''اخلاق وسیرتِ'' ختمی مرتبت نازشِ کون ومکاں
حضرت محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
 

۷۔ رسول اسلام ۖ کی سیرت میں ساد گی
مال غنیمت کو دیکھہ کر آپ ۖ کی بعض ازواج نے کہا یا رسول اللہ ۖ اس میں ہمارا بھی حق ہے، ہمیں بھی دیجئے، سب لوگ عیش کی زندگی گذار رہے ہیں، آخر ہماری کیا خطا ہے؟(اگر اس وقت میں وہاں موجود ہوتا تو جواب دیتا کہ تمھاری سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ تم بد نصیبی کے جھنجال سے نکل کر خوش نصیبی کی وادیوں میں آگئیں اور رسول اسلام ۖ کی زوجہ محترمہ بن کو ام المومنین کے لقب سے نوازدی گئیں)
لیکن حضور ۖکا جملہ دیکھئے آپ ۖ نے جواب دیا کہ:'' میری زندگی سادگی کے سوا کچھ نہیں ہے ، اگر تم کو سادہ لوحی پسندہے تو میری زوجیت میں رہو ورنہ میں طلاق دینے کو تیار ہوں'' (١)
حضوراکرم ۖ ایک مرتبہ جناب فاطمہ زہرا کے بیت الشرف میں تشریف لائے تو آپ ۖ نے دیکھا کہ جناب فاطمہ نے اپنے ہاتھ میں دستبند(کنگن) پہن رکھا ہے اور گھر میں نیا پردہ لٹکا رکھا ہے تو آپ ۖ نے فاطمہ زہرا سے کوئی بات نہیں کی اور کچھ بات کئے بغیر خاموشی سے واپس ہوگئے،مزاج رسالت شناس ''فاطمہ زہرا '' سمجھ گئیں کہ بابا کس لئے ناراض ہوکر واپس چلے گئے، فوراََ پردہ کو اتارا ہاتھ سے کنگن اتارا اور حضور ۖ کی خدمت میں بھیج دیا اور فرمایا بابا! جیسا آپ بہتر سمجھیں ان چیزوں کا استعمال کریں(٢)

٨۔ حضور ۖ کا ہمسایوں کے ساتھہ اخلاق
حضور سرور کائنات ۖ غذا نوش فرمانے سے پہلے یہ دیکھتے تھے کہ ہمارا ہمسایہ تو بھوکا نہیں ،ایسا نہ ہو کہ ہم شکم سیر ہو کر سوئیں اور ہمارا ہمسایہ بھوکا سوئے ،اگر ایسا ہوا تو ہم خدا کو کیا جواب دیں گے ؟
آپ ۖ خود فرماتے ہیں :کہ جبرئیل امین نے مجھے ہمسایہ کے بارے میں اتنی زیادہ تاکید کی کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ اب یہ میری وراثت میں بھی ہمسایہ کو شامل کردیں گے(٣)
……………………………………
(١)سیرۂ پیامبر اکرم ۖ: ص٤١
(٢)سیرۂ پیامبر اکرم ۖ:ص٤٢۔اعلام الدین:ص٢٦٣
(٣)سیرۂ پیامبر اکرم ۖ:ص٤٢۔ اعلام الدین:ص٢٦٣
٩۔ آنحضرت ۖ کا دوستوں کے ساتھہ اخلاق
دوستوں کی احوال پرسی کرنا ،اور ان کی خبر لینا بھی اخلاق حسنہ کی ایک شاخ ہے ،جو دوستوں کے دلوں کی دریائے محبت میںاور زیادہ موجیں لے آتا ہے ۔
پیغمبر خدا ۖ کبھی بھی اپنے دوستوں سے غافل نہیں رہتے تھے ،بلکہ ہمیشہ رابطہ رکھتے تھے۔
مولا علی ـفرماتے ہیں : اگر آپ ۖ تین دن تک کسی برادر دینی کو نہیں دیکھ پاتے تھے تو اس کی تلاش میں نکل جاتے تھے،اگر معلوم ہوتا تھا کہ وہ سفر میں ہے تو سلامتی کی دعا فرماتے تھے ،اگر شہر میں موجود ہوتا تھا تو فوراََ اس کی احوال پرسی اور دیدار کے لئے تشریف لے جاتے تھے اور اگر بیمار ہوتا تھا تو اس کی عیادت کے لئے جاتے تھے اور اس کی صحت یابی کی دعا فرماتے تھے(١)
