286
دوسرى فصل
رسول اكرم(ص) كى ہجرت
287
سازش:
قريش كے رؤسا''دار الندوة'' ميں جمع ہوئے_ اس اجتماع ميں بنى عبد الشمس، بنى نوفل، بنى عبدالدار، بنى جمح، بنى سہيم، بنى اسد، اور بنى مخزوم وغيرہ كے رؤسا موجود تھے_انہوں نے يہ فيصلہ كيا كہ ان كى مجلس ميں كوئي تہامى شامل نہ ہو كيونكہ تہاميوں كى ہمدردياں حضرت محمدصلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كے ساتھ تھيں_ (1)
انہوں نے اس بات كو بھى مدنظر ركھا كہ ان كے درميان ہاشميوں يا ان سے مربوط افراد كا كوئي جاسوس موجود نہ ہو_ (2)
روايات كے مطابق ابليس بھى نجدى شيخ كى صورت ميں ان كے درميان موجود تھا(3)_ انہوں نے آپس ميں مشورہ كيا كہ محمد(ص) كے ساتھ كيا سلوك كيا جائے_ بعض شركاء نے آپ(ص) كو لوہے ميں جكڑ كر قيد كرنے كا مشورہ ديا ليكن ان كو يہ خطرہ نظر آيا كہ كہيں آپ(ص) كے مددگار آپ كو چھڑا نہ ليں_ پھر يہ تجويز پيش ہوئي كہ آپ(ص) كو وطن سے نكال كر كسى اور علاقے ميں بھيج ديا جائے ليكن اس ميں يہ خامى ديكھى كہ اس سے تو آپ(ص) كو اپنے دين كى اشاعت ميں مدد مل سكتى ہے_ آخر كار ابوجہل يا شيطان كى تجويز كے مطابق يہ فيصلہ ہوا كہ ہر قبيلے سے ايك مضبوط اور باہمت جوان چن ليا جائے جو اپنى قوم ميں شريف النسب، صحيح النسب اور ممتاز ہو_ ان ميں سے ہر ايك كوايك ايك شمشير آبدار تھمائي جائے تاكہ وہ اپنى تلواريں ليكر نبى صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم پر حملہ آور ہوں اور مل كر آپ(ص) كو قتل كريں_ اس طرح آپ(ص) قتل ہوجائيں گے اور آپ(ص) كے خون كى ذمہ دارى سارے قبائل ميں تقسيم ہوجائے گى _ كيونكہ بنى عبد مناف ان سب قبائل كا مقابلہ نہيں كرسكتے نتيجتاً وہ ديت قبول كرنے پر مجبور ہوجائيں گے جو تمام قبائل مل كر انہيں ديں گے اور يوں معاملہ صاف ہوجائے گا_
--------------------------------------------------------------------------------
1،2_ تاريخ الخميس ج 1 ص 321 اور سيرت حلبى ج 2 ص 25 نيز رجوع كريں نور الابصار ص 15_
3_ تاريخ الامم والملوك ج 2 ص 68 ، البدايہ والنہايہ ج3 ص 175 نيز تاريخ الخميس ج1 ص 321 و 322_
288
واضح ہے كہ ان دس افراد كيلئے جو شرائط ركھى گئيں تھيں ان كا مقصد يہ تھا كہ كوئي قبيلہ دوسرے قبيلے كو اس امرميں تنہا نہ چھوڑے كيونكہ اگر ايسا ہوتا تو يہ امر قريش پر ضرب لگانے كيلئے بنى ہاشم كى قوت ميں اضافے كا باعث بن سكتا تھا خواہ وہ ضربت كتنى ہى محدود پيمانے پر كيوں نہ ہوتي_
اس كے علاوہ يہ شرائط اس بات كا باعث بنتيں كہ اس جرم كے ارتكاب كيلئے آمادہ ہونے والے زيادہ اطمينان اور شجاعت كے ساتھ اس خطرناك مہم كو انجام ديتے جس ميں شك وترديد اور بزدلى كى كوئي گنجائشے باقى نہ رہتي_
بہرحال خدانے وحى كے ذريعے اپنے نبي(ص) كو اس سازش سے باخبر كيا اور يہ آيت نازل فرمائي: (واذ يمكربك الذين كفروا ليثبتوك او يقتلوك او يخرجوك ويمكرون و يمكر الله والله خيرالماكرين) (1) يعنى جب كافروں نے آپ(ص) كے خلاف سازش كى تاكہ وہ آپ(ص) كو قيد كريں يا قتل كريں يا نكال باہر كريںتو وہ اپنى چاليں چل رہے تھے اور الله اپنى چال چل رہا تھا اور الله سب سے بہتر چال چلنے والا ہے_ خدائي مكر كسى دوسرے كى چال كو پوشيدہ طريقہ سے ناكام بنانے والى تدبير كا نام ہے_
على (ع) كى نيند اور نبى (ص) كى ہجرت:
مورخين كہتے ہيں كہ جن لوگوں كو قريش نے منتخب كيا تھا وہ رسول(ص) الله كے دروازے پر جمع ہوئے يعنى بعض روايات كى بنا پر عبد المطلب كے دروازے پر جمع ہوئے (2) اور گھات لگا كر بيٹھ گئے اور آپكے سونے كا انتظار كرنے لگے وہ افراد يہ تھے: حكم ابن ابى العاص، عقبہ بن ابى معيط، نضر بن حارث، اميہ بن خلف، زمعة بن اسود، ابولہب، ابوجہل، ابوالغيطلہ، طعمہ بن عدي، ابى ابن خلف، خالد بن وليد، عتبہ، شيبہ، حكيم بن حزام، اور حجاج كے بيٹے نبيہ و منبہ_ (3)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ انفال آيت 30 _
2_ بحار ج 19 ص 73 از الخرائج والجرائح ...
3_ ان كے ناموں كا ذكر السيرة الحلبية ج 2 و بحارالانوار ج 19 ص 72 و 31 اور مجمع البيان وغيرہ ميں كہيں مكمل طور پر اور كہيں جزوى طور پر ہوا ہے _
289
يوں قريش نے اپنے ان پندرہ قبائل ميں سے دس يا پندرہ افراد بلكہ اس سے بيشتر كا انتخاب كيا (بنابر اختلاف اقوال) تاكہ وہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كوايك ساتھ وار كر كے قتل كر ديں_ ايك ضعيف قول كى بنا پر ان كى تعداد سوتھى (1) ليكن ہمارى نظر ميں يہ روايت حقيقت سے دور ہے كيونكہ ديگر روايات كى مخالف ہے_
خلاصہ يہ كہ وہ جمع ہوگئے اور الله نے اپنے نبي(ص) كو ان كے مكر سے آگاہ فرمايا_
رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم نے اميرالمؤمنين حضرت على (ع) كو قريش كے منصوبے سے آگاہ فرمانے كے بعد حكم ديا كہ وہ رات كو آپ(ص) كے بستر پر سو جائيں_ حضرت علي(ع) نے عرض كيا ''اے الله كے رسول(ص) كيا ميرے وہاں سونے سے آپ(ص) كى جان بچ جائے گي''_
فرمايا ہاں_ يہ سن كر حضرت علي(ع) خوشى سے مسكرائے اور زمين پر سجدہ ريز ہوگئے تاكہ الله كا شكرادا كريں_ يوں وہ رسول(ص) الله كے بستر پر سوگئے اور آپ(ص) كى حضرمى چادر اوڑھ لي_ اس كے بعد رسول(ص) اللہ رات كے پہلے حصے ميں خارج ہوئے جبكہ قريش كے افراد گھر كے اردگرد گھات لگائے آپ(ص) كے منتظر بيٹھے تھے_
آنحضرت(ص) يہ آيت پڑھتے ہوئے نكلے (وجعلنا من بين ايديھم سدا ومن خلفھم سدا فاغشيناھم فہم لايبصرون) (2) يعنى ہم نے ايك ديوار ان كے آگے كھڑى كردى ہے اور ايك ديوار ان كے پيچھے ہم نے انہيں ڈھانك ديا ہے اب انہيں كچھ نہيں سوجھتا_
آپ(ص) كے دست مبارك ميں ايك مشت مٹى تھي_ آپ(ص) نے وہ مٹى ان كے سروں پر پھينك دي_ اور ان كے درميان سے گزرگئے_ اور انہيں احساس تك نہ ہوا پھر آپ(ص) نے غار ثور كى راہ لي_
ادھر اميرالمؤمنين(ع) سوئے ہوئے تھے اور حضرت ابوبكر آئے اور كہا :''اے الله كے رسول''_ وہ يہ سوچ رہے تھے كہ سونے والے الله كے نبي(ص) ہيں حضرت على (ع) نے ان سے فرمايا :''رسول(ص) الله چاہ ميمونہ كى طرف
--------------------------------------------------------------------------------
1_ السيرة الحلبية ج 2 ص 280 اور نور الابصار ص 15
2_ سورہ ى س آيت 9 و امالى شيخ طوسى ج 2 ص 80_81
290
چلے گئے ہيں پس ان كى خدمت ميں پہنچ جاؤ''_ چنانچہ حضرت ابوبكر چلے گئے اور حضرت(ص) كے ساتھ غار ميں داخل ہوئے _(1)
كہتے ہيں كہ مشركين نے حضرت علي(ع) كو پتھر مارنے شروع كئے جس طرح وہ رسول(ص) الله كو مارتے تھے_ آپ(ص) درد سے تڑپتے اور پيچ وتاب كھاتے رہے_ آپ نے اپنے سر كو كپڑے ميں لپيٹ ركھا تھا اورصبح تك اس سے باہر نہ نكالا_ پھر مشركين ان پر ٹوٹ پڑے_ جب حضرت علي(ع) نے ان كو تلوار سونتے اپنى طرف آتے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ آخرى جملوں كيلئے رجوع كريں مناقب خوارزمى حنفى ص 73 و مستدرك الحاكم ج 3 ص 133 و تلخيص مستدرك (ذہبي) حاشيہ كے ساتھ ان دونوں نے اسے صحيح قرار ديا ہے، مسند احمد ج 1 ص 321 و تذكرة الخواص (سبط ابن جوزي) ص 34، شواہدالتنزيل ج 1 ص 99_100،101، تاريخ طبرى ج 2 ص 100، تفسير برہان ج 1 ص 207 ابن صباغ مالكى كى كتاب فصول المہمة ص 30، و نسائي كى خصائص اميرالمومنين مطبوعہ نجف ص 63 و السيرة الحلبية ج 2 ص 35 مجمع الزوائد ج 9 _ص 120 از احمد (اس كے سارے راوى صحيح بخارى كے راوى ہيں سوائے ايك راوى كے جو ثقہ ہے و از طبرانى دركبير و اوسط_ بحار ج 19 ص 78_93 از طبرى و احمد، عياشى اور كفاية الطالب، فضائل الخمسة ج 1 ص 231، ذخائر العقبى ص 87 اور كفاية الطالب ص 243 اس كتاب ميں مذكور ہے كہ ابن عساكر نے اسے اربعين طوال ميں ذكر كيا ہے_
