارى باتيں تسليم كرليں پھر بھى اس بات كا احتمال ہے كہ ان حالات ميں ان لوگوں كو منع كرنا يا ان كو حكم شرعى سے آگاہ كرنا ممكن نہ تھا_ اور رسول(ص) خدا كا سكوت كسى مصلحت كے پيش نظر تھا بنابريں آپ(ص) كے سكوت سے ان كے عمل كى تائيد پر استدلال نہيں كيا جاسكتا_
(ج): رہا رسول(ص) الله كا (نعوذ بالله ) اپنى آستينوں كو نچانا تو يہ آپ(ص) كى شان كے منافى ہے جيساكہ فضل بن روزبہان نے بھى اس كا اعتراف كيا ہے_ (1)
شيخ مظفر كہتے ہيں ''يہ عمل واضح بے وقوفى اور بے حيائي ہے اور ايك رہبر كيلئے بہت بڑا عيب ہے_ نيز ان حالات ميں حيا و مروت كے تقاضوں كى زبردست خلاف ورزى اور آپ(ص) كى رسالت كے سخت منافى ہے (كيونكہ آپ (ص) كا مقصد لوگوں كى ہدايت، ان كو نقائص اور احمقانہ اعمال سے نجات دلانا اور آخرت كى ياد دلانا تھا)''_(2)
ان سب باتوں كے علاوہ رسول(ص) الله نے واضح طور پر ہر قسم كے لہو ولعب، گانے بجانے اور رقص سے منع فرمايا ہے جيساكہ ہم اس كا جلد تذكرہ كريں گے_
مذكورہ باتوں كى روشنى ميں ايك اور روايت (جو رسول(ص) خدا كے استقبال كے وقت بنى ساعدہ كى عورتوں كے گانے اور دف بجانے سے متعلق ہے) كے ذريعے ان كے استدلال كى كمزورى بھى معلوم ہوجاتى ہے_
يہاں ہم مناسب سمجھتے ہيں كہ غنا اور رقص كے جواز پر ان كے سارے دلائل كو پيش كرنے كے بعد ان پر بحث كى جائے اور پھر اس مسئلے ميں قول حق كو بعض دلائل كے ساتھ بيان كيا جائے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں دلائل الصدق ج 1 ص 393_390(ترتيب كے ساتھ) _
2_ رجوع كريں دلائل الصدق ج 1 ص 393_390(ترتيب كے ساتھ) _
382
حلّيت غنا كے دلائل
گانے بجانے اور رقص كرنے كى حليت پر مذكورہ باتوں كے علاوہ درج ذيل امور سے استدلال كيا گيا ہے:
1_حلبى نے ابوبشير سے نقل كيا ہے كہ رسول(ص) خدا اور حضرت ابوبكر حبشيوں كے پاس سے گزرے جبكہ كھيل اور رقص ميں مصروف تھے اور كہہ رہے تھے: ''يا ايہا الضيف المعرج طارقاً'' (اے رات كے وقت آنے والے مہمان)_
(حلبي) كہتا ہے: ''آپ(ص) نے انہيں منع نہيں كيا اور ہمارے فقہاء نے رقص كے جواز پر اسى سے استدلال كيا ہے جو اشكال سے خالى ہے كيونكہ رسول(ص) خدا كے سامنے دف كے ساتھ يا اس كے بغير خوبصورت آوازوں كے ساتھ اشعار گائے جانے كے بارے ميں صحيح اور متواتر اخبار موجود ہيں_ انہى روايات كى رو سے ہمارے فقيہوں نے دف بجانے كى حليت پر استدلال كيا ہے اگرچہ گھونگھرؤوں كے ساتھ ہى كيوں نہ ہوں''_ (1)
2_ بريد ہ سے مروى ہے كہ رسول(ص) خدا كسى جنگ كيلئے شہر سے خارج ہوئے_ جب آپ(ص) واپس تشريف لائے تو سياہ رنگ كى ايك لونڈى آئي اور بولي:'' ميں نے نذركى ہے كہ اگر الله آپ(ص) كو صحيح وسالم واپس لوٹائے تو ميں آپ(ص) كے سامنے دف بجاؤں گى اور گاؤں گي'' آپ(ص) نے فرمايا:'' اگر تونے نذر كى تھى تو پھر دف بجاؤ وگرنہ نہيں''_ چنانچہ وہ دف بجانے لگى اس دوران حضرت ابوبكر آئے اس كے بعد حضرت علي(ع) آئے جبكہ وہ دف بجا رہى تھى پھر حضرت عثمان آئے جبكہ ابھى وہ كنيز دف بجانے ميں مشغول تھى اس كے بعد حضرت عمر داخل ہوئے پس اس كنيز نے دف كو اپنے سرين كے نيچے ركھا اور خود اس كے اوپر بيٹھ گئي_ چنانچہ رسول(ص) الله نے فرمايا:'' اے عمر شيطان تجھ سے ڈرتا ہے وہ گارہى تھى حالانكہ ميں بيٹھا ہوا تھا پھر ابوبكر آيا
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرت حلبى ج2 ص62_
383
جبكہ وہ بدستور گاتى رہى تھي ...''_(1)
3_حضرت جابر سے منقول ہے حضرت ابوبكر رسول(ص) الله كى خدمت ميں پہنچے اس وقت آپ(ص) كے پاس دف بجايا جارہا تھا وہ بيٹھ گئے اور رسول(ص) الله كا عمل ديكھ كر كچھ نہ كہا_ پھر حضرت عمر آئے جب رسول(ص) الله نے عمر كى آواز سنى تو اس كام سے روكا جب وہ دونوں چلے گئے تو حضرت عائشه بوليں :''اے الله كے رسول(ص) كيا عمر كے آنے سے حلال چيز حرام بن گئي؟ ''آپ(ص) نے فرمايا:'' اے عائشه ہر كسى كے ساتھ آزادانہ روش نہيں اپنائي جاسكتي''_ (2)
4_بخارى ومسلم وغيرہ نے حضرت عائشه سے روايت كى ہے كہ ايك دفعہ رسول(ص) خدا ميرے پاس تشريف لائے اس وقت ميرے پاس دو كنيزيں ايك طرب انگيز گيت گارہى تھيں_ (مسلم كے بقول وہ دونوں گا بھى رہى تھيں اور دف بھى بجا رہى تھيں) آپ(ص) بستر پر ليٹ گئے اور اپنا رخ پھير ليا_ اتنے ميں حضرت ابوبكر آئے اور مجھے ڈانٹ كر كہا:'' شيطان كى بانسرى اور رسول(ص) الله كے ہاں؟''
رسول(ص) الله نے ان كى طرف رخ كيا اور فرمايا:'' ان دونوں كو چھوڑ دو''_ مسلم كى ايك روايت كے مطابق آپ(ص) نے فرمايا: ''اے ابوبكر ان كو كچھ نہ كہو كيونكہ يہ عيد كے ايام ہيں''_ (3)
بعض روايات ميں مزيد (جيساكہ بخارى ميں ہے) مذكور ہے كہ وہ دونوں صرف گانے والياں نہيں تھيں_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ اسدالغابة ج4 ص 64 ، نوادرالاصول ( از حكيم ترمذي) ص 58 و مسند احمد ج5 ص 353 _ 354 ( كچھ اختلاف كے ساتھ) نيز دلائل الصدق ج1 ص 291 _ 390 از ترمذى ج2 ص 293 جس نے اسے صحيح قرار ديا ہے _ نيز بغوى نے بھى المصابيح ميں اسے صحيح گرداناہے _ نيز رجوع كريں الغدير ج8 ص 64 _65 سيرت حلبى ج 2 ص 62 سنن بيہقى ج10 ص 77 اور التراتيب الاداريہ ج2 ص 131_
2_ نيل الاوطار ج 8 ص271 و نوادر الاصول ( حكيم الترمذي) ص 138 ، و الغدير ج 8 ص 64 _65 از مشكاة المصابيح ص 55 اور گذشتہ بعض منابع سے_
3_ صحيح البخارى ج 1 ص 111 ط الميمنيہ،و صحيح مسلم ج 3 ص 22 ط مشكول، و السيرة الحلبية ج 2 ص 61_62 وحاشيہ ارشاد السارى ج 4 ص 195_197 و لائل الصدق ج 1 ص 389 و سنن البيہقى ج 10 ص 224، و اللمع لابى نصرص 274_ و البداية و النہاية ج 1 ص276 و المدخل لابن الحاج ج 3 ص 109 و المصنف ج 11 ص 4 نيز تہذيب تاريخ دمشق ج2 ص 412_
384