ایک مرتبہ رسول اسلام ۖاپنے اصحاب کے ساتھ سفر کر رہے تھے، راستے میں کھانے کا وقت آگیا، حضور ۖ نے قافلہ کو روکا، تمام لوگوں کے ذمہ ایک ایک کام کردیا اور خود سوکھی لکڑیاں جمع کرنے لگے، اصحاب نے بہت روکنا چاہا لیکن حضور ۖ نے قبول نہیں کیا۔
دوسری جگہ آپ ۖ ناقہ سے اترے اور اسے باندھنے کے لئے ایک گوشہ کی جانب چلے، اصحاب آگے بڑھے تاکہ ناقہ کی لگام اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور باندھ دیں لیکن حضور ۖ نے قبول نہیں کیا اور فرمایا ''جہاں تک ہو سکے، اپنا کام خود انجام دو(٢)

١٠۔ اعزاء و اقارب کے ساتھ اخلاق
آپ ۖ خود فرماتے ہیں :صلوا ارحامکم ولو بالسلام۔اپنے عزیزوں کے ساتھ صلۂ رحم کرو چاہے وہ سلام کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو ،یعنی اپنے رشتہ داروں سے کبھی بھی قطع تعلق نہ کرنا چونکہ تمھاری گردنوں پر ان کے کچھ حقوق ہیں جن میں سے سب سے اہم حق یہ ہے کہ ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئو۔
……………………………………
(١)مکارم الاخلاق ص:١٩
(٢)سیرۂ پیامبر اکرم ۖ:ص٢٧
١١۔ خادموں اور غلاموں کے ساتھہ اخلاق
آپ ۖ کو یہ منظور نہیں تھا کہ گھر میں غلام موجود ہے تو تمام کام وہی انجام دے بلکہ آپ ۖ غلام کی بھی مد د فرماتے تھے ،غلام کے ساتھ چکی چلاتے تھے ،اور اگر وہ بہت زیادہ خستہ ہوجا تا تھا تو اس سے کہتے تھے کہ تم آرام کرو یہ کام میںانجام دوں گا (١)
انس ابن مالک کہتاہے کہ میں نو سال تک رسول اسلام ۖ کا خادم تھا ،مجھے یاد نہیں کہ رسول ۖ نے کبھی یہ کہا ہو کہ تم نے ایسا کیوں کیا ایسا کیوں نہیں کیا؟(٢)

١۲۔ حضرت ۖکا دشمنوں کے ساتھہ اخلاق
دوستوں کے ساتھ حسن اخلاق اور خوش رفتاری سے پیش آنا کوئی کمال کی بات نہیں ہے بلکہ کمال تو یہ ہے کہ دشمنوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں ۔
حضور ۖ کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ جس طرح دوستوں کے ساتھ نیک برتائو سے پیش آتے تھے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ بھی اچھے اخلاق سے پیش آتے تھے چنانچہ واقعہ مشہور ہے کہ آپ ۖکے گذرنے کا جو راستہ تھا اس راستہ میں ایک ضعیفہ رہتی تھی اور وہ اپنے گھر کا سارا کوڑا کرکٹ جمع کرکے رکھتی تھی تاکہ حضور ۖ کے اوپر پھینکے یہاں تک کہ حضور کا گذر ہوتا تھا اور وہ گھرکی ساری غلاظتیں آپ ۖکے اوپر پھینک دیتی تھی لیکن آپ ۖ اس سے کچھ بھی نہیں کہتے تھے بلکہ اسطرح خاموشی سے گذرجاتے تھے جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں ۔
یا رسول اللہ ۖگستاخی معاف!آپ کے حسن اخلاق کا تقاضہ بجا ہے لیکن راستہ تبدیل کرنے میں تو حسن اخلاق حائل نہیں ہے کم سے کم راستہ بدل دیجئے تا کہ غلاظتوں سے محفوظ رہ سکیں ؟