نيز رجوع كريں : الامام على بن ابيطالب در تاريخ ابن عساكر بہ تحقيق المحمودى ج 1 ص 186 و 190 محمودى نے اسے اپنے حاشيے ميں احمد بن حنبل كى كتاب الفضائل (حديث نمبر 291) نيز غاية المرام (ص 66) سے طبرانى ج 3 (ورق نمبر 168 ب) كے واسطے سے نقل كيا ہے علاوہ بريں كفاية الطالب كے حاشيے ميں رياض النضرة ج 2 ص 203 سے نقل ہوا ہے_ رہے آخرى جملے تو وہ احاديث و تاريخ كى مختلف كتب ميں موجود ہيں_
بحار ج 19 ص 61 و امالى شيخ طوسى ج 2 ص 81 ميں مذكور ہے كہ رسول(ص) الله نے حضرت ابوبكر اور ہند بن ہالہ كو حكم ديا كہ وہ غار كے راستے ميں ايك معينہ مقام پر آپ(ص) كا انتظار كريں_ اور بحار ج 19 ص 73 ميں الخرائج و الجرائح سے منقول ہے حضور روانہ ہوئے جبكہ وہ آپ(ص) كو نہيں ديكھ رہے تھے_ پھر حضرت ابوبكر كو ديكھا جو رات كے وقت آپ(ص) كى تلاش ميں نكلے تھے_ وہ قريش كے منصوبے سے آگاہ ہوچكے تھے چنانچہ حضور(ص) حضرت ابوبكر كو اپنے ساتھ غار كى طرف لے گئے_
اگر اس بات كو صحيح تسليم كرليں تو يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ حضرت ابوبكر نے نبى كريم(ص) كو ان كے منصوبے سے كيوں آگاہ نہيں كيا؟ مگر يہ كہ كہا جائے وہ آپ(ص) كو اطلاع دينے آئے تھے_ اس سے بھى اہم سوال يہ كہ قريش نے حضرت ابوبكر كو اپنے منصوبے سے كيونكر آگاہ كيا جبكہ وہ رسول(ص) الله كے ساتھ معمولى سے روابط ركھنے والے سے بھى اس كو چھپانے كى زبردست كوشش كرتے تھے جبكہ ديار بكرى وغيرہ كا صريح بيان اس سے قبل گزر چكا ہے_
291
ديكھا جبكہ خالد بن وليد آگے آگے تھا تو حضرت علي(ع) اس پرجھپٹ پڑے اور اس كے ہاتھ پر مارا خالد بچھڑے كى طرح اوپر نيچے چھلانگيں لگانے اور اونٹ كى طرح بلبلانے لگا_
آپ(ع) نے اس كى تلوار چھين لى اورمشركين پر حملہ آور ہوئے_ مشركين چوپايوں كى طرح خوفزدہ ہو كر گھرسے باہر بھاگ نكلے_ پھر انہوں نے غورسے ديكھا تو معلوم ہوا كہ يہ تو حضرت علي(ع) ہيں_ وہ بولے'' كيا تم على (ع) ہو؟''_ انہوں نے فرمايا:'' ہاں ميں على (ع) ہوں'' مشركين نے كہا: ''ہميں تم سے كوئي غرض نہ تھي_ يہ بتاؤ كہ تمہارا ساتھى كہاں گيا؟'' فرمايا :''مجھے كوئي خبر نہيں''_ (1)
قريش پيغمبر(ص) كى تلاش ميں
قريش نے آپ(ص) كے پيچھے اپنے جاسوس چھوڑ ديئےور وہ آپ(ص) كے تعاقب ميںسخت جان اور تا بعدار سواريوں پر سوار ہوكر نكل كھڑے ہوئے_ وہ آپ(ص) كے قدموں كے نشانات ديكھتے گئے_ يہاں تك كہ كھوجى (جو قدموں كے نشانات معلوم كرنے كا ماہر ہوتا ہے) اس جگہ پہنچا جہاں ابوبكر آپ(ص) سے ملحق ہوئے تھے_ اس نے مشركين كو بتايا كہ وہ جس شخص كو تلاش كر رہے ہيں يہاں سے ايك اور شخص بھى اس كے ساتھ ہوگيا ہے_ بہرحال وہ قدموں كے نشانات ديكھتے گئے يہاں تك كہ غار كے دھانے پر پہنچ گئے ليكن الله نے انہيں لوٹا ديا كيونكہ مكڑى نے غار كے دھانے پر جالا بن ليا تھا_ اور ايك جنگلى كبوترنے غار كے اندر داخل ہونے كے راستے ميں ہى انڈے دے ديئے تھے اور اسى طرح كى دوسرى باتيں جو تاريخ ميں مذكورہيں_ چنانچہ ان لوگوں نے يہ نتيجہ اخذ كياكہ يہ غار متروكہ ہے اور اس ميں كوئي داخل نہيں ہوا وگرنہ مكڑى كا جالاكٹ جاتا اور انڈے ٹوٹ جاتے، اور جنگلى كبوتر بھى غار كے دھانے پر بسيرا نہ كرتا(2)_
ادھر اميرالمؤمنين(ع) نے رات تك انتظار فرمايااور پھر رات كى تاريكى ميں ہند ابن ابى ہالہ كو ساتھ ليكر چلے گئے يہاں تك كہ رسول(ص) الله كے پاس غار ميں داخل ہوگئے_ پھر رسول(ص) خدا نے ہند كو حكم ديا كہ وہ آپ(ص) اور
--------------------------------------------------------------------------------
1_ امالى شيخ طوسى ج 2 ص 82_83_
2_ تاريخ الخميس ج1 ص 328 ، سيرہ حلبيہ ج2 ص 37 اور البدايہ والنہايہ ج3 ص 181 و 182_
292
آپ(ص) كے ساتھى كيلئے دو اونٹ خريد كرلائے_
اس وقت حضرت ابوبكر نے كہا :''اے الله كے رسول(ص) ميں نے اپنے اور آپ(ص) كيلئے دو سواريوں كا بندوبست كر ركھا ہے آپ انہيں ساتھ ليكر يثرب كا سفر كيجئے''_
آپ(ص) نے فرمايا:'' قيمت اداكئے بغيرمجھے ان دونوں كى ضرورت ہے نہ ان ميں سے ايك كي''_
ابوبكر نے عرض كيا :''پس آپ قيمت ديكر ان كو ليجئے''_
آپ كے حكم سے حضرت علي(ع) نے حضرت ابوبكر كو قيمت ادا كردي(1)_
اس كے بعد رسول(ص) الله نے حضرت علي(ع) كو آپ(ص) كى ذمہ دارياں نبھانے اور آپ(ص) كى امانتيں ادا كرنے كى نصيحت كى كيونكہ قريش اور حج كے ايام ميں مكہ آنے والے عرب حجاج اپنا مال و متاع رسول(ص) الله كے پاس بطور امانت ركھتے تھے_ آنحضرت(ص) نے حضرت علي(ع) كو حكم ديا كہ وہ صبح و شام مكے ميں پكار پكار كر يہ اعلان كريں ''جس كسى كى كوئي امانت محمد(ص) كے پاس ہو وہ آكر ہم سے وصول كرے''_ آنحضرت(ص) نے اس وقت يعنى جب آپ(ص) كا تعاقب ختم ہوچكا تو حضرت علي(ع) سے فرمايا:''يا على (ع) وہ لوگ آپ كے خلاف كوئي ايسى حركت نہ كرپائيں گے جو آپ كو ناپسند ہويہاں تك كہ آپ ميرے پاس پہنچ جائيں گے_ پس ميرى امانتيں كھلے عام ادا كرو، ميں اپنى بيٹى فاطمہ كو آپ كے حوالے كرتا ہوں اور آپ دونوں كوالله كے حوالے كرتا ہوں اور اس سے آپ(ص) دونوں كى حفاظت كا طلبگار ہوں''_
ہجرت كا خرچہ
پھر حضرت(ص) نے آپ(ع) كو حكم ديا كہ اپنے اور فواطم (فاطمہ كى جمع ہے) يعنى فاطمہ زہرا(ع) ، فاطمہ بنت اسد (مادر حضرت على (ع) ) اور فاطمہ بنت زبير جن كا ذكر ہجرت علي(ع) كے بيان ميں ہوگااور ان كے علاوہ بنى ہاشم كے ان افراد كيلئے جو ہجرت كا عزم ركھتے ہوںسوارياں خريد ليں_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ بحارالانوار ج19 ص 62 ، امالى شيخ طوسى ج 2 ص 83 ، آپ (ص) كا حضرت ابوبكر سے قيمت ادا كئے بغير سواريوں كا نہ لينے كا واقعہ سيرت النبى (ص) پر لكھى جانے والى تقريباً تمام كتابوں ميں ملے گا_ نيز مراجعہ ہو : وفاء الوفاء ج1 ص 237_
293
ابو عبيدہ كا بيان ہے: ميں نے ابوعبدالله (يعنى ابن ابى رافع) سے كہا كيا رسول(ص) الله اس قدر خرچ كرنے پر قادر تھے؟
اس نے جواب ديا ميرا باپ مجھ سے يہى بات (جو تونے بتائي) نقل كيا كرتا تھا اور ميں نے اس سے يہى سوال كيا تھا جو تم نے مجھ سے كيا_ ميرے باپ نے جواباً كہا_ تو پھر حضرت خديجہ (س) كا مال كہاں چلاگيا_ ميرے باپ نے كہا رسول(ص) الله نے فرماياہے : ''خديجہ كے مال نے مجھے جتنا فائدہ پہنچايا ہے كسى اور مال نے نہيں پہنچايا'' رسول(ص) الله حضرت خديجہ كے مال سے لوگوں كا قرض ادا كرتے اور قيديوں كو چھڑاتے تھے، ضعيفوں كى مدد كرتے تھے، سختيوں كے وقت خرچ كرتے تھے، مكہ ميں اپنے فقير اصحاب كو سہارا ديتے تھے اور ہجرت كا ارادہ ركھنے والوں كى بھى اعانت فرماتے تھے(1)_
رسول(ص) الله تين دن غار كے اندر گزارنے كے بعد مدينہ كى طرف روانہ ہوئے_ (2)
اميرالمؤمنين(ع) نے رسول(ص) الله كے بستر پر جورات گزارى اس كا تذكرہ آپ(ع) نے يوں كيا ہے_
وقيت بنفسى خير من وطا الحصا
ومن طاف بالبيت العتيق وبالحجر
محمد لما خاف ان يمكروا بہ
فوقاہ ربى ذوالجلال من المكر
وبت اراعيہم متى ينشرونني
وقد وطنت نفسى على القتل والاسر
وبات رسول(ص) الله فى الغار آمنا
ھناك وفى حفظ الالہ وفى ستر
اقام ثلاثا ثم زمت قلائص
قلا ئص يفرين الحصا ايما يفري
اشعار كاترجمہ:
ميں نے اپنى جان كا نذرانہ پيش كر كے اس شخص كى حفاظت كى جوزمين پر چلنے والوں اور كعبہ و حجر اسود كا طواف كرنے والوں ميں سب سے بہتر تھا_ جب محمد(ص) كو دشمنوں كى چال سے خطرہ محسوس ہوا تو خدانے آپ(ص) كو ان كے مكر سے محفوظ ركھا_ ميں نے رات اس انتظار ميں گزارى كہ وہ كب مجھے قتل كر ديں گے_ ميں نے
?