5_ايك روايت كے مطابق ايك دفعہ رسول(ص) خدا نے حضرت عائشه كو ايك حبشى عورت كا ناچ ديكھنے كى دعوت دي_ چنانچہ حضرت عائشه آئيں اور اپنى ٹھوڑى رسول(ص) الله كے كندھے پر ركھ كر ديكھنے لگيں_ حضور(ص) اكرم نے اسے فرمايا:'' كيا ابھى جى نہيں بھرا؟ ابھى سير نہيں ہوئي؟ اب بھى جى نہيں بھرا ؟''وہ كہتى تھيں:'' نہيں ''تاكہ آپ(ص) كے نزديك اپنے مقام كا اندازہ لگالے_ اتنے ميں حضرت عمر آنكلے پس لوگ وہاں سے متفرق ہوگئے اس وقت رسول(ص) الله نے فرمايا: ''ميں شياطين جن وانس كو عمر كے خوف سے بھاگتے ہوئے ديكھتا ہوں''_ (1)
6_ ابن عباس سے مروى ہے كہ رسول(ص) الله كے اصحاب خاموش بيٹھے ہوئے تھے اور ايك كنيز سارنگى كے ساتھ يہ گارہى تھي_
ھل على ويحكم
ان لھوت من حرج
وائے ہو تم پر اگر ميں دل بہلانے والا كام كروں تو كيااس ميں كيا حرج ہے؟
يہ سن كر رسول(ص) خدا مسكرائے اور بولے:'' انشاء الله كوئي حرج نہيں''_ (2)
7_ ربيع بنت معوذ سے مروى ہے كہ جب اسے دلہن بناكر آنحضرت(ص) كے پاس بھيجا گيا تو آپ (ص) اس كے پاس آئے اور بيٹھ گئے_ اس وقت چھوٹى لڑكياں دف بجاتى ہوئي بدر ميں قتل ہونے والے اپنے آباء پربين كر رہى تھيں_ يہاں تك كہ ان ميں سے ايك نے كہا ''ہمارے درميان وہ نبى بيٹھا ہوا ہے جو آئندہ كے حالات سے با خبر ہے'' آپ نے فرمايا:'' يوں نہ كہو بلكہ پہلے جو كچھ كہہ رہى تھيں وہى كہو''_ (3)
8_ ايك اور روايت ميں مذكور ہے كہ رسول(ص) خدا بيٹھے ہوئے تھے اور آپ كے پاس چند كنيزيں گانے اور كھيلنے ميں مشغول تھيں اتنے ميں عمر آئے اور اذن چاہا_ آپ(ص) نے ان عورتوں كو خاموش كرايا اور عمر كى حاجت پورى كردي، پس وہ چلے گئے_ آنحضرت (ص) سے اس شخص كے بارے ميں سوال ہوا جس كى آمد پر
--------------------------------------------------------------------------------
1_ دلائل الصدق ج 1 ص 390، التاج الجامع (للاصول) ج 3 ص 314 و الغدير ج 8 ص 65 از صحيح ترمذى ج 2 ص 294 (ترمذى نے اسے صحيح قرار ديا ہے) واز مصابيح السنة ج 2 ص 271 از مشكاة المصابيح ص 550 اور رياض النضرة ج 2 ص 208 سے حياة الصحابہ ج 2 ص 760_761 اور منتخب كنز العمال ج 4 ص 393 از ابن عساكر و ابن عدى اور مشكات ص 272 از شيخين_
2_ السيرة الحلبية ہ ج 2 ص 61 ، التراتيب الاداريہ ج2 ص 131 _132 از عقد الفريد و غيرہ اور تہذيب تاريخ دمشق ج4 ص 136_
3_البخارى فتح البارى كے حاشيہ كے ساتھ ج7 ص 244_
385
آپ(ص) نے ان (كنيزوں) كو خاموش رہنے كا حكم دياتھا اور اس كے چلے جانے كے بعد دوبارہ گانا شروع كرنے كيلئے كہا تھا_ آپ(ص) نے جواباً فرمايا:'' يہ وہ شخص ہے جو فضوليات سننے كو ترجيح نہيں ديتا''_ (1)
9_ ايك روايت يہ كہتى ہے كہ ايك عورت عائشه كے پاس آئي_ رسول(ص) الله نے فرمايا:'' اے عائشه اسے پہچانتى ہو؟'' وہ بوليں :''نہيں اے رسول(ص) خدا''_ فرمايا :''يہ فلان قبيلے كى گلو كارہ ہے_ كيا تم اس سے گانا سننا چاہتى ہو؟''وہ بوليں:'' ہاں''_ پس آپ(ص) نے اس كو ايك گول طشترى تھمادي، چنانچہ اس نے عائشه كيلئے ايك گيت گايا_ آنحضرت(ص) نے فرمايا:'' شيطان نے اس كى ناك كى دونوں سوراخوں ميں پھونك مارى ہے''_ (2) ابن ابى اوفى سے مروى ہے كہ نبى كريم (ص) كے پاس حضرت ابوبكر آئے تب بھى ايك لڑكى دف بجاتى رہى پھر حضرت عمر آئے تب بھى وہ بجاتى رہى ليكن جب حضرت عثمان آئے تو تب وہ چپ ہورہى (3) شاعر نيل (محمد حافظ ابراہيم) اپنے ديوان ميں خليفہ ثانى كے فضائل گنتے ہوئے كہتا ہے:
ا خاف حتى الذرارى فى ملاعبہا
وراع حتى الغوانى فى ملاھيہا
اريت تلك التى للہ قد نذرت
انشودہ لرسول الله تہديہا
ققالت : نذرت لئن عاد النبى لنا
من غزوة لعلى دفى اغنيھا
ويممت حضرہ الھادى و قد ملات
نوار طلعتہ ارجاء و اديھا
و استاذنت ومشت بالدف واندفعت
تشجى بالحانہا ماشاء مشجيھا
و المصطفى و ابوبكر بجانبہ
لا ينكران عليھا ما اغانيہا
حتى اذا لاح عن بعد لھا عمر
خارت قواھا وكاد الخوف يرديھا
و خبات دفھا فى ثوبھا فرقا
منہ ووّدت لون الارض تطوّيہا
قد كان علم رسول(ص) الله يؤنسہا
فجاء بطش ابى حفص يخشيہا
فقال مھبط وحى الله مبتسما
و فى ابتسامتہ معنى يواسيھا
قد فر شيطانہا لما راى عمرا
ان الشياطين تخشى باس مخزيہا
--------------------------------------------------------------------------------
1_ نہج الحق (دلائل الصدق كے ضمن ميں) ج1 ص 402 از غزالي_
2_ مسند احمد ج3 ص 449_
3_ مسند احمد ج4 ص 353 _ 354 اس سے حضرت عمر كى ہيبت كى نفى ليكن حضرت عثمان كا رعب ثابت ہوتاہے _ مترجم
386
اس نے اپنے بچوں تك كو كھيلوں كے مقامات پر ڈرايا_ اور گانے واليوں پر اور لہو و لعب كى جگہوں پر دہشت طارى كرادي_
كيا تونے اس عورت كا ذكر سنا ہے جس نے خدا كى خوشنودى كيلئے رسول(ص) كو ايك گيت سنانے كى نذر كى تھي_
اس عورت نے كہا ميں نے نذر كى تھى كہ اگر پيغمبر(ص) جنگ سے واپس آئے تو ميں دف بجا كر گاؤں گي_
وہ كنيز رسول(ص) الله كے پاس گئي جبكہ آپ(ص) كے نور نے پورى وادى كو منور كر ركھا تھا_
اس نے اجازت لى اور دف لےكرچلى پھر اپنى طربناك آواز كا جادو جگانا شروع كيا_
مصطفى اور ابوبكر اسكے پاس بيٹھے ہوئے تھے انہوں نے اس كو گانے سے منع نہ كيا_
يہاں تك كہ جب اسے دور سے عمر نظر آيا تو اس كى قوت ماند پڑنے لگى اور قريب تھا كہ خوف سے ہلاك ہوجاتي_
اس نے ڈر كے مارے اپنى ڈفلى كپڑے كے اندر چھپالى اور يہ تمنا كى كہ كاش زمين اس كو اپنے اندر چھپا ليتي_
رسول(ص) خدااپنى دانش كى بنا پر اس كے مونس تھے ليكن ابوحفضہ (عمر) كى سخت گيرى نے اسے وحشت زدہ كرديا_
وحى كے جائے نزول (رسول(ص) خدا) نے مسكرا كر فرمايا اور آپ (ص) كى مسكراہٹ ميں اس كيلئے تسلى كا سامان تھا_
اس كنيز پر مسلط شيطان نے جب عمر كو ديكھا تو بھاگ گيا_ شياطين اپنے كو ذليل كرنے والى طاقت سے ڈرتے ہيں_
يہ وہ قابل ذكر دلائل تھے جن كے ذريعے ان لوگوں نے گانے بجانے كى حليت پر استدلال كيا ہے
387
ہمارے خيال ميں يہ سارى باتيں ان كے مدعا كو ثابت كرنے كيلئے كسى كام بھى نہيں آسكتيں_
حليت غنا كے دلائل كا جواب
اگر ہم مذكورہ احاديث كے ضعف كو بيان كرنا چاہيں تو ضرورى ہے كہ ان كے اسناد سے چشم پوشى كريں وگرنہ بات لمبى ہوجائيگى اور ممكن ہے كچھ لوگ يہ سوچتے ہوں كہ صحاح ستہ ميں موجود اسناد پر تنقيد كرنے كا كسى كو حق حاصل نہيں، خاص كر بخارى اور مسلم ميں جبكہ گذشتہ احاديث ميں سے بعض ان كتب ميں موجود ہيں_
