3
الصحيح من سيرة النبى الاعظم(ص)

دوسرى جلد
مؤلف: جناب حجة الاسلام والمسلمين سيد جعفر مرتضى عاملى (ادام اللہ توفيقاتہ)
مترجم:
معارف اسلام پبلشرز

4

مؤلف: علامہ محقق جناب حجة الاسلام والمسلمين سيد جعفر مرتضى عاملى (ادام اللہ توفيقاتہ)
مترجم:معارف اسلام پبلشرز
ناشر:نور مطاف
جلد: دوسري
اشاعت:دوم
تاريخ اشاعت:شوال المكرم 1425 ھ _ق
تعداد: 2000
Web : www.maaref-foundation.com
E-mail: info@maaref-foundation.com
جملہ حقوق طبع بحق معارف اسلام پبلشرز محفوظ ہيں _

5
بسم اللہ الرحمن الرحيم
و صلى اللہ على محمد و آلہ الطاہرين و لعنة اللہ على اعدائہم اجمعين
و لكم فى رسول اللہ اسوة حسنة

مقدمہ
عالم خلقت ميں برترين اور كامل ترين طرز زندگى كا نمونہ بوستان زندگى كے وہ گل ہيں جن كى سيرت پورے عالم كيلئے پيروى كابہترين نمونہ ہے _ اس گلستان ميں سيرت كے اعتبار سے سب سے ممتاز اور درخشندہ ہستى پيغمبر اكرم حضرت محمد(ص) كى ذات مباركہ ہے كہ پيروى اور اطاعت كيلئے ان سے زيادہ بہتر ہستى پورى كائنات ميں نہيں مل سكتى _
يہ كتاب'' الصحيح من سيرة النبى الاعظم '' ، علامہ محقق جناب حجة الاسلام والمسلمين سيد جعفر مرتضى عاملى (ادام اللہ توفيقاتہ) كى قيمتى اور گراں بہا تاليف ہے جس ميں ختمى مرتبت (ص) كى سيرت طيبہ كو بيان كيا گياہے_
اس كتاب ميں آپ (ص) كى سيرت طيبہ كے تمام پہلوؤںپر تحقيقى گفتگو كى گئي ہے اور انہيں دقيق و منصفانہ تجزيہ و تحليل كے ذريعہ خود غرضي، تنگ نظرى اور محدود فكرى كے گھٹا ٹوپ اندھيروں سے نكال كر تحقيق كے روشن و منور مقام پر لاكر منظر عام ميں پيش كيا گيا ہے _ علامہ موصوف كى يہ كتاب اہل تحقيق حضرات كيلئے باعث حيرت و دلچسپى واقع ہوئي ہے اور ان كى جانب سے علامہ كى اس كاوش كى تعريف و توصيف كى گئي ہے اور يہ كتاب عالم اسلام ميں بہت مقبول ہوئي ہے _

6
معارف اسلام پبلشرز خداوند متعال كا شكرگزار ہے كہ اپنے اصل فرائض (يعنى اردو زبان جاننے والوں كى ضروريات كے مطابق،اخلاق ، عقائد، فقہ، تفسير، تاريخ اور سيرت جيسے اہم اور ضرورى موضوعات پر مختلف كتابوں كے ترجمہ اور نشرو اشاعت كے فرائض)كو انجام ديتے ہوئے، ايك طولانى انتظار كے بعد اللہ تعالى كى توفيق سے اس كتاب '' الصحيح من سيرة النبى الاعظم'' كى دوسرى جلد كو اہل تحقيق و مطالعہ اور حق كے متلاشى افراد كى خدمت ميں پيش كررہاہے _ اميد ہے كہ يہ كوشش خداوند متعال كى بارگاہ اور ولى خدا امام زمانہ حضرت حجة ابن الحسن العسكرى (عج) كے نزديك مقبول قرار پائے_
آخر ميں اس نكتہ كا ذكر بھى فائدہ سے خالى نہيں ہے كہ يہ ترجمہ عربى متن كى آخرى چاپ كے ساتھ كاملا مطابقت ركھتاہے اور اس كے مطالب وموضوعات كى ترتيب ميں جو تبديلياں ہوئي ہيں اور منابع كى تكميل كى گئي ہے اس ترجمہ ميں ان كا مكمل خيال ركھا گيا ہے لہذا ہم ان تمام فاضل شخصيات اور محققين محترم كے تہ دل سے شكرگزار ہيں جنہوں نے اسكے ترجمے، تصحيح ، نظر ثانى اور بالخصوص مطابقت والے طاقت فرسا كام كو انجام ديا ہم خداوند عالم سے اپنے اور ان كے لئے مزيد توفيقات اور امداد كے طالب ہيں_