--------------------------------------------------------------------------------
1 _ ليكن اسى روايت كو خواہشات نفسانى كے پيروكاروں نے روايت كركے حضرت خديجہ كے نام كو حضرت ابوبكر كے نام سے بدل ديا ہے تا كہ اس كے لئے ايك فضيلت ثابت كرسكيں جس كى كوئي بھى روايت، نص اور كوئي حقيقت تاييد نہيں كرتى بلكہ اس كے برعكس ،واقعات اس كے برخلاف دلالت كرتے ہيں_
2_ امالى شيخ طوسى ج 2 ص 81_82 و البحار ج 19 ص 61_62_
294
اپنے نفس كو قتل يا اسير ہونے كيلئے آمادہ كر ركھا تھا_ رسول(ص) الله نے غار ميں امن وسكون كے ساتھ اور خدا كى پناہ ميں رات گزاري، آپ(ص) نے غار ميں تين دن گزارے پھر جوان اونٹوں پر سفر شروع ہوا_ يہ اونٹ ريگزاروں كو اس طرح طے كر رہے تھے جو ديكھنے كے قابل تھا_
جذبہ قربانى كے بے مثال نمونے
علامہ سيد ہاشم معروف الحسنى كہتے ہيں ''جان نثارى وقربانى كى تاريخ كا عمدہ ترين قصہ يہيں سے شروع ہوتا ہے_ ٹھيك ہے كہ بہادر اور سورما لوگ دشمن كے سامنے جنگوں ميں ڈٹ جاتے ہيں اور اپنے ہاں موجود اسلحے اور سامان جنگ كے ساتھ اپنے حاميوں اور مدد گاروں كے جھرمٹ ميں لڑتے ہيں_ كبھى ميدان جنگ ہى ان كو ثابت قدم رہنے پر مجبور كرتا ہے، اور وہ بھى اكيلے نہيں، ليكن كسى انسان كا اپنى مرضى اور خوشى سے كسى اسلحے يا سامان كے بغير موت كے مقابلے ميں يوں جانا گويا وہ كسى نرم ونازك بدن والى خوبرو عورت سے معانقہ كيلئے نكلا ہو اور ايسے بستر پر سونا جو خطرات ميں گھرا ہوا ہو_ حالانكہ ايمان، خدا پر توكل اوراپنے رہبر كى سلامتى كى آرزو كے علاوہ اس كے ہمراہ كچھ بھى نہ ہوجيساكہ حضرت على (ع) كے ساتھ يہ واقعہ اس وقت پيش آيا جب آپ(ع) كے ابن عم حضرت محمد(ص) نے آپ كو اپنے بستر پر رات گزارنے كيلئے كہا تاكہ وہ خود قريش كى سازشوں سے بچنے ميں كامياب ہو جائيں تو يہ وہ بات ہے جس كى مثال بہادرى اور مردانگى كى تاريخ ميں نہيں ملتى اور عقيدہ و ايمان كى راہ ميں لڑى جانے والى جنگوں ميں كسى نے اس كا ثبوت نہيں ديا_ پھر كہتے ہيں كہ شب ہجرت علي(ع) كا سونا پہلا واقعہ نہ تھا_ شعب ابوطالب ميں محاصرے كے دوران بھى ابوطالب(ع) علي(ع) كو بستر رسول(ص) پر سلايا كرتے تھے تاكہ اگر كوئي قاتلانہ اقدام ہو تو نبي(ص) كى بجائے علي(ع) كو نقصان ہو_ انہوں نے اس كام سے كبھى بھى گريز نہ كيا بلكہ وہ برضا و رغبت ايسا كرتے تھے_ (1)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سيرت المصطفى ص 252_250_
295
بستر رسول(ص) پر سونا اور مسئلہ خلافت
يہاں تعجب كى بات يہ ہے كہ ايك ايسا شخص جس كا ناصبى اور علي(ع) و محبان علي(ع) كا دشمن ہونا مشہور ہے، يہ كہنے پر مجبور ہوتا ہے كہ شب ہجرت حضرت علي(ع) كا بستر رسول(ص) پر سونا ان كى خلافت كا واضح اشارہ ہے_ چنانچہ وہ كہتا ہے:
''شب ہجرت حضرت علي(ع) كے اس اقدام كو بعد ميں ان كى زندگى ميں پيش آنے والے حالات كے تناظر ميں ديكھا جائے تو ديكھنے والے كو اس بات كے واضح اشارات ملتے ہيں كہ اس رات جس منصوبے پر عمل ہوا وہ حضرت علي(ع) كے حوالے سے كوئي اتفاقى يا عارضى بات نہ تھى بلكہ اس كے پيچھے خاص آثار ونتائج كى حامل حكمت كارفرما تھي_ بنابريں ہم يہ سوال كرنے ميں حق بجانب ہيں كہ:
كيا رسول(ص) الله كا اس رات حضرت علي(ع) كو اپنى شخصيت كے روپ ميں پيش كرنا اس بات كا اشارہ نہيں كہ آنحضرت(ص) اور حضرت علي(ع) كے درميان ايك قسم كى يگانگت موجود ہے جو ان دونوں كے درميان موجود رشتہ دارى والى يگانگت سے ما وراء ہے_ كيا ہم يہاں سے يہ نتيجہ اخذ نہيں كرسكتے كہ رسول(ص) الله كے بعد حضرت علي(ع) ہى وہ ہستى ہيں جو آپ(ص) كى مسند پر بيٹھنے كے لئے آمادگى ركھتے ہيں اور يہ كہ آپ ہى رسول(ص) الله كى نمائندگى كرنے والے اور آپ كے قائم مقام ہيں_ ميرا خيال ہے كہ كسى نے ہم سے قبل مذكورہ واقعے كا اس زاويے سے جائزہ نہيں ليا يہاں تك كہ حضرت علي(ع) كے شيعوں نے بھى اس نكتے كو ہمارى طرح نہيں سمجھا'' _(1)
قريش اور على (ع):
1_آخر ميں ہم اس نكتے كى طرف اشارہ كرنا ضرورى سمجھتے ہيں كہ قريش نے حضرت علي(ع) پر اپنے چچا زاد بھائي كى جگہ بتانے كے سلسلے ميں زورنہيں ديا اور اصرار سے كام نہيں ليا، اس كى وجہ بس يہى تھى كہ وہ اس كام كو
--------------------------------------------------------------------------------
1_ عبدالكريم خطيب كى كتاب على ابن ابيطالب ص 105 كى طرف رجوع كريں _
296
بے فائدہ سمجھتے تھے كيونكہ جو شخص اس حدتك مخلص ہو اوراس طرح كى بے مثال اور تاريخى قربانى دے وہ ان كے سامنے ہرگز اپناراز فاش نہيں كرسكتا تھا _اس راز كى حفاظت كيلئے تو اس نے اپنى جان كا نذرانہ پيش كيا تھا_ اسى لئے ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ انہوں نے حضرت علي(ع) كو چھوڑ ديا اور مايوسى كے عالم ميں وہاں سے چلے گئے_ (1)
2_پيغمبر اكرم(ص) كے بارے ميں علي(ع) كا طرزعمل انسانيت كااعلى ترين نمونہ تھا_انہوں نے لوگوں كو اخلاص وقربانى كے مفہوم اورايمان كى حقيقت سے روشناس كراياكيونكہ وہ اپنى شہادت كو ہر صورت ميں قطعى ديكھ رہے تھے_ ان كے خيال ميں وہ يا تو اس لئے قتل ہوجاتے كيونكہ مشركين انہيں رسول(ص) سمجھ رہے تھے يا پھر رسول(ص) الله ، (جنہوں نے قريش كے باطل نظريات كو جھٹلايا تھا، ان كے معبودوں كى عيب جوئي كى تھى اور ان كى صفوں كو پراكندہ كر ديا تھا) كو بچانے كے جرم ميں بطور انتقام قتل كرديئے جاتے_ قريش اس بات سے بھى آگاہ تھے كہ رسول(ص) الله علي(ع) كو كس قدر چاہتے ہيں اور آنحضرت(ص) كے ہاں ان كا كيا مقام ہے_ ان كا قتل حضور(ص) كے چچازاد بھائي اور آپ(ص) پر جان نچھاور كرنے والے مخلص انسان كا قتل تھا_ (2) اور حقيقت كے واضح ہونے كے بعد ان كا حضرت على (ع) كو چھوڑ دينا يا تو خوف كے سبب تھا كيونكہ انہوں نے ديكھ ليا تھا كہ حضرت (ع) نے خالد بن وليد كا كيا حشر كيا تھا _ اور يا اس وجہ سے تھا كہ وہ يہ سمجھ رہے تھے كہ پہلے اپنے اصلى اور اہم دشمن كا كام تمام كرديں، ان كو ختم كرنے كے لئے ابھى وقت بہت ہے_
قريش اور شب ہجرت علي(ع) كا كارنامہ
كچھ لوگوں كا يہ بھى كہنا ہے كہ ''ہجرت كى رات حضرت على (ع) نے قريش كو جو كھلا چيلنج ديا اور ان كو جس طرح ذليل كيا، نيز اس كے بعد تين دن تك جس طرح ان كے درميان چلتے پھرتے رہے ،اس داغ كو قريش كبھى بھى نہ بھلا سكتے تھے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں حيات اميرالمومنين مصنفہ محمد صادق صدر ص 106_105_
2_ رجوع كريں حيات اميرالمومنين ص 107 اور 108 _
297
اگر اس دن ان كو قتل كرنے ميں قريش كو ايسے فتنے كا خطرہ محسوس نہ ہوتا جو ان كے اتحاد كو پارہ پارہ كرديتا اور دوسرى طرف سے وہ يہ ديكھ ليتے كہ اس طرح وہ محمد(ص) كے بارے ميں اپنے مقصد كو بھى حاصل نہيں كرسكيں گے تو وہ انہيں قتل كر كے ضرور دل كى بھڑاس نكال ليتے _يوں وہاں قريش ان سے دست بردار ہوئے ليكن بعد ميں ان كا حساب چكانے كيلئے روز شمارى كرنے لگے''_ (1)