رسول اسلام ۖ جواب دیں گے کہ ذرادل کی آنکھوںسے دیکھو .......یہ ضعیفہ میرے اوپر غلاظتیں نہیں پھینک رہی ہے بلکہ میں اپنے اخلاق کے ذریعہ اس کے دل سے کفرو نفاق اور شرک کی غلاظتیں نکال کر باہر پھینک رہا ہوں ۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا .............ایک روز رسول ۖکا گذر ہواتو بڑھیا نے کوڑا نہیں پھینکا ،آپ ۖ نے ہمسایوں سے دریافت کیا کہ بڑھیا کہاں ہے ؟جواب ملا کہ وہ مریض ہے (بستر علالت پر پڑی ہوئی ہے )
……………………………………
(١)بحار الانوار:ج١٦، ص٢٢٧
(٢)مکارم الاخلاق :ص١٦
رسول اسلام ۖ اس کے گھر پہونچے بڑھیانے دروازہ پر نگاہ کی تو رسول ۖنظر آئے بڑھیا نے کہا : واہ محمد ۖاچھاموقع تلاش کیا ہے انتقام کا ،بدلہ لینا تھا تو اسی وقت لیتے جب میں صحت مند تھی ،اب تو میںاپنا دفاع بھی نہیں کرسکتی۔
رسول اسلام ۖنے فرمایا :۔میں تجھ سے بدلہ لینے نہیں آیا ہوں بلکہ تیری عیادت کے لئے آیا ہوں ۔
بس..........قارئین کرام!یہی وہ وقت تھا کہ اس کے دل کی تمام تاریکیاں نور سے تبدیل ہو گئیں ،ایک مرتبہ کہا محمد ۖ! مجھے کلمہ پڑھا دیجئے ،بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں ۔
یہ تھا رسول اسلام ۖ کا اخلاق دشمنوں کے ساتھ،اگر رسول اسلا م ۖ اس اخلاق سے پیش نہ آتے تو یہ کافرہ کبھی بھی مسلمان نہ ہوتی اور حالت کفر ہی میں دنیا سے چلی جاتی ،بے شک آج بھی ایسے ہی اخلاق کی ضرورت ہے چونکہ بہت سے افراد ایسے ہیں کہ جنہوں نے روشنی کا وجود ہی نہیں دیکھا اگر ذرا سا بھی نور مل جائے تو راہ راست پر آسکتے ہیں ،لیکن شرط یہ ہے کہ ہمارا اخلاق ،اخلاق نبوی ہو۔

١٣۔ سرکار رسالت ۖ کا کفار کے ساتھہ اخلاق
خدا وند عالم نے رسول اسلام ۖ کو حکم دیاکہ(وان احد من المشرکین استجارک فاجرہ حتیٰ یسمع کلام اللہ ثم ابلغلہ مامنہ ذٰلک بأنھم قوم لا یعلمون)(١)
اگر ایک مشرک وکافر تم سے پناہ کا طلبگار ہو تو اسے پناہ دو تاکہ وہ کلام خدا وندی کوسن سکے اور پھر اسے پر امن مقام پر پہونچادو ، چونکہ یہ لوگ نا واقف ہیں ، شاید قرآنی آیات سننے کے بعد اور تمہاری محبت ومہربانی کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہدایت پا جائیں۔
جی ہاں قارئین کرام! دین اسلام محبت وعطوفت اور مہربانی و آزادی کا دین ہے نہ کہ زوروزبر دستی کا، یہاں تک کہ جنگ کی شرطوں میں بھی کفار کو تحقیق کا موقع دیا جاتا ہے(٢)
……………………………………
(١)سورۂ توبہ/٦
(٢)سیرۂ پیامبر اکرم ۖ:ص٧٦
١۴۔ حضرت ۖ کی سیرت ،اسیروں کے ساتھہ
خدا وند عالم کی جانب سے حضرت ۖ کو یہ حکم ہوا تھا کہ آپ ۖ بذات خود، اسیروں سے گفتگو کریںاور انھیں راہ ہدایت کی طرف دعوت دیں (یا ایھا النبی قل لمن فی ایدیکم من الاساریٰ)(١)