ہمارے نزديك اگرچہ يہ خيال باطل ہے_ اس موضوع پر علماء خاص كر شيخ محمود ابوريہ نے اپنى كتاب ''اضواء على السنة المحمديہ'' ميں اور اسى طرح ديگر افراد نے بھى گفتگو كى ہے(1) ليكن اس كے باوجود ہم ان احاديث كى اسناد سے بحث نہيں كرتے (تا كہ ان لوگوں كى دلجوئي ہو اور ان كے جذبات كا احترام عمل ميں آئے) بلكہ ان احاديث كے متن سے بحث كرتے ہوئے درج ذيل عرائض پيش كرتے ہيں:
(الف): مذكورہ روايات ميں سے بعض كے متون ميں زبردست اختلاف ہے خاص كر روايت نمبر2 اور روايت نمبر4 جو صحيح بخارى وصحيح مسلم اور ديگر كتب سے مروى ہيں_
(ب): يہ روايات غنا كى حرمت پر دلالت كرتى ہيں نہ كہ اس كى حليت پر، بطور مثال: _
1_روايت نمبر2 ميں حضور كا فرمان ''ان الشيطان ليخاف او ليفرق منك يا عمر'' (اے عمر شيطان تجھ سے ڈرتا ہے) گانے بجانے كى حرمت پر دلالت كرتا ہے_ كيونكہ اگر غنا (گانا بجانا) حلال ہوتا (خاص كر نذر كى صورت ميں) تو يہ بات درست نہ ہوتى كہ رسول(ص) الله اس عمل كى مذمت كرتے اور اسے شيطانى عمل قرار ديتے_
2_ روايت نمبر 3 بھى عائشه كى طرف سے اعتراض اور رسول(ص) الله كى جانب سے جواب كے پيش نظر حرمت پر دلالت كر رہى ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ملاحظہ ہو: اضواء على السنتہ المحمديہ ، العتب الجميل اور الغدير و غيرہ_
388
3_چوتھى روايت ميں اسے شيطانى بانسرى قرار ديا گيا ہے جس كا مطلب يہ ہے كہ وہ عمل حرام اور ناپسنديدہ تھا بنابريں يہاں سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ رسول(ص) خدا كيونكر ايسے امر كے مرتكب ہوئے؟
روزبہان نے اس كا يہ جواب ديا ہے كہ آپ(ص) نے حكم خدا سمجھانے كيلئے ايسا كيا_
ليكن يہ بات درست نہيں كيونكہ اگر آپ (ص) زبانى طور پر حكم خدا بتاديتے تو كافى بھى ہوتا اور آسان بھي_ علاوہ اس كے اگر مذكورہ بات درست ہوتى تو آپ (ص) عام لوگوں كے سامنے يہ كام انجام ديتے نہ كہ اپنے گھر ميں بيٹھ كر اكيلے ہى سنتے_ پھر جو عمل عقلاء كے نزديك شيطانى بانسرى قرار پائے وہ كيسے حلال ہوسكتا ہے؟
4_ پانچويں روايت كى رو سے حضور(ص) نے فرمايا:'' ميں شياطين جن وانس كو عمر كے خوف سے بھاگتے ديكھ رہا ہوں''_ پس جب يہ كام شيطانوں كے جمع ہونے كا باعث ہو تو پھر اسے حرام ہونا چاہي ے نہ كہ حلال_
5_ آٹھويں روايت ميں مذكور ہے كہ رسول(ص) الله نے فرمايا: ''يہ شخص فضوليات سننے كو ترجيح نہيں ديتا''ياد رہے كہ جو كام حلال يا مكروہ ہو وہ باطل و فضول نہيں كہلايا جاسكتا_
6_ آخرى روايت ميں رسول(ص) الله نے مغنيہ كے بارے ميں فرمايا:''شيطان نے اس كى ناك كے دونوں سوراخوں ميں پھونكا ہے''_ يہ بات بھى حرمت پر دلالت كرتى ہے_
(ج): ہم يہ سوال كرنا ضرورى سمجھتے ہيں كہ يہ كيسا شيطان تھا جو عمر سے خوف كھاتا تھا ليكن رسول(ص) الله سے نہيں؟ نيز جس كام كے بارے ميں شيطان عمر سے ڈرے اس عمل كى نذر كيسے درست ہوسكتى ہے؟ جبكہ نذر ميں يہ شرط ہے كہ جس چيز كى نذر كى جارہى ہے وہ خدا كى اطاعت اور پسنديدہ عمل محسوب ہو يا كم از كم نا پسنديدہ چيز نہ ہو جيساكہ بيہقى اور ترمذى جيسى حديث كى كتابوں ميں نذرسے متعلقہ ابواب كا مطالعہ كرنے سے يہ بات واضح ہوتى ہے_
يہ كيسے ہوسكتا ہے كہ رسول(ص) خداتو فضول اور باطل باتيں سننے كو ترجيح ديں ليكن حضرت عمر فضوليات سے پرہيز كريں؟ يہاں پر حضرت عمر رسول(ص) الله سے بھى زيادہ با اصول كيسے بن گئے_؟
نيز يہ كيونكر ممكن ہے كہ شيطان تو اس مغنيہ كى ناك ميں پھونكے ليكن دوسرى طرف سے رسول(ص) الله عائشہ كو
389
اس كے گيت سننے كى دعوت ديں؟ كيا كوئي بھى صاحب عقل شخص اس قسم كے متضاد اعمال بجالا سكتا ہے؟ چہ جائيكہ معصوم پيغمبر(ص) كى طرف اس كى نسبت دى جائے_
علاوہ برآن يہ كيسے معقول ہے كہ رسول(ص) خدا اپنے بعض اعمال كو بعض لوگوں (عمر) سے چھپائيں اور اس عمل سے اس شخص كے باخبر ہونے كو اپنے لئے باعث ہتك حرمت سمجھيں ليكن كچھ لوگوں سے اس كو نہ چھپائيں؟ كيا يہ اس بات كى دليل نہيں كہ وہ عمل، قبيح يا كم از كم غير پسنديدہ اور نا مناسب تھا؟
ايك روايت ميں ہم ديكھتے ہيں كہ حضرت ابوبكر گانے بجانے سے منع كرتے ہيں ليكن دوسرى روايت ميں مشاہدہ كرتے ہيں كہ وہ ايسا نہيں كرتے بلكہ عمر اس امر سے منع كرتے ہيں_
(د): آپ (ص) عائشه كو حبشيوں كا رقص ديكھنے كى دعوت كيسے دے سكتے ہيں جبكہ آپ (ص) كا چہرہ ان كے چہرے سے ملاہواہو؟ اور ساتھ ہى ان لوگوں كى حوصلہ افزائي كيلئے يہ بھى كہہ رہے ہوں:'' اے بنى ارفدہ اپنا خيال ركھنا ''_ (1) كيا يہ آنحضرت(ص) كى حيا (جو معروف ہے )كے منافى نہيں ؟ يہاں تك كہ روايات كے مطابق آپ (ص) پردہ نشين دوشيزاؤں سے بھى زيادہ باحيا تھے_ كيا مذكورہ عمل اس شخص كو زيب ديتا ہے جو حيا كو ايمان كا حصہ سمجھتا ہو اور جس كى مسكراہٹ ہى اس كا خندہ تھي؟ كيا يہ عمل اس بات كے ساتھ ہم آہنگ ہے كہ آپ(ص) اپنى زوجات كو اندھے كى طرف ديكھنے سے منع فرماتے تھے؟ چنانچہ آپ نے اپنى دو بيويوں سے فرماياتھا:'' كيا تم دونوں بھى اندھى ہو اور اس كو نہيں ديكھ رہى ہو؟'' (2)
(ھ): دف بجانے اور بدر كے مقتولين پر رونے كے درميان كونسى مناسبت ہے؟ نيز كيا نبى كريم(ص) كا سكوت (اگر فى الواقع آپ (ص) ساكت رہے ہوں) آپ(ص) كى رضا مندى پر دلالت كرتا ہے؟ خاص كر ان حالات ميں كہ ان كاموں سے منع كرنے كيلئے تدريجى طريقہ كار كى ضرورت ہو_
اگر كوئي يہ كہے كہ مذكورہ افعال كے مرتكب افراد آپ كے احكام كى اطاعت كرتے تھے تو اس كا جواب يہ ہے كہ ان كا تو مسلمان ہونا بھى ثابت نہيں ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ بخارى مطبوعہ ميمنيہ ج 1 ص 111 _
2_ رجوع ہو بطرف مسند احمد ج 6 ص 296 و طبقات ابن سعد و مصابيح بغوى مطبوعہ دار المعرفہ ج2 ص 408 ، الجامع الصحيح ج5 ص 102 اور سنن ابوداؤد ج4 ص 63 ، 64_
390