جى ہاں درحقيقت يہ ايك سخت حساب تھا جو حضرت علي(ع) كو چكانا تھا_ خصوصاً اس بات كے پيش نظر كہ انہوں نے بعد ميں ان كے بزرگوں اور سرداروں كو خاك مذلت ميں ملاديا تھا اور اپنے چچازاد بھائي كے شمشيرزن بازو كى حيثيت سے بوقت ضرورت كبھى يہاں اور كبھى وہاں متكبر اور جابر لوگوں پر كارى ضرب لگاتے رہے تھے_ قريش نے حضرت علي(ع) سے مذكورہ سخت حساب چكانے كا سلسلہ رسول(ص) كى وفات كے فوراً بعدہى شروع كرديا، يہاں تك كہ آپ(ص) كے غسل وكفن اور دفن سے بھى پہلے_
موازنہ
اميرالمومنين(ع) كے بستر رسول(ص) پر رات گزارنے كے نتيجے ميں قريش نے يہ موقع گنواديا اور انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كے خلاف جو سازش تيار كى تھى وہ ناكامى سے دوچار ہوئي_ اس كے علاوہ اس عمل سے دين اسلام كى بنياديں مضبوط ہوئيں اور كلمہ حق كو فروغ حاصل ہوا_
اس واقعے كا ذبح اسماعيل عليہ السلام پر قياس كرنا صحيح بات نہيں ہے كيونكہ حضرت اسماعيل (ع) نے تو ايك مہربان اور شفيق باپ كے آگے سرتسليم خم كيا ليكن حضرت علي(ع) نے اپنى جان ان دشمنوں كے حوالے كردى جو ان پر رحم نہ كرتے اور جن كے دل كى بھڑاس ان كا خون بہائے بغير نہيں نكل سكتى تھي_ نيز ان كا غصّہ جان ليوا شماتت، سخت ترين تشدد اور ايذاء رسانى كے بغير نہ نكل سكتا تھا_
اسكافى نے جاحظ كى تصنيف عثمانيہ كے جواب ميں اس واقعے پر تبصرہ كيا ہے_ (اس كا كلام شرح نہج
--------------------------------------------------------------------------------
1_ على ابن ابيطالب (از عبدالكريم خطيب) ص 106 _
298
البلاغہ معتزلى كى تيرہويں جلد ميں مرقوم ہے)_ وہاں رجوع كريں اگر ہم اس نكتے كى تشريح كرنے بيٹھيں تو ہمارى بحث طولانى ہوجائے گي_
ارادہ الہي
كيا يہ ممكن نہ تھا كہ الله اپنے رسول(ص) كى مدد كچھ اس طرح سے فرماتا كہ رسول(ص) الله غار ميں چھپنے پر مجبور نہ ہوتے اور نہ حضرت علي(ع) كو آپ(ص) كے بستر پر سونا پڑتا_ وہ يوں كہ الله اپنى قدرت كى واضح نشانيوں اور حيرت انگيز معجزات كے ذريعے آپ(ص) كى مدد كرتا_
اس كا جواب منفى ہے كيونكہ خدا كى منشا يہ ہے كہ سارے امور حسب معمول اور طبيعى اسباب كے مطابق انجام پائيں (ہاں انسان كى طاقت سے باہر معاملات ميں اس كى رہنمائي اور عنايات شامل حال ہوں) تاكہ يہ ہم سب كيلئے بھى نمونہ عمل اور مفيد درس ثابت ہوں_ ہم بھى دين وعقيدے كى راہ ميں جدوجہد كريں اور آسمانى معجزات كے منتظر نہ رہيں_ اسى صورت ميں الله كا وعدہ (لينصرن الله من ينصرہ) اور (ان تنصروا الله ينصركم) عملى شكل اختيار كرے گا_
مصلحت انديشى اور حقيقت
مشركين مكہ ايك عجيب تضاد كا شكار ہوئے وہ يہ كہ ايك طرف تو رسول(ص) الله كو جھٹلاتے اور آپ(ص) پر تہمتيں لگاتے تھے يہاں تك كہ آپ(ص) كو مجنون، ساحر، شاعر اور كاہن كہہ كر پكارتے تھے_ ليكن دوسرى طرف اپنے اموال اور اپنى امانات آپ(ص) كے سپرد كرتے تھے اور آپ(ص) كو معتمد اور امين سمجھتے تھے يہاں تك كہ آپ(ص) اپنے چچازاد بھائي (على (ع) ) كو مكہ چھوڑ جانے پر مجبور ہوئے كہ وہ تين دن تك اعلان عام كرتے رہيں تا كہ لوگ آكر اپنى امانتيں واپس لے جائيں_ يہ اس بات كى دليل ہے كہ آنحضرت(ص) كى دعوت پر ان كا ايمان نہ لانا ہٹ دھرمى اور تكبر و عناد كے باعث تھا، نہ اس لئے كہ وہ آپ(ص) كے پيغام كو دلى طور پر غلط سمجھتے تھے ارشاد
299
الہى ہے: (وجحدوا بھا واستيقنتہا انفسہم)(1) _
يعنى انہوں نے آيات الہى كا انكار كيا جبكہ قلبى طورپراس كو مانتے تھے_ بالفاظ ديگر وہ رسول(ص) الله كى دعوت كے اس لئے منكر تھے كہ وہ بزعم خود اس طرح سے اپنے ذاتى مفادات اور مستقبل كى حفاظت كرنا چاہتے تھے يا اس لئے كہ وہ اپنے آباء و اجداد كى اندھى تقليد كرنے كے خواہشمند تھے يا اپنى امتيازى حيثيت اور مراعات كى حفاظت كے طالب تھے يا حسد اور ديگر وجوہات كى بنا پر ايسا كررہے تھے_
حضرت علي(ع) كو ان حساس اور خطرناك حالات ميں لوگوں كى امانتيں لوٹانے كيلئے مكے ميں چھوڑ جانا ايك ايسے انسان كامل كا بہترين نمونہ پيش كرتا ہے جو اپنے اصولوں پر كاربند اور اپنے نظريات كا پاسبان ہو _ايسا كامل انسان جو خدا كے معين كردہ راستے سے بال برابر بھى منحرف نہ ہوتا ہو اور بہانوں كى تلاش ميں نہ پھرتا ہو_ بلكہ وہ اپنے عظيم اصولوں اور مقاصد كيلئے جيتا ہو اور اصولوں كو ذاتى مفادات كے حصول كا ذريعہ قرار نہ ديتا ہو_
ہاں وہ آپ(ص) كو امين كہہ كر پكارتے تھے اور يہ آپ(ص) كى واضح ترين صفات ميں سے ايك صفت تھى حتى بعثت سے پہلے بھي_ يہى امين ہيں جو اب ان كى امانتيں واپس كررہے ہيں جبكہ وہ ان كے خون كے درپے ہيں ليكن يہ بات آپ (ص) كو لوگوں كى امانتوں كا خيال ركھنے سے نہيں روكتى خواہ وہ اچھے ہوں يا برے_ اگر آپ(ص) ان كى امانتيں واپس نہ كرتے تو آپ(ص) كو پورا پورا بہانہ حاصل تھا_
ايك محقق كا كہنا ہے كہ اس عظيم صفت كى كوئي خاص اہميت اہلسنت كى احاديث كے اندر ديكھنے ميں نہيں آتى حالانكہ يہ صفت (حضور(ص) كى امانتداري) انسانيت كى بنياد ہے_ بالكل اسى طرح جس طرح رسول(ص) الله كى وفات كے بعد سے احاديث ''حكمت'' خلفاء كى خواہش پر عمداً محو كى گئيں_ وگرنہ وہ چيز كہاں گئي جس كے بارے ميں خدانے سات آيتوں ميں يہ خبردى ہے كہ رسول(ص) كى ذمہ دارى لوگوں كو كتاب وحكمت كى تعليم دينا ہے_ ہم جانتے ہيں كہ آپ(ص) نے لوگوں كو كتاب كى تعليم دى جس كى خدانے حفاظت كى اور اب تك باقي
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ نمل آيت 14
300
ہے_(انا نحن نزلنا الذكر وانا لہ لحافظون) (1) يعنى ہم نے ہى قرآن نازل كيا اور ہم ہى اس كے محافظ ہيں_
ليكن ہم يہ سوال كرتے ہيں كہ وہ حكمت كہاں گئي جو آپ(ص) نے امت كو سكھائي؟ ہم ديكھتے ہيں كہ علماء و محدثين كے نزديك ان ميں سے فقط تقريباً پانچ سو كے لگ بھگ احاديث رہ گئي ہيں وہ بھى فقہ احكام، اخلاق اور حكمت سب كے بشمول(2)_ ان ميں سے كتنى احاديث فقط حكمت سے مربوط ہيں اس كا حشر آپ كے سامنے ہے_
البتہ ہم آئمہ معصومين(ع) كى احاديث ميں كثير مقدار ميں حكمت كى باتيں پاتے ہيں_ ان كى ايك بڑى تعداد امانت اور صداقت كے متعلق ہے_ انہوں نے امانت كو عملى اخلاق كا بنيادى محور قرار ديا ہے اور اسے زبردست اہميت دى ہے_
زمين اور عقيدہ
ہم نے ديكھ ليا كہ اسلام كى نظر ميں انسان كا حقيقى مقصد زمين نہيں بلكہ خود اسلام ہے كيونكہ جب كسى سرزمين پرزندگى گزارنا اور اس كى حفاظت كرنا ذلت وخواري، محروميت اور عظيم دينى اہداف (جو انسان كى سعادت كا باعث ہيں) كے پورا نہ ہونے كا باعث بنے تو بہتري، اصلاح، مستقبل كى تعمير اور حقيقى سعادت وعزت كے حصول كے پيش نظر اس سرزمين كو چھوڑ كر كہيں اور جانا چاہيئے_ پس پہلے تو خود انسان اور پھر تمام باقى چيزيں اسلام كى خاطر اور اس كى خدمت كيلئے ہيں_
درس ہجرت
ہجرت كا واقعہ ہميں يہ درس ديتا ہے كہ مسلمانوں پرايك دوسرے كى مدد واجب ہے_ نيز نسلى تعصبات
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ حجر آيت 9 _
2_ مناقب شافعى ج1 ص 419 نيز عن الوحى المحمدى ص 243_
301