اتنی بڑی شخصیت کا اسیروں سے بلا واسطہ(ڈائرکٹ Direct)گفتگو کرنا ، اسیروں کی خاطر رحمت وعطوفت اور مہربانی نہیں تو اور کیا ہے؟
رسول ۖ کی بات چھوڑیئے، آپ ۖ کے گھرانے کے بچے بچے میں یہی جذبہ نظر آتا ہے بلکہ آپ ۖ کے گھر کی کنیز ''فضہ'' بھی اپنے سامنے سے روٹی اٹھاکر مسکین ویتیم واسیر کو دیدیتی ہے اور جبرئیل امین آیت لیکر نازل ہوتے ہیں (و یطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکیناویتیماواسیرا)(٢)
یعنی یہ وہ گھرانہ ہے کہ خدا وند عالم کی محبت میں مسکین ویتیم واسیر کو کھانا کھلاتاہے ، اس گھرانے کے علاوہ کون ایسا سخی ہے کہ پورے دن روزے سے رہ کر اپنا افطار اٹھاکر فقیر کو دیدے اور پانی سے افطار کرکے سوجائے؟ وہ بھی ایک دن نہیں بلکہ مسلسل تین دن تک، یہی وجہ ہے کہ مشہور عالم ''حاتم طائی کی سخاوت'' ان ہستیوں کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے ہوئے سر تسلیم خم کرتی نظر آتی ہے۔
حضرت علی ـ ، ضربت کے بعد قاتل کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس کو اسیر کر لولیکن اس کے کھانے پینے کا خیال رکھنا اور اس کے ساتھ خوش رفتاری سے پیش آنا(٣)
جب ایسی محبت و مہربانی نظر آتی ہے تو عقل انسانی انگشت بدنداں نظر آتی ہے کہ جو آپ ـ کا قاتل ہے اس کو جام شیر پلاتے ہیں اوراپنے بیٹوںسے فرماتے ہیں کہ اس کے ساتھ اچھا برتائو کرنا۔
……………………………………
(١)سورۂ انفال/٧٠
(٢)سورۂ انسان''سورۂ دہر''/٨
(٣)میزان الحکمة
١٥۔ اجنبی و مسافراور عام انسان کے ساتھہ اخلاق
اگر کوئی مسافر ہے تو وہ اجنبی ضرور ہے لیکن انسان تو ہے، انسانیت کے ناطہ ہمارا فریضہ ہے کہ وہ اگر بھوکا ہے تو کھانا کھلائیں،اگر وہ پیاسا ہے تو پانی پلائیں یا کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو اسے بھی پورا کریں تاکہ اس کے دل پر ہمارے اخلاق کا سکہ بیٹھ جائے ۔
رسول اسلا م ۖ کا عام لوگوں کے ساتھ یہ اخلاق تھا کہ اگر کسی بزم میں جاتے تھے تو کسی کویہ موقع نہیں دیتے تھے کہ وہ آ پ ۖکی تعظیم کے لئے کھڑا ہو ،کسی کی طرف پیر پھیلاکر نہیں بیٹھتے تھے ،ہمیشہ سلام میں سبقت کیا کرتے تھے ،چرب زبانی کے مخالف تھے یعنی آپ ۖ ضرورت کے مطابق زبان کھولتے تھے ،فضول باتوں سے پر ہیز فرماتے تھے،کبھی بھی آپ ۖ کو کھلکھلا کر ہنستے نہیں دیکھا گیا،زمین پر بیٹھتے تھے اور غلاموں کی طرح زمین پر بیٹھ کر ہی غذا تناول فرماتے تھے(١)
آپ ۖ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے ،دوسروں کے ساتھ خندہ روئی سے پیش آتے تھے اوریہ پسند فرماتے تھے کہ دوسرے لوگ بھی مسکراتے رہیں(٢)
……………………………………
(١)بحارالانوار:ج١٦، ص٢٢٨ ۔مکارم الاخلاق :ص١٧
(٢)المحجة البیضاء :ج٤، ص١٣٤