(و): چھٹى اور آخرى عرض يہ كہ گانے بجانے كى حرمت پر بہت سارى روايات صريح انداز ميں دلالت كرتى ہيں_ يہ روايات يقينى طور پر متواتر ہيں_يہاں ہم ان روايات ميں سے درج ذيل روايتوں كے ذكر پر اكتفا كرتے ہيں_
1_ آنحضرت(ص) سے مروى ہے ''ميرى امت ميں ضرور ايسے لوگ پيدا ہوں گے جو شراب، ريشم اور معازف (بينڈباجوں) كو حلال سمجھيں گے''_ (1)
2_ حضرت انس سے مروى مرفوع حديث (وہ حديث جس كے راويوں كا ذكرنہ ہو) ميں مذكور ہے ''دو آوازيں لعنت اور گناہ كا باعث ہيں ان دونوں سے منع كرتا ہوں ايك بانسرى كى آواز اور دوسرى طرب انگيز نغمے يا مصيبت كے وقت شيطانى آواز''_
عبدالرحمان بن عوف سے مروى ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا:'' ميں نے دو احمقانہ اور گناہ آلود آوازوں سے منع كيا ہے ايك لہو ولعب والے نغمے اور شيطانى بانسريوں كى آواز سے اوردوسرى مصيبت كے وقت نكالى جانے والى آواز سے'' حسن سے بھى اسى قسم كے الفاظ نقل ہوئے ہيں_ (2)
3_عمر بن خطاب سے مروى ہے'' گانے والى كنيز كى مزدورى حرام ہے اس كا گانا حرام ہے اس كى طرف ديكھنا بھى حرام ہے اس كى قيمت كتے كى قيمت جيسى ہے اوركتے كى قيمت حرام ہے''_ (3)
4_ ابن عباس سے منقول ہے'' دف بجانا حرام ہے، باجے حرام ہيں، ڈگڈگى (يا ڈھولكي) حرام ہے اور بانسرى بھى حرام ہے''_ (4)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سنن بيہقى ج 10 ص 221 اور صحيح بخارى و الغدير ج 18 ص 70 از بخارى از تفسير آلوسى ج 21 ص 76 مولف كا كہنا ہے كہ اسے احمد، ابن ماجہ و ابونعيم اور ابوداؤد نے اپنى صحيح سندوں كے ساتھ نقل كيا ہے كسى نے اس پر اشكال نہيں كيا بعض لوگوں نے تو اس كو صحيح قرار ديا ہے_
2_ المصنف ج 11 ص 6 و نيل الاوطار ج 8 ص 268 و تفسير شوكانى ج 4 ص 236 و الدر المنثور ج 5 ص 160 والغدير ج 8 ص 69 جس نے مذكورہ مآخذ سے سوائے پہلے ماخذ كے نقل كيا_ نيز از كنز العمال ج 7 ص 333 نقد العلم و العلماء (ابن جوزي) ص 248 و تفسير قرطبى ج 14 ص 530 _
3_ نيل الاوطار ج 8 ص 264 و ارشاد السارى ج 9 ص 163 اور الغدير ج 8 ص 69_70 از طبرانى و ارشاد الساري_
4_ سنن بيہقى ج 10 ص 222 _
391
5_ ابن عباس، انس اور ابوامامہ سے ايك حديث مرفوع نقل ہوئي ہے كہ آپ(ص) نے فرمايا:'' اس امت كے اوپر زمين ميں دھنسنے ،پتھر برسنے اور مسخ ہونے كى بلائيں نازل ہوں گي_ يہ اس وقت ہوگا جب لوگ شراب پئيں گے، گانے واليوں سے استفادہ كريں گے اور باجے بجائيں گے''_ (1)
6_ انس اور ابوامامہ سے مروى حديث مرفوع كہتى ہے ''الله نے مجھے كائنات كيلئے باعث رحمت بناكر، نيز باجوں بانسريوں اور ايام جاہليت كے آثار كو مٹانے كيلئے بھيجا ہے''_ (2)
7_ابوہريرہ سے مروى حديث مرفوع ميں مذكور ہے ''آخرى زمانے ميں كچھ لوگ بندروں اور سوروں كى شكل ميں مسخ ہوجائيں گے''_ لوگوں نے اس كى علت پوچھى تو فرمايا:'' وہ باجوں، ڈھولكيوں اور گانے واليوں سے سروكار ركھيں گے''_
اس قسم كى بات عبدالرحمان بن سابط، غازى بن ربيعہ، صالح بن خالد، انس بن ابى امامہ اور عمران بن حصين سے بھى مروى ہے_ (3)
8_ ترمذى نے حضرت علي(ع) سے (بطريق مرفوع)حديث رسول (ص) نقل كيا ہے كہ جب ميرى امت پندرہ چيزوں ميں مبتلا ہوگى تو اس پر بلائيں نازل ہوں گى (ان كے ذكر ميں فرمايا) جب وہ گانے واليوں اور باجوں سے بھى سروكار ركھيں گے_
يہى بات ابوہريرہ سے بھى مروى ہے_ (4)
9_ صفوان بن اميہ سے منقول ہے كہ ہم رسول(ص) الله كے پاس تھے اتنے ميں عمر بن قرہ آيا اور عرض كيا:
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الدر المنثور ج 2 ص 324 وا لغدير ج 8 ص 70 از در منثور و از تفسير آلوسى ج 21 ص 76 اسے طبراني، احمد اورابن ابى الدنيانے نقل كيا ہے_
2_ جامع بيان العلم ج 1 ص 153 و نيل الاوطار ج 8 ص 262 و در منثور ج 2 ص 324 و الغدير ج 8 ص 70_71 مذكورہ مآخذ سے _
3_ الدر المنثور ج 2 ص 324 اسے ابن ابى دنيا، ابن ابى شيبہ، ابن عدي، حاكم، بيہقي، داود اور ابن ماجہ نے بھى نقل كيا ہے نيز رجوع ہو المدخل ج 3 ص 105 و الغدير ج 8 ص 71 _
4_ نيل الاوطار ج 8 ص 263 و المدخل ج 3 ص 105 و الغدير ج 8 ص 71 از المدخل ونقد العلم و العلماء (ابن جوزي) ص 249 و تفسير قرطبى ج 14 ص 53 _
392
''اے الله كے رسول(ص) خدانے ميرى قسمت ميں شقاوت لكھ دى ہے اسى لئے ميں روزى كما نہيں سكتا مگر اپنے ہاتھوں سے ڈھولكى بجاكر_ بنابريں مجھے اجازت ديجئے كہ ميں بے حيائي والے كا موں سے ہٹ كر گانے بجانے كا كام كروں''_آپ(ص) نے فرمايا: ''ميں تجھے اجازت نہيں ديتا_ اس كام ميں نہ عزت ہے نہ شرافت_ اے دشمن خدا تم جھوٹ بولتے ہو_ الله نے تجھے پاكيزہ روزى عطا كى ہے ليكن تونے رزق حلال كاراستہ چھوڑ كرحرام روزى كى راہ اپنائي ہے_ خبر دار جو دوبارہ يہ بات كہى تو ميں تجھے المناك سزا دوںگا''_(1)
حلبى نے اس روايت پر يوں تبصرہ كيا ہے:'' مگر يہ كہاجائے كہ يہ نہى (بشرطيكہ صحيح ہو) اس شخص كيلئے ہے جو ڈھولكى بجانے كو پيشہ بنالے_ اس صورت ميں يہ عمل مكروہ ہے_ رہا آپ(ص) كا يہ فرمانا كہ''تم نے راہ حرام كو اختيار كيا'' تو يہ جملہ اس كام كى قباحت كو بيان كرنے ميں مبالغہ آرائي كيلئے ہے''_(2)
ليكن حلبى يہ بھول گئے كہ اگر اس كام كو پيشہ بنانا فقط مكروہ ہوتا تو پھر آپ(ص) اس كو المناك سزا دينے كى دھمكى كيوں ديتے؟ اور اسے دشمن خدا كيوں قرار ديتے؟
اس كے علاوہ آنحضرت(ص) كا حرام كو ''طيب'' (پاكيزہ وحلال) كے مقابلے ميں ذكر كرنا اس بات كى دليل ہے كہ حرام سے مراد وہى ''خبيث'' ہے جو قرآن كى اس صريح آيت كے مطابق حرام قرار دى گئي ہے (ويحل لھم الطيبات ويحرم عليھم الخبائث) (3) يعنى وہ پاكيزہ چيزوں كو ان كيلئے حلال اور ناپاك چيزوں كو ان پر حرام قرار ديتا ہے_
10_ابوامامہ سے مروى ہے گانے واليوں كو نہ بيچو اور نہ ہى خريدو، اور نہ ان كو تعليم دو، ان كى تجارت ميں كوئي خوبى نہيں_ ان كى قيمت حرام ہے اس قسم كے امور كے بارے ميںيہ آيت نازل كى گئي ہے (ومن الناس من يشترى ...) (4)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ السيرة الحلبية ج 2 ص 63 از ابن ابى شيبہ_