سے مكمل طور پر مبرا ہوكر اغيار كے مقابلے ميں متحد ہونا بھى ضرورى ہے_ اور يہ كہ ان كے باہمى تعاون والفت اور آپس كى رحمدلى و ہمدردى كى بنياد دين اور عقيدہ ہو نہ كہ نسلى و خاندانى تعلقات يا مفادات پر مبنى روابط وغيرہ_
علاوہ ازيں واقعہ ہجرت ہميں حسن تدبير، باريك بينى اور صحيح منصوبہ بندى كا بھى درس ديتا ہے جسے رسول(ص) الله نے پيش نظر ركھاكيونكہ جب آپ(ص) كے گھر كا محاصرہ كرنے والوں كو كسى نے آكر يہ خبر دى كہ آپ(ص) گھرسے نكل گئے ہيں تو اس وقت جس چيزنے ان كو حضور(ص) كى بستر پر موجودگى كے بارے ميں مطمئن ركھا وہ علي(ع) كا بستر رسول(ص) پر رات گزارنا تھا_ (1)
ابوطالب(ع) اور حديث غار
بعض روايات ميں مذكور ہے كہ جب قريش نے رسول(ص) الله كے خلاف سازش كى تو ابوطالب عليہ السلام نے آنحضرت(ص) سے عرض كيا:'' آپ(ص) كو علم ہے كہ انہوں نے كيا سازش كى ہے؟'' آپ(ص) نے جواب ديا:'' وہ چاہتے ہيں كہ مجھے قيد كريں يا قتل كريں يا وطن سے نكال باہر كريں''_ حضرت ابوطالب(ع) نے عرض كيا ''آپ(ص) كو كس نے خبردي؟ ''فرمايا: ''ميرے رب نے''_ حضرت ابوطالب(ع) بولے: ''آپ(ص) كا رب سب سے بہترين رب ہے''_ (2)
ليكن واضح ہے كہ يہ روايت درست نہيں ہوسكتى كيونكہ قريش كى سازش ہجرت سے كچھ ہى مدت پہلے عقبہ كى دوسرى بيعت كے بعد ہوئي تھى يعنى بعثت كے تير ہويں سال_ حالانكہ حضرت ابوطالب(ع) بعثت كے دسويں سال وفات پاچكے تھے يعنى شعب ابيطالب سے مسلمانوں كے خارج ہونے كے بعد_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تاريخ طبرى ج 2 ص 100 _
2_ درمنثور ج 3 ص 279 نے سنيد، ابن جرير، ابن منذر، ابن ابى حاتم اور ابوالشيخ سے نقل كيا ہے _
302
آيت غار
خداوند عالم نے فرمايا (الا تنصروہ فقد نصرہ الله اذ اخرجہ الذين كفروا ثانى اثنين اذہما فى الغار اذ يقول لصاحبہ لاتحزن ان الله معنا فانزل الله سكينتہ عليہ وايدہ بجنود لم تروھا وجعل كلمة الذين كفروا السفلى وكلمة الله ہى العليا والله عزيز حكيم) (1)
يعنى تم نے اگر رسول(ص) كى مدد نہ كى تو كوئي پروا نہيں_ الله اس كى مدد اس وقت كرچكا ہے، جب كافروں نے اسے نكال ديا تھا_ جب وہ دوميں سے دوسرا تھا، دونوں غار ميں تھے اور وہ اپنے ساتھى سے كہہ رہا تھا'' غم نہ كرو الله ہمارے ساتھ ہے''_ پس الله نے اس پر اپنى طرف سے سكون قلب نازل كيا اور اس كى مدد ايسے لشكروں سے كى جوتم كو نظر نہ آتے تھے اوراس نے كا فروں كا بول نيچا كرديا اور الله كا تو بول بالاہى ہے اور الله زبردست دانا و بينا ہے_
كبھى يہ كہا جاتا ہے كہ يہ آيت درج ذيل وجوہات كى بنا پر حضرت ابوبكر كى فضيلت كو ثابت كرتى ہے_
(الف) آيت نے حضرت ابوبكر كو ''ثانى اثنين'' (دو ميں سے دوسرا) كے الفاظ سے ياد كيا ہے بنابريں حضرت ابوبكر فضيلت كے لحاظ سے دو افراد ميں سے ايك ٹھہرے اور اس سے بڑى فضيلت اور كيا ہوسكتى ہے كہ حضرت ابوبكر حضرت پيغمبر(ص) اسلام كے قرين قرار پائيں_
(ب) آيت كى رو سے حضرت ابوبكر پيغمبراكرم(ص) كے ساتھى قرار پائے_ اس عظيم موقعے پر پيغمبر(ص) كا ساتھى بن جانا بہت بڑا اعزاز ہے_
(ج) رسول(ص) الله نے حضرت ابوبكر سے فرمايا، خدا ہمارے ساتھ ہے_ يعنى الله كى نصرت اور اس كا نظر كرم ان دونوں پر ہے_ بنابريں جو شخص الله كى طرف سے ہونے والى مدد ميں نبي(ص) كا شريك ٹھہرے اس كا شمار عظيم ترين لوگوں ميں ہوگا_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ توبہ آيت 40 _
303
(د) اللہ تعالى نے فرمايا ''اور اللہ نے اس پر سكون قلب نازل كيا''_ پس يہ سكون قلب جس پر نازل ہوا وہ حضرت ابوبكر تھے اس لئے كہ اس كى ضرورت ابوبكر كو تھي( كيونكہ ان كا دل گھبرا گيا تھا) نہ كہ رسول(ص) الله كو كيونكہ آپ(ص) كو تو علم تھا ہى كہ الله آپ(ص) كو محفوظ ركھے گا_ (1)
ليكن يہ سارى باتيں نادرست ہيں كيونكہ:
الف: حضرت عائشه كہتى ہيں_ خدانے ہمارے بارے ميں قرآن كى كوئي آيت نازل نہيں كى سوائے اس كے كہ اس نے ميرے عذر كا ذكر كيا_ (2)
ہمارى تحقيق كى رو سے ثابت ہوا ہے كہ حضرت عائشه كے عذر كے بارے ميں بھى كسى آيت كا اترنا صحيح نہيں ہوسكتا جيساكہ ہم نے اپنى كتاب ''حديث الافك'' ميں ذكر كيا ہے_
ب: حضرت ابوبكر كے بارے ميں ثانى اثنين ''كہنے سے كوئي فضيلت ثابت نہيں ہوتى كيونكہ ان الفاظ ميں عدد بيان كرنے كے سوا كچھ بھى نہيں دوسرا فرد كوئي بچہ يا جاہل يا مؤمن يا فاسق وغيرہ بھى ہوسكتا ہے_ نيز واضح ہے كہ قرآن كى رو سے فضيلت كا معيار فقط تقوى ہے نہ كہ عدد ميں دوسرے نمبر پر قرار پانا_ جيساكہ فرمايا ہے (ان اكرمكم عند الله اتقاكم) يعنى تم ميں سب سے زيادہ صاحب عزت، الله كے ہاں وہ ہے جو سب سے زيادہ متقى ہو_
شيخ مظفر (رحمة الله عليہ) اضافہ كرتے ہيں كہ اگر دو كا بيان فضيلت و شرف كے نقطہ نظر سے ہو تو پھر حضرت ابوبكر كا مقام پيغمبر(ص) اسلام سے بھى زيادہ ہوگا_ كيونكہ آيت كى رو سے حضرت ابوبكر پہلے اور پيغمبر اكرم(ص) دوسرے (ثاني) ہيں_ (3)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع ہو ، دلائل الصدق ج 2 ص 404 و 405 _
2_ بخارى مطبوعہ 1309 ج 3 ص 121 و تفسير ابن كثير ج 4 ص 159 و فتح القدير ج 4 ص 21 و الدر المنثور ج 6 ص 41 نيز ملاحظہ ہو الغدير ج8 ص 247_
3_ دلائل الصدق ج 2 ص 404_
304
ج:علاوہ بريں يہ بات بھى واضح ہے كہ يہاں يہ بتانا مقصود ہے كہ پيغمبر(ص) اسلام كس قدر سخت حالات سے دوچار تھے اور يہ كہ اس وقت آپ(ص) كى حفاظت يا حمايت كرنے والا كوئي نہ تھا_ رہا آپ(ص) كا ساتھى تو وہ نہ صرف يہ كہ آپ(ص) كى حفاظت نہيں كر رہا تھا بلكہ پريشانى اور خوف و ہراس كے باعث آپ(ص) كيلئے ايك سنگين بوجھ بن چكا تھا_ بنابريں وہ رسول(ص) كا بوجھ ہلكا كرنے اور آپ(ص) كى اعانت كرنے كى بجائے آپ(ص) كى طرف سے دلجوئي كا محتاج تھا_ كم ازكم يہ بات تو مسلم ہے كہ رسول(ص) الله كى حمايت و حفاظت اور آپ(ص) كو درپيش مشقتوں ميں تخفيف كے سلسلے ميں حضرت ابوبكر نے كچھ بھى نہ كيا، ہاں اس نے تعداد ميں اضافہ كيا يوں ايك كى بجائے دو افراد ہوگئے_
د: رہا حضرت ابوبكر كو نبي(ص) كا مصاحب قرار دينا تو اس ميں بھى فضيلت كا كوئي پہلو نظر نہيں آتاكيونكہ مصاحبت سے تو فقط اتنا ثابت ہوتا ہے كہ وہ دونوں باہم اور ايك مقام پر جمع تھے اور يہ امر عالم وجاہل، صغير وكبير، مومن وغير مومن وغيرہ كے درميان بھى واقع ہوسكتا ہے_ چنانچہ الله تعالى فرماتا ہے: (وما صاحبكم بمجنون) (1) يعنى اے اہل مكہ، تمہارا ساتھى مجنون نہيں ہے_ نيز فرمايا ہے (قال لہ صاحبہ وہو يحاورہ اكفرت بالذى خلقك) (2) يعنى اس كے ساتھى نے اس سے گفتگو كرتے ہوئے كہا كيا تو انكار كرتا ہے اس ذات كا جس نے تجھے پيدا كيا_
بنابريں مصاحبت برائے مصاحبت كوئي فضيلت نہيں ركھتي_
ھ: ادھر خدا كا قول (ان الله معنا) حضرت ابوبكر كو تسلى دينے كيلئے آيا تھا تاكہ ان كاحزن جاتا رہے_ يوں حضرت ابوبكر كو بتايا جارہا ہے كہ خداوند عالم انہيں مشركين كى نظروں سے محفوظ ركھے گا_ اس ميں فضيلت كا كوئي پہلو موجود نہيں_ بلكہ اس ميں يہ خبردى جارہى ہے كہ الله ان كو دشمنوں كے شرسے نجات دے گا_ يعنى رسول(ص) الله كى حفاظت كے پيش نظر حضرت ابوبكر كى بھى حفاظت كرے گا_يہ بالكل اس آيت كى طرح ہے'' و ما كان اللہ ليعذبہم و انت فيہم '' يعنى جب تك آپ (ص) ان لوگوں كے درميان موجود ہيں خدا انہيں