و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمين
معارف اسلام پبلشرز

7
بسم اللہ الرحمن الرحيم
الحمدلله رب العالمين، الرحمن الرحيم، مالك يوم الدين، اياك نعبد
و اياك نستعين، اہدنا الصراط المستقيم
والصلاة والسلام على محمد المصطفي، خاتم الأنبياء والمرسلين،
وآلہ الكرام البرزة الطيبين الطاہرين
واللعنة على أعدائہم أجمعين، من الأولين والآخرين ، الى يوم الدين و بعد

چند اہم نكات
ہم اپنى اس تحقيق و تاليف كو محترم قارئين كى خدمت ميں پيش كررہے ہيں لہذا چند اہم نكات كى جانب اشارہ كرنا ضرورى سمجھتے ہيں_
1 _ اكثر و بيشتر ، بنيادى طور پر ہم نے اپنى اس كتاب ميں قدماء كى تأليفات كو پيش نظر ركھا اور ان كى جانب رجوع كيا ہے_ ہم عصر مؤلفين كى كتابوں كى جانب كم رجوع كرنے كى وجہ يہ ہے كہ ان ميں سے زيادہ تر كتابيںصرف مطالب اور ابواب كى ترتيب ميں فرق كے ساتھ عموماً اسلاف كے مطالب كا تكرار ہيں ، اور پھر اسلاف كے مطالب ہى كى توجيہ اور اس پر گفتگو كى گئي ہے _ انہوں نے اپنى سارى كوششوں كو اس بات ميں صرف كيا ہے كہ حسين عبارتوں اور پر كشش كلمات كے ذريعہ اسلاف كے لكھے ہوئے مطالب كى تاييد اور اسى پر تاكيد كى جائے اور ان مطالب كے صحيح يا غلط ہونے كے بارے ميں انہوں نے كوئي غور و فكر ہى نہيں كيا اور اس سلسلہ ميں كسى قسم كى كوئي تحقيق انجام نہيں دى _يہاں تك كہ انہوں نے اپنى كتاب كے قارئين كو يہ تأثر دينے كى كوشش كى ہے كہ گويا اسلاف كے يہ مطالب جو انہوں نے حسين اور عمدہ عبارتوں ميں بيان كئے ہيں وحي الہى ہيں جن ميں شك و شبہ كى كوئي گنجائشے نہيں _