2_ السيرة الحلبية ج 2 ص 62 _
3_ سورہ اعراف آيت 157_
4_سورہ لقمان، آيت 6_
393
ايك اور عبارت ميںآيا ہے ''گانے واليوں كو تعليم دينا جائز نہيں اور نہ ہى ان كو بيچنا_ ان كى قيمتيں حرام ہيں_ قرآن كى يہ(مذكورہ) آيت اسى قسم كى چيزوں كے بارے ميں نازل ہوئي ہے ...''_ (1)
11_ عائشه سے مروى ايك حديث مرفوع كہتى ہے'' خدائے تعالى نے گانے والى كنيزوں، ان كى خريدوفروخت اور قيمت كو حرام قرار ديا ہے _نيز ان كو تعليم دينا اور ان كو سننا بھى حرام ہے''_ پھرآپ (ص) نے يہ آيت پڑھى (ومن الناس من يشترى لھوالحديث) (2)
12_ابن مسعود سے خدا كے اس قول (ومن الناس من يشترى لہوالحديث) كے بارے ميں سوال ہوا تو جواب ديا:'' الله كى قسم، اس سے مراد غنا (گانا بجانا) ہے''_ ايك اور عبارت يوں كہتى ہے ''والله اس سے مراد غنا ہے قسم ہے اس الله كى جس كے علاوہ كوئي معبود نہيں'' _ اور اس كو تين بار دہرايا_
جابر سے اس آيت كے بارے ميں مروى ہے كہ اس سے مراد غنا اور اس كا سننا ہے_
علاوہ ان كے ابن عباس ابن عمر، عكرمہ، سعيد بن جبير، مجاہد، مكحول، عمرو بن شعيب، ميمون بن مہران، قتادہ، نخعي، عطائ، على ابن بذيمہ، اور حسن نے بھى اس آيت كا مقصود غنا ہى كو قرار ديا ہے_(3)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ نيل الاوطار ج 8 ص 263 و تفسير شوكانى ج ص 234 و در منثور ج 5 ص 159 و تفسير ابن كثير ج 3 ص 442 و ارشاد السارى ج 9 ص 163 و المدخل (ابن حاج) ج 3 ص 104 و تفسير طبرى ج 21 ص 39 و الغدير ج 8 ص 67 (مذكورہ مآخذ) اور تفسير قرطبى ج 14 ص 51 و نقد العلم و العلماء ص 247 و تفسير الخازن ج 3 ص 36 و تفسير آلوسى ج 21 ص 68 و ترمذى كتاب 12 باب 51 سے ماخوذ _انہوں نے يہ بھى نقل كيا ہے كہ درج ذيل محدثين نے بھى اس كو نقل كيا ہے_ سعيد بن منصور، احمد، ابن ماجة، ابن منذر، ابن ابى حاتم، ابن ابى شيبة ، ابن مردويہ ،طبرانى و ابن ابى دنيا_
2_ الدرالمنثور ج 4 ص 228 و الغدير ج 8 ص 67 از در منثور از تفسير آلوسى ج 21 ص 68 _
3_ سنن بيہقى ج 10 ص 122 و 223 و 225 و مستدرك الحاكم ج 2 ص 411 و تفسير طبرى ج 21 ص 39_40 و المدخل (ابن حاج) ج 3 ص 104 و تفسير ابن كثير ج 3 ص 441 و ارشاد السارى ج 9 ص 163 و در منثور ج 5 ص 159_160 و فتح القدير ج 4 ص 34 و نيل الاوطار ج 8 ص 163 و الغدير ج 8 ص 68 مذكورہ مآخذ سے نيز تفسير قرطبى ج14 ص 51_53 و نقد العلم و العلماء ص 246 و تفسير الخازن ج 3 ص 46 نيز اس كے حاشيے پر تفسير نسفى ج 3 ص 460 و تفسير آلوسى ج 21 ص 67 وغيرہ سے نيز اسے نقل كيا ہے ابن ابى دنيا، ابن ابى شيبہ، ابن المنذر، بيہقى (شعب ايمان ميں) ابن ابى حاتم، ابن مردويہ و فاريابى اور ابن عساكر نے _
394
13_ابليس سے خدا كے خطاب (واستفززمن استطعت منہم بصوتك) (1) (يعنى تو جس جس كو اپنى آواز سے پھسلاسكتا ہے پھسلا لے) كے متعلق_ ابن عباس اورمجاہد كہتے ہيں كہ اس سے مراد غنا، بانسرى اور لہو ہے_ (2)
14_حسن بصرى نے يزيد كى برائياں گنتے ہوئے كہا ہے ''وہ اكثر اوقات نشے اور شراب نوشى ميں مبتلا رہتا تھا، ريشم پہنتا تھا اور طنبورے (ستار) بجاتا تھا''_ (3)
اہل مدينہ يزيد كى جن باتوں كى مذمت كرتے تھے ان ميں يہ باتيں بھى شامل تھيں كہ وہ شراب پيتا ہے، طنبور بجاتا ہے، گانے والے اس كے پاس سازبجاتے رہتے ہيں_ (4)
15_ابن عباس نے قول خدا ''و انتم سامدون'' كے بارے ميں كہا ہے كہ سامدون سے مراد حميريوں كے لہجے ميں گانا ہے_ (5)
16_ جابر نے رسول(ص) خدا سے نقل كيا ہے كہ ابليس ہى سب سے پہلے رويا دھويا اور سب سے پہلے غنا كا مرتكب ہوا_ (6)
17_حضرت على (ع) نے رسول(ص) خدا سے نقل كيا ہے كہ گانے بجانے والے مرد اور عورت كى كمائي حرام ہے_ زنا كرنے والى عورت كى آمدنى حرام ہے اور خدا كا حق ہے كہ وہ حرام سے اگنے والے گوشت كو جنت ميں داخل نہ كرے_ (7)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ اسراء آيت 64 _
2_ فتح القدير ج 3 ص 241 و تفسير طبرى ج 15 ص 81 تفسير ابن كثير ج 3 ص 49، الغدير ج 8 ص 89 ان سے اور تفسير قرطبى ج 10 ص 288 سے و نقد العلم و العلماء ص 247 و تفسيرالخازن ج 3 ص 178 اور اس كے حاشيے ميں تفسير نسفى ج 3 ص 178 و تفسير ابن جزى كلبى ج 2 ص 175 و تفسير آلوسى ج 15 ص 111 _
3_ الغدير ج 10 ص 225 از تاريخ ابن عساكر ج 5 ص 412 و تاريخ طبرى ج 6 ص 157 و تاريخ ابن اثير ج 4 ص 209 و البداية و النہاية ج 8 ص 130 و محاضرات الراغب ج 2 ص 214 و النجوم الزہرة ج 1 ص 141 _
4_ الغدير ج 10 ص 255 از تاريخ طبرى ج 7 ص 4 و الكامل ابن اثير ج 4 ص 45 و البداية و النہاية ج 8 ص 216 و فتح البارى ج 13 ص 59 _
5،6،7_ المدخل (ابن حاج) ج 3 ص 104_107 _
395
18_حضرت على (ع) نے روايت كى ہے كہ نبى اكرم(ص) نے دف بجانے، طبل بجانے اور بانسرى بجانے سے منع فرمايا ہے_ (1)
يہاں ہم نے جتنا عرض كيا كافى معلوم ہوتا ہے جو حضرات مزيد تحقيق كے خواہشمند ہوں وہ ان مآخذ كى طرف رجوع كريں جن كا ہم نے حاشيے ميں ذكر كيا ہے_ (2)
غنا كے بارے ميں علماء كے نظريات
الغدير ميں مذكور ہے كہ حنفيوں كے امام نے غنا كو حرام قرار ديا ہے_ يہى حكم كوفہ كے علماء (يعنى سفيان، حماد، ابراہيم، شعبى اور عكرمہ) كا بھى ہے_
مالك نے بھى غنا سے منع كيا ہے اور اسے ان عيوب ميں شمار كيا ہے جس سے عيب كى حامل كنيز كا سودا فسخ ہوسكتا ہے_ يہى نظريہ سارے اہل مدينہ كا ہے سوائے ابراہيم بن سعد كے_
حنبليوں كى ايك جماعت سے بھى حرمت كا قول نقل ہوا ہے_ عبدالله بن احمد بن حنبل سے مروى ہے كہ اس نے اپنے باپ سے غنا كے بارے ميں سوال كيا تو جواب ملا''غنا دلوں ميں نفاق پيدا كرتا ہے مجھے يہ
--------------------------------------------------------------------------------
1_ المدخل (ابن حاج) ج 3 ص 104_107