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ تكوير آيت 22 _
2_ سورہ كہف آيت 37 _
305
عذاب ميں مبتلاء نہيں كرے گا _ پس رسول (ص) خدا كى وجہ سے يا كسى مومن كى موجودگى سے عذاب الہى سے مشركين كى نجات ان كى فضيلت كا باعث نہيں بنتى _
و: مورخين كے بقول حضرت ابوبكر محزون ہوئے تھے جبكہ وہ خدا كى واضح نشانياں اور ايسے صريح معجزات ديكھ چكے تھے جن سے انسان كو يقين ہوجاتاہے كہ الله اپنے نبى كى حفاظت كرے گا اور آپ(ص) كو دشمنوں كے شرسے نجات دے گا_ حضرت ابوبكر كو معلوم تھا كہ رسول(ص) الله قريش كے (شمشير زنوں كے) درميان سے گزركر نكلے تھے ليكن وہ آپ(ص) كو نہيں ديكھ سكے تھے_ نيز غار كے دہانے پر مكڑى كا جالا بنانا اور كبوتر كا انڈے دے كر بيٹھ جانا بھى اپنى آنكھوں سے ديكھا تھا_ اس كے علاوہ اور چيزوں كا بھى مشاہدہ كيا تھا مثال كے طور پر يہ كہ حضور(ع) فرمايا كرتے تھے ''كہ الله جلد ہى ان كے ہاتھوں قيصر وكسرى كے خزانوں كے دروازے كھول دے گا_ اپنے دين كو غالب كرے گا_ اور اپنے نبي(ص) كى مدد كرے گا'' بنابريں ان حالات ميں ان كا محزون ہونا اور الله كى مدد پر بھروسہ نہ كرنا جبكہ وہ خداكى جانب سے اس قدر معجزات كا مشاہدہ كرچكے تھے، ايك غير پسنديدہ اور ممنوع عمل ہونا چاہيئے اور ممنوعيت بھى مولى ہونے كے اعتبار سے (1) ہونى چاہيئے يعنى جناب كا رونا ناجائز تھا_ يہاں سے معلوم ہوتا ہے كہ ابھى تك الله كى جلالت وعظمت كا احساس ان كے دل ميں راسخ نہيں ہوا تھا_
كہتے ہيں كہ حضرت ابوبكر نے كہا :''اے الله كے رسول(ص) ميرا حزن آپ(ص) كے بھائي على ابن ابيطالب كے بارے ميں ہے كہ كہيں ان كو كچھ ہوانہ ہو''_ نبى كريم(ص) نے فرمايا:'' خدا ہمارے ساتھ ہے''_ (2)
ز: رہا يہ دعوى كہ خدا كى نصرت ان دونوں كے شامل حال ہوئي تھى لہذا وہ اس مدد ميں نبي(ص) كے حصہ دار تھے اور يہ بہت بڑى فضيلت ہے تو يہ بھى غلط ہے اور قرآن كى آيت صريحاً اس بات كى نفى كرتى ہے كيونكہ آيت نے تو الله كى مدد كو نبي(ص) كے ساتھ مختص قرار ديا ہے (شايد اس لئے كہ الله نے آپ(ص) كو كفار كے شر سے نجات دي)_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ نہى مولوى وہ ہے جس كى مخالفت باعث عقاب ہو (مترجم) _
2_ كراجكى كى كتاب كنز الفوائد ص 205 _
306
چنانچہ ارشاد بارى تعالى ہے (الا تنصروہ فقد نصرہ الله اذ اخرجہ) يعنى اگر تم لوگوں نے رسول (ص) كى مدد نہ كى تو كوئي بات نہيں، الله اس كى مدد كرچكا ہے جب كافروں نے اسے نكال ديا تھا_ يہاں ضمير رسول(ص) كى طرف پلٹتى ہے_ بنابريں الله كى مدد فقط رسول(ص) الله كے ساتھ مختص ہوئي ہے_ ابوبكر تو بس طفيلى كى حيثيت ركھتے تھے_الله كى مدد كا حضرت ابوبكر كے شامل حال ہونا پيغمبر(ص) كے ساتھ ايك مقام پر موجود ہونے كى وجہ سے تھا_ اور يہ بات حضرت ابوبكر كى كسى فضيلت كو ثابت نہيں كرتي_ (1) بالفاظ ديگر الله كا حضرت ابوبكر كى حفاظت كرنا رسول(ص) الله كى حفاظت كے پيش نظر تھا، جيساكہ ہم عرض كرچكے ہيں_
ح: نزول سكينہ (اطمينان قلبي) كے بارے ميں بھى ان كا يہ دعوى باطل ہے كہ سكون حضرت ابوبكر پر نازل ہوا تھا_ حقيقت يہ ہے كہ سكينہ (سكون قلب) كا نزول فقط رسول(ص) الله پر ہوا كيونكہ اس سے قبل اور اس كے بعد كى سارى ضميريں رسول(ص) الله كى طرف پلٹتى ہيں اور اس بات پر سب كا اتفاق ہے_( تنصروہ، نصرہ، يقول، اخرجہ، لصاحبہ، ايدہ كے الفاظ ميں)_ بنابريں ايك ضمير كا كسى اور كى طرف پلٹنا خلاف ظاہر ہے اور قرينہ قطعيہ كا طالب ہے_
جاحظ كا بيان اور اس پر تبصرہ
جاحظ اور دوسروں نے مذكورہ باتوں پر تنقيدكى ہے_ (2) اور كہا ہے: ''كہ رسول(ص) خدا كو اطمينان قلبى كى ضرورت ہى نہيں تھى كہ اس كا نزول آپ(ص) پر ہوتا''_ گويا يہ لوگ چاہتے ہيں كہ اس بات كے بہانے، لفظ كو اس كے ظاہرى مفہوم سے جدا كريں_
ليكن ان كا دعوى غلط ہے كيونكہ:
الف: خدانے سورہ توبہ كى آيت 26 ميں جنگ حنين كے بارے ميں فرمايا ہے: (ثم انزل الله سكينتہ
--------------------------------------------------------------------------------
1_ دلائل الصدق ج 2 ص 405 _
2_ العثمانية ص 107 _
307
على رسولہ وعلى المؤمنين)يعنى الله نے اپنا سكينہ (اطمينان قلبي) اپنے رسول(ص) اور مومنين پر نازل كيا_ نيز سورہ فتح كى آيت 26 ميں ارشاد فرمايا ہے_ (فانزل الله سكينتہ على رسولہ و على المؤمنين) يعنى پس الله نے اپنے رسول(ص) اور مومنين پر سكينہ نازل كيا_
اسى طرح الله نے مومنين پرنزول سكينہ كے بارے ميں يوں ارشاد فرمايا ہے:( ھوالذى انزل السكينة فى قلوب المومنين ليزدادوا ايماناً) (1) يعنى الله ہى ہے كہ جس نے مومنين كے دلوں ميں اطمينان نازل كيا تاكہ ان كے ايمان ميں اضافہ ہو_
نيز يہ بھى فرمايا: (فعلم ما فى قلوبہم فانزل السكينة عليہم واثابہم فتحا قريبا) (2) يعنى الله نے ان كے دل كى بات جان لى پس ان پر اطمينان قلبى نازل كيا اور ان كو بطور انعام قريبى فتح عنايت كي_
بعض لوگ يہ سوال كرتے ہيں كہ حضرت ابوبكر كو سكون كى نعمت سے محروم كرنے كا راز كيا تھا؟ حالانكہ خدانے يہاں اپنے نبي(ص) پر اور ديگر مقامات پر نبى كريم اور مومنين پر اسے نازل فرمايا ہے؟
ميرى عرض يہ ہے كہ شايد اس كاجواب يوں ديا جائے كہ يہاں فقط رسول(ص) پر اس كا نزول كافى تھا كيونكہ آپ(ص) كى نجات ميں آپ(ص) كے ہم سفر كى بھى نجات تھى ليكن يہ ايك كمزور جواب ہے كيونكہ ''سكينہ'' اطمينان قلب كا موجب ہے اور پريشانى كے زائل ہونے كا باعث ہے_ نجات پانے اور بچ جانے سے اس كا كوئي سروكار نہيں_ يوں مذكورہ سوال تشنہ جواب ہى رہ جاتا ہے_
ب: سكينہ (اطمينان قلب) الله كى ايك نعمت ہے اور يہ ضرورى نہيں كہ نزول نعمت كے وقت پيغمبر اكرم(ص) اس كى ضد (نعمت كے فقدان) سے متصف ہوں_ اسى لئے ايك نعمت كے بعد دوسرى نعمت نازل ہوتى ہے_
ج: انہيں كہاں سے علم حاصل ہوا كہ رسول(ص) الله كو نزول سكينہ كى ضرورت نہ تھي؟ جبكہ آيت اس بات پر دلالت نہيں كرتي_بنابريں يہ آيت بھى جنگ حنين كے بارے ميں اترنے والى آيت كى طرح ''سكينہ'' كيلئے يہ اعلان كر رہى ہے كہ شديد خطرہ اب ٹل چكا ہے_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ فتح آيت 4 _
2_ سورہ فتح آيت 18 _
308
نيز رسول(ص) الله نے يہ كيوں نہيں سوچا كہ حضرت ابوبكر كے حزن، خوف و ہراس اور رونے كى وجہ كچھ اور ہے_ آپ(ص) اگرچہ يہ جانتے تھے كہ آپ(ص) كو آخر كار اس خطرے سے نجات مل جائے گى ليكن حضرت ابوبكر كى روش مشكلات اور مسائل پيدا كرے گى اور وہ آپ(ص) كيلئے ان مقاصد اور اہداف تك پہنچنے ميں تاخير كا باعث بنيں گے جن كا مرحلہ ابھى دور تھا_