8
چاہے يہ مطالب جتنا بھى آپس ميں متضاد و متناقض ہوں پھر بھى ان سب كو جمع كرنا انہوں نے ضرورى سمجھا اور اس كيلئے ايسى توجيہات تراشى ہيں جنہيں عقل سليم تسليم نہيں كرتى اور نہ ہى انسان كا ضمير اسے قبول كرتاہے _ اس كے علاوہ اسلاف كے جن مطالب كى وہ توجيہ نہيں كر سكے يا كسى طرح ان كى متضاد باتوں كو جمع كرنے ميں ناكام رہے ہيں وہاں انہوں نے خاموشى اختيار كى اور يہ اعتراف كيا ہے كہ يہاں حقيقت حال كو سمجھنے سے وہ عاجز و قاصر ہيں اور يہ ايمان كى انتہائي كمزورى ہے _
2 _اس كتاب ميں ہمارى يہ كوشش رہى ہے كہ ان تمام مطالب كے صحيح يا غلط ہونے كے بارے ميں تحقيق كريں جن كے تاريخ اسلام اور سيرت نبوى (ص) ہونے كا دعوى كيا گيا ہے ليكن يہ تحقيق ہمارى اس مختصر تصنيف كے مطابق كى گئي ہے جس كا مقصد يہ ہے كہ بقدر امكان قارئين كو اس تاريخى دور كے حقائق سے تقريباً نزديك كرديا جائے جو انتہائي نازك اور حساس واقعات سے پر نظر آتاہے_ يہ وہ دور ہے جو بنيادى طور پر ہميشہ اہل دنيا، نفس پرست و منفعت طلب افراد اور متعصب لوگوں كى نظر ميں بڑى اہميت كا حامل رہاہے _
بلكہ اگر يہ كہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا كہ يہ تاريخ انسانيت كا سب سے اہم ترين اور خطرناك ترين دور گزرا ہے كيونكہ اس دور نے نہ فقط انسانى معاشرے كى غلط بنيادوں اور تمام انسانوں كى جاہلانہ اقدار و رسومات كى اصلاح كى بلكہ بنى نوع انسان كى تاريخ كو يكسر بدل كر ايك نئے مرحلے ميں داخل كرديا_
اگر چہ اس دور كى تاريخ كو رقم كرنے كيلئے حقيقتاً انتہائي زحمت و مشقت كى ضرورت ہے ليكن اس كى ضرورت اور اہميت كے پيش نظر (خصوصاً اس صورت ميں كہ تمام جوانب سے بحث كامل نہيں )ہم نے اس كام كو انجام دينے كى سعى و كوشش كى ہے اگر چہ ناقص ہى سہى البتہ_ ہمارى يہ كوشش و كاوش ، اہم تاريخى و اقعات اور حوادث كو گہرائي كے ساتھمكمل طور پر تحقيقى انداز ميں سمجھنے كى جانب پہلا قدم اور سنگ ميل ہے _
3 _ اس كتاب ميں مكمل طور پر تمام پہلوں سے بحث كرنے كى روش ميں ممكن ہے كبھى قارئين نقائص پائيں اور نشيب و فراز كا مشاہدہ كريں جس كى وجہ يہ ہے كہ يہ كتاب ايك طولانى عرصہ ميں ترتيب دى گئي ہے اور اس اثناء ميں انسان كى بہت سارى مصروفيات مانع ہوجاتى ہيں كہ وہ اپنے وقت سے استفادہ كرتے ہوئے اپنے كام كو كامل ، افضل اور بے مثال طريقہ سے انجام دے سكے _ طبيعى ہے، كہ طولانى مدت ميں انسان پر عارض ہونے والے مختلف حالات واضح طور پر انسان كى تحرير پر اثر انداز ہونے كا باعث بنتے ہيں اور نتيجتاً اس كى جانب سے پيش كئے جانے والے مطالب اور ان كے بيان كرنے كى روش ميں تھوڑا سا تفاوت پايا جائے _

9
4 _ ہم مشاہدہ كرتے ہيں كہ تاريخ اسلام نے بہت سے ايسے واقعات نقل كئے ہيں جنہيں ہوا و ہوس كى پيروى كرنے والوں اور سياسى و مذہبى مفاد پرستوں نے اپنا كھلونا بناليا _ اہل كتاب اور ديگر افراد كى جانب سے بھى بعض جھوٹے ، باطل اور من گھرٹ قصے شامل كردئے گئے اور پھر گناہ گار اور دشمن عناصر كى جانب سے تاريخ ميں تحريف اور تبديلى كى كوششيں كى گئي ہيں جن كى بناپر بعض اوقات حقائق تك پہنچنا،ناممكن نہ سہى تو حد درجہ دشوار ضرور ہوجاتاہے _ لہذا ہم نے مندرجہ ذيل نكات اور اصولوں كو اپنانا ضرورى سمجھا_
الف: خاص قسم كى تأليفات اور مؤلفين پر انحصار كرنا كبھى كبھى سبب بنتاہے كہ قارئين ان نصوص كے بارے ميں مطلع نہ ہوسكيں جو يہاں وہاں مختلف منابع ميں پھيلى ہوئي ہيں اور حقائق سے پردہ اٹھاسكتى ہيں اور ايك حد تك تحريف سے بچ كر ہم تك پہنچى ہيں _كيونكہ تحريف گر سياست دانوں نے ان ميں كوئي خطرہ محسوس نہيں كيا اور مذہبى تعصب ركھنے والوں كو اس ميں كوئي نقصان نظر نہ آيا اور وہ روايات ہم تك پہنچ گئيں اور حقيقت كے متلاشى اور حق شناسى كے عاشق( جو اگر چہ بہت كم ہيں ليكن وہ )متعصبين كے شر و سازش او رپيشہ ور بلوائيوں كے غضب و شرارت سے محفوظ و مأمون رہ كر ان روايات سے استفادہ كرسكتے ہيں _
ب : ان حالات ميںہم نے يہ مشاہدہ كيا كہ روايتوں كى اسناد سے بحث اور نتيجتاً ان كو قبول يا رد كرنے كے سلسلہ ميں ايك خاص معيار پر اعتماد كرنے كا مطلب يہ ہے كہ بہت ہى كم روايات پر اكتفا كيا جائے جو بہت كلى اور اجمالى مطالب اور پيغمبر اكرم (ص) كى اجمالى سيرت مباركہ كے تصور كيلئے بھى ناكافى ہيں چہ جائيكہ وہ اسلام كے ابتدائي دور كے واقعات كى تفصيلات كو بيان كرسكيں _ جبكہ ہم بہت سى ايسى نصوص ديكھتے ہيں جو صحيح ہيں ليكن وہ سند قبول كرنے كى بيان كردہ شرائط پہ پورى نہيں اترتيں_
اس كے علاوہ تحقيق كرنے والا شخص اگر ان محدود روايات پر اكتفاء كرے تو آزادانہ تحقيق نہيں كرسكتا اور نہ ہى آزادى كے ساتھ كسى نتيجے تك پہنچ سكتاہے _اس كے (زمانے ، حالات اور مختلف سياسى اور فكرى خطوط كو سمجھنے كے لئے طويل مشقوں كے بعد حاصل ہونے والے ) عميق ادراك و فہم كو ہر قسم كى مؤثر فعاليت سے كنارہ كشى كرنا پڑے گى جو تاريخى حقائق كو سمجھنے اور منكشف كرنے كيلئے ضرورى ہے تا كہ وہ حقائق ،ابہام كے سياہ پردوں ميں چھپ نہ جائيں_
اس كے علاوہ رجالى بحث كرنے كيلئے ايك شخص كو ايسى بہت سارى مشكلات كا سامنا كرنا پڑے گا اور اس كيلئے ضرورى ہوجائے گا كہ وہ ان پر غلبہ پائے تب وہ سندى بحث كرسكتا ہے كہ كون سى بحث و سند ارباب فكر اور اساطين علم كے نزديك مقبول و معقول ہے _
ان مشكلات ميں سے ايك بڑى مشكل وہ معيار و ضوابط ہيں جنہيں قبول يا رد كرنے كے ميزان كے طور پر پيش