2_ ابن الحاج كى كتاب المدخل ج 3 ص 96 سے 115 تك و تفسير طبرى ج 28 ص 48 و نيل الاوطار ج 8 ص 264 و 263 و سنن بيہقى ج 10 ص 222 و فتح القدير ج 4 ص 228 و ج 5 ص 115 و تفسير ابن كثير ج 2 ص 96 و ج 6 ص 260 و الفائق زمخشرى ج 1 ص 305 و الدر المنثور ج 2 ص 317_324 و ج 5 ص 159 و الغدير 8 ص 64 اور اس سے آگے (مذكورہ مآخذ سے) نيز قرطبى ج 7 ص 122 و ج 14 ص 53_54 و الكشاف ج 2 ص 211 و تفسير آلوسى ج 7 ص 72 و ج 21 ص 68 و ارشاد السارى ج 9 ص 164 و بہجة النفوس (ابن ابى حجرہ) ج 2 ص 74 و تاريخ البخارى ج 4 حصہ اول ص 234 و نقد العلم و العلماء ص 246 و 248 و نہاية ابن اثير ج 2 ص 95 و تفسير خازن ج 3 ص 460 و ج 4 ص 212 و نسفى (اس كتاب كے حاشيے پر) ج 3 ص 460 سے نيز اسے نقل كيا ہے سعيد بن منصور، عبد بن حميد، عبدالرزاق، فريابي، ابوعبيد، ابن ابى الدنيا، ابن مردويہ، ابوالشيخ، بزار، ابن منذر، ابن ابى حاتم اور بيہقى نے_ رہا ابن زبير كا يہ قول كہ ميں نے مہاجرينتمام كو ترنم كے ساتھ گاتے سنا ہے اس كے متعلق ملاحظہ ہو: المصنف ج1 ص 5 ، 6 نيز سنن بيہقى ج10 ص 225_ تو اس سے مراد غنا نہيں بلكہ ترنم كے ساتھ شعر پڑھنا ہے جيساكہ ابن الحاج نے ج 3 ص 98 و 108 ميں ذكر كيا ہے_
396
ناپسندہے'' پھر مالك كا يہ قول نقل كيا كہ اسے فقط فاسق لوگ انجام ديتے ہيں_
مزنى جيسے مذہب شافعى سے آگاہ شافعيوں كے بارے ميں نقل ہوا ہے كہ وہ حرمت كے قائل تھے_ ان لوگوں نے حليت كے قائل افراد پر اعتراض كيا ہے مثلاً قاضى ابوطيب نے غنا كى مذمت اور ممانعت كے موضوع پر ايك كتاب تصنيف كى ہے_ ابوبكر طرطوشى نے بھى غناپر ايك كتاب لكھى ہے_ طبرى كے علاوہ شيخ ابواسحاق نے'' التنبيہ'' نامى كتاب ميں اسے حرام قرار ديا ہے_ محاسبي، نحاس اور قفال نے اسے صريحاً حرام قرار ديا ہے_ نيز قاسم بن محمد، ضحاك، وليد بن يزيد، عمر بن عبدالعزيز اور ديگر بے شمار علماء نے اس سے منع كيا ہے_
ابن صلاح نے نقل كيا ہے كہ مسلمانوں كے اہل حل وعقد كا اس كى حرمت پر اتفاق ہے_
طبرى نے كہا ہے كہ مختلف شہروں كے رہنے والے اس كى كراہت اور ممنوعيت پر متفق الخيال ہيں سوائے ابراہيم ابن سعد اور عبدالله عنبرى كے، مذكورہ باتوں كيلئے رجوع ہو الغدير ج 8 ص 72_74 اور المدخل (از ابن الحاج) ج 3 صفحہ 96 تا 115 كے طرف_ اس ميں مزيد باتيں بھى درج ہيں جن كا ہم نے اختصار كى وجہ سے ذكر نہيں كيا_ جو مزيد جستجو كا طالب ہو وہ اس كى طرف رجوع كرے_
غنا اہل كتاب كے نزديك
چونكہ غنا كا اسلامى تعليمات سے كوئي رابطہ نہيں اس لئے يہ سوال ضرورى معلوم ہوتا ہے كہ يہ مسئلہ كہاں سے بعض مسلمانوں كے ذہنوں ميں داخل ہوا يہاں تك كہ وہ اس كى حليت اور اس پر مداومت كى تاكيد كرنے لگ گئے؟ بلكہ بات يہاں تك پہنچى كہ يہ مسئلہ صوفيوں كى امتيازى علامت بن گيا جيساكہ سب كو معلوم ہے_ اس كا جواب يہ ہے كہ مسلمانوں نے اس كو اہل كتاب سے اخذكيا ہے_
چنانچہ ابن كثيرعمران كى بہن مريم ( حضرت موسى (ع) كے دور ميں زندگى بسر كرتى تھي) كے بارے ميں گفتگو كرتے ہوئے كہتا ہے:''مريم كا اس دن جو كہ ان كے نزديك سب سے بڑى عيد كا دن تھا دف بجانا اس
397
بات كى دليل ہے كہ عيد كے دن دف بجانا ہمارے دين سے پہلے جائز تھا''_ (1)
اس كے بعد ابن كثير نے مريم والى اس روايت سے استنباط كرتے ہوئے عيدوں اور مسافروں كى واپسى كے مواقع پر جواز كا فتوى ديا ہے_
جعل سازى كا راز
پيغمبر(ص) اسلام اور اسلام كى طرف مذكورہ باتوں كى نسبت دينے كى وجہ درج ذيل امور ہوسكتے ہيں_
1_ حضرت عائشه اور حضرت عمر غنا اور موسيقى كو پسند كرتے اور سنتے تھے_
حضرت عائشه كے بارے ميں تو بخارى وغيرہ نے نقل كيا ہے كہ وہ اس كام كى حوصلہ افزائي كرتى اور كہتى تھيں ''فاقدروا قدر الجارية الحديثة السن، الحريصة على اللھو'' (2) يعنى اس نوجوان لونڈى كى قدر كرو جو گانے كى شوقين ہو_
نيز انہوں نے ايك گويّے (مرد) كو اجازت دى كہ وہ بعض كمسن لونڈيوں كيلئے گائے البتہ بعد ميں انہوں نے اس كو نكال دينے كا حكم ديا تھا_ (3)
ادھر خليفہ ثانى عمر بن خطاب كے بارے ميں ابن منظور نے كہا ہے ''بتحقيق عمرنے باديہ نشينوں كے غنا كى اجازت دى تھي''_ (4)
خواّت بن جبير نے حضرت عمرسے گانے كى اجازت طلب كى تو انہوں نے اجازت دي_ چنانچہ خواّت نے گانا شروع كيا اور حضرت عمر نے كہا:'' آفرين اے خوات، آفرين اے خوات''_ (5)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ البداية و النہاية ج 1 ص 276_
2_ عبد الرزاق كى كتاب المصنف ج 10 ص 465 صحيح بخارى مطبوعہ مشكول ج 9 ص 223 و 270 و حيات الصحابة ج 2 ص 761 از مشكاہ ص 372 از شيخين (بخارى و مسلم) و دلائل الصدق ج 1 ص 393 _
3_ سنن بيہقى ج 10 ص 224 _
4_ لسان العرب ج 15 ص 137 لفظ غنا كى بحث ميں _
5_ الغدير ج 8 ص 79 از كنز العمال ج 7 ص 335 _
398
نيز انہوں نے يہ بات سنى كہ رباح بن مغترف گاتا ہے چنانچہ انہوں نے اس كى تحقيق كى تو لوگوں نے اس كے بارے ميں اطلاع دي، حضرت عمر بولے :''اگر تم يہ كام كرنا چاہتے ہو تو تمہيں چاہيئے كہ ضرار بن خطاب كے اشعار پر توجہ دو''_ قريب قريب يہى بات خوات كے ساتھ بھى كہي_(1)
علاء بن زياد سے مروى ہے كہ عمر اپنے راستے پر جا رہے تھے اس دوران انہوں نے كچھ گايا پھر كہا كہ''جب ميں نے گايا تو تم لوگوں نے مجھے كيوں نہيں ٹوكا؟''_ (2)
شوكانى اور عينى نے عمر اور عثمان كو ان لوگوں ميں سے قرار ديا ہے جنہوں نے غنا كو جائز قرار ديا ہے_ (3)
نيز حضرت عمرنے زيد بن سلم اور عاصم عمر سے دوبارہ گانے كيلئے كہا اور اظہار نظر بھى فرمايا جيساكہ ابن قتيبہ نے ذكر كيا ہے_ (4)
بنابريں گذشتہ روايات ميں سے اكثر ميں حضرت عمر كے ساتھ اس بات كى جعلى نسبت (كہ وہ رسول(ص) الله كے گھر ميں گانے واليوں كو منع كرتا تھا) دينے كى وجہ شايد يہ ہو كہ ان (عمر) كے بارے ميں معروف بات كو مشكوك بنا ديا جائے يا يہ كہ غنا سے ان كو جو واسطہ رہا تھا اس كى قباحت ميں كمى كى جاسكے كيونكہ جب لوگ يہ ديكھ ليں كہ رسول اعظم(ص) توخود غنا سنتے تھے، اپنے گھر ميں شيطانى آلات (بانسرى وغيرہ) ركھتے اور لہويات سننے سے شغف ركھتے تھے تو اس كے بعد كوئي اور شخص ان اعمال كا مرتكب ہوجائے تو اس ميں كوئي قباحت محسوس نہ ہو_