د: علامہ طباطبائي كا نظريہ يہ ہے كہ اس آيت سے قبل الله كى طرف سے ان حالات ميں اپنے نبي(ص) كى مدد كا ذكر ہوا ہے جبكہ آپ(ص) كے ساتھ كوئي فرد ايسا نہ تھا جو آپ كى مدد كرسكتا_ اس مدد كى ايك صورت نزول سكينہ اور خدائي لشكروں كے ذريعے آپ(ص) كى تقويت تھي_لفظ (اذ) كا تين بار تكرار اس بات كى دليل ہے_ ان ميں سے ہرايك پہلے والے كى كسى نہ كسى صورت ميں توضيح كرتا ہے_ يہ لفظ اس مقام پر كبھى نصرت الہى كا وقت بيان كرنے كيلئے، كبھى آپ كى حالت بيان كرنے كيلئے اوركبھى اس حالت كا وقت بيان كرنے كيلئے استعمال ہوا ہے_ بنابريں خدائي لشكروں كے ذريعے اس شخص كى تائيد كى گئي جس پر سكون كا نزول ہوا تھا_(1)
محقق محترم سيد مہدى روحانى كہتے ہيں: ''چونكہ حضرت ابوبكر نے غم نہ كھانے اور خوف نہ كرنے كے بارے ميں رسول(ص) الله كے حكم كى تعميل نہ كي، اس لئے سكينہ كا نزول فقط رسول(ص) الله پر ہوا_ اور ابوبكر (اطمينان قلبى سے) محروم ہى رہے_ يہ اس بات كى دليل ہے كہ حضرت ابوبكر الله كے اس فضل وكرم كے اہل ہى نہ تھے''_
شيخ مفيد كا بيان اور اس كا جواب
شيخ مفيد اور ديگر افراد كہتے ہيں كہ اگر حضرت ابوبكر كا حزن اطاعت خدا كيلئے تھا تو رسول(ص) كو حق نہيں پہنچتا كہ وہ اطاعت الہى سے منع كريں_ بنابريں ايك راہ رہ جاتى ہے وہ يہ كہ مذكورہ عمل حرام تھا، اسى لئے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تفسير الميزان ج 9 ص 280 مطبوعہ بيروت_
309
رسول(ص) الله نے اس سے منع كيا_ (1)
حلبى وغيرہ نے اس كا يہ جواب ديا ہے كہ خدانے اپنے رسول(ص) سے كہا ہے (ولايحزنك قولہم) ان لوگوں كى باتوں سے محزون نہ ہو، يہاں خدا كے نبى كو حزن و پريشانى سے منع كرنا بس آپ(ص) كى دلجوئي اور آپ (ص) كو خوشخبرى دينے كيلئے تھا_ بالكل يہى حال نبي(ص) كى طرف سے ابوبكر كو منع كرنے كا تھا_ (2)
ہمارے خيال ميں حلبى كا جواب غير مناسب ہے_ اسكى وجہ يہ ہے كہ حضرت ابوبكر كا حزن اور الله كى مدد پر ان كاشك كوئي مستحسن اور قابل تعريف امر نہ تھا جسكى طرف رسول(ص) الله كا(ان الله معنا) كہنا اشارہ كر رہا ہے_ ان كو تو الله كى طرف سے اپنے پيغمبر(ص) كى مدد كا يقين حاصل ہوناچاہيئے تھا كيونكہ وہ ان واضح معجزات اور صريح نشانيوں كو ديكھ چكے تھے جن سے يہ ثابت ہوتا تھا كہ الله اپنے نبى كو جلد ہى مشركين كے شر سے نجات دے گا_
بنابريں يہ كہنا درست نہيں كہ يہ آيت ان كى تعريف و تمجيد ميں نازل ہوئي_ پس اس سے اس كا ظاہرى مفہوم ہى مراد لينا چاہيئے كيونكہ ظاہرى معنى سے ہٹ كر كسى اور معنى ميں استعمال كيلئے قرينے كى ضرورت ہوتى ہے_ بلكہ ہم نے جو كچھ عرض كيا وہ اس بات كا قرينہ ہے كہ يہى ظاہرى معنى ہى مراد ہے_
حضرت ابوبكر كے حزن كو نبى كريم(ص) كے حزن كے مشابہ قرار نہيں ديا جاسكتا_ جس كى طرف الله نے يوں اشارہ كيا ہے_(ولايحزنك قولہم) يعنى ان كى باتيں آپ(ص) كو دلگير و محزون نہ كريں_ اس كى وجہ يہ ہے كہ رسول(ص) خدا تو بس اس لئے محزون ہوتے تھے كيونكہ آپ اپنى قوم كى ہٹ دھرمى اور كفر وطغيان كے باعث اپنى دعوت اور دين اسلام كى راہ ميں مشكلات اور ركاوٹوں كا مشاہدہ كرتے تھے لہذا آپ(ص) اور حضرت موسى (ع) كو خدا كى جانب سے جو ممانعت ہوئي ہے وہ نہى تحريمى نہيں ہے بلكہ اس نہى كا مقصد آپ(ص) كى دلجوئي اور آپ(ص) كو اس بات كى بشارت دينا ہے كہ دين اسلام كو جلد فتح نصيب ہوگى نيز يہ بتاناہے كہ آپ(ص) دشمنوں كي
--------------------------------------------------------------------------------
1_ الافصاح فى امامة اميرالمومنين علي(ع) ص 119 و كنز الفوائد كراجكى ص 203_
2_ سيرت حلبى ج 2 ص 38_
310
بات پر توجہ نہ ديں اور ان كا غم نہ كھائيں كيونكہ وہ اس كے لائق نہيں ہيں_ لہذا يہاں نبى كريم(ص) كا حزن وغم آپ(ص) كے ايمان كى گہرائي اور فنا فى الله ہونے كى علامت ہے_ اس حزن كا قياس اس شخص كے حزن پر نہيں كيا جاسكتا جو فقط اپنى ذات كيلئے محزون ہوتا ہو_
قرآن كى آيات ہمارے عرائض پر صريحاً دلالت كرتى ہيں چنانچہ ايك آيت كہتى ہے كہ آپ(ص) اپنى قوم كو كفر كى طرف لپكتے ديكھ كر محزون ہوتے تھے_ ارشادہوتا ہے (ولا يحزنك الذين يسارعون فى الكفر) (1) يعنى كفر كى طرف سبقت كرنے والوں كو ديكھ كر آپ غمگين نہ ہوں_
اور دوسرى آيت كہتى ہے كہ آپ كا حزن ان كى طرف سے اپنى تكذيب كے باعث تھا فرمايا ہے (قدنعلم انہ ليحزنك الذى يقولون فانہم لايكذبونك) (2) يعنى ہم جانتے ہيں كہ آپ ان كى باتوں سے محزون ہوتے ہيں_
نيز ارشاد ہے: (ومن كفر فلا يحزنك كفرہ) (3) يعنى جو كافر ہوجائے اس كے كفر سے محزون نہ ہوں_ايك اور آيت يہ كہتى ہے كہ آپ اس لئے محزون ہوتے تھے كيونكہ لوگ الله كو چھوڑ كر دوسرى چيزوں كو پوجتے تھے_ چنانچہ ارشاد ہوا (فلا يحزنك قولھم انا نعلم ما يسرون وما يعلنون) (4) اس كے علاوہ ديگر آيات بھى موجود ہيں جو صاحب نظر افراد سے پوشيدہ نہيں_
خلاصہ يہ كہ ان آيات كى مثال اس آيت كى طرح ہے_ (فلا تذہب نفسك عليہم حسرات) (5) يعنى ان لوگوں پر افسوس كرتے كرتے خواہ مخواہ آپ(ص) كى جان نہ گھلے_
ان تمام باتوں كے ساتھ ساتھ يہ بھى عرض كرتا چلوں كہ اگر ہم حضرت ابوبكر كے حزن كى علت كو نہ بھى جان سكيں تب بھى ان كے حزن كو معصوم نبي(ص) كے حزن كى طرح قرار نہيں دے سكتے بلكہ ہميں تو نہى الہى كے
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ آل عمران 176 و سورہ مائدہ 41 _
2_ سورہ انعام آيت 33 _
3_ سورہ لقمان آيت 23 _
4_ سورہ ى س آيت 76 _
5_ سورہ فاطر آيت 8 _
311
ظاہرى معنى كوہى لينا چاہيئے يعنى ''حرمت حزن'' كيونكہ ظاہرى معنى سے صرف نظر كرنے كيلئے قرينے اور دليل كى ضرورت ہوتى ہے_
ايك جواب طلب سوال
آيات ومعجزات كا مشاہدہ كرنے كے باوجود جب حضرت ابوبكر محزون ہوئے بغير نہ رہ سكے اور صاحب يقين صابروں كا اجر حاصل كرنے كيلئے صبر نہ كرسكے تو پھر اگر انہيں اس رات اميرالمومنين(ع) كى جگہ بستر رسول(ص) پر سونا پڑتا تو پتہ نہيں ان كا كيا حال ہوتا؟ كيا وہ ان مشكل لمحات ميں قريش كے مكر كے سامنے گھٹنے نہ ٹيك ديتے اور ان كى طاقت وجبروت كے آگے ہتھيار نہ ڈال ديتے، يوں حالات بالكل پيچھے كى طرف پلٹ جاتے_
يہ سوال خود بخود سامنے آيا ہے اور شايد اس كا كم از كم مستقبل قريب ميں شافى جواب ہرگز نہ مل سكے_
سوال ديگر: كيا اس كے بعد ہم اس دعوے كى تصديق كرسكتے ہيں كہ حضرت ابوبكر اصحاب ميں سب سے زيادہ شجاع تھے؟
غزوہ بدر كى بحث كے دوران اس (دو سرے) سوال سے مربوط بعض پہلوؤں كا ذكر آئے گا انشاء الله تعالي_ لہذا اس بحث كو وہاں پر موقوف كرتے ہيں_
نبى كريم (ص) كى محافظت كى سخت مہم
ليكن يہاں يہ جاننا ضرورى ہے كہ ان كا يہ قول كس حد تك صحيح ہے كہ غار كى طرف جاتے ہوئے حضرت ابوبكر كبھى رسول(ص) الله كے آگے چلنے لگ جاتے تھے كبھى آپ(ص) كے پيچھے، نيز كبھى دائيں جانب اور كبھى بائيں جانب_ رسول(ص) خدا نے اس كى وجہ دريافت كى تو انہوں نے عرض كيا:'' اے الله كے رسول(ص) جب مجھے دشمن كے گھات كا خطرہ ياد آتا ہے تو آپ(ص) كے آگے ہوجاتا ہوں اور جب ان كے تعاقب كا خطرہ محسوس ہوتا ہے تو پيچھے چلا جاتا ہوں پھر كبھى دائيں اور كبھى بائيں چلنے لگتا ہوں مجھے آپ كے بارے ميں (دشمن كا) خطرہ محسوس