10
كيا گيا ہے جن ميں سے بعض كى بنياد ان كے اپنے محدود عقائد ہيں _ان ميں بہت سارى ابحاث ايسى ہيں جو اگر انسان كے كسى نتيجے تك پہنچنے سے مانع نہ بھى ہوں تو كم از كم انسان كيلئے بے انتہا مشقت اور طويل وقت كے صرف كرنے كا باعث بنتى ہيں_
بعض لوگوں كى طرف سے تو يہ اصرار ہوتاہے كہ بس ان كے محدود نظريات كے مطابق راہ اختيار كى جائے (خصوصاً عقائد كے مسئلہ ميں )چاہے ان كے نظريات حقيقت كے ساتھ ہم آہنگ نہ بھى ہوں _ اس قسم كے افراد كے بارے ميں ہم صرف يہى كہتے ہيں كہ خداوند متعال ہوا پرستى ، تعصب اور شخصى و گروہى منافع كے پيچھے دوڑنے كى صفت سے نجات عطا فرمائے_
اسى وجہ سے ہم نے يہاں اگر سندى بحث كى بھى ہے تو وہ اس مقبول و معروف قاعدہ كى بناپر ہے : '' الزموہم بما الزموا بہ انفسہم'' يعنى مد مقابل كو اسى چيز كے ذريعہ قائل كرو جس كا وہ خود پابند و قائل ہے _ يا پھر ان بعض طريقوں كے ذريعہ بحث كى ہے جنہيں تمام نہيں تو اكثر فرقے اور گروہ قبول كرتے ہيں اور ان كے ذريعہ انسان ايسے نتائج تك پہنچ جاتاہے جو سب كے نزديك قابل قبول ہيں، چاہے ان كو قبول كرنے كى دليل ميں مختلف زمانوں ميں ان كے درميان اختلاف پايا جاتا رہاہو_
ج: ہم نے اسلام كے بنيادى اصولوں ، قرآن كريم اور پيغمبر اكرم(ص) كے اخلاق حسنہ اور آپ (ص) كى شخصيت سے كچھ ايسے اصولوں كو حاصل كيا ہے جو روايات كے قبول اور رد كرنے كا معيار ہيں اور انہى كے ذريعہ نقل كى جانے والى اكثر روايات كى حيثيت واضح ہوجاتى ہے كہ يہ كس قدر ان مسلم اور بنيادى اصولوں كے ساتھ ہم آہنگ ہيں اور يہى وہ طريقہ ہے جس كے ذريعہ تمام شخصيات كى سيرت، ان كے اخلاق ، ان كے نظريات اور ان كے موقف كو سمجھا جاسكتاہے_
د: اس كے علاوہ ہم نے تاريخى بحث كے مختلف وسائل اور طريقوں سے استفادہ كيا ہے جن كيلئے بہت تمرين و ممارست كى ضرورت ہوتى ہے جيسے نصوص كے تعارض ميں بحث كرنا _ يا دقيق تاريخى محاسبات كى روشنى ميں تاريخى اعتبار سے كسى واقعہ كے ممكن ہونے كى بحث كرنا اور ديگر وہ طريقے جن سے ہم نے تاريخى ابحاث ميں استفادہ كيا ہے اور ہمارے قارئين مطالعہ كے دوران ان كى طرف متوجہ ہوجائيں گے_
5_ مجموعى طور پر مسلمانوں نے تاريخ اسلام كى تدوين ميں بہت اہتمام كيا ہے اور ديگر اقوام وامتوں ميں اس كى نظير نہيں ملتى _ بہر حال تمام نقائص اور وارد ہونے والے اعتراضات كے باوجود حق يہ ہے كہ انہوں نے امت اسلاميہ كى تاريخ كو رقم كيا اور اسے مستغنى كرديا ہے _
تاريخى واقعات كے تمام جوانب اور پہلوؤں سے بحث كرنا ايك مشكل كام ہى نہيں بلكہ ہمارے لئے ناممكن تھا،