2_ مذكورہ روايات (جو غنا كى حليت كو ثابت كرنا چاہتى ہيں) كى اكثريت كا مقصد حضرت عائشه كے كردار كو بيان كرنا ہے يہاں تك كہ ان روايات كى رو سے جب وہ حبشيوں كا رقص ديكھ رہى تھيں تو رسول(ص) (ص) الله
--------------------------------------------------------------------------------
1_ نسب قريش (مصعب) ص 448 و سنن بيہقى ج 10 ص 224 و الغدير ج 8 ص 79 از سنن بيہقى واز استيعاب ج 1 ص 86 و 170 و از الاصابة ج 1 ص 502 و 457 و ج 8 ص 209 از كنز العمال ج 7 ص 335 و تاريخ ابن عساكر ج 7 ص 35 نيز الاصابہ ج2 ص 209_
2_ الغدير ج 8 ص 80 از كنز العمال ج 7 ص 335 _
3_ نيل الاوطار ج 8 ص 266 و الغدير ج 7 ص 78 از نيل الاوطار و از عمدة القارى در شرح صحيح بخارى ج 5 ص 160 _
4_ عيون الاخبار ج 1 ص 322 _
399
ان سے فرما رہے تھے كہ كياابھى تم سير نہيں ہوئي؟ اور وہ كہتى تھيں ''نہيں''_ تاكہ رسول(ص) الله كے نزديك اپنا مقام ديكھ ليں_ يہ امر اس بات كى نشاندہى كرتا ہے كہ ايك (خفيہ) ہاتھ اس كوشش ميں مصروف تھاكہ حضرت عائشه كيلئے فضائل تراشے اور يہ ثابت كرے كہ رسول(ص) الله ان كى پسند كا خيال ركھتے اور ان سے محبت كرتے تھے_ علاوہ بر اين ان روايات ميں اس بات كے واضح اشارے ملتے ہيں كہ ان ميں حضرت ابوبكر، حضرت عمر اور حضرت عثمان كيلئے فضائل ثابت كرنے نيز اسلام سے ان كے تمسك اور ان كى جانب سے اسلام كى حمايت كو بيان كرنے كى كوشش كى گئي ہے اگرچہ اس مقصد كے حصول كيلئے نبى كريم(ص) كى عزت وشرف اور آپ(ص) كى عفت وپاكيزگى كو داغدار بنانے كى ضرورت كيوں نہ پڑے_
3_ ہم امويوں اور عباسيوں كو بھى نبى اعظم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كے خلاف جھوٹى احاديث وضع كرنے كے عمل سے برى الذمہ قرار نہيں دے سكتے_ كيونكہ ان كے درميان ايسے لوگ موجود تھے جو ان كے ہر فعل كو شريعت اور قداست كا لباس پہنانے كى كوشش ميں رہتے تھے_چنانچہ غياث ابن ابراہيم اور ابوالبخترى كے ساتھ مہدى عباسى كا قصہ ہمارے سامنے ہے جب وہ مہدى كے پاس پہنچا تو اسے كبوتربازى ميں مشغول پايا_ اس نے يہ حديث بيان كى ''لاسبق الا فى خف او نصل او حافر'' يعنى شرط لگانا جائز نہيں مگر ٹاپوں والے حيوانات (مثلا اونٹ) كى دوڑ يا تير اندازى يا كھروں والے حيوانات (مثلا گھوڑے وغيرہ) كى دوڑ ميں پھر اپنى طرف سے اضافہ كرتے ہوئے كہا ''اوجناح'' (يعنى اڑنے والے پرندوں ميں بھى جائز ہے) تاكہ يوں مہدى كے شوق كى تسكين ہو_ چنانچہ مہدى نے اسے پيسوں كى ايك تھيلى ديئے جانے كا حكم ديا_ جب وہ نكل گيا تو مہدى نے كہا :''ميں گواہى ديتا ہوں كہ تيرى پشت ايك كذاب كى پشت ہے''_ (1)
ہم تاريخ وادب كى كتابوں ميں گانے بجانے اور لہو ولعب پر اموى اور عباسى خلفاء كى توجہ كے بارے ميں عجيب وغريب باتوں كا مشاہدہ كرتے ہيں_وہ گانے والوں كو دسيوں سينكڑوںبلكہ ہزاروں گنابڑے انعامات
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الاسرار المرفوعة فى الاخبار الموضوعة (مصنفہ قاري) ص 469 و اللئالى المصنوعة ج2 ص470 و الموضوعات (ابن جوزي) ج 1 ص 42 و لسان الميزان ج 4 ص 422 و ميزان الاعتدال ج 3 ص 338 والمجروحون ج1 ص 66 ، تاريخ الخلفاء ص 275 نيز المنار المنيف ص 107_
400
ديتے تھے_ (1) يہاں تك كہ اسحاق موصلى (جو موسيقى دانوں كا استاد تھا) نے كہا:'' اگرہادى زندہ رہتا تو ہم اپنےگھروں كى ديواريں سونے اور چاندى سے بناتے''_ (2)
رسول(ص) الله كا قبا ميں نزول
كہتے ہيں كہ اس پرشكوہ استقبال كے بعد رسول(ص) الله ، قبا كى جانب چلے اور قبيلہ عمرو بن طوف ميں كلثوم بن ہدم كے ہاں ٹھہرے_
اس دن حضرت ابوبكر نے آپ(ص) كے شہر ميں داخل ہونے پر بہت اصرار كيا ليكن آپ(ص) نے انكار فرمايا اور بتايا كہ جب تك آپ(ص) كے چچا كا بيٹا، آپ(ص) كا برادر دينى اور آپ(ص) كے گھرانے ميں آپ كے نزديك، سب سے عزيز ہستى (جس نے آپ(ص) كے بقول اپنى جان كے بدلے آپ(ص) كى جان بچائي تھي) نہ پہنچے آپ(ص) وہاں سے كوچ نہيں كريں گے_ يہ سن كر حضرت ابوبكر كى طبيعت ہى مكدر ہوگئي اور پيغمبر(ص) سے جدا ہو كراس رات شہر مدينہ ميں داخل ہوئے اور رسول(ص) خدا وہيں اميرالمومنين علي(ع) كے منتظر رہے يہاں تك كہ آپ(ص) فواطم (فاطمہ كى جمع _ يعنى فاطمہ زہرا(ع) ، فاطمہ بنت اسد اور فاطمہ بنت زبير بن عبدالمطلب )اور ام ايمن (3) كے ساتھ نيمہ ربيع الاول كو رسول(ص) الله كى خدمت ميں پہنچ گئے (4) اور آپ (ص) كے ساتھ كلثوم بن ہدم كے ہاں ٹھہرے_(5)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ ربيع الابرار ج 1 ص 675 جس ميں مذكور ہے كہ اس نے ابراہيم موصل كو بہترين موسيقى كے انعام ميں ايك لاكھ،درہم ديئے اس سلسلے ميں ابوالفرج نے اپنى كتاب الاغانى ميں جن موارد كا ذكر كيا ہے اس كا مطالعہ كافى ثابت ہوگا_
2_ حياة الامام الرضا السياسية (از مولف كتاب ہذا) ص 118 از الاغانى مطبوعہ دار الكتب قاھرہ ج 5 ص 163_
3_ البحار ج 19 ص 106 و 115،116 و 75،76 و 64 از روضة الكافى ص 340 و اعلام الورى ص 66 و الخرائج و الجرائح نيز رجوع ہو الفصول المھمة (ابن صباغ مالكى )ص 35 و امالى شيخ طوسى ج 2 ص 83_
4_ امتاع الاسماع ص 48 _
5_ البحار ج 19 و البداية و النہاية ج 3 ص 197 _
401
كچھ لوگوں كا خيال ہے كہ گھر والوں كے ساتھ آنے والے زيد بن حارثہ اور ابورافع تھے_ حلبى نے اس اختلاف كو يوں دور كرنے كى كوشش كى ہے كہ رسول(ص) الله نے قباسے جو خط علي(ع) كے نام لكھا تھا وہ شايد ان دونوں كے ہاتھ ارسال فرمايا تھا_ پھر يہ دونوں علي(ع) كے ساتھ ہمسفر ہوئے اور آپ كے ہمراہ واپس آئے_(1)
يوں بعض لوگوں نے گھرانے كے ساتھ سفر كو ان دونوں كے ساتھ نسبت دے كر اميرالمؤمنين(ص) كے عظيم كارنامے اور ان دونوں كو بچانے ميں آپ كے كردار كو جان بوجھ كر نظر انداز كرنے كى كوشش كى ہے_ تاكہ دل كے اندر پوشيدہ غرض (كينے) كى تسكين ہو_