312
ہوتا ہے''_ (1)
يہ كلام نادرست ہے كيونكہ (ان معجزات الہيہ كا مشاہدہ كرنے كے باوجود جنہيں اس روايت كے راويوں نے ہى نقل كيا ہے) حضرت ابوبكر كا محزون ہونا اور خوف كھانا پيغمبر(ص) اسلام كى كدورت خاطر كا باعث بنا يہاں تك كہ آپ خدا كى طرف سے نزول سكينہ كے محتاج ہوئے_
اس بات سے قطع نظر، دشمن كى طرف سے گھات كا خوف معقول نہيں كيونكہ قريش مطمئن تھے كہ رسول(ص) الله ان كے محاصرے ميں ہيں اور آپ(ص) ان كے مكر وفريب سے بچ كرہرگز نہيں نكل سكتے پھر حضرت ابوبكر كے پاس كونسا اسلحہ تھا جس كے ذريعے وہ اپنى يا رسول(ص) الله كى كسى طرح حفاظت كرتے؟
ان باتوں كے ساتھ اس بات كا بھى اضافہ كرتا چلوں كہ حضرت ابوبكر احد، حنين اور خيبر ميں بھاگ گئے تھے_ جس كا ہم آگے چل كر انشاء الله مشاہدہ كريں گے_ ان كے علاوہ حضرت ابوبكر كى جانب سے كسى شجاعانہ اقدام كا كوئي نام ونشان دكھائي نہيں ديتا_البتہ ہميں يہ محسوس ہوتا ہے كہ در اصل جناب ابوبكر دائيں بائيں اور آگے پيچھے اس لئے پھرتے تھے كہ انہيں دلى اطمينان اور مقام امن كى تلاش تھى جو انہيں تو نہيں مل سكى ليكن واقعہ كو تحريف كركے دوسرے رخ كے ساتھ پيش كيا گيا_
حضرت ابوبكر كى پرزور حمايت كا راز
ہميں تو تقريباً يقين حاصل ہے كہ ان كوششوں كا مقصد حضرت ابوبكر كى شان ميں اس فضيلت كى كمى كو پورى كرنا ہے جو بستر رسول(ص) پر سونے كى وجہ سے حضرت علي(ع) كو حاصل ہوئي اور جس پر الله تعالى نے فرشتوں سے اظہارمباہات كيا تھا_ جيساكہ ہم آگے چل كر ذكر كريں گے انشاء الله تعالي_
من يشرى نفسہ ابتغاء مرضات الله :
روايت ہے كہ الله تعالى نے جبرئيل (ع) اور ميكائيل (ع) سے كہا ميں نے تم دونوں كو ايك دوسرے كا بھائي قرار
--------------------------------------------------------------------------------
1_ تاريخ الخميس ج 1 ص 326 اور سيرت حلبى ج 2 ص 34 _
313
ديا_ اور ايك كى عمر دوسرے سے زيادہ قرار دى اب تم دونوں ميں سے كون ہے جو اپنے ساتھى كو اپنے اوپر ترجيح دے تاكہ وہ زيادہ زندہ رہے؟ جواباً ان دونوں نے زندہ رہنے، كى خواہش كي_
اس وقت پروردگارعالم نے ان سے فرمايا كيا تم دونوں على ابن ابيطالب(ع) جيسے نہيں بن سكتے؟ ميں نے اس كے اور محمد(ص) كے درميان بھائي چارہ قائم كيا_ پس وہ اس پر اپنى جان قربان كرنے كيلئے اس كے بستر پر سوگيا اور اس كى زندگى كو اپنى زندگى پر ترجيح دى ہے اب تم دونوں زمين پر اترجاؤ اور دشمنوں سے اس كى حفاظت كرو_
چنانچہ وہ دونوں زمين پر اترآئے_ جبرئيل(ع) ان كے سركى جانب اور ميكائيل ان كے پيروں كى طرف، جبرئيل(ع) يہ پكار رہے تھے ''شاباش ہو آپ جيسے افراد پر يا علي(ع) ابن ابيطالب _الله تمہارى وجہ سے فرشتوں كے سامنے فخر ومباہات كرتا ہے_ اس وقت الله كى جانب سے يہ آيت نازل ہوئي:
(ومن الناس من يشرى نفسہ ابتغاء مرضات الله ، والله رؤوف بالعباد) (1)
--------------------------------------------------------------------------------
1_ سورہ بقرہ آيت 207 اور روايت كيلئے رجوع كريں اسد الغابة ج 4 ص 25 و المستجاد (تنوخي) ص 10 و ثمرات الاوراق ص 303 و تفسير البرہان ج 1 ص 207 و احياء العلوم ج 3 ص 258 و تاريخ يعقوبى ج 2 ص 39 و كفاية الطالب ص 239 و شواہد التنزيل ج 1 _ص 97 و نور الابصار ص 86 و فصول المہمة (ابن صباغ مالكي) ص 31 و تذكرة الخواص ص 35 از ثعلبى و تاريخ الخميس ج 1 ص 325 اور 326، بحار ج 19 ص 39 و 64 اور 80 ثعلبى سے كنز الفوائد سے نيز از فضائل احمد ص 124_125، از الروضة ص 119، المناقب خوارزمى ص 74، ينابيع المودّة ص 92 از ابن عقبہ ، نيز حبيب السير ج2 ص 11 ميں كہا گيا ہے كہ يہ واقعہ تاريخ اور سيرت كى اكثر كتابوں ميں مذكور ہے _ التفسير الكبير ج5 ص 204 ، الجامع لاحكام القرآن ج3 ص 21 ، سيرت حلبى ج3 ص 168 ، سيرہ نبويہ دحلان ج1 ص 159 ، فرائد السمطين ج1 ص 330 ، مستدرك حاكم ج 3 ص4 نيز اسى كے حاشيہ پر تلخيص مستدرك ذہبى بالكل اسى صفحہ پر ، مسند احمد ج1 ص 331 ، دلائل الصدق ج2 ص 81 _ 82 ، المواہب اللدنيہ ج1 ص 60 ، اللوامع ج2 ص 376 ، 375 ، 377 از مجمع البيان ، المباني، ابونعيم ،ثعلبى و غيرہ و از البحر المحيط ج2 ص 118 نيز معارج النبوة ج1 ص 4 و مدارج النبوة ص 79 ، روح المعانى ج2 ص 73 از اماميہ و ديگر افراد، نيز از مرآة المؤمنين ص 45 ، امتاع الاسماع ص 38 ، مقاصد الطالب ص 7 و سيلة النجاة ص 78 ، المنتقى كا زرونى ص 79 مخطوط و ديگر معروف و غير معروف كتب_ اور امالى شيخ طوسى ج 2 ص 84 سے نقل كيا ہے_ ابن شہر آشوب كا كہنا ہے كہ اس حديث كو ثعلبى نے نيز ابن عاقب نے ملحمہ ميں، ابوالسعادات نے فضائل عشرہ ميں اور غزالى نے احياء العلوم اور كيمياء السعادة ميں (عمار سے) روايت كيا ہے علاوہ ازيں ابن بابويہ، ابن شاذان، كليني، طوسي، ابن عقدہ، برقي، ابن فياض، عبدلي، صفوانى اور ثقفى نے اپنى اسناد كے ساتھ ابن عباس، ابورافع اور ھند ابن ابوھالہ سے روايت كيا ہے_ نيز رجوع كريں الغدير ج 2 ص 48 ( گذشتہ بعض منابع سے )نيز نزھة المجالس ج 2 ص 209 (از سلفي) محمودى نے شواہد تنزيل كے حاشيہ ميں، مذكورہ مآخذ ميں سے نيز ابوالفتوح رازى (ج 2 ص 152) و غاية المرام باب 45 ص 346 سے نقل كيا ہے اسى طرح سيرت مغلطاى ص 31، المستطرف اور كنوز الحقائق ص 31 ميں بھى اس كى طرف اشارہ ہوا ہے_
314
لوگوں ميں و ہ بھى ہے جو رضائے الہى كى طلب ميں اپنى جان كا سودا كرتا ہے_ ايسے بندوں پر الله بہت مہربان ہے_
اسكافى كہتے ہيں كہ: تمام مفسرين نے روايت كى ہے كہ (ومن الناس من يشرى نفسہ ابتغاء مرضات الله ) والى آيت شب ہجرت حضرت علي(ع) كے بستر (رسول(ص) ) پر سونے كے بارے ميں اترى ہے_(1)
جھوٹے كامنہ كالا
يہيں سے فضل ابن روزبہان كے اس جھوٹ كا بھى پول كھل جاتا ہے كہ اكثر مفسرين نے كہا ہے كہ يہ آيت زبير اور مقداد كے بارے ميں نازل ہوئي ہے جب رسول(ص) الله نے ان كو اس لئے مكہ بھيجا تھا كہ وہ خبيب بن عدى كو پھانسى كے تختے سے اتاريں_ اس تختے كے اردگرد چاليس مشركين موجود تھے ليكن ان دونوں نے جان ہتھيلى پر ركھ كر اسے اتارا چنانچہ يہ آيت نازل ہوئي_
اس بات كى تكذيب اسكافى كے مذكورہ بالا بيان كے علاوہ ان مآخذ سے بھى ہوتى ہے جن كا ذكر اس آيت كے حضرت علي(ع) كى شان ميں اترنے كے بيان ميں ہوا ہے_
شيخ مظفر فرماتے ہيں كہ مفسرين نے اس بات (فضل كى بات ) كا ذكر نہيں كيا يہاں تك كہ سيوطى رازى اور كشاف نے بھى اس كا تذكرہ نہيں كيا حالانكہ رازى نے اپنى تفسير ميں ان كے تمام اقوال كو جمع كيا ہے اور سيوطى نے ان كى تمام روايات كو_
الاستيعاب ميں ''خبيب'' كے حالات زندگى ميں مذكور ہے كہ جس شخص كو رسول(ص) الله نے (خبيب) كى لاش اتارنے كيلئے بھيجا وہ عمر بن اميہ ضمرى تھے_ (2) اس پرمزيد تحقيق آئندہ بيان ہوگي_
--------------------------------------------------------------------------------
1_ رجوع كريں شرح نہج البلاغة ج 13 ص 262 _
2_ رجوع كريں دلائل الصدق ج 2 ص 82 _
|