11
لہذا ہم نے تاريخ كو رقم كرنے ميں ان جوانب سے بحث كى ہے جس كے ذريعہ انسان پيغمبر اكرم(ص) كى حيات طيبہ كو تقريباً سمجھ سكتاہے اور اس بارے ميں حقائق سے آشنا ہوسكتاہے_
6 _ قارئين محترم كيلئے يہ واضح ہوجائے گا كہ ہم نے اپنى اس كتاب ميں جتنے كم سے كم حوالوں ،شواہد ،دلائل اور ان كے منابع كى ضرورت تھى اسى پر اكتفا كيا ہے اگر چہ كتاب كے مطالب و حقائق كى تاييد اور ان پر تاكيد كيلئے اور بھى زيادہ حوالوں اور شواہد كا اضافہ كيا جاسكتا تھا_
7_ ہم نے جس نكتہ سے استفادہ كيا يا جس دليل سے استدلال كيا اسے اس كے قائل ، لكھنے والے يا نقل كرنے والے كى طرف منسوب كيا ہے اس كے علاوہ وہ نكات يا افكار جن كے كوئي منابع ذكر نہيں كئے گئے وہ ہمارى اپنى فكر اور ہمارے اپنے نكات ہيں _
8_ آخر ميں ہم يہ عرض كرنا چاہتے ہيں كہ بعض مواقع پر جب فكرى نشاط حاصل رہى تو ہم نے فرصت سے استفادہ كرتے ہوئے بعض واقعات ميں ان كى تفسير يا ان پر تنقيد و اعتراضات سے گريز نہيں كيا ، اگر چہ اكثر اوقات ہمارى بحث اس جہت سے كامل نہ رہى كيونكہ اكثر اوقات اختصار كے ساتھ اس بحث كو سميٹ ليا گيا ليكن پھر بھى وہمقامات جہاں اس جہت سے كچھ گفتگو كى گئي ہے قارئين محترم كيلئے باعث تسكين و رضايت ہوں گے جيسا كہ خود لكھنے والے كيلئے ثابت ہوئے ہيں_ اب كتاب كے قارى كو حق حاصل ہے كہ ان استدلالى ابحاث كو پڑھنے كے بعد چاہے اس كى حمايت ميں اور چاہے تو اس كى مخالفت ميں قضاوت كرے اور اگر اس كا فيصلہ ہمارے حق ميں ہوگا تب بھى اسے يہ اختيار حاصل ہے كہ اس كتاب كى گہرائي، دقت اور خوبصورتى ميں مزيد اضافہ كرے _
ہمارے ان عرائض كے اختتام پر قارئين محترم سے ہمارى گزارش ہے كہ وہ اپنى آراء و مشوروں اور تنقيد و اعتراضات سے آگاہ كركے شكريہ كا موقع ديں گے_

والحمد للہ والصلاة والسلام على عبادہ الذين
اصطفى محمد و آلہ الطيبين الطاہرين
والسلام
جعفر مرتضى حسينى عاملي