مسجد قبا كى تعمير
رسول الله صلى الله عليہ وآلہ وسلم نے قبا ميں قيام كے دوران مسجد قبا كى بنياد ركھى جو معروف ہے_ايسا معلوم ہوتا ہے كہ اس مسجد كى تعمير كے سلسلے ميں حضرت عمار ياسر نے فكرى اور عملى طور پر پہل كى تھي_ (2)
مسجد قبا ہى وہ مسجد ہے جس كے بارے ميں يہ آيت اترى (لمسجد اسس على التقوى من اول يوم احق ان تقوم فيہ) (3) يعنى جو مسجد روزاول سے ہى تقوى كى بنيادوں پر قائم ہوگئي وہ اس بات كيلئے زيادہ موزوں ہے كہ تم اس ميں (عبادت كيلئے) كھڑے ہو_ غزوہ تبوك كى بحث ميں ہم انشاء الله اس كا ذكر كريں گے_
اس مقام پر احجار الخلافہ يعنى (خلافت كے پتھروں) والى روايت كا تذكرہ ہوتا ہے_ نيز مسجد مدينہ كى تعمير كے سلسلے ميں بھى اس كا تذكرہ كرتے ہيں_ بنابريں اس حديث پر وہاں بحث كريںگے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ السيرة الحلبية ج 2 ص 53 _
2_ وفاء الوفاء ج 1 ص 250 و السيرة الحلبية ج 2 ص 55 از ابن ہشام وغيرہ وغيرہ_
3_ سورہ توبہ، آيت 108 _
402
مسجد قبا اسلام كى پہلى مسجد ہے_ اس بات كى تصريح ابن جوزى وغيرہ نے كى ہے_ (1)
حبشہ كى جانب حضرت ابوبكر كى ہجرت اورابن دغنہ كے توسط سے آپ كى واپسى كے ذكر ميں اس بات كا ذكر گزر چكا ہے كہ حضرت ابوبكر كو اسلام كى سب سے پہلى مسجد كا بانى قرار دينا صحيح نہيں_ چنانچہ وہاں رجوع ہو_
بظاہر كچھ عورتوں نے بھى مسجد قبا كى تعمير ميں حصہ ليا تھا چنانچہ ابن ابى اوفى سے منقول ہے كہ جب اس كى بيوى كى وفات ہوئي تو وہ كہنے لگا:'' لوگو اس كا جنازہ اٹھاؤ اوررغبت سے اٹھاؤ كيونكہ يہ اور اس كے غلام رات كے وقت تقوى كى بنيادوں پر تعمير ہونے والى مسجد كے پتھر اٹھاتے تھے اور ہم دن كے وقت دو دو پتھر اٹھاتے تھے''_ (2)
اس كے علاوہ بظاہر يہى معلوم ہوتا ہے كہ مسجد قبا كى تعمير اميرالمومنين(ع) كى آمد كے بعد شروع ہوئي چنانچہ منقول ہے كہ آنحضرت(ص) نے حضرت ابوبكر كو حكم ديا كہ وہ اونٹنى پر سوار ہوكر چكر لگائيں تاكہ اونٹنى كے چكر كو ديكھ كر مسجد كى حدود معين كى جائيں_ ليكن اونٹنى نے حركت نہ كى پھر حضرت عمر كو حكم ديا ليكن ان كے ساتھ بھى وہى ہوا_ تب آپ(ص) نے على (ع) كو حكم ديا تو اونٹنى نے حركت كى اور آپ(ص) كو ليكر چكر لگايا_ اور جہاں تك اس نے چكر لگايا اسى كے مطابق مسجد كى بنياديں ركھى گئيں اور آنحضرت(ص) نے فرمايا اس اونٹنى كو خدا كى طرف سے (اس كام كا) حكم ديا گيا تھا_ (3)
قبا ميں نماز جمعہ
كہتے ہيں كہ حضور(ص) نے قبا ميں يا قبا سے مدينہ كے راستے ميں نماز جمعہ اداكي_(4)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ وفاء الوفاء ج 1 ص 250 و السيرة الحلبية ج 2 ص 55 نيز ملاحظہ ہو التراتيب الاداريہ ج2 ص 76_
2_ مجمع الزوائد ج 2 ص 10 از بزار و حيات الصحابة ج 3 ص 112 از بزار_
3_ وفاء الوفاء ج1 ص 251 و تاريخ الخميس ج1 ص 338 نيز تاريخ جرجان ص 144 (البتہ عبارت ميں غلطى ہے )_
4_ سيرہ حلبيہ ج2 ص 59 اور تاريخ المدينہ ( ابن شبہ) ج1 ص 68_
403
بلكہ كچھ لوگوں نے يہ كہا ہے كہ جمعہ كى نماز مكہ ميں فرض ہوئي تھى ليكن مسلمانوں نے وہاں نماز جمعہ نہيں پڑھى كيونكہ وہ اس پر قادر نہ تھے(1)_ شايد ابن غرس نے اسى نكتے كو پيش نظر ركھ كر يہ كہا ہے كہ مكہ ميں جمعہ كى نماز قائم ہى نہيں ہوئي تھي_ (2)
بلكہ مدينہ كے ابتدائي ايام ميں بھى نماز جمعہ كا قيام شايد شك سے خالى نہ ہو كيونكہ سورہ جمعہ ہجرت كے كئي سال بعد نازل ہوئي_ بلكہ يہ قرآن كى سب سے آخرى سورتوں ميں سے ايك ہے_ (3)
ليكن مذكورہ بات كو بنياد بناكر ايسا شك كرنے كى گنجائشے نہيں كيونكہ سورہ جمعہ كا مقصد نماز جمعہ كو اہميّت دينے كا حكم دينا ہے_ يہ اس بات كا غماز ہے كہ نماز جمعہ كا حكم اس سے قبل نازل ہو چكا تھا_ يہاں بظاہر ايسا معلوم ہوتا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كى زبانى نماز جمعہ كا حكم ديا گيا_يعنى سورہ جمعہ ميں يہ كہا جارہا ہے كہ جو نماز جمعہ قائم ہو رہى ہے تم اس كى طرف جلدى كرو _ پس اس ميں اصل نماز كى ادائيگى فرض نہيں كى جارہى بلكہ پہلے سے فرض كى گئي نماز كى طرف بلايا جارہاہے_معلوم ہوتا ہے كہ نماز تو پہلے سے فرض تھى ليكن بعض مسلمان اس كى ادائيگى ميں سستى كرتے تھے_ اور شايد انہى سست لوگوں كو (نماز جمعہ ترك كرنے كى وجہ سے) رسول (ص) خدا نے ان كے گھر جلانے كى دھمكى دى تھى (4)_
يہاں ايك اعتراض باقى رہ گيا اور وہ يہ كہ قبا ميں نماز جمعہ قائم كرنے كا مطلب يہ ہے كہ آپ نے دوران سفر جمعہ كى نماز پڑھى (حالانكہ نماز جمعہ مسافر كيلئے ساقط ہوتى ہے)_
ليكن يہ اعتراض بے محل ہے كيونكہ ممكن ہے اس زمانے ميں قبا مدينہ سے بہت نزديك ہو_ اور فاصلے كى كمى كے باعث مدينہ كے محلوں ميں اس كا شمار ہوتا ہو_ بنابريں جو شخص قبا پہنچ گيا گويا وہ مدينہ پہنچ گيا اور مسافر نہيں رہا_اور يہ بھى ممكن ہے كہ رسول (ص) خدا نے يہ جانتے ہوئے كہ حضرت على (ع) اور مخدّرات كے ساتھ
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرہ حلبيہ ج2 ص 9 و ص 12 و ص 59_
2_ الاتقان ج1 ص 37 و السيرة الحلبية ج2 ص 59_
3_ الاتقان ج1 ص 13 و 11_
4_ يہ واقعہ اپنے منابع اور مآخذ كے ساتھ غزوہ بنى نضير كے واقعہ ميں القرار والحصار كے تحت عنوان ذكر ہوگا_
404
آنے ميں دس دن سے زيادہ لگ سكتے ہيں ، حضرت على (ع) كے آنے تك قبا ميں قيام كا ارادہ كر ركھا ہو_ اور مؤرخين نے بھى لكھا ہے كہ آنحضرت (ص) نے قبا ميں پندرہ دن قيام فرمايا ہے_(1)بيعت عقبہ كى فصل ميں اس بارے ميں كچھ بيان كر چكے ہيں اس كا بھى مطالعہ فرمائيں_
يہاں اس كتاب كى دوسرى جلد كا اختتام ہوتا ہے اس كے بعد تيسرى جلد كى بارى ہوگي_
(انشاء الله تعالي)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ بحارالانوار ج 19 ص 106از اعلام الورى ، سيرہ حلبيہ ج 2 ص 55 از بخارى اورملاحظہ ہو ص 59 اور مسلم سے منقول ہے : آپ (ص) نے چودہ دن قيام فرمايا اور ديگر اقوال بھى ہيں''